وزیراعظم کا دفتر
حیدر آباد میں بھکتی سنت شری رامانجا چاریہ کی یاد میں ’مجسمہ مساوات‘ کی رونمائی کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
05 FEB 2022 10:17PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 05 فروری 2022:
اوم اسمد گروبھیو نما:!
اوم شریمتے رامانجائے نما:!
پروگرام میں ہمارے ساتھ موجود تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تملسائی سوندر راجن جی، پوجیہ شری جیئر سوامی جی، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق جی کرشن ریڈی جی، محترم جناب ڈاکٹر رامیشور راؤ جی، تمام قابل احترام سنتوں، خواتین و حضرات،
آج ماں سرسوتی کی عبادت کے مقدس تیوہار، بسنت پنچمی کا مبارک دن ہے۔ ماں شاردا کے خصوصی کرپا اوتار شری رامانجاچاریہ جی کا مجسمہ اس موقع پر قائم کیا جا رہا ہے۔ میں آپ سبھی کو بسنت پنچمی کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ماں سرسوتی سے یہ پرارتھنا کرتا ہوں کہ جگدگورو رامانجاچاریہ جی کا علم دنیا کی رہنمائی کرے۔
ساتھیو،
ہمارے یہاں کہا گیا ہے، ’دھیان مولم گورو مورتی‘! یعنی ہمارے گورو کا مجسمہ ہی ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ کیونکہ، گورو کے توسط سے ہی ہمارے لیے علم ظاہر ہوتا ہے۔ جو ناقابل فہم ہے، ہمیں اس کی سمجھ حاصل ہوتی ہے۔ جو ظاہر نہیں ہے، اسے ظاہر کرنے کی یہ ترغیب، لطیف کو بھی مجسم کردکھانے کا یہ عزم، یہ بھارت کی روایت رہی ہے۔ہم نے ہمیشہ ان اقدار اور خیالات کو شکل دی ہے جو صدیوں تک انسانیت کی رہنمائی کر سکیں۔ آج ایک مرتبہ پھر، جگد گورو شری رامانجاچاریہ جی کے اس عظیم الشان مجسمہ کے ذریعہ بھارت انسانی توانائی اور ترغیبات کو مجسم شکل دے رہا ہے۔ رامانجاچاریہ جی کا یہ مجسمہ ان کے علم، مادی اشیاء سے لاتعلقی اور نظریات کی علامت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مجسمہ نہ صرف آنے والی نسلوں کو ترغیب فراہم کرے گا، بلکہ بھارت کی قدیم شناخت کو بھی مضبوطی فراہم کرے گا۔ میں آپ سبھی کو، تمام اہل وطن کو، اور پوری دنیا میں موجود رامانجاچاریہ جی کے تمام مندوبین کو اس مبارک موقع پر بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
ابھی میں 108 دِویہ دیشم مندروں کے درشن کرکے آرہا ہوں۔ آلوار سنتوں نے جن 108 دِویہ دیشم مندروں کا درشن پورے بھارت کا دورہ کر کے کیا تھا، کچھ ویسی ہی خوش نصیبی مجھے آج شری رامانجاچاریہ جی کے کرم سے یہیں حاصل ہوگئی۔ انسانیت کی فلاح کا جو یگیہ انہوں نے 11ویں صدی میں شروع کیا تھا، وہی عزم یہاں 12 دنوں تک مختلف رسومات میں دوہرایا جا رہا ہے۔ پوجیہ شری جیئر سوامی جی کی محبت سے آج مجھے ’وِشوک سین اِشٹی یگیہ‘ کی تکمیل میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ میں اس کے لیے جیئر سوامی جی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ ’وِشوک سین اِشٹی یگیہ‘ عزائم اور اہداف کی تکمیل کا یگیہ ہے۔ میں اس یگیہ کے عزم کو، ملک کے امرت عزائم کی تکمیل کے لیے سربسجود ہوکر وقف کرتا ہوں۔ اس یگیہ کا پھل میں اپنے 130 کروڑ اہل وطن کے خوابوں کی تکمیل کے لیے وقف کرتا ہوں۔
ساتھیو،
دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں، بیشتر فلسفوں میں کسی نظریہ کو یا تو قبول کیا گیا ہے، یا پھر اس کو مسترد کیا گیا ہے۔ لیکن بھارت ایک ایسا ملک ہے، جس کے سنتوں نے علم کو تردید اور قبولیت سے اوپر اُٹھ کر دیکھا ہے۔خود اس سے اوپر اٹھے۔ باتنی فہم سے اس تنازعہ کو دیکھا۔ ہمارے یہاں دوئی بھی ہے، غیر دوئی بھی ہے۔ اور اس دوئی اور غیر دوئی کو یکجا کرتے ہوئے شری رامانجاچاریہ جی کا مخصوص وفاق بھی باعث ترغیب ہے۔ رامانجاچاریہ جی کے علم کی ایک الگ ہی شان ہے۔ عام نظریہ سے جو خیالات متضاد لگتے ہیں، رامانجاچاریہ جی انہیں بڑی آسانی سے ایک دھاگے میں پرو دیتے ہیں۔ ان کے علم سے ، ان کی وضاحت سے عام انسان بھی جڑ جاتا ہے۔ آپ دیکھئے، اور رامانجا چاریہ کی تفاسیر میں علم کی انتہا ہے، تو دوسری جانب وہ بھکتی مارگ کے رہنما بھی ہیں۔ ایک جانب وہ مالامال سنیاس پرمپرا کے سنت بھی ہیں، اور دوسری جانب گیتا کی تفاسیر میں عمل کی اہمیت کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنی پوری زندگی عمل کے لیے وقف کرتے رہتے ہیں۔ رامانجاچاریہ جی نے سنسکرت کےصحائف کی تخلیق کی، اور تمل زبان کو بھی بھکتی مارگ میں اتنی ہی اہمیت دی۔ آج بھی رامانجا پرمپرا کے مندروں میں تھروپّاوائی کے اسباق کے بغیر شاید ہی کوئی رسم مکمل ہوتی ہے۔
ساتھیو،
آج جب دنیا میں سماجی اصلاحات کی بات ہوتی ہے، ترقی کی بات ہوتی ہے، تو مانا جاناتا ہے کہ اصلاح جڑوں سے دور جاکر ہوگی۔ لیکن، جب ہم رامانجاچاریہ جی کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جدید اور قدیم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اصلاح کے لیے اپنی جڑوں سے دور جانا پڑے۔ بلکہ یہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی اصلی جڑوں سے وابستہ ہوں، اپنی اصلی طاقت سے واقف ہوں! آج سے ایک ہزار سال پہلے تو دقیانوسی تصورات کا دباؤ، توہم پرستی کا دباؤ، تصورات کے باہر کتنا زیادہ رہا ہوگا! لیکن رامانجاچاریہ جی نے معاشرے میں اصلاح کے لیے معاشرے کو بھارت کے اصل نظریے سے واقف کرایا۔ انہوں نے دلتوں۔ پسماندہ طبقات کو گلے لگایا، اس وقت جن ذاتوں کو لے کر مختلف احساس تھا ، ان ذاتوں کو انہوں نے خصوصی عزت دی۔ یادوگری پر انہوں نے نارائن مندر بنوایا، جس میں دلتوں کو درشن پوجا کا حق دیا۔ رامانجاچاریہ جی نے بتایا کہ مذہب کہتا ہے – ’’نا جاتی: کارن لوکے گنا: کلیان ہیتوہ:‘‘ یعنی، دنیا میں ذات سے نہیں خصوصیات سے فلاح ہوتی ہے۔ رامانجاچاریہ جی کے گورو شری مہاپورن جی نے ایک مرتبہ دوسری ذات کے اپنے ایک دوست کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔ اس وقت رامانجاچاریہ جی نے لوگوں کو بھگوان شری رام کی یاد دلائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھگوان رام اپنے ہاتھوں سے جٹایو کی آخری رسومات ادا کر سکتے ہیں تو مذہب تفریق پر مبنی سوچ کی بنیاد کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا پیغام ہے۔
ساتھیو،
ہماری ثقافت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اصلاح کے لیے ہمارے سماج سے ہی لوگ نکل کر سامنے آتے ہیں۔ صدیوں سے دیکھتے آیئے، سماج میں جب بھی کچھ برائی پھیلنے لگتی ہے ، تو کوئی نہ کوئی عظیم شخصیت ہمارے ہی درمیان پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ ہزاروں برسوں کا تجربہ ہے کہ ایسے اصلاح کار کو ہمیشہ ان کے دور میں شاید قبولیت حاصل ہوئی ہو یا نہیں ، چنوتیاں رہیں ہو یا نہیں، مصیبتیں جھیلنی پڑی ہوں یا نہیں، مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو یا نہیں، تاہم اس خیال میں، اس عنصر میں طاقت رہتی تھی، ان کا یقین اتنا زبردست ہوتا تھا کہ وہ سماج کی برائیوں کے خلاف نبردآزمائی میں اپنی طاقت لگا دیتے تھے۔ لیکن جب سماج اسے سمجھ پاتا ہے تو جس کی بھی مخالفت ہوتی ہے، اس کو قبولیت بھی اتنی تیزی سے ملتی ہے۔ عزت و احترام بھی انتا ہی ملتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ برائیوں کو، بداعمالیوں کو، توہم پرستی کو عام طور پر ہمارے سماج میں قبولیت نہیں حاصل ہوتی ہے۔ جو برائی سے لڑتے ہیں، جو معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں، ہمارے یہاں انہیں ہی عزت و احترام حاصل ہوتا ہے۔
بھائیو بہنو،
آپ سب لوگ رامانجاچاریہ جی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہیں۔ وہ سماج کو صحیح سمت دینے کے لیے روحانیت کے پیغامات کا بھی استعمال کرتے تھے، اور عملی زندگی کا بھی ! ذات کے نام پر جن کے ساتھ تفریق ہوتی تھی، رامانجاچاریہ جی نے انہیں نام دیا تھا تھرو کلتھار۔ یعنی لکشمی جی کے کُل میں پیدا ہونے والا، شری کُل، یا دیوی جن! وہ غسل کرکے آتے وقت اپنے شاگرد ’دھنورداس‘ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر آتے تھے۔ ایسا کرکے رامانجاچاریہ جی چھوت چھات کی برائی کو مٹانے کا اشارہ دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بابا صاحب امبیڈکر جیسے مساوات کے جدید سورما بھی رامانجاچاریہ جی کی خوب ستائش کرتے تھے، اور سماج سے بھی کہتے تھے کہ اگر سیکھنا ہے تو رامانجاچاریہ جی کی تعلیمات سے سیکھو۔ اور اسی لیے، آج رامانجا چاریہ جی کا شاندار مجسمہ ’’مجسمہ مساوات‘‘ کے طور پر مساوات کا پیغام دے رہا ہے۔ اسی پیغام کو لے کر آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وِشواس، اور سب کا پریاس‘ کے اصول کے ساتھ اپنے نئے مستقبل کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ ترقی ہو، سب کی ہو، بلاتفریق ہو۔ سماجی انصاف، سب کو حاصل ہو، بلاتفریق حاصل ہو۔ جنہیں صدیوں تک ظلم کا شکار بنایا گیا، وہ پورے وقار کے ساتھ ترقی کے شراکت دار بنیں، اس کے لیے آج کا بدلتا ہوا بھارت، متحد ہوکر کوشش کر رہا ہے۔ آج حکومت جو اسکیمیں چلا رہی ہے، ان کا بہت بڑا فائدہ ہمارے دلت۔ متوسط طبقے کے بھائی بہنوں کو حاصل ہو رہا ہے۔ خواہ پختہ مکان فراہم کرانا ہو یا پھر اُجووَلا کا مفت کنکشن، گیس کنکشن، خواہ 5 لاکھ روپئے تک مفت علاج کی سہولت ہو یا پھر بجلی کا مفت کنکشن، خواہ جن دھن بینک کھاتے کھولنا ہو یا پھر سووَچھ بھارت ابھیان کے تحت کروڑوں بیت الخلاؤں کی تعمیر ہو، ایسی اسکیموں نے دلت۔ متوسط طبقے، غریب، مظلومین، محرمین ، سبھی کو فائدہ بہم پہنچایا ہے، بلا تفریق ، سب کو بااختیار بنایا ہے۔
ساتھیو،
رامانجاچاریہ جی کہتے تھے – ’’اوئیر گلکّول بیڈم اِلّے‘‘۔ یعنی، سبھی ذی روح برابر ہیں۔ وہ ’برہم‘ اور ’جیو‘ کی یکجہتی کی بات کرکے نہیں رکتے تھے، وہ ویدانت کے اس اصول کو خود بھی جیتے تھے۔ ان کے لیے خود میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی فلاح سے زیادہ ذی روح کی فلاح کی فکر تھی۔ ان کے گورو نے کتنی ہی کوششوں کے بعد جب انہیں علم دیا، تو اسے پوشیدہ رکھنے کے لیے کہا۔ کیونکہ، وہ گورو منتر ان کی فلاح کا منتر تھا۔ انہوں نے عبادت کی تھی، تپسیا کی تھی، زندگی وقف کی تھی اور اس لیے یہ گورو منتر حاصل ہوا تھا۔ لیکن رامانجا چاریہ جی کی سوچ الگ تھی۔ رامانجاچاریہ جی نے کہا – پتشیہ ایک ایواہ، نرکے گورو پاتکات۔ سروے گچھنتو بھوتاں، کرپیا پرم پدم۔ یعنی، میں تنہا دوزخ میں جاؤں تو بھی کوئی بات نہیں، تاہم باقی سب کی فلاح ہونی چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے مندر کے اوپر چڑھ کر ہر مرد اور عورت کو وہ منتر بتایا جو ان کے گورو نے انہیں ان کی فلاح کے لیے دیا تھا۔ مساوات کا ایک امرت رامانجاچاریہ جی جیسی کوئی عظیم شخصیت ہی نکال سکتی تھی، جس نے وید ویدانت کو حقیقی طور پر دیکھا ہو۔
ساتھیو،
رامانجاچاریہ جی بھارت کے اتحاد و یکجہتی کی ایک روشن تحریک ہیں۔ ان کی پیدائش جنوب میں ہوئی، لیکن ان کے اثرات جنوب سے شمال اور مشرق سے مغرب تک پورے بھارت پر ہیں۔ انّماچاریہ جی نے تیلگو میں ان کی ستائش کی ہے، کنک داس جی نے کنڑ زبان میں رامانجاچاریہ جی کی خوب ستائش کی ہے، گجرات اور راجستھان میں اگر آپ جائیں گے، تو وہاں بھی متعدد سنتوں کی نصیحتوں میں رامانجاچاریہ کے خیالات کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ اور، شمال میں رامانندیہ پرمپرا کے گوسوامی تلسی داس جی سے لے کر کبیر داس تک، ہر عظیم سنت کے لیے رامانجاچاریہ عظیم گورو ہیں۔ ایک سنت کیسے اپنی روحانی توانائی سے پورے بھارت کویکجہتی کے دھاگے میں پرو دیتا ہے، رامانجاچاریہ جی کی زندگی میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں۔ اسی روحانی شعور نے غلامی کے سینکڑوں برسوں کے دور میں، بھارت کے شعور کو بیدار رکھا تھا۔
ساتھیو،
یہ بھی ایک حسین اتفاق ہے کہ شری رامانجاچاریہ جی پر یہ تقریب اسی وقت منعقد ہو رہی ہے، جب ملک اپنی آزادی کے 75 برس مکمل کر رہا ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم جدوجہدآزادی کے 75 برسوں کو یاد کر رہے ہیں۔ آج ملک جدوجہد آزادی کے اپنے سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ اپنی تاریخ سے ہم اپنے مستقبل کے لیے ترغیب حاصل کر رہے ہیں، توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ اسی لیے، امرت مہوتسو کا یہ جشن آزادی کی لڑائی کے ساتھ ساتھ ہزاروں برسوں کی بھارت کی وراثت کو بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ ہم جانتے ہیں، بھارت کی جدوجہد آزادی صرف اپنی حکومت اور اپنے حقوق کی لڑائی نہیں تھی۔ اس لڑائی میں ایک جانب ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ تھی، تو دوسری جانب ’جیو اور جینے دو‘ کا نظریہ تھا۔ اس میں ایک جانب، نسلی برتری اور مادہ پرستی کا جنون تھا تو دوسری جانب انسانیت اور روحانیت میں یقین تھا۔ اور اس جنگ میں بھارت کو فتح حاصل ہوئی، بھارت کی روایت کی جیت ہوئی۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں مساوات، انسانیت اور روحانیت کی وہ توانائی شامل تھی، جو بھارت کو رامانجاچاریہ جیسے سنتوں سے حاصل ہوئی تھی۔
کیا ہم گاندھی جی کے بغیر اپنی جدوجہد آزادی کا تصور کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہم عدم تشدد اور حق جیسے نظریات کے بغیر گاندھی جی کا تصور کر سکتے ہیں؟ آج بھی گاندھی جی کا نام آتے ہی ’ویشنو جن تو تینے کہیئے‘، یہ موسیقی ہمارے من میں بجنے لگتی ہے۔ اس کے تخلیق کار نرسی مہتا جی، رامانجاچاریہ جی کی بھکتی پرمپرا کے ہی عظیم سنت تھے۔اس لیے، ہماری آزادی کی لڑائی کو جس طرح ہمارا روحانی شعور توانائی دے رہا تھا، وہی توانائی آزادی کے 75 برس میں ہمارے امرت عزائم کو بھی حاصل ہونی چاہئے۔ اور آج جب میں بھاگیہ نگر ، حیدرآباد میں ہوں، تو سردار پٹیل جی کا خصوصی طور پر ذکر ضرور کروں گا۔ ویسے کرشن ریڈی جی نے اپنے بیان میں تفصیل سے اس کے بارے میں بات کی تھی۔ کون ایسا حیدرآبادی ہوگا جو سردار پٹیل کے باطنی فہم، سردار پٹیل کی طاقت اور حیدرآباد کی شان کے لیے سردار صاحب کی ڈپلومیسی سے واقف نہ ہو؟ آج ملک میں ایک جانب سردار صاحب کا ’مجسمہ اتحاد‘ یکجہتی کے عزم کو دوہرا رہا ہے، تو رامانجاچاریہ جی کا ’مجسمہ مساوات‘ برابری کا پیغام دے رہا ہے۔ یہی ایک قوم کے طور پر بھارت کی قدیم خصوصیت ہے۔ ہماری یکجہتی اقتدار یا طاقت کی بنیاد پر نہیں کھڑی ہوتی، ہماری یکجہتی مساوات اور احترام اسی اصول سے پیدا ہوتا ہے۔
اور ساتھیو،
آج جب میں تلنگانہ میں ہوں، تو اس بات کا ذکر بھی ضرور کروں گا کہ کیسے تیلگو ثقافت نے بھارت کی گوناگونیت کو مستحکم کیا ہے۔ تیلگو ثقافت کی جڑیں صدیو پر محیط ہیں۔ متعدد عظیم راجا اور رانیاں اس کے علمبردار رہے ہیں۔ سات واہن ہوں، کاکاتیا ہو یا وجے نگر سلطنت، سبھی نے تیلگو ثقافت کے پرچم کو بلند کیا ۔ عظیم شعراء نے تیلگو ثقافت کو مالامال کیا ہے۔ گزشتہ برس ہی تلنگانہ میں واقع 13ویں صدی کےکاکاتیا رودریشور- راماپّا مندر کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی سیاحت کی تنظیم نے پوچم پلّی کو بھی بھارت کے سب سے بہترین سیاحتی گاؤں کا درجہ دیا ہے۔ پوچم پلّی کی خواتین کا ہنر پوچم پلی ساڑیوں کی شکل میں عالمی پیمانے پر مشہور ہے۔ یہ وہ ثقافت ہے جس نے ہمیں ہمیشہ ہم آہنگی، بھائی چارے اور ناری شکتی کا احترام کرنا سکھایا ہے۔
تیلگو ثقافت کی اس شاندار روایت کو آج تیلگو فلم انڈسٹری بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ تیلگو سنیما کا دائرہ محض وہاں تک نہیں ہے جہاں تیلگو بولی جاتی ہے۔ اس کی وسعت پوری دنیا میں ہے۔ پردۂ سیمیں سے لے کر او ٹی ٹی پلیٹ فارموں تک اس تخلیقی صلاحیت کا ذکر ہو رہا ہے۔ بھارت کے باہر بھی خوب ستائش ہو رہی ہے۔ تیلگو بولنے والے افراد کا اپنے اور اپنی ثقافت کے تئیں یہ لگاؤ، سبھی کے لیے باعث ترغیب ہے۔
ساتھیو،
آزادی کے 75ویں برس میں، اس امرت کال میں، جناب رامانجاچاریہ جی کا یہ مجسمہ اہل وطن کو مسلسل ترغیب فراہم کرے گا۔ مجھے پورا یقین ہے، آزادی کے امرت کال میں ہم ان بداعمالیوں کو بھی پوری طرح ختم کر پائیں گے، جنہیں ختم کرنے کے لیے شری رامانجاچاریہ جی نے سماج کو بیدار کیا تھا۔ اسی احساس کے ساتھ، پوجیہ سوامی جی کا احتراماً شکریہ ادا کرتے ہوئے، اس مبارک موقع پر حصہ دار بننے کے لیے آپ نے مجھے موقع دیا ، میں آپ کا بہت ممنون ہوں! پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پربھو رامانجاچاریہ جی کے خیالات سے متاثر ہر کسی کو میں بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں! اور اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ!
***
ش ح۔اب ن ۔ م ف
U. No. 1197
(Release ID: 1795922)
Visitor Counter : 227
Read this release in:
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam