وزیراعظم کا دفتر

دیوالی کے موقع پر جموں و کشمیر کے نوشہرہ میں ہندوستانی مسلح افواج کے جوانوں کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا متن

Posted On: 04 NOV 2021 3:41PM by PIB Delhi

 

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

دیوالی کا آج مبارک تہوار ہے اور ہر کسی کا من کرتا ہے کہ دیوالی اپنی فیملی کے لوگوں کے درمیان منائے۔ میرا بھی من کرتا ہے کہ میں دیوالی اپنے اہل خانہ کے درمیان مناؤں اور اسی لیے ہر دیوالی میں میرے اہل خانہ کے درمیان منانے کےلیے آتا ہوں کیوں کہ آپ میرے اہل خانہ ہیں، میں آپ کی فیملی کا ساتھی ہوں۔ میں آپ کی فیملی کے ایک رکن کے طور پر آیا ہوں۔ آپ سبھی کے درمیان آنا، جو جذبہ اپنی فیملی کے درمیان جاکر پیدا ہوتا ہے، وہی جذبہ میرے من میں ہوتا ہے اور جب سے میں اس آئینی ذمہ داری کو سنبھال رہا ہوں، آج اس کو 20 سال سے بھی زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ بہت لمبے عرصے تک مجھے ہم وطنوں نے اس قسم کی خدمت کا موقع دیا۔ پہلے گجرات والوں نے دیا، اب ملک کے شہریوں نے دیا۔ لیکن میں نے ہر دیوالی سرحد پر تعینات آپ میرے اہل خانہ کے درمیان گزاری ہے۔ آج میں پھر آپ کے درمیان آیا ہوں، آپ سے نئی توانائی لے کر جاؤں گا، نیا امنگ لے کر جاؤں گا، نیا اعتماد لے کر جاؤں گا۔ لیکن میں اکیلا نہیں آیا ہوں۔ میں میرے ساتھ 130 کروڑ ہم وطنوں کے آشیرواد آپ کے لیے لے کر آیا ہوں، ڈھیر سارا آشیرواد لے کر آیا ہوں۔ آج شام کو دیوالی پر ایک چراغ، آپ کی بہادری کو، آپ کی شجاعت کو، آپ کی ہمت کی، آپ کی قربانی اور مشقت کے نام پر اور جو لوگ ملک کی حفاظت میں مصروف ہیں، ایسے آپ سب کے لیے ہندوستان کا ہر شہری اس چراغ کی روشنی کے ساتھ آپ کو بے شمار نیک خواہشات بھی دیتا رہے گا۔ اور آج تو مجھے پختہ یقین ہے کہ آپ گھر پر بات کریں گے، ہو سکتا ہے تو فوٹو بھی بھیج دیں گے اور مجھے پورا یقین ہے آپ کہیں گے ہاں یار اس بار تو دیوالی کچھ اور تھی، کہیں گے نا۔ دیکھئے آپ رِلیکس ہو جائیے، کوئی آپ کو دیکھتا نہیں ہے، آپ فکر مت کیجئے۔ اچھا آپ یہ بھی بتائیں گے نا کہ مٹھائی بھی بہت کھائی تھی، نہیں بتائیں گے؟

ساتھیوں،

آج میرے سامنے ملک کے جو جوان ہیں، ملک کی جو بہادر بیٹیاں ہیں، وہ بھارت ماں کی ایسی خدمت کر رہی ہیں، جس کا موقع ہر کسی کو نہیں ملتا ہے، کسی کسی کو ہی ملتا ہے۔ جو موقع آپ کو ملا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں، میں محسوس کر رہا ہوں آپ کے چہرے کے اُن مضبوط جذبات کو میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ عزائم سے بھرے ہوئے ہیں اور یہی آپ کے عزائم، یہی آپ کی بہادری کے جذبات، چاہے ہمالیہ ہو، ریگستان ہو، برفیلی چوٹیاں ہوں، گہرے پانی ہوں، کہیں پر بھی آپ لوگ ماں بھارتی کا ایک جیتا جاگتا تحفظاتی کور ہیں۔ آپ کے سینے میں وہ جذبہ ہے جو 130 کروڑ ہم وطنوں کو بھروسہ ہوتا ہے، وہ چین کی نیند سو سکتے ہیں۔ آپ کی قابلیت سے ملک میں امن و تحفظ ایک بے فکری ہوتی ہے، ایک اعتماد ہوتا ہے۔ آپ کی شجاعت کی وجہ سے ہمارے تہواروں میں روشنی پھیلتی ہے، خوشیاں بھر جاتی ہیں، ہمارے تہواروں میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ابھی دیوالی کے بعد گووردھن پوجا، پھر بھیا دوج اور چھٹھ تہوار بھی بالکل گنتی کے دنوں میں سامنے آ رہا ہے۔ آپ کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنوں کو نوشہرہ کی اس خوبصورت سرزمین سے، ان سبھی تہواروں کے لیے ہم وطنوں کو بھی بہت بہت نیک مبارکباد دیتا ہوں۔ ملک کے دیگر حصوں میں بڑی تعداد میں لوگ آج دیوالی کا جب دوسرا دن ہوتا ہے تو نئے سال کی بھی شروعات کرتے ہیں اور ہمارے یہاں تو حساب کتاب بھی دیوالی سے پورا ہوتا ہے اور دیوالی کے دوسرے دن سے شروع ہوتا ہے۔ خاص کر گجرات میں کل نیا سال ہوتا ہے۔ تو میں آج نوشہرہ کی اس بہادر سرزمین سے گجرات کے لوگوں کو بھی اور جہاں جہاں نیا سال مناتے ہیں، ان سب کو بھی بے شمار خوشیوں کی مبارکباد ان کے لیے دیتا ہوں۔

ساتھیوں،

جب میں یہاں نوشہرہ کی مقدس زمین پر اترا، یہاں کی مٹی کو چھوا تو ایک الگ ہی جذبہ، ایک الگ ہی رومانس سے میرا من بھر گیا۔ یہاں کی تاریخ ہندوستانی فوج کی جواں مردی کا اعلان کرتی ہے، ہر چوٹی سے وہ نعرہ سنائی دیتا ہے۔ یہاں کا حال آپ جیسے بہادر جوانوں کی شجاعت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ شجاعت کا زندہ ثبوت میرے سامنے موجود ہے۔ نوشہرہ نے ہر فریب کا، ہر سازش کا معقول جواب دے کر کشمیر اور سرینگر کے چوکیدار کا کام کیا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہی دشمنوں نے اس پر نظر گڑا کر رکھی ہوئی تھی۔ نوشہرہ پر حملہ ہوا، دشمنوں نے اونچائی پر بیٹھ کر اس پر قبضہ جمانے کی کوشش کی اور ابھی جو مجھے ویڈیو دیکھ کر ساری چیزیں مجھے دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہے کہ نوشہرہ کے جاں بازوں کی بہادری کے سامنے ساری سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔

دوستوں،

ہندوستانی فوج کی طاقت کیا ہوتی ہے، اس کا احساس دشمن کو شروعات کے دنوں میں ہی ہو گیا تھا۔ میں نمن کرتا ہوں نوشہرہ کے شیر، بریگیڈیئر محمد عثمان کو، نائک جادوناتھ سنگھ کو جنہوں نے ملک کی حفاظت کے لیے اپنی عظیم قربانی دیا۔ میں سلام کرتا ہوں لیفٹیننٹ آر آر رانے کو جنہوں نے ہندوستانی فوج کی جیت کی راہ ہموار کی تھی۔ ایسے کتنے ہی بہادر سپاہیوں نے نوشہرہ کی اس سرزمین پر فخر کی کہانیاں رقم کی ہیں، اپنے خون سے لکھی ہیں، اپنی جواں مردی سے لکھی ہیں، اپنی قابلیت سے لکھی ہیں، ملک کے لیے جینے مرنے کے عزائم سے لکھی ہیں۔ ابھی مجھے یہ میری خوش قسمتی تھی کہ دیوالی کے اس مقدس تہوار پر مجھے آج دو ایسی عظیم شخصیات کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا، وہ میری زندگی میں ایک طرح سے انمول وراثت ہے۔ مجھے آشیرواد ملے جناب بلدیو سنگھ اور جناب بسنت سنگھ جی سے، یہ دونوں عظیم شخصیات بچپن کے دنوں میں ماں بھارتی کی حفاظت کے لیے فوج کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر وسائل کی کمی کے درمیان بھی اور آج جب میں سن رہا تھا ان کو وہی جذبہ تھا بھئی، وہی مزاج تھا اور بیان ایسے کر رہے تھے جیسے آج ہی، ابھی سے لڑائی کے میدان سے آئے ہیں، ایسے بیان کر رہے تھے۔ آزادی کے بعد ہوئی جنگ میں ایسے بے شمار نوجوانوں نے بریگیڈیئر محمد عثمان کی رہنمائی میں بچہ فوجی کا رول نبھایا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اتنی کم عمر میں ملک کی فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا تھا، فوج کی مدد کی تھی۔ نوشہرہ کی شجاعت کا یہ سلسلہ تب سے جو شروع ہوا، نہ کبھی رکا ہے، نہ کبھی جھکا ہے، یہی تو نوشہرہ ہے۔ سرجیکل اسٹرائک میں یہاں کی بریگیڈ نے جو رول نبھایا، وہ ملک کے ہر شہری کو فخر کے جذبے سے بھر دیتا ہے اور وہ دن تو میں ہمیشہ یاد رکھوں گا کیوں کہ میں نے کچھ طے کیا تھا کہ غروب آفتاب سے پہلے سب لوگ لوٹ کر آ جانے چاہئے اور میں ہر لمحہ فون کی گھنٹی پر ٹک ٹکا کر کے بیٹھا ہوا تھا کہ آخر سے آخر کا میرا جوان پہنچ گیا کیا اور کوئی بھی نقصان کیے بغیر یہ میرے بہادر جوان لوٹ کر آ گئے، شجاعت کا مظاہرہ کرکے آ گئے، اپنا مقصد حاصل کرکے آ گئے۔ سرجیکل اسٹرائک کے بعد یہاں بدامنی پھیلانے کی بے شمار بز دلانہ کوششیں ہوئیں، آج بھی ہوتی ہیں، لیکن ہر بار دہشت گردی کو منہ توڑ جواب ملتا ہے۔ جھوٹ اور بے انصافی کے خلاف اس دھرتی میں ایک فطری جذبہ ہے۔ مانا جاتا ہے اور میں مانتا ہوں یہ اپنے آپ میں بڑا جذبہ ہے، ایسا مانا جاتا ہے کہ پانڈووں نے بھی گمنامی کے دوران اپنا کچھ وقت اسی علاقے میں گزارا تھا۔ آج آپ سب کے درمیان آ کر، میں اپنے آپ کو یہاں کی توانائی سے جڑا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔

ساتھیوں،

اس وقت ملک اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو غلامی کے لمبے دور میں بے شمار قربانی دے کر ہم نے یہ آزادی حاصل کی ہے۔ اس آزادی کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری ہم سبھی ہندوستانیوں کے سر پر ہے، ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آزادی کے امرت کال میں ہمارے سامنے نئے اہداف ہیں، نئے عزائم ہیں، نئے چیلنجز بھی ہیں۔ ایسے اہم دور میں آج کا بھارت اپنی طاقتوں کو لے کر بھی با خبر ہے اور اپنے وسائل کو لے کر بھی۔ بدقسمتی سے، پہلے ہمارے ملک میں فوج سے جڑے وسائل کے لی یہ مان لیا گیا تھا کہ ہمیں جو کچھ بھی ملے گا بیرونی ملک سے ہی ملے گا! ہمیں ٹیکنالوجی کے معاملے میں جھکنا پڑتا تھا، زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے تھے۔ نئے ہتھیار، نئے آلات خریدنے ہوتے تھے تو کارروائی سالوں سال چلتی رہتی تھی۔ یعنی ایک افسر فائل شروع کرے، وہ ریٹائر ہو جائے، تب تک بھی وہ چیز نہیں پہنچتی تھی، ایسا ہی دور تھا۔ نتیجہ یہ کہ ضرورت کے وقت ہتھیار افراتفری میں خریدے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کل پرزوں کے لیے بھی ہم دوسرے ممالک پر منحصر رہتے تھے۔

ساتھیوں،

ڈیفنس سیکٹر میں خود انحصاری کا عزم ان پرانے حالات کو بدلنے کا ایک مضبوط راستہ ہے۔ ملک کے دفاعی خرچ کے لیے جو بجٹ ہوتا ہے، اب اس کا تقریباً 65 فیصد ملک کے اندر ہی خرید پر خرچ ہو رہا ہے۔ ہمارا ملک یہ سب کر سکتا ہے، کرکے دکھایا ہے۔ ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اب بھارت نے یہ بھی طے کیا ہے کہ 200 سے زیادہ ساز و سامان اور آلات اب ملک کے اندر ہی خریدے جائیں گے۔ آتم نربھر بھارت کا یہی تو عزم ہے۔ اگلے کچھ مہینوں میں اس میں اور سامان جڑنے والے ہیں، ملک کو آتم نربھر بنانے والی یہ پازیٹو لسٹ اور لمبی ہو جائے گی۔ اس سے ملک کا ڈیفنس سیکٹر مضبوط ہوگا، نئے نئے ہتھیاروں، آلات کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری بڑھے گی۔

ساتھیوں،

آج ہمارے ملک کے اندر ارجن ٹینک بن رہے ہیں، تیجس جیسے ماڈرن لائٹ کامبیٹ ایئر کرافٹ بن رہے ہیں۔ ابھی وجے دکشمی کے دن 7 نئی ڈیفنس کمپنیوں کو بھی ملک کو وقف کیا گیا ہے۔ ہماری جو آرڈیننس فیکٹریز تھیں، وہ اب اسپیشلائزڈ سیکٹر میں جدید دفاعی آلات بنائیں گی۔ آج ہمارا پرائیویٹ سیکٹر بھی ملک کی حفاظت کے اس عزم کا گواہ بن رہا ہے۔ ہمارے کئی نئے ڈیفنس اسٹارٹ اپس آج اپنا پرچم لہرا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان 20، 22، 25 سال کے نوجوان کیا کیا چیزیں لے کر آ رہے ہیں جی، فخر ہوتا ہے۔

ساتھیوں،

اتر پردیش اور تمل ناڈو میں بن ڈیفنس کوریڈور اس اسپیڈ کو اور تیز کرنے والے ہیں۔ یہ سارے قدم جو آج ہم اٹھا رہے ہیں، وہ بھارت کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ڈیفنس ایکسپورٹر کے طور پر ہماری شناخت کو بھی مضبوط کرنے والے ہیں۔

ساتھیوں،

ہماری مذہبی کتابوں میں کہا گیا ہے-

کو اتی بھارہ سمرتھانم۔

یعنی جو قابل ہوتا ہے اس کے لیے بوجھ معنی نہیں رکھتا، وہ آسانی سے اپنے عزائم کو پورا کرتا ہے۔ اس لیے آج ہمیں بدلتی دنیا، جنگ کے بدلتے منظرنامہ کے مطابق ہی اپنی فوجی طاقت کو بڑھانا ہے۔ ان کو نئے طاقت کے ساتھ ڈھالنا بھی ہے۔ ہمیں اپنی تیاریوں کو دنیا میں ہو رہی اس تیز رفتار تبدیلی کے موافق ہی ڈھالنا ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے کسی وقت ہاتھی گھوڑے پر لڑائیاں ہوتی تھیں، اب کوئی سوچ نہیں سکتا ہاتھی گھوڑے کی لڑائی، شکل بدل لے گی۔ پہلے شاید جنگ کی شکل بدلنے میں دہائیاں لگ جاتی ہوں گی، صدیاں لگ جاتی ہوں گی۔ آج تو صبح ایک طریقہ ہوگا تو شام کو دوسرا طریقہ ہوگا لڑائی کا، اتنی تیزی سے ٹیکنالوجی اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ آج کا جنگی ہنر صرف آپریشنز کے طور طریقوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ آج الگ الگ پہلوؤں میں بہتر تال میل، ٹیکنالوجی اور ہائبرڈ ٹیکٹکس کا استعمال بہت بڑا فرق ڈال سکتا ہے۔ منظم قیادت، ایکشن میں بہتر تال میل آج بہت ضروری ہے۔ اس لیے گزشتہ وقت سے ہر سطح پر لگاتار ریفارمس کیے جا رہے ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری ہو یا ڈپارٹمنٹ آف ملٹری افیئرس کی تشکیل، یہ ہماری فوجی طاقت کو بدلتے وقت کے ساتھ قدم تال کرنے میں اہم رول نبھا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

ماڈرن بارڈر انفراسٹرکچر بھی ہماری فوجی طاقت کو مزید مضبوط کرنے والا ہے۔ سرحدی علاقوں کی کنیکٹویٹی کو لے کر پہلے کیسے کام ہوتا تھا، یہ آج ملک کے لوگ، آپ سبھی لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔  اب آج لداخ سے لے کر اروناچل پردیش تک، جیسلمیر سے لے کر انڈمان نکوبار جزیرے تک، ہمارے بارڈر ایریاز میں جہاں عام کنیکٹویٹی بھی نہیں ہوتی تھی، آج وہاں جدید روڈ، بڑی بڑی سرنگیں، پل اور آپٹیکل فائبر جیسے نیٹ ورک بچھائے جا رہے ہیں۔ اس سے ہماری ڈپلائمینٹ کیپبلیٹی میں تو غیر معمولی تبدیلی ہوئی ہی ہے، فوجیوں کو بھی اب بہت زیادہ سہولت ہو رہی ہے۔

ساتھیوں،

خواتین کی طاقت کو نئے اور با صلاحیت بھارت کی طاقت بنانے کی سنجیدہ کوشش گزشتہ 7 سالوں میں ہر سیکٹر میں کی جا رہی ہے۔ ملک کی حفاظت کے شعبے میں بھی بھارت کی بیٹیوں کی حصہ داری اب نئی بلندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نیوی اور ایئر فورس میں اگلے مورچوں پر تعیناتی کے بعد اب آرمی میں بھی خواتین کے رول کی توسیع ہو رہی ہے۔ ملٹری پولیس کے دروازے بیٹیوں کے لیے کھولنے کے بعد اب خواتین افسروں کو پرمانینٹ کمیشن دینا، اسی حصہ داری کی توسیع کا ہی حصہ ہے۔ اب بیٹیوں کے لیے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی، نیشنل ملٹری اسکول اور نیشنل انڈین ملٹری کالج جیسے ملک کے پریمیئر ملٹری اداروں کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ اسی سال 15 اگست کو میں نے لال قلعہ سے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اب ملک بھر کے سبھی آرمی اسکولوں میں بیٹیوں کو بھی پڑھائی کا موقع ملے گا۔ اس پر بھی تیزی سے کام شروع ہو گیا ہے۔

ساتھیوں،

مجھے آپ جیسے ملک کے محافظوں کی وردی میں صرف بے پناہ صلاحیت کا ہی نظارہ نہیں ہوتا، میں جب آپ کو دیکھتا ہوں، تو مجھے نظارہ ہوتا ہے بے پناہ خدمت کے جذبے کا، اٹوٹ قوت ارادی کا اور مثالی حساسیت کا۔ اسی لیے، بھارت کی فوج دنیا کی کسی بھی دوسری فوج سے الگ ہے، اس کی ایک الگ شناخت ہے۔ آپ دنیا کی سرکردہ افواج کی طرح ایک پروفیشنل فورس تو ہیں ہی، لیکن آپ کی انسانی قدر، آپ کی ہندوستانی اخلاقیات آپ کو دوسروں سے الگ، ایک غیر معمولی شخصیت کا حامل بناتے ہیں۔ آپ کے لیے فوج میں آنا ایک نوکری نہیں ہے، پہلی تاریخ کو تنخواہ آئے گی، اس کے لیے نہیں آئے آپ لوگ، آپ کے لیے فوج میں آنا پوجا ہے! جیسے کبھی رشی منی پوجا کرتے تھے نا، میں آپ کے ہر ایک کے اندر وہ سادھو سنت کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اور آپ ماں بھارتی کی پوجا کرر ہے ہیں۔ آپ زندگی کو اس بلندی پر لے جا رہے ہیں کہ جس میں 130 کروڑ ہم وطنوں کی زندگی جیسے آپ کے اندر شامل ہو جاتی ہے۔ یہ سادھنا کا راستہ ہے اور ہم تو بھگوان رام میں اپنے اعلیٰ اصول تلاش کرنے والے لوگ ہیں۔ لنکا فتح کرنے کے بعد بھگوان رام جب ایودھیا لوٹے تھے تو یہی اعلان کرکے لوٹے تھے-

ابھی سورن میی لنکا، نہ مے لکشمن روچتے۔ جننی جنم بھومشچ سورگ  دپی گری یسی۔

یعنی، سونے اور دولت سے بھرپور لنکا کو ہم نے جیتا ضرور ہے، لیکن ہماری یہ لڑائی ہمارے اصولوں اور انسانیت کی حفاظت کے لیے تھی۔ ہمارے لیے تو ہمارا مادر وطن ہی ہمارا ہے، ہمیں وہیں لوٹ کر اسی کے لیے جینا ہے۔ اور اسی لیے، جب پربھو رام لوٹ کر آئے تو پوری ایودھیا نے ان کا خیر مقدم ایک ماں کے طور پر کیا۔ ایودھیا کے ہر مرد و عورت نے، یہاں تک کہ پورے بھارت نے دیوالی کا انتظام کر دیا۔ یہی جذبہ ہمیں دوسروں سے الگ بناتا ہے۔  ہمارا یہی جذبہ ہمیں انسانی قدروں کی اس جاوداں بلندی پر فائز کرتا ہے جو وقت کی افراتفری میں، تہذیبوں کی ہلچل میں بھی برقرار رہتا ہے۔ تاریخ بنتی ہے، بگڑتی ہے۔ اقتدار آتے ہیں، جاتے ہیں۔ سلطنت آسمان چھوتی ہے، گرتی ہے، لیکن بھارت ہزاروں سال پہلے بھی امر تھا، بھارت آج بھی امر ہے، اور ہزاروں سال بعد بھی امر رہے گا۔ ہم ملک کو حکومت، اقتدار اور سلطنت کے طور پر نہیں دیکھتے۔ ہمارے لیے تو یہ زندہ روح ہے۔ اس کی حفاظت ہمارے لیے صرف جغرافیائی لکیروں کی حفاظت بھر نہیں ہے۔ ہمارے لیے ملک کی حفاظت کا مطلب ہے اس قومی زندگی کی حفاظت، قومی یکجہتی کی حفاظت، اور قومی سالمیت کی حفاظت! اسی لیے، ہماری افواج میں آسمان چھوتا حوصلہ ہے، تو ان کے دلوں میں انسانیت اور ہمدردی کا ساغر بھی ہے۔ اسی لیے، ہماری افواج صرف سرحدوں پر ہی شجاعت نہیں دکھاتیں، جب ملک کو ضرورت پڑتی ہے تو آپ سب آفت، بحران، بیماری، وبائی مرض سے ملک کے شہریوں کی حفاظت کے لیے میدان میں اتر جاتے ہیں۔ جہاں کوئی نہیں پہنچے، وہاں بھارت کی افواج پہنچے، یہ آج ملک کا ایک اٹوٹ اعتماد بن گیا ہے۔ ہر ہندوستانی کے من میں سے یہ جذبہ اپنے آپ ظاہر ہوتا ہے یہ آگئے نا ارے فکر نہیں اب ہو گیا، یہ چھوٹی چیز نہیں ہے۔ آپ ملک کی سالمیت اور ہمہ گیریت کے محافظ ہیں، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے عزم کے محفاظ ہیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ کی شجاعت کے حوصلہ سے ہم اپنے بھارت کو مزید بلندیوں تک لے کر جائیں گے۔

ساتھیوں،

دیوالی کی آپ کو بھی مبارکباد ہے۔ آپ کے اہل خانہ کو مبارکباد ہے اور آپ جیسے بہادر بیٹے بیٹیوں کو جنم دینے والی ان ماؤں کو بھی میرا سلام ہے۔ میں پھر ایک بار آپ سب کو دیوالی کی بہت ساری مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولئے بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!

شکریہ!

*****

ش  ح –  ق ت –  ت  ع

U:12523



(Release ID: 1769448) Visitor Counter : 223