وزیراعظم کا دفتر

مشرقی ڈیڈی کیٹیڈمال  بھاڑہ راہداری کے نیو بھاؤپور –نیو خورجہ سیکشن کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 29 DEC 2020 2:03PM by PIB Delhi

نئی لّی ، 29دسمبر 2020/  اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی وزیر برائے ریل پیوش گوئل جی، پارلیمنٹ میں میرے ہمراہی حضرات، یوپی سرکار کے وزرا، پروگرام سے جڑے دوسرے تمام معزز حاضرین، بھائیو اور بہنو۔آج کا دن بھارتی ریل کے قابل فخر ماضی کو 21ویں صدی کی نئی شناخت دینے والا ہے۔ بھارت اور بھارتی ریل  کی اہمیت میں اضافہ کرنے والا ہے۔آج آزادی کے بعد کا سب سے بڑا اور جدید ریل انفراسٹرکچر منصوبے کو زمین پر اترتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں۔

ساتھیو!

آج جب خورجہ- بھاؤپور مال بھاڑہ راہداری روٹ پر پہلی مال گاڑی دوڑی تواس میں نئے بھارت کی، خودکفیل بھارت کی گونج اور شور واضح طور پر سنائی دی۔ پریاگ راج میں آپریشن کنٹرول سینٹر بھی نئے بھارت کی نئی صلاحیت کی علامت ہے۔ یہ دنیا کے بہترین اور جدید کنٹرول سینٹر میں سے ایک ہے اور یہ سن کر کسی کو بھی فخر ہوگا کہ اس میں مینجمنٹ اور ڈاٹا سے جڑی جو ٹیکنالوجی ہے، وہ بھارت میں ہی تیار کی گئی ہے۔ بھارتیوں نے ہی اس کو تیار کیا ہے۔

بھائیو اور بہنو!

بنیادی ڈھانچہ کسی بھی ملک کی صلاحیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے میں بھی روابط ملک کی نسیں ہوتی ہیں۔ کلائیاں ہوتی ہیں، جتنی بہتر یہ نسیں ہوتی ہیں، اتنا ہی صحتمند اور باصلاحیت کوئی ملک ہوتا ہے۔ آج بھارت دنیا کی بڑی اقتصادی طاقت بننے کے راستے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، تو بہترین روابط ملک کی اولیت ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ پچھلے 6 سالوں سے بھارت میں زیادہ سے زیادہ  روابط کے ہر پہلو پر توجہ مرکوز کرکے کام کیا جارہا ہے۔ ہائی وے ہو، ریلوے ہو، ایئر وے ہو، واٹر وے ہو یا پھر آئی وے۔ معیشت کی رفتار کے لیے ضروری ان پانچ پہیوں کو طاقت دی جارہی ہے، رفتار دی جارہی ہے، مشرقی ڈیڈی کیٹیڈ مال بھاڑا راہداری کے ایک بڑے سیکشن کا افتتاح بھی اسی سمت میں بہت بڑا قدم ہے۔

ساتھیو!

یہ ڈیڈی کیٹیڈ مال بھاڑہ راہداری، ان کو اگر عام بول چال کی زبان میں کہیں تو مال گاڑیوں کے لیے بنے خصوصی ٹریک ہیں، خصوصی انتظامات ہیں۔ ان کی ضرورت آخر ملک کو کیوں پڑی؟ ہمارے کھیت ہوں، صنعتیں ہوں یا پھر بازار، یہ سب مال کی ڈھلائی پر منحصر ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی فصل اگتی ہے، اس کو ملک کے الگ الگ حصوں میں پہنچانا پڑتا ہے۔ ایکسپورٹ کے لیے بندرگاہوں تک پہنچانا پڑتا ہے۔ اسی طرح صنعتوں کے لیے کہیں سے کچا مال سمندر کے راستے آتا ہے۔ صنعتوں سے بنا مال بازار تک پہنچانا ہوتا ہے، یا پھر ایکسپورٹ کے لیے اس کو پھر بندرگاہوں تک پہنچانا پڑتا ہے۔ اس کام میں سب سے بڑا ذریعہ ہمیشہ سے ریلوے رہی ہے۔ جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا، معیشت بڑھی، تو مال ڈھلائی کے اس نیٹ ورک پر بھی ایک دباؤ بڑھتا گیا۔ مشکل یہ تھی کہ ہمارے یہاں مسافر ٹرینیں اور مال گاڑیاں دونوں ایک ہی پٹری پر چلتی ہیں۔ مال گاڑی کی رفتار دھیمی ہوتی ہے۔ ایسے میں مال گاڑیوں کو راستہ دینے کے لیے مسافر ٹرینوں کو اسٹیشنوں پر روک دیا جاتا ہے۔  اس سے مسافر ٹرین بھی وقت پر نہیں پہنچ پاتی ہے اور مال گاڑی بھی لیٹ ہوجاتی ہے۔ مال گاڑی کی رفتار جب دھیمی ہوگی، جگہ جگہ روک و ٹوک ہوگی، توظاہر ہے کہ ٹرانسپورٹیشن  کی لاگت زیادہ ہوگی۔  اس کا براہ راست اثر ہماری زراعت ، کیمیکل پیداوار اور  صنعتی پیداواروں کی قیمت پر پڑتا ہے۔ مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ ملک اور غیرممالک کے بازاروں میں ہونے والے مقابلے میں ٹک نہیں پاتے ہیں، ہار جاتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو!

اس صورت حال کو بدلنے کے لیے مال بھاڑہ راہداری کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ ابتدا میں دو عدد ڈیڈی کیٹیڈ  مال بھاڑہ راہداری تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔ مشرقی  ڈیڈی کیٹیڈ  مال بھاڑہ راہداری پنجاب کے صنعتی شہر لدھیانہ کو مغربی بنگال کے دان کنی سے جوڑ رہی ہے۔ سیکڑوں کلو میٹر لمبے اس روٹ میں کوئلے کی کانیں ہیں، تھرمل پاور پلانٹ ہیں، صنعتی شہر ہیں۔ ان کے لیے فیڈر راستے بھی بنائے جارہے ہیں۔ وہیں مغربی ڈیڈی کیٹیڈ  مال بھاڑہ راہداری مہاراشٹر میں جے این پی ٹی کو اترپردیش کے دادری سے جوڑتی ہے۔  تقریبا 1500 کلو میٹر کی اس راہداری میں گجرات کے مندرا، کانڈلا، پیپاواؤ، دہیج اور ہجیرا کی بڑی بندرگاہوں کے لیے فیڈر راستے ہوں گے۔ ان دونوں مال بھاڑہ راہدریوں کے اردگرد دلی-ممبئی  صنعتی راہداری اور امرتسر- کولکاتا صنعتی راہداری کو بھی ترقی دی جارہی ہے۔ اسی طرح شمال کو جنوب سے اور مشرق کو مغرب سے جوڑنے والے ایسے خصوصی ریلوے کوریڈور سے جڑے ضروری عمل پورے کیے جارہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو!

مال گاڑیوں کےلیے  تیار کی گئی اس طرح کی خصوصی سہولیات سے ایک تو بھارت میں مسافر ٹرین کی لیٹ لطیفی کا مسئلہ کم ہوگا، دوسرے یہ کہ  اس سے مال گاڑی کی رفتار بھی تین گنا سے زیادہ ہوجائے گی اور مال گاڑیاں پہلے سے دوگنا تک سامان کی ڈھلائی کرپائیں گی۔  کیونکہ ان ٹریک پر ڈبل ڈیکر یعنی ڈبہ کے اوپر ڈبہ، ایسی مال گاڑیاں چلائی جاسکیں گی۔ مال گاڑیاں جب وقت پر پہنچیں گی تو ہمارا لاجسٹک نیٹ ورک سستا ہوگا۔ ہمارا سامان پہنچانے کا جو خرچ ہے، وہ کم ہونے کی وجہ سے ہمارا سامان سستا ہوگا، جس کاہماری برآمدات کو فائدہ پہنچے گا۔ یہی نہیں ملک میں صنعتوں کے لیے بہتر ماحول بنے گا۔ ایزآف ڈوئنگ بزنس بڑھے گی، سرمایہ کاری کے لیے بھارت میں مزید کشش پیدا ہوگی۔ ملک میں روزگار، خودروزگار کے متعدد نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

ساتھیو!

یہ مال بھاڑہ راہداری خودکفیل بھارت کے بہت بڑے ذرائع بنیں گے۔ صنعت ہو،صنعت و کاروبار ہو، کسان ہو، یا پھر صارفین، ہر کسی کو ان کا فائدہ ملنے والا ہے۔ لدھیانہ اور وارانسی کے کپڑے کی برآمدات ہوں، یا فیروزپورکا کسان، علی گڑھ کا تالا بنانے والا ہو، یا راجستھان کا سنگ مرمر کاروباری، ملیح آباد کا آم پیدا کرنے والا ہو، یا کانپور اور آگرہ کی چمڑے کی صنعت، بھدوہی کی قالین صنعت ہو، یا پھر فریدآباد کی کار انڈسٹری، ہر کسی کے لیے یہ موقع ہی موقع لے کر آیا ہے۔ خاص طور پر صنعتی طور پر پیچھے رہ گئے مشرقی بھارت کو یہ مال بھاڑہ راہداری نئی توانائی بخشنے والی ہے۔ اس کا قریب قریب 60 فیصد حصہ اترپردیش میں ہے۔ اس لیے اترپردیش کی ہر چھوٹی بڑی صنعت کو اس سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ملک اور بیرون ملک کی صنعتوں میں جس طرح اترپردیش کے تئیں کشش گزرے سالوں میں پیدا ہوئی ہے، اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

بھائیو اور بہنو!

اس ڈیڈی کیٹیڈ  مال بھاڑہ راہداری کا فائدہ کسان ریل کو بھی ہونے والا ہے۔کل ہی ملک میں 100ویں کسان ریل کی شروعات کی گئی ہے۔ کسان ریل سے ویسے بھی زراعت سے جڑی پیداوار کو ملک بھر کے بڑے بازاروں میں محفوظ اور کم قیمت پر پہنچانا ممکن ہوا ہے۔ اب نئی مال بھاڑہ راہداری میں کسان ریل اور بھی تیزی سے اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچے گی۔ اترپردیش میں بھی کسان ریل سے متعدد اسٹیشن جڑ چکے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ اترپردیش کے ریلوے اسٹیشنوں کے پاس جمع کرنے اور کولڈ اسٹوریج کی صلاحیت بھی بڑھائی جارہی ہے۔ اترپردیش کے 45 مال گوداموں کو جدید سہولیات سے لیس کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں 8 نئے گڈس شیڈ بھی بنائے گئے ہیں۔ وہیں اترپردیش میں وارانسی اور غازی پور میں دو بڑے پیری شیبل کارگوسینٹر پہلے ہی کسانوں کو اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔ ان میں بہت ہی کم شرحوں پر کسان پھل، سبزیاں جیسی خراب ہونے والی اپنی پیداوار کو اسٹور کرسکتے ہیں۔

ساتھیو!

جب اس طرح کے بنیادی ڈھانچے سے ملک کو اتنا فائدہ ہو رہا ہے، تو  سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس میں اتنی  دیری کیوں ہوئی؟  یہ پروجیکٹ 2014  سے پہلے جو سرکار تھی،  اس کی  مدت کے  دوران  کارکردگی کا جیتا جا گتا ثبوت ہے۔ سال 2006  میں اس پروجیکٹ کو منظوری دی گئی تھی۔ اس کے بعد یہ صرف  کاغذوں اور فائلوں میں ہی  بنا رہا۔ مرکز کو ریاستوں کے ساتھ  جس سنجیدگی سے بات چیت کرنی چاہئے تھی، جس ارجنسی  سے بات چیت ہونا چاہئے تھی ، وہ  کی ہی نہیں گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کام اٹک گیا ، لٹک گیا، بھٹک گیا۔ صورت حال یہ تھی کہ  سال 2014 تک  ایک کلو میٹر  ٹریک بھی  نہیں بچھ پایا، جو اس کے لئے  پیسہ   مختص ہوا تھا، وہ صحیح طریقے سے  خرچ نہیں ہو پایا۔

ساتھیو!

2014 میں سرکار بننے کے بعد اس پروجیکٹ کے لئے پھر سے  فائلوں کنگھا لا  گیا، افسروں کو نئے سرے سے آگے بڑھنے کے لئے کہا گیا، تو  بجٹ  قریب  11 گنا یعنی  45 ہزار کروڑ روپے سے  زیادہ  بڑ گیا۔ پیش رفت کی بیٹھکوں میں  میں نے خود اس کی  مانیٹرنگ کی،  اس سے جڑے اسٹیک ہولڈرس سے  بات چیت کی، تبادلہ خیال۔ مرکزی سرکار نے  راجیہ سرکاروں سے بھی رابطہ بڑھایا ،  ان کی  حوصلہ افزائی کی، ہم  نئی ٹیکنالوجی بھی لائے۔ اسی نتیجہ  ہے کہ قریب  1100 کلو میٹر کا کام اگلے کچھ مہینوں میں پورا ہو جائے گا۔ سوچئے  8  سال میں ایک بھی کلو میٹر نہیں، اور  6-7  سال میں  1100 کلو میٹر ۔

بھائیو اور بہنو!

 بنیادی ڈھانچے پر  سیاسی  بے حسی کا نقصان  صرف  فریٹ کوریڈور کو نہیں اٹھانا پڑا۔ پورا ریلوے سے جڑا سسٹم ہی اس کا بہت بڑا   نقصان اٹھانے والا رہا ہے۔ پہلے فوکس  ٹرینوں کی تعداد بڑھانے پر رہا تھا تاکہ  چناؤ میں اس کا فائدہ مل سکے۔ لیکن  جن پٹریوں پر ریل کو چلنا تھا، ان پر پیسہ نہیں لگایا جاتا تھا۔ ریل نیٹ  ورک کی  جدید کاری  کو لے کر وہ سنجیدگی ہی نہیں تھی۔ ہماری ٹرینوں کی اسپیڈ بہت کم تھی اور پورا نیٹ ورک  بلا انسان والے  جان لیوا  بھاٹکوں کے نیٹ ورک سے بھرا ہوا تھا۔

ساتھیو!

ہم نے 2014  کے بعد  اس  طریقہ کار کو بدلا،  اس سوچ کو بدلا۔  الگ سے  ریل بجٹ کی سہولت کو ختم کرتے ہوئے ہم نے اعلان کرکے  بھول جانے والی  سیاست کو بدلا۔ ہم نے  ریل ٹریک پر  سرمایہ کاری کی۔ ریلوے نیٹ ورک کو  ہزاروں  بنا انسان والے پھاٹکوں سے نجات دلائی۔ ریلوے ٹریک کو   تیز رفتار سے چلنے والی ٹرینوں کے لئے تیار کیا۔ ریلوے نیٹ ورک  کے  چوڑی کرن  اور  بجلی کرن  دونوں پر  توجہ مرکوز کی۔ آج  وندے بھارت ایکسپریس جیسی ،  سیمی ہائی اسپیڈ ٹرینیں بھی چل رہی ہیں اور بھارتیہ ریل پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ بھی ہوا ہے۔

ساتھیو!

 گزشتہ سالوں میں ریلوے میں ہر سطح پر  اصلاحات  کی گئیں۔ ریلوے میں صفائی ستھرائی ہو، بہتر  کھانا پینا ہو یا پھر دوسری سہولیات، فرق  آج صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح  ریلوے سے جڑی  مینو فیکچرنگ میں بھارت نے  خود کفالت کی  بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ بھارت بڑی تعداد میں  ٹرینوں کی تیاری  اب اپنے لئے بھی  کرر ہا ہے اور ان کی بر آمدات بھی کرر ہا ہے۔  یوپی  کی ہی بات کریں تو ، وارانسی  میں قائم  لوکو موٹیو ورکس ،  بھارت میں الیکٹرک انجن بنانے والا  بڑا سینٹر بن ر ہا ہے۔ رائے بریلی کی ماڈرن کوچ فیکٹری کو بھی  گزشتہ 6 سالوں میں  ٹینٹنگ پیٹنگ کے  کام سے  ہم باہر نکال کر لائے ہیں۔ یہاں  اب تک  5000 سے زیادہ  نئے ریلوے کوچ بن چکے ہیں۔ یہاں بننے والے ریلوے  کوچ  اب  دوسرے ملکوں کو بھی  بر آمد کئے جارہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو!

ہمارے ماضی کے  تجربات بتاتے ہیں، کہ دیش کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو  سیاست  سے دور رکھا جانا چاہئے۔ دیش   کا بنیادی ڈھانچہ ،  کسی  دھڑے کا  نقطہ نظر  نہیں، دیش کی  ترقی کا  راستہ ہوتا ہے۔ یہ 5 سال کی  پالیٹکس کا نہیں  بلکہ آنے والی بہت سی پیڑھیوں کو فائدہ دینے والا مشن ہے۔ سیاسی  دھڑوں کو  اگر  مقابلہ کرنا ہی ہے تو بنیادی ڈھانچے کے معیار پر  مقابلہ ہو،  اسپیڈ اور  اسکیل کو لے کر  مقابلہ ہو۔ میں یہاں ایک اور  ذہنیت کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، جو اکثر ہمیں  احتجاجوں اور آندولنوں کے دوران  دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ  ذہنی سوچ  دیش کے بنیادی ڈھانچے کو ، دیش  کی  جائداد کو نقصان پہنچانے کی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بنیادی  ڈھانچہ ،  یہ زمین  جائداد  کسی  نیتا کی ، کسی  دھڑے  یا پارٹی کی،  کسی سرکار کی  نہیں ہے۔ یہ دیش کی ہی  ملکیت ہے۔ اس میں ہر غریب کا ،  ہر  ٹیکس دہندہ کا ، اوسط درجے کے طبقے کا، سماج کے ہر طبقے کا  پسینہ لگا ہوا ہے۔ اس کو لگنے والی ہر چوٹ ، دیش کے غریب، دیش کے عام آدمی  کو چوٹ ہے۔ اس لئے اپنا  جمہوری حق  جتاتے ہوئے  ہمیں اپنے قومی  فرض کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔

ساتھیو!

جس ریلوے کو اکثر  نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ  کس خدمت  وعمل سے مشکل صورت حال میں بھی دیش کے کام آتی ہے، یہ  کورونا کال میں نظر آیا ہے۔ مشکل میں پھنسے مزدوروں کو  اپنے گاؤں تک پہنچانا ہو،  دوا اور راشن کو  دیش  کے کونے کونے تک لے جانا ہو، یا پھر چلتے پھرتے  کورونا اسپتال اور  سہولت دینی ہو، تو ریلوے کے پورے نیٹ ورک کا ، سبھی   ملازمین کی یہ  خدمت  ملک ہمیشہ یاد رکھے گا۔ یہی نہیں اس مشکل  وقت میں  ریلوے میں  باہر سے  گاؤں لوٹے  مزدور ساتھیوں کے لئے ایک لاکھ سے  زیادہ دنوں کا روزگار بھی  وضع کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خدمت ،  ہم آہنگی اور  قوم کی خوش حالی کے لئے  مرکوز  کاوشوں کا یہ مشن بلا رکے چلتا رہے گا۔

ایک بار پھر ، یوپی سمیت ملک کی  تمام  ریاستوں کو  فریٹ کوریڈور کی  نئی سہولت کے لئے بہت بہت  مبارک باد دیتا ہوں اور ریلوے کے  سبھی ساتھیوں کو بھی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ  ان سے بھی  درخواست کروں گا کہ اس فریٹ کوریڈور کا  کام بھی  ہمیں تیز رفتار سے  چلانا ہے۔ 2014 کے بعد  جو رفتار ہم لائے تھے،  آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ  رفتار لانی ہے۔ اس لئے میری ریلوے کے سارے ساتھی ضرور دیش کی امیدیں اور امنگیں پوری کریں گے۔ اس یقین کے ساتھ  آپ سب کو بہت بہت  مبارک باد۔

 بہت بہت شکریہ!

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( م ن ۔ ج ق ۔  اع۔ت ع۔ ق ر )

 

U. No. 8501



(Release ID: 1684366) Visitor Counter : 234