وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

2024-25 کے اقتصادی جائزے کا خلاصہ

Posted On: 31 JAN 2025 2:23PM by PIB Delhi

توقع کی جاتی ہے کہ 2026 کے مالی سال میں بھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار 6.3 اور 6.8 فیصد کے درمیان نمو سے ہمکنار ہوگی

 

مالی سال 2025  میں اصل مجموعی گھریلو پیداوار کا تخمینہ 6.4 فیصد کا رہا تھا جو اس کے پورے دہائی کے اوسط کے قریب تھا

 

اصل جی وی اے تخمینے کے مطابق 2025 کے مالی سال میں 6.4 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوا

 

اہم اخراجات نمو ماہ جولائی –نومبر 2024 کے دوران 8.2 فیصد رہی اور توقع کی جاتی ہے کہ یہ مزید رفتار پکڑے گی

 

خوردہ شہ سرخی افراط زر اپریل-دسمبر 2024 میں تخفیف سے ہمکنار ہوکر 4.9 فیصد کے بقدر ہوگیا

 

بھارت کا صارفین قیمت افراط زر 2026 کے مالی سال میں تقریباً 4 فیصد کے ساتھ ارتباط کرے گا

 

اپریل – دسمبر 2024 کے دوران مجموعی برآمدات نمو سال بہ سال بنیاد پر 6.0 فیصد کے بقدر رہی

 

بھارت کی خدمات برآمدات نمو اپریل-نومبر 2025 کے مالی سال کے دوران اضافے سے ہمکنار ہوکر 12.8 فیصد کے بقدر تک پہنچ گئی

 

یہ 2024 کے مالی سال کے مقابلے میں 5.7 فیصد زائد ہے

 

مجموعی غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری آمد مالی سال 2024 کے پہلے آٹھ مہینوں میں 47.2 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2025 کے مالی سال کی اسی مدت میں 55.6 بلین امریکی ڈالر کے بقدر ہوگئی، اس طرح 17.9 فیصد سال بہ سال نمو حاصل ہوئی

 

غیر ملکی زر مبادلہ دسمبر 2024 کے آخر میں 640.3 بلین امریکی ڈالر کے بقدر رہا 

 

یہ 10.9 درآمداتی مہینوں پر احاطہ کرنے کے لیے کافی ہے اور خارجی قرضوں کے بالمقابل تقریباً 90 فیصد کےبقدر ہے

 

شمسی اور ہوائی بجلی صلاحیت میں اضافہ دسمبر 2024 میں سال بہ سال بنیاد پر  15.8 فیصد کے بقدر رہا

 

ماہ دسمبر 2024 کے آخر میں مجموعی گھریلو پیداوار تناسب میں بی ایس ای اسٹاک منڈی کی پونجی بہم رسانی 136 فیصد کے بقدر رہی، ایف اے آر چین (65 فیصد) کے مقابلے میں زیادہ رہا اور برازیل (37فیصد) کے مقابلے میں بھی زیادہ رہا

 

اقتصادی جائزہ اقتصادی نمو کو مہمیز کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے غیر ضروری قواعد و ضوابط کے خاتمے کی حمایت کرتا ہے

 

پیہم کیے جانے والے اقدامات میں اضافہ بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری آئندہ دو دہائیوں میں اعلیٰ نمو کے ساتھ قائم رکھنی ہوگی

 

ایم ایس ایم ای  ایس کو مساوی بنیاد پر سرمایہ فراہمی کے لیے 50000 کروڑ روپے کے بقدر کا خودکفیل انڈیا فنڈ متعارف کرایا گیا

 

2025 کے مالی سال میں توقع کی جاتی ہے کہ زراعت 3.8 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوگی

 

خریف کے اناج کی پیداوار سال 2024 کے لیے توقع کے مطابق 1647.05 ایل ایم ٹی کے بقدر پہنچ جانے کی توقع ہے، گذشتہ سال کے مقابلے میں اس طرح 89.37 ایل ایم ٹی کا اضافہ ہوگا

 

زرعی نمو کے اہم ذرائع باغبانی، مویشی اور ماہی پروری کا عمل ہے

 

صنعتی شعبے کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ 2025 کے مالی سال میں 6.2 فیصد کی نمو حاصل کرے گا

 

سماجی خدمات پر عائد ہونے والے اخراجات نے 2021 اور 2025 کے مالی سال کے دوران 15 فیصد کی شرح نمو درج رجسٹر کی ہے

 

سرکار کی جانب سے کیا جانے والا  صحتی صرفہ 29.0 فیصد سے بڑھ کر 48.0 فیصد کے بقدر ہوگیا؛ مجموعی صحتی اخراجات  غیر معینہ اخراجات  2015 اور 2022 کے مالی سال  کے درمیان 62.6 فیصد سے گھٹ کر 39.4 فیصد کے بقدر رہ گیا

 

2017-18 (جولائی -جون) میں بےروزگاری کی شرح 6.0 فیصد سے گھٹ کر 2023-24 (جولائی –جون ) میں 3.2 فیصد ہوگئی

 

حکومت، نجی شعبے اور شعبہ تعلیم کے مابین اشتراک کی کوشش برعکس مصنوعی انٹیلی جینس معاشرتی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے لازم ہے

 

خزانہ اور کمپنی امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اقتصادی جائزے 2024-25 میں کہا ہے کہ 2023 میں عالمی معیشت 3.3 فیصد کی نمو سے ہمکنا رہوئی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے عالمی نمو کی اوسط آئندہ پانچ برسوں میں 3.2 فیصد کے قریب رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ یہ اوسط تاریخی معیارات کے لحاظ سے درمیانی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00117QQ.png

سروے کے مطابق عالمی معیشت نے سال 2024 میں تمام خطوں میں عدم مساوات پر مستحکم مبنی نمو  ظاہر کی۔ ایک قابل ذکر رجحان یہ رہا کہ عالمی مینوفیکچرنگ خصوصاً یوروپ اور ایشیا کے بعض حصوں میں مندی کا شکار رہی، اس کی وجہ یہ تھی کہ سپلائی چین میں رخنہ پیدا ہوا اور بیرونی طلب بھی کمزور ہوئی۔ اس کے برعکس خدمات کے شعبے نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ متعدد معیشتوں میں اپنی جانب سے تقویت فراہم کی۔ بیشتر معیشتوں میں افراط زر کے دباؤ کم ہوئے۔ تاہم، خدمات افراط زر پہلے کی طرح برقرار رہا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002R1DD.jpg

سروے میں یہ بات نمایاں کرکے پیش کی گئی ہے کہ عالمی غیر یقینی صورتحال کے باوجود، بھارت نے مستحکم اقتصادی نمو کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2025 کے مالی سال میں بھارت کی اصل جی ڈی پی نمو 6.4 فیصد کی ہے جو پورے دہائی کے اوسط کے قریب ہے۔

مجموعی طلب تناظر سے لے کر، نجی حتمی کھپت اخراجات تک مستحکم قیمتوں کی بنیاد پر تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 7.3 فیصد کی نمو دیہی طلب کی بحالی کی وجہ سے رونما ہوگی۔

سپلائی کے محاذ پر، اصل مجموعی قدرو قیمت اضافہ (جی وی اے) کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ 6.4 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوگا۔ زرعی شعبے سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ 2025 کے مالی سال میں 3.8 فیصد کی نمو سے ہمکنا رہوگا۔ صنعتی شعبے کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے  کہ مالی سال 2025 میں 6.2 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوگا۔ تعمیراتی سرگرمیوں میں رونما ہوئی مضبوط نمو کی شرحیں، اور بجلی، گیس ، آبی سپلائی اور دیگر افادیت پر مبنی خدمات کے بارے میں توقع کی جاتی ہے کہ یہ صنعتی توسیع کو تقویت فراہم کریں گے۔ خدمات کے شعبے میں رونما ہوئی نمو سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ 7.2 فیصد کی سطح پر قائم رہے گی، اس کے پس پشت مالی، زمین جائیداد، پیشہ وارانہ خدمات، عوامی انتظامیہ، دفاع اور دیگر خدمات کی صحت مند سرگرمی کارفرما رہے گی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003KS4F.jpg

نمو کے ترقی پذیر اور انحطاط پذیر پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، سروے میں توقع کی جاتی ہے کہ 2026 کے مالی سال میں جی ڈی پی نمو 6.3 اور 6.8 فیصد کے درمیان رہے گی۔

وسط مدتی آؤٹ لک سے متعلق باب میں ان عالمی حقائق کی وضاحت کی گئی ہے اور اقتصادی پالیسیوں اور تجارتی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال کے سلسلے میں عالمی تشویشات کے نتیجے میں بڑھے ہوئے خدشات کے پس منظر میں گھریلو نمو کی مستحکم سطحوں کی اہمیت پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

2047 تک وکست بھارت کی توقعات کو حقیقی شکل میں بدلنے کے لیے، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت کا وسط مدتی نمو کا آؤٹ لک ابھرتی ہوئی عالمی ارضیاتی – اقتصادی انتشار کے پس منظر میں آنکا جائے، چین کے پاس جو مینوفیکچرنگ قوتیں دستیاب ہیں اور توانائی تغیراتی اثرات کے معاملے میں عالمی انحصار کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ اس سروے میں ایک ایسا رستہ بتایا گیا ہے جس کے ذریعہ سلسلے وار قواعد و ضوابط کی بندشوں کو ختم کرکے اس پر توجہ مرکوز کرکے داخلی ذرائع اور گھریلو سہولتوں کو ازسر نو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جو اقتصادی آزادی میں ایک مثالی تبدیلی کا باعث ثابت ہوگا اور اس طریقے سے انفرادی کاروباروں اور اداروں کے کاروباروں کو تقویت حاصل ہوگی اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ جائز اقتصادی سرگرمیوں پر عمل پیرا ہو سکیں گے۔ سروے میں زور دے کر کہا گیا  ہے کہ اصلاحات اور اقتصادی پالیسی کو کاروبار کو سہل بنانے سے متعلق 2.0 کے پہلو کے تحت سلسلے وار طریقے سے بندشوں سے آزاد کیا جانا چاہئے تاکہ یہ ایک قابل عمل ڈھانچہ یعنی بھارت کا ایس ایم ای شعبہ فراہم کر سکے۔

اقتصادی جائزہ 2024-25 میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ زرعی نمو 2025 کے مالی سال کے پہلے نصف حصے میں مستحکم بنی رہی، دوسری سہ ماہی میں 3.5 فیصد کے بقدر کی نمو کی شرح ریکارڈ کی گئی، اس سے سابقہ سہ ماہیوں کے مقابلے میں اصلاح کا اشارہ ملتا ہے۔ صحت مند خریف پیداوار، عام صورتحال سے کہیں زیادہ مقدار کی مانسون اور وافر ذخائر کی سطحوں نے زرعی نمو کو تقویت بہم پہنچائی ہے۔ مجموعی خریف خوردنی اناج پیداوار کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ 2024-25 میں ریکارڈ بنیاد پر 1647.05 لاکھ میٹرک ٹن کے بقدر رہے گی جو 2023-24 کے مقابلے میں 5.7 فیصد زائد رہے گی اور گذشتہ پانچ برسوں کے دوران حاصل ہوئی خوردنی اناجوں کی اوسط پیداوار کے مقابلے میں 8.2 فیصد زائد ہوگی۔

صنعتی شعبے نے مالی برس 2025 کے پہلے نصف حصے میں 6 فیصد کی نمو حاصل کی اور تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2025 کے مالی سال میں اس میں 6.2 فیصد کا اضافہ رونما ہوگا۔ پہلی سہ ماہی نے 8.3 فیصد کی مضبوط نمو ملاحظہ کی، تاہم یہ نمو دوسری سہ ماہی میں قدرے تخفیف سے ہمکنار ہوئی، اس کی وجہ تین کلیدی عناصر تھے۔ پہلی بات یہ تھی کہ مینوفیکچرنگ کی برآمدات اہم ممالک کی جانب سے کمزور طلب کے نتیجے میں قابل ذکر طو رپر تخفیف سے ہمکنار ہوئی، اور جارحانہ تجارت اور صنعتی پالیسیاں بھی کاروباری ملکوں میں اس کی وجہ رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اوسط سے زائد مانسون کے ملے جلے اثرات مرتب ہوئے۔ جہاں اس نے ایک جانب پانی کے ذخائر پر کر دیے اور زراعت کو تقویت بہم پہنچائی وہیں اس نے کانکنی، تعمیرات کے شعبوں میں کسی حد تک رخنے بھی پیدا کیے اور مینوفیکچرنگ پر بھی اثر انداز ہوئی۔ تیسری بات یہ ہے کہ ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں کے درمیان تیوہاروں کے اوقات الگ الگ رہے، یعنی سابقہ اور رواں سالوں میں اوقات میں تنوع رہا جس کے نتیجے میں 2025 کی مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں نسبتاً تخفیف شدہ نمو حاصل ہوئی۔

مختلف النوع چنوتیوں کے باوجود، بھارت مینوفیکچرنگ پی ایم آئی کے معاملے میں سروے کے مطابق سب سے تیز رفتار نمو پزیر ملک بنا رہا ہے۔ ماہ دسمبر 2024 کے لیے تازہ ترین مینوفیکچرنگ پی ایم آئی توسیعی زون کے دائروں کے اندر رہی ۔ اس کے پس پشت نئے کاروباری فوائد، مضبوط طلب اور تشہیری کوششیں کارفرما رہیں۔

سروے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ 2025 کے مالی سال میں خدمات کا شعبہ اچھی کارکردگی کا حامل بنا ہوا ہے۔ پہلی سہ ماہی اور دوسری سہ ماہی میں قابل ذکر نمو کے نتیجے میں 2025 کے مالی سال کے پہلے نصف حصے میں 7.1 فیصد کی نمو حاصل ہوئی ۔ ذیلی زمروں میں تمام شعبوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپریل-نومبر 2025  مالی سال کے دوران بھارت کی خدمات برآمدات نمو 12.8 فیصد تک اضافے سے ہمکنار ہوئی جو سال 2024 کے مالی سال کے مقابلے میں 5.7فیصد زائد ہے۔

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ نمو کے عمل کو باقاعدہ طریقے سے جن محاذوں پر تقویت حاصل ہوئی ہے ان میں افراط زر، مالی صحت اور خارجی شعبے کا توازن کارفرما ہے۔ افراط زر کی محاذ پر، سروے میں کہا گیا ہے کہ 2024 کے مالی سال میں خوردہ شہ سرخی افراط زر 5.4 فیصد سے گھٹ کر اپریل – دسمبر 2024 میں 4.9 فیصد کے بقدر رہ گیا۔ خوراک افراط زر جس کا تعین صارفین خوراک قیمت عدد اشاریہ (سی ایف پی آئی) سے کیا جاتا ہے، وہ 2024 میں 7.5 فیصد سے بڑھ کر 2025 کے مالی سال میں (اپریل-دسمبر) کے دوران 8.4 فیصد کے بقدر ہوگیا ہے، اس کی بنیادی وجہ چند خوردنی اشیاء مثلاً سبزیاں اور دالیں ہیں۔ بھارت کا صارفین قیمت افراط زر آہستہ آہستہ آر بی آئی اور آئی ایم ایف کے مطابق مالی برس 2026 میں تقریباً 4 فیصد کے ہدف سے مربوط ہو جائے گا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004AI3R.png

اہم اخراجات (کیپکس) مرکز کے مجموعی اخراجات کے فیصد کے طور پر 2021 سے لے کر 2024 کے مالی سال کے دوران پیہم بہتر ہوا ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد مرکزی حکومت کے اہم اخراجات جولائی ۔ نومبر 2024 کے دوران سال بہ سال بنیاد پر سروے کے مطابق 8.2 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوئے ہیں۔

مجموعی ٹیکس مالیہ (جی ٹی آر) میں اپریل-نومبر 2024 کے دوران سال بہ سال بنیاد پر 10.7 فیصد کے اضافے کے باوجود ٹیکس مالیہ جو مرکز کا حصہ ہوتا ہے، وہ ریاستوں کے بالمقابل ادائیگی کے باوجود بمشکل تمام اضافے سے ہمکنار ہوا ہے۔ ایسا سروے میں کہا گیا ہے۔ ماہ نومبر میں مرکز کے خسارے کے اشاریے آسانی کے ساتھ اپنی جگہوں پر رہے جس کے نتیجے میں ترقی کے لیے وافر گنجائش فراہم ہوئی ہے اور سال کے بقیہ حصے میں اہم اخراجات کی صورتحال بہتر رہے گی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005BVRN.png

سروے کے مطابق مرکز کے لیے جی ٹی آر  اور اس کا اپنا ٹیکس مالیہ (او ٹی آر) جس کا تعلق ریاستوں سے ہوتا ہے اس میں اپریل-نومبر 2024 کی مدت کے دوران موازنہ جاتی رفتار سے اضافہ رونما ہوا ہے۔ ریاستوں کے مالی  اخراجات اپریل-نومبر 2024 کے دوران سال بہ سال بنیاد پر 12 فیصد اضافے سے ہمکنار ہوئے۔ ترغیبات اور عہدبند واجبات میں بالترتیب 25.7 اور 10.4 فیصد کےبقدر نمو درج رجسٹر کی گئی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0069OYW.jpg

سروے میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ بینکنگ شعبے میں استحکام کو اثاثوں کے ناقص ثابت ہونے کے معاملے میں تخفیف کے ذریعہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے، مضبوط پونجی فاضل اسٹاک اور مضبوط عملی کارکردگی اضافی پہلو ہے۔ بینکنگ نظام میں مجموعی غیر منفعت بخش کارکردگی کے حامل اثاثے (این پی اے)  12 برسوں میں گھٹ کر سب سے کم مجموعی قرضوں اور پیشگی رقومات کے بالمقابل 2.6 فیصد کے بقدر رہ گئے ہیں۔ فہرست بند تجارتی بینکوں کے لیے پونجی سے مربوط خدشات کے حامل اثاثوں کا تناسب ماہ ستمبر 2024 تک 16.7 فیصد کے بقدر ہے۔ سروے کے مطابق یہ مروجہ اصولوں سے کہیں اوپر ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خارجی شعبوں کا استحکام اور اس کا تحفظ خدمات تجارت اور ریکارڈ مقدار میں باہر سے آنے والی رقوم کے ذریعہ ہوتا ہے، اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی تجارتی اشیاء کی برآمدات اپریل-دسمبر 2024 کے دوران سال بہ سال بنیاد پر 1.6 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوئیں۔ تجارتی اشیاء پر مبنی درآمدات 5.2 فیصد اضافے سے ہمکنار ہوئیں۔ بھارت کی مضبوط خدمات برآمدات نے ملک  کو عالمی خدمات برآمدات کے معاملے میں ساتواں وسیع تر حصص حاصل کرنے کے لائق بنایا ہے جس سے اس کی مسابقتی اہلیت اجاگر ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ خدمات تجارت کا فاضل حصہ بیرونی ملک سے حاصل ہونے والی رقوم نے نجی منتقلیوں کی صحت مند آمد کو ممکن بنایا ہے۔ بھارت پوری دنیا میں بیرونِ ملک سے رقوم حاصل کرنے کے معاملے میں سرفہرست رہا۔ اس کے پس پشت او ای سی ڈی معیشتوں میں فزوں تر روزگار بہم رسانی تھی۔ ان دونوں عناصر نے یکجا ہوکر اس امر کو یقینی بنایا کہ بھارت کا چالو کھاتہ خسارہ (سی اے ڈی) نسبتاً 2025 کے مالی سال میں مجموعی گھریلو پیداوار کے بالمقابل 1.2 فیصد پر ٹھہرا رہا۔ سروے میں ایسا کہا گیا ہے۔

مجموعی غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری آمد نے مالی برس 2025 میں احیاء ملاحظہ کیا، مالی برس 2024 کے پہلے آٹھ مہینوں میں یہ آمد 47.2 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تھی جو مالی برس 2025 کی اسی مدت کے دوران بڑھ کر 55.6 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تک پہنچ گئی۔ اس طریقے سے سروے کے مطابق سال بہ سال بنیاد پر 17.9 فیصد کی نمو حاصل ہوئی۔ 2024 کے دوسرے نصف حصے میں غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری (ایف پی آئی) کی آمد کافی زور دار رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ عالمی ارضیاتی سیاسی اور مالیاتی پالیسی پیش رفتیں رہی ہیں۔

اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ مستحکم انداز میں پونجی آمد کے نتیجے میں بھارت کا غیر ملکی زرمبادلہ ذخیرہ جو جنوری 2024  کے آخر میں 616.7 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تھا وہ ستمبر 2024 میں بڑھ کر 704.9 بلین امریکی ڈالر کے بقدر ہو گیا۔ 3 جنوری 2025 کو اس نے 63.4.6 بلین امریکی ڈالر کی شکل اختیار کی۔ بھارت کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر 90 فیصد کے بقدر بیرونی قرض پر احاطہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور یہ دس مہینوں سے زائد کا درآمداتی تحفظ فراہم کرتے ہیں، اس کے ذریعہ بیرونِ ملک سے خدشات سے تحفظ حاصل ہوگا۔

اقتصادی جائزے میں روزگار کے محاذ پر جاری عمدہ کارکردگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں بھارت کی لیبر منڈی کی نمو کو مابعد کووِڈ بحالی سے تقویت حاصل ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ رسمی روزگار فراہمی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 15 برس اور اس سے زائد کی عمر کے افراد کے لیے بے روزگاری کی شرح مستحکم طریقے سے تخفیف سے ہمکنا رہوئی ہے۔ یعنی 2017-18 میں یہ چھ فیصد تھی جو 2023-24 میں 3.2 فیصد کے بقدر رہ گئی۔ لیبر فورس کی شرکت کی شرح (ایل ایف پی آر) اور کارکن سے لے کر آبادی کا تناسب (ڈبلی پی آر) میں بھی اضافہ رونما ہوا ہے۔

سروے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ بھارت کے لیے، ایک خدمات کی تابع معیشت جس میں نوجوان اور لائق تطبیق افرادی قوت شامل ہے، ساتھ ہی ساتھ اے آئی کو بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام عناصر ایسے مضمرات فراہم کرتے ہیں جو اقتصادی نمو کو تقویت بہم پہنچائیں گے اور لیبر منڈی کے نتائج کو بہتر  بنائیں گے۔ تعلیم کو ترجیح دینا اور ہنرمندی ترقیات کارکنوں کو آراستہ کرنے کے بارے میں اہم بات ہوگی۔ اے آئی سے آراستہ پیش منظر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اہلیتیں درکار ہوں گی۔ سروے میں اس امر کو اجاگر کیا گیا ہے کہ فی الحال بڑے پیمانے پر اے آئی کو اختیار  کرنے کے معاملے میں چند رکاوٹیں درکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں پالیسی سازوں کو آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اقتصادی جائزے میں حکومت، نجی شعبے اور شعبہ تعلیم کے درمیان اشتراکی کوششوں کی تلقین کی گئی ہے  تاکہ لیبر کے شعبے میں مصنوعی انٹیلی جینس کے تابع جو تغیر رونما ہونا ہے اس کے برعکس اثرات معاشرے پر مرتب نہ ہوں۔

بنیادی ڈھانچے کے محاذ پر اقتصادی سروے میں آئندہ دو دہائیوں کے دوران اعلیٰ نمو قائم رکھنے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری پیہم طور پر جاری رکھنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ریلوے کنکٹیویٹی کے تحت اپریل -نومبر 2024 کے دوران 2031 کلو میٹر کے بقدر ریلوے نیٹ ورک چالو ہوا اور وندے بھارت کی 17 نئی ریل گاڑیوں کا جوڑا اپریل اور اکتوبر 2024 کے دوران متعارف کرایا گیا۔ 2025 کے مالی سال میں بندرگاہوں کی صلاحیت اضافے سے ہمکنار ہوئی۔ اس کے نتیجے میں عملی اثرانگیزی میں اضافہ ہوا اور بڑی بندرگاہوں پر اوسط کنٹینر ٹرن اراؤنڈ  کا وقت جو 2024 کے مالی سال میں 48.1 گھنٹے تھا وہ 2025 کے مالی سال (اپریل-نومبر) میں گھٹ کر 30.4 گھنٹے کے بقدر رہ گیا۔

اقتصادی سروے میں قابل احیاء توانائی کو ملک میں تقویت بہم پہنچانے کے سلسلے میں حکومت کی کوششوں کو اجاگر کیا گیا ہے اور اسکیموں، پالیسیوں اور مالی ترغیبات کے ذریعہ سبز سرمایہ کاری کا پہلو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ضابطہ جاتی اقدامات مثلاً پی ایم سوریہ گھر : مفت بجلی یوجنا، قومی بایو توانائی پروگرام، قومی سبز ہائیڈروجن مشن اور پی ایم – کسم کا پہلو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ شمسی اور ہوائی بجلی میں رونما ہوا صلاحیت اضافہ ایسا تھا جس نے دسمبر 2024 تک قابل احیاء توانائی کی صلاحیت میں سال بہ سال بنیاد پر 15.8 فیصد کے بقدر کا اضافہ کیا ہے۔

حکومت کا سماجی خدمات کا صرفہ 15 فیصد کی مرکب  سالانہ نمو کی شرح کا مشاہد کار رہا ہے (مرکز اور ریاستوں کو ملاکر) اور 2021 کے مالی سال سے لے کر 2025 کے مالی سال کے دوران یہی کیفیت رہی ہے۔ گنی معاون اثرانگیزی، جو کھپت کے اخراجات کا تخمینہ لگانے کی ایک اکائی ہے، حالیہ برسوں میں (دیہی علاقوں کے لیے 0.237   اور 2023-24 میں 0.266 اور شہری علاقوں کے لیے 2023 میں گھٹ کر 0.314 جو 2022-23 میں تھی، کے مقابلے میں 0.284 کے بقدر رہ گئی ہے)  جس سے آمدنی تقسیم کے معاملے میں نئی سمت کے تعین کے لیے حکومت کی پہل قدمیوں مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اسکولی تعلیم کے محاذ پر حکومت قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے لیے مختلف النوع پروگرام اور اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں۔ ان میں منجملہ دیگر باتوں کے سمگر شکشا ابھیان، دیکشا، اسٹارس، پرکھ،  پی ایم شری، اُلّاس، پی ایم پوشن، وغیرہ شامل ہیں۔ سروے میں ایسا کہا گیا ہے۔

2015 اور2022 کے مالی سال کے دوران ملک کا مجموعی صحتی صرفہ سروے کے مطابق اس میں حکومتی صحتی اخراجات کا حصہ 29.0 فیصد سے بڑھ کر 48.0 فیصد کے بقدر ہو گیا ہے۔ اسی مدت کے دوران مجموعی صحتی صرفے میں غیر معینہ اخراجات کا حصہ 62.6 فیصد سے گھٹ کر 39.4 فیصد کےبقدر رہ گیا ہے۔

بہت چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتی اکائیوں کا شعبہ بھارتی معیشت کا ایک ازحد بلند فعال شعبہ بن کر ابھرا ہے۔ سروے میں ایسا کہا گیا ہے۔ ایم ایس ایم ای کو مساوی بنیادوں پر سرمایہ فراہمی کے لیے جس کے ساتھ ان کے آگے بڑھنے کےمضمرات بھی وابستہ ہوں، حکومت نے 50000 کروڑ روپے کے بنیادی فنڈ کے ساتھ خودکفیل بھارت فنڈ کا آغاز کیا ہے۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ غیر ضروری بندشوں  میں تخفیف لاکر حکومت کاروبار کو زیادہ اثر انگیز بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں لاگتوں میں تخفیف ہوگی اور نمو کے نئے مواقع واشگاف ہوں گے۔ قواعد و ضوابط کے نتیجے میں فرموں میں تمام تر عملی فیصلوں کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس میں ریاستوں کے لیے تین اقدامات پر مبنی عمل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو ریاستوں کے لیے ہے۔ یعنی وہ باقاعدہ طریقے سے لاگت کو اثرانگیز بنانے کے لیے قواعد و ضوابط پر نظرثانی کریں گی۔ ان اقدامات میں بندشوں کے خاتمے کے شعبوں کی شناخت بندشوں اور ضوابط کو دیگر ریاستوں کے ساتھ موازنہ کرنا، دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کرنا اور انفرادی صنعتی اداروں کے معاملے میں ان تمام تر ضوابط کی لاگت کا تخمینہ لگانا ، جیسے پہلو شامل ہیں۔ سروے میں یہ بات نمایاں کرکے پیش کی گئی ہے کہ کاروبار کو سہل بنانا (ای او ڈی بی) 2.0 کو ریاستی حکومت کی قیادت والی پہل قدمی ہونی چاہئے جو کاروبار کو مشکل بنانے کے پیچھے بنیادی وجوہات کے تعین پر مرکوز ہوں۔  اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ای او ڈی کا دوسرا مرحلہ ایسا ہوگا جب ریاستیں معیارات میں نرمی متعارف کرائیں گی اور بندشوں کا خاتمہ کریں گی اور اس طرح نئی سرزمین فراہم کریں گی، نفاذ کے لیے قانونی تحفظات فراہم کریں گی، محصولات اور فیس میں تخفیف واقع ہوگی اور خدشات پر مبنی قواعد و ضوابط پر عمل ہوگا۔

جیسا کہ سروے میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے، مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے 2026 کے مالی سال کے لیے بھارت کے اقتصادی تناظر متوازن ہیں، نمو کے راستے میں رکاوٹیں بڑھی ہوئیں ارضیاتی سیاسی اور تجارتی غیریقینی صورتحال اور ممکنہ اشیاء قیمت کے صدمے شامل ہیں۔ گھریلو پیمانے پر نجی پونجی سازو سامان کے شعبے کی آرڈر بکس  کو سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے ممکن بنانا، صارفین کے اعتماد کو بہتر بنانا اور کارپوریٹ اداروں میں اجرتوں میں اضافہ نمو کو فروغ دینے کے لیے کلیدی ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ زراع کی پیداوار میں مضبوط بحالی کی بنیاد پر دیہی طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے، خوراک افراط زر میں متوقع نرمی اور ایک مستحکم اجتماعی اقتصادی ماحول مستقبل میں وسط مدتی نمو کے امکانات روشن کرے گا، مجموعی طور پر بھارت کو اپنی عالمی مسابقت میں بنیاد سطح کی ڈھانچہ جاتی اصلاحات بہتر بنانے کے ذریعہ اور بندشوں کو ہٹانے کے ذریعہ کام کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنی وسط مدتی نمو کے مضمرات کو پھر سے تقویت بہم پہنچا سکے۔

**********

 (ش ح –م ن - ا ب ن)

U.No:5862


(Release ID: 2098040) Visitor Counter : 22