وزیراعظم کا دفتر

پہلے’’ارون جیٹلی میموریل لیکچر‘‘ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 08 JUL 2022 11:24PM by PIB Delhi

نمسکار!

آج کا دن میرے لیے ناقابل تلافی نقصان اور ناقابل برداشت تکلیف کا دن ہے۔ میرے عزیز دوست اور جاپان کے سابق وزیر اعظم جناب شنزو آبے اب ہمارے درمیان  نہیں رہے ہیں۔  آبے  میرے تو ساتھی تھے ہی وہ بھارت کے بھی اتنے ہی قابل اعتماد دوست تھےان کے دور میں بھارت جاپان میں  جو سیاسی تعلقات تھے اس سے نہ صرف ہمیں ایک نئی بلندی ملی بلکہ ہم نے دونوں ممالک کے مشترکہ ورثے سے جڑے تعلقات کو بھی خوب آگے بڑھایا۔ آج بھارت کی ترقی کی جو رفتار ہے ، جاپان کے تعاون سے ہمارے  یہاں جو کام ہورہے ہیں، ان کے  ذریعے شنزو ابے جی بھارت کے عوام کے ذہنوں میں برسوں برس بسے  رہیں گے۔ میں ایک بار پھر دکھی من سے  اپنے دوست کو خراج عقیدت پیش  کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج کا یہ اہتمام میرے ایک اور  گہرے دوست ارون جیٹلی جی کو وقف ہے۔گزشتہ دنوں کو یاد کرتے  ہیں تو ان کی بہت ساری باتیں، ان سے جڑے بہت سے واقعات  فطری طور پر یاد آتے ہیں۔ اور یہاں ان کے  بہت سارے پرانے  ساتھی میں دیکھ رہا ہوں۔ ان کے فن خطابت  ہم سب قائل تھے اور ان کے ون لائنر  لمبے عرصے تک فضا میں گونجتے رہتے تھے۔ ان کی شخصیت تنوع سے بھری تھی اور ان کا مزاج سب سے دوستی والا تھا۔یہ  جنتے بھی سب لوگ نظر آتے ہیں، ہر ایک کی  الگ الگ دنیا ہے لیکن سب ارون کے دوست تھے۔ یہ سب سے دوستی کی ارون کی خصوصیت  تھی اور اس کی شخصیت کی اسی  خوبی کو سبھی  آج بھی  یاد کرتے ہیں اور ہر کوئی ارون کی کمی محسوس کرتا ہے۔

میں ارون جیٹلی جی کو دلی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

ارون جی کی یاد میں اس لیکچر کا جو موضوع رکھا گیا ہے – گروتھ تھرو انکلوسی وٹی، انکلوسی وٹی  تھرو گروتھ (ترقی کے ذریعے شمولیت، شمولیت کے ذریعے ترقی) وہ حکومت کی ترقیاتی پالیسی کا بنیادی منتر ہے۔ میں  تھرمن جی کا خصوصی طور پر مشکور ہوں کہ انہوں نے ہماری دعوت قبول  کوکیا اور میں نے ان کئی بات ان کو سنا بھی   ہے،  ان کو میں  پڑھتا  بھی رہتا ہوں، ان کی باتوں میں، ان مطالعہ میں، وہ  صرف بھارت میں ہی  بولتے ہیں، تب ہیں،  دنیا کے دیگر ممالک میں بھی جب  جاتے ہیں، تو وہ کافی ریسرچ  کرتے ہیں، لوکل ٹچ ان کی ہر اکیڈمک تھنکنگ میں، ان کی فلاسفی میں بہت موزوں طریقے سے، وہ اس کو  نیٹ کرتے ، آج بھی  ہم سب نے محسوس کیا۔ بہت ہی اچھے طریقے سے وہ عالمی صورت حال سے لیکر کے ہمارے ملک کے بچوں تک ہمیں لے آئے۔ میں ان کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں  نے وقت نکالا۔

ساتھیو،

جس موضوع پر یہ بحث چل رہی ہے، جس موضوع کو لے کر آج  ارون جیٹلی کا لیکچر کا آغاز ہوا ہے، اگر میں اسے  کو آسان زبان میں کہوں تو ایک طرح سے  یہ تھیم اپنی سدیھی سادی زبان میں، میں  کہوں گا، سب کا ساتھ-سب کا  وکاس۔ لیکن اس کے  ساتھ ہی اس لیکچر کی تھیم  آج کے پالیسی میکرز کے سامنے آنے والے  چیلنجوں اور تذبذب کا بھی احاطہ کرتی  ہے۔

میں آپ سبھی سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا بغیرشمولیت کے  صحیح ترقی ممکن ہے؟ آپ اپنے آپ سے پوچھئے۔  کیا ترقی کے بغیر شمولیت کے بارے میں سوچ بھی جاسکتا ہے کیا ؟ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے مجھے 20 سال سے بھی زیادہ مدت  کام کرنے کا موقع ملا ہے اور میرے تجربات کا بچوڑ یہی ہے کہ – بغیر  شمولیت کے  حقیقی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ اور بغیر ترقی کے  شمولیت کا مقصد بھی  پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس لئے ، ہم نے شمولیت کے ذریعہ ترقی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ سب کی شمولیت کی کوشش کی۔ پچھلے 8 برسوں میں بھارت نے شمولیت کے لئے جس رفتار کے ساتھ کام کیا ہے، جس  پیمانے پر کام کیا ہے، ویسی مچال پوری دنیا میں آپ کو کبھی  بھی نہیں ملے گی۔ پچھلے آٹھ برسوں میں بھارت نے 9 کروڑ سے زیادہ خواتین کو مفت گیس کنکشن دیے ہیں۔ یہ  تعداد ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، سنگاپور، نیوزی لینڈ ان کی پوری آبادی کو بھی  شامل کرلیں تو بھی  یہ اس سے زیادہ ہے۔ یعنی آپ اسکیل  دیکھئے، پچھلے آٹھ برسوں میں بھارت نے 10 کروڑ سے زیادہ ٹوائلیٹ  بنا کر غریبوں کو دیے ہیں۔ تھرمن جی نے اس کا  بڑے  جذباتی انداز میں  ذکر کیا۔ یہ تعداد جنوبی کوریا کی کل آبادی کے دو گنا  سے بھی زیادہ ہے۔ پچھلے آٹھ برسوں میں، بھارت نے 45 کروڑ سے زیادہ جن دھن بینک کھاتے کھولے ہیں۔ یہ تعداد بھی جاپان، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، میکسیکو کی ان کی کل آبادی کے تقریباً برابر ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں بھارت نے غریبوں کو 3 کروڑ پکے گھر بناکر دئیے ہیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں آپ ہی  کی وزرا کونسل کے ایک ساتھی ایشورن سے بات ہورہی تھی ، سنگاپور کے منسٹر ، جب میں ان کو یہ اسکیل  بتاتا تھا، ہاں اسی کا، تو ایشورن نے مجھے کہا کہ تو آپ کو ہر  مہینے ایک نیا سنگاپور بنانا پڑے گا۔

میں آپ کوگروتھ تھرو انکلوسی وٹی، انکلوسی تھرو گروتھ  کی ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں، بھارت میں کچھ سال پہلے ہم نے آیوشمان بھارت یوجنا شروع کی تھی۔ جس کا ذکر تھرمن جی نے کیا اور آنے والے اہم  شعبے میں انہوں نے  صحت کے شعبے کی چرچہ  بھی کی ہے۔ اس  یوجنا  کی وجہ سے 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کواچھےسے اچھے  اسپتال میں اور  بھارت میں کہیں بھی 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج ملنا یقینی ہوا  ہے۔ 50 کروڑ لوگوں کو 5 لاکھ روپے تک کا  مفت علاج۔ پچھلے چار سالوں میں آیوشمان بھارت کی وجہ سے ملک کے ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے اپنا  مفت علاج کرایاہے۔ ہم نے اس اسکیم میں شمولیت پر فوکس کیا، غریب سے  غریب جو ہیں، آخر کی لائن  میں بیٹھا ہوا ہے، اس کو  بھی صحت کے بارے میں اچھی سے اچھی سہولت  ملے، اور وقت کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ وہ پہلو انکلوژن  کا ہے لیکن وقت  نے یہ بتایا ہے اس سے  گروتھ کا راستہ  بھی بنتا چلا گیا۔ جو پہلے ایکس کلوڈیڈ  تھے، وہ ترقی کے  اہم دھارے میں شامل ہوئے،  تو  مانگ بھی بڑھی اور ترقی کے لے مواقع کی  بھی توسیع ہوئی۔ جب بھارت کی ایک تہائی آبادی، جو پہلے بہتر ہیلتھ کیئر کی  سہولیات سے دور تھی، اسے علاج کی سہولت لی ، تو اس کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ ہیلتھ کیئر کی  صلاحیت کو اسی حساب سے  خود کو مضبوط کرنا پڑا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آیوشمان بھارت یوجنا  کی وجہ سے  کیسے پورے ہیلتھ کیئر  شعبے کی کایا پلٹ ہوئی  ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں اوسطاً تھا، 10 سال میں قریب 50 میڈیکل کالج بنا کرتے تھے۔ جبکہ بھارت میں پچھلے 7-8 سالوں میں پہلے کے مقابلے میں  4 گنا سے زیادہ یعنی تقریباً 209 نئے میڈیکل کالج بنائے گئے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہاں 50 اور کہاں 209، اور آنے والے ابھی 10 سال  جب حساب لگاؤ گا تو وہ اور آگے بڑھنے والا ہے، وہ 400 تک  پہنچنے والا ہے۔ پچھلے 7-8 سالوں میں بھارت میں انڈر گریجویٹ میڈیکل سیٹوں میں 75 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب بھارت میں سالانہ مجموعی  میڈیکل سیٹوں کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ یعنی اب ملک کو کہیں زیادہ ڈاکٹر مل رہے ہیں، ملک میں تیزی سےے  جدید میڈیکل انفراسٹرکچر  کی  تعمیر ہو رہی ہے۔  شمولیت کے لئے لائی گئی ایک اسکیم کا زمین پر  ترقی کے نقطہ نظر  سے  بھی اتنا بڑ ا اثر ہم بالکل دیکھ سکتے ہیں ۔ ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور میں آپ کو اس طرح کے درجنوں اسکیمیں گنا  سکتا ہوں۔

بھارت کی ڈیجیٹل انڈیا مہم، جس کا ذکر  ابھی  تھرمن جی نے کیا ، تقریباً 5 لاکھ کامن سروس سینٹروں نے  گاؤں  میں رہنے والے غریب تک بھی  انٹرنیٹ کی طاقت کو پہنچایا ہے۔ بھارت کے  بھیم یو پی آئی نے  کروڑوں غریبوں کو ڈیجیٹل ادائیگی کی سہولت سے جوڑ ا ہے۔ بھارت کی سوانیدھی یوجنا  نےرہڑی پٹری والے ساتھیوں کو بینکنگ سسٹم سے جڑنے کا موقع دیا ہے، جو ہمارے نگر پالیکا  میں، مہا نگر پالیکا  میں جو رہڑی پٹری والے ہوتے ہیں ، جن کے ساتھ ہمارا روز کا ناطہ ہوتا ہے۔  بینک منیجر ہوگا، اس کے گھر میں روز رہڑی پٹری والا مال دیتا ہوگا لیکن اس کو  بینک میں جگہ نہیں ہوگی، یہ حال تھا، آج ہم نے اس کو جوڑ دیا  ہے۔ اسی طرح  سے بھارت نے ایک بہت اچھا کام کیا ہے، دنیا اس پر کافی کچھ  ان دنو جو جو ماہرین اقتصادیات ہیں، وہ لکھ بھی  لکھ رہے ہیں، بڑی بڑی ایجنسیاں اسے ریٹنگ  بھی کررہی ہیں۔

بھارت کی ایک پہل ہے خواہش مند اضلاع کا  پروگرام ،  ملک کے 100 سے زیادہ اضلاع میں رہنے والے کروڑوں  ساتھیوں کو  اپ لفٹ کررہا  ہے۔ اور یہ  خواہش مند ضلع کا تصور یہ ہے کہ  بھارت کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں جو  پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کی توقعات کو ہم پورا کریں۔ ان کو  اس ریاست کی ٹاپ برابر تک  لے آئیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کو نیشنل ٹاپ کی برابر تک  لے آئیں۔

ساتھیو،

اس کا اتنا بڑا مثبت اثر ہوا ہے اور ایک طرح سے ان 100 اضلاع کا انکلوژن ہورہا ہے، ترقی کی دنیا میں۔ بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی اور یہ  بہت بڑی تبدیلی ہے اور  تعلیم پر بھی تھرمن جی نے  کافی زور دیا، اپنی بات چیت میں، بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی مادری زبان میں پڑھائی پر زور دے رہی ہے جو انگریزی نہیں جاتا ہے، جو ایکس کلوڈیڈ ہے، اسے اب مادری زبان میں پڑھ کر آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ بھارت کی اڑان یوجنا، اس ملک کی ہم نے کئی   ہوائی پٹیوں کو زند ہ  کیا ہے، نئے ہوائی اڈے بنائے ہیں، دور دور  ٹیئر2  ٹیئر 3  سٹی  میں بھی چلے گئے ہیں۔ اور اڑان یوجنا لائےطے شدہ  رقم میں  ہوائی جہاز میں سفر کی ایک تخلیق کی۔ بھارت کی اڑان یوجنا  نے ملک کے  الگ الگ کونوں کو ہوائی راستے سے جوڑا ہے، غریب کو بھی ہوائی جہاز میں اڑنے کی حوصلہ  دیا ہے۔ اور میں کہتا تھا کہ ہوئی چپل  پہننے والا بھی اب ہوائی جہاز میں بیٹھے گا۔ یعنی  انکلوژن  بھی ہو رہا ہے، ترقی بھی ہو رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے۔ آج بھارت میں ایوی ایشن کے شعبہ  کی اتنی ترقی ہورہی  ہے، ایک ہزار سے زیادہ  ایئر کرافٹ  بک ہو ہوئے ہیں بھارت کے لئے ۔ اس ملک میں ایک ہزار سے زیادہ نئے  ایئر کرافٹ خریدنا  کیونکہ پیسنجر والے انکلوژن کا ہمرا اپروچ رہا، اسی کا نتیجہ ہے۔

ابھی تھرمن جی نے  جس کی بات کی، جو میں نے گجرات میں، جس کو  بہت اہمیت دیتے ہوئے  کام کیا تھا جل جیون مشن ملک کے ہر گھر کو پائپ سے پانی کی  سپلائی سے جوڑ رہا ہے، نل سے جل اور صرف وہ پانی ملتا ہی نہیں وہ اس کا وقت بچاتا ہے، مشکلوں سے بچاتا ہے، ہیلتھی کنڈیشن سے  پانی کا بہت بڑا رول رہتا ہے۔ اس نظریئے سے یہ مشن بہت بڑی سماجی زندگی ہے اور جنہوں نے بچوں کے تغذیئے کی بات کی ، اس کا تعلق  پانی سے بھی  ہے۔  پینے کا صاف پانی یہ بھی تغذیئےکے لئے  بچوں کے لیے اہم موضوع ہے اور ہمارا نل سے جل ابھیان اس مسئلے کو  بھی حل کرنے کے بڑے مہا ابھیان  کا ایک  حصہ ہے۔ صرف تین سال میں  ہی اس مشن نے 6 کروڑ سے زیادہ گھروں کو پانی کے کنکشن سے جوڑا ہے۔ بھارت میں موٹ طور پر حساب لگائیں تو  25 سے 27 کروڑ گھر ہیں ان میں سے 6 کروڑ گھروں کو پانی پہنچا دیا ہے جی۔ یہ  شمولیت   آج ملک کے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنا رہی ہے، اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہی ہے۔ اور کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کی کتنی اہمیت ہوتی ہے،  یہ آپ  معاشی دنیا کے لوگ جو یہاںں بیٹھے ہیں وہ  اچھی طرح اس بات کو جانتے ہیں۔

میں آپ کو ایک اور مثال دوں گا۔ آپ بھی جانتے ہیں اور  یہ تو میں نے دیکھا ہے کہ  یو این  میں بھی اس  کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ایس  پی جی میں بھی  اس کے ترقیاتی مقاصد کے ان معاملات پر  بحث  ہوتی ہے  اور وہ کیا ہے  دنیا میں دہائیوں سے  کئی ممالک میں پراپرٹی  کے حقوق  یہ بہت  بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اور جب پراپرٹی  کے حقوق کی بات  کرتے ہیں تب سمجھ کےجو  آخری لوگ  ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ خطرے میں  ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہوتا ہے۔  سب سے زیادہ  مصیبتیں انہیں جھیلنی پڑتی ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر کے  خوشی ہوگی کہ بھارت نے جس رفتار سے اس سمت میں کام کیا ہے  وہ بے مثال  ہے اور  میں مانتا ہوں کے  دنیا کے  اکیڈمیشین ،  دنیا کے ماہرین اکنومسٹ اس موضوع کا مطالعہ کرکے اس موضوع کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے کہ سوامتو یوجنا کے ذریعہ  سے  ملک کے دیہی علاقوں میں  گھروں  اور عمارتوں کی میپنگ کا  کام بڑے پیمانے پر  جاری ہے۔ ابھی تک بھارت کے  ڈیڑھ  لاکھ گاؤوں میں ہم یہ کام  ڈرون کی مدد سے  کرتے ہیں۔ ڈرون سے سروے ہوتا ہے اور ٹیکنالوجی کا  بھرپور استعمال ہوتا ہے اور پورا گاؤں وہاں موجود رہتا ہے، یہ سارا پروسیس ہوتا تب، اور  ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاؤں میں  ڈرون سے  یہ سروے مکمل کیا جاچکا ہے۔ اور 37 ہزار مربع کلومیٹر زمین کی  میپنگ  کا کام کیا جا  چکا ہے،  مطلب  ان گھروں سے جڑوی ہوئی  زمین  والا اور 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے  لئے پراپرٹی کارڈ بنائے  جاچکے ہیں اور یہ بھی جو مالک ہے اس  کی رضامندی سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ  صلاح و مشورہ ہوتا ہے، اس کے آس پاس کے لوگوں سے صلاح مشورہ ہوتا ہے،  ایک طویل عمل ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے گاؤں کے لوگوں کو بینکوں سے قرض ملنا آسان ہو ا ہے، ان کی زمین اب قانونی تنازعات سے بھی بچ رہی ہے۔

ساتھیو،

آج کا بھارت مجبوری میں  اصلاحات کے بجائے ارادے  کے ساتھ اصلاحات سے آنے والے 25 سالوں کا روڈ میپ  تیار کر رہا ہے۔ جب ملک آزادی کے 100 سال  منائے، تب ملک کہاں ہوگا،  اس ہدف کو لیکر آج ہم روڈ میپ تیار کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ دہائیوں پہلے، ملک نے دیکھا کہ جب کوئی ریفارم مجبوری میں ہوتا ہے، تو اس کے ادارہ جاتی ہونے کی امید کم ہی رہتی ہے۔

جیسے ہی مجبوری ختم ہوتی  ہے، ویسے ریفارم بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ ریفارم جنتے ضروری ہوتے ہیں، اتنا ہی ضروری وہ ماحول ہوتا ہے، تحریک ہوتی ہے۔ پہلے بھارت میں بڑے ریفارمز تبھی ہوئے  جب پہلے کی حکومتوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا تھا۔ ہم ریفارمس  کو ضروری برائی  کی شکل میں نہیں  بلکہ ایک  ون ون  چوائز کے روپ  میں مانتے  ہیں، جس میں  ملک کا مفاد بھی ہے، عوامی مفاد بھی ہے۔ اس لیے گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے جو بھی  ریفارم کئے ، انہوں نے  نئے ریفارمز کے لئے راستے تیار کئے ہیں۔

ارون جی آج جہاں بھی ہوں گے، وہ مطمئن ہوں گے کہ وہ جس مشن میں حصے دار رہے اس کا  فائدہ آج ملک کو  مل رہا ہے۔  جی ایس ٹی ہو یا آئی بی سی، ان کو لیکر برسوں تک چرچہ ہوئی، آج ان کی کامیابی ہمارے سامنے ہے۔ کمپنیز ایکٹ کو ڈی کریملائز کرنا ہو، کارپوریٹ ٹیکسز کو کمپیٹیٹیو   بنانا ہو، خلا،  کوئلے کی کان کنی اور جوایٹمی  شعبوں کو کھولنا ہو، ایسے کئی ریفارم  آج 21ویں صدی کے بھارت کی حقیقت ہیں۔

ساتھیو،

ہماری پالیسی سازی پلس آف دی پیپل  پر مبنی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی بات سنتے ہیں، ان کی ضرورت، ان کی توقتات کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے  ہم نے  پالیسی کو عوامی مقبولیت کے دباؤ میں نہیں آنے دیا۔ عوام کی پلس کے  فیصلہ لینا اور پاپولزم کے سامنے ہتھیار ڈال دینے میں کیا فرق ہے، یہ کووڈ  کے دور میں بھارت نے دیکھا ہے، اور دیکھا ہی نہیں ، دنیا کو دکھایا ہے۔ بڑے  بڑے ماہرین معاشیات کیا کہہ رہے تھے عالمی وبا کے وقت، جب عالمی وبا آئی، تو  پوری دنیا میں بڑے  بیل آؤٹ پیکجوں کے لئے ، مانگ کے مطابق نی ری کوری کے لیے ایک پاپولسٹ  امپلس تھا، ہم پر  بھی دباؤ تھا اور ہماری تنقید ہوتی تھی۔ وہ کچھ نہیں کر رہے،  یہ کچھ دیکھ نہیں رہے ہیں، پتہ نہیں کیا کچھ ہمارے لئے کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ لوگ یہ چاہتے ہیں،ایکسپرٹ یہ چاہتے ہیں، بڑے بڑے عالم یہ چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت  دباؤ  میں نہیں آیا، اس نے ایک الگ اپروچ اپنائی  اور بہت سمجھ داری کے ساتھ  پرسکون  ذہن سے  اپنائی۔ ہم نےپیپل فرسٹ اپروچ کے ساتھ  غریب کو تحفظ دیا، خواتین، کسانوں، ایم ایس ایم ایز پر توجہ دی، ہم دنیا  سے  الگ اس لیے  کرپائےکیونکہ  ہمیں عوام کی پلس یعنی کیا چاہتے ہیں ان کی کیا  فکر ہے۔ اس کا احساس ہے۔ اس لئے  بھارت کی ری کوری  اور باقی دنیا کی ری کوری ممیں جو  فرق  ہے وہ ہم ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔

ساتھیو،

میں اکثر کم از کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ حکمرانی کی اپیل کرتا رہا ہوں۔ ہماری حکومت نے ایسے ڈیڑھ ہزار قوانین کو ختم کر دیا ہے، جو  لوگوں کی  زندگیوں میں غیر ضروری مداخلت کر رہے تھے۔ اور مجھے یاد ہے 2013 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے مجھے وزیر اعظم کا امیدوار بنایا تھا، 2014 میں الیکشن ہونا تھا،  یہی دہلی میں ہی کاروباری  دنیا کے لوگوں نے مجھے پروگرام کے لیے بلایا تھا اور وہ بڑے  گرم مزاج  کا ماحول تھا۔ کیا کرو گے، کتنا کرو گے فلاں کام کروگے، یہ سب پوچھ رہے تھے کہ یہ قانون بناؤ گے ، نہیں قانون بناؤگت ایسا  بڑا دباؤ تھا،  چناؤ  کا دن تھا تو  ہم بھی ذرا ۔ میں نے کہا دیکھئے آپ قانون بنانا چاہتے ہیں، میں آپ سے  ایک وعدہ کرتا ہوں، میں ہر روز ایک قانون ختم کروں گا، میں نئے  بنانے کی  گارنٹی  نہیں دیتا ہو، ختم کروں گا۔ اور پہلے 5 برسوں میں ڈیڑھ ہزار قوانین کو ختم کرنے کا کام کردیا  ساتھیو، جو عوام  پر  بوجھ بن گئے تھے۔

ساتھیو،

آپ کو جان کر خوشی ہوگی، ہماری حکومت نے 30 ہزار سے زیادہ یعنی اعداد و شمار پر  بھی آپ حیران ہوں گے، جی 30 ہزار سے زیادہ  ایسے کمپلائنسز کو بھی کم کردیا ہے جو کاروبار کرنے میں آسانی اور زندگی گزارنے میں آسانی میں رکاوٹ  بنے ہوئے تھے۔ 30,000 کمپلائنسز کو ختم کر دینا یعنی عوام پر کتنے غٰر معمولی  اعتماد کا دور آیا ہے، اس کا نتیجہ ہوتا  ہے کہ ہم کمپلائنسز کے  بوجھ سے عوام کو  آزاد کر رہے ہیں۔ اور میں نے لال قلعہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ حکومت لوگوں کی زندگیوں سے جتنی باہر چلی جائے ہمیں نکالنی  ہے۔ لوگوں کی زندگیوں میں حکومت، حکومت، حکومت کا اثر کم سے کم ہو، لیکن جس کو حکومت کی ضرورت ہے اس کو  حکومت کی کمی نہ ہو،  یہ دونوں  موضوعات لے کر ہم نے  چلنے کی کوشش کی ہے۔ آج مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت اطمینان ہورہا ہے کہ کم سے کم حکومت کا نظریہ زیادہ سے زیادہ نتائج بھی  دے رہا ہے۔ ہم  بہت تیزی کے ساتھ اپنی صلاحیت کی توسیع کر رہے ہیں اور اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ کووڈ  ویکسین کی ہی  مثال  لیں۔ ہمارے ملک کے پرائیویٹ پلیئرز نے بہت ہی  اچھا کام کیا ہے۔ لیکن ان کے پیچھے پارٹنر ان پروگریس کی  شکل  میں حکومت  پوری طاقت  سے کھڑی تھی۔ وائرس آئسولیشن سے لے کر اسپیڈی ٹرائل تک، فنڈنگ ​​سے لے کر ریپڈ رول آؤٹ تک، جو کمپنیاں ویکسین تیار کر رہی تھیں انہیں حکومت کی طرف سے مکمل تعاون حاصل رہا۔ ایک اور مثال ہمارے خلائی ایکو سسٹم نظام کی ہے۔ آج بھارت پوری دنیا میں سب سے  زیادہ قابل اعتماد اور جدید ترین اسیس سروس پرووائڈرز میں سے ایک ہے۔اس میدان میں بھی  ہمارا پرائیویٹ سیکٹر ایکو سسٹم   بہت  ہی بہترین  کام کر رہا ہے۔ لیکن ان کے پیچھے بھی پارٹنر اِن پروگریس کی شکل میں حکومت کی پوری طاقت ہے جو انہیں ہر سہولت اور معلومات دستیاب  کرانے میں ان کی مدد کر رہی ہے۔ جب ہم بھارت کی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ایکو سسٹم  کی مثال لیتے ہیں تو ہمارے یہاں فن ٹیک  کے ساتھ ہی  ڈیجیٹل ادائیگیوں سے جڑےکئی  بڑے  پلیئرس  ہیں۔ لیکن یہاں بھی دیکھیں تو ان کے پیچھے جیم  ٹرینٹی  روپے، یو پی آئی اور معاون پالیسیوں کی  مضبوط بنیاد ہے۔ یہاں میں نے صرف چند مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ لیکن میں انہیں دنیا کے لیے ایک  تحقیق کا موضوع سمجھتا ہوں، اکیڈمک ورلڈ کو  گہرائی میں جانے کے لیے زور  دیتا ہوں، میں پوری دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات کو مدعو کرتا ہوں، آئیے اس کی باریکیوں کو دیکھئے۔ اس  بڑے ملک کی متعدد مختلف النوع ضروریات کے باوجود ہم کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھیں تو  اب صرف پرائیویٹ سیکٹر یا سرکاری غلبے والے انتہائی ماڈلوں کی باتیں اب  پرانی ہوچکی ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو  پارٹنر ان پروگریس مان کر ان کی حوصلہ افزائی کرے اور ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

ساتھیو،

سب کو ساتھ لے کر چلنے ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ  دونوں شعبوں پر بھروسہ کرنے کا یہی جذبہ ہے، جس کی وجہ سے آج بھارت میں  ترقی کے لیے حیرت انگیز جوش دکھا رہا ہے۔ آج ہماری برآمدات نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ سروس سیکٹر بھی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پی ایل آئی اسکیموں کا اثر مینوفیکچرنگ سیکٹر پر نظر آنے لگا ہے۔ موبائل فون سمیت پورے الیکٹرانک مینوفیکچرنگ سیکٹر میں  کئی گنا  اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب میں نے اس کورونا کے دور میں کھلونوں کو لیکر    سمٹ کی تھی  کھلونوں ،تو کئی  لوگوں کو یہ محسوس ہوا  ہوگا کہ پی ایم کبھی جھاڑو کی بات کرتا ہے، صفائی ستھرائی  کی بات کرتا ہے، ٹوائلٹ کی بات کرتا ہے اور اب وہ کھلونوں کی بات کررہا ہے ۔ کئی لوگوں کو  کیونکہ اب تک وہ ان بڑی باتوں میں پھنسے رہے ہیں، تو میری باتیں  ان  گے بیٹھتی  نہیں  تھیں۔ صرف  کھلونوں پر  میں نے دھیان دیا ، کھلونے بنانے والوں پر ، میں نے توجہ مرکوز کی۔ ٹیکنالوجی پر توجہ دی، اختراع  پر توجہ دی، مالیاتی شعبے پر توجہ دی، ابھی تو  2 سال پورے  نہیں ہوئے ہیں، میرے اہل وطن فخر کریں گے کہ  کھلونو کا امپورٹ اتنی کم  مدت  میں اتنا گھٹ گیا، ورنہ ہمارے گھر  گھر میں کھلونا غیر ملکی ہوا کرتا تھا۔ درآمدات میں اتنی کمی آئی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بھارت کے کھلونے  بھارت کے ٹوائز  پہلے جتنا امپورٹ ہوتا تھا اس سے زیادہ آج ایکسپورٹ ہونے لگے ہیں۔ یعنی کتنا بڑا پوٹینشیل، جس کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا، جیسے آپ نے کہا کہ سیاحت، میں آپ سے متفق ہوں، بھارت میں سیاحت کے امکانات اتنے  زیادہ ہیں لیکن ہم ایک ہی جگہ پر اٹک  گئے تھے،  ہندوستان کو مکمل شکل میں دنیا کے سامنےلے جانے کا  ہم نے ، پتہ نہیں ہماری ذہنیت ہی ہوچکی تھی  اور میں تو بیرونی ممالک کے مہمان جو بھی آتے ہیں ان سے  بھارت کے کسی  نہ کسی  مقام پر جانے کا اصرار کرتا ہوں ، شاید میری سیاحت کو ، اس بار ہم نے یوگا کا پروگرام کیا اور 75 آئیکونک  مقامات پر کیا کہ پتہ چلے کے ٹورزم کے ایسے ایسے مقامات ہیں  ہمارے یہاں ٹورازم کے امکانات، آپ نےصحیح فرمایا  پوری دنیا کے لیےدل کشی کا  بہت بڑا  مرکز بن سکتا ہے بھارت۔

ساتھیو،

ہماری ڈیجیٹل معیشت بھی تیزی سے آگے بڑھ  رہی ہے۔ فزیکل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر  ریکارڈ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ یعنی ہمارے گروتھ انجن سے  جڑا  ہر شعبہ آج پوری صلاحیت کے ساتھ چل رہا ہے۔

ساتھیو،

آزادی کا یہ امرت کال  بھارت کے لیے بے شمار نئے مواقع لے کر آ رہا ہے۔ ہمارا  ارادہ پکا  ہے، ہمارا ارادہ اٹل ہے۔ مجھے یقین ہے، ہم اپنے عزائم کو پورا کریں گے، 21ویں صدی میں وہ بلندی حاصل کریں گے جس کا بھارت مستحق ہے۔ اور جیسا کہ تھرمن جی کچھ چیلنجز کے لیے بتا رہے تھے، میں مانتا ہوں کہ چیلنجز ہیں لیکن اگر چیلنج ہیں تو 130 کروڑ سولیوشن بھی ہیں، یہ میرا یقین ہے اور اس یقین کو لے کر، چیلنجوں کو ہی چیلنج دے کر آگے بڑھنے کا عزم لے کر چل رہے ہیں اور اس لیے ہم نے انکلوژن  کا راستہ لیا ہے اور اسی راستے سے  گروتھ  کو بھی پانے کا  ارادہ رکھا ہے۔ ایک بار پھر ارون جی کو یاد کرتے ہوئے میں نے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ تھرمن جی کو  خاص طور پر مبارکب باد دیتا ہوں۔ میں آپ سب کا بھی تہہ دل سے  بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ ۔ن ا۔

U-7397            



(Release ID: 1840367) Visitor Counter : 191