وزیراعظم کا دفتر

وارانسی میں واقع این جی اوز کے نمائندوں کے ساتھ وزیراعظم کے تبادلہ خیال کا متن

Posted On: 09 JUL 2020 1:25PM by PIB Delhi

ہر ہر مہادیو!

کاشی کے پُنیہ دھرتی کے آپ سب پُنیہ آتما لوگن کے پرنام ہو۔ساون  کا مہینہ چل رہا ہے، ایسے میں بابا کے چرنوں میں آنے کا من ہر کسی کو کرتا ہے۔ لیکن جب بابا کی نگری کے لوگوں سے روبرو ہونے کا موقع ملا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ آج میرے لئے ایک درشن کرنے کا سوبھاگیہ حاصل ہوا ہے۔ سب سے پہلے تو آپ سبھی کو  بھگوان بھولے ناتھ کے اس محبوب مہینے کی  بہت بہت مبارک باد۔

یہ بھگوان بھولے ناتھ کا ہی آشرواد ہے کہ کورونا کے اس بحران میں بھی  ہماری کاشی  امید سے بھری ہوئی ہے، جوش سے بھری ہوئی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ لوگ بابا وشو ناتھ دھام  ان دونوں نہیں جا پارہے اور وہ بھی ساون میں نہ جا پانا ، تو آپ کا درد میں سمجھ سکتا ہوں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مانس مندر ہو، درگا کنڈ ہو ، سنگٹ موچن میں ساون کا میلہ  ، سب کچھ ملتوی ہوگیا ہے، نہیں لگ پایا ہے۔

لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس غیر معمولی بحران کے وقت میں اور میری کاشی ، ہماری کاشی نے اس غیر معمولی بحران کا  ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ آج کا یہ پروگرام بھی تو  اسی کی ایک کڑی ہے۔ کتنی ہی بڑی  مصیبت کیوں نہ ہو، کوئی بھی کاشی کے لوگوں کی جیوٹتا کا  کوئی مقابلہ  نہیں کرسکتا۔ جو شہر دنیا کو  رفتار دیتا ہو، اس کے سامنے کورونا کیا چیز ہے، یہ آپ نے دکھا دیا ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ کورونا کے ۔۔۔ کاشی کی جو خصوصیات ہیں، اس کورونا کے سبب کاشی میں چائے کی اڈیاں، وہ بھی سونی ہوگئی ہیں، تو اب ڈیجیٹل اڈیاں شروع ہوگئی ہیں۔ الگ الگ شعبوں کی  عظیم شخصیتوں نے اڈی روایت کو تو زندہ کیا، یہاں کی جس سنگیت روایت کو بسم اللہ خاں جی، گرجا دیوی جی، ہیرا لال یادو  جی جیسے عظیم سادھکوں نے خوش حال کیا،  اس کو آج  کاشی کے معزز فنکار، نئی نسل کے فنکار ،آگے بڑھارہے ہیں۔ اس طرح کے متعدد کام  گزشتہ تین چار مہینے میں کاشی میں مسلسل ہوئے ہیں۔

اس دوران  بھی  میں مسلسل  یوگی جی کے رابطے میں رہتا تھا،  ابھی حکومت کے الگ الگ لوگوں سے رابطے میں رہتا تھا۔ کاشی سے جو خبریں میرے پاس آتی تھیں، ان کو کیا کرنا- کیا نہیں کرنا، مسلسل سب سے بات کرتا تھا اور آپ میں سے بھی کئی لوگ ہیں، بنارس میں کئی لوگوں سے میں برابر فون پر بات کرتا تھا، سکھ دکھ  پوچھتا تھا، جانکاریاں لیتا تھا، فیڈ بیک لیا کرتا تھا اور اس میں سے کچھ اسی پروگرام میں بھی مجھے پکا بھروسہ ہے کہ یہاں پر بیٹھے ہوں گے، جن سے میری  کبھی فون پر بات ہوئی ہوگی۔

انفیکشن کو روکنے کے لئے کون کیا قدم اٹھارہا ہے، اسپتالوں کی حالت کیا ہے، یہاں کیا کیا  انتظام کئے جارہے ہیں، قرنطینہ کو لے کر کیا  ہورہا ہے، باہر سے آئے مزدور ساتھیوں کے لئے ہم کتنا انتظام کر پارہے ہیں، یہ ساری جانکاریاں میں لگا تار لیتا رہتا ہوں۔

ساتھیو!

ہماری کاشی میں بابا وشو ناتھ اور ماں انا پورنا، دونوں موجود ہیں اور پرانی زمانے سے یہ مانا جاتا ہے کہ ایک وقت مہا دیو نے خود  ماں انا پورنا سے بھکشا مانگی تھی۔ تبھی سے کاشی پر یہ  خصوصی  آشیر واد رہا ہے کہ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ ماں انا پورنا اور  بابا وشوناتھ، سب کے کھانے کا انتظام کردیں گے۔

آپ سبھی کے لئے، تمام تنظیموں کے لئے، ہم سبھی کے لئے یہ  خوش بختی کی بات ہے کہ اس بات غریبوں کی خدمت کا وسیلہ بھگوان نے ہم سب کو بنایا ہے، خاص طور پر آپ سب کو بنایا ہے۔ ایک طرح سے آپ سبھی  ماں انا پورنا  اور  بابا وشو ناتھ کے پیامبر بن کر ہر ضرورت مند تک پہنچے ہیں۔

اتنے کم وقت میں  فوڈ ہیلپ لائن ہو، کمیونٹی کچن کا  وسیع  نیٹ ورک تیار کرنا، ہیلپ لائن تیار کرنا، ڈیٹا سائنس کی جدید  سائنس ٹیکنالوجی کی مدد لینا، وارانسی اسمارٹ سٹی کے کنٹرول اور  کمانڈ سینٹر کا اس خدمت کے کام میں بھر پور استعمال کرنا، یعنی  ہرسطح پر سبھی نے غریبوں کی مدد کے لئے پوری صلاحیت سے کام کیا۔ اور میں یہ بھی بتادوں ، ہمارے ملک میں کوئی جذبہ خدمت نئی بات نہیں ہے، ہمارے سنسکاروں میں شامل ہے۔ لیکن اس بار کی  جو خدمت ہے، وہ عام خدمت نہیں ہے۔ یہاں صرف کسی مصیبت زدہ کے آنسو پونچھنا، کسی غریب کو کھانا دینا، اتنا ہی نہیں اس میں ایک طرح سے کورونا جیسی بیماری کو گلے لگانا، اس کا خطرہ بھی تھا۔ کہیں کورونا  ہمارے گلے پڑ جائے گا تو۔ اور اس لئے خدمت کے ساتھ ساتھ ایثار اور قربانی   کے لئے تیار رہنے کا  جذبہ بھی تھا۔ اور اس لئے ہندوستان کے ہر کونے میں جن جن لوگوں نے اس کورونا کے بحران میں کام کیا ہے، وہ معمولی کام نہیں ہے۔ صرف  اپنی ذمہ داری نبھائی، ایسا نہیں ہے۔ ایک خوف تھا، ایک ڈر تھا، بحران سامنے تھا اور سامنے جانا، اپنی مرضی سے جانا، یہ خدمت کی ایک نئی شکل ہے۔

 مجھے بتایا گیا ہے کہ جب ضلع انتظامہ کے پاس کھانا تقسیم کرنے کے لئے اپنی گاڑیاں کم پڑ گئی تو محکمہ ڈاک نے خالی پڑی اپنی پوسٹل وین اس کام میں لگادیں۔ سوچئے! سرکاروں کی، انتظامیہ کی شبیہ تو یہی رہی ہے کہ پہلے ہر کام کو منع کیا جاتا ہے۔ یہ تو میرا ڈپارٹمنٹ ہے تمہیں کیسے دوں گا، مجھے تو یہ کرنا، تم کون ہوتے ہو، یہ ہوتا تھا۔ لیکن یہاں ہم نے دیکھا ہے کہ آگے بڑھ کر ایک دوسری کی مدد کی گئی۔ اسی اتحاد، اسی اجتماعیت نے ہماری کاشی کو اور بھی شاندار بنا دیا ہے۔ ایسے انسانی بندو بست کے لئے یہاں کی انتظامیہ ہو، گائیتری پریوار رچنامک ٹرسٹ ہو، قومی روٹی بینک ہو، بھارت سیوا آشرم سنگھ ہو، ہمارے سندھی سماج کے بھائی بہن ہوں، بھگوان اودھوت رام کش سیوا آشرم سرویش وری گروپ ہو، بینک سے جڑے لوگ ہوں، کوئی پینٹ ٹائی چھوڑ کر کے گلی محلے میں غریب کے دروازے پر کھڑے ہوجائیں، تمام تجارتی تنظیمیں ہوں، اور ہمارے  انور احمد جی نے کتنے عمدہ طریقے سے بتایا ، ایسے کتنے ہی  ان گنت لوگ اور میں تو ابھی صرف پانچ سات لوگوں سے بات کر پایا ہوں، لیکن ایسے ہزاروں لوگوں نے کاشی کے وقار میں اضافہ کیا۔ سینکڑوں اداروں نے اپنے آپ کو کھپادیا ہے، سب سے میں بات نہیں کرپایا ہوں لیکن میں ہر کسی کے کام کو سلام کرتا ہوں۔ اس میں جڑے ہوئے ہر شخص کو میں سلام کرتا ہوں اور  جب میں آج آپ سے بات کرر ہا ہوں تب صرف جانکاری نہیں لے رہا ہوں، میں آپ سے ترغیب لے رہا ہوں، زیادہ کام کرنے کے لئے آپ جیسے لوگوں نے اس بحران میں کام کیا، ان کا آشیر واد لے رہا ہوں اور میری پرارتھنا ہے کہ بابا اور ماں انا پورنا آپ کو اور استطاعت دیں، اور طاقت دیں۔

ساتھیو!

کورونا کے اس بحران کے دور  نے د نیا کے سوچنے سمجھنے، کام کاج کرنے، کھانے پینے، سب کے طور طریقے پوری  طرح سے بدل دئے ہیں اور جس طرح سے آپ نے خدمت کی اور اس خدمت کا سماجی زندگی پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ میں بچپن میں سنا کرتا تھا کہ ایک سنار، اس کو چھوٹا موٹا اپنے گھر میں سونار کے ناطے وہ اپنے گھر میں کام کرتے تھے اور کچھ کنبوں کے لئے سونے کی چیزیں بنانا وغیرہ  چلتا تھا لیکن ان صاحب کی ایک عادت تھی، وہ بازار سے مسواک  خریدتے تھے۔ صبح ہم پہلے کے زمانے میں ، آ ج برش کا استعمال کرتے ہیں، پہلے مسواک کرتے تھے اور وہ اسپتال میں جاکر ، وہ جو مریض ہوتا تھا، اس کے جو رشتے دار ہوتے تھے، اتنی تعداد  گن کر کے ہر دن شام کو مسواک دے کر آتے تھے، یہی کام کرتے تھے اور دن بھر اپنا  سونار کا کام کرتے تھے۔ آپ حیران ہوجائیں گے کہ ایک سونار کے طور پر اپنے کام کے ساتھ یہ مسواک لوگوں کی مدد کرنے کی انہوں نے چھوٹی سی اپنی عادت بنالی ۔ اس پورے علاقے میں ان کا ایسا رتبہ تھا، ان کے جذبہ خدمت کا اتنا ذکر تھا کہ سونے کا کام کرانے کے لئے لوگ کہتے تھے ارے بھائی یہ تو خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہیں، انہیں کے یہاں سونے کا کام کروائیں گے۔ یعنی کرتے تھے وہ خدمت لیکن اپنے آپ ان کا ایک اعتبار بنا تھا، ان کے اپنے سونے کے کام کے سبب وہ  ہر خاندان کے لئے ایک معتبر شخص بن چکے تھے۔ یعنی ہمار سماج ایسا ہے، جذبہ خدمت کو صرف کچھ پایا، کچھ ملا، اتنے سے نہیں، اس سے بھی بہت زیادہ جذبہ سے دیکھتا ہے اور جو  خدمت لیتا ہے وہ بھی  من میں ٹھان لیتا ہے کہ جب موقع ملے گاوہ بھی کسی کی مدد کرے گا، یہ پہیا چلتا رہتا ہے۔ اسی سے تو  سماج کو تحریک ملتی ہے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ 100 سال پہلے ایسی ہی  خوفناک وبا آئی تھی، اب 100 سال کے بعد یہ آئی ہے۔ کہتے ہیں  کہ تب ہندوستان میں اتنی تعداد نہیں تھی،  لوگ کم تھے ، لیکن اس  وقت بھی اس وبا میں دنیا میں جہاں سب سے زیادہ لوگ مرے، ان میں ہمارا ہندوستان بھی تھا۔ کروڑوں لوگ مر گئے تھے اور اس لئے جب اس بار وبا آئی  تو ساری دنیا  کو  ہندوستان کا نام لیتے ہی ڈر لگتا تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ بھائی  100 سال پہلے ہندوستان کی وجہ سے اتنی بربادی ہوئی تھی، ہندوستان میں اتنے لوگ مر گئے تھے، اور آج ہندوستان کی اتنی آبادی ہے، اتنے چیلنج ہیں، بڑے بڑے ماہرین یہ کہہ رہے تھے اور ہندوستان پر سوال کھڑا کرنے لگے تھے کہ اس بار بھی ہندوستان کی حالت بگڑ جائے گی۔ لیکن کیا صورت حال بنی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس 24 کروڑ کی آبادی والا ہمارا اترپردیش ، اور اس کو لے کر تو لوگوں میں بہت سارے خدشات بھی تھے کہ یہ کیسے بچے گا، کوئی کہتا تھا کہ یوپی میں غریبی بہت  ہے، یہاں باہر کام کرنے گئے مزدور ، کامگار ساتھی بہت ہیں،  وہ  دو گز کی دوری  پر  کیسے عمل کر پائیں گے؟ وہ کورونا  سے نہیں تو بھوک سے مر جائیں گے، لیکن آپ کے تعاون نے اترپردیش کے لوگوں کی محنت نے سارے اندیشوں کو دھول میں ملادیا۔

ساتھیو!

برازیل جیسے بڑے دیش میں جس کی آبادی تقریبا 24 کروڑ ہے، وہاں کورونا سے 65 ہزار سے زیادہ لوگوں کی تکلیف دہ موت ہوچکی ہے، لیکن اتنی ہی آبادی والے ہمارے اترپردیش میں تقریبا 800 لوگوں کی موت کورونا سے ہوئی ہے۔ یعنی یوپی میں کورونا سے ہزاروں زندگیاں جن کے مرنے کا اندیشہ تھا، ان کو بچالیا گیا ۔ آج  صورت حال یہ ہے کہ اترپردیش کی نہ صرف انفیکشن کی رفتار کو قابو میں کیا گیا ہے بلکہ جنہیں کورونا ہوا ہے، وہ بھی تیزی سے ٹھیک ہورہے ہیں اور اس کی بہت بڑی وجہ آپ جیسے متعدد معززین کی بیداری، جذبہ خدمت اور فعالیت ہے۔ آپ جیسے سماجی، مذہبی اور  لوگوں کا بھلا کرنے والی تنظیموں کا یہ جو جذبہ خدمت ہے، آپ کا یہ جو عزم ہے، آپ کے سنسکار ہیں، جس نے اس مشکل وقت میں اپنے، مشکل سے مشکل دور میں سماج کے ہر شخص کو کورونا کے خلاف لڑائی لڑنے کی طاقت دی، بہت بڑی مدد کی۔

ساتھیو!

ہم تو کاشی کے باشندے ہیں اور کبیر داس جی نے کہا ہے کہ

سیوک پھل مانگے نہیں، سیب کرے دن رات

خدمت کرنے والا خدمت کا بدل نہیں مانگت، دن رات بے لوث جذبے سے خدمت کرتا ہے، دوسروں کی بے لوث خدمت کے ہمارے یہی سنسکار ہیں جو اس مشکل وقت میں اہل وطن کے کام آرہے ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ مرکزی حکومت نے بھی  مسلسل کوشش کی ہے، کہ کورونا کے اس وقت میں عوام الناس کے درد کو ساجھا کیا جائے، اس کو کم کرنے کے لئے مسلسل کوشش کی جائے، غریب کو راشن ملے، اس کی جیب میں کچھ روپے ہوں، اس کے پاس روز گار ہو اور وہ اپنے کام کے لئے قرض لے سکے، ان سبھی باتوں پر توجہ دی ہے۔

ساتھیو!

آج بھارت میں 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت راشن دیا  جار ہاہے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ بنارس کے بھی  غریبوں کو، مزدوروں کو ہور ہا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں  کہ ہندوستان ، امریکہ سے بھی دوگنی آبادی سے ایک پیسہ لئے بغیر ان کی پرورش پرداخت کر رہا ہے۔ اور اب تو اس اسکیم کو نومبر کے آخر تک یعنی دیوالی اور چھٹ پوجا  یعنی 30 نومبر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ کسی غریب کو تہواروں کے وقت  کھا نے پینے کی کمی نہ ہو۔ کھانے کے ساتھ ساتھ ، لاک ڈاؤن کے سبب  غریب کو کھانا پکانے کے لئے ایندھن کی دقت نہ ہو، اس کے لئے اجوولا یوجنا کے مستفدین کو گزشتہ تین مہینے سے مفت  گیس سلینڈر دیا جا رہا ہے۔

ساتھیو!

غریبون کے جن دھن کھاتے میں ہزاروں کروڑ روپے جمع کرانا ہو یا پھر غریبوں کے، مزدوروں کے روزگار کی فکر، چھوٹی صنعتوں کو، ریہڑی – ٹھیلہ لگانے والوں کو آسان قرض دستیاب کرانا ہو، یا کھیتی ، مویشی پروری ، ماہی پروری، اور دوسرے کاموں کے لئے تاریخی فیصلے، حکومت نے مسلسل کام کیا ہے۔

کچھ دن پہلے ہی  20 ہزار کروڑ روپے کی  متسیہ سمپدا یوجنا کو بھی منظوری دی گئی ہے، اس کا فائدہ بھی اس علاقے کے ماہی  پروری کرنے والوں  کو ہوگا۔ اس کے علاوہ یہاں یوپی میں کچھ دن پہلے روزگار اور  خود کے روز گار کے لئے ایک اور خصوصی مہم چلائی گئی ہے۔ اس کے تحت ہمارے جو دستکار ہیں، بنکر ہیں، دوسرے کاریگر ہیں، یا پھر دوسری ریاستوں سے جو بھی مزدور ساتھی گاؤں لوٹے ہیں، ایسے لاکھوں کام گاروں کے لئے روز گار کا بند وبست کیا گیا ہے۔

ساتھیو!

 کورونا کی یہ آفت اتنی بڑی ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے مسلسل کام کرنا ہی ہوگا۔ ہم اطمینان سے بیٹھ نہیں سکتے۔ ہمارے بنکر بھائی بہن، کشتی چلانے والے ہمارے ساتھی ہوں، کاروباری ہوں، سبھی کو میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری مسلسل کوشش  ہے کہ سبھی کو کم از کم دقت ہو اور بنارس بھی  آگے بڑھتا رہے۔ میں نے کچھ دن پہلے ہی بنارس کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں انتظامیہ سے، شہر کے ہمارے اراکین  اسمبلی سے بھی   ٹیکنالوجی کے توسط سے طویل ملاقات کی تھی، بہت تفصیلی  بات ہوئی تھی، ایک ایک چیز کو میں نے ٹیکنالوجی اور  ڈرون کی مدد سے مانیٹر کیا تھا۔ اس میں سڑکوں، بجلی ، پانی جیسے  سبھی  پروجیکٹوں کے ساتھ ساتھ بابا وشوناتھ دھام پروجیکٹ کی صورت حال کے بارے میں بھی تفصیلی جانکاری  مجھے دی گئی تھی۔ میں نے ضروری اطلاعات بھی دی تھیں۔ کچھ رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں، تو دور کرنے کے لئے جہاں جہاں کہنا تھا، وہاں بھی کہا تھا۔

اس وقت کاشی میں ہی تقریبا 8 ہزار کروڑ روپے کے الگ الگ پروجیکٹوں پر کام تیزی سے چل رہا ہے۔ 8 ہزار کروڑ روپے کے کام، یعنی  متعدد لوگوں کو روزی  روٹی ملتی ہے۔  جب  صورت حال معمول پر آئے گی تو کاشی میں پرانی رونق بھی اتنی  تیزی سے لوٹے گی۔

اس کے لئے ہمیں ابھی سے تیاری بھی کرنی ہے اور اس لئے ہی  ٹورزم سے جڑے سبھی پروجیکٹ ، کروز ٹورزم، لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو،  داشاشوا میدھ گھاٹ کی بازیابی، گنگا آرتی کے لئے آڈیو ویڈیو اسکرین لگانے کا کام، گھاٹوں پر اور بھی بندو بست کا کام، ایسے ہر پروجیکٹ کو تیزی سے پورا کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔

ساتھیو!

آنے والے وقت میں کاشی کو آتم نربھر بھارت مہم کا بھی  ایک بڑا مرکز بنتے ہوئے ہم سبھی دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم سب کی یہ ذمہ داری بھی ہے۔ حکومت کے حالیہ فیصلوں کے بعد یہاں کی ساڑیاں ، یہاں کے دوسرے ہینڈی کراٖفٹ کے لئے، یہاں ڈیری ، ماہی پروری  اور  شہد کی مکھی کو پالنے کے پیشے کے لئے نئے امکانات  کے دروازے کھلیں گے۔ بی- ویکس کی بہت زیادہ مانگ دنیا میں ہے۔ اس کو پورا کرنے کی کوشش  ہم کرسکتے ہیں۔ میں کسانوں سے، نوجوان ساتھیوں سے بھی یہ درخواست کروں گا کہ اس طرح کے پیشے میں بڑھ چڑھ کر اپنی حصہ داری یقینی بنائیں۔ ہم سبھی کی کوششوں سے ہماری کاشی  ہندوستان کے ایک بڑے ایکسپورٹ ہب کی شکل میں ترقی کرسکتی ہے اور ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ کاشی کو ہم آتم نربھر بھارت مہم  کے  باعث تحریک مقام کی شکل میں بھی فروغ دیں، قائم کریں۔

ساتھیو!

مجھے اچھا لگا ، آج آپ سب کے درشن کرنے کا موقع ملا اور کاشی کے باشندوں سے ساون کے  مہینے میں درشن ہونا اپنے آپ میں خوش قسمتی ہے۔ آپ نے جس طرح سے جذبہ خدمت سے کام کیا ہے، ابھی  بھی جس لگن کے ساتھ آپ لوگ کررہے ہیں، میں پھر ایک بار آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

دوسروں کی بھلائی کے، خدمت کے جذبے کے اپنے کام میں آپ نے سب کو تحریک دی ہے، آگے بھی تحریک دیتے رہیں گے۔ لیکن ہاں ایک بار ہمیں بار بار کرنی ہے،  ہر کسی سے کرنی ہے، خود سے بھی کرنی ہے، ہم  سنگل یوز پلاسٹک سے آزادی چاہتے ہیں، اس کو چھوڑنا نہیں۔ اب راستوں پر تھوکنا اور  اس میں بھی ہما را بنارسی پان، ہمیں عادت بدلنی پڑے گی، دوسرا  دو گز کی دوری ، گمچھے یا فیس ماسک اور آنکھ دھلنے کی عادت کو نہ ہمیں چھوڑنا ہے ، نہ کسی چھوڑنے دینا ہے۔ اب اس کو ہمارے  سنسکار بنا دینا ہے، مزاج بنادینا ہے۔

بابا وشوناتھ اور  گنگا میا کا آشیر واد  آپ سبھی پر بنا رہے، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی باتوں کو ختم کرتا ہوں اور پھر سے ایک بار آپ کے اس عظیم کام کو سلام کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ! ہر ہر مہادیو!!!

************

 (م ن ۔   م م- ق ر )

 

U-3800



(Release ID: 1637542) Visitor Counter : 289