وزیراعظم کا دفتر

’’شفاف ٹیکسیشن –ایمانداروں کا احترام ‘‘ کےآغازکے موقع پر وزیراعظم کےخطاب کا متن

Posted On: 13 AUG 2020 12:38PM by PIB Delhi

نئیدہلی13اگست 2020۔ملک میں جاری ساختیاتی  اصلاحات  کا سلسلہ آج نئی منزل پرپہنچا ہے۔ شفاف ٹیکسیشن   - ایمانداروں کا احترام  ! اکیسویں صدی کے ٹیکس سسٹم کے اس نئے نظام کا آج افتتاح کیا گیا ہے۔

          اس پلیٹ فارم میں فیسلیس  اسسمنٹ ، فیسلیس اپیل  اور ٹیکس پئیرز چارٹرڈ  جیسی بڑی اصلاحات ہیں۔ فیسلیس  اسسمنٹ  اور ٹیکس پئیر چارٹرڈ آج سے نافذہوگئے ہیں۔جبکہ فیس لیس اپیل کی سہولت 25 ستمبر یعنی دین دیال اپادھیائے جی کی سالگرہ سے ملک بھر میں شہریوں کے لئے دستیاب ہوجائے گی۔ اب ٹیکس سسٹم  بھلے ہی فیسلیس ہورہا ہے لیکن  ٹیکس پئیر کو  یہ فیئر نیس  اور فیئر لیس نیس  کا یقین دینے والا ہے ۔

          میں سبھی  ٹیکس دہندگان کو اس کے لئے بہت مبارکباددیتا ہوں اور انکم ٹیکس محکمے کے سبھی حکام ، ملازمین کو بھی بہت بہت  مبارکباد اور نیک خواہشات  !

ساتھیو!

          پچھلے  6سالوں میں ہمارا فوکس رہا ہے کہ بینکنگ دی  ان بینکڈ  سیکیورنگ  دی ان سیکیور  ڈ اور فنڈنگ دی ان فنڈیڈ    آ ج ایک طرح سے نیا سفر شروع ہورہا ہے ۔ آنرنگ دی آنسٹ  -  ایمانداروں کا  احترام ۔  ملک کا ایماندار ٹیکس  پئیر قومی تعمیر میں  بہت بڑا رول ادا کرتا ہے۔ جب ملک کے ایماندار ٹیکس پئیر کی زندگی آسان بنتی ہے ، وہ آگے بڑھتا ہے تو ملک کی بھی ترقی ہوتی ہے ،  ملک بھی آگے بڑھتا ہے ۔

ساتھیو!

          آج سے شروع ہورہے نئے نظام ،نئی سہولتیں ، منیمم  گورنمنٹ ، میکسیمم  گورننس کے تئیں  ہماری عہد بستگی  کو اور مضبوط کرتی ہے۔ یہ ہم وطنوں کی زندگی سے سرکار  کو ، سرکار کے دخل کو کام کرنے کی سمت  میں  بھی ایک بڑا قدم ہے ۔

ساتھیو! آج ہر ضابطہ قانون کو ، ہر پالیسی کو پراسس اور پاور سینٹرک  اپروچ سے باہر نکال کر اس کو پیوپلز سینٹرک اور پبلک فرینڈلی  بنانے پر زور دیا جارہا ہے ۔  یہ نئے بھارت کے نئے گورننس  ماڈل کا استعمال ہے  اور اس کے اچھے نتائج  بھی ملک کو مل رہے ہیں۔ آج ہرکسی کو یہ احساس ہوا ہے کہ شارٹ کٹس ٹھیک نہیں  ہے ، غلط  طورطریقے اپنا نا صحیح  نہیں  ہے وہ دور اب پیچھے چلا گیا ہے ۔ اب ملک میں ماحول بنتا جارہا ہے کہ فرائض  کےاحساس کو  بالا تر رکھتے ہوئے سارے کام کریں ۔

          سوال یہ ہے کہ تبدیلی آخر کیسے آرہی ہے۔کیا یہ صرف سختی سے آئی ہے ؟کیا یہ صرف سزا دینے سے آئی ہے ؟  نہیں  ، بالکل نہیں  ،  اس کی  چار بڑی وجوہات ہیں۔

          پہلا- پالیسی ڈریون گورننس  ۔ جب پالیسی واضح ہوتی ہے تو گرے ایریاز  منیمم ہوجاتے ہیں اور اس  وجہ سے کاروبار میں، بزنس میں  ڈسکریشن کی گنجائش کم ہوجاتی ہے ۔

          دوسرا  -  عام آدمی کی ایمانداری پر یقین ۔

          تیسرا -  سرکاری سسٹم میں ہیومن انٹرفیس  کو محدود کرکے ٹکنالوجی کا بڑی  سطح  پر استعمال ۔ آج سرکاری خرید ہو ، سرکار ی ٹینڈر ہو یا سرکاری خدمات کی ڈلیوری ، سب جگہ ٹکنالوجیکل انٹر فیس  سروس دے رہے ہیں۔

          اور چوتھا ۔ ہماری جو  سرکاری مشینری ہے ، جو بیورو کریسی ہے ، اس میں   اثر انگیزی ، ایمانداری اور حساسیت کی خوبیوں کا انعام دیا جارہا ہے۔

ساتھیو!

          ایک دورتھا جب ہمارے یہاں  اصلاحات کی بہت باتیں ہوتی تھیں  ۔ کبھی مجبوری میں کچھ فیصلے لے لئے جاتے تھے ، کبھی دباؤ میں کچھ فیصلے ہوجاتے تھے تو انہیں  اصلاح کہہ دیا جاتا تھا ۔اس وجہ سے مناسب نتائج  نہیں  ملتے تھے ۔ اب یہ سوچ  اور طریق کار دونوں  بدل گئے ہیں۔

          ہمارےلئے ریفارم کا مطلب ہے ، ریفارم  پالیسی پر مبنی ہو، ٹکڑوں میں  نہیں ہو ، ہالسٹک ہو اور ایک ریفارم دوسرے ریفارم کی بنیاد  بنے ، نئے ریفارم کا راستہ بنائے اور ایسا بھی  نہیں  کہ ایک بار ریفارم کرکے رک گئے ۔ پچھلے کچھ سالوںمیں ملک میں  ڈیڑھ  ہزار سے زیادہ قوانین کو ختم کیا گیا ہے ۔

          ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں  بھارت آج سے کچھ سال پہلے  134 ویں نمبر پر  تھا ۔ آج بھارت کی درجہ بندی 63  ہے ۔درجہ بندی میں  اتنی بڑی تبدیلی کے پس پشت متعدد اصلاحات ہیں، متعدد ضوابط وقوانین میں بڑی تبدیلی  ہے ۔ ریفارم کے تئیں  بھارت کی اس عہد بستگی کو دیکھ  کر غیر ملکی سرمایہ کا روں   کا اعتماد بھی بھارت پر مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ کورونا کے اس بحران کے دور میں  بھی   بھارت میں ریکارڈ ایف ڈی آئی  کا آنا اسی کی  مثال ہے۔

ساتھیو !

          بھارت کے ٹیکس نظام میں فنڈ امینٹل اور ساختیاتی اصلاحات کی ضرورت اس لئے تھی کیونکہ ہمارا آج کا سسٹم  غلامی کے تاریک دور میں  بنا اور پھر دھیرے دھیرے ایوالو  ہوا ۔ آزادی کے بعداس  میں یہاں وہاں تھوڑ ی بہت تبدیلی کی گئی لیکن  بڑے پیمانے پر سسٹم کا کریکٹر وہی رہا۔

          نتیجہ یہ ہوا کہ جو ٹیکس پئیر قومی تعمیر کا ایک مضبوط ستون ہے جو ملک کو غریبی سے باہر نکالنے میں تعاون دے رہا ہے ،اس کو کٹہرے  میں کھڑا کیا جانے لگا ۔انکم ٹیکس کا نوٹس فرمان کی طرح  بن گیا ۔ ملک کو دھوکہ دینے والے کچھ مٹھی بھر لوگوں کی  پہچان کے لئے بہت سے لوگوں کو غیر ضروری پریشانی سے گزرنا پڑا ۔ کہاں تو ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں فخر کے ساتھ توسیع ہونی  چاہئے تھی اور کہاں گٹھ جوڑ کا ،سانٹھ  گانٹھ  کا نظام بن  گیا ۔

          اس کے  بیچ  بلیک  اور وھائٹ کی صنعت بھی پھلتی پھولتی گئی ۔اس نظام نے ایمانداری سے کاروبار کرنے والوں کو  ،روزگار دینے والوں کو اور ملک کی نوجوانوں کی طاقت  کے عزائم  کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے کچلنے کا کام کیا گیا ۔

ساتھیو!

          جہاں  کامپلکسٹی  ہوتی  ہے وہاں کمپلائنس  بھی مشکل ہوتا ہے ۔ کم سے کم قانون ہو، جو قانون ہو وہ بہت واضح ہو تو ٹیکس  پئیر بھی خوش ہوتا ہے اور ملک بھی ۔ پچھلے کچھ وقتوں سے یہی کام کیا جارہا ہے ۔ اب جیسے درجنوں  ٹیکسیز کی جگہ جی ایس ٹی آگیا ۔ریٹرن سے لے کر ری فنڈ  کے نظام کو پوری طرح سے آن لائن کیا گیا ۔

          جو نیا سلیب سسٹم آیا ہے ،  اس سے بے وجہ کے کاغذوں  اوردستاویزوں  کو جمع کرنے کی مجبوری سے نجات مل رہی ہے ۔ پہلےدس لاکھ روپے سے اوپر کے تنازعات کو لے کر حکومت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ  پہنچ جاتی تھی۔ اب ہائی کورٹ میں  ایک کروڑروپے تک کے اور سپریم کورٹ میں دو کروڑروپے تک کے کیس کی حد طے  کی گئی ہے ۔تناعہ سے یقین جیسی اسکیم سے کوشش یہ ہے کہ زیادہ تر معاملے کو رٹ سے باہر ہی  حل ہوجائیں  ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ  بہت کم وقت میں  ہی تقریباََ تین لاکھ معاملوں کو  نمٹایا جاچکا ہے ۔

ساتھیو !

          پروسس کی پیچیدگیوں کے ساتھ ملک میں ٹیکس  بھی کم کیا گیا ہے ۔ پانچ  لاکھ روپے  کی آمدنی پر اب ٹیکس صفر ہے ۔ باقی سلیب  میں  بھی ٹیکس کم  ہوا ہے ۔کارپوریٹ ٹیکس کے معاملے میں ہم دنیا میں سب سے کم ٹیکس لینے والے ملکوںمیں سے ایک ہیں۔

ساتھیو!

          کوشش یہ  ہے  کہ ہمارا ٹیکس نظام  سیم لیس ہو ، پین  لیس ہو اور فیس لیس ہو ۔سیم   لیس یعنی   ٹیکس ایڈ منسٹریشن   ، ہر ٹیکس  پئیر کو  الجھانے کی بجائے مسئلے کو سلجھانے کے لئے کام کریں  ۔ پین لیس  یعنی ٹکنالوجی سے لے کر رولز تک سب کچھ سمپل ہو ۔فیس لیس  یعنی ٹیکس  پئیر کون ہے اور ٹیکس آفیسر کو ن ہے ۔اس سے  مطلب ہونا ہی نہیں چاہئے ۔آج سے لاگو ہونے والی اصلاحات اسی سوچ کو آگے بڑھانے والی ہیں۔

ساتھیو !

          ابھی تک ہوتا یہ ہے کہ جس شہر میں ہم رہتے ہیں ، اسی شہر کا ٹیکس محکمہ  ہماری ٹیکس سے جڑی سبھی باتوں کو ہینڈل کرتا ہے۔اسکروٹنی   ، نوٹس ہو ،سروے ہو یا پھر ضبطی ہو ،اس میں اسی شہر کے انکم ٹیکس محکمے کا  ، انکم ٹیکس افسر کا اہم رو ل رہتا ہے ۔اب یہ رول ایک طرح سے ختم ہوگیا ہے۔اب اس  کو ٹکنالوجی کی مددسے بدل دیا گیا ہے ۔

          اب اسکروٹنی کے معاملوں کو ملک کے کسی بھی شعبے  میں  کسی بھی افسر کے پاس رینڈم طریقے سے تقسیم کیا جائے گا۔  اب جیسے ممبئی کے کسی ٹیکس دہندہ  کا ریٹرن سے منسلک کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کی چھان بین کا ذمہ ممبئی کے افسرکے  پاس  نہیں جائے گا بلکہ امکان ہے وہ چنئی  کی فیس لیس ٹیم  کے پاس جاسکتا ہے  اوروہاں سے بھی جو فرمان صادر ہوگا ،اس  پر نظر ثانی کسی دوسرے شہر جیسے جے پور یا بنگلورو کی ٹیم کرے گی۔ اب فیس لیس ٹیم کون سی ہوگی ،اس میں کون کون ہوگا یہ  بھی  رینڈملی کیا جائے گا۔اس میں ہرسال تبدیلی  بھی ہوتی رہے گی۔

ساتھیو !

          اس نظام سے ٹیکس دہندہ  اور انکم ٹیکس دفتر کو جان  پہنچا ن بنانے کا ، اثر اور دباؤ  کا موقع ہی نہیں ملے گا ،سب اپنے فرائض کے حساب سے کام کریں گے ۔ محکمے کو اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ غیر ضروری مقدمہ  بازی نہیں ہوگی۔ دوسرا ٹرانسفر – پوسٹنگ  میں لگنے والی غیر ضروری توانائی سے بھی  اب راحت ملے گی۔اسی  طرح ٹیکس سے جڑے معاملوں کی  جانچ  کے ساتھ ساتھ اپیل  بھی اب فیس لیس ہوگی۔

ساتھیو !

          ٹیکس  پئیر چارٹربھی ملک کی ترقی کے سفر میں   بہت بڑ ا قدم ہے ۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی  بار ٹیکس  دہندگان  اختیارات اورفرائض  کو   کوڈی فائی کیا گیا ہے ۔ ان کو منظوری دی گئی ہے ۔ ٹیکس  پئیر کو اس سطح کا احترام  اور سکیورٹی دینے والے  گنے چنے ملکوں  میں اب  بھارت  بھی شامل ہوگیا ہے ۔

          اب ٹیکس  پئیر کو مناسب رویہ کا بھروسہ  دیا گیا ہے۔یعنی ٹیکس محکمے کو اب  ٹیکس  پئیر کے وقار کا ، حساسیت کے ساتھ دھیان رکھنا ہوگا۔ اب ٹیکس پئیر کی بات پر یقین کرنا ہوگا، محکمہ اس کو بغیر کسی بنیاد کے ہی  شک کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا ۔ اگر کسی طرح کا شک ہے بھی  تو ٹیکس  پئیر کو اب اپیل اور جائزے کا اختیار دیا گیا ہے ۔

ساتھیو !        

          اختیارات ہمیشہ فرائض  کے ساتھ آتے ہیں۔اس چارٹر میں  بھی ٹیکس  پئیر سے کچھ  امیدیں کی گئی ہیں۔ ٹیکس  پئیر کے لئے  ٹیکس دینا یا سرکار کے لئے ٹیکس لینا یہ کوئی حق کا ، اختیار کا موضوع  نہیں ہے بلکہ یہ دونوںکا فرض  ہے ۔ ٹیکس دہندہ کو ٹیکس اس لئے دینا ہے کیونکہ اسی سے سسٹم چلتا ہے ۔  ملک کی ایک بڑی آبادی کے تئیں  ملک اپنا فرض  نبھا سکتا ہے ۔

          اس ٹیکس سے خود ٹیکس دہندہ کو  بھی ترقی کے لئے  بہتر سہولتیں  اور بنیادی ڈھاچہ مل پاتا ہے ۔ وہیں  حکومت کا یہ فرض  ہے کہ ٹیکس  پئیر کی پائی پائی کا  صحیح استعمال کرے  ۔ایسے میں جب ٹیکس دہندگان کو سہولت اورسکیورٹی مل رہی ہے تو ملک بھی ہر ٹیکس دہندہ سے اپنے  فرائض  کے تئیں  زیادہ بیدار رہنے کی امید کرتا ہے۔

ساتھیو !

          ہم  وطنوں پر بھروسہ ،  اس سوچ کا اثر کیسے زمین  پر نظر آتا ہے یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے ۔ سال 13-2012  میں  جتنے ٹیکس ریٹرن ہوتے تھے ،اس میں سے 0.94  فیصد کی اسکروٹنی ہوتی تھی ۔سال 19-2018  میں  یہ اعداد وشمار گھٹ کر 0.26  فیصد پر آگئے ہیں  یعنی  کیس کی اسکروٹنی   تقریباََ چار گنا کم ہوئی ہے ۔اسکروٹنی کا چار گنا کم ہونا اپنے آپ میں  بتارہا ہے کہ تبدیلی کتنی وسیع  ہے ۔

ساتھیو!

          پچھلے 6  برسوںمیں  بھارت نے ٹیکس  ایڈمنسٹریشن  میں گورننس کا ایک نیا ماڈل تیار ہوتے دیکھا ہے ۔

We Have, Decreased complexity, Decreased taxes, Decreased litigation, Increased transparency, Increased tax compliance, Increased trust on the tax payer.

ساتھیو!

          ان ساری کوششوں کے درمیان   پچھلے  6سات  سال میں انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے والوں کی تعداد میں  تقریباََ ڈھائی کروڑ کا اضافہ ہوا ہے لیکن  یہ بھی صحیح ہے کہ  130  کروڑ کے ملک میں  یہ اب بھی  بہت  کم ہے ۔ اتنے بڑے ملک میں صرف ڈیڑھ کروڑساتھی  ہی انکم ٹیکس  جمع کرتے ہیں۔ اس پر ملک کو  آتم چنتن کرنا ہوگا ۔ آتم نربھر بھارت کے لئے آتم چنتن ضروری ہے اور یہ ذمہ داری صرف ٹیکس محکمہ کی نہیں ہے ،  ہر بھارتی کی ہے  ، جو ٹیکس  دینے میں  اہل ہیں لیکن وہ ابھی ٹیکس نیٹ میں  نہیں ہیں۔وہ خود سے آگے آئیں، یہ میری  اپیل ہے اور امید بھی ۔

          آئیے  ،  یقین کے ، اختیارات کے ، فرائض کے ، پلیٹ فارم کے جذبے کا احترام کرتے ہوئے نئے بھارت ،  آتم نربھر بھارت کے عزم کو  ثابت    کریں   ۔  ایک بار پھر ملک کے موجودہ اور مستقبل کے ایماندارٹیکس دہندگان کو بہت بہت مبارکباد اور نیک تمنائیں ۔

بہت بہت شکریہ !

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

 

م ن ۔ن ا۔رم

13-08-2020

U-4488


(Release ID: 1645476) Visitor Counter : 305