وزیراعظم کا دفتر
جواہر لعل یونیورسٹی کیمپس میں سوامی وویکانند کی مورتی کی رونمائی کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
12 NOV 2020 9:05PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 12 نومبر، آغاز میں، میں تمام نوجوانوں سے ایک نعرہ لگانے کی گزارش کروں گا، آپ میرے ساتھ ضرور بولیں۔ میں کہوں گا سوامی وویکانند۔ آپ کہیے امر رہیں، امر رہیں۔
سوامی وویکانند۔ امر رہیں، امر رہیں۔ سوامی وویکانند۔ امر رہیں، امر رہیں۔
ملک کے وزیرتعلیم، ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک جی، جے این یو کے وائس چانسلر پروفیسر جگدیش کمار جی، پر وائس چانسلر پروفیسر آر پی سنگھ جی، آج کے ای اس تقریب کو حقیقی بنناے والے جے این یو کے سابق طالب علم ڈاکٹر منوج کمار جی، مجمسہ ساز جناب نریش کماوت جی، مختلف مقامات سے وابستہ فیکلٹی ممبران اور اس پروگرام سے بڑی تعداد میں جڑے میرے تمام نوجوان ساتھیو۔ میں اس اہم موقع پر جے این یو انتظامیہ، تمام اساتذہ اور طلباکو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
سوامی وویکانند کہتے تھے۔ "مورتی میں یقین کا راز یہ ہے کہ آپ اس چیز سے 'الوہیت کا تصور' پیدا کرتے ہیں۔" میری امید ہے کہ جے این یو میں سوامی جی کا یہ مجسمہ سب کو تحریک دے گا، یہ مجسمہ وہ جرأت دے گا جسے سوامی وویکانند ہر شخص میں دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ مجسمہ ہمدردی سکھائے، جو سوامی جی کے فلسفے کا محور ہے۔
یہ مجسمہ ہمیں قوم کے تئیں بے پناہ لگن سکھائے، پیار سکھائے، ہمارے ملک سے شدید محبت کا درس دے جو سوامی جی کی زندگی کا سب سے اعلیٰ پیغام ہے۔ یہ مجسمہ اتحاد کے وژن کے لیے قوم کو تحریک دے، جو سوامی جی کے فکر کی تحریک ہے۔ یہ مجسمہ نوجوانوں کے زیرقیادت ترقی کے وژن کے ساتھ ملک کو آگے بڑھانے کی ترغیب دے جو سوامی جی کی امید رہی ہے۔ یہ مجسمہ ہمیں سوامی جی کے ایک مضبوط اور خوشحال بھارت کے خواب کو سچ بنناے کی تحریک دیتا رہے۔
ساتھیو،
یہ صرف مجسمہ نہیں ہے بلکہ اس خیال کی بلندی کی علامت ہے، جس کے بل پر ایک سنیاسی نے بھارت کو پوری دنیا سے متعارف کرایا۔ ان کے پاس ویدانت کا وسیع علم تھا۔ ان کے پاس ایک وژن تھا۔ وہ جانتے تھے کہ بھارت دنیا کو کیا دے سکتا ہے۔ وہ بھارت کے عالمی بھائی چارے کا پیغام لے کر دنیا گئے۔ انہوں نے بھارت کی ثقافتی شان و شوکت کو، تصورات کو، روایات کو دنیا کے سامنے رکھا۔ فخر سے رکھا۔
آپ کو لگتا ہے کہ جب چاروں طرف مایوسی تھی، ہم غلامی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، تب سوامی جی نے امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی میں کہا تھا، اور یہ بات پچھلی صدی کے آغاز میں کہی گئی تھی۔ انہوں نے کیا کہا؟ مشی گن یونیورسٹی میں بھارت کا ایک سنیاسی اعلان بھی کرتا ہے، فلسفہ بھی پیش کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں۔ یہ صدی آپ کی ہے۔ یعنی، پچھلی صدی کے آغاز میں، ان کے الفاظ ہیں۔ "یہ صدی آپ کی ہے، لیکن اکیسویں صدی یقیناً بھارت کی ہوگی۔" پچھلی صدی میں ان کے الفاظ درست ثابت ہوئے، اس صدی میں ان کے الفاظ کو درست ثابت کرنا ہے، یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔
بھارتیوں کے اسی خود اعتمادی، اسی جذبے کو یہ مجسمہ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ مجسمہ جیوتی پنج کا فلسفہ ہے جس نے طویل غلامی کے دور میں خود کو، اپنی طاقت کو، اپنی شناخت کو فراموش کیے ہوئے بھارت کو بیدار کیا تھا، جگانے کا کام کیا تھا۔ بھارت میں نئے شعور کی لہر دوڑائی تھی۔
ساتھیو،
آج ملک آتم نربھر بھارت کے مقصد اور عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج آتم نربھر بھارت کا نظریہ 130 کروڑ سے زیادہ بھارتیوں کے اجتماعی شعور کا، ہماری امنگوں کا حصہ بن گیا ہے۔ جب ہم آتم نربھر بھارت کی بات کرتے ہیں تو مقصد صرف طبیعی یا مادی خود کفیلی تک محدود نہیں ہوتا۔ خود کفیلی کے معنی بھی وسیع ہیں، دائرہ بھی وسیع ہے، اس میں گہرائی بھی ہے، اونچائی بھی ہے۔ خوف کفیل قوم اسی وقت تشکیل پاتی ہے جب وہ وسائل کے ساتھ ساتھ فکر و ثقافت میں بھی خود کفیل ہوجائے۔
ایک بار بیرون ملک کسی نے سوامی جی سے پوچھا تھا، "آپ ایسے کپڑے کیوں نہیں پہنتے ہیں جس سے جنٹلمین دکھائی دیں؟" اس پر سوامی جی کا جواب بھارت کی خود اعتمادی کی گہرائی، بھارت کی اقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ سوامی جی نے ان صاحب سے نہایت نرمی کے ساتھ جواب دیا کہ۔ آپ کی ثقافت میں ایک درزی جنٹلمین بناتا ہے، لیکن ہماری ثقافت میں کردار یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون جنٹلمین ہے۔ خود کفیلل سوچ اور ثقافت کی تعمیر یہ کیمپس کرتے ہیں، آپ جیسے نوجوانوں ساتھی بناتے ہیں۔
ساتھیو،
ملک کا نوجوان ہی دنیا بھر میں برانڈ انڈیا کے برانڈ سفیر ہیں۔ ہمارے نوجوان بھارت کی ثقافت اور روایات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لہذا، آپ سے توقع ہزاروں برسوں سے جاری بھارت کی قدیم شناخت پر فخر کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اکیسویں صدی میں بھارت کی ایک نئی شناخت بنانے کی بھی ہے۔ ماضی میں ہم نے دنیا کو جو کچھ دیا ہے اسے یاد رکھنے اور بتانے سے ہماری خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی خود اعتمادی کے بل پر ہمیں مستقبل پر کام کرنا ہے۔ بھارت اکیسویں صدی کی دنیا میں اپنا کیا حصہ ڈالے گا، اس کے لیے اختراع کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
ساتھیو،
ہمارے نوجوان ساتھی جو ملک کی پالیسی اور منصوبہ بندی کی اہم کڑی ہیں، ان کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بھارت کی خود کفیلی کا مطلب کیا اپنے آپ ہی مگن رہنا ہے؟ تو اس کا جواب سوامی وویکانند کے افکار میں ملے گا۔ کسی نے ایک بار سوامی جی سے پوچھا کہ کیا ایک سنت کو اپنے ملک کے بجائے تمام ممالک کو اپنا نہیں ماننا چاہیے؟ اس پر، سوامی جی نے جواب دیا کہ جو شخص اپنی ماں کو پیار اور سہارا نہیں دے سکتا، وہ دوسروں کی ماؤں کی فکر کیسے کرسکتا ہے؟ لہذا ہماری خود کفیلی پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے ہے اور ہم اسے کرکے دکھا رہے ہیں۔ جب جب بھارت کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے تب تب دنیا نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بھارت کی خود کفیلی سے 'آتم وت سر بھتیشو' کا احساس وابستہ ہے، پوری دنیا کی فلاح و بہبود کی سوچ وابستہ ہے۔
ساتھیو،
آج خود کفیلی کے احساس کے ساتھ ہر شعبے میں بے مثال اصلاحات کی جارہی ہیں۔ ملک کے عوام نے ووٹوں کے وسیلے سے ان اصلاحات کی حمایت بھی کی ہے۔ آپ سب جے این یو میں بھارت کے معاشرتی اور سیاسی نظام کا سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ بھارت میں اصلاحات کے بارے میں کیا کچھ باتیں ہوا کرتی تھیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بھارت میں اچھی اصلاحات کو بری سیاست سمجھا جاتا تھا؟ پھر اچھی اصلاحات، اچھی سیاست کیسے ہوگئیں؟
اس پر آپ جے این یو کے ساتھی ضرور تحقیق کریں۔ لیکن تجربے کی بنیاد پر، میں یقینی طور پر آپ کے سامنے ایک پہلو رکھوں گا۔ آج، نظام میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں، اس کے پیچھے، بھارت کو ہر اعتبار سے بہتر بنانے کا عزم ہے۔ آج ہونے والی اصلاحات میں نیت صاف ہے اور وفاداری کا جذبہ ہے۔ آج جو اصلاحات کی جارہی ہیں ان سے پہلے ایک حفاظتی ڈھال تیار کی جارہی ہے۔ اس ڈھال کی سب سے بڑی اساس ہے اعتماد، بھروسا۔ اب، مثال کے طور کاشت کار نواز اصلاحات۔ اسی کی بات کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں تک، کاشت کار سیاسی مباحثے کا ہی موضوع بنا رہا تاہم زمینی طور پر اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات محدود تھے۔
پچھلے پانچ چھ برسوں میں ہم نے کاشت کاروں کے لیے ایک حفاظتی ڈھال تیار کی۔ آب پاشی کا بہتر بنیادی ڈھانچہ ہو، منڈیوں کی جدید کاری پر سرمایہ کاری ہو، یوریا کی دستیابی ہو، سوئل ہیلتھ کارڈز ہوں، بہتر بیج ہوں، فصلوں کا بیمہ ہو، لاگت کا ڈیڑھ گنا کم سے کم امدادی دام ہو، آن لائن مارکیٹ کا انتظام ای-نام ہو، اور وزیر اعظم سمان ندھی فنڈ سے براہ راست مدد ہو۔ گذشتہ برسوں کے دوران، ایم ایس پی میں بھی کئی بار اضافہ کیا گیا، اور کاشت کاروں سے ریکارڈ خریداری بھی کی گئی۔ جب کاشت کاروں کے ارد گرد یہ حفاظتی ڈھال بن گئی، جب ان میں اعتماد بیدار ہوا، تب ہم نے زرعی اصلاحات کو آگے بڑھایا۔
پہلے کاشت کاروں کی توقعات پر عمل کیا گیا اور اب کاشت کاروں کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ اب کاشت کاروں کو مارکیٹ میں روایتی ذرائع سے زیادہ اختیارات مل رہے ہیں۔ جب زیادہ اختیارات میسر ہوتے ہیں تو خریداروں میں مقابلہ بھی بڑھتا ہے، جس کا فائدہ براہ راست کاشت کار کو ہوگا۔ اصلاحات کی وجہ سے، اب کاشت کاروں کے لیے کاشت کار پروڈیوسر ایسوسی ایشن یعنی ایف پی او کے ذریعہ براہ راست برآمد کرنے کا راستہ بھی صاف ہوا ہے۔
ساٹھیو،
کاشت کاروں کے ساتھ ساتھ غریبوں کے مفاد میں کی جانے والی اصلاحات لیے بھی یہی راستہ اپنایا جا رہا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک، غریبوں کو صرف نعروں میں ہی رکھا گیا۔ لیکن سچائی یہ تھی کہ ملک کے غریبوں کو کبھی نظام سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جس کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا وہ غریب تھا۔ جو سب سے زیادہ کٹا ہوا تھا وہ غریب تھا۔ جو سب سے زیادہ مالی طور پر خارج تھا وہ غریب تھا۔ اب پکا مکان، بیت الخلا، بجلی، گیس، پینے کا صاف پانی، ڈجیٹل بینکنگ، سستے موبائل رابطے اور تیز رفتار انٹرنیٹ کنیکشن کی سہولیات دوسرے شہریوں کی طرح غریبوں تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ یہ غریبوں کے گرد بنی گئی وہ حفاظتی ڈھال ہے، جو اس کی امنگوں کی پرواز کے لیے ضروری ہے۔
ساتھیو،
ایک اور اصلاح جو سیدھے آپ پر، جے این یو جیسے ملک کے کیمپس پر براہ راست اثر ڈالتی ہے، وہ نئی قومی تعلیمی پالیسی ہے۔ اس نئی قومی تعلیمی پالیسی کی بنیادی اقدار ہی نوجوانوں کو اعتماد، یقین اور کردار سے بھرپور بھارت کی تشکیل دینا ہیں۔ یہی سوامی جی کا بھی وژن تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں تعلیم ایسی ہو کہ یہ خود اعتمادی دے، اسے ہر لحاظ سے خود کفیل بنائے۔
زندگی کی دو ڈھائی دہائیوں کے بعد، نوجوان ساتھیوں کو جو حوصہ ملتا ہے، وہ اسکول کی زندگی کے آغاز ہی میں کیوں نہیں ملے؟ نوجوانوں کی توانائی کو کتابی علم تک، اسٹریمز کی پابندیوں تک، مارک شیٹ، ڈگری، ڈپلومہ تک ہی کیوں باندھ کر رکھا جائے؟ نئی قومی تعلیمی پالیسی کا فوکس اسی بات ہر سب سے زیادہ ہے۔ شمولیت نئی تعلیمی پالسی کا مغز ہے۔ زبان صرف ایک وسیلہ ہے، علم کا پیمانہ نہیں، یہ اس تعلیمی پالیسی کی روح ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ غریب سے غریب کو، ملک کی بیٹیوں کو، ان کی ضرورت، ان کی سہولت کے مطابق بہتر تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہو۔
ساتھیو،
اصلاحات کا فیصلہ کرنا ہی آپنے آپ میں کافی نہیں ہوتا۔ ہم ان کو کس طرح اپنی زندگی میں متعارف کرتے ہیں، یہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ، ہمارے تعلیمی نظام میں معنی خیز تبدیلی بھی تب ہی تیز رفتار آئے گی جب ہم، آپ سبھی ساتھی مخلصانہ کوششیں کریں گے۔ خاص طور پر، یہ ہمارے اساتذہ کے طبقے، دانشور طبقے کی اعلی ترین ذمہ داری ہے۔ ویسے، ساتھیو، جے این یو کے اس کیمپس ایک بہت ہی مقبول جگہ ہے۔ وہ کون سی جگہ ہے؟ سابرمتی ڈھابہ؟ ہے نا؟ اور وہاں کتنوں کا کھاتہ چل رہا ہے؟ میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ کلاس کے بعد اس ڈھابے پر جاتے ہیں اور چائے پراٹھوں کے ساتھ ساتھ بحث کرتے ہیں، خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ویسے، پیٹ بھرا ہو تو مباحثے میں بھی لطف آتا ہے۔ اب تک آپ کے خیالات، مباحثے، بحث کی بھوک سابرمتی ڈھابے پر مٹتی تھی، اب آپ کو سوامی جی کے اس مجسمے کے سائے میں ایک اور جگہ مل گئی ہے۔
ساتھیو،
ایک چیز جس نے ہمارے ملک کے جمہوری نظام کو بہت نقصان پہنچایا ہے وہ ہے ہمارے قومی مفاد سے زیادہ ترجیح اپنے نظریے کو دینا۔ کیونکہ میرا نظریہ یہ کہتا ہے، لہذا قومی مفاد کے معاملات میں بھی میں اسی سانچے میں سوچوں گا، میں اسی دائرہ کار میں کام کروں گا، یہ راستہ صحیح نہیں ہے، دوستو۔ یہ غلط ہے۔ آج سب کو اپنے نظریے پر فخر ہے۔ یہ فطری بھی ہے۔ لیکن پھر بھی، قومی مفاد کے معاملات میں، ہمارا نظریہ قوم کے ساتھ ہونا چاہیے، قوم کے خلاف نہیں۔
آپ ملک کی تاریخ میں دیکھیے کہ جب بھی ملک کے سامنے کوئی مشکل مسئلہ پیش آیا تو ہر خیال، ہر نظریہ کے حامل لوگ قومی مفاد میں متحد ہوئے ہیں۔ آزادی کی جد وجہد میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہر نظریے کے لوگ اکٹھے ہوئے۔ انہوں نے مل کر ملک کے لیے جدوجہد کی تھی۔
ایسا نہیں تھا کہ باپو کی قیادت میں کسی کو اپنا نظریہ ترک کرنا پڑا ہو۔ اس وقت صورت حال ایسی تھی کہ سب نے ملک کی خاطر مشترکہ کاز کو ترجیح دی۔ اب ایمرجنسی کو یاد کیجیے، ایمرجنسی کے دوران بھی ملک نے اسی یکجہتی کا مشاہدہ کیا۔ اور مجھے اس تحریک کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل ہے، میں نے خود سب کچھ دیکھا تھا، اس کا تجربہ کیا تھا، میں عینی گواہ ہوں۔
ایمرجنسی کے خلاف اس تحریک میں کانگریس کے سابق رہنما اور کارکن بھی شامل تھے۔ آر ایس ایس کے رضاکار اور جن سنگھ کے لوگ بھی تھے۔ سماج وادی بھی تھے۔ کمیونسٹ بھی تھے۔ جے این یو سے وابستہ کتنے ہی لوگ تھے جنھوں نے متحد ہوکر ایمرجنسی کے خلاف جد جہد کی۔ اس یکجہتی میں، اس لڑائی میں بھی کسی کو بھی اپنے نظریے سے سمجھوتہ نہیں کرنا پڑا۔ مقصد صرف ایک تھا۔ قومی مفاد۔ اور یہ سب سے بڑا مقصد تھا۔ لہذا، جب قوم کی سالمیت کا سوال ہو تو اپنے نظریے کے بوجھ تلے فیصلہ لینے سے ملک کو ہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ہاں، میں مانتا ہوں کہ خود غرضی کے لیے، موقع پرستی کے لیے اپنے نظریے پر سمجھوتہ کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے۔ اس انفارمیشن ایج میں، اس طرح کی موقع پرستی اب کامیاب نہیں ہوتی ہے، اور ہم یہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں موقع پرستی سے دور رہنا ہوگا، لیکن جمہوریت میں ایک صحتمند مکالمہ زندہ رکھنا ہے۔
ساتھیو، آپ کے یہاں تو گنگا، سابرمتی، گوداوری، تاپتی، کاویری، نرمدا، جہلم، ستلج جیسے دریاؤں کے نام ہپر آپ کے ہاسٹلز کے نام ہیں۔ ان ندیوں کی طرح، آپ سب بھی ملک کے مختلف حصوں سے آتے ہیں، مختلف نظریات لاتے ہیں، اور یہاں ملتے ہیں۔ خیالات کے اس اشتراک کو، نئے خیالات کے اس بہاؤ کو برقرار رکھنا ہے، کبھی خشک نہیں ہونے دینا ہے۔ ہمارا ملک وہ عظیم سرزمین ہے جہاں مختلف دانشورانہ نظریات کے بیج ابھرے، ترقی ہاتے رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ اس روایت کو مضبوط بنانا آپ جیسے نوجوانوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔ اس روایت کی وجہ سے، بھارت دنیا کی سب سے درخشاں جمہوریت ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کا نوجوان کبھی بھی کسی بھی طرح کے اسٹیسٹس کو کو یوں ہی قبول نہ کرے۔ کوئی کہہ رہا ہے، لہذا اس کو درست مان لو، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ استدلال کیجیے، بحث کیجیے، مباحثہ کیجیے، صحت مند گفتگو کیجیے، غور فکر کیجیے، مذاکرہ کیجیے، تب کسی نتیجے پر پہنچیے۔
سوامی وویکانند جی نے بھی کبھی اسٹیسٹس کو کو قبول نہیں کیا تھا۔ اور ہاں، ایک ایسی چیز جس کے بارے میں میں خصوصی طور پر بات کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہے۔ حس مزاح، آپس میں ہنسی مذاق۔ یہ ہموار کرنے والی ایک بڑی طاقت ہے۔ اپنے اندر مزاح کی حس کو زندہ رکھیں۔ کبھی کبھی تو میں بہت سے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں گویا وہ اتنے بوجھ تلے دبے ہوں، گویا ساری دنیا کا بوجھ ان کے سر پر ہو۔ کئی بار ہم اپنی کیمپس کی زندگی میں، مطالعے میں، کیمپس کی سیاست میں مزاح کو بھول جاتے ہیں۔ لہذا، ہمیں اسے بچاکر رکھنا ہے، حس مزاح کو کھونے نہیں دینا ہے۔
نوجوان ساتھیو، طلبائی زندگی خود کو پنچاننے کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔ اپنی شناخت کرنا زندگی کی ایک بہت اہم ضرورت بھی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ اس موقع کو بھر پور استعمال کیجیے۔ جے این یو کیمپس میں نصب سوامی جی کا یہ مجسمہ یہاں آنے والے ہر نوجوان کو قومی تعمیر ، قومی محبت اور قومی بیداری کی تحریک دیتی رہے۔ اس توقع کے ساتھ آپ سب کے لیے نیک خواہشات!
آپ سب کامیاب ہوں، صحت مند رہیں۔ آنے والے دنوں تہواروں کو بڑی دھوم دھام سے منائیں۔ آپ کے اہل خانہ جو یہاں رہتے ہیں، انہیں بھی اطمینان ہو کہ آپ بھی دیوالی کے ماحول میں اسی خوش مزاجی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس توقع کے ساتھ، آپ سب کو میری طرف سے ڈھیروں نیک خواہشات۔
بہت شکریہ !
(م ن – ع ا)
U-7198
(Release ID: 1672496)
Visitor Counter : 324
Read this release in:
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam