وزیراعظم کا دفتر

آئی سی سی کے 95 ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کااصل متن

Posted On: 11 JUN 2020 12:54PM by PIB Delhi

نمشکار! امیدکرتا ہوں کہ  آپ سب بخیر ہوں گے ۔  95 برسوں  سے  لگاتار  ملک کی خدمت کرنا ، کسی بھی ادارے یا تنظیم کےلئے اپنے آپ   میں بہت بڑی بات ہوتی ہے۔

 آئی سی سی نے مشرقی بھارت اور شمال مشرق کی ترقیات میں جو تعاون دیا ہے، بطور  خاص وہاں کی مینوفیکچرنگ اکائیوں کو ، وہ بھی تاریخی ہے، آئی سی سی کے لئے اپنا تعاون دینے والے آ پ تمام لوگوں کا ، ہر ایک شخص کا میں خیر مقدم کرتا ہوں۔

ساتھیو!  آئی سی سی نے 1925 میں اپنی تشکیل کے بعد سے آزادی کی لڑائی کو دیکھا ہے، زبردست  قحط اور  اناج  کی قلت کو دیکھا ہے اور بھارت کی ترقی کے راستے  کا بھی  آپ حصہ رہے ہیں۔ اب اس بار کی یہ  اے جی ایم ، ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے، جب ہمارا ملک  کثیر النوع  چنوتیوں کو  چنوتی دے رہا ہے۔ کورونا وائرس سے پوری دنیا لڑ رہی ہے، بھارت بھی لڑ رہا ہے، لیکن دیگر  طرح کے مسائل بھی لگاتار کھڑے ہورہے ہیں۔ کہیں سیلاب کی چنوتی ، کہیں ٹڈی دل ،  اونگوپا کا قہر ، کہیں  اژالہ باری ، کہیں تیل کے کوئیں میں آگ ، کہیں چھوٹے چھوٹے زلزلے، یہ بھی کم ہی ہوتا ہے مشرقی اور مغربی علاقے میں ایک کے بعد ایک  دو سمندری طوفان چنوتی بن کر آئیں۔

ایسے تمام محاذوں پر ہم سبھی ایک سات مل کر لڑرہے ہیں۔ کبھی کبھی  وقت ہمارا امتحان لیتا ہے۔ آزمائش کرتا ہے، کہیں مرتبہ متعدد پریشانیاں،  متعدد کسوٹیاں ایک ساتھ آتی ہیں۔ لیکن ہم نے یہ بھی تجربہ کیا ہے کہ اس طرح کی کسوٹیوں میں  ہمارا کردار  روشن مستقل کی ضمانت لے کر آتا ہے، کسی کسوٹی سے ہم کیسے نمٹ رہے ہیں، مشکلوں سے کتنی مضبوطی سے لڑرہے ہیں، یہ آنے والے مواقع کو بھی طے کرتا ہے۔ تاکہ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ ’من کے ہارے ہار ، من کے جیتے جی‘ یعنی اگر ہمارا عزم ، ہماری قوت ارادی ، ہمارے  آگے کا راستہ  ہموار کرتی ہے  جو پہلے ہی شکست قبول کرلیتا ے، اس کے سامنے  نئے  مواقع کم ہی آتے ہیں، لیکن جو فتح کے لئے لگاتار کوشش کرتا ہے، ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے آگے بڑھتا ہے ، اس کے سامنے نئے مواقع  بھی  اتنے ہی زیادہ آتے ہیں۔

 ساتھیو!  یہ ہماری یکجہتی  ایک ساتھ مل کر بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا کرنا، یہ ہمارا عزم ، یہ ہماری قوت ارادی،  ہماری بہت بڑی قوت ہے۔ ایک  قوم کی شکل میں ہماری بہت بڑی طاقت ہے۔ مصیبت کی دوا مضبوطی ہے۔ مشکل وقت نے ہر بات بھارت کو  عزم دیا ہے، استحکام دیا ہے، ایک قوم کی شکل  اہل وطن کو  پکا ارادہ  کی توانائی  عطا کی ہے،  عزم کی جو قوت دی ہے، یہی  جذبہ  میں آج  آپ کے چہرے پر دیکھ سکتا ہوں، کروڑوں  اہل وطن کی کوششوں کو میں دیکھ سکتا ہوں، کورونا کی مصیبت پوری دنیا میں برقرار ہے۔ پوری دنیا اس سے لڑر ہی ہے۔

کورونا سورماؤں کے ساتھ ہمارا ملک  اس سے لڑر ہا ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان ہمارا  اہل وطن اب  اس عزم سے بھی  معمور ہے کہ  اس  مصیبت کو  موقع میں بدلنا ہے۔ اسے ہمیں  ملک کا  بہت بڑا  فیصلہ کن  موڑ بھی بنانا ہے۔ یہ  فیصلہ کن موڑ کیا ہے؟

 آتم نربھر بھارت، خود کفیل بھارت،  خود کفالت کا ، خود اعتمادی کا  یہ جذبہ برسوں سے ہر  ہندوستانی نے ایک امنگ کی طرح سے  اپنے اندر پالا ہے، لیکن پھر بھی  ایک بڑا کاش ، ایک بڑا کاش ، ہر ہندوستانی کے دل میں رہا ہے، ذہن میں رہا ہے،  کاش ہم  طبی  سازوسامان کے شعبے میں  خود کفیل ہوتے، کاش ہم  دفاعی مینوفیکچرنگ میں خود کفیل ہوتے، کاش ہم کوئلہ اور معدنیات کے شعبے میں خود کفیل ہوتے، کاش ہم خوردنی تیل میں، کیمیاوی کھادوں کے شعبے میں خود کفیل ہوتے، کاش ہم الیکٹرانک مینوفیکچرنگ میں خود کفیل ہوتے، کاش ہم شمسی پینل ، بیٹریوں اور  چپ مینوفیکچرنگ میں خود کفیل ہوتے، کاش ہم شہری ہوابازی کے شعبے میں خود کفیل ہوتے، ایسے  کتنے سارے کاش ، بیشمار کاش ، ہمیشہ  سے ہر ہندوستانی کو جھنجھوڑتے رہے ہیں۔

ساتھیو!   یہ ایک بہت بڑی وجہ رہی ہے کہ گزشتہ 5-6 برسوں میں ملک کی پالیسی اور  روایت میں بھارت کی خود کفالت   کا نصب العین  سب سے اوپر رہا ہے، اب کورونا بحران نے  ہمیں  اس کی رفتار اور تیز کرنے کا سبق دیا ہے۔ اسی سبق سے  نکلی  ہے خود کفیل بھارت کی مہم۔

ساتھیو!  ہم دیکھتے ہیں، کنبے میں بھی  اولاد بیٹا ہو یا بیٹی، 18-20 سال کا ہو جاتا ہے، تو ہم کہتے ہیں اپنے پیروں پر کھڑے رہنا سیکھو، لیکن ایک طرح سے خود کفیل بھارت کا پہلا سبق  کنبے سے ہی شروع ہوتا ہے۔ بھارت کو بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہی ہونا ہوگا۔

ساتھیو!  خود کفیل بھارت مہم  کا سیدھا مطلب ہے کہ بھارت  دوسرے ملکوں پر اپنے انحصار  کو کم سے کم کرے۔ ہر وہ چیز  جسے در آمد کرنے کے لئے ملک مجبور ہے۔

 وہ بھارت میں ہی کیسے بنے۔ مستقبل میں انہیں مصنوعات کا  بھارت بر آمد کار کیسے بنے۔ اس سمت میں ہمیں اور تیزی سے کام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ  ہر وہ سامان جو بھارت کا جھوٹا صنعت کار بناتا ہے، ہمارے  گھریلو صنعت کار ، جو سامان ہمارے  سیلف ہیلپ گروپ  سے مربوط کروڑوں  نادار بناتے ہیں، جو دہائیوں سے ہمارے یہاں بنتا  آرہا ہے، گلیوں محلوں میں بکتا رہا ہے، اسے چھوٹ کر  غیر ممالک سے وہی سامان منگانے  کے رجحان پر بھی ہمیں قابو حاصل کرنا ہے۔

ہمیں ان چھوٹے چھوٹے تجارت کرنے والے لوگوں سے صرف  چیز ہی نہیں خریدتے، پیسے ہی نہیں دیتے، ان کی محنت کو بھی نوازتے ہیں۔ ان کا اعزاز بڑھاتے ہیں، ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس سے ان کے دل پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ وہ کتنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اب  اپنے لوکل  کے لئے ووکل ہونے کا وقت ہے، ہر گاؤں، ہر قصبے ،  ہر ضلع ، ہر ریاست، پورے ملک کو خود کفیل بنانے کا وقت ہے۔

ساتھیو!  سوامی وویکا نند نے ایک مرتبہ ایک مراسلے میں تحریر کیا تھا، فی الحال  جو سادہ سا طریقہ ہے، اور جسے اپنانے کی فوری ضرورت ہے، وہ  یہ ہے کہ ہندوستانیوں کے اندر  خود  اپنا سامان استعمال کرنے کا رجحان بیدار کیا جائے اور  بھارتی صنعت  وحرفت کے نمونوں کے لئے دوسرے ممالک میں بازار تلاش کئے جائیں۔

سوامی وویکا نند جی کے ذریعے  بتایا گیا یہ راستہ  پوسٹ کووڈ دنیا میں بھی  باعث ترغیب ہے۔ اب ملک  عہد کرچکا ہے اور قدم بھی اٹھا رہا ہے۔ خود کفیل بھارت  مہم کے تحت  جن  بڑی  اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے، ان کو تیزی سے زمین پر اتار ا جارہا ہے۔

ایم ایس ایم ای کی اصطلاح کے دائرے کی توسیع ہو، یا ایم ایس ایم ای کی امداد کے لئے ہزاروں کروڑ  کے اسپیشل فنڈ کا انتظام ہو، یہ سب  آج سچائی بن رہے ہیں۔ آئی بی سی سی  سے مربوط فیصلہ ہو، چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو ڈی کریمنلائز کرنے کا فیصلہ  ہو، سرمایہ کاری  کے لئے تیز رفتار  آمد کو ممکن بنانا  ہو اور اس کے لئے پروجیکٹ ترقیاتی شعبوں کی تشکیل ہو،  ایسے متعدد  کام پہلے ہی  انجام پاچکے ہیں۔

اب تمام شعبوں ، بطور خاص کوئلہ اور کانکنی کے شعبے کو زیادہ  مسابقت کا حامل بنانے کے لئے، جو اعلانات کئے گئے ہیں، اس کا  بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے صنعتی دنیا آگے آئے، نوجوان ساتھی آگے آئیں،

ساتھیو! کاشتکاروں اور دیہی معیشت کے لئے جو فیصلے  حال میں ہوئے ہیں، انہوں نے زرعی معیشت کو برسوں کی غلامی سے آزاد کردیا ہے۔ اب بھارت کے کاشتکاروں کو اپنی مصنوعات، اپنی پیداوار ، ملک میں کہیں پر بھی فروخت کرنے کی آزادی مل گئی ہے۔ اے پی ایم سی ایکٹ ، لازمی اشیا ایکٹ میں جو ترامیم کی گئی ہیں، کاشتکاروں اور صنعت کے مابین شراکت داری کا جو راستہ کھولا گیا ہے، اس سے کاشتکارا ور دیہی معیشت  کی کایا پلٹ ہونا یقینی ہے۔

 ان فیصلوں نے کاشتکاروں کو ایک پروڈیوسر کی شکل میں  اور ان کی پیداوار کو مصنوعی کی شکل میں شناخت  دی ہے۔

ساتھیو! چاہے کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں براہ راست  پیسے ٹرانسفر کرنا ہو، چاہے ایم ایس پی کا فیصلہ ہو، ان کی پنشن اسکیم ہو، ہماری کوشش  کاشتکاروں کو بااختیار بنانے کی رہی ہے۔ اب کاشتکاروں کو ایک بڑی منڈی قوت کے طور پر ابھرنے میں مدد فراہم کی جارہی ہے۔

ساتھیو! مقامی مصنوعات کے لئے جس کلسٹر پر مبنی طریقہ کار کو اب بھارت میں بڑھاوا دیا جاریا ہے، اس میں بھی سبھی کے لئے مواقع ہی مواقع ہیں، جن اضلاع ، جن بلاک میں جو پیدا ہوتا ہے، وہیں آس  پاس  ان سے جڑے کلسٹر قائم کئے جائیں گے، جیسے مغربی بنگال کے پٹسن کاشتکاروں کے لئے  قرب وجوار میں ہی پٹسن پر مبنی  صنعتوں کو اور استحکام بخشا جائے گا۔

جنگلاتی پیداوار کی  بے پناہ دولت بہم پہنچانے والےآدی واسی  ساتھیوں کو  ان کے شعبے میں جدید  ترین پروسیسنگ اکائیاں دستیاب کرائی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی  بانس اور  نامیاتی مصنوعات کے لئے بھی  کلسٹر بنیں گے۔ سکم کی طرح  پورا نارتھ ایسٹ نامیاتی  کاشتکاری کے لئے بہت بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ آرگینک دارالحکومت بن سکتا ہے۔

آئی سی سی کے ساتھ مربوط آپ تمام تاجر حضرات  ٹھان لیں، تو نارتھ ایسٹ میں نامیاتی کاشتکاری  بہت بڑی تحریک بن سکتی ہے۔  آپ ا سکی عالمی شناخت بن سکتے ہیں۔ عالمی منڈی پر چھاسکتے ہیں۔

ساتھیو! آپ سبھی شمال مشرق، مشرقی بھارت میں اتنی دہائیوں سے کام کررہے ہیں، حکومت نے جو تمام تر قدم اٹھائے ہیں، ان کا بہت بڑا فائدہ مشرق اور شمال مشرق کے لوگوں کو ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کولکاتا بھی  خود پھر سے ایک بہت بڑا لیڈر بن سکتا ہے۔ اپنے پرانے جاہ  و ہشم  سے ترغریب  حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں کولکاتا پورے علاقے کی ترقی کی نگرانی کرسکتا ہے۔

 آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ جب مزدور  پورب کے، جائیداد کی پورب کی ، وسائل پورب کے، تو اس  علاقے کی ترقی کتنی تیز رفتاری سے ہوسکتی ہے۔
 ساتھیو! پانچ  سال بعد یعنی  2025  میں  آپ کا ادارہ  100 برس پورے کرنے جارہا ہے۔ وہیں 2022  میں  ملک کی آزادی کے 75 برس پورے ہونے جارہے ہیں، یہ آپ کے ادارے کے لئے، آپ کے ہر ایک رکن کے لئے ایک بہترین وقت ہے۔ ایک بڑا عزم کرنے کا ، میرا آپ سے اصرار ہے کہ خود کفیل بھارت مہم کو یقینی شکل دینے کے لئے آئی سی سی بھی اپنی سطح پر 50-100 نئے  نشانے مقرر کرے۔

یہ  نصب العین ادارے کے بھی ہوں، اس سے وابستہ  ہر صنعت اور ہر کاروباری اکائی کے بھی  ہوں اور  ہر شخص کے بھی ہوں۔ آپ جتنا اپنے نصب العین کی جانب آگے بڑھیں گے، اتنی ہی یہ مہم  مشرقی بھارت میں، شمال مشرق میں آگے بڑھے گی۔

ساتھیو! مینوفیکچرنگ میں بنگال کی  تاریخی عزمت کو ہمیں بحال کرنا ہوگا۔ ہم ہمیشہ سنتے آئے ہیں، کہ  آج بنگال جو کچھ سوچتا ہے، بھارت  اسے  کل سوچتا ہے۔ اسی سے ترغیب حاصل  کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ وقت بھارتی معیشت  کو  سامان اور کنٹرول سے نکال کر پلگ اور پلے کی جانب لے جانے کا ہے۔

  یہ وقت فرسودہ انداز  فکر کا نہیں ہے بلکہ  آگے بڑھ کر بے باکانہ  فیصلے لینے کا وقت ہے، بے باک سرمایہ کاری کا وقت ہے۔ یہ وقت بھارت میں ایک عالمی مسابقتی  گھریلو سپلائی چین تیار کرنے کا ہے۔ اس کے لئے صنعتی دنیا کو اپنی موجودہ سپلائی چین کے  تمام  شراکت داروں کو مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنی ہوگی اور  قدر وقیمت میں اضافے کے معاملے میں ان کی سرپرستی بھی کرنی ہوگی۔

ساتھیو! خود کفیل بھارت مہم میں آگے بڑھتے ہوئے کورونا  سے جدوجہد کرتے ہوئے، آج آپ نے  اس اے جی ایم میں جو  عوام، کرہ ارض اور منافع کا موضوع اٹھایا ہے وہ بھی از حد اہم ہے۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔ اجتماع ضدین ہیں، لیکن ایسا نہیں  ہے۔ عوام ، کرہ ارض اور منافع  ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

 یہ تینوں ایک ساتھ نشرو نما حاصل کرسکتے ہیں۔ بقائے باہم اختیار کرسکتے ہیں۔ میں آپ  کو کچھ مثالیں دے کر سمجھاتا ہوں، جیسے ایل اے ڈی بلب، 5-6 برس قبل ایک ایل اے ڈی بلب ساڑھے تین  سو روپے سے زیادہ میں ملتا تھا، آج وہی بلب 50 روپے تک میں مل جاتا ہے۔ آ پ سوچئے ، قیمت کم ہونے سے ملک بھر میں کروڑوں کی تعداد میں  ایل ای  ڈی بلب گھر گھر پہنچے ہیں۔ اسٹریٹ لائٹ میں لگ رہے ہیں۔ یہ  مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس سے  پیداوار  کی لاگت کم ہوئی اور منافع بھی بڑھا ہے۔

اس سے فائدہ  کس کو حاصل ہوا، عوام کو۔ ملک کے  عام انسان کو، جس کا بجلی کا بل کم ہوا ہے، آج ہر سال  اہل وطن کے تقریبا 19 ہزار کروڑ روپے بجلی کے بل میں ایل ای ڈی کی وجہ سے بچ رہے ہیں۔ یہ بچت غریب کو ہوئی ہے۔ یہ بچت ملک کے متوسط طبقے کو ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ کرہ ارض کو بھی ہوا ہے، سرکاری ایجنسیوں نے  جتنے ایل ای ڈی  بلب کم قیمت پر فروخت کئے ہیں، اکیلے اس سے ہی ہر سال تقریبا 4 کروڑ  ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہوا ہے۔ یعنی منافع دونوں کو ہے۔ دونوں کے لئے فائدے کی بات ہے۔ اگر آپ حکومت کی  دیگر اسکیموں اور فیصلوں کو دیکھیں تو گزشتہ 5-6 برسوں میں  عوام الناس ، کرہ ارض  اور  منافع کا یہ نظریہ   زمین پر اور مضبوط ہی  ہوا ہے۔

اب جیسے  ابھی آپ نے دیکھا ہے، کہ کیسے حکومت بہت زیادہ زور دے کر اندرون ملک آبی راستوں کو نمایاں کررہی ہے، ہلدیہ سے بنارس تک تو  آبی راستہ چالو ہوچکا ہے۔ اب شمال مشرق میں بھی آبی راستے بنائے جارہے ہیں۔ ان آبی راستوں سے عوام کا فائدہ ہے۔ کیونکہ اس سے  لاجسٹک کا صرفہ کم ہوتا ہے۔ ان آبی راستوں سے  کرہ ارض کا بھی فائدہ ہے۔ کیونکہ اس میں ایندھن کم جلتا ہے اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پیٹرول ڈیزل کی در آمد کو کم کرے گا۔ سڑک پر ٹریفک کم کرے گا، سامان سستے ہوں گے، سامان مختصر راستے  سے جلدی پہنچے گا، خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں کو ہی  اس میں منافع ہی منافع ہے۔

ساتھیو! بھارت میں ایک اور مہم بھی چل رہی ہے۔ ملک کو سنگل یوز پلاسٹک سے نجات دلانے کی ، اس میں عوام کرہ ارض  اور منافع  تینوں ہی موضوع مضمر ہوتے ہیں۔ بطور  خاص مغربی بنگال کے لئے، تو یہ بہت ہی مفید ہے۔ اس سے آپ کے یہاں پٹسن کا کاروبار بڑھنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں، کیا آپ نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے، کیا اب پیکجنگ میٹریل پٹسن سے بننا شروع ہوا ہے، ایک طرح  سے آپ کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں، آپ کوتو اس موقع کا  اور فائدہ اٹھانا چاہئے ، اگر یہ موقع چھوڑ دیں گے تو کون مدد کرے گا۔ سوچئے جب مغربی بنگال میں تیار  پٹسن کا بیگ ہر ہاتھ میں ہوگا، تو بنگال کے لوگوں کا کتنا بڑا منافع ہوگا۔

ساتھیو! عوام پر مرتکز، عوام کے ذریعے چلایا جانے والا اور کرہ ارض  سے مناسبت رکھنے والی ترقیاتی  حکمت عملی  اب ملک میں حکمرانی کا حصہ بن گئی ہے، جو ہماری ٹیکنالوجی اختراعات ہیں،  وہ بھی عوام ، کرہ ارض اور  منافع کے نظریئے  سے   ہم آہنگ ہی ہیں۔ یو پی آئی کے توسط سے ہماری بینکنگ بغیر انسانی مس کے ، بغیر کسی رابطے کے، بغیر نقدی کے اور ساتوں دن 24 گھنٹے کی ہوپائی ہے۔

بھیم ایپ سے لین دین کے اب نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ روپے کارڈ اب غریب کسان، متوسط  طبقہ، ملک کے ہر طبقے کا پسندیدہ کارڈ بنتا جارہا ہے۔ جب ہم خود کفیل بھارت کی بات کرتے ہیں، تو کیوں نہ فخر کے ساتھ روپے کارڈ کا استعمال کریں۔

ساتھیو! اب ملک میں بینکنگ خدمت کا دائرہ ان لوگوں تک بھی پہنچ پایا ہے، جنہیں عرصہ دراز  تک ناداروں کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔ بی بی ٹی، جے اے ایم یعنی جن دھن آدھار موبائل کے توسط سے بغیر لیکج کروڑوں استفادہ کنندگان تک ضروری امداد  پہنچانا ممکن ہوسکا ہے۔ اسی طرح سرکاری  ای- مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم نے  عوام کو حکومت کے ساتھ مربوط ہو منافع کمانے کاایک موقع فراہم کیا۔ آپ یہ جانتے ہی ہیں کہ جی ای ایم پلیٹ فارم پر چھوٹے چھوٹے سیلف ہیلپ گروپ ایم ایس ایم ای براہ راست  حکومت ہند کو اپنی اشیا اور اپنی خدمات دستیاب کراسکتے ہیں۔ ورنہ پہلے تو کچھ لاکھ کے ٹرن اوور والا  صنعت کار سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ سیدھے مرکزی حکومت کو اپنا کوئی سامان فروخت کرسکتا ہے۔

اس لئے میرا آئی سی سی بھی اصرار ہے کہ آپ کے جو اراکین ہیں، جو آپ سے مربوط مینو فیکچرر حضرات ہیں، انہیں بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں جی ای ایم سے مربوط ہونے کی ترغیب دیجئے۔ اگر آپ سے مربوط ہر مینوفیکچرر جی  ایم ایم سے مربوط ہو جائے گا، تو چھوٹے کاروباری بھی اپنی مصنوعات براہ راست حکومت فروخت کرپائیں گے۔

ساتھیو! جب ہم کرہ ارض کی بات کرتے ہیں، تو آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آج   آئیسا یعنی  بین الاقوامی سمشی  اتحاد ایک بڑی تحریک بن رہی ہے۔ سمشی توانائی کے شعبے میں جو فائدہ بھارت اپنے لئے دیکھتا ہے، اس کو پوری دنیا کے ساتھ ساجھا کرنے کے لئے کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی  چیمبرس آف کامرس کے تمام اراکین سے میری گزارش ہے کہ  قابل احیاء توانائی  سمشی بجلی  پیداوار کے لئے جو نشانے  ملک نے رکھے ہیں، اس میں اپنے تعاون اور سرمایہ کاری کو  وسعت دیں۔

ملک میں ہی  سمشی  پینل کی مینو فیکچرنگ، بجلی  کے ذخیرے کی صلاحیت بڑھانے کے لئے بہتر بیٹری کے تحقیق وترقی اور مینوفیکچرنگ کے کام میں سرمایہ کاری کریں، جو اس کام میں مصروف عمل ہیں، ایسے اداروں کو، ایم ایس ایم ای کی سرپرستی کریں۔ بدلتی ہوئی دنیا میں سمشی از سر نو چارج ہونے کے لائق  بیٹریوں کی بہت بڑی منڈی بننے والی ہے۔ کیا بھارت اس صنعت اس کی  قیادت کرسکتی ہے۔ اس شعبے میں بھارت ایک بہت بڑا ہب بن سکتا ہے۔

آئی سی سی اور اس کے اراکین 2022  جب بھارت اپنی آزادی  کے 75 برس  پورے  کرے گا، اور  2025  جب آئی سی سی اپنے 100 برس پورے کرے گا، تو ان مواقع سے مربوط اہداف میں اس موضوع پر بھی اپنے اہداف  طے کرسکتے ہیں۔

ساتھیو! یہ وقت  موقع شناسی  کا، خود کو آزمانے کا ہے اور نئی بلندیوں کی  جانب سفر کرنے کا ہے۔ یہ اگر سب سے بڑی مصیبت ہے، تو ہمیں اس سے سب سے  بڑی سیکھ لیتے ہوئے اس کا پورا فائدہ بھی اٹھانا چاہئے۔

 میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت اس کے لئے پوری طرح سے عہد بند ہے۔ آپ کے ساتھ ہے، آپ بے جھجک آگے بڑھئے ، نئے عزائم کے ساتھ، نئے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھئے۔

خود کفیل بھارت کی جڑ میں ہے، خود پر اعتماد رکھنے والا بھارت۔

گورو دیو ٹیگو نے اپنی نظم نوتون جوگیر بھور میں کہا ہے کہ ’’چولائے چولائے باز بے جوایرمیری‘ پائر بے گئی پوتھ کے ٹے جائے کورش نا اردے‘‘ یعنی آگے  بڑھنے والے قدم پر آواز بلند ہوگی، دوڑتے قدم ہی راستہ بنادیں گے، اب تاخیر مت کرو۔

سوچئے یہ کتنا بڑا اصول ہے، دوڑے پاؤں ہی نیا راستہ بنادیں گے، جب اتنی  بڑی ترغیب ہمارے سامنے ہے، تو ٹھہرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے  پورا یقین ہے کہ جب آپ اپنے  قیام کے 100 برس  کا جشن منائیں گے، جب ملک اپنی آزادی کے 75 برسوں کا جشن منائے گا تو خود کفیل بھارت کے راستے پر ہمارا ملک کافی آگے بڑھ چکا ہوگا۔

ایک مرتبہ پھر آپ کو بہت بہت نیک تمنائیں

صحت مند رہئے، محفوظ رہئے

بہت بہت اظہار تشکر

بھالو تھاک بین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



(Release ID: 1630870) Visitor Counter : 278