وزیراعظم کا دفتر

ریوا سولر پروجیکٹ کوقوم کےنام وقف کرنے کے موقع پر


وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 10 JUL 2020 12:22PM by PIB Delhi

مدھیہ پردیش کی گورنرمحترمہ آنندی بین پٹیل جی،

مدھیہ پردیش کے عوام دوست  وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ جی،

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی آر کے سنگھ،

تھاور چند گہلوت جی، نریندر سنگھ تومر جی، دھرمیندر پردھان جی، پرہلاد سنگھ پٹیل جی، مدھیہ پردیش کابینہ کے معزز ممبران، اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی۔

ریوا سمیت پورے مدھیہ پردیش کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔ آج ریوا نے واقعی تاریخ رقم کی ہے۔ ریوا کی پہچان ماں نرمدا کے نام سے اور سفید باگھ سے رہی ہے۔

اب اِس میں ایشیا کے سب سے بڑے سولر پاور پروجیکٹ کا نام بھی جڑ گیا ہے۔ اس کا آسمان سے لیا گیا ویڈیو آپ دیکھتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ کھیتوں میں ہزاروں سولر پینل فصل بن کر لہلہا رہے ہیں یا ایسا بھی لگتا ہے کہ کسی گہرے سمندر کے اوپر سے گزر رہے ہیں، جس کا پانی بہت نیلا ہے۔ اس کے لئے میں ریوا کے لوگوں کو ، مدھیہ پردیش کے لوگوں کو، بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ریوا کا یہ سولر پلانٹ اس پورے خطے کو، اس دہائی میں توانائی کا بہت بڑا مرکز بنانے میں مدد کرے گا۔ اس سولر پلانٹ سے مدھیہ پردیش کے لوگوں کو، یہاں کی صنعت کو تو بجلی ملے گی ہی، دلی میں میٹرو ریل تک کو اس کا فائدہ ملے گا۔

اس کے علاوہ ریوا کی ہی طرح شاجاپور، نیمچ اور چھترپور میں بھی بڑے سولر پاور پلانٹ پر کام چل رہا ہے۔ اونکریشور ڈیم پر تو پانی میں تیرتا ہوا سولر پلانٹ لگانے کا منصوبہ ہے۔ یہ تمام پروجیکٹ جب تیار ہو جائیں گے، تو مدھیہ پردیش یقینی طور سے سستی اور صاف ستھری بجلی کا مرکز بن جائے گا۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ مدھیہ پردیش کے غریب، مڈل کلاس کے کنبوں کو ہوگا، کسانوں کو ہوگا اور آدیواسیوں کو ہوگا۔

ساتھیو، ہماری روایت میں، ہماری تہذیب میں، ہماری زندگی میں سورج  پوجا کا ایک خاص مقام ہے۔ پُناتو ماں تتس وِتُر ورینیم یعنی جو پوجا کے لائق سورج دیو ہیں، وہ ہمٰیں پاک کریں۔ طہارت کا یہی احساس آج یہاں ریوا میں ، ہر جگہ پر ہو رہی ہے؟ سوریہ دیو کی اِسی توانائی کا آج پورا ملک مشاہدہ کر رہا ہے۔ یہ انہیں کی برکت ہے کہ ہم سولر پاور کے معاملے میں دنیا کے اول 5 ملکوں میں شامل ہو گئے ہیں۔

ساتھیو، شمسی توانائی  آج کی ہی نہیں، بلکہ 21ویں صدی کی توانائی کی ضرورتوں کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہونے والا ہے، کیونکہ شمسی توانائی، Sureہے، Pureہے اور Secure ہے۔ سیور اس لئے ہے، کیونکہ توانائی کے، بجلی کے، دوسرے ماخذ ختم ہو سکتے، لیکن سورج  صدا، پوری دنیا میں ہمیشہ ہی چمکتا رہے گا۔ پیور، اس لئے، کیونکہ یہ ماحولیات کو آلودہ کرنے کے بجائے اُس کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ سکیور، اس لئے، کیونکہ یہ  خودانحصاری کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔  بہت بڑا فیض ہے، یہ ہماری توانائی کی ضرورتوں کو بھی محفوظ  کرتا ہے۔ جیسے جیسے ملک ترقی کی نئی اونچائیوں کو چھو رہا ہے، ہماری امیدیں اور آرزوئیں بڑھ رہی ہیں، ویسے ویسے ہماری توانائی کی، بجلی ضرورتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔

ایسے میں خودانحصار بھارت کیلئے بجلی  کی خودمختاری بہت ضروری ہے۔ اس میں شمسی توانائی ایک بہت اہم کردار ادا کرنے والا ہے اور ہماری کوشش بھارت کے اسی طاقت کو وسعت دینے کی ہے۔

ساتھیو، جب ہم اپنی قوت اور صلاحیتوں پر بھروسے کی بات کرتے ہیں ، ترقی کی بات کرتے ہیں، تو معیشت  کا بھی اس میں ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ پوری دنیا کے پالیسی ساز برسوں سے پش و پیش میں ہیں کہ معیشت کے سلسلے میں سوچیں یا ماحولیات کی فکر کریں۔ اسی تذبذب میں   فیصلے کہیں معیشت کے حق میں لئے جاتے ہیں اور کہیں ماحولیات کے حق میں لئے جاتے ہیں، لیکن بھارت نے یہ دکھایا ہے کہ یہ دونوں  متضاد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے شریک ہیں۔

سووچھ بھارت ابھیان ہو، ہر کنبے کو ایل پی جی اور پی این جی جیسے صاف ستھرےایندھن سےجوڑنے کی مہم ہو، پورے ملک میں سی این جی پر مبنی گاڑی کے نظام کیلئے بڑا نیٹ ورک بنانے کا کام ہو، ملک میں بجلی پر مبنی گاڑیوں کیلئے ہونے والی کوششیں ہوں، ایسی بہت سی کوششیں ہیں، جو عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے اور ماحولیات دوست بنانے کیلئے کئے جا رہے ہیں۔ بھارت کیلئے معیشت اور ماحولیات دو الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے  کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔

ساتھیو، آج آپ دیکھیں گے کہ سرکار کے جتنے بھی پروگرام ہیں، اُن میں ماحولیات کا تحفظ اور گزربسر کو آسان بنانے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ہمارے لئے ماحولیات کا تحفظ صرف کچھ پروجیکٹس تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ  طریقہ ٔ حیات ہے۔ جب ہم قابل تجدید توانائی کے بڑے پروجیکٹس لانچ کر رہے ہیں، تب ہم یہ بھی یقینی کر رہے ہیں کہ صاف ستھری توانائی کے تئیں ہمارا عہد زندگی کے ہر پہلو میں دکھے۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا فائدہ ملک کے ہر کونے، سماج کے ہرطبقے، ہر شہری تک پہنچے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔

ساتھیو، گزشتہ 6برس میں تقریباً 36 کروڑ ایل ای ڈی بلبس پورے ملک میں تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ ایل ای ڈی ملک بھر میں اسٹریٹ لائٹس میں لگائے گئے ہیں۔ سننے میں تو یہ بہت عام سی بات محسوس ہوتی۔ایسا اس لئے لگتا ہے، کیونکہ عام طور پر جب کوئی سہولت ہم کو ملتی ہے، تو اس کے اثر یا اس کے ہونے اور نہ ہونے کی بات ہم زیادہ نہیں کرتے۔ اس طرح کی بات چیت تبھی ہوتی ہے، جب وہ چیز ہمارے پاس نہیں ہوتی ہے۔

ساتھیو، یہ چھوٹا سا دودھیا ایل ای ڈی بلب جب نہیں تھا، تو اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی، لیکن قیمت پہنچ سے با ہر تھی۔ بکتا نہیں تھا، تو بنانے والے بھی نہیں تھے۔ تو 6سال میں کیا کیا تبدیلی آئی؟ ایل ای ڈی بلب کی قیمت قریب 10 گنا کم ہو گئی، کئی کمپنیوں کے بلب بازار میں آ گئے اور جو کام پہلے 100-200 واٹ کے بلب کرتے تھے، وہ اب 9-10واٹ کے بلب کرنے لگے ہیں۔ گھروں اور گلیوں میں ایل ای ڈی لگانے بھر سے ہی، ہر سال تقریباً 600 ارب یونٹ بجلی کا استعمال کم ہو رہا ہے اور لوگوں کو روشنی بھی اچھی مل رہی ہے۔ اتنا ہی ن ہیں، ہر سال تقریبا 24 ہزار کروڑ روپئے کی بچت ملک کے لوگوں کو ہو رہی ہے۔ یعنی ایل ای ڈی بلب سے بجلی کا بل کم ہوا ہے۔ اس کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ ایل ای ڈی بلب سے تقریباً ساڑھے 4 کروڑ ٹن کم کاربن ڈائی آکسائڈ ماحولیات میں جانے سے رُک رہی ہے، یعنی آلودگی کم ہو رہی ہے۔

ساتھیو، بجلی سب تک پہنچے، بھرپور پہنچے۔ ہمارا ماحول، ہماری ہوا، ہمارا پانی بھی صاف بنا رہے، اسی فکر کے ساتھ ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ یہی فکر شمسی توانائی کے تئیں ہماری پالیسی اور حکمت عملی  میں بھی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ آپ سوچئے، 2014 میں شمسی توانائی کی قیمت 7-8 روپے فی یونٹ ہوا کرتی تھی۔ آج یہی قیمت سوا 2 سے ڈھائی روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ صنعتوں کو مل رہا ہے، ملازمت کی تخلیق میں مل رہا ہے، ملک کے باشندوں کو مل رہا ہے۔ ملک ہی نہیں پوری دنیا میں اس  بات کا ذکر ہے کہ بھارت میں شمسی توانائی اتنی سستی کیسے ہے۔ جس طرح سے ملک میں شمسی توانائی پر کام ہو رہا ہے، یہ بحث اور بڑھنے والی ہے۔ ایسے ہی بڑے اقدامات کی وجہ سے بھارت کو کلین انرجی کا سب سے جاذب بازار تسلیم کیاجارہاہے۔ آج جب قابل تجدید توانائی کی طرف ٹرانزیشن کے تئیں دنیا میں بات ہوتی ہے، تو اس میں بھارت کو ماڈل کے طور پردیکھاجاتا ہے۔

ساتھیو، دنیا کی انسانیت کی، بھارت سے اسی امید،  اسی توقع کے پیش نظر ، ہم پوری دنیا کو جوڑنے میں مصروف ہیں۔ اسی سوچ کا نتیجہ اے آئی ایس اے یعنی بین الاقوامی شمسی اتحاد ہے۔ ون ورلڈ ، ون سن ، ون گرڈ کے پیچھے یہی احساس ہے۔ یہ کوشش ہے کہ شمسی توانائی کے بہتر پیداوار اور استعمال کے لئے پوری دنیا کو اکٹھا کیا جائےتاکہ ہماری زمین کے سامنے کھڑے ہوئے بڑے بحران کو کم کیا جاسکے اور چھوٹے سے چھوٹے، غریب سے غریب ملک کی بجلی کی ضرورت پوری ہو سکے۔

دوستو، ایک طرح سے شمسی توانائی نے عام صارفین کو بھی نتیجہ خیز بنا دیا ہے ، اور مکمل طور پر بجلی کے بٹن پر کنٹرول فراہم کیا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے باقی ذرائع میں عام لوگوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن ، شمسی توانائی میں،تو چاہے وہ گھر کی چھت ہو ، دفتر کی چھت ہو یا فیکٹری ، کہیں بھی بہت کم جگہ ہو، اس میں عام لوگ بھی اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے حکومت بھاری مراعات دے رہی ہے ، مدد بھی کررہی ہے۔ ہمارااَنّ داتا بھی بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کی اس مہم میں شامل ہو رہا ہے۔

دوستو، آج ہمارا کسان اتنا قابل ہے، اتنا وسائل والا ہے کہ آج وہ ایک نہیں ، بلکہ دو قسم کے پودوں سے ملک کی مدد کررہا ہے۔ ایک پودا وہ ہے جو روایتی کھیتی باڑی کرتا ہے، ہم سب کو کھانا ملتا ہے ، لیکن اب ہمارے کسان بھی دوسری طرح کے پودے لگارہے ہیں،تاکہ ان کے گھروں تک بجلی بھی پہنچ جائے۔ پہلا پودا ، جو روایتی کھیتی باڑی ہے ، ہمارے کسانوں نے ایسی زمین پر لگایا ہے جو زرخیز ہے۔ لیکن یہ ایک اور شمسی توانائی کا پلانٹ ہے ،یہ ایسی زمین پر بھی لگایا جائے گا جو زرخیز نہیں ہے ، فصل کے معاملے میں یہ اچھا نہیں ہے۔ یعنی کسان کی زمین جہاں فصل نہیں اگا سکتی ، وہ بھی استعمال ہوگی ، اس سے کسان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔

کُسم اسکیم کے ذریعہ آج کسانوں کو اضافی زمین پر ایسے شمسی پلانٹ لگانے میں کاشتکاروں کی مدد کی جارہی ہے۔ شمسی توانائی جو کھیتوں میں پیدا ہوگی ، ہمارے کسان بھی اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں گے اور اضافی بجلی فروخت کرنے کے بھی اہل ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ مدھیہ پردیش کے کسان ساتھی بھی اضافی آمدنی کے اس ذرائع کو اپنانے اور ہندوستان کو پاور ایکسپورٹر بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر مہم چلائیں گے۔ یہ اعتقاد اس لئے زیادہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے کسانوں نے اپنے عہد کو  پورا کر کے دکھایا ہے۔ آپ نے جو کام کیا ہے وہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جس طرح آپ نے گندم کی پیداوار کا ریکارڈ قائم کیا ، دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیا ، وہ قابل تعریف ہے۔ آپ کی کورونا کے اس مشکل وقت میں مدھیہ پردیش کے کسانوں کی طرف سے ریکارڈ توڑ خریداری کی بھی تعریف کی گئی ہے ، جسے مدھیہ پردیش کی حکومت نے ریکارڈ توڑ خریداری کی ہے۔ لہذا ، مجھے بجلی کی پیداوار کے معاملے میں بھی مدھیہ پردیش کی طاقت پر پورا پورا اعتماد ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ایک دن ایسی خبر بھی آئے گی کہ مدھیہ پردیش کے کسانوں نے کسم اسکیم کے تحت ریکارڈ بجلی پیدا کی ہے۔

بھائیو اور بہنو، ہم شمسی توانائی  کو ہم تب تک پوری طرح سے استعمال نہیں کر پائیں گے، جب تک ہمارے ملک میں ہی بہتر سولر پینل ، بہتر بیٹری اور ملک میں بہتر معیار کی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہو۔  اب اس سمت میں تیزی سے کام جاری ہے۔ ملک کا مقصد اب خود کفیل ہندوستان مہم کے تحت شمسی پینل سمیت تمام سامان کی درآمد پر انحصار ختم کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں شمسی پی وی ماڈیول مینوفیکچرنگ کی گنجائش کو مزید تیزی سے بڑھانا ہے۔ لہذا ، گھریلو مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لئے کئی اہم اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ابھی تک ، ہندوستان میں ، کسم اسکیم کے تحت لگائے جانے والے پمپوں اور گھروں میں چھت کے اوپر والے پینلز میں سولر فوٹو وولٹیک سیل اور ماڈیول ضروری کر دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ، جو بھی سرکاری سیل اور دیگر سرکاری ادارے سولر سیل یا ماڈیول خریدیں گے ، یہ میک ان انڈیا ہی ہو ، اس کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں ، بجلی گھروں میں لگانے والی کمپنیوں کو سولر پی وی مینوفیکچرنگ بھی کرنی چاہئے ، اس کی بھی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

 میرا آج، اس شعبے سے وابستہ کاروباریوں سے، نوجوان دوستو سے، اسٹارٹ اپس سے ، ایم ایس ایم ایز سے اپیل ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔  بھائیو اور بہنو، خود انحصاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم پر اعتماد ہوں۔ اعتماد تب ہی ملتا ہے جب پورا ملک ، پورا نظام ملک کی حمایت کرتا ہو۔ کورونا بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے بیچ بھارت یہی کر رہا ہے ، یہی حکومت اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج ، حکومت کے وسائل اور حمایت دونوں معاشرے کے ان طبقوں تک پہنچ رہے ہیں جن تک حکومتیں اکثر نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ اب جیسے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کو ہی لے لیجئے۔ لاک ڈاؤن کے فورا بعد پہلا قدم یہ اٹھایا گیا تھا کہ ملک کے 80 کروڑ سے زیادہ غریب ساتھیوں تک مفت کھانا پہنچ سکے، ان کی جیب میں کچھ رقم بھی رہے۔ اس کے بعد جب لاک ڈاؤن کو ختم کیا گیا تو حکومت کو لگا کہ آنے والا وقت بارش اور تہوار کا ہے۔ ایسی صورت میں غریبوں کو یہ مدد ملتی رہنی چاہئے، اس لئے یہ اسکیم جاری رکھی گئی ۔ اب غریب کنبوں کو نومبر تک مفت راشن ملتا رہے گا۔

صرف یہی نہیں، نجی سیکٹر کے لاکھوں ملازمین کے ای پی ایف اکاؤنٹ میں بھی  حکومت بھر پور تعاون دے رہی ہے۔ اسی طرح ، پی ایم سوانیدھی اسکیم کے ذریعے  سے اُن ساتھیوں کی خبرگیری کی گئی، جن کو سسٹم تک سب سے  کم پہنچ ہوتی ہے۔ آج ، اس اسکیم سےریہڑی، ٹھیلہ لگانے والے لاکھوں ساتھیوں کو 10 ہزار روپے تک کے  سستے قرض بینک سے ملنے لگے ہیں۔ ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ساتھی، اپنے چھوٹے سے کاروبار کو بچا سکیں، چلا سکیں،ایسا اس سے  پہلے کب سوچا گیا تھا؟ یعنی ، ایک طرف ، چھوٹی، بہت چھوٹی،گھریلو صنعتیں اور بڑی صنعتوں کے بارے میں سوچا گیا، تو دوسری طرف ان چھوٹے، لیکن ہمارے لئے انتہائی ضروری کاروباریوں  کی بھی فکر کی گئی۔

دوستو ، حکومت ہو یا معاشرہ، ہمدردی اور چوکسی اس مشکل چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہمارے لئے سب سے بڑے ترغیب کا ذریعہ ہیں۔ آج جب مدھیہ پردیش کو، پورے ملک کو آگے بڑھانے کے لئے گھر سے باہر نکل رہے ہیں،  تو اپنی ایک اور ذمہ داری ہمیشہ یاد رکھئے۔ دو گز کی دوری ، چہرے پر ماسک اور ہاتھ کو20 سیکنڈ تک صابن سے دھلنا،ان اصولوں پر ہمیں ہمیشہ عمل کرنا ہے۔ ایک بار پھر،آپ کو بہت بہت مبارکباد۔ آپ ہوشیار رہیں،سلامت رہیں،صحتمند رہیں۔ بہت بہت شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

م ن۔اگ۔ک ا۔

(10-07-2020)

U- 3814

                      



(Release ID: 1637741) Visitor Counter : 395