وزیراعظم کا دفتر

نئی دلّی کے بھارت منڈپم میں  2550 ویں بھگوان مہاویر نروان مہوتسو کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 21 APR 2024 12:52PM by PIB Delhi

جے جنیندر، جے جنیندر، جے جنیندر، راشٹرسنت پرمپراچاریہ شری پرگیساگر جی مُنی راج، اپادھیائے پوجیہ شری رویندرمُنی جی مہاراج صاحب، سادھوی شری سلکشناشری جی مہاراج صاحب، سادھوی شری اَنیما شری جی مہاراج صاحب، سرکار میں میرے ساتھی ارجن رام میگھوال جی،  شریمتی میناکشی لیکھی جی،  یہاں موجود سبھی پوجیہ سنت گن، بھائیوں اور بہنوں!

بھارت منڈپم کی یہ عظیم الشان عمارت آج بھگوان مہاویر کے 2550 ویں  نروان مہوتسو کے آغاز  کی گواہی دے رہی ہے۔ ابھی ہم نے بھگوان مہاویر کے جیون پر وِدیارتھی متروں کے ذریعے تیار کردہ پیشکش  دیکھی! یووا ساتھیوں نے ’ورتمان میں وردھمان ‘ ثقافتی پروگرام کی پیشکش بھی   ہمارے سامنے پیش کی۔ ہمارے ابدی اقدار کے تئیں ، بھگوان مہاویر کے  تئیں یووا پیڑھی کی یہ  کشش اور  سمرپن، یہ  بھروسہ  پیدا کرتا ہے کہ  ملک صحیح  سمت  میں جا رہا ہے۔ اس  تاریخی موقع پر مجھے خصوصی ڈاک ٹکٹ اور سکے ریلیز کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا  ہے۔  اس تقریب کا انعقاد  ، خاص طور سے ہمارے جین سنتوں اور سادھویوں کے مارگ درشن اور آشیرواد سے   ممکن ہو سکا ہے۔ اور اس لئے، میں آپ سبھی کے چرنوں میں پرنام کرتا ہوں۔ میں  سبھی  ہموطنوں کو مہاویر جینتی کے اس  مبارک موقع پر اپنی  نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں۔ آپ سب تو جانتے ہیں، چناؤ کی اس بھاگ دوڑ کے بیچ، اس طرح کے  نیک کام میں آنا من کو بہت  سکون بخشتا  ہے۔ پوجیہ سنتگن، آج اس موقع پر  ، مجھے مہان مارگدرشک سمادھست آچاریہ شری 108 ودیاساگر جی مہاراج کو یاد کرنا فطری ہے۔ پچھلے ہی  سال چھتیس گڑھ کے چندراگری مندر میں مجھے ان کا ساندھیہ ملا تھا۔ ان کا بھوتک شریر بھلے ہی ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن ان کے آشیرواد ضرور ہمارے ساتھ ہیں۔

ساتھیو،

بھگوان مہاویر کا یہ 2550 واں  نروان مہوتسو ہزاروں برسوں کا ایک  نادر موقع ہے۔ ایسے  مواقع ،  قدرتی طور پر ،  بہت سے خصوصی اتفاقوں  کو بھی  شامل کرتے ہیں۔ یہ وہ  وقت ہے  ، جب بھارت امرت کال کے شروعاتی دور میں ہے۔  ملک آزادی کی صدی  کو سنہری صدی بنانے کے لیے  کوشاں ہے۔ اس سال ہمارے  آئین کے بھی  75  سال  مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ اسی  وقت  ملک میں ایک بڑا  جمہوری میلہ بھی چل رہا ہے۔  ملک کا بھروسہ ہے  ، یہیں سے مستقبل کا نیا سفر شروع ہوگا۔ ان  سبھی اتفاق کے  درمیان ، آج ہم یہاں ایک ساتھ  موجود ہیں اور آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ایک ساتھ موجود ہونے سے میرا کیا مطلب ہے؟ آپ لوگوں سے میرا تعلق بہت پرانا ہے۔ ہر فرقے کی اپنی ایک دنیا ہے۔

بھائیو  اور بہنو،

ملک کے لیے امرت کال کا  خیال ، یہ  صرف ایک بڑا سنکلپ ہی ہے ایسا نہیں ہے۔ یہ بھارت کا  وہ  روحانی الہام ہے ،  جو ہمیں  لا فانی اور ابدیت کو جینا سکھاتا ہے۔ ہم ڈھائی ہزار  برس  بعد بھی آج بھگوان مہاویر کا نروان  دِوس منا رہے ہیں۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ، آگے بھی کئی ہزار  برس  بعد بھی یہ  ملک بھگوان مہاویر سے جڑے ایسے اتسو مناتا رہے گا۔ صدیوں اور صدیوں تک سوچنے کی یہ صلاحیت… یہ بصیرت اور دور رس سوچ…  اسی لئے ہی، بھارت نہ  صرف  دنیا کی سب سے  قدیم  ترین زندہ تہذیب ہے،  بلکہ انسانیت کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی ہے ۔ یہ بھارت ہی ہے  ، جو  ’  خود  ‘  کے لیے نہیں،  ’ سب ‘ کے لیے سوچتا ہے۔ یہ بھارت ہی ہے  ، جو  ’ خود ‘  کا نہیں،  ’ سب ‘  کا احساس  کرتا ہے۔ یہ  صرف بھارت ہی ہے، جو  ’ غرور ‘  نہیں  ، بلکہ ’ انا ‘   کی سوچتا ہے۔ یہ بھارت ہی ہے  ، جو    ’ محدودیت ‘  نہیں،  بلکہ ’ لا محدودیت ‘ میں  بھروسہ کرتا ہے۔ یہ بھارت ہی ہے، جو نیاتی کی بات کرتا ہے، نیتی کی بھی بات کرتا ہے۔ یہ بھارت ہی ہے جو پنڈ میں برہمنڈ کی بات کرتا ہے، وشو میں برہما کی بات کرتا ہے، جیو میں شیو  کی بات کرتا ہے۔

ساتھیو،

ہر دور میں ضرورت کے مطابق نئے خیالات آتے ہیں۔ لیکن جب خیالات میں جمود آجاتا ہے تو خیالات  ’واد ‘ میں بدل جاتے ہیں۔ اور  ’واد ‘ وِواد میں بدل جاتے ہیں۔ لیکن جب وِواد سے امرت نکلتا ہے اور امرت کے سہارے چلتے ہیں تب ہم  نئی تخلیق کی طرف آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن اگر وواد میں سے وِش نکلتا ہے   ، تب ہم ہر پل وناش کے بیج بوتے ہیں۔ 75 سال تک آزادی کے بعد ہم نے  واد کیا، وواد کیا، سنواد کیا اور اس سارے منتھن سے جو نکلا، اب 75 سال ہو گئے، اب ہم سب کی  ذمہ داری ہے کہ ہم اس سے نکلے ہوئے امرت کو لیکر کے چلیں، وش سے ہم مکتی لے لیں اور اس امرت کال کو جی کر کے دیکھیں۔  عالمی تنازعات کے درمیان   ممالک جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ایسے میں، ہمارے تیرتھنکروں کی  تعلیمات اور بھی   اہم ہو گئیں ہیں۔ انہوں نے  انسانیت کو  واد وواد سے بچانے کے لیے انیکانتواد اور سیات واد جیسے  فلسفے دئیے ہیں۔ انیکانتواد یعنی،  ایک  موضوع کے  مختلف پہلوؤں کو سمجھنا۔ دوسروں کے  نظریات کو بھی دیکھنے اور  قبول کرنے کی   صلاحیت رکھتا ہو ۔  عقیدے کی ایسی آزاد تشریح  ، یہی تو بھارت کی  خصوصیت ہے اور یہی بھارت کا انسانیت کو  پیغام ہے۔

ساتھیو،

 

آج سنگھرشوں میں پھنسی دنیا  ، بھارت سے  امن کی توقع کر رہی ہے۔ نئے بھارت  کے ، اس نئے کردار کا سہرا ہماری بڑھتی ہوئی طاقت اور خارجہ پالیسی کو دیا جا رہا ہے۔  لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، اس میں ہماری  ثقافتی تصویر کا بہت بڑا  حصہ ہے۔ آج بھارت اس کردار میں آیا ہے، کیونکہ آج ہم سچائی اور عدم تشدد جیسے  عہد کو  عالمی پلیٹ فارموں پر پورے  اعتماد سے رکھتے ہیں۔ ہم دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ   عالمی بحرانوں اور  تنازعات کا  حل بھارت کی  قدیم ثقافت میں ہے، بھارت کی  قدیم روایت میں مضمر ہے۔ اسی لئے، آج  تنازعات میں بھی بنٹی دنیا کے لیے، بھارت  ’وشو بندھو ‘  کی شکل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ’کلائمیٹ چینج ‘  ایسے  بحرانوں کے  حل کے لیے آج بھارت نے  ’ مشن لائف ‘   جیسے گلوبل موومینٹ کی  بنیاد رکھی ہے۔ آج بھارت نے  دنیا کو ایک زمین ، ایک خاندان ، ایک مستقبل کا ویژن دیا ہے ۔  صاف توانائی اور پائیدار ترقی کے لیے ، ہم نے وِن ورلڈ ، وِن سَن ، وِن گرڈ  کا روڈمیپ دیا ہے۔ آج ہم بین الاقوامی سولر الائنس جیسے مستقبل کے عالمی اقدامات کی قیادت کر رہے ہیں۔ ہماری کوششوں نے نہ صرف دنیا کو امید دی ہے بلکہ  بھارت کی قدیم ثقافت کے بارے میں دنیا کا نقطہ نظر بھی بدل دیا ہے۔

ساتھیو،

جین دھرم کے معنی ہی ہے، جَن کا راستہ ، یعنی، جیتنے والے کا  راستہ ۔ ہم کبھی دوسرے  ممالک کو جیتنے کے لیے  حملہ کرنے نہیں آئے۔ ہم نے  خود میں سدھار کرکے اپنی کمیوں پر  فتح حاصل کی ہے۔ اسی لئے، مشکل سے مشکل دور آئے، لیکن ہر دور میں کوئی نہ کوئی رشی، منیشی ہمارے مارگدرشن کے لیے پرکٹ ہوا۔ بڑی بڑی   تہذیبیں  تباہ ہو گئیں، لیکن بھارت نے اپنا راستہ تلاش ہی لیا۔

بھائیو اور بہنو،

آپ سب کو یاد ہوگا،  صرف 10 سال پہلے ہی ہمارے  ملک میں کیسا ماحول تھا۔ چاروں طرف نراشا، ہتاشا! یہ مان لیا گیا تھا کہ اس  ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا! بھارت میں یہ  نراشا، بھارتیہ  ثقافت کے لیے بھی اتنی ہی پریشان کرنے والی بات تھی۔ اسی لئے، 2014 ء کے بعد ہم نے بھوتک وکاس کے ساتھ ہی وراثت پر  فخر کا سنکلپ بھی لیا۔ آج ہم بھگوان مہاویر کا 2550 واں  نروان مہوتسو منا رہے ہیں۔ ان 10  سالوں میں  ، ہم نے ایسے کتنے ہی بڑے  مواقع کو سیلبریٹ کیا ہے۔ ہمارے جین آچاریوں نے مجھے  ، جب بھی  مدعو کیا ، میری کوشش رہی ہے کہ ان  پروگراموں میں بھی ضرور شامل رہوں۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے میں  ’  مچھامی دکڑم ‘  کہہ کر اپنی   اقدار  کو یاد کرتا ہوں۔ اسی طرح، ہم نے اپنے ورثے کو سنوارنا شروع کیا۔ ہم نے یوگ اور آیوروید کی بات کی۔ آج  ملک کی نئی پیڑھی کو یہ  بھروسہ ہو گیا ہے کہ ہماری پہچان ہماری عزت نفس ہے۔ جب قوم میں عزت نفس کا یہ احساس بیدار ہوتا ہے تو اسے روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔  بھارت کی ترقی اس کا ثبوت ہے۔

ساتھیو،

بھارت کے لیے  جدیدیت ، اس کا جسم ہے ، روحانیت اس کی روح ہے ۔  اگر جدیدیت سے روحانیت کو نکال دیا جائے تو      بد امنی پیدا ہوتی ہے۔ اور اخلاق میں قربانی نہ ہو تو بڑے سے بڑا خیال بھی بے ضابطگی بن جاتا ہے۔ یہ وہ ویژن ہے  ، جو بھگوان مہاویر نے ہمیں صدیوں پہلے دیا تھا۔ معاشرے میں  ، ان اقدار کو زندہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بھائیو اور بہنو،

دہائیوں تک ہمارے  ملک نے بھی کرپشن کے المیے کو سہا   ہے۔ ہم نے غریبی کا گہرا  دُکھ دیکھا  ہے۔ آج  ملک جب اس مقام پر پہنچا ہے کہ ہم نے 25 کروڑ  ہموطنوں کو غریبی کے دلدل سے نکالا ہے، آپ کو یاد ہوگا، میں نے لال قلعے سے کہا تھا اور ابھی پوجیہ مہاراج جی نے بھی کہا - یہی  وقت ہے،  صحیح وقت ہے۔ یہی  صحیح وقت ہے کہ ہم ہمارے معاشرے میں عدم تشدد کے نظریات کو مضبوط  کریں۔ میں  ، آپ سبھی سنتوں کو بھروسہ  دلاتا ہوں، ملک اس  سمت میں ہر  ممکن کوشش جاری رکھے گا۔ مجھے یہ  بھروسہ بھی ہے کہ بھارت کے  مستقبل کی تعمیر  کے اس سفر میں  ، آپ سبھی سنتوں کا  تعاون  ملک کے  عزم کو مضبوط بنائے گا، بھارت کو  ترقی یافتہ بنائے گا۔

بھگوان مہاویر کے آشیرواد  140 کروڑ  ہموطنوں کا اور  انسانیت کا  کلیان کریں گے ...  اور میں سبھی  قابل احترام سنتوں کو پرنام کرتا ہوں۔ ان کی وانی میں ایک  طرح سے موتی  نمودار ہو رہے تھے۔ چاہے خواتین کو بااختیار بنانے کا معاملہ ہو، ترقی کا سفر ہو، عظیم روایت کا معاملہ ہو، تمام قابل احترام سنتوں نے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے  موجودہ نظام میں کیا ہو رہا ہے، کیا ہونا چاہیئے، بہت ہی کم  وقت میں بہت ہی  حیرت انگیز   چیزیں پیش کیں  ۔ میں  ، اس کے لیے ان کا  تہہ دل سے  شکریہ  ادا کرتا ہوں  اور میں ان کے ایک ایک  لفظ کو آشیرواد مانتا ہوں۔وہ میری بھی بہت بڑی پونجی ہے اور  ملک کے لیے ان کا ایک ایک لفظ ترغیب ہے۔ یہ میرا  یقین ہے۔ اگر شاید یہ چناؤ کا ماحول نہ ہوتا تو شاید میں بھی کچھ اور مزاج میں ہوتا۔ لیکن میں نے ان چیزوں کو دور رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ میں نہیں لایا لیکن آپ ضرور لائے ہیں۔  لیکن ان سب کے لیے گرمی کتنی ہی کیوں نہ ہو، جب گھر  سے نکلنے کی نوبت آئے تبھی انتظار مت کرنا کہ گرمی کم ہوگی تب شام کو جاؤں گا۔ صبح صبح ہی جائیے اور کمل کا تو ہمارے سبھی سنتوں، مہنتوں، بھگونتوں کے ساتھ سیدھا سیدھا جڑاؤ ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا آپ سب کے بیچ آنے کے لیے اور اسی  احساس کے ساتھ، میں بھگوان مہاویر کے شری چرنوں میں پن پرنام کرتا ہوں۔ میں  ، آپ سب سنتوں کے چرنوں میں پرنام کرتا ہوں۔ بہت بہت  شکریہ!

 

………………………

ش ح  ۔ و ا  ۔ ع ا

U.No. 6610



(Release ID: 2018383) Visitor Counter : 42