وزیراعظم کا دفتر

قومی شاہراہ ۔19 کے وارانسی ۔ پریاگ راج سیکشن کے چھ لین چوڑا کرنے کے پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 30 NOV 2020 6:40PM by PIB Delhi

ہر ہر مہادیو!

میرے کاشی کے پیارے بھائیو اور بہنو،

آپ سب کے پرنام با!

خصوصاً راجا تالاب، مرزامراد، کچھوا، کپسیٹھی، روہنیا، سیواپوری علاقے کے اَن داتا لوگن کے پرنام ہو!

آب سبھی کو دیو دیپاولی اور گورپرب کی ڈھیروں مبارکباد اور نیک خواہشات!!

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب کیشو پرساد موریہ جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی بھائی رمیش چند جی اور بڑی تعداد میں تشریف لائے کاشی کے میرے پیارے بہنو اور بھائیو،

دیو دیپاولی اور گورو نانک دیو جی کے روشنی کے تیوہار کے موقع پر آج کاشی کو جدید بنیادی ڈھانچہ سہولیات کا ایک اور تحفہ حاصل ہو رہا ہے۔ اس کا فائدہ کاشی کے ساتھ ہی پریاگ راج کو بھی حاصل ہوگا۔ آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔

مجھے یاد ہے، سال 2013 میں میرا پہلا عوامی جلسہ اسی میدان میں منعقد ہوا تھا اور تب یہاں سے گزرنے والی شاہراہ چار لین کی تھی۔ آج بابا وشوناتھ کے آشیرواد سے، یہ ہائی وے 6 لین کا ہو چکا ہے۔ پہلے جو لوگ ہنڈیا سے راجا تالاب آتے جاتے تھے، انہیں پتہ ہے کہ اس شاہراہ پر کتنی زیادہ مشکلات آتی تھیں۔ جگہ جگہ جام، بہت دھیمے ٹریفک، دہلی اور دوسرے شہروں سے بھی جولوگ آتے تھے، وہ اس راستے پر آکر پریشان ہو جاتے تھے۔70 کلو میٹر سے زائد کا سفر اب آرام سے طے ہوگا۔ اس شاہراہ کے چوڑا ہونے سے کاشی اور پریاگ کے درمیان آمدو رفت اب اور زیادہ آسان ہوگئی۔ کانوڑ یاترا کے دوران کانوڑیوں کو اور اس علاقے کے لوگوں کو جو پریشانی ہوتی تھی، اب وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ اتنا ہی نہیں، اس کا فائدہ کنبھ کے دوران بھی حاصل ہوگا۔

بھائیو اور بہنو،

یقین سے جڑی جگہ ہو یا پھر کوئی خاص کام ، لوگ کہیں بھی آنے جانے سے پہلے یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ وہاں آنا جانا کتنا آسان ہے۔ اس طرح کی سہولیات ملکی ۔ غیر ملکی، ہر طرح کے سیاحوں اور عقیدت مندوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ گذشہ برسوں کے دوران کاشی کو سجانے کے ساتھ ساتھ کنکٹیویٹی پر جو کام ہوا ہے، اس کا فائدہ اب سب دور سے دکھائی دے رہا ہے۔ نئی شاہراہ کی تعمیر ہو، پل ۔ فلائی اووَر کی تعمیر ہو، ٹریفک جام کم کرنے کے لئے راستوں کو چوڑا کرنا ہو، جتنا کام بنارس اور آس پاس کے علاقوں میں ابھی ہو رہا ہے، اتنا آزادی کے بعد کبھی نہیں ہوا۔

بنارس کا خادم ہونے کی حیثیت سے، میری کوشش یہی ہے کہ بنارس کے لوگوں کی پریشانیاں کم ہوں، ان کی زندگی آسان بنے۔ گذشتہ 6 برسوںمیں بنارس میں ہزاروں کروڑ روپئے کے پروجیکٹوں کو تیزی سے مکمل کیا گیا ہے اور بہت سارے پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ ہوائی اڈے سے شہر کو جوڑنے والی سڑک آج بنارس میں ترقی کے کاموں کی پہچان بن گئی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی رابطہ کاری بھی بہتر ہوئی ہے۔ یہاں سے کچھ دوری پر ہی رنگ روڈ فیز۔2 کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔

اس کے پورا ہونے سے سلطان پور، اعظم گڑھ اور غازی پور سے آنے جانے والی بھاری گاڑیاں شہر میں داخل ہوئے بغیر، سیدھے اس نئی چھ لین والی شاہراہ سے گزر سکیں گی۔ وہیں جن دوسری شاہراہوں پر تعمیری کام چل رہا ہے وہ بھی جلد ہی مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان شاہراہوں کے بننے سے وارانسی، لکھنؤ، اعظم گڑھ اور گورکھ پور کا سفر آسان ہو جائے گا۔

بھائیو اور بہنو،

اچھی سڑکیں، اچھے ریل راستے، اچھی اور سستی ہوائی خدمات، یہ سماج کے ہر طبقے کو سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ خصوصاً غریب کو، چھوٹے کاروباریوں کو، متوسط طبقے کو، اس کا سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جب تعمیری کام چلتا ہے تو متعدد لوگوں کو روزگار حاصل ہوتا ہے۔ جب یہ پروجیکٹ بن کر تیار ہوتے ہیں، تو وقت بچتا ہے، خرچ کم ہوتا ہے اور پریشانیاں بھی کم ہوتی ہیں۔ کورونا کے اس دور میں بھی مزدور ساتھیوں کے لئے روزگار کا بہت بڑا وسیلہ بنیادی ڈھانچے کے یہ پروجیکٹس ہی بنے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

مجھے خوشی ہے کہ اترپردیش میں یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم نے سرکار بننے کے بعد یہاں بھی بنیادی ڈھانچہ تعمیر کے کام میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ پہلے اترپردیش کے بنیادی ڈھانچے کی حالت کیا تھی، یہ آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ آج اترپردیش کی شناخت ایکسپریس پردیش کے طور پر مضبوط ہو رہی ہے۔ یو پی میں رابطہ کاری کے ہزاروں کروڑ کے 5 میگا پروجیکٹس پر ایک ساتھ کام چل رہا ہے۔

آج پوروانچل ہو، بندیل کھنڈ ہو، مغربی اترپردیش ہو، ہر کونے کو ایکسپریس وے سے مربوط کیا جا رہا ہے۔ ملک کے دو بڑے اور جدید دفاعی گلیاروں میں سے ایک ہمارے اترپردیش میں ہی بن رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

روڈ ہی نہیں، بلکہ فضائی رابطہ کاری کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔ 3۔4 برس پہلے تک یوپی میں صرف 2 بڑے ہوائی اڈے ہی سرگرم تھے۔ آج تقریباً ایک درجن ہوائی اڈے یوپی میں خدمات فراہم کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔ یہاں وارانسی کے ہوائی اڈے کی توسیع کا کام چل رہا ہے۔ پریاگ راج میں ایئر پورٹ ٹرمنل جتنی تیزی سے تیار ہوا، اس نے ایک نیا ریکارڈ ہی بنا دیا تھا۔ اسکے علاوہ کشی نگر کے ہوائی اڈے کو بھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے طور پر ترقی دی جا رہی ہے۔ نوئیڈا کے جیور میں بین الاقوامی گرین فیلڈ ایئرپورٹ پر بھی تیزی سے کام چل رہا ہے۔

ساتھیو،

جب کسی علاقے میں جدید رابطہ کاری کی توسیع ہوتی ہے، تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہمارے کاشتکاروں کو بھی ہوتا ہے، کھیتی کو ہوتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں مسلسل یہ کوشش ہوئی ہے کہ مواضعات میں جدید سڑکوں کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی کی، کولڈ اسٹوریج کی جدید سہولیات کھڑی کی جائیں۔ حال میں اس کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ بھی کاشتکاروں کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ اسی برس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چلتے پھرتے کولڈ اسٹوریج یعنی کسان ریل شروع کی گئی ہیں۔

ان کوششوں سے کاشتکاروں کو نئے بازار حاصل ہو رہے ہیں، بڑے شہروں تک ان کی رسائی اور زیادہ بڑھ رہی ہے اور اس کا سیدھا اثر یہ ہو رہا ہے کہ ان کی آمدنی پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔

ساتھیو،

وارانسی سمیت پوروانچل میں ہی جو بہترین بنیادی ڈھانچہ تیار ہوا ہے، اس کا بہت زیادہ فائدہ اس پورے علاقے کو ہوا ہے۔ وارانسی میں فانی کارگو سینٹر بننے کی وجہ سے یہاں کاشتکاروں کو اب پھل اور سبزیوں کو اسٹور کرکے رکھنے اور انہیں آسانی سے فروخت کرنے کی بہت بڑی سہولت حاصل ہوئی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کی اس اہلیت کی وجہ سے پہلی مرتبہ یہاں کے کاشتکاروں کی فصل بڑی تعداد میں غیر ممالک میں برآمد ہو رہی ہیں۔ آج بنارس کا لنگڑا اور بنارس کا دشہری آم لندن اور مشرق وسطی میں اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے۔

اب بنارس کے آم کا مطالبہ غیر ممالک میں بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اب یہاں جو ڈبہ بندی کی سہولیات تیار ہو رہی ہیں، اس وجہ سے ڈبہ بندی کے لئے دوسرے بڑے شہروں میں جانے کی ضرورت اب نہیں رہے گی۔ آم کے علاوہ اس سال یہاں کی تازہ سبزیاں بھی دبئی اور لندن پہنچی ہیں۔ یہ برآمدکاری ہوائی راستے سے ممکن ہوئی۔ یعنی بہتر ہوائی خدمات کا سیدھا فائدہ یہاں کے چھوٹے سے چھوٹے کاشتکاروں کو ہو رہا ہے۔ گنگا جی پر جو ملک کا اولین اندرونِ ملک آبی راستہ ہے، اس کا استعمال کاشتکاروں کی فصل کے ٹرانسپورٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ کیسے ہو، اس پر بھی کام ہو رہا ہے۔

ساتھیو،

حکومت کی کوششوں اور جدید بنیادی ڈھانچے سے کاشتکاروں کو کتنا فائدہ ہو رہا ہے، اس کی ایک بہترین مثال چندولی کا کالا چاول ہے۔ یہ چاول چندولی کے کاشتکاروں کے گھروں میں خوشحالی لے کر آرہا ہے۔ چندولی کے کاشتکاروں کی آمدنی کو بڑھانے کے لئے 2 سال قبل کالے چاول کی ایک قسم کا استعمال یہاں کیا گیا تھا۔ گذشتہ برس خریف کے سیزن میں قریب 400 کاشتکاروں کو یہ چاول اگانے کے لئے دیا گیا۔

ان کاشتکاروں کی ایک کمیٹی بنائی گئی، اس کے لئے ایک مارکیٹ تلاش کی گئی۔ عام چاول جہاں 40۔35 روپئے کلو کے حساب سے فروخت ہوتا ہے، وہیں یہاں بہترین کالا چاول 300 روپئے تک فروخت ہو رہا ہے۔ بڑی بات یہ بھی ہے کہ بلیک رائس کو غیر ملکی منڈی بھی مل گئی ہے۔ پہلی مرتبہ آسٹریلیا کو یہ چاول برآمد ہوا ہے، وہ بھی تقریباً ساڑھے آٹھ سو روپئے کلو کے حساب سے۔ یعنی جہاں دھان کی کم از کم امدادی قیمت 1800 روپئے ہے، وہیں کالا چاول ساڑھے آٹھ ہزار روپئے فی کوئنٹل فروخت ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہےکہ اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ کے سیزن میں تقریباً 1000 کاشتکار کنبے کالے چاول کی کھیتی کر رہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

کاشتکار کو جدید سہولیات فراہم کرنا، چھوٹے کاشتکاروں کو منظم کرکے ان کو بڑی طاقت بنانا، کاشتکاروں کی آمدنی بڑھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ گذشتہ برسوں میں فصل بیمہ ہو یا سینچائی، بیج ہو یا بازار، ہر سطح پر کام کیا گیا ہے۔ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا سے ملک کے تقریباً 4 کروڑ کسان کنبوں کی مدد ہوئی ہے۔ پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا سے تقریباً 47 لاکھ ہیکٹیئر زمین مائیکرو اریگیشن کے دائرے میں آ چکی ہے۔ تقریباً 77 ہزار کروڑ روپئے کے اریگیشن پروجیکٹس پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔

لیکن ساتھیو، کامیاب پروجیکٹ ہی کافی نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کو اس بڑی مارکیٹ کا فائدہ حاصل ہونا چاہئے جو ہمارے ملک، دنیا کے بڑے بازار ہمارے کاشتکاروں کو مہیا کراتے ہیں۔ اس لیے متبادل کے ذریعہ کاشتکاروں کو بااختیار بنانے کا راستہ اپنایا گیا ہے۔ کاشتکاروں کے مفاد میں کی گئیں زرعی اصلاحات ایسے ہی متبادل کاشتکاروں کو فراہم کرتی ہیں۔ اگر کاشتکار کو کوئی ایسا خریدار مل جائے جو سیدھا کھیت سے فصل اٹھائے۔ جو ٹرانسپورٹ سے لے کر لاجسٹکس کا ہر انتظام کرے اور بہتر قیمت دے، تو کیا کاشتکار کو بھی اپنی فصل اسے فروخت کرنے کی آزادی ملنی چاہئے کہ نہیں ملنی چاہئے؟ بھارت کی زرعی پیداوار پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ کیا کاشتکار کی اس بڑی مارکیٹ اور زیادہ قیمت تک کسان کی رسائی ہونی چاہئے کہ نہیں ہونی چاہئے؟ اگر کوئی پرانے نظام سے ہی لین دین کو ٹھیک سمجھتا ہے تو اس پر بھی اس قانون میں کہاں کوئی روک لگائی ہے بھائی؟

ساتھیو،

نئی زرعی اصلاحات سے کسانوں کو نئے متبادل اور نیا قانونی تحفظ ہی تو دیا گیا ہے۔ پہلے تو منڈی سے باہر ہوئے لین دین ہی غیر قانونی مانے جاتے تھے۔ ایسے میں چھوٹے کاشتکاروں کے ساتھ اکثر دھوکہ ہوتا تھا، تنازعات ہوتے تھے۔ کیونکہ چھوٹا کسان تو منڈی پہنچ ہی نہیں پاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب چھوٹے سے چھوٹا کسان بھی، منڈی سے باہر ہوئے ہر سودے کو لے کر قانونی کاروائی کر سکتا ہے۔ یعنی کاشتکار کو اب نئے متبادل ہی نہیں حاصل ہوئے ہیں بلکہ دغابازی سے، دھوکے سے، اسے فروخت کرنے کے لئے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوا ہے۔ کاشتکاروں کو پروجیکٹ کے ساتھ ہی نئے متبادل دینے سے ہی ہمارے زرعی شعبی کی حالت بدل سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے پروجیکٹ، کسان کے لئے متبادل اور دونوں ساتھ ساتھ چلیں، تبھی ملک کا بھلا ہوتا ہے۔

ساتھیو،

سرکاریں اسکیمیں بناتی ہیں، قانون قاعدے بناتی ہیں۔ اسکیموں اور قوانین کو حمایت بھی حاصل ہوتی ہے تو کچھ سوال بھی لازمی ہیں۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور بھارت میں یہ ایک فعال روایت رہی ہے۔ تاہم گذشتہ کچھ وقت سے ایک الگ ہی رجحان ملک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کاشی کے آپ سبھی بیدار ساتھیوں نے بھی یہ محسوس کیا گیا ہوگا۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ حکومت کا کوئی فیصلہ اگر کسی کو پسند نہیں آتا تھا تو اس کی مخالفت ہوتی تھی۔تاہم گذشتہ کچھ وقت سے ہم ایک نیا رجحان دیکھ رہے ہیں، ہم اب دیکھ رہے ہیں کہ اب مخالفت کی بنیاد فیصلہ نہیں بلکہ افواہ پھیلاکر، شکوک و شبہات پیدا کرکے، پھر تو مستقبل میں ایسا ہوگا، اب تو یہ ہونے والا ہے، اس کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ فیصلہ تو ٹھیک ہے، پتہ نہیں اس سے آگے چل کر کیا کیا ہوگا، اور پھر کہتے ہیں ایسا ہوگا۔جو ابھی ہوا ہی نہیں ہے، جو کبھی ہوگا ہی نہیں، اس کو لے کر سماج میں جھوٹی بات پھیلائی جاتی ہے۔ تاریخی زرعی اصلاحا ت کے معاملے میں بھی جان بوجھ کر یہی کھیل کھیلا جا رہاہے۔  ہمیں یاد رکھنا ہے، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دہائیوں تک کسانوں کے ساتھ مسلسل دغابازی کی ہے۔ اب جیسے ایم ایس پی کا تو اعلان کر دیا جاتا تھا لیکن ایم ایس پی پر خرید بہت کم کی جاتی تھی۔ اعلانات ہوتے تھے، خرید نہیں ہوتی تھی۔ برسوں تک ایم ایس پی کو لے کر دھوکہ کیا گیا۔ کاشتکاروں کے نام پر بڑے بڑے قرض معافی کے پیکجوں کا اعلان کیا جاتا تھا۔ تاہم چھوٹے اور حاشیے پر موجود کاشتکاروں تک یہ فوائد پہنچتے ہی نہیں تھے۔ یعنی قرض معافی کو لے کر بھی دھوکہ کیا گیا۔ کاشتکاروں کے نام پر بڑی بڑی اسکیموں کا اعلان ہوتا تھا۔ لیکن وہ خود مانتے تھے کہ ایک روپئے میں سے صرف 15 پیسے ہی کسان تک پہنچتے ہیں۔

یعنی کاشتکاروں کے نام پر دھوکہ۔ کاشتکاروں کے نام پر، کھاد پر بہت بڑی سبسڈی دی گئی۔ لیکن یہ کھاد کھیت سے زیادہ کالا بازاریوں کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ یعنی یوریا کھاد کے نام پر بھی دھوکہ۔ کسانوں کو پیداوار میں اضافے کے لئے کہا گیا لیکن فائدہ کسان کے بجائے کسی اور کے فائدے کو یقینی بنایا گیا۔ پہلے ووٹ کے لئے وعدہ اور پھر دھوکہ، یہی کھیل لمبے عرصے تک ملک میں چلتا رہا ہے۔

ساتھیو،

جب تاریخ ہی دھوکے بازی سے بھری ہو، تب دو باتیں فطری ہیں۔ پہلی یہ کہ کاشتکار اگر حکومتوں کی باتوں سے کئی مرتبہ خدشات سے گھرا  رہتا ہے تو اس کے پس پشت یہ لمبی دھوکے بازی کی تاریخ ہے اور دوسری یہ کہ جنہوں نے وعدے توڑے، دھوکے بازی کی، ان کے لئے یہ جھوٹ پھیلانا ایک طرح سے عادت بن گئی ہے، مجبوری بن چکی ہے کہ جو پہلے ہوتا تھا ویسا ہی اب بھی ہونے والا ہے کیونکہ انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس لیے وہی فارمولہ لگاکر آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ تاہم جب اس حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھو گے تو سچ آپ کے سامنے کھل کر آجائے گا۔

ہم نے کہا تھا کہ ہم یوریا کی کالابازاری روکیں گے اور کسانوں کو مناسب یوریا دیں گے۔ گذشتہ 6 برسوں میں یوریا کی کمی نہیں ہونے دی۔ پہلے تو یوریا بلیک میں لینا پڑتا ہے، یوریا کے لئے رات رات قطار لگاکر رات کو باہر سردی میں سونا پڑتا تھا اور کئی مرتبہ یوریا لینے والے کسانوں پر لاٹھی چارج کے واقعات بھی رونما ہوتے تھے۔ آج سے یہ سب بند ہو گیا۔ یہاں تک کہ کورونا لاک ڈاؤن تک اس میں بھی جب تقریباً ہر سرگرمی بند تھی، تب بھی ہم نے یوریا پہنچانے میں پریشانی نہیں آنے دی۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ سوامی ناتھ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی دیں گے۔ یہ وعدہ صرف کاغذوں پر ہی نہیں، یہ وعدہ ہم نے پورا کیا اور اتنا ہی نہیں، کاشتکاروں کے بینک کھاتے تک پیسے کیسے پہنچے، اس کا انتظام بھی کیا۔

ساتھیو،

صرف دال کی ہی بات کریں، 2014 سے قبل کے پانچ برسوں میں، ہمارے جو پہلے والی سرکار تھی، اس کے پانچ برسوں میں تقریباً 650 کروڑ روپئے کی ہی دال کسان سے خریدی گئی تھی، کتنی 650 کروڑ، کتنا بھییاذرا آپ بتایئے پورے ملک میں کتنا، 650 کروڑ۔ لیکن ہم نے 5 برسوں میں کیا کیا، ہمارے 5برسوں میں ہم نے تقریباً 49 ہزار کروڑ یعنی تقریباً 50 ہزار کروڑ روپئے کی دالیں ایم ایس پی پر خریدی ہیں یعنی تقریباً 75 گنا اضافہ۔ کہاں 650 کروڑ اور کہاں تقریباً 50 ہزار کروڑ۔

2014 سے قبل کے 5 برسوں میں ، ان کی آخری سرکار کی میں بات کر رہا ہوں، 5 سالوں میں سابقہ حکومت نے 2 لاکھ کروڑ روپئے کا دھان خریدا تھا پورے ملک میں، 2 لاکھ کروڑ روپئے کا، ایم ایس پی پر۔ لیکن ہم نے ہمارے 5 برسوں میں دھان کے لئے 5 لاکھ کروڑ روپئے ایم ایس پی کے طور پر کسانوں تک ہم نے پہنچا دیے ہیں۔یعنی تقریباً ڈھائی گنا زیادہ پیسہ کسان کے پاس پہنچا ہے۔ 2014 سے پہلے کے 5 برسوں میں گیہوں کی خرید پر ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپئے کے آس پاس ہی کسانوں کو حاصل ہوا۔ ڈیڑھ لاکھ کروڑ، ان کی سرکار کے پانچ سال۔

ہم نے پانچ برسوں میں گیہوں پر 3 لاکھ کروڑ روپئے کسانوں کو ایم ایس پی کا حاصل ہو چکا ہے یعنی تقریباً 2 گنا۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اگر منڈیوں اور ایم ایس پی کو ہی ہٹانا تھا، تو اتنی بڑی طاقت ہم کیوں دیتے بھائی؟ ہم ان پر اتنی سرمایہ کاری ہی کیوں کرتے؟ ہماری حکومت تو منڈیوں کو اور جدید بنانے کے لئے، مضبوط بنانے کے لئے کروڑو روپئے خرچ کر رہی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

آپ کو یاد رکھنا ہے، یہی لوگ ہیں جو پی ایم کسان سمان ندھی کو لے کر ہر گلی۔ محلے میں، ہر پریس کانفرنس میں، ہر ٹوئیٹر میں سوال اٹھاتے تھے۔ یہ لوگ افواہ پھیلاتے تھے، یہ مودی ہے، یہ انتخابات ہیں نہ اس لیے یہ کسان سمان ندھی لے کے آیا ہے۔ یہ 2000 روپیہ ایک مرتبہ دے دے گا، دوبارہ کبھی نہیں دے گا۔ دوسرا جھوٹ چلایا کہ یہ 2000 ابھی دے رہا ہے لیکن انتخابات مکمل ہو گئے تب سود سمیت واپس لے لے گا۔ آپ حیران ہو جائیں گے، ایک ریاست میں تو اتنا جھوٹ پھیلایا، اتنا جھوٹ پھیلایا کہ کاشتکاروں نے کہا کہ ہمیں 2000 روپیہ نہیں چاہئے، یہاں تک جھوٹ پھیلایا۔ کچھ ریاستیں ایسے بھی ہیں، ایک ریاست جو کسان کے نام سے باتیں کر رہی ہے، انہوں نے تو پردھان منتری کسان سمان ندھی یوجنا کو اپنی ریاست میں نافذ ہی نہیں ہونے دیا، کیونکہ اگر یہ پیسہ کسانوں کے پاس پہنچ گیا اور کہیں مودی کی جے جے کار ہوگئی تو پھر تو ہماری سیاست ہی ختم ہو جائے گی۔ کسانوں کی جیب میں پیسہ نہیں جانے دیا۔میں اس ریاست کے کسانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آنے والے وقت میں جب بھی ہماری حکومت بنے گی، یہ پیسہ بھی میں وہاں کے کسانوں کو دے کے رہوں گا۔

ساتھیو،

ملک کے 10 کروڑ سے زائد کسان کنبوں کے بینک کھاتے میں راست طور پر پیسہ منتقل کیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ پردھان منتری کسان سمان ندھی کے ذریعہ مسلسل جاری ہے۔ سال میں تین مرتبہ دیتے ہیں اور اب تک تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپیہ سیدھا کسانوں کے بینک کھاتے میں پہنچ چکا ہے۔

ساتھیو،

ہم نے وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کے لئے پنشن یوجنا بنائیں گے۔ آج پی ایم کسان مان دھن یوجنا نافذ ہے اور بہت کم وقت میں ہی 21 لاکھ کسان کنبے اس اسکیم میں شامل بھی ہو چکے ہیں۔

بھائیو او بہنو،

وعدوں کو زمین پر اتارنے کے اسی ٹریک ریکارڈ کے بلبوتے پر کسانوں کے مفاد میں نئی زرعی اصلاحات قانون لائے گئے ہیں۔ کسانوں کو انصاف دلانے میں، یہ کتنے کام آرہے ہیں، یہ آئے دن ہم ضرور دیکھیں گے، ہم تجربہ کریں گے اور مجھے یقین ہے میڈیا میں بھی اس پر مثبت انداز میں بحث ہوگی اور ہمیں دیکھنے کو بھی ملے گا، پڑھنے کو بھی ملے گا۔ مجھے احساس ہے کہ دہائیوں کا دھوکہ کسانوں کو خدشات میں مبتلا کرتا ہے۔

کسانوں کی غلطی نہیں ہے، لیکن میں اہل وطن سے کہنا چاہتا ہوں، میں میرے کسان بھائی ۔ بہنوں کو کہنا چاہتا ہوں اور ماں گنگا ک گھاٹ پر سے کہنا چاہتا ہوں، کاشی جیسے مقدس شہر سے کہہ رہا ہوں، اب دھوکے سے نہیں بلکہ گنگا جل جیسی پاک نیت کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

شکوک کی بنیاد پر خدشات پیدا کرنے والوں کی حقیقت لگاتار ملک کے سامنے آرہی ہے۔ جب ایک بات پر ان کا جھوٹ کسان سمجھ جاتے ہیں، تو یہ دوسری بات پر جھوٹ پھیلانے لگ جاتے ہیں۔ چوبیسوں گھنٹے ان کا یہی کام ہے۔ ملک کے کسان، اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جن کسان کنبوں کی بھی پریشانیاں ہیں، کچھ سوال ہیں، تو ان کا جواب بھی حکومت مسلسل دے رہی ہے، حل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ ماں اناپورنا کے آشیرواد سے ہمارا اَن داتا آتم نربھربھارت کی قیادت کرے گا۔

مجھے یقین ہے، آج جن کسانوں کو زرعی اصلاحات پر کچھ شبہات ہیں، وہ بھی مستقبل میں زرعی اصلاحات کا فائدہ اٹھاکر، اپنی آمدنی بڑھائیں گے، یہ میرا پختہ یقین ہے۔

آخر میں ایک مرتبہ پھر، آپ سبھی کو اس جدید شاہراہ کے لئے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کاشی کی صورت اسی طرح شاندار بنی رہے، اس کے لئے ہماری کوششیں مسلسل جاری رہیں گی۔ ابھی میرے بنارس میں اور بھی پروگرام ہیں، وہاں بھی کئی موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ کورونا کی وجہ سے اس مرتبہ مجھے آنے میں تھوڑی تاخیر ہوئی، لیکن آج آپ کے دیدار ہوگئے، مجھے نئی توانائی حاصل ہوگئی۔ آپ کا آشیرواد مل گیا، کام کرنے کی نئی طاقت مل گئی۔ آپ اتنی بڑی تعداد میں آکر آشیرواد دے رہے ہیں، یہی میری توانائی ہے، یہی میرے لیے آشیرواد ہے۔

میں آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں۔ میرے ساتھ دونوں مٹھی بند کرکے پوری طاقت سے بولیے بھارت ماتا کی جے۔

بہت بہت شکریہ!

****

م ن۔ ا ب ن

U:7689

 



(Release ID: 1677287) Visitor Counter : 284