وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

نئی دہلی میں پی ایم-کسان سمان سمیلن 2022 کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 17 OCT 2022 4:36PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جئے

بھارت ماتا کی جئے

 بھارت ماتا کی جئے

ہر طرف تہواروں کی گونج سنائی دے رہی ہے، دیوالی دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اور آج اسی احاطے میں ایک ایسا موقع ہے، اسی احاطے میں، ایک ہی پلیٹ فارم پر، اسٹارٹ اپس ہیں اور ملک کے لاکھوں کسان ہیں۔ جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان اور جئے انوسندھان، ایک طرح سے، یہ تقریب، ہمیں اس منتر کی ایک زندہ شکل نظر آتی ہے۔

ساتھیوں،

آج، ہندوستان کی کھیتی کے تمام بڑے شراکت دار  اس پروگرام میں پورے ملک کے کونے کونے میں براہ راست اور عملی طور پر ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے ایک اہم پلیٹ فارم سے آج کسانوں کی زندگی کو آسان بنانے، کسانوں کو مزید خوشحال بنانے اور ہمارے کاشتکاری کے نظام کو مزید جدید بنانے کی سمت میں کئی بڑے قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ آج ملک میں 600 سے زیادہ پردھان منتری کسان سمردھی کیندر شروع ہو رہے ہیں۔ اور میں  ابھی اس نمائش کو دیکھ رہا تھا جو یہاں لگی  ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی کی بہت سی ایجادات یہاں موجود ہیں، اس لیے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے وہاں تھوڑا اور ٹھہرنا چاہیے، لیکن یہ تہواروں کا موسم ہے، آپ کو زیادہ نہیں روکنا چاہیے، اس لیے میں اسٹیج پر چلا آیا۔ لیکن وہاں میں نے  پردھان منتری کسان سمردھی کیندر کا جو ڈھانچہ دیکھا ،  اس کا ایک ماڈل   کھڑا کیا ہے، میں منسکھ بھائی اور ان کی ٹیم کو واقعی مبارکباد دیتا ہوں کہ  یہ کسانوں کے لیے نہ صرف کھاد کی خرید و فروخت کا مرکز ہے، بلکہ یہ کسان سمردھی کیندر بن گیا ہے۔ کسان کے ساتھ قریبی تعلقات   قاءم کرنے والا  ، اس کے ہر سوال کا جواب دینے والا ، ہر ضرورت میں اس کی مدد کرنے والا۔

ساتھیوں،

کچھ دیر پہلے ملک کے کروڑوں کسانوں کو پی ایم کسان سمان ندھی کی شکل میں 16 ہزار کروڑ روپے کی ایک اور قسط ملی ہے۔ آپ میں سے جو لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں اگر آپ موبائل دیکھیں تو آپ کے موبائل پر یہ خبر ضرور آئی ہوگی کہ آپ کے  2000 روپے جمع  ہو چکے ہیں۔ کوئی مڈل مین، کوئی کمپنی نہیں، پیسے سیدھے میرے کسان کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ رقم اس دیوالی سے پہلے پہنچ جائے، بہت سے اہم زرعی کاموں کے وقت، میں اس موقع پر اپنے تمام فائدہ اٹھانے والے کسان خاندانوں، ملک کے کونے کونے کے تمام کسانوں، ان کے خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 

ایگریکلچر اسٹارٹ اپ جو یہاں  پر ہیں، جو لوگ اس تقریب میں آئے ہیں، میں  ان سب کا بھی جو حصہ لے رہے  ہیں ، انہوں نے کسانوں کی بہتری کے لیے جو نئی ایجادات کی ہیں، ان کی (کسانوں) کی محنت کو کیسے کم کیا جائے، ان کا  پیسہ کیسے بچایا جائے، ان کے  کام کی رفتار کیسے بڑھائی جائے، اپنی محدود زمین میں مزید پیداوار کیسے کی جائے، اس طرح کے بہت سے کام ہمارے اسٹارٹ اپ کے نوجوانوں نے کیے ہیں۔ میں بھی اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک سے بڑھکر ایک اختراع نظر آرہی ہے۔ میں ایسے تمام نوجوانوں کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو آج کسانوں کے ساتھ  جڑ  رہے ہیں اور اس میں حصہ لینے کے لیے ان کا دل سے خیرمقدم اور استقبال  کرتا ہوں۔

 

ساتھیوں،

 

آج ایک ملک، ایک کھاد، بھارت برانڈ کے تحت کسانوں کو سستی اور معیاری کھاد فراہم کرنے کا منصوبہ آج سے شروع ہو گیا ہے۔ 2014 سے پہلے فرٹیلائزر سیکٹر میں کتنا بڑا بحران تھا، کس طرح یوریا کی بلیک مارکیٹنگ ہوتی تھی، کس طرح کسانوں کے حقوق چھینے جاتے تھے، اور بدلے میں کسانوں کو لاٹھیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، یہ ہمارے کسان بھائی بہن 2014 سے پہلے کے دن کبھی نہیں  بھول سکتے ہیں۔ ملک میں یوریا کی بڑی بڑی فیکٹریاں برسوں پہلے بند ہو چکی تھیں۔ کیونکہ ایک نئی دنیا نے جنم لیا تھا، امپورٹنگ بہت سے لوگوں کے گھر بھرتی تھی، ان کی جیبیں بھرتی تھی، اس لیے یہاں کے کارخانے بند کرنے میں ان کا مزہ تھا۔ ہم نے یوریا کی بلیک مارکیٹنگ کو 100فیصد نیم  کوٹنگ سے روک دیا۔ ہم نے ملک کی 6 سب سے بڑی یوریا فیکٹریوں کو بحال کرنے کے لیے سخت محنت کی ، جو برسوں سے بند تھیں۔

ساتھیوں،

اب یوریا کی پیداوار میں خود کفالت کے لیے، ہندوستان اب تیزی سے  لیکویڈ  نینو یوریا، فلوانگ نینو یوریا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نینو یوریا کم لاگت کے ساتھ زیادہ پیداوار کا ذریعہ ہے۔ یوریا کی ایک بوری، آپ سوچیں جہاں  یوریا کی ایک بوری کی  ضرورت  ہوتی تھی ، اب  یہ کام نینو یوریا کی ایک چھوٹی بوتل سے ہو  جاتا ہے۔ یہ سائنس کا کمال ہے، ٹیکنالوجی کا عجوبہ ہے اور اسی کی وجہ سے کسانوں کو یوریا کی بوریاں، اس کی مزدوری، نقل و حمل کے اخراجات اور اسے گھر میں رکھنے کی جگہ  کی مشکلات ، ان سب سے آزادی مل گءی ہے ۔ اب آپ بازار میں آئے ہیں، دس چیزیں لے کر جیب میں ایک بوتل ڈالیں، آپ کا کام ہو گیا۔

 

کھاد کے شعبے میں اب تک کی اصلاحات کے لیے ہماری کوششوں میں آج دو اور بڑی اصلاحات، بڑی تبدیلیاں شامل ہونے جا رہی ہیں۔ پہلی تبدیلی یہ ہے کہ آج سے ملک بھر میں کھاد کی 3  لاکھ سے زیادہ دکانوں کو پردھان منتری کسان سمردھی کیندر کے طور پر تیار کرنے کی مہم شروع کی جا رہی ہے۔ یہ ایسے مراکز ہوں گے جہاں صرف کھاد ہی نہیں ملے گی، بلکہ بیج، آلات، مٹی کی جانچ، ہر قسم کی معلومات، کسان کو جو بھی ضرورت ہو، ایک ہی جگہ پر دستیاب ہوں گی۔

 

ہمارے کسان بھائیوں اور بہنوں کو اب یہاں جائیں ، وہاں جائیں، یہاں بھٹکیں، وہاں بھٹکیں، میرے کسان بھائیوں کو اس ساری پریشانی سے نجات مل گئی ہے۔  اور ایک بہت اہم تبدیلی آئی ہے، ابھی نریندر سنگھ جی تومر اسے بڑی تفصیل سے بیان کر رہے تھے۔ وہ تبدیلی  ہے کھاد کے برانڈ کے سلسلے میں، اس کے نام کے سلسلے میں، پیداوار کے یکساں  معیار کے سلسلے میں ہے۔ ابھی  تک ان کمپنیوں کی تشہیری مہموں کی وجہ سے اور ایسے لوگ ہیں جو کھاد بیچتے ہیں، جن کو زیادہ کمیشن ملتا ہے تو وہ برانڈ زیادہ بکتا ہے، اگر کمیشن کم ملتا ہے تو وہ برانڈ فروخت نہیں ہوتا۔ اور اس کی وجہ سے وہ معیاری کھاد جو کسان کو ضرورت کے مطابق ملنی چاہیے، اس مسابقت کی وجہ سے، مختلف ناموں کی وجہ سے اور ان کو بیچنے والے ایجنٹوں کی من مانی کی وجہ سے کسان پریشان  رہتا تھا۔ اور کسان بھی الجھ جاتا تھا، پڑوسی کہتا تھا کہ یہ لایا ہوں تو  وہ سمجھتا تھا کہ میں  یہ لایا ہوں، مجھ سے غلطی ہو گئی، اچھا چھوڑو اس کو پڑا رہنے دو   میں نیا لاؤں گا۔ بسا اوقات کسان اس وہم میں دوہرا خرچ کر دیتا تھا۔

 

چاہے وہ ڈی اے پی ہو، ایم او پی، این پی کے ہو، اسے کس کمپنی سے خریدنا ہے۔ یہ کسان کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ زیادہ مقبول کھاد کے لیے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی تھی۔ اب فرض کریں اس کے دماغ میں ایک برانڈ بھر گیا ہے، اسے وہ نہیں ملا اور دوسرا لینا پڑا، تو وہ سوچتا تھا کہ چلو اس سے  پہلے ایک کلو استعمال کرتا تھا ، اب دو کلو کرتے ہیں کیونکہ برانڈ دوسرا ہے، پتہ نہیں کیسے،یعنی اس کا خرچ بھی  زیادہ  ہو جاتا تھا ۔ ان تمام مسائل کو ایک ساتھ حل  کر لیا گیا ہے۔

 

اب ون نیشن، ون فرٹیلائزر سے کسان کو ہر قسم کی الجھنوں سے نجات ملے گی اور بہتر کھاد بھی دستیاب ہوگا  ۔ اب ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، ایک ہی نام، ایک ہی برانڈ، اور ایک ہی معیار کا یوریا فروخت ہوگا  اور یہ برانڈ  ہےبھارت ! اب ملک میں صرف بھارت برانڈ سے یوریا دستیاب ہوگا۔ جب پورے ملک میں کھاد کا برانڈ ایک جیسا ہو گا تو کمپنی کے نام پر کھاد کی لڑائی بھی ختم ہو جائے گی۔ اس سے کھاد کی قیمت بھی کم ہوگی، کھاد وافر مقدار میں تیزی سے دستیاب ہوگی۔

 

ساتھیوں،

 

آج ہمارے ملک میں تقریباً 85 فیصد کسان چھوٹے کسان ہیں۔ ان کے پاس ایک ہیکٹر، ڈیڑھ ہیکٹر سے زیادہ زمین نہیں ہے۔ اور یہی نہیں وقت گزرنے کے ساتھ جب خاندان پھیلتا ہے، خاندان بڑھتا ہے تو پھر اتنا چھوٹا سا ٹکڑا بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ زمین مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور ہم آج کل موسمیاتی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ دیوالی آ گئی ہے، بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ قدرتی آفات کا سلسلہ جاری ہے۔

 

ساتھیوں،

 

اسی طرح اگر زمین خراب ہو گی، ہماری دھرتی کی صحت اچھی نہیں ہو گی، اگر ہماری دھرتی ماں بیمار رہے گی، تو ہماری ماں کی زرخیزی بھی کم ہو جائے گی، اگر پانی کی صحت خراب ہو گی تو   مزید مسائل ہوں گے۔ یہ سب کسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں تجربہ کرتا ہے۔ ایسے میں زراعت کی پیداوار بڑھانے کے لیے اچھی پیداوار کے لیے ہمیں کاشتکاری میں نئے نظام بنانا ہوں گے، زیادہ سائنسی طریقے اپنانا ہوں گے، کھلے ذہن کے ساتھ ٹیکنالوجی کو  زیادہ  اپنانا ہوگا۔

 

اس سوچ کے ساتھ ہم نے زراعت میں سائنسی طریقوں کو بڑھانے، ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر زور دیا ہے۔ آج ملک میں کسانوں کو 22 کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ دیے گئے ہیں تاکہ وہ مٹی کی صحت کے بارے میں درست معلومات حاصل کر سکیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سائنسی انداز میں شعوری کوششیں کر رہے ہیں کہ کسانوں کو بہترین معیار کے بیج دستیاب ہوں۔ گزشتہ 7-8 سالوں میں ایسے بیجوں کی 1700 سے زائد اقسام کاشتکاروں کو دستیاب کرائی گئی ہیں، جو ان بدلتے موسمی حالات میں بھی اپنا مقصد پورا کر سکتے ہیں، سازگار رہتے ہیں۔

 

ہمارے یہاں موجود روایتی موٹے اناج - جوار کے بیجوں کے معیار کو بڑھانے کے لیے آج ملک میں بہت سے مرکز بنائے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں ہندوستان کے موٹے اناج کی حوصلہ افزائی کرنے کی حکومت کی کوششوں سے اگلے سال کو  پوری دنیا میں موٹے اناج کا بین الاقوامی سال قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے موٹے اناج کا دنیا بھر میں چرچا ہونے جا رہا ہے۔ اب موقع آپ کے سامنے ہے کہ دنیا میں کیسے پہنچیں؟

پچھلے 8 سالوں میں آبپاشی کے حوالے سے جو کام ہوا ہے اس سے بھی آپ سب بخوبی واقف ہیں۔ ہمارے کھیتوں کو پانی سے لبالب  بھرنا، جب تک کسان کو کھیت کی ساری فصل پانی میں ڈوبی ہوئی نظر نہیں آتی، اگر ایک پودے کے بال باہر نظر آئیں تو اسے لگتا ہے کہ پانی کم ہے، وہ پانی ڈالتا رہتا ہے، پورے کھیت کو  تالاب کی طرح کر دیتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے پانی بھی ضائع ہوتا ہے، مٹی بھی برباد ہوتی ہے، فصلیں بھی تباہ ہوتی ہیں۔ ہم نے کسانوں کو اس صورتحال سے نکالنے پر بھی کام کیا ہے۔ فی بوند زیادہ فصل، مائیکرو اریگیشن اس پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں، ڈرپ اریگیشن پر زور دے رہے ہیں۔ چھڑکاؤ پر زور دے رہے ہیں۔.

 

پہلے ہمارے گنے کے کاشتکار یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ کم پانی میں بھی گنے کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ چھڑکاؤ سے بھی گنے کی کاشت بہت اچھی ہو سکتی ہے اور پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اس کے ذہن میں ہے کہ جس طرح وہ جانور کو زیادہ پانی دے گا تو وہ زیادہ دودھ دے گا، اگر وہ گنے کے کھیت کو زیادہ پانی دے گا تو زیادہ گنے کا رس نکلے گا۔ ایسے  ہی حساب کتاب چلتے  رہے ہیں۔ پچھلے 7-8 سالوں میں ملک میں تقریباً 70 لاکھ ہیکٹر اراضی کو مائیکرو اریگیشن کے دائرے میں لایا گیا ہے۔

 

ساتھیوں،

قدرتی کاشتکاری مستقبل کے چیلنجوں کو حل کرنے کا ایک اہم طریقہ بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کے لیے بھی آج ہم ملک بھر میں کافی بیداری دیکھ   رہے ہیں۔ قدرتی کھیتی کے لیے گجرات، ہماچل پردیش اور آندھرا پردیش کے ساتھ ساتھ یوپی، اتراکھنڈ میں کسان بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ گجرات میں اس کے لیے ضلع اور گرام پنچایت سطح پر بھی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جس طرح   قدرتی کھیتی کو نئی منڈیاں ملی ہیں، جس طرح اس کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، پیداوار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

ساتھیوں،

پی ایم کسان سمان ندھی اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے چھوٹے کسان کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس اسکیم کے آغاز کے بعد سے اب تک 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کسانوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست منتقل ہو چکے ہیں۔ جب بیج جمع کرنے کا وقت ہوتا ہے، جب کھاد لینے کا وقت ہوتا ہے، تب یہ مدد کسان تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ملک کے 85 فیصد سے زیادہ چھوٹے کسانوں کے لیے بہت بڑا خرچ ہوتا ہے۔ آج ملک بھر کے کسان مجھے بتاتے ہیں کہ پی ایم کسان ندھی نے ان کی  بہت بڑی پریشانی کو کم کر دیا ہے۔

ساتھیوں،

 

آج ہم بہتر اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کھیت  اور بازارکے درمیان فاصلہ بھی کم کر رہے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے چھوٹے کسانوں کو ہوتا ہے، جو پھل، سبزیاں، دودھ، مچھلی جیسی  جلد خراب ہونے والی مصنوعات  کی پیداوار میں مصروف ہے۔ کسان ریل اور کرشی اڑان ہوائی سروس سے چھوٹے کسانوں کو بھی اس میں کافی فائدہ ہوا ہے۔ یہ جدید سہولیات آج کسانوں کے کھیتوں کو ملک بھر کے بڑے شہروں اور بیرون ملک منڈیوں سے جوڑ رہی ہیں۔

 

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ زرعی شعبے سے برآمدات اب ان ممالک کو ہونے لگی ہیں جہاں پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ زرعی برآمدات کی بات کریں تو ہندوستان دنیا کے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے۔ ہماری زرعی برآمدات میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے، کورونا کی رکاوٹوں کے  سبب  دو سال کی مشکلات کے باوجود۔

 

کملم  فروٹ جسے پہاڑی زبان میں ڈریگن فروٹ کہتے ہیں، گجرات سے بڑے پیمانے پر بیرون ملک جا رہا ہے۔ ہماچل سے پہلی بار کالا لہسن برآمد کیا گیا ہے۔ آسام کے برمی انگور، لداخ کی خوبانی، جلگاؤں کے کیلے یا بھاگلپوری زرداری آم، ایسے بہت سے پھل ہیں جو غیر ملکی منڈیوں کو پسند آ  رہے ہیں۔ آج ایک ضلع ایک پروڈکٹ جیسی اسکیموں کے تحت ایسی مصنوعات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ آج ضلعی سطح پر ایکسپورٹ ہب بھی قائم کیے جا رہے ہیں جس سے کسانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

ساتھیوں،

آج پروسیسڈ فوڈ میں بھی ہمارا حصہ بہت بڑھ رہا ہے۔ اس سے کسانوں کے لیے اپنی پیداوار کی زیادہ قیمتیں حاصل کرنے کا راستہ کھل رہا ہے۔ اتراکھنڈ کا موٹا اناج پہلی بار ڈنمارک گیا۔ اسی طرح کرناٹک سے آرگینک جیک فروٹ پاؤڈر بھی نئی منڈیوں میں پہنچ رہا ہے۔ اب تریپورہ بھی اس کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ بیج ہم نے پچھلے 8 سالوں میں بوئے ہیں، جن کی فصل اب پکنا شروع ہو گئی ہے۔

 

ساتھیوں،

آپ سوچیے  ، میں آپ کو کچھ اعدادوشمار بتاتا ہوں۔ ان اعدادوشمار کو سن کر آپ محسوس کریں گے کہ ترقی اور تبدیلی کیسے آتی ہے۔ 8 سال پہلے جہاں ملک میں صرف 2 بڑے فوڈ پارک تھے، آج یہ تعداد 23 ہو گئی ہے۔ اب ہماری کوشش یہ ہے کہ کسان پروڈیوسر  یونینوں یعنی  ایف پی او اور بہنوں کے سیلف ہیلپ گروپس کو اس شعبے سے کیسے زیادہ سے زیادہ جوڑا جائے۔ کولڈ اسٹوریج ہو، فوڈ پروسیسنگ ہو، ایکسپورٹ ہو، چھوٹے کسان ایسے ہر کام میں براہ راست شامل ہوں، اس کے لیے حکومت آج مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔

ساتھیوں،

ٹیکنالوجی کا یہ استعمال بیج سے مارکیٹ تک پورے نظام میں بڑی تبدیلیاں لا رہا ہے۔ ہماری زرعی منڈیوں کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی، ٹیکنالوجی کے ذریعے کسان گھر بیٹھے ملک کے کسی بھی بازار میں اپنی پیداوار فروخت کر سکتے ہیں، یہ بھی ای-نام کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ اب تک ملک کے ڈھائی کروڑ سے زیادہ کسان اور ڈھائی لاکھ سے  زیادہ تاجر ای-نام سے جڑ چکے  ہیں ۔

 

آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ اب تک اس کے ذریعے 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا لین دین ہوچکا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج ملک کے دیہاتوں میں زمینوں اور مکانات کے نقشے بنا کر کسانوں کو پراپرٹی کارڈ دیے جا رہے ہیں۔ ان تمام کاموں کے لیے ڈرون جیسی ٹیکنالوجی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ساتھیوں،

ہمارے اسٹارٹ اپ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو ایک نئے دور میں لے جا سکتے ہیں تاکہ کاشتکاری کو زیادہ منافع بخش بنایا جا سکے۔ آج اتنی بڑی تعداد میں اسٹارٹ اپ پارٹنرز  آپ سے جڑے ہیں۔ گزشتہ 7-8 سالوں میں زراعت میں اسٹارٹ اپس کی تعداد، یہ اعداد و شمار سن لیں، پہلے 100 تھی، آج 3 ہزار سے زائد اسٹارٹ اپ زراعت میں ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ یہ اسٹارٹ اپ، یہ اختراعی نوجوان، ہندوستان کا  یہ ہنر ، ہندوستانی زراعت کا ، ہندوستان کی دیہی معیشت کا  مستقبل   نئے سرے سے لکھ رہے ہیں۔ لاگت سے لے کر ٹرانسپورٹیشن تک، ہمارے اسٹارٹ اپس کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔

 

اب دیکھیں کسان ڈرون سے کسان کی زندگی کتنی آسان ہونے والی ہے۔ ڈرون یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ  مٹی  کیسی  ہے، کونسی کھاد کی ضرورت ہے، کتنی آبپاشی کی ضرورت ہے، کون سی بیماری ہے، کونسی دوا کی ضرورت ہے، اور آپ کو صحیح رہنمائی دے سکتا ہے۔ اگر دوا کا اسپرے کرنا ہے تو ڈرون اسی جگہ پرا سپرے کرتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے، جتنی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سےا سپرے اور کھاد کا ضیاع بھی رک جائے گا اور میرے کسان بھائیوں اور بہنوں کو کسان کے جسم پر پڑنے والے کیمیکل کے اثرات سے  بھی نجات مل جائے گی۔

 

بھائیو اور بہنوں،

آج ایک اور بڑا چیلنج ہے، جس کا میں آپ سبھی کسان دوستوں، ہمارے اختراع کاروں کے سامنے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم سب کو یہ سمجھ کر مشن موڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہے کہ میں خود انحصاری اور زراعت پر اتنا زور کیوں دے رہا ہوں، اس میں کسانوں کا کیا کردار ہے۔ آج ہم جن چیزوں کی درآمد میں سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں وہ ہیں خوردنی تیل، کھاد، خام تیل،  ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے ہمارے دوسرے ممالک کو صرف خریدنے کے لیے دینے پڑتے ہیں۔ جب بیرون ملک کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اس کا پورا اثر ہم پر بھی پڑتا ہے۔

 

اب جیسا کہ پہلا کورونا آیا، ہم مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد کے دن نکال رہے تھے، راستے تلاش کر رہے تھے۔ کورونا ابھی ختم  نہیں ہوا تھا کہ  لڑائی چھڑ گئی۔ اور یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے ہم بہت سی چیزیں خریدتے تھے۔ جہاں ہماری زیادہ ضرورتیں تھیں وہ ممالک جنگوں میں الجھ گئے ہیں۔ ایسے ممالک پر جنگ کا اثر بھی بڑھ گیا ہے۔

 

اب صرف کھاد  کو ہی لے لیں  ،یوریا ہو، ڈی اے پی ہو یا دیگر کھادیں، عالمی منڈیوں میں دن رات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں، جس کا معاشی بوجھ ہمارے ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج ہم بیرون ملک سے 75-80 روپے فی کلو کے حساب سے یوریا خریدتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے کسانوں پر بوجھ نہ پڑے ، ہمارے کسانوں کو کسی نئے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے، جو ہمارا یوریا 70-80 روپے میں باہر سے لاتے ہیں، ہم کسانوں کو 5 یا 6 روپے میں پہنچاتے ہیں بھائیو، تاکہ میرے کسان بھائیو  اور بہنوں کو تکلیف نہ ہو۔ کسانوں کو کم قیمت پر کھاد کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اس سال اب اس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ آنے سے کئی کام کرنے میں رکاوٹیں ہیں۔ اس سال ہمیں مرکزی حکومت کی طرف سے اس یوریا کی خریداری پر   تقریباً 2.5 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے  پڑ رہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

درآمدات پر اخراجات کو کم کرنے کے لیے، ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے، ہم سب کو مل کر عزم کرنا ہو گا، ہم سب کو مل کر اس سمت میں چلنا ہو گا، ہم سب کو بیرون ملک سے کھانے کی چیزیں لانی پڑیں  ، کھیتی باڑی کے لیے چیزیں لانی پڑیں ، اس سے  آزاد ہونے کا عزم کرنا پڑے گا۔ خام تیل اور گیس پر غیر ملکی انحصار کو کم کرنے کے لیے آج ملک میں بائیو فیول، ایتھنول پر بہت کام ہو رہا ہے۔ اس کام سے کسان کا براہ راست تعلق ہے، ہماری زراعت جڑی ہوئی ہے۔ کسانوں کی پیداوار سے بننے والے ایتھنول اور کچرے سے بائیو سی این جی، گائے کے گوبر سے بائیو گیس پر کاریں چلنی چاہئیں، یہ کام آج ہو رہا ہے۔ خوردنی تیل میں خود کفالت کے لیے ہم نے مشن آئل پام بھی شروع کیا ہے۔

 

آج میں آپ تمام کسان دوستوں سے گزارش کروں گا کہ اس مشن کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ تیل کے بیجوں کی پیداوار بڑھا کر ہم خوردنی تیل کی درآمد کو بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔ ملک کے کسان اس کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب میں نے آپ سے  2015 میں دالوں کے معاملہ میں اپیل کی تھی   تو آپ نے میری بات کو سر آنکھوں پر لیا  تھا اور آپ نے  کر کے دکھایا تھا۔

 

ورنہ پہلے کیا حال تھا، ہمیں بھی بیرون ملک سے دالیں لا کر کھانی پڑتی تھیں۔ جب ہمارے کسانوں نے عزم کیا تو انہوں نے دالوں کی پیداوار میں تقریباً 70 فیصد اضافہ کیا۔ ایسی قوت ارادی کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے، ہندوستان کی زراعت کو مزید جدید بنانا ہے، نئی بلندیوں تک پہنچانا ہے۔ آزادی کے امرت  کال میں، ہم زراعت کو پرکشش اور خوشحال بنائیں گے، اس عزم کے ساتھ، میں اپنے تمام کسان بھائیوں اور بہنوں، اسٹارٹ اپس سے وابستہ تمام نوجوانوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

 

بہت شکریہ !

 

****

ش ح ۔ م م ۔ م ر

U.No:11520


(Release ID: 1868625) Visitor Counter : 415