وزیراعظم کا دفتر

وزیراعظم نے آچاریہ شری مہا پرگیا جی کو خراج عقیدت پیش کیا عوام کو خوشحال ملک کی تعمیر کے لئے آسودہ کنبے کی تشکیل کی تلقین کی

Posted On: 19 JUN 2020 1:47PM by PIB Delhi

نئی دہلی،19؍جون،آچاریہشریمہاشرمنجی،تیراپنتھیمہاسبھاکےصدرسریشچندرگوئلجی،اورٹیکنالوجی  کے ذریعہ  اس پروگرام  سے  جڑے  سبھی  معززین،سبھی ساتھی!

یہہمسبھی کاخوش بختی ہےکہہمسبسنتپرورآچاریہشریمہاپرگیاجیکییومپیدائشکےمقدسموقعپرایکساتھشریکہوئےہیں۔ اسکافضل،اسکیبرکات کا،آپ،میں،ہمسبھیتجربہکررہےہیں۔

سنت پرور اچاریہ شری مہا پرگیا جی کو نمن کرتے ہوئے، انہیں  خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ، میں آپ سبھی کو بھی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں اچاریہ شری مہا شرمن  جی کو بھی  خصوصی شکل میں شکریہ ادا کروں گا۔ کورونا کی صورت حال کے درمیان بھی انہوں نے اس  پروگرام کو ٹیکنالوجی کے ذریعے اتنے  مؤثر طریقے سے منعقد کیا۔

آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے اچاریہ شری  مہاپرگیا جی کے ست سنگ اور ان سے  دو بدو ملاقات، دونوں  کی خوش بختی حاصل کی ہے۔ اس وقت آپ نے  ان کی روحانی توانائی کا احساس  ضرور کیا ہوگا۔ میں  اسیا اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ مجھے میری زندگی نے یہ موقع  اچاریہ شری  کی خصوصی شفقت  اور  آشرواد  کی خوش قسمتی لگاتار  حاصل ہوتی رہی ہے۔

مجھے یاد  ہے کہ جب میں گجرات کا  وزیراعلی بنا تھا،  تب اس وقت بھی  ان کا گجرات آنا ہوا تھا۔ مجھے ان کی عدم تشدد یاترا میں ،  بنی نوع انسان کی خدمت کی مہم میں شا مل ہونے کا موقع ملا تھا۔ تب میں اچاریہ پرور کے سامنے کہا تھا کہ میں چاہتا کہ یہ تیرا پنتھ میرا پنتھ بن جائے۔ اچاریہ شری  کی شفقت سے  تیرا پنتھ بھی میرا پنتھ بن گیا اور میں  بھی اچاریہ شری کا بن گیا۔

میں نے ہمیشہ  ان کے نزدیک  رہ کر یہ احساس کیا ہے کہ ان کے جیسے  عالمی حیثیت کے  رشی کی زندگی میں  اپنے لئے  کچھ نہیں ہوتا ہے، ان کی زندگی  ان کے نظریات ، ا ن کے خیالات ، سب کچھ سماج کے لئے بنی  نوع  انسانیت کے لئے ہوتا ہے۔

اچاریہ مہا پرگیا جی کہتے بھی تھے ، میں اور میرا چھوڑا، تو سب تمہارا ہی ہوگا۔ ان کے یہ اصول ، ان کا یہ فلسفہ ، ان کی زندگی میں واضح طور پر نظر بھی آتا تھا۔ ہم سب نے دیکھا ہے ، ان کی زندگی میں ، ان کا اپنا کچھ نہیں تھا، لیکن ہر کوئی ان کا اپنا تھا۔ ان کی زندگی میں ذاتی کوئی چیز نہیں تھی لیکن محبت ہر شخص کے لئے تھی۔

دنیا میں زندگی بسر کرنے کا فلسفہ تو آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن اس طرح کی زندگی گزارنے والا  آسانی سے نہیں ملتا۔ زندگی کو اس پیمانے تک لے جانے کے لئے تپنا پڑتا ہے۔ معاشرے اور خدمت کے لئے کھپنا  پڑتا ہے۔ یہ کوئی عام بات نہیں ہے، تاہم  غیر معمولی شخصیت ہی ، غیر معمولی  کو حقیقی شکل دیتی ہے۔ تبھی تو قومی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر کہتے تھے ’’ اچاریہ مہاپرگیاجی  عہد جدید  کے وویکا نند ہیں‘‘ اسی  طرح دیگمبر روایت کے مہا سنت اچاریہ ودیانند جی مہاپرگیا کا موازنہ ڈاکٹر سروپلی  رادھا کرشنن جی سے کرتے تھے۔

 اچاریہ مہا پرگیا جی نے  جو ادب تخلیق کیا ، وہ بھی  منفرد تھا۔ ہمارے محترم اٹل جی  جو خود بھی ادب  اور  علم کے اتنے بڑے ماہر تھے، وہ اکثر کہتے تھے-  کہ   میں اچاریہ مہا پرگیا جی کے ادب کا، ان کے ادب کی گہرائی کا ، ان کے علم اور  اور ان کے الفاظ کا بہت بڑا مداح ہوں۔ گفتگو کا سلیقہ سہر میں  مبتلا کردینے والی آواز  ، الفاظ کا انتخاب، اولوہی  وردان حاصل تھا انہیں۔

آپ بھی اچاریہ شری کے ادب کو پڑھیں گے، ان کی باتوں کو یاد کریں گے تو  آپ کو بھی یہ  تجربہ ہوگا۔ کتنی ہی عظیم شخصیات  کی شبیہ  ان کے اندر مضمر تھی، ان کا علم کس قدر وسیع تھا، انہوں نے جتنی گہرائی سے روحانیت پر لکھا ہے، اتنا ہی  وسیع عبور انہیں فلسفے ، سیاست ، نفسیات  اور اقتصادیات  کے موضوعات  پر حاصل تھا۔

ان موضوعات پر مہاپرگیاجی نے  سنسکرت ، ہندی ، گجراتی، انگریزی میں 300 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں اور آپ کو ان کی وہ کتاب تو یاد ہی ہوگی،  دی فیملی اینڈ دی نیشن‘ یہ  کتاب مہاپرگیا جی نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جی کے ساتھ  مل کر لکھی تھی۔

ایک کنبہ  آسودہ حال کنبہ کیسے بنے، ایک آسودہ حال کنبہ ایک خوش حال ملک کی تعمیر کیسے کرسکتا ہے، اس کا پورا خواکہ ان دونوں عظیم شخصیات نے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب میرے وزیراعلی بننے کے بعد ڈاکٹر  کلام گجرات آئے تھے، تب میں بھی ان کے ساتھ اچاریہ پرگیا کے دیدار  کے لئے گیا تھا، مجھے ایک ساتھ دونوں عظیم شخصیات  کے نزدیک جانی خوش بختی حاصل ہوئی تھی۔ دونوں کی ایک ساتھ موجودگی میں میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ ہمارے یہاں ایک رشی  کس طرح سائنسی فہم رکھتا ہے اور ایک سائنس داں  کس طرح سے  رشی کا مداح ہو سکتا ہے۔ مہاپرگیا جی کے بارے میں ڈاکٹر کلام کہتے تھے  ، ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے، چلو ، حاصل کرو اور دے دو۔ یعنی کہ لگاتار سفر کرو ، علم حاصل کرو  اور  جو کچھ بھی زندگی میں ہے وہ معاشرے کی نظر کردو۔

مہاپرگیا جی نے اپنی زندگی میں ہزاروں کلو میٹر کا سفر  اور پیدل سفر کیا۔ اپنے آخری دنوں میں بھی وہ عدم تشدد کے سفر پر ہی تھے۔ وہ کہتے تھے، آتما میرا خدا ہے، تیاگ میری دعا ہے، میں دوستی میری بھگتی ہے، ضبط ونفس میری قوت اور عدم تشدد میرا مذہب ہے۔

اس  انداز حیات کو انہوں نے خود بھی اپنایا اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بھی سکھایا۔ یوگ کے توسط سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو انہوں نے پزمردگی سے مبرا زندگی بسر کرنے کا فن  سکھایا، یہ بھی خوشگوار اتفاق ہے کہ ایک دن بعد ہی  بین الاقوامی یوم یوگ بھی ہے۔ ہمارے لئے یہ بھی ایک موقع ہوگا کہ  ہم سب آسودہ حال کنبہ، خوش حال ملک  کے مہاپرگیاجی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنا تعاون دیں، ان کے نظریات کو سماج تک پہنچائیں۔

اچاریہ مہاپرگیا جی نے ہم سب کو ایک اور اصول بتایا تھا۔ ان کا اصول تھا  صحت مند شخص، صحت مند معاشرہ، صحت مند معیشت، آج کی صورت حال میں ان کا یہ اصول ہم سب کے لئے بہت بڑی ترغیب ہے۔ آج ملک اسی اصول کے ساتھ خود  کفالت  کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

 مجھے یقین ہے جس معاشرے اور ملک کی مثال  ہمارے رشیوں،  سنت آتماؤں نے ہمارے سامنے  پیش کی ہے، ہمارا ملک جلد ہی  اس عزم کو حاصل کرلے گا، آپ سب اس  خوا ب کو شرمندہ تعبیر کریں گے، آپ سبھی صحت مند رہیں، عافیت سے رہیں، سنت پرور اچاریہ شری مہا پرگیا جی کے زندگی کے پیغام کو نئی پیڑھی تک پہنچاتے رہیں، انہیں نیک خواہشات کے ساتھ آپ سبھی  بہت بہت شکریہ!

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(م ن-- ق ر)

(19-06-2020)

U-3372



(Release ID: 1632588) Visitor Counter : 197