وزیراعظم کا دفتر

وزیراعظم نریندرمودی کا جرمنی کے شہر برلن میں کمیونٹی استقبالیہ میں خطاب کا متن

Posted On: 02 MAY 2022 11:59PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے، نمسکار ، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ماں بھارتی کی سنتانوںکو آج  جرمنی میں آکر ملنے کا موقع ملا ہے آپ سبھی سے مل کر مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگ جرمنی کے الگ الگ شہروں سے آج یہاں برلن  پہنچے ہیں۔آج صبح میں  بہت حیران تھا کہ ٹھنڈ کا وقت  ہے یہاں بھارت میں گرمی  بہت  ہے ان دنوں  لیکن کئے چھوٹے چھوٹے  بچے بھی صبح ساڑھے چار بجے آگئے تھے ۔آپ  کا پیار ،آپ کا آشیر وار  ،  یہ میری بہت بڑی  طاقت ہے ۔ میں جرمنی  پہلے بھی آیا ہوں  ۔ آپ  میں سے کئی لوگوں سے  پہلے ملابھی ہوں ، آپ میں سے کئے لوگ جب بھارت آئے ہیں تب  بھی کبھی  کبھی ملنے کا موقع  ملا ہے اور میں  دیکھ رہا ہوں کہ ہماری جو نئی نسل ہے ، جو نوجوان نسل ہے ، یہ بہت بڑی تعداد نظر آرہی ہے اور اس کا سبب نوجوان  میں جوش بھی ہے لیکن آپ نے اپنے مصروف لمحات میں سے یہ وقت نکالا ۔ آپ یہاں آئے ۔ میں تہہ دل سے آپ سب کا بہت شکرگزار ہوں ۔ ابھی ہمارے سفیر بتارہے تھے کہ یہاں تعدادکے اعتبار سے تو جرمنی  میں  بھارتیو ں کی تعداد  کم ہے لیکن آپ کے پیار میں کوئی کمی نہیں ہے۔آپ کے جوش میں کوئی کمی نہیں ہے اور یہ منظر آج جب ہندوستان کے لوگ  دیکھتے ہیں  تو ان کا بھی دل فخر سے بھر جاتا ہے دوستو!

ساتھیو!

آج میں آپ سے نہ میں میری بات  کرنے آیا ہوں  نہ مودی سرکار کی بات کرنے آیاہوں  لیکن آج دل کرتا ہے  کہ جی بھر کے آپ لوگوں  کو کروڑوں  کروڑوں ہندوستانیوں کی صلاحیت اور لیاقت کی بات  کروں ۔ان کا فخر سے احترام اورعز ت کروں ، ان کے گیت گاؤں اور جب میں  ہندوستانیوں کی بات کرتا ہوں تو صرف  وہ لوگ نہیں جو وہاں رہتے ہیں  بلکہ وہ لوگ  بھی جو یہاں رہتے ہیں۔ میری اس بات میں  دنیا  کے ہرکونے میں بسنے والے ماں بھارتی کی سنتانوں کی بات ہے۔ میں سب سے  پہلے جرمنی میں  کامیابی کے جھنڈے گاڑرہے آپ سبھی  بھارتیوں کو بہت   بہت  مبارکباد پیش کرتا ہوں اور  تہہ دل سے نیک تمناؤں  کا اظہار کرتا ہوں ۔

ساتھیو!

اکیسویں صدی کا یہ وقت بھارت کے لئے ،  ہم بھارتیوں کے لئے اور خاص کر ہمارے نوجوانو ں کے لئے بہت اہم وقت  ہے۔ آج بھارت من بناچکا ہے اور بھارت نے  وہ من بنالیا ہے ، بھارت آج  عز م کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔آج بھارت کو پتہ ہے کہ کہاں  جانا ہے ، کیسے جانا ہے ، کب تک جانا ہے  اور آپ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی ملک کا من بن جاتا ہے تو وہ  ملک نئے راستوں  پر بھی چلتا ہے  او ر من چاہی منزلوں کو  حاصل کرکے  بھی دکھاتا ہے۔ آج کا خواہش سے بھرا ہندوستان ، آرزومند بھارت  ، آج کا نوجوان ،بھارت ملک کی تیز  ترقی چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے لئے سیاسی استحکام  اور مضبوط  قوت ارادی کتنی ضروری ہے ، کتنی  لازمی ہے۔وہ آج کے ہندوستان کو پوری  طرح سمجھتا ہے اور اس لئے بھارت کے لوگوں نے تین دہائیوں سے چلے آرہے سیاسی   استحکام کے ماحول کو ایک بٹن دباکر  ختم کردیا ہے۔ بھارت کے ووٹرس کو  پچھلے سات آٹھ سال میں اس کے ووٹ کی طاقت کیا ہوتی ہے اور ایک ووٹ ہندوستان کو کیسے بدل سکتا ہے، اس کا احساس  ہونے لگا ہے۔مثبت تبدیلی اور تیز ترقی کی آرزو بھی تھی  کہ  جس کے  پیش نظر 2014  میں  بھارت کے عوام نے قطعی اکثریت والی سرکار چنی اور 30سال  بعد ایسا ہوا  ہے۔ یہ بھارت کی عظیم قوم  کی دوراندیشی ہے کہ سال 2019  میں  اس نے ملک کی سرکار کو  پہلے سے بھی زیادہ مضبوط  بنادیا ۔ بھارت کو چوطرفہ آگے بڑھانے  کے لئے اس طرح کی  فیصلہ کن سرکار چاہئے ، ویسے سرکار کو بھی  بھارت کے عوام نے اقتدار سونپا ہے ۔ میں  جانتا ہو ں ساتھیو کہ امیدوں  کا کتنا بڑا آسمان  مجھ سے جڑا ہوا ہے ۔ لیکن میں یہ بھی  جانتا ہوں  کہ محنت کے عمل  سے  خود کو کھپا کر ایک ایک بھارتیوں کے تعاون سے ان بھارتیوں کی قیادت میں  بھارت نئی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ بھارت  ان وقت نہیں گنوائے گا ،  بھارت اب وقت نہیں کھوئے گا۔ آج وقت  کیا ہے ،اس وقت  کی  لیاقت کیا ہے اور اسی وقت میں   پانا کیا ہے وہ ہندوستان پور ی  طرح جانتا ہے۔

ساتھیو!

اس سال ہم اپنی آزادی  کا 75 واں سال منارہے ہیں۔  میں ملک کا پہلا وزیر اعظم ایسا ہوں  جو آزاد ہندوستان میں  پیدا ہوا ہے ۔  بھارت جب اپنی آزادی کے 100سال منائے گا۔ ابھی  25سال ہمارے  پاس ہیں۔ اس وقت ملک جس اونچائی  پر ہوگا اس ہدف کو لے کر آج ہندوستان مضبوطی کے ساتھ ایک کے بعد ایک قدم رکھتے ہوئے تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیو!

بھارت میں  نہ کبھی وسائل کی کمی رہی اور نہ ہندوستانیوں کی کمی رہی۔آزادی کے بعد ملک نے ایک  راستہ  طے  کیا ،  ایک سمت طے کی ، لیکن وقت کے ساتھ  جو بہت ساری تبدیلیاں  ہونی چاہئیں تھیں  ،جس تیزی سے ہونی چاہئیں  تھیں،جتنے  وسیع ہونے چاہئیں  تھے کسی نہ کسی  وجہ سے ہم  کہیں  پیچھے چھوٹ  گئے ۔ بیرونی حکومت نے  بھارتیوں کا سال در سال   جو اعتماد  اور بھروسہ  کچلا تھا اس کی بھرپائی کا ایک ہی طریقہ تھا  کہ پھرسے  ایک بار  بھارت کی عوام میں  اعتماد پید ا کرنا ، خود  پر فخر کرنا  اور اس کے لئے سرکار کے تئیں   بھروسہ  بنانا بہت ضروری  تھا۔انگریزوں کی روایت کی بدولت  حکومت اور عوام کےدرمیان  بھروسے کی ایک بہت  بڑی کھائی تھی ،شک کے بادل منڈلارہے تھے کیونکہ  انگریزوں کی حکومت میں جو دیکھا تھا اس کی تبدیلی نظر آنی چاہئے ۔اس  رفتار کی کمی تھی اور اس لئے وقت کا تقاضا تھا کہ عام انسان کی   زندگی میں سرکار  کم ہوتی چلی جائے ۔سرکار ہٹتی جائے  ، کم سے  کم حکومت زیادہ سے زیادہ حکمرانی  ، جہاں  ضرورت  ہو وہاں سرکار کی کمی نہیں ہونی چاہئے ۔ لیکن جہاں  ضرورت نہ ہو، وہاں  سرکار کا اثر بھی  نہیں ہونا چاہئے۔

ساتھیو!

ملک آگے بڑھتا ہے جب ملک کے لوگ  خود اس کی ترقی کی قیادت کریں  ۔ ملک آگے بڑھتا ہے جب ملک کے لوگ آگے آکر اس کی سمت  طے کریں ۔ اب آج کے بھارت میں سرکار نہیں  ، مودی نہیں  ، ملک کا ہر شہری  ڈرائیونگ فورس  پر  بیٹھی ہو ئی ہے اس لئے ہم ملک کے لوگوں  کی زندگی سے سرکار  کا دباؤ  بھی ہٹ رہا ہے اور میں  ہمیشہ کہتا ہوں  ، ریفارمس  کے لئے  سیاسی  بصیرت چاہئے۔ کارکردگی کے لئے حکومت   مشنری کا   قیام چاہئے  اور اصلاحا ت کے لئے  عوام کی حصہ داری چاہئے ۔تب  جاکر  اصلاحات  ، کارکردگی ،  ٹرانسفارم کی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ آج بھارت  ایز آف لیونگ ،  ایز آف ڈوئنگ  بزنس ، خدمات کی فراہمی   اور معیار   ،مصنوعات کی کوالٹی ،  ہرشعبے میں تیزی سے کام  کررہی ہے۔ نئی بلندی چھو رہی ہے۔وہی ملک ہے آپ جسے چھوڑ کر آئے تھے  یہاں  ،دیش وہی ہے ، بیورو کریسی  بھی وہی  ہے ، ٹیبل بھی  وہی  ہے ،قلم  بھی وہی ہے ،فائل  بھی  وہی ہے ، وہی سرکار مشین  ہے ، لیکن اب نتیجے بہتر  مل رہے ہیں۔

ساتھیو!

2014سے  پہلے جب بھی میں  آپ جیسے ساتھیو سے بات کررہا تھا اور آپ  کو بھی پرانے دن یاد ہوں  گے  یا آج کبھی  جاتے ہوں  گے تو دیکھتے ہوں  گے ، جہاں  بھی دیکھو لکھا ہوتا تھی ،ورک ان پروگریس  ، میں  کسی کی تنقید نہیں کررہا   ، لیکن ہمارے یہاں  ہوتا یہی رہا کہ  پہلے کہیں  سڑک بنتی ہے  پھر بجلی کے لئے سڑک کھودی جاتی ہے ، پھر پانی والے آتے ہیں ، پھر ٹیلی فون والے آتے ہیں۔وہ کچھ اور ہی کھڑا کردیتے ہیں۔ ایک سڑک بجٹ  خرچ ہورہا ہے ،  کام ختم نہیں ہورہا ہے ۔  یہاں  میں نے صرف ایک مثال دی  ، کیونکہ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ کیونکہ سرکاری محکموں کا ایک دوسرے کے  پاس نہ تو رابطہ ہوتا ہے اور نہ  ہی جانکاریوں  کا  کوئی تال میں  ہے۔سب اپنی اپنی دنیا بناکر اس میں  بناکر بیٹھے ہوئے  ہیں ۔ ہر ایک کے پاس رپورٹ کارڈ ہے۔ میں نے  اتنی سڑک بنادی  ، کوئی کہے گا میں  نے اتنی تار ڈال دی ، کوئی کہے گا میں  نے اتنی  پائپ  ڈال دی لیکن نتیجہ  ورک ان  پروگریس  ۔

ان  سلسلوں کو توڑ نے کے لئے اب ہم نے  پی ایم گتی شکتی  ماسٹر پلان  بنایا ہے ۔چاروں  طرف اس کی تعریف ہورہی ہے۔ ہم ہر ڈپارٹمنٹل سائلوس   کو توڑ کر بنیادی ڈھانچے سے جڑے ہر  پروجیکٹ میں سبھی شراکتداروں  کو ایک ہی  پلیٹ فارم  پر لے کر آئے ہیں۔ اب سرکاریں سبھی  محکموں میں اپنے اپنے حصوںکا کام ایڈوانس  میں پلان کررہی ہیں۔اس نئی  اپروچ نے  ترقی کے کاموں کی رفتار کو بڑھادیا ہے اور اسکیل  بھی بڑھادیا ہے  اور بھارت کی آج اگر جو سب سے بڑی  طاقت ہے تو وہ اسکوپ ہے ،رفتار ہے اور پیمانہ ہے۔ آج  بھارت میں  سوشل اور فزیکل  بنیادی ڈھانچہ  اس  پر  بے تحاشہ  سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ آج بھارت میں  نئی تعلیمی  پالیسی کو لاگو کرنے  کے لئے اتفاق رائے کا ماحول بن رہا ہے تو دوسری  طر ف  نئی  صحت  پالیسی  اس کو لاگو کرنے  پر کام چل رہا ہے ۔ آج بھارت میں ریکارڈ تعداد میں  نئے ہوائی اڈے بنائے جارہے اور چھوٹے چھوٹے شہروں  کو ائیر روٹ سے جوڑا جارہا ہے ۔ بھارت میں میٹرو  کنکٹوٹی  پر   جتنا کام آج ہورہا ہے اتنا  پہلے کبھی نہیں ہوا  ہے ۔  بھارت میں  آج ریکارڈ تعداد میں  گاؤوں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑا جارہا ہے۔ سوچیں    کہ کتنے لاکھ  گاؤوں  میں آپٹیکل  فائبر نیٹ ورک  پہنچے گا۔  ہندوستان کے گاؤں دنیا کے ساتھ  کس  طرح  سے  اپنا ناطہ جوڑیں گے ،جس کا آپ تصور کرسکتے ہیں۔ بھارت میں اور  جرمنی میں  بیٹھے ہوئے آپ لوگ زیادہ اس بات کو سمجھ  پائیں  گے کہ  بھارت میں جتنی فاسٹ انٹر نیٹ کنکٹوٹی  ہے اور اتنا ہی نہیں  تالیاں تو اب بجنے والی ہیں، تالیاں اس بات  پر بجنے والی ہیں  کہ جتنا سستا ڈاٹاہے وہ  بہت سے ملکوں  کے لئے  سوچ سے باہر ہے ۔  پچھلے سال پوری دنیا میں ہوئے  رئیل ٹائم ڈجیٹل  پیمنٹس   ،  کان کھول د و  رئیل  ٹائم ڈجیٹل پیمنٹ میں سے میں پوری  دنیا کی بات کررہا ہوں   ، اب بھارت  چھوٹا نہیں سوچتا ہے ، رئیل  ٹائم  میں سے 40 فیصد حصہ داری بھارت کی ہے ۔

ساتھیو !

 میں ایک اور بات آپ کو بتادوں  ،جسے جان کر پتہ نہیں  آپ بیٹھے رہیں  گے  پتہ نہیں  ، آپ کو ضرور  اچھا لگے گا ، بھارت میں  اب  سفر کرتے وقت، کہیں آتے  جاتے وقت جب میں  نقدی لے کر چلنے کی مجبوری  تقریباََ ختم ہوچکی ہے ۔دور سے دور کے گاؤں  تک میں  بھی اپنا موبائل فون   پر ہی  ہر طرف  کے  پیمنٹ   آپ کے لئے کافی ہے دوستو۔

ساتھیو!

آج بھارت میں  گورننس میں  ٹکنالوجی کو جس طرح  شامل  کیا جارہا ہے وہ نئے بھارت کی نئی سیاسی قوت ارادی دکھا تا ہے اور جمہوریت کی  فراہمی کی صلاحیت کا بھی ثبوت ہے۔  آج مرکز،ریاست اور لوکل سرکارو  ں  کے لگ بھگ  یہ  بھی  آنکڑے  تھوڑا آپ کے لئے عجوبہ  ہوگا ، مرکزی سرکار ،ریاستی سرکار اور لوکل سیلف گورنمنٹ ان  کی قریب قریب 10 ہزار خدمات   آن لائن دستیاب  ہیں۔ سرکاری مدد ہو  ،اسکالر شپ ہو، کسان کی فصل   کی قیمت  ہو ،سب کچھ اب ڈائریکٹ  بینک اکاؤنٹ میں  منتقل ہوتے ہیں ۔ اب کسی  پردھان منتری کو یہ کہنا  نہیں  پڑے  گا کہ میں دلی سے ایک روپیہ  بھیجتا ہوں اور 15 پیسے  پہنچتے ہیں ۔ وہ کونسا  پنجہ تھا جو 85  پیسے کھینچ لیتا تھا ۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے کہ گزشتہ  7، 8سال میں  بھارت سرکار نے آنکڑے  یاد رہیں  گے ۔  میں اتنا  سارا بتارہا ہوں   ، ڈرو مت یہ آپ ہی کی ہمت  ہے ،آپ ہی کا کمال ہے ،پچھلے سا ت آٹھ سال میں  بھارت سرکار نے  ڈائریکٹ  بینی فٹ ٹرانسفر ، ڈی بی ٹی سیدھا ایک کلک کیا جو حقدار ہے اس کے کھاتے میں  پیسے چلے گئے  ،براہ راست  جو ڈی بی ٹی کے ذریعہ  ہم نے  پیسے بھیجے وہ رقم ہے 22 لاکھ کروڑروپے سے بھی زیادہ  ،  یعنی اب آپ جرمنی میں ہیں تو آپ کو بتادوں 300 ارب ڈالر سے بھی زیادہ مستفیدین کے کھاتے میں  پیسے  پہنچے ہیں ۔  بیچ  میں  کوئی  بچولیہ نہیں ، کوئی کٹ کی کمپنی نہیں ، کہیں کٹ  منی نہیں  ،اس وجہ سے نظام میں کتنی بڑی شفافیت آئی ہے اور اس کی وجہ  ، جو بھروسے کی کھائی تھی  اس کھائی کو بھرنے کا بہت بڑا کام ان  پالیسیوں کی وجہ اس  نیت  کے سبب اور اس ٹکنالوجی کےتوسط سے ہوپایا ہے۔

ساتھیو!

ایسے ٹولز جب ہاتھ میں آتے ہیں ، جب شہری بااختیار ہوتا ہے تو بہت  فطر ی ہے کہ وہ خوداعتمادی  سے بھر جاتا ہے، وہ خود عزم لینا شروع کرتا ہے اور وہ خود  عہد کو  پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے محنت کرکے دیکھتا ہے۔اور تب جاکرملک دوستو آگے بڑھتا ہے ۔اس لئے دوستو ،نیا بھارت آپ صرف  سکیور  فیوچر  کی نہیں  سوچتا  بلکہ بھارت  رسک لیتا ہے ، اینوویٹ کرتا  ہے ،  انکیوبیٹ  کرتا ہے، مجھے یاد ہے  2014 کے آس  پاس  ہمارے ملک میں  اتنا بڑا دیش صرف  200، 400 اسٹارٹ اپس ہوا کرتے تھے ،کتنے ،ذرا یاد  رکھ کے  بولو نا یار اور آج  8 سال  پہلے  200، 300،  یا 400 اسٹارٹ اپس ۔ آج  68ہزارسے بھی زیادہ اسٹارٹ اپس  ۔ دوستو،  مجھے  بتائیے   ، آپ نے سننے کے  بعد کہاں  400  کہاں  68000 ۔ 200 ، 400 سے 68000 آپ کا سینا فخر سے بھرگیا کہ  نہیں ۔  بھرگیا ۔ آپ کا ماتھا اونچا ہوا کہ نہیں ، اور ساتھیو اتنا ہی نہیں بلکہ  تعداد  ایک بات ہے آج دنیا کے سارے  پیرامیٹرز کہہ رہے ہیں  اس میں درجنوں  اسٹارٹ اپ یونیکارن  بن چکے ہیں  اور اب معاملہ  یونیکارن  پر  اٹکا نہیں ہے۔ دوستو ،  آ ج میں  ،فخر سے کہتا ہے ، میرے ملک میں  بہت سارے یونیکارن  دیکھتے ہی دیکھتے ڈیکاکارن  بھی بن رہے ہیں یعنی 10  ارب ڈالرس کا لیبل   بھی  پاکررہے ہیں ۔  مجھے یاد ہے  میں جب گجرات میں  سی ایم  والی  نوکری کرتا تھا اورکسی بھی  ہمارے ساتھی  بابو کو پوچھتا ہے ، بچے کیا کرتے ہیں تو بولے  آئی اے ایس کی تیاری  کرتا ہے۔ زیادہ تر یہی کرتے تھے ۔آج بھارت سرکار میں  بابوؤں سے پوچھتا ہوں  کہ بھئی  بیٹے  بیٹی کیا کررہے ہیں  بولے وہ تو اسٹارٹ  اپ میں  لگ گئے ہیں۔  یہ تبدیلی چھوٹی نہیں  ہے دوستو!

ساتھیو!

بنیادی  بات کیا ہے ، بنیادی بات یہی ہے آج سرکار  انوویٹرس کے  پاؤں میں  زنجیر ڈال کر نہیں  ، ا ن میں جوش بھر کر انہیں آگے بڑھارہی ہے ۔ اگر آپ کو جیواسپیشل علاقے میں انوویشن کرنا ہو تو  نئے طرح کے  ڈرون  بنانے ہوں  یا  خَلاء کے شعبے میں  کوئی نئی سیٹلائٹ   یا راکٹ  بنانا ہو اس کے لئے سب سے پہلا، سب سے نرچرنگ  ماحول  آج ہندوستان میں دستیاب ہے دوستو،  ایک وقت میں  بھارت میں  کوئی نئی کمپنی رجسٹر ڈ کرانا چاہتا تھا تو اسے رجسٹری میں  کاغذ  ڈالنے  کے بعد  وہ بھول جاتا تھا تب تک رجسٹری  نہیں ہوتی تھی ، مہینے لگ جاتے تھے ،  جب  بھروسہ  بڑھ جاتا ہے ،سرکار کا شہریوں  پر بھروسہ  بڑھتا ہے ۔شہریوں کا سرکار  پر بھروسہ  بڑھتا ہے ۔عدم  اعتماد کی کھائی  پُر  ہوتی  ہے۔ آج اگر کمپنی رجسٹرڈ کرنی ہے تو  24  گھنٹے  لگتے ہیں دوستو 24  گھنٹے ۔گزشتہ کچھ سالوں میں  سرکار  کی ایک عادت  تھی ، ایک چیمبر ہو آفس کا ،6ٹیبل ہوں  ، نمبر ایک نے  جنوری  میں آپ سے کچھ چیزیں مانگیں ، نمبر کی ٹیبل والا فروری میں  پھر وہی مانگے گا۔ پھر نمبر 5 والا ٹیبل فروری  اینڈ میں کہے گایار وہ کاغذ لاؤذرا مجھے ضرورت ہے یعنی شہریوں  کو  لگاتار  ہزارو ں  کی تعداد میں  دوستوCompliance   یہ لاؤ وہ لاؤ اور وہ لے کر کہ کیا کرتے تھےیہ وہ جانے اور آپ  جانیں۔

ساتھیو!

آ پ  حیران ہوجائیں گے جب یہ کام بھی مجھے ہی کرنا پڑرہا ہے ، 25000سے زیادہ   کمپلائنس  ختم کیا ہم نے ،اتنا ہی  نہیں میں  2013 میں چناؤ کے لئے تیاری کررہا تھا کیونکہ میری  پارٹی نے اعلان کردیاتھا کہ اس کو وزیر اعظم بنانے والے ہیں  تو میں ایسی تقریر  کرتا تھا تو ایک دن دلی میں سب  تاجروں نے مجھے بلایا تو تاجروں  کی  بہت بڑی  کانفرنس  تھی اور اس میں  جو میرے  آگے شخص  بول رہے تھے وہ کہہ رہے تھے  کہ یہ دیکھئے وہ  قانون بنا ہے ، وہ قانون بناہے ، بہت سارے قانون بتارہے تھے وہ ۔ اب چناؤ کے وقت  تو سب لوگ  یہی  کہتے ہیں  کہ ٹھیک ہے میں یہ کردوں گا لیکن دوستو ،  میں  ذرا دوسری  مٹی کا انسان  ہوں  ۔  میں تقریر کرنے کے لئے  کھڑا ہوا وہ 2013  کی بات  ہے میں تقریر کرنے کھڑا ہوا  میں نے کہا بھائی آپ لوگ  قانون بنانے کی بات کرتے ہیں ، میرا تو ارادہ  ہی الگ ہے مجھے  پتہ نہیں  میں  آپ کو بتاؤں  گا مجھے آپ ووٹ دیں  گے کہ نہیں دیں گے ، میری تو چھٹی کردیں  گے آپ لوگ ۔ میں نے  کہا کہ میں  آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں  ہر دن  ایک قانون ختم کردوں  گا آکر کے۔بہت لوگوں  کو حیرانی  ہوئی تھی کہ یہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں  ہے۔ سرکار کیا ہوتی ہے۔ ایسا ہی مانا ہوگا اور کیا ، لیکن آج دوستو ،  میں آج آپ کو اپنا حساب دے  رہا ہوں ۔  پہلے 5سال میں  1500قانون ختم کردئے دوستو،  یہ سب کیوں  ،  یہ شہریوں  پر ، یہ قوانین کے جنجال کو بوجھ کیوں ۔

یہ بھارت  ملک آزادہوچکا ہے۔ نہ دیش مودی  کا نہیں ہے،دیش  130کروڑشہریوں کا ہے۔ اب دیکھئے دیش میں پہلے تو   ہماری  دیش کی  خصوصیت  دیکھئے صاحب ۔دیش ایک آئین دو تھے کیوں  اتنی دیر لگی ۔ پرانے زمانے میں کہتے تھے ٹیوب لائٹ معلوم ہے نا دو آئین تھے۔ پہلے تو  دوآئین تھے۔ سات دہائیاں ہوگئیں  دوستو ،سات دہائی ہوگئیں   ایک دیش  ایک آئین لاگوکرتے کرتے  اب لاگو ہوا ہے دوستو ، غریب کو راشن کارڈ  دوستو اگر وہ جبل پور میں رہتا ہے راشن کارڈ وہاں  کا ہے اور اگر مجبوراََ اس کو جے پور میں  جانا پڑاتوزندگی گزارنے کے لئے تووہ راشن کارڈ  کام نہیں آتا تھا، ملک ایک ہی تھا لیکن راشن کارڈ الگ سے ۔ آج ون نیشن ون راشن کارڈ ہوگیا۔  پہلے کوئی ملک میں انویسٹمنٹ کرنے آتا تھا ، گجرات میں جاتا تھا تو ایک  ٹیکسیشن ،  مہاراشٹر میں تو دوسرا ٹیکسیشن  ، بنگال میں  جاتا تھا تو تیسرا ٹیکسیشن  ۔ اگر اس کی تین چار کمپنیاں  ،  ایک کمپنی گجرات میں  ،دوسری کمپنی مہاراشٹر میں ، تیسری کمپنی  بنگال میں  ۔ تو تینوں  جگہوں  پر الگ الگ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو  الگ الگ قوانین سے کام چلتا تھا۔دوستو،  آج ٹیکس کا بندوبست  ایک  جیسی  لاگو ہوگئی  کہ  نہیں  ہوگئی اور ہماری وزیر خزانہ  یہاں  بیٹھی ہیں  نرملاجی  ۔ اپریل مہینے میں کیا ہوا معلوم ہے نا  ، جی ایس ٹی کا ریکارڈ کلکشن ہوگیا ہے۔ ایک لاکھ 68  ہزارکروڑروپے ۔ ون نیشن ون ٹیکس کی  سمت میں  یہ مضبوطی کے ساتھ  ہوا  کہ نہیں ہوا دوستو۔

ساتھیو!

میک ان انڈیا آج  آتم نربھر بھارت کا ڈرائیونگ فورس  بن  رہی ہے ، خود اعتمادی سے بھرا  بھارت آج  پروسیس   ہی  آسان نہیں  کررہا بلکہ پروڈکشن لنگ  انسینٹو سے  انویسٹمنٹ کو سپورٹ  بھی کررہا ہے۔ اس کا بڑا اثر   بھارت  سے ہونے والے ایکسپورٹ  پر  بھی دیکھ رہا ہے ۔  ابھی کچھ دن  پہلے ہم نے 400 بلین  ڈالر کا برآمدات کا ریکارڈ توڑدیا ہے ۔ اگر ہم گڈس اینڈ سروسز کو  دیکھیں  تو پچھلے سال بھارت سے  670 بلین ڈالر یعنی قریب قریب  50 لاکھ کروڑروپے کی برآمد ہوئی ہے۔ تخمینہ دیکھ  کر کے  تالیوں  کےلئے  یہ ہاتھ جم گئے کیا۔ہندوستان کے کئی نئے ضلعے نئے نئے ملکوںمیں  ، میں نے ڈیسٹینیشن  پر برآمد کے لئے  اپنا دائرہ  بڑھارہے ہیں اور تیزی سے برآمد ہورہی ہے اور اس  کا  ایک مزہ  بھی ہے ،جو آج ملک میں  بن رہا ہے نا۔ زیرو ڈفیکٹ  زیرو ڈفیکٹ  کے منتر سے  لے کر چل رہا ہےکہ پروڈکشن کی کوالٹی میں ڈیفیکٹ  نہیں ہے اور  پروڈکشن میں اینوائر منٹ  پر کوئی افیکٹ نہیں  ہے۔

ساتھیو!

اکیسویں  صدی کی  اس تیسری دہائی  کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ آج  انڈیا از گوئنگ گلوبل ۔ کورونا کے اسی دور میں  بھارت میں  150سے زیادہ ملکوں کو  ضروری دوائیاں  بھیج کر کافی زندگیاں  بچانے میں   مدد کی ہے ۔ جب  بھارت کو  کووڈ کے ویکسین  بنانے میں  کامیابی ملی تو ہم نے اپنی ویکسین سے تقریباََ 100  ملکوں کی مدد کری  ہے دوستو۔

ساتھیو !

آج کی تازہ خبر ،رکاوٹ کے لئے افسوس  ہے۔ آج ،گیہوں کی کمی کا سامنا دنیا کررہی  ہے۔ فوڈ سکیورٹی کو لے کر  دنیا میں  بڑے بڑے  ملک فکر مند ہیں ۔اس وقت ہندوستان کے کسان  دنیا کا پیٹ بھرنے کے لئے آگے آرہے تھے دوستو!

ساتھیو !

جب بھی انسانیت کے سامنے کوئی  بحران  حل کے ساتھ سامنے آتا ہے ، جو بحران لے  کر آتے  ہیں  ،  بحران ان کو مبارک  ،  حل لے کر ہم آتے ہیں ،دنیا کی جے جے کار دِکھتا ہے دوستو۔ یہی دوستو ،  یہی نیا بھارت ہے ،  یہی نئے بھارت کی طاقت ہے۔  آپ میں سے جو لوگ سالوں سے بھارت نہیں  آئے ہیں،شرمندگی مت محسوس کرو لیکن ان کو ضرور لگتا ہوگا ۔آخر یہ ہوا کیسے ۔ اتنی بڑی تبدیلی آئی کیسے ۔ جی نہیں ساتھیو۔ آپ کا  جواب  غلط ہے۔ مودی نے کچھ  نہیں  کیا ہے ۔ 130 کروڑ ہم وطنوں نے کیا ہے۔

ساتھیو!

 گلوبل ہوتے بھارت میں آپ کا تعاون  بھی ہونے والا ہے ۔ اہم ہونے والا ہے۔ آج بھارت میں  لوکل کے تئیں  جوکریز  پیدا ہوا ہے ویسا ہی ہے ، جب آزادی کی  تحریک کے وقت  سودیشی  چیزوں  کے لئے پیدا ہوا تھا ۔عرصے تک  ہم نے دیکھا کہ لوگ یہ بتایا کرتے تھے کہ یہ چیز ہم نے اس  دیش سے خریدی ہے ، یہ چیز اس دیش کی ہے ، لیکن آج بھارت کے  لوگوں میں  اپنی مقامی  اشیا کو لے کر  فخر کا نیا تجربہ ہوا ہے ۔  آ پ کو  بھی پتہ ہوگا  آج سے  20 سا ل پہلے ،10سال  پہلے  میں  فلانی تاریخ کو آرہاہوں  تو پھر اس گھرسے خط آتا تھا کہ آتے وقت  یہ لے آنا آج جب جاتے ہو تو گھر سے خط آتا ہے کہ یہا ں  سب ملتا ہے ، مت لانا ۔ میں  صحیح  بتارہا ہوں کہ نہیں  بتارہا  ہوں ،  یہی ہے نا دوستو ۔  یہی طاقت ہے اور اسی لئے میں کہتا ہوں  ووکل فور ووکل  ۔ لیکن آپ  کا لوکل  یہاں  والا نہیں دوستو  ،  یہ  جو دم  پیدا ہوا  نا   اس چیز  کو بنانے میں کسی بھارتی کی محنت لگی ہے۔  ہر اس چیز کے کسی  بھارتی کی پسینے کی مہک ہے دوستو۔ اس  مٹی کی سوگندھ  ہے دوستو۔ اور اسی لئے جو ہندوستان میں  بناہوا  ہوں ،  ہندوستان کی مٹی کی ،جس میں  سوگندھ ہوں،  ہندوستان کے نوجوان کا جس میں  پسینہ لگا ہو وہ ہمارے لئے فیشن اسٹیٹمنٹ ہونا چاہئے دوستو ۔ آپ دیکھئے  ایک بار یہ فیلنگ  تجربہ کریں  گے نہ تو  وائبریشن   اغل بغل میں  پہنچتے دیر نہیں لگی اور پھر دیکھنا کب جاؤگے آپ ۔ ابھی میں ہندوستان جارہا ہوں  دس دن کے لئے تو یہاں سے لوگ خط دیں  کہ واپس جاتے ہوئے ہندوستان سے یہ چیز لے آنا ۔ تو ایسا ہونا چاہئے کہ نہیں  ہونا چاہئے  ۔ یہ کام آپ کو کرنا چاہئے کہ نہیں کرنا چاہئے۔

دوستو!

 میں ایک شاندار مثال  پیش کرتا ہوں آپ کو بڑی سمپل سے مثال  اور  میں مثا ل دینا  چاہتا ہوں  کھادی کی ۔آپ  سب  کھادی کو جانتے ہیں  ۔ کھادی اور نیتا کا چولی دامن کا ناطہ تھا  ، نیتا اور کھادی  الگ نہیں ہوتے تھے۔ کھادی  آتے ہی نیتا دکھتا  تھا ، نیتا آتے ہی کھادی دکھتی تھی ،جس کھادی کو مہاتما گاندھی نے جیا ، جس کھادی نے  بھارت میں آزادی کی تحریک کو طاقت  دی  ، لیکن  بدقسمتی سے آزادی کے بعد اس کھادی  کا  بھی وہی حال ہوا جو  آزادی کے دیوانوں  کے خوابوں  کا ہوا تھا۔ کیا ملک کا فرض  نہیں  تھا  ،جس  کھادی سے غریب ماں کو روز ی ملتی ہے ،جس کھادی سے بیوہ  ماں کو  اپنے بچوں  کو بڑا  بنانے کے لئے سہارا ملتا تھا لیکن  دھیرے دھیرے اس  کو اس کے نصیب پر چھوڑ دیا گیا اور ایک  طرح سے وہ موت کے کگار  پر آکر کھڑا  تھا ۔ میں  وزیر اعلیٰ  بناتو  میں نے بیڑہ اٹھایا ۔ میں نے کہا  بھائی آپ بڑے فخرسے کہتے ہیں  ،  گھر میں کسی کو کہ میرے پاس کوئی  یہ فیبرک ہے ،  یہ فیبرک ہے ،  یہاں کی ساڑ ی ہے ، یہاں کا کرتہ ہے۔ کہتے ہیں نا۔ ہاں بولوتوسہی ۔ارے سچ  بولنے میں کیا جاتا ہےیار ۔ تو میں کہتا تھا یار ایک کھادی  بھی تو رکھ لو ، میرے  پاس  یہ فیبرک ہے کھادی  بھی تو رکھ لو ۔

ساتھیو !

بات بہت چھوٹی تھی لیکن میں آج ملک کے سامنے سرجھکاتا ہوں  ۔ میرے دیش میں اس بات کو بھی گلے لگایا اور  آپ  کو بھی جان کر لطف ہوگا آزادی کے 75 سال کے بعدآج  پہلی بار جب ملک آزادی  کا امرت مہوتسو  منارہا ہے ، اس سال کھادی کا کاروبار ایک لاکھ کروڑروپے کو  پار کرگیا پہلی بار ہوا ۔ کتنی غریب  بیوہ ماؤں  کو روز ی روٹی ملی ہوگی دوستو ۔پچھلے  8سال میں  کھادی کی  پیداوار میں  لگ بھگ پونے 200 فیصد کا  اضافہ ہوا  آپ دائرہ دیکھئے دوستو ، میں جس مزاج سے اسٹارٹ اپ کی بات کرتا ہوں  میں اسی  مزاج سے کرتا ہوں  نا ،اسی مزاج سے  کھادی کی بھی بات کرتا ہوں  ،جس مزاج سے میں سیٹلائٹ کی بات کرتا  ہوں  اسی مزاج سے میں سوائل کی بھی بات کرتا ہوں۔

ساتھیوں !

آج میں آپ سبھی سے یہ اپیل کروں گا کہ بھارت کے لوکل کو گلوبل  بنانے میں  آپ  بھی میرا  ساتھ دیجئے ۔  یہاں  کے لوگوں کو  بھارت کے  لوکل کی تکسیریت   ، بھارت کے لوکل کی طاقت  ،  بھارت کے لوکل کی خوبصورتی سے تعارف آپ بہت آسانی سے کرواسکتے ہیں۔ سوچئے ،دنیا میں اتنا بڑا  انڈین ڈائسفورا   ہر ملک میں  پھیلا انڈین ڈائسفورا   اور انڈین  ڈائسفورا کی خوبیاں  یہ ہیں  کہ  جیسے دودھ  میں شکر مل جاتی ہے ۔ ہے نا  ۔ ویسا ہی مل جاتا ہے یہ ۔  یہ پتہ ہی نہیں چلتا  ویلیو ایڈیشن کرتے وقت ۔ دودھ  کو میٹھا بنادیتا ہے۔ جس کے  پاس یہ  اہلیت  ہے  وہ آسانی سے ہندوستان کے لوکل کو  اپنی کوششوں سے جرمنی کی سرزمین  پر گلوبل بناسکتا ہے۔ کروگے۔ کیسی آواز دب گئی ۔ کہنے میں  کیا جاتا ہے۔  مودی  جی  کہا اب  دوبارہ آئیں  گےدوستو ، میں آپ  پر بھروسہ کرتا ہوں ۔  آپ کریں گے مجھے یقین ہے دوستو!

کیا آپ کو اور ایک بات  یاددلانا چاہتا ہوں  ہمارا  یوگ ہو ، ہمارا آیووید ہو ،  ہماری  ٹریڈشنل میڈیسن کے پروڈکٹ ہوں  ، آپ سوچ  نہیں سکتے آج اس کا اتنا  پوٹینشئل ہے ، آپ ہندوستان سے  ہے ایسا کہتے کہ  سامنے والا آپ سے پوچھتا ہوگا ،یوگ جانتے ہو ، پوچھتا ہے کہ نہیں  پوچھتا ہے اور آپ کچھ بھی نہیں  جانتے صرف ناک  پکڑنا بتادوگے  تو  بھی  مانے گا ہاں  یار یہ بھی  ماسٹر ہے ۔  بھارت کے رشی منیوں کی تپسیا کی آبرو اتنی ہے کہ آپ ایک چھوٹا سا بورڈ  لگادو  یا کوئی آن لائن  پلیٹ فارم  کھڑا کردو اور ناک  پکڑنا سکھادو ڈالر سے کر فیس دینے آئے گا کہ نہیں آئے گا۔ کیا برانڈ ویلیو بنائی ہوگی آپ نے رشی منیوں  کے ساتھ  ہزاروں سال  پہلے جو رشی منیوں نے جو تپ کرکے چھوڑ دیا وہ راستہ آج دنیا وہ  لے کر کے آئی  ہے لیکن کیا آپ اس کے ساتھ جڑے ہیں کیا  ۔ میں آپ سے اپیل کروں  گا ۔21 جون کو انٹر نیشنل یوگ ڈے  بہت دور نہیں ہے ابھی سے ٹولیاں بناکر چاروں  طر ف  چھا جائے  دوستو! ہرکسی کو ناک پکڑنا سکھادو دوستو ۔ ناک کاٹنا نہیں سکھادو ۔

ساتھیو!

آج آپ کے بیچ ایک موضوع کی چرچا کرناچاہتا ہو ں  وہ کلائیمیٹ ایکشن  بھارت میں  کلائمیٹ چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہم عوامی  طاقت سے ٹیک  پاور تک ہر   سمادھان پر کام کررہے ہیں ۔  گزشتہ 8 سالوں میں  ہم نے بھارت میں  ایل پی جی کی کوریج کو  50  فیصد سے بڑھاکر تقریباََ 100 فیصد کردیا ہے۔  بھارت کا ایل  ای ڈی بلب اب جرمنی والے  ہیں  تو  ذرا بلب والی  بات جلدی سمجھوگے ۔  بھارت  کا لگ  بھگ  ہر گھر اب  ایل ای ڈی بلب استعمال کررہا ہے ۔اجولا یوجنا کے تحت ہم  نے ملک  میں تقریباََ  37  کروڑ ایل ای ڈی بلب تقسیم کئے ہیں اور ایل ای ڈی بلب کا استعمال توانائی بچت کے لئے ہوتا ہے اور آپ جرمنی  میں سینا ٹھوک کر لوگوں کو کہہ سکتے ہیں  کہ  بھارت نے  ایک چھوٹی سی تبدیلی لاکر  کیا کیا ہے اور کی وجہ سے تقریباََ  48000 ملین کلوواٹ    اوور  بجلی  بچی ہے اورہرسال تقریباََ 4 کروڑٹن  کاربن ایمی شن کم ہوا ہے ۔

ساتھیو !

ایسی ہی کوششوںکی وجہ سے آج بھارت  غیر معمولی  طور پر گرین جاپس کے شعبے میں   ایک نیا فیلڈ کھول رہا ہے ، آگے بڑھ رہا ہے ، مجھے خوشی ہے کہ بھارت اور جرمنی  نے بھی  لیکن  انرجی کو لے کر ایک بہت بڑی  پارٹنر شپ کی طرف ایک قدم اٹھا یا ہے۔

ساتھیو!

آزادی کے امرت مہوتسو میں  ہم نے کلائیمیٹ ،ذمہ داری کو اگلے لیبل پر بھی لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں مثال دیتا ہوں کہ بھارتیوں نے  ملک کے ہرضلع میں  ہر ڈسٹرکٹ  یعنی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ میں کیا بتارہا ہو ں ۔ ہر ڈسٹرکٹ میں 75  نئے  امرت سروور  بنانے کا عہد لیا  ہے۔ تالاب بنانے کا۔ چاند ی ملک میں تقریبا ََ  آنے والے  500 دن میں  50000 نئی  باڈیز بنیں  گے ، پونڈس  بنیں  گے یا تو پرانے پونڈس کو  پھر سے  متحرک کیا جائے گا ۔  پانی ہی زندگی  ہے ۔  پانی ہے تو کل ہے ۔ لیکن  پانی کے لئے بھی  تو  پسینہ بہانا پڑتا ہے دوستو۔  کیا آپ اس مہم سے جڑ سکتے ہیں دوستو۔ آپ جس گاؤں  سے آئے ہیں  اس گاؤں میں تالاب بنے ۔ا س تالاب کو بنانے میں  آپ کا بھی تعاون ہو ۔ آپ بھی ان کو تحریک دیں  اور آزادی کے  امرت مہوتسو میں  امرت سروور بنانے میں  دنیا میں  پھیلے ہوئے ہر ہندوستانی کا تعاون تھا ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کو کتنا مزہ آئے گا۔

ساتھیو!

 بھارت کی  بہترین سمجھ  رکھنے والے مشہور جرمن اسکالر  میکس مولر نے   انڈویورپئن ورلڈ کے شئیر ڈ  فیوچر کی بات کی تھی ۔ آپ میں سے سب لوگ   یہاں دن  10  بار اس کا تذکر ہ کرتے ہوں  گے ۔ اکیسویں  صدی میں اس کو زمین پر اتارنے کا یہ بہترین وقت  ہے۔  بھارت اوریورپ میں  مضبوط ساجھیداری  دنیا میں امن اور خوشحالی کو یقینی  بناسکتی ہے ۔  یہ ساجھیداری لگاتار بڑھتی رہے ۔ آپ  بھی اسی جوش اور جذبے کے ساتھ  انسانوں کی بہبود کے  لئے  بھارت کی فلاح میں کچھ  نہ کچھ تعاون کرتے رہیں ۔ ہم تو وسودیو کٹمبکم  والے لوگ ہیں ۔ساتھیو، آپ جہاں ہوں  بہت آگے بڑھو   پھلو پھولو، آپ کے سارے خواب  پورے ہوں  ۔  یہ میری آپ کے لئے نیک خواہشات ہیں  اور 130  کروڑ ہم وطنوں  کی دعائیں  آپ  کے ساتھ  ہیں ۔ آپ  خوش رہیں  ،صحت مندرہیں  ۔ بہت  بہت شکریہ!

*************

ش ح۔ح ا  ۔رم

U-4981



(Release ID: 1822584) Visitor Counter : 269