وزیراعظم کا دفتر

لکھنؤ یونیورسٹی کے صد سالہ یوم تاسیس کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 25 NOV 2020 9:02PM by PIB Delhi

نمسکار!

مرکزی کابینہ نے میرے سرکردہ مددگار اور لکھنؤ کے رکن پارلیمان جناب راجناتھ سنگھ جی، اترپردیش کے وزیر اعظم جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر دنیش شرما جی، اعلیٰ تعلیم کی وزیر مملکت محترمہ نیلما کٹاریہ جی، یوپی حکومت کی دیگر تمام وزرائے کرام، لکھنؤ یونیورسٹی وائس چانسلر جناب آلوک کمار رائے جی، یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء، خواتین و حضرات،

لکھنؤ یونیورسٹی خاندان کے 100سال پورے ہونے پر دلی مبارکباد! 100 سال کا عرصہ صرف ایک عدد نہیں ہے۔ اس کے ساتھ نمایاں کامیابیوں کی جیتی جاگتی تاریخ جڑی ہوئی ہے۔مجھے خوشی ہے کہ ان 100 سالوں کی مدت میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ، یادگاری سکے اور کور کو جاری کرنے کا موقع مجھے ملا ہے۔

ساتھیو!

مجھے بتایا گیا ہے کہ باہر گیٹ نمبر 1 کے پاس جو پیپل کا پیڑ ہے، وہ یونیورسٹی کی 100 برس کے طویل سفر کا اہم گواہ ہے۔ اس پیڑ نے، یونیورسٹی کے احاطے میں دیش اور دنیا کے لئے مختلف شبیہات کو اپنے سامنے بنتے ہوئے، گڑھتےہوئے دیکھا ہے۔100 سال کی اس سفر میں یہاں سے نکلے افراد صدر جمہوریہ کے عہدے پر پہنچے، گورنر بنے۔ علم کا شعبہ ہو یا انصاف کا، سیاسی ہو یا انتظامی، تعلیم ہو یا ادب ، ثقافت ہو یا کھیل کود، ہر شعبے کی شخصیتوں نے لکھنؤ یونیورسٹی نے نکھارا ہے، سنوارا ہے۔ یونیورسٹی کا آرٹس کواڈرینگل اپنے آپ میں بہت ساری تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اسی آرٹس کواڈرینگل میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آواز گونجی تھی اور اس بہادرانہ للکار میں کہاتھا:‘‘ بھارت کے لوگوں کو اپنا آئین بنانے دو یا پھر اس کا خمیازہ بھگتو۔’’ کل جب ہم ہندوستان کے لوگ اپنا قانون دیوس منائیں گے تو نیتا جی سبھاش بابو کی وہ للکار ، نئی توانائی لے کر آئے گی۔

ساتھیو!

لکھنؤ یونیورسٹی سے اتنے سارے نام منسلک ہے، انگنت لوگوں کے نام، چاہ کر بھی سب کے نام لینا ممکن نہیں ہے۔ میں آج کے اِس مبارک موقع پر اُن سبھی کو سلام کرتا ہوں۔100 سال کے سفر میں مختلف لوگوں نے مختلف طرح سے کردار ادا کیا ہے۔وہ سب احترام کے حقدار ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میں جب بھی لکھنؤ یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلنے والے لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملا ہے اور  یونیورسٹی کی بات نکلے اور ان کی آنکھوں میں چمک  نہ ہو، ایسا کبھی میں نے دیکھا نہیں۔ یونیورسٹی میں گزارے دنوں کو، اس کی بات کرتے کرتے وہ بڑے پرجوش ہوجاتے ہیں ، ایسا میں نے  کئی بار محسوس کیا  ہے اور تبھی تو لکھنؤ ہم پر فدا ، ہم فدائے لکھنؤ کا مطلب اور اچھے سے تبھی سمجھ آتا ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی کی قربت یہاں کی ‘‘رومانیت’’ کچھ اور رہی ہے۔ یہاں کے طالب علموں کے دل میں  ٹیگور لائیبریری سے لے کر الگ الگ کینٹینوں کے چائے سموسے اور بن- مکھن اب بھی جگہ  بنائے ہوئے ہیں۔اب بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے، لیکن لکھنؤ یونیورسٹی کا مزاج لکھنوی ہی ہے۔اب بھی وہی ہے۔

ساتھیو!

یہ اتفاق ہی ہے کہ آج دیو پربودھنی اکادشی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ چتور ماس میں آمدورفت میں مشکلوں کی وجہ سے زندگی تھم سی جاتی ہے۔یہاں تک کہ دیوی دیوتا بھی سونے چلے جاتے ہیں۔ ایک طرح سے آج دیو جاگرن کا دن ہے۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے –‘‘یا نشا سرو بھوتاناں تسیاں جاگرتی سنیمی’’جب سبھی جانداروں کے ساتھ ساتھ  دیو تا تک سو رہے ہوتے ہیں تب بھی سنیمی ، انسانی فلاح کے لئے چوکنا رہتا ہے۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے شہرے کتنے تحمل کے ساتھ کورونا کی اس مشکل چنوتی کا سامنا کررہے ہیں، دیش کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ساتھیو!

دیش کو متاثر کرنے والے، حوصلہ افزائی کرنے والے شہریوں کا وجود تعلیم کے ایسے ہی اداروں میں پیدا ہوتا ہے۔لکھنؤ یونیورسٹی صدیوں سے اپنے اس کام کو بخوبی نبھا رہی ہے۔ کورونا کے دور میں بھی یہاں کے طلباء و طالبات نے، اساتذہ نے مختلف طرح کے حل سماج کو فراہم کئے ہیں۔

ساتھیو!

مجھے بتایا گیا ہے کہ لکھنؤ یونیورسٹی کے  علاقائی دائرہ اختیار کو بڑھانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔یونیورسٹی کے ذریعے نئے تحقیقی مراکز کا بھی قیام کیا گیا ہے۔لیکن میں اس میں کچھ اور باتیں جوڑنے کی ہمت کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اس کو اپنے تبادلہ خیال میں ضرور رکھیں گے۔ میری تجویز ہے کہ جن ضلعوں تک آپ کا تعلیمی دائرہ ہے، وہاں کے مقامی تعلیمی اداروں،وہاں کے مقامی مصنوعات سے جڑے کورسوں، اس کے لئے مطلوبہ ہنرمندی کی فروغ، اس کی ہر باریکی سے تجزیہ، یہ ہماری یونیورسٹی میں کیوں نہ ہوں۔ وہاں ان مصنوعات کی پیداوار سے لے کر ان میں اقداری اضافے کے لئے متناسب طریقہ کار، متناسب ٹیکنالوجی پر تحقیق بھی ہماری یونیورسٹی کرسکتی ہے۔ان کی برانڈنگ، مارکیٹنگ  اور انتظامیہ سے منسلک حکمت عملی بھی آپ کے کورسیز کا حصہ ہوسکتی ہیں۔یونیورسٹی کے طالب علموں کی روز مرہ کے معمول کا حصہ ہوسکتی ہے۔ اب جیسے لکھنؤ کی چکن بریانی ، علی گڑھ کے تالے، مرادآباد کے پیتل کے برتنوں، بھدوہی کے قالین ایسی مختلف مصنوعات کو ہم عالمی پیمانے پر مقابلہ جاتی کیسے بنائیں۔اس کو لے کر نئے سرے سے کام ، نئے سرے سے مطالعہ، نئے سرے سے تحقیق کیا ہم نہیں کرسکتے، ضرور کرسکتے ہیں۔ اس مطالعے سے سرکار کو بھی اپنی پالیسی طے کرنے میں، پالیسی سازی میں بہت بڑی مدد ملتی ہے اور تبھی ایک ضلع، ایک مصنوعات کا جذبہ حقیقت کا روپ اختیار کرپائے گا۔ اس کے علاوہ  ہمارے آرٹ، ہمارے کلچر، ہمارے روح سے منسلک مضامین کی عالمی تحقیق کے لئے بھی ہمیں مسلسل کام کرتے رہنا ہے۔ہندوستان کی یہ سافٹ پاور، بین الاقوامی دنیا میں بھارت کی شبیہہ کو مستحکم کرنے میں بہت مدد گار ہے۔ہم نے دیکھا ہے پوری دنیا میں یوگا  کی طاقت کیا ہے، کوئی یوگ کہتا ہوگا، کوئی یوگا کہتا ہو گا، لیکن پورے دنیا کو یوگ کو اپنا ایک طرح سے زندگی کا حصہ بننے کے لئے جلا بخشی ہے۔

ساتھیو!

یونیورسٹی صرف اعلیٰ تعلیم کا مرکز نہیں ہوتا۔ یہ اونچے مقاصد،اونچے عزائم کو حاصل کرنے کی قوت کو حاصل کرنے کا بھی ایک بہت بڑا پاور ہاؤس ہوتا ہے، ایک بہت بڑی توانائی کی زمیں ہوتی ہے، جلا بخشنے والی زمیں ہوتی ہے۔یہ ہمارے کردار کی تعمیر کا، ہماری اندرونی طاقت کو جگانے کی تحریک بھی ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ، سال در سال اپنے طلباء کے انٹلیکچوئل ، تعلیمی اور جسمانی فروغ کو نکھارتے ہیں، طلباء کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ہم اپنے حوصلے کو پہچانیں، اس میں بھی آپ اساتذہ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔

لیکن ساتھیو، طویل عرصے تک ہمارے یہاں مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم اپنے حوصلے کا پورا استعمال ہی نہیں کرتے۔ یہ مسئلہ پہلے ہماری گورننس نےِ،سرکاری طور طریقوں میں بھی ہے۔جب حوصلے کا صحیح استعمال نہ ہو تو کیا نتیجہ ہوتا ہے، میں آپ کے بیچ میں اس کی ایک مثال  دینا چاہتا ہوں اور یہاں یوپی میں وہ ذرا زیادہ مناسب ہے۔آپ کے بہت، لکھنؤ سے جو بہت دور نہیں ہے، رائے بریلی، رائے بریلی کا ریل کوچ فیکٹری۔ برسوں پہلے وہاں سرمایہ کاری ہوئی ، مشینری لگی، آلات لگے، بڑے بڑے اعلان ہوئے، ریل کوچ بنائے گئے، لیکن کئی برسوں تک وہاں صرف ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام ہوتا رہا۔ کپور تھلا سے ڈبے بن کر آتے تھے اور یہاں اس میں تھوڑی بہت لیپا پوتی ، رنگ روغن کرنا، کچھ چیزیں ادھر ادھر ڈال دینا، بس یہی ہوتا تھا۔جس فیکٹری میں ریل کے ڈبے بنانے کا ارادہ تھا، اس میں پوری صلاحیت سے کام کبھی نہیں ہوا۔ سال 2014ء کے بعد ہم نے سوچ بدلی، طور طریقہ بدلا،نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی مہینے میں ہی یہاں سے پہلا کوچ بن کر تیار ہوا اور  آج ہر سال سینکڑوں ڈبے یہاں سے نکل رہے ہیں۔ ارادے کا صحی استعمال کیسے ہوتا ہے، وہ آپ کے بغل میں ہی ہے اور دنیا آج اس بات کو دیکھ رہی ہے  اور یوپی کو تو اس بات پر فخر ہوگا  کہ اب سے کچھ مدت بعد دنیا کی سب سے بڑی، آپ کو فخر ہوگا ساتھیو، دنیا کی سب سے بڑی ریل کوچی فیکٹری، اگر اس کے نام کی چرچا ہوگی تو وہ چرچا رائے بریلی ریل کوچ فیکٹری کی ہوگی۔

ساتھیو!

ارادے کے استعمال کے ساتھ ساتھ نیت اور قوت ارادی کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ قوت  ارادی نہ ہو تو بھی  آپ کو زندگی میں صحیح نتیجے نہیں مل پاتے۔ قوت ارادی سے کیسے  بدلاؤ ہوتا ہے، اس کی مثال، دیش کے سامنے کئی مثالیں ہیں، میں ذرا یہاں آج آپ کے سامنے ایک ہی سیکٹر کی ترجمانی کرنا چاہتا ہوں۔ یوریا۔ ایک زمانے میں دیش میں یوریا کی پیداوار کے بہت سے کارخانے تھے، لیکن باوجود اس کے کافی یوریا بھارت ، باہر سے ہی منگواتا تھا، درآمد کرتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دیش کے کھاد کارخانے تھے، وہ اپنی مکمل صلاحیت پر کام ہی نہیں کرتے تھے۔سرکاری میں آنے کے بعد جب میں نے افسروں سے اس بارے میں بات کی ، تو میں حیران رہ گیا۔

ساتھیو!

ایک کے بعد ایک پالیسی پر مبنی فیصلے لیے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دیش میں یوریا کارخانے پوری صلاحیت سے کام کررہے ہیں۔  اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ تھا۔ یوریا کی بلیک مارکیٹنگ۔ کسانوں کے نام پر نکلتاتھا اور پہنچتا کہیں  اور تھا، چوری ہوجاتا تھا۔ اس کا بہت بڑا خمیازہ ہمارے دیش کے کسانوں کو اٹھانا پڑتا تھا۔ یوریا کی بلیک مارکیٹنگ کا علاج ہم نے کیا، کیسے کیا، یوریا کی صد فیصد ، 100فیصد نیم کوٹنگ کرکے۔ یہ نیم کوٹنگ کا تصور بھی کوئی مودی کے آنے کے بعد آ یا ہے، ایسا نہیں ہے، یہ سب معروف تھا۔ سب جانتے تھے اور پہلے بھی کچھ تعداد میں نیم کوٹنگ ہوتی تھی۔ لیکن کچھ تعداد میں کرنے سے چوری نہیں رکتی ہے۔ لیکن صد فیصد نیم کوٹنگ کے لئے جو قوت ارادی چاہئے تھی، وہ نہیں تھی۔ آج صد فیصد نیم کوٹنگ ہورہی ہے اور کسانوں کو وافر مقدار میں یوریا مل رہا ہے۔

ساتھیو!

نئی ٹیکنالوجی لاکر، پرانے اور بند ہوچکے کھاد کارخانوں کو اب دوبارہ شروع بھی کروایا جارہا ہے۔گورکھپور  ہو، سندری ہو، برونی ہو، یہ سب کھاد کارخانے کچھ ہی سالوں میں پھر سے شروع ہوجائیں گے۔اس کے لئے بہت بڑی گیس پائپ لائن مشرقی بھارت میں بچھائی جارہی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  سوچ میں پازیٹوٹی  اور رسائی میں امکانات کو ہمیں ہمیشہ زندہ رکھنا چاہئے۔ آپ دیکھئے گا، زندگی میں آپ مشکل سے مشکل چیلنج کا سامنا اس طرح کرپائیں گے۔

ساتھیو!

آپ کی زندگی میں اکثر لوگ بھی ایسے آئیں گے جو آپ کی حوصلہ افزائی نہیں، بلکہ حوصلہ شکنی کرتے رہیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے، ارے یہ تُونہیں کرسکتا ہے یار تو سوچ تیرا کام نہیں ہے، یہ کیسے ہوگا، ارے اس میں تو یہ دقت ہے، یہ تو ممکن نہیں ہے، اور اس طرح کی باتیں لگاتار آپ کو سننے کو ملی ہوں گی۔ دن میں دس لوگ ایسے ملتے ہوں گے، جو ناامیدی، ناامیدی، ناامیدی کی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں اور ایسی باتیں سن کرکے آپ کے کان بھی تھک گئے ہوں گے۔ لیکن آپ خود پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھئے گا۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ جو کررہے ہیں، وہ ٹھیک ہے، دیش کے مفاد میں ہے، تو مصنفانہ طریقے سے کیا جاسکتا ہے، تو اسے حاصل کرنے کےلئے اپنی کاوشوں میں کبھی کوئی کمی مت آنے دیجئے۔ میں آج آپ کو ایک اور مثال بھی دینا چاہوں گا۔

ساتھیو!

کھادی کو لے کر ، ہمارے یہاں کھادی کو لے کر جو ایک ماحول ہے لیکن میرا ذرا الٹا تھا ، میں ذرا پرجوش رہا ہوں، میں اسے جب گجرات میں سرکاروں کے راستے پر تو نہیں تھا تب میں ایک سماجی کام کرتا تھا، کبھی سیاسی کارکن کے شکل میں کام کرتا تھا۔ کھادی پر ہم فخر کرتے ہیں، چاہتے ہیں، کھادی کے لئے مصمم ارادے، کھادے کے تئیں جھکاؤ، کھادی کے تئیں لگاؤ، کھادی کی مقبولیت، یہ پوری دنیا میں ہو، یہ میرے من میں ہمیشہ رہا کرتا تھا۔ جب میں وہاں کا وزیر اعلیٰ بنا تو میں نے بھی کھادی کی خوب تشہیر کرنا شروع کیا۔ دو اکتوبر کو میں خود بازار میں جاتا تھا، کھادی کے اسٹور میں جاکر خود کچھ  نہ کچھ خریدتا تھا۔ میری سوچ بہت مثبت تھی، نیت بھی اچھی تھی۔لیکن دوسری طرف کچھ لوگ حوصلہ شکنی کرنے والے بھی ملتے تھے۔ میں جب کھادی کو آگے بڑھانے کے بارے میں سوچ رہا تھا، جب کچھ لوگوں سے اس بارے میں بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ کھادی اتنی بورنگ ہے اور اتنی  اَن –کول ہے۔ آخر کھادی کو آپ ہمارے آج کے نوجوان نے پروموٹ کیسے کرپائیں گے؟آپ سوچئے، مجھے کس طرح کی تجاویز ملتی تھی، ایسے ہی ناامیدی کے خیالات کے باعث ہمارے یہاں کھادی کے احیاء کے تمام امکانات من میں ہی مر چکے تھے، ختم ہو چکے تھے۔ میں نے ان باتوں کو کنارے کیا اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھا۔ 2002ء میں ، میں نے پوربندر میں مہاتماگاندھی جی کی یوم پیدائش کے دن ، گاندھی جی کی جائے پیدائش میں ہی کھادی کے کپڑوں کا ہی ایک فیشن شو پلان کیا اور ایک یونیورسٹی کے نوجوان طلباء کو ہی اس کی ذمہ داری دی۔فیشن شو تو ہوتے ہی رہتے ہیں، لیکن کھادی اور نوجوان دونوں نے مل کر اس دن جو مزا جما دیا ، انہوں نے سارے ناظرین کو حیرت میں ڈال دیا، نوجوانوں نے کردیا تھا، اور بعد میں اس واقعے کی چرچا بھی بہت ہوئی تھی اور اس وقت میں نے ایک نعرہ بھی دیا تھا کہ آزادی سے پہلے کھادی فارنیشن ، آزادی کے بعد کھادی فار فیشن، لوگ حیران تھے کہ کھادی کیسے فیشن ایبل ہوسکتی ہے، کھادی کپڑوں کا فیشن شو  کیسے ہوسکتا ہے؟ اور کوئی ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ کھادی اور فیشن کو ایک ساتھ لے آئے۔

ساتھیو!

اس میں مجھے بہت دقت نہیں آئی۔ بس، مثبت سوچ نے ، میری قوت ارادی نے میرا کام بنا دیا۔ آج جب سنتا ہوں کہ کھادی اسٹوروں سے ایک ایک دن میں ایک کروڑ روپے کی بکری ہورہی ہے تو میں اپنے وہ دن بھی یا د کرتا ہوں۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی اور یہ اعدادو شمار یاد رکھئے آپ، سال 2014ء کے پہلے ، 20 برسوں میں جتنے روپے کی کھادی کی بکری ہوئی تھی، اس سے زیادہ کی کھادی پچھلے چھ برس میں بکری ہوچکی ہے۔کہاں بیس سال کا کاروبار اور کہاں چھ سال کا کاروبار۔

ساتھیو!

لکھنؤ یونیورسٹی کیمپس کو ہی عظیم کوی پردیپ نے کہا ہے، آپ ہی کی یونیورسٹی سے، اسی میدان کی قلم سے نکلتا ہے، پردیپ نے کہا ہے-کبھی کبھی خود سے بات کرو، کبھی خود سے بولو۔ اپنے نظر میں تم کیا ہو؟ یہ من کی ترازو پر تولو۔ یہ مصرعے اپنے آپ میں طالب علم کی شکل میں، استاد کی شکل میں یا عوامی نمائندے کی شکل میں، ہم سبھی کے لئے ایک طرح سے رہنما خطوط ہیں۔ آج کل کی بھاگ دوڑ بھری زندگی  میں خود سے ملاقات، خود سے بات کرنے، ذاتی تجزیہ کرنے کی عادت بھی چھوٹتی جارہی ہے۔ اتنے سارے ڈیجیٹل آلات ہیں، اتنے سارے پلیٹ فارم ہیں، وہ آپ کا وقت چرا لیتے ہیں، چھین لیتے ہیں، لیکن آپ کو ان سب کے بیچ اپنے لئے وقت چھیننا ہی ہوگا، اپنے لیے وقت نکالنا ہوگا۔

ساتھیو!

میں پہلے ایک کام کرتا تھا، پچھلے 20 سال سے تو نہیں کرپایا کیونکہ آپ سب نے مجھے ایسا کام دے دیا ہے، میں اسی کام میں لگا رہتا ہوں۔ لیکن جب میں انتظامی پوزیشن میں نہیں تھا، تو میرا ایک پروگرام ہوتا تھا ہر سال، میں  مجھ سے ملنے جاتا ہوں، اس پروگرام کا میرا نام تھا‘میں مجھ سے ملنے جاتا ہوں’اور میں پانچ دن، سات دن، ایسی جگہ پر چلا جاتا تھا ، جہاں کوئی انسان نہ ہو۔ پانی کی تھوڑی سہولت مل جائے بس، میری زندگی کے وہ پل بڑے بیش قیمت ہوتے تھے، میں آپ کو جنگلوں میں جانے کے لئے نہیں کہہ رہاہوں، کچھ تو وقت اپنے لیے نکالیے۔ آپ کتنا وقت خود کو دے رہے ہیں یہ بہت اہم ہے۔ آپ خود کو جانیں ، خود کو پہچانیں، اسی سمت میں  سوچنا ضروری ہے۔ آپ دیکھئے گا اس کا سیدھا اثر  آپ کے شخصیت پر پڑے گا، آپ کی قوت ارادی پر پڑے گا۔

ساتھیو!

طالب علمی کی زندگی وہ انمول وقت ہوتا ہے، جو گزر جانے کے بعد پھر لوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ا سی لیے اپنی طالب علمی کی زندگی کو انجوائے بھی کیجئے، اس کی حوصلہ افزائی بھی کیجئے۔ اس وقت بنے ہوئے آپ کے دوست، زندگی بھر آپ کے ساتھ رہیں گے۔عہدہ اور مرتبہ، نوکری-بزنس، کالج، یہ دوست اتنی ساری بھرمار میں آپ کے طالب علمی کی زندگی کے دوست چاہے، اسکولی تعلیم ہوں یا کالج کی، وہ ہمیشہ ایک الگ ہی آپ کی زندگی میں ان کا مقام ہوتا ہے۔ خوب دوست کیجئے اور خود دوستی نبھایئے۔

ساتھیو!

جو نئی قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ملک کا ہر نوجوان خود کو جان سکے، اپنے من کو ٹٹول سکے۔ نرسری سے لے کر پی ایچ ڈی تک تغیر پذیر تبدیلیاں اسی ارادے کے ساتھ کئے گئے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ پہلے  خود اعتمادی، ہمارے طلباء میں ایک بہت بڑی ضرورت ہونی چاہئے۔ خود اعتمادی تب ہی آتی ہے، جب اپنے لیے فیصلے لینے کی اس کو تھوڑی آزادی ملے، اس کو لچک ملے۔ بندھنوں میں جکڑا ہوا جسم اور کھانچے میں ڈھلا ہوا دماغ کبھی پیداواری نہیں ہوسکتا۔یاد رکھئے، سماج میں ایسے لوگ بہت ملیں گے، جو تبدیلی کے مخالفت کرتے ہیں۔وہ مخالفت اس لیے کرتے ہیں، کیونکہ وہ پرانے ڈھانچے کے ٹوٹنے سے ڈرتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ تبدیلی صرف خلل لاتی ہے، منقطع کرتی ہے۔ وہ نئی تعمیر کے امکانات پر غور ہی نہیں کرتے۔ آپ نوجوان ساتھیوں کو ایسے ہر ڈر سے خود کو باہر نکالنا ہے۔ اس لئے میرا لکھنؤ یونیورسٹی کے آپ سبھی اساتذہ ، آپ سبھی نوجوان ساتھیوں سے یہی درخواست رہے گی کہ اس نئی قومی تعلیمی پالیسی پر خوب چرچا کریں، تبادلہ خیال کریں، مذاکرہ کریں، بحث کریں، بات چیت کریں۔ اس کے تیزی  سے نفاذ پر پوری قوت کے ساتھ کام کریں۔ ملک جب آزادی کے 75 برس پورے کرے گا،  تب تک نئی تعلیمی پالیسی مکمل طورپر عملی و تحریری طورپر ہمارے تعلیمی نظام کر حصہ بنے۔آئیے‘‘ویے راشٹرے جاگریام پوروہتا’’ اس کہاوت کو پورا کرنے کے لئے جٹ جائیں۔آیئے ہم ماں بھارتی کے ترقی کے لئے، اپنے ہر مقصد کو اپنے کرموں سے پورا کریں۔

ساتھیو!

1947ء سے لے کر 2047ء آزادی کے سوسال آئیں گے، میں لکھنؤ یونیورسٹی سے درخواست کروں گا، اس کے پالیسی سازوں سے درخواست کروں گا کہ پانچ  دن، سات دن الگ الگ سے ٹولیاں بناکر کے منتھن کیجئے اور 2047ء ، جب  ملک آزادی کے 100 سال منائے گا، تب لکھنؤ یونیورسٹی کہاں ہوگی، تب لکھنؤ یونیورسٹی نے آنے والے 25 سال میں ملک کو کیا دیا ہوگا، ملک کی کون سی ایسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لکھنؤ یونیورسٹی کام کرے گی۔ بڑے عزم کے ساتھ ، نئے حوصلے کے ساتھ جب آپ صد سالہ منا رہے ہیں ، تو گزرے ہوئے دنوں کی کہانیاں آنے والے دنوں کی مشعل راہ بننی چاہئے، آنے والے دنوں کے لئے پگڈنڈی بننی چاہئے اور تیز رفتار سے آگے بڑھنے کی نئی توانائی ملنی چاہئے۔

یہ تقریب 100 کے اعداد پر محدود نہ رہے، یہ تقریب آنے والے آزادی کے 100 سال جب ہوں گے، تب تک کے 25 سال کے روڈ میپ کو حاصل کرنے کا بنے  اور لکھنؤ یونیورسٹی کے مزاج میں ہونا چاہئے کہ ہم 2047ء تک جب دیش کی آزادی کے 100 سال ہوں گے، ہماری یہ یونیورسٹی ملک کو یہ دے گی اور کسی یونیورسٹی سے 25 سال کی کام کے مدت ملک کے لئے نئی اونچائیوں پر لے جانے کے لئے سونپ  دیتی ہے، کیا کچھ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں، یہ آج پچھلے 100 برس کی تاریخ گواہ ہے، 100 برس کی لکھنؤ یونیورسٹی میں سب نے جو وقت گزارا ہے، جو کامیابی حاصل ہوئی ہیں،  وہ اس کی گواہ ہیں اور اس لئے میں آج آپ سے درخواست کروں گا ، آپ من میں 2047ء کے عہد کو لے کر آزادی کے 100 تک کسی شخص کی زندگی میں میں یہ دوں گا، یونیورسٹی کی شکل میں ہم یہ دیں گے، دیش کو آگے بڑھانے میں ہمارا یہ کردار ہوگا۔اسی عہد کے ساتھ آپ آگے بڑھیں۔ میں آج پھر ایک بار ، اس صد سالہ تقریب کے موقع پر مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے مابین آنے کا مجھے موقع ملا، میں آپ کا بہت بہت شکریہ گزار ہوں۔

شکریہ!

 

********

م ن۔ا ع۔ن ع

 (U: 7561)



(Release ID: 1676006) Visitor Counter : 337