وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

وارانسی میں بہت سے ترقیاتی اقدامات کے آغاز پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 23 DEC 2021 5:13PM by PIB Delhi

نئی دلّی ،23 دسمبر/  ہر ہر مہا دیو ! ترلوچن مہادیو کی جے ! ماتا شیتلا چوکیا دیوی کی جے ! اتر پردیش کے پرجوش اور مقبول وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ کے  میرے ساتھی، ڈاکٹر مہندر ناتھ پانڈے جی، یوپی حکومت میں وزیر جناب انل  راج بھر جی، نیل کنٹھ تیواری جی، رویندر جیسوال جی ،  پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب بی پی سروج جی، محترمہ سیما دیویدی جی، ریاستی اسمبلی  اور قانون ساز کونسل کے تمام معزز ساتھی، بناس ڈیری کے چیئرپرسن شری شنکر بھائی چودھری اور بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے کسان بھائیو اور بہنو !

وارانسی کے اس پنڈرا شیتر کے لوگن کے پرنام کرت ہئیلا ! پڈوس کے جلع  جونپور کے سب بندھو ایو بھگنی لوگن کے بھی پرنام ! آج وارانسی اور آس پاس کا یہ پورا علاقہ ایک بار پھر پورے ملک، پورے اتر پردیش کے دیہاتوں، کسانوں اور مویشی پالنے والوں کے لئے بہت بڑے پروگرام گواہ بنا ہے۔ آج کا دن تاریخ میں بھی خاص ہے اور اس لئے بھی خاص ہے کہ آج ملک کے سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ جی کا یوم پیدائش ہے۔ میں اُن کو بصد احترامِ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کی یاد میں ملک یومِ کسان منا رہا ہے۔

ساتھیو ،

ہمارے یہاں گائے کی بات کرنا ، گوبردھن کی بات کرنا  ، کچھ لوگوں نے ایسے حالات پید اکر دیئے  ہیں ، جیسے  کوئی گناہ کر رہے ہیں ۔ گناہ بنا دیا ہے ۔ گائے کچھ لوگوں  کے لئے گناہ ہو سکتی ہے ، ہمارے لئے گائے ماتا ہے ، پوجنے کے قابل ہے ۔ گائے بھینس کا مزاق اڑانے والے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کے 8 کروڑ خاندانوں کی روزی ایسے ہی مویشی دھن سے چلتی ہے ۔  انہی خاندانوں کے محنت سے آج بھارت ہر سال تقریباً ساڑھے 8 لاکھ کروڑ روپئے کا دودھ پیدا کرتا ہے  اور یہ رقم ، جتنا بھارت میں گیہوں اور چاول کی پیداوار ہوتی ہے ، اس کی قیمت سے بھی کہیں زیادہ دودھ کی پیداوار کی قیمت ہے ۔ اس لئے  بھارت  کے ڈیری سیکٹر کو مضبوط بنانا آج ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اسی کڑی میں آج یہاں بناس کاشی سنکول کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔  ساتھیو ، اب میدان چھوٹا پڑ  گیا ہے، جگہ نہیں ہے، آپ اپنے آپ کو وہیں سنبھال لیجئے ۔ بناس ڈیری سے وابستہ لاکھوں کسانوں کے کھاتوں میں کروڑوں روپے منتقل ہو چکے ہیں، رام نگر کے دودھ پلانٹ کو چلانے کے لئے بایو گیس پر مبنی پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات ہوئی ہے ، جس کے پورے ملک کے ڈیری سیکٹر پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ آج ملک بھر میں دودھ کے ملاوٹ سے پاک ہونے کے ثبوت کے لئے مربوط نظام اور لوگو بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ڈیری سیکٹر سے جڑی ان کوششوں کے علاوہ آج یوپی کے لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں کے قانونی دستاویزات یعنی گھرونی بھی سونپی گئی ہے ۔ وارانسی کو مزید خوبصورت، قابل رسائی اور آسان بنانے کے لئے 1500 کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ ان تمام ترقیاتی منصوبوں کے لئے آپ سب کو مبارکباد، یوپی اور پورے ملک کے گوپالکوں کو خصوصی مبارکباد۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا ، جب ہمارے گاؤں کے آنگنوں میں مویشیوں کے ریوڑ خوشحالی کی پہچان تھے اور ہمارے یہاں تو کہا بھی جاتا تھا ، ہر کوئی اِسے پشو دھن کہتا ہے ۔ کس کے دروازے پر کتنے کھونٹے ہیں ، اس کو لے کر مقابلہ رہتا تھا ۔ ہمارے شاستروں میں بھی کامنا کی گئی ہے -

گاؤوں میں سروتا

چیو گوام مدھیے وَسامیہم !!

یعنی گائے میرے چاروں طرف رہے اور میں گایوں کے   درمیان رہوں۔ یہ شعبہ ہمیشہ یہاں روزگار کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے لیکن بہت عرصے تک اس سیکٹر  کو ، جو حمایت ملنی چاہیے تھی ، وہ پہلے کی سرکاروں میں نہیں ملی ۔ اب ہماری حکومت ملک بھر میں اس صورتحال کو بدل رہی ہے۔ ہم نے کامدھینو آیوگ کی تشکیل کی ہے، ڈیری سیکٹر کے بنیادی ڈھانچے کے لئے ہزاروں کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ قائم کیا ہے۔ ہم نے ایک بہت بڑی مہم چلا کر لاکھوں مویشی پالنے والوں  کو کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے بھی جوڑا ہے۔ کسانوں کو اچھے معیار کے چارے کے بیج حاصل کرنے کے لئے مسلسل کام جاری ہے۔ جانوروں کے علاج، گھر پر مصنوعی حمل کے لئے ملک گیر مہم بھی شروع کی گئی ہے۔ ہم نے جانوروں میں کھُر  اور منہ کی بیماری کے کنٹرول کے لئے ملک گیر ویکسی نیشن مشن بھی شروع کیا ہے۔ ہماری حکومت نہ صرف بچوں کو مفت ویکسین دے رہی ہے، نہ صرف کورونا ویکسین مفت فراہم کر رہی ہے بلکہ مویشیوں کو بچانے کے لئے بہت سی مفت ویکسین بھی فراہم کر رہی ہے۔

ساتھیو،

ملک میں ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ملک میں دودھ کی پیداوار میں 6-7 سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی تقریباً ڈیڑھ گنا  ہوا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا تقریباً 22 فیصد دودھ پیدا کرتا ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی۔ مجھے خوشی ہے کہ آج یوپی نہ صرف ملک کی سب سے بڑی دودھ پیدا کرنے والی ریاست ہے بلکہ وہ ڈیری سیکٹر کی توسیع میں بھی بہت آگے ہے۔

بھائیو اور بہنو،

میرا پختہ یقین ہے کہ ڈیری سیکٹر میں نئی ​​توانائی، مویشی پالنا، ملک کا سفید انقلاب کسانوں کی حالت بدلنے میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس یقین  کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، ملک کے چھوٹے کسانوں، جن کی تعداد 10 کروڑ  سے بھی زیادہ ہے، کے لئے مویشی پالنا اضافی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ دوسرا، ہندوستان کی ڈیری مصنوعات کی بیرون ملک ایک بڑی مارکیٹ ہے، جس میں ہمارے پاس آگے بڑھنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ تیسرا، مویشی پروری  خواتین کی معاشی ترقی کے لئے، ان کی کاروباری صلاحیت کو آگے بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے اور چوتھا یہ کہ ہمارے مویشی، یہ بایو گیس، آرگینک فارمنگ، قدرتی کاشتکاری کے لئے بھی ایک بڑی بنیاد ہے۔ جو مویشی اب دودھ دینے کے قابل نہیں ہیں ، وہ بوجھ نہیں ہوتے ، لیکن وہ کسانوں کی آمدنی میں روز بروز اضافہ کر سکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

ڈبل انجن والی ہماری حکومت پورے خلوص کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ کسانوں، مویشی پالنے والوں کا ساتھ رے درہی ہے ۔ بناس کاشی سنکول کا آج یہاں ، جو سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ، وہ بھی حکومت اور کوآپریٹیو کی اس شراکت داری کا ثبوت ہے۔ کوآپریٹو سیکٹر میں اہم کردار ادا کرنے والی بناس ڈیری اور پوروانچل کے کسانوں گوپالکوں  کے درمیان آج سے ایک نئی شراکت داری شروع ہوئی ہے۔ جب یہ جدید ڈیری پلانٹ تیار ہوگا تو نہ صرف پنڈرا بلکہ شیو پور، سیواپوری، روہنیا، اور غازی پور، جونپور، چندولی، مرزا پور، بلیا، اعظم گڑھ، ماؤ جیسے اضلاع کے ہزاروں اور لاکھوں کسان اس سے مستفید ہوں گے۔ بناس کاشی سنکول کی وجہ سے آس پاس کے کئی گاؤں میں دودھ کی کمیٹیاں بنیں گی، جمع کرنے کے مراکز قائم ہوں گے اور دودھ کے خراب ہونے کی فکر سے آزادی ملے گی۔ یہی نہیں، کسانوں کو اچھی نسل کے جانوروں کے لئے مدد ملے گی اور جانوروں کے لئے اچھے معیار کی خوراک بھی دستیاب ہو گی۔ یہاں دودھ کے علاوہ دہی، چھاچھ، مکھن، پنیر، آئس کریم اور مٹھائیاں بھی بنائی جائیں گی یعنی بنارس کی لسی، چھینے   کی ایک سے بڑھ ایک مٹھائی یا پھر لونگ لتا  ، ان سب کا ذائقہ اب اور بڑھ جائے گا ۔  ویسے اب تو ملائیو کا سیزن بھی آ گیا ہے۔ ایک طرح سے بناس کاشی سنکول بنارس کے رس میں اور اضافہ کرے گا۔

بھائیو اور بہنو،

عام طور پر، ہم دودھ کے معیار کی صداقت کے بارے میں بھی بہت الجھن کا شکار رہے ہیں۔ اگر آپ دودھ خریدتے ہیں، جو محفوظ ہے، تو عام آدمی کے لئے اس کی شناخت کرنا مشکل ہے۔ سرٹیفیکیشن کے مختلف انتظامات کی وجہ سے، پورے ڈیری سیکٹر بشمول مویشی پالنے والے، دودھ کی یونینوں کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ چیلنج ملک بھر میں ڈیری سیکٹر کے لئے حل ہو گیا ہے۔ آج بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈز نے ملک کے لئے ایک متحد نظام جاری کیا ہے۔ سرٹیفیکیشن کے لئے کامدھینو گائے پر مشتمل ایک مربوط لوگو بھی لانچ کیا گیا ہے۔ اگر یہ ثبوت، یہ لوگو نظر آ جائے تو خاص ہونے کی شناخت آسان ہو جائے گی اور ہندوستان کی دودھ کی مصنوعات کی ساکھ بھی بڑھے گی۔

ساتھیو،

آج ملک کی اشد ضرورت ہے کہ ڈیری سیکٹر سے وابستہ جانوروں سے پیدا ہونے والے فضلے کا بھی صحیح استعمال کیا جائے۔ ایسی ہی ایک بڑی کوشش رام نگر کے دودھ پلانٹ کے قریب بایو گیس پاور پلانٹ کی تعمیر ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے ، جس میں ڈیری پلانٹ کی تمام توانائی کی ضروریات بایو گیس پلانٹ سے ہی پوری کی جائیں گی۔ یعنی کسان نہ صرف دودھ بلکہ گائے کے گوبر کی فروخت سے بھی کما سکیں گے۔ یہ بایو گیس پلانٹ کسانوں سے گائے کا گوبر زیادہ قیمت پر خریدے گا جتنا کسانوں کو عام طور پر ملتا ہے۔ یہاں تیار کی جانے والی بایو سلری کو بائیو سلری پر مبنی نامیاتی کھادوں کی تیاری کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ جو ٹھوس نامیاتی کھاد بنائی جائے گی وہ کسانوں کو کیمیائی کھادوں کے مقابلے بہت کم قیمت پر دستیاب ہوگی۔ اس سے آرگینک فارمنگ یعنی قدرتی کھیتی کی ترقی بھی ہوگی اور بے سہارا جانوروں کی خدمت کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا ، جب ہندوستان میں نیچورل فارمنگ ، قدرتی کھیتی اور قدرتی طریقے سے کھیتی کی جاتی تھی۔ قدرتی کھیتی یعنی کھیتی میں کوئی بیرونی ملاوٹ نہیں ہے۔ جو کھیت سے مل رہا ہے ، کھیتی سے جڑے جانوروں سے مل رہا ہے، وہی اشیاء  کھیتی کو بڑھانے کے لئے استعمال میں آتے تھے ۔ کھاد ہو، کیڑے مار دوائیں، ہر چیز قدرتی طریقے سے بنتے تھے  اور استعمال ہوتے تھے  لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی کاشتکاری کا دائرہ کم ہوتا  گیا، کیمیکل فارمنگ اس پر حاوی ہو گئی۔  دھرتی ماں کی بحالی کے لئے، اپنی مٹی کی حفاظت کے لئے، آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے، اب ہمیں ایک بار پھر قدرتی کاشتکاری کی طرف مڑنا ہی  ہوگا۔ یہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس طرح، اب حکومت قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے لئے کسانوں کو بیدار  کرنے کے لئے ایک بہت بڑی مہم بھی چلا رہی ہے اور آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو میں یوم کسان کے موقع پر ہم وطنوں، خاص کر اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں، خاص طور پر اپنے چھوٹے کسانوں سے درخواست کروں گا کہ آپ قدرتی کھیتی کی طرف بڑھیں۔ قدرتی کھیتی میں خرچ بھی کم ہے، فصل  بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ کاشتکاری کا سب سے سستا طریقہ ہے، محفوظ ترین طریقہ ہے اور آج کی دنیا میں قدرتی کاشتکاری سے پیدا ہونے والی فصلوں کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ ہمارے زرعی شعبے کو آتم نربھر  بنانے کی طرف بھی ایک بڑا قدم ہے۔ میں ملک کے اسٹارٹ اپ سیکٹر کو بھی ۔ نوجوانوں کو بھی بتاؤں گا کہ قدرتی زراعت میں آپ کے لئے بہت سے نئے امکانات ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو س سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔ ابھی یہاں سٹیج پر آنے سے پہلے مجھے یہاں بہت سے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا۔ سرکاری یوجناؤں سے جڑنے سے ، کتنے بڑے حوصلے سے بھرے کام انہوں نے کئے ہہیں ، کتنی بڑی تبدیلی ان کی زندگی میں آئی ہے ، میں اُسے سن کر  مجھے  بہت خوشی ہوئی ۔  منصوبوں پر میرا یقین اور بھی مضبوط ہو گیا۔

بھائیو اور بہنو،

دیہاتوں، کسانوں کو خود کفیل بنانے، انہیں غیر قانونی قبضوں سے آزاد کرانے میں اونر شپ اسکیم کا بھی بڑا کردار ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ یوگی جی کی قیادت میں یوپی بھی اس میں آگے ہے۔ یوپی کے تمام 75 اضلاع میں 23 لاکھ سے زیادہ گھرونی  تیار کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریباً 21 لاکھ خاندانوں کو آج یہ دستاویزات دیے گئے ہیں۔ اپنے گھر کی گھرونی ، جب ہاتھ میں ہو گی تو غریب ، دلت ،  محروم ، پچھڑے طبقے کے افراد  اپنے گھر پر ناجائز قبضے کی فکر سے آزادی ملے گی۔ سابقہ ​​حکومتوں کے دور میں یہاں پر پروان چڑھنے والے ناجائز قبضوں کے رجحان کو بھی روکا جائے گا۔ گھرونی ملنے سے اب ضرورت پڑنے پر بینکوں سے قرض لینا بھی آسان ہو جائے گا۔ اس سے دیہات کے نوجوانوں کو روزگار، خود روزگار کے نئے ذرائع فراہم ہوں گے۔

بھائیو اور بہنو،

ترقی کی جب بات آتی ہے تو کاشی اپنے آپ میں ایک ماڈل بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے شہر قدیم شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے کس طرح ایک نئی شکل  اپنا سکتے ہیں کاشی میں نظر آتا ہے۔ جن پروجیکٹوں کا آج افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے،  ان سے عظیم الشان کاشی، دیویا کاشی مہم کو مزید رفتار ملے گی۔ کال بھیرو جی سمیت شہر کے چھ وارڈوں میں ، جو جدید کاری کا کام ہے ، 700 سے زیادہ مقامات پر ، جو سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں ، اس سے اسمارٹ اور محفوظ سہولیات کی طرف بڑھتی کاشی کو اور تقویت ملی ہے ۔ مہان سنت پوجیے شری روی داس جی کی جنم استھان کو فروغ دینے کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے  ۔ لنگر  ہال بننے سے یہاں ملک بھر سے آنے والے عقیدت مندوں کو بہت سہولت ہو گی ۔

بھائیو اور بہنو،

آج وارانسی کے ، جو چوراہے خوبصورت ہو رہے ہیں، سڑکیں چوڑی ہو رہی ہیں، پارکنگ کی نئی جگہیں بن رہی ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں ٹریفک جام کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔  وارانسی کینٹ سے لہتارہ ہوتے ہوئے پریاگ راج کی طرف ، جو ہائی وے جاتا ہے ، اس پر کتنا دباؤ رہتا ہے ، یہ آپ سے اچھا اور کون جانتا ہے ۔  اب یہ 6 لین کا ہو جائے گا تو دلّی، آگرہ، کانپور، پریاگ راج سے آنے والے تمام مسافروں اور سامان کی نقل و حمل سبھی کے لئے سہولت ہو گی ۔  یہی نہیں شہر کے دیگر علاقوں کے لئے بھی اب آنا جانا اور آسان ہو جائے گا۔ یہ سڑک  ضلع کے داخلی دروازے کے طور پر تعمیر ہو گی ۔  وارانسی-بھدوہی-گوپی گنج سڑک کے چوڑے ہونے کی وجہ سے شہر سے نکلنے والی گاڑیاں رنگ روڈ فیز-2 کے راستے باہر سے جا سکیں گی۔ اس سے بھاری ٹریفک جام سے نجات ملے گی۔

بھائیو اور بہنو،

صحت، تعلیم اور تحقیق کے مرکز کے طور پر کاشی کی شناخت کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ آج ایک آیوش اسپتال کا افتتاح کیا گیا ہے اور ایک نئے ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کے قیام کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اس طرح کی سہولیات کے ساتھ کاشی ہندوستانی نظام طب کے ایک اہم مرکز کے طور پر بھی ابھرنے والا ہے۔ ریجنل انسٹرکشن اسٹینڈرڈ لیبارٹری کے قیام سے یہاں پانی کی جانچ، کپڑوں اور قالین سے متعلق ٹیسٹ کئے جائیں گے۔ اس سے وارانسی اور اس کے آس پاس کے بنکروں اور بہت سی صنعتوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی چاول ریسرچ سینٹر میں قائم کی گئی نئی تیز رفتار افزائش کی سہولت کے ساتھ، دھان کی نئی قسم تیار کرنے میں پہلے کی نسبت بہت کم وقت لگے گا۔

بھائیو اور بہنو،

جب میں کاشی، اتر پردیش کی ترقی میں ڈبل پاور اور ڈبل انجن کی ڈبل ڈیولپمنٹ کی بات کرتا ہوں تو کچھ لوگ بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اتر پردیش کی سیاست کو صرف اور صرف ذات پات، عقیدہ، مذہب اور مذہب کے چشمے  سے دیکھا۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یوپی ترقی کرے، یوپی ایک جدید شناخت بنے۔ اسکول، کالج، اسپتال، سڑکیں، پانی، بجلی، غریبوں کے گھر، گیس کنکشن، بیت الخلاء، ان کو ترقی نہیں مانتے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کی یہ زبان ان کے نصاب ، ان کی  ڈکشنری  میں یہ باتیں ہیں ہی نہیں ۔ ان کے سلیبس میں کیا ہے ، ان کی ڈکشنری میں کیا ہے ، ان کی بول چال میں کیا ہے ، ان کی سوچ میں کیا ہے ، آپ سب جانتے ہیں ۔ ان کے نصاب میں ہے – مافیا واد ، پریوار واد ۔ ان کے سلیبس میں ہے ، گھروں اور زمینوں پر ناجائز قبضہ ۔ پہلے کی حکومتوں کے دوران یوپی کے لوگوں کو کیا ملا اور آج ہماری حکومت سے یوپی کے لوگوں کو کیا مل رہا ہے اس میں فرق صاف  ہے۔ ہم یوپی میں وراثت کو بھی بڑھا رہے ہیں، ہم یوپی کو بھی ترقی دے رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ جو صرف اپنے مفاد کے لئے سوچتے ہیں یوپی کی ترقی کو پسند نہیں کر رہے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ ان لوگوں نے پوروانچل کی ترقی، بابا کے کام اور وشوناتھ دھام کے کام پر اعتراض کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ اتوار کو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ عقیدت مند درشن کے لئے کاشی وشوناتھ دھام پہنچے تھے۔ یوپی کو دہائیوں پیچھے دھکیلنے والے ان لوگوں کی ناراضگی ابھی اور بڑھے گی۔ جس طرح یوپی کے لوگ ڈبل انجن والی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں، ہمیں آشیر واد درے ہیں  اور جیسے جیسے آشیر واد بڑھتا جاتا ہے ، ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچے گا ۔

ساتھیوں،

ڈبل انجن کی سرکار یوپی کی ترقی کے لئے دن رات ایسے ہی محنت کرتی رہے گی۔ مہادیو کے آشیرواد اور کاشی واسیوں کی محبت سے ترقی کے نئے ریکارڈ بناتے رہیں گے ۔ اسی یقین کے ساتھ سبھی ترقیاتی منصوبوں کی آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ میرے ساتھ بولیے ۔ بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے ۔ بہت بہت شکریہ ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح  ۔ و ا ۔ ع ا ) 

U. No.  14727


(Release ID: 1784668) Visitor Counter : 276