وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

لوک سبھا میں‘آپریشن سندور’ پرخصوصی بحث کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 29 JUL 2025 10:06PM by PIB Delhi

محترم اسپیکر !

اس سیشن کے آغاز میں جب میں میڈیا کے ساتھیوں سے بات کر رہا تھا تو میں نے تمام معزز اراکین  پارلیمنٹ  سے اپیل کرتے ہوئے ایک بات کا ذکر کیا تھا، میں نے کہا تھا کہ یہ سیشن ہندوستان کے وجے اتسو کا سیشن ہے۔ پارلیمنٹ کا یہ اجلاس ہندوستان کے ‘گورو گان’ کا سیشن ہے۔

محترم اسپیکر!

جب میں وجے اتسو کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ وجے اتسو دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر کو تباہ کرنے کے بارے میں ہے۔ جب میں وجے اتسو کہتا ہوں تو یہ وجے اتسو سندور کے حلف کو پورا کرنے کے بارے میں ہے۔ جب میں وجے اتسو کہتا ہوں تو میں ہندوستانی فوج کی بہادری اور طاقت کی فتح کی داستان سنا رہا ہوں۔ جب میں وجے اتسو کہہ رہا ہوں، تب میں اتحاد، قوت ارادی اور 140 کروڑ ہندوستانیوں کی جیت کے جشن کی بات کر رہا ہوں۔

محترم اسپیکر!

اس فاتحانہ احساس کے ساتھ میں اس ایوان میں ہندوستان کا موقف  پیش کرنے اور ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کھڑا ہوا ہوں جوہندوستان کا موقف نہیں دیکھ سکتے۔

محترم اسپیکر!

میں یہاں 140 کروڑ ہم وطنوں کے جذبات میں اپنی آواز شامل کرنے آیا ہوں۔ میں اس ایوان میں 140 کروڑ ہم وطنوں کے جذبات کی گونج میں اپنی آواز شامل کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔

محترم اسپیکر!

آپریشن سندور کے دوران ملک کے عوام نے جس طرح میرا ساتھ دیا، مجھے  آشیرواد دیا، میں ملک کے عوام کا مقروض ہوں۔ میں ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔

محترم اسپیکر!

پہلگام میں 22 اپریل2025 کو جس طرح کا ظالمانہ واقعہ پیش آیا، دہشت گردوں نے معصوم لوگوں سے ان کا مذہب پوچھنے پر جس طرح گولیاں چلائیں، وہ ظلم کی انتہا تھی۔ یہ  ہندوستان  کو تشدد کی آگ میں جھونکنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ یہ  ہندوستان  میں فسادات پھیلانے کی سازش تھی۔ آج میں اہل وطن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ملک نے اتحاد سے اس سازش کو ناکام بنایا۔

محترم اسپیکر !

22 اپریل کے بعد میں نے انگریزی میں کچھ جملے استعمال کیے تھے تاکہ دنیا سمجھ سکے،  میں نے کہا تھا کہ یہ ہمارا عزم ہے۔ ہم دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیں گے اور میں نے کھلے عام کہا تھا کہ ان کے آقاؤں کو بھی سزا ملے گی اور انہیں ایسی سزا ملے گی جو تصور سے بھی بڑی ہے۔ میں 22 اپریل کو بیرون ملک تھا، میں فوراً واپس آیا اور واپس آتے ہی میں نے ایک میٹنگ بلائی ، اس میٹنگ میں ہم نے واضح ہدایات دیں کہ دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینا ہو گا اور یہ ہمارا قومی عزم ہے۔

محترم  اسپیکر  !

ہمیں اپنی مسلح افواج کی صلاحیت پر پورا بھروسہ ہے، ان کی صلاحیت، ان کی طاقت، ان کی ہمت پر پورا بھروسہ ہے… فوج کو ایکشن لینے کے لیے فری ہینڈ دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ فوج فیصلہ کرے کہ کب، کہاں، کیسے اور کس انداز میں؟ یہ سب باتیں اس میٹنگ میں واضح طور پر کہی گئی تھیں اور ان میں سے کچھ باتیں میڈیا میں بھی آئی ہوں گی۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کو سزا دی اور سزا ایسی کہ آج بھی دہشت گردی کے وہ آقا ؤں  کی نیند اڑی ہوئی ہے۔

محترم اسپیکر !

میں ایوان کے ذریعے ہم وطنوں کے سامنے ہماری فوج کی کامیابی کا ہندوستانی پہلو رکھنا چاہتا ہوں۔ پہلا ، پہلگام حملے کے بعد پاکستانی فوج نے اندازہ لگایا تھا کہ ہندوستان کوئی بڑی کارروائی کرے گا۔ ان کی طرف سے ایٹمی دھمکیوں کے بیانات بھی آنے لگے تھے۔  ہندوستان نے 6 مئی کی رات اور 7 مئی 2025کی صبح فیصلہ کے مطابق کارروائی کی اور پاکستان کچھ نہ کر سکا۔ ہماری فوج نے 22 اپریل کا بدلہ 22 منٹ میں مقررہ ہدف کے ساتھ لے لیا۔ دوسری  جانب، محترم اسپیکر! ہم پاکستان کے ساتھ  ہم کئی بار لڑ چکے ہیں۔ لیکن یہ ہندوستان کی پہلی حکمت عملی تھی جس میں ہم ان  مقامات  پر پہنچے جہاں ہم پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔ پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردوں کے ٹھکانے خاکستر ہو گئے۔ دہشت کے گھاٹ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہاں کوئی جا سکتا ہے۔ بہاولپور اور مریدکے کو بھی زمین بوس کر دیا گیا۔

محترم اسپیکر!

ہماری افواج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ تیسرا، ہم نے پاکستان کے ایٹمی خطرے کو جھوٹا ثابت کیا۔  ہندوستان نے ثابت کر دیا کہ ایٹمی بلیک میلنگ اب نہیں چلے گی اور نہ ہی  ہندوستان ایٹمی بلیک میلنگ کے آگے جھکے گا۔

محترم اسپیکر!

چوتھا پہلو، ہندوستان نے اپنی تکنیکی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اس نے پاکستان پر بالکل درست حملہ کیا۔ پاکستان کے ایئر بیس کے اثاثوں کو بھاری نقصان پہنچا اور آج تک ان کے کئی ایئر بیس آئی سی یو میں پڑے ہیں۔ آج ٹیکنالوجی پر مبنی جنگ کا دور ہے۔ آپریشن سندور اس مہارت میں بھی کامیاب ثابت ہوا ہے۔ جو تیاری ہم نے  گزشتہ 10  برسوں میں کی ہے اگر وہ نہ کی گئی ہوتی تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارا کتنا نقصان ہوتا۔ پانچواں پہلو، آپریشن سندور کے دوران، دنیا نے پہلی بار خود انحصار ہندوستان کی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔ میڈ اِن انڈیا ڈرونز، میڈ اِن انڈیا میزائلوں نے پورے پاکستان کے ہتھیاروں کو بے نقاب کر دیا۔

محترم اسپیکر !

ایک اور اہم کام کیا گیا ہے، ویسے جب راجیو گاندھی اقتدار میں تھے، اس وقت ان کے  جو دفاع کے جو وزیر مملکت تھے۔ جب میں نے سی ڈی ایس  کا اعلان کیا تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے اور وہ بہت خوش تھے۔ اس وقت بحریہ، فوج، فضائیہ، تینوں افواج کے مشترکہ ایکشن، ان کے درمیان ہم آہنگی نے پاکستان کو تہہ تیغ کر رکھا ہے۔

محترم  اسپیکر !

ملک میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ لیکن پہلے دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ  مطمئن رہتے تھے اور وہ آئندہ کی تیاری کرتے رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب ماسٹر مائنڈ حملہ کی نیند اڑی ہوئی  ہے، انہیں معلوم ہے کہ  ہندوستان  آئے گا اور مارا جائے گا اور جائے گا۔ یہ نیا معمول ہندوستان نے طے کیا ہے۔

محترم اسپیکر !

دنیا نے دیکھا کہ ہمارے عمل کا دائرہ کتنا بڑا ہے، پیمانہ کتنا بڑا ہے۔ ہم نے پاکستان کے خلاف سندور سے لے کر سندھو تک کارروائی کی ہے۔ آپریشن سندور نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اور اس کے آقاؤں کو  ہندوستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اب وہ ایسے ہی نہیں جا سکتے۔

محترم اسپیکر !

آپریشن سندور سے واضح ہے کہ  ہندوستان  نے تین اصول طے کیے ہیں۔ اگر ہندوستان پر کوئی دہشت گرد حملہ ہوا تو ہم اپنے طریقے سے، اپنی شرائط پر، اپنے وقت پر جواب دیں گے۔ دوسرا یہ کہ اب کوئی ایٹمی بلیک میلنگ نہیں چلے گی اور تیسرا یہ کہ ہم دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی حکومت اور دہشت گردوں کے آقاؤں کو الگ الگ نہیں دیکھیں گے۔

محترم اسپیکر !

خارجہ پالیسی کے بارے میں یہاں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ دنیا کی حمایت کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔ میں آج ایوان میں کچھ باتیں پوری وضاحت کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ دنیا کے کسی ملک نے  ہندوستان کو اپنی سلامتی کے لیے اقدامات کرنے سے نہیں روکا۔ اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے صرف تین ممالک نے آپریشن سندور کے دوران پاکستان کی حمایت میں بیان دیا تھا،  اونلی تھری کنٹریز۔ کواڈ ہو، برکس، فرانس، روس، جرمنی، کسی بھی ملک کا نام لیں، ہندوستان کو پوری دنیا سے حمایت ملی ہے۔

محترم  اسپیکر!

ہمیں دنیا، دنیا کے ممالک کی حمایت حاصل ہوئی، لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ میرے ملک کے ہیروز کی بہادری کو کانگریس کی حمایت نہیں ملی۔ 22 اپریل کے بعد، 22 اپریل کے دہشت گردانہ حملے کے بعد تین چار دن کے اندر، وہ چھل کود کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ 56 انچ کا سینہ کہاں گیا؟ مودی کہاں گئے؟ مودی تو فیل ہوگئے، کیا مزہ  لے رہے تھے، ان کو لگتا تھا، واہ!  بازی مار لی۔ وہ پہلگام کے بے گناہ لوگوں کے قتل میں بھی اپنی سیاست تلاش کررہے تھے۔ وہ اپنی خود غرضانہ سیاست کی وجہ سے مجھے نشانہ بنا رہے تھے، لیکن ان کی یہ بیان بازی، ان کی گھٹیا پن ملکی سیکورٹی فورسز کے حوصلے پست کر رہی تھی۔ کچھ کانگریسی لیڈروں کو نہ  تو ہندوستان کی طاقت پر بھروسہ ہے اور نہ ہی  ہندوستانی فوج پر، یہی وجہ ہے کہ وہ آپریشن سندور پر مسلسل سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ لوگ میڈیا میں سرخیاں تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن اہل وطن کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے۔

محترم  اسپیکر !

10 مئی2025 کو  ہندوستان  نے آپریشن سندور کے تحت کی جانے والی کارروائی روکنے کا اعلان کیا۔ اس حوالہ سے یہاں بہت سی باتیں کہی گئیں۔ یہ وہی پروپیگنڈہ ہے جو سرحد پار سے پھیلایا گیا ہے۔ کچھ لوگ فوج کی طرف سے دیے گئے حقائق کے بجائے پاکستان کے جھوٹے پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ جبکہ  ہندوستان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے۔

محترم  اسپیکر !

میں چند باتیں یاد کرنا چاہوں گا۔ جب سرجیکل اسٹرائیک ہوئی تو ہم نے اپنے سپاہیوں کو تیار کر کے ٹارگٹ مقرر کیا تھا کہ ہم ان کے علاقے میں جا کر دہشت گردوں کے لانچنگ پیڈز کو تباہ کر دیں گے اور اس سرجیکل اسٹرائیک میں جو ایک رات میں ہونے والا آپریشن تھا، ہمارے لوگ طلوع آفتاب تک ٹاسک مکمل کر کے واپس لوٹ گئے۔ ہدف طے تھا کہ یہ کرنا ہے۔ جب ہم نے بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک کیا تو ہمارا ٹارگٹ طے تھا کہ اس بار ہم دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کو تباہ کریں گے اور ہم نے وہ بھی  کرکے دکھایا۔ آپریشن سندور کے وقت ہمارا ہدف مقرر تھا اور ہمارا ہدف دہشت گردی کے مرکز اور اس جگہ پر حملہ کرنا تھا جہاں سے پہلگام کے دہشت گردوں نے مضبوط منصوبہ بندی کی، تربیت اور انتظامات حاصل کئے۔ ہم نے ان کی ناف پر حملہ کیا ہے۔ یا وہ جگہ جہاں پہلگام کے دہشت گردوں کو بھرتی کیا گیا، تربیت دی گئی، فنڈنگ کی گئی، ٹریکنگ ٹیکنیکل سپورٹ حاصل کی گئی، ہتھیاروں کے تمام انتظامات حاصل کیے گئے، اس جگہ کی نشاندہی کی گئی اور ہم نے آپریشن سندور کے تحت دہشت گردوں کی ناف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا۔

اور، محترم  اسپیکر!

اس بار بھی ہماری فوج نے 100 فیصداہداف حاصل کر کے ملک کی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر کچھ چیزوں کو بھولنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ملک نہیں بھولتا، ملک یاد رکھتا ہے، آپریشن 6 اور 7 مئی کی صبح ہوا اور 7 مئی کی صبح ہماری فوج نے پریس کانفرنس کی اور اس پریس کانفرنس میں ہندوستان نے واضح کر دیا تھا اور پہلے دن سے یہ واضح کر دیا تھا کہ ہمارا ہدف دہشت گرد، دہشت گردوں کے آقا، وہ جگہیں ہیں جہاں سے دہشت گردوں کے انتظامات ہوتے ہیں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر نا چاہتے تھے، ہم نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم نے اپنا کام کرنا تھا اور کہا تھا ہم نے جو فیصلہ کیا تھا وہ پورا کر دیا ہے۔ اور اس طرح، 6-7 مئی کو ہمارا آپریشن تسلی بخش ہونے کے فوراً بعد، میں اعتماد کے ساتھ وہی بات دہراتا ہوں جو کل راج ناتھ جی نے کہی تھی، ہندوستانی فوج نے چند منٹوں میں پاکستانی فوج سے کہا کہ یہ ہمارا ہدف تھا، ہم نے یہ ہدف پورا کر لیا ہے، تاکہ وہ جانیں اور ہمیں بھی معلوم ہو کہ ان کے ذہنوں اور دلوں پر کیا چل رہا ہے۔ ہم نے اپنا ہدف سو فیصد حاصل کر لیا ہے اور اگر پاکستان سمجھدار ہوتا تو کھل کر دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی غلطی نہ کرتا۔ اس نے بے شرمی سے دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہم پوری طرح تیار تھے، ہم بھی موقع کی تلاش میں تھے، لیکن ہم نے دنیا کو بتا دیا تھا کہ ہمارا ہدف دہشت گردی ہے، دہشت گردوں کے آقا، دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں، اور ہم نے اسے پورا کیا۔ لیکن جب پاکستان نے دہشت گردوں کی مدد کے لیے آنے کا فیصلہ کیا اور میدان جنگ میں  داخل ہونے  کی کوشش کی تو ہندوستانی فوج نے ایسا منہ توڑ جواب دیا جو برسوں یاد رکھا جائے گا۔ 9 مئی2025 کی درمیانی  شب اور 10 مئی کی صبح ایک طرح سے ہمارے میزائلوں نے پاکستان کے کونے کونے پر اس شدت کے ساتھ حملہ کیا جس کا پاکستان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اور پاکستان کو گھٹنوں کے بل آنے پر مجبور کر دیا۔ اور آپ نے ٹی وی پر بھی دیکھا ہوگا، وہاں سے کیا بیانات آرہے تھے؟ پاکستانی لوگ کہہ رہے تھے، ارے میں سوئمنگ پول میں نہا رہا تھا، کوئی کہہ رہا تھا، میں دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا، اس سے پہلے کہ ہم کچھ سوچتے،  ہندوستان نے حملہ کر دیا۔ یہ پاکستانی عوام کے بیانات ہیں اور ملک نے انہیں دیکھا ہے۔ میں سوئمنگ پول میں نہا رہا تھا اور جب اتنا شدید حملہ ہوا، پاکستان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔  پھر پاکستان نے فون کیا، ڈی جی ایم او کے سامنے اور التجا کی، بس کرو، تم نےاب زیادہ  مار جھیلنے کی سکت  نہیں  ہے، اب ہم میں مزید حملے برداشت کرنے کی طاقت نہیں، برائے  کرم حملہ بند کرو۔ یہ پاکستان کے ڈی جی ایم او کی کال تھی اور  ہندوستان نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا، 7 کی صبح کی پریس کانفرنس دیکھیں کہ ہم نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے، کچھ بھی کرو گے تو مہنگا پڑے گا۔ میں آج پھر یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ  ہندوستان  کی واضح پالیسی تھی، ایک سوچی سمجھی پالیسی تھی، فوج کے ساتھ مل کر ایک پالیسی طے کی گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ ہمارا ہدف دہشت گردوں، ان کے آقاؤں، ان کے ٹھکانوں کو مارنا ہے اور ہم نے پہلے دن پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہماری کارروائی  نان ایسکلیٹری ہے۔ ہم نے یہ کہا اور اس کے لیے دوستو، ہم نے حملہ روک دیا۔

 محترم اسپیکر!

دنیا کے کسی لیڈر نے ہندوستان کو آپریشن بند کرنے کو نہیں کہا۔ اس دوران 9 تاریخ کی رات امریکہ کے نائب صدر نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک گھنٹے تک کوشش کی لیکن میں اپنی فوج کے ساتھ میٹنگ میں تھا۔ اس لیے میں ان کی کال نہیں اٹھا سکا، بعد میں میں نے ان کو کال بیک کیا۔ میں نے کہا  آپ کی کال تھی، تین چار بار آپ  کی کال آئی، کیا بات ہے؟ تو امریکہ کے نائب صدر نے مجھے فون پر بتایا کہ پاکستان ایک بڑا حملہ کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ بتایا، میرا جواب تھا، جن کو سمجھ  آتا ا ن کو تو نہیں  آئے گا۔ میرا جواب تھا کہ اگر پاکستان کا یہ ارادہ ہے تو اس کی انہیں بہت قیمت چکانی پڑے گی۔ میں نے یہ بات امریکہ کے نائب صدر کو بتائی۔ اگر پاکستان حملہ کرتا ہے تو ہم بڑا حملہ کر کے جواب دیں گے، یہ میرا جواب تھا اور اس کے بعد میرا ایک جملہ تھا، میں نے کہا تھا، ہم گولیوں کا جواب گولہ سے دیں گے۔ یہ 9 کی رات تھی اور 9 تاریخ کی رات اور 10 کی صبح ہم نے پاکستان کی فوجی طاقت کو تہس نہس کیا اور یہ ہمارا جواب تھا، یہ ہماری  جبہ تھا ۔ اور آج پاکستان بھی اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ  ہندوستان کا ہر جواب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو ہندوستان کچھ بھی کر سکتا ہے اور اسی لیے میں جمہوریت کے اس مندر میں دوبارہ یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ آپریشن سندور جاری ہے۔ اگر پاکستان نے کوئی ڈھٹائی کا تصور کیا تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

محترم اسپیکر !

آج کا ہندوستان خود اعتمادی سے بھرا ہوا ہے۔ آج کا ہندوستان خود انحصاری کے منتر کے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ملک دیکھ رہا ہے، ہندوستان خود انحصار ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ملک یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ ایک طرف ہندوستان خود انحصاری کی طرف تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، لیکن کانگریس مسائل کے لیے پاکستان کی محتاج ہوتی جا رہی ہے۔ میں آج پورا دن دیکھ رہا تھا، جو بحث 16 گھنٹے سے جاری ہے، بدقسمتی سے کانگریس کو پاکستان سے  ایشوز درآمد کرنے پڑ رہے ہیں۔

محترم  اسپیکر!

معلومات اور بیانیہ آج کی جنگ میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بیانیہ بنا کر اور اے آئی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مسلح افواج کے مورال کو کمزور کرنے کے لیے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ عوام میں بداعتمادی پیدا کرنے کی بھی بہت کوششیں ہو رہی ہیں۔ بدقسمتی سے کانگریس اور اس کے اتحادی پاکستان کی ایسی سازشوں کے ترجمان بن چکے ہیں۔

محترم اسپیکر!

ملک کی فوج نے سرجیکل اسٹرائیک کی۔

محترم  اسپیکر !

جب ملک کی فوج نے کامیابی سے سرجیکل اسٹرائیک کی تو کانگریس والوں نے فوراً فوج سے ثبوت مانگے۔ لیکن جب انہوں نے ملک کا مزاج اور ملک کا  موڈ دیکھا تو ان کا لہجہ بدلنے لگا اور بدلنے کے بعد انہوں نے کیا کہا؟ کانگریس والوں نے کہا کہ اس سرجیکل اسٹرائیک میں کون سی بڑی بات ہے، ہم نے بھی کی۔ ایک نے کہا، تین سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں۔ دوسرے نے کہا، 6 سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں۔ تیسرے نے کہا، 15 سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں۔ جتنا بڑا لیڈر اتنی ہی بڑی گنتی تھی۔

محترم  اسپیکر !

اس کے بعد فوج نے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا۔ اب فضائی حملہ ایسا تھا کہ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے یہ نہیں کہا کہ ہم نے بھی کیا۔ انہوں نے اس میں عقلمندی کا مظاہرہ کیا، لیکن فوٹو مانگنے لگے۔ جب فضائی حملہ ہوا تو تصاویر دکھائیں۔ کہاں گرا ؟ کیا نقصان ہوا؟ کتنا نقصان ہوا؟ کتنے مر گئے؟ وہ صرف یہی پوچھتے رہے! پاکستان نے بھی یہی پوچھا تو انہوں نے بھی یہی پوچھا۔ یہی نہیں…

محترم  اسپیکر !

جب پائلٹ ابھینندن پکڑے گئے تو پاکستان میں خوشی کا ماحول ہونا فطری تھا کہ انہوں نے ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ کو پکڑ لیا تھا، لیکن یہاں بھی کچھ لوگ ایسے تھے، جو کانوں کانوں میں سرگوشی کر رہے تھے، اب مودی پھنس گیا ہے، ابھی ابھینندن وہاں ہے، مودی کو اسے لا کر دکھانا چاہیے۔ اب دیکھتے ہیں مودی کیا کرتے ہیں۔ اور ڈنکے کی چوٹ سے ابھینندن واپس آئے۔ جب ہم ابھینندن کو لے کر آئے تو وہ گونگے ہو گئے۔ انہوں نے سوچا،  یار، یہ نصیب والا آدمی ہے! ہمارا ہتھیار ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔

محترم اسپیکر !

پہلگام حملے کے بعد ہمارا ایک بی ایس ایف کا سپاہی پاکستان نے پکڑا تو سوچا کہ واہ! بڑا ایشو ہاتھ میں آگیا، اب مودی پھنس جائیں گے۔ اب مودی یقیناً شرمندہ ہوں گے اور ان کے ایکو سسٹم نے سوشل میڈیا پر ایسی کئی کہانیاں وائرل کر دیں کہ اس بی ایس ایف سپاہی کا کیا بنے گا؟ اس کے گھر والوں کا کیا بنے گا؟ وہ کب واپس آئے گا؟ وہ واپس کیسے آئے گا؟  نہ جانے کیا کیا چلادیا۔

محترم  اسپیکر !

وہ بی ایس ایف جوان بھی وقار اور فخر کے ساتھ واپس آیا۔ دہشت گرد رو رہے ہیں، دہشت گردوں کے آقا رو رہے ہیں اور انہیں روتا دیکھ کر یہاں کچھ لوگ بھی رو رہے ہیں۔ اب دیکھیں سرجیکل اسٹرائیک ہو رہی تھی، اس کے بعد انہوں نے کوئی گیم کھیلنے کی کوشش کی، لیکن بات جمی نہیں ۔ جب فضائی حملہ ہوا تو انہوں نے ایک اور گیم کھیلنے کی کوشش کی، وہ بھی کام نہ آیا۔ جب یہ آپریشن سندور ہوا تو انہوں نے ایک نئی چال شروع کی اور کیا شروع کیا، کیوں روکا؟ پہلے یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ وہ کچھ کرتے ہیں، اب کہتے ہیں کیوں روکا؟ واہ، بیان بہادر لوگو! آپ کو مخالفت کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے اور اسی لیے صرف میں ہی نہیں، پورا ملک آپ پر ہنس رہا ہے۔

محترم اسپیکر!

فوج کی مخالفت، فوج کے تئیں کچھ نامعلوم منفی، یہ کانگریس کا پرانا رویہ رہا ہے۔ ملک نے ابھی کارگل وجے دیوس منایا، لیکن ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کے دور میں اور آج تک کانگریس نے کارگل کی جیت کو قبول نہیں کیا۔ نہ ہم نے کارگل وجے دیوس منایا اور نہ ہی کارگل کی فتح پر فخر محسوس کیا۔ تاریخ گواہ ہے  محترم اسپیکر، جب ہماری فوج ڈوکلام میں اپنی بہادری کا مظاہرہ کر رہی تھی، اب پوری دنیا جانتی ہے کہ کانگریسی لیڈر چھپ چھپ کر کس سے بریفنگ لیتے تھے۔ آپ ٹیپ نکال لیں، پاکستان کے تمام بیانات اور یہاں ہماری مخالفت کرنے والوں کے بیانات فل اسٹاپ کوما کے ساتھ ایک جیسے ہیں۔ اس پر ہم کیا کہیں گے؟ اور اگر ہم سچ بولیں تو برا لگتا ہے! پاکستان کے ساتھ سر میں سر ملادیاتھا ۔

محترم  اسپیکر!

ملک حیران ہے، کانگریس نے پاکستان کو کلین چٹ دے دی ہے۔ ان کی یہ بے باکی اور یہ عادت نہیں جاتی۔ یہ جرات اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلگام کے دہشت گرد پاکستانی تھے۔ اس کا ثبوت دیں کیا کہہ رہے ہیں آپ لوگ؟ یہ کون سا طریقہ ہے  اور یہی مانگ پاکستان کررہاہے ، جو کانگریس کر رہی ہے۔

اور ،محترم  اسپیکر !

آج جب ثبوتوں کی کمی نہیں، سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے نظر آرہا ہے، تب یہ حال ہے۔ اگر کوئی ثبوت نہ ہوتا تو یہ لوگ کیا کرتے، آپ ہی بتائیں؟

محترم  اسپیکر!

آپریشن سندور کے ایک حصے کی طرف بہت بحث ہوتی  ہے۔ لیکن ملک کے لیے فخر کے کچھ لمحات ہیں، طاقت کا مظاہرہ، اس کی طرف توجہ بھی بہت دلکش ہے۔ ہمارے فضائی دفاعی نظام کا دنیا میں چرچا ہے۔ ہمارے فضائی دفاعی نظام نے پاکستان کے میزائلوں اور ڈرونوں کو تنکے کی طرح بکھیر دیاتھا۔

محترم  اسپیکر!

آج میں ایک اعدادوشمار بتانا چاہتا ہوں۔ پورا ملک فخر سے بھر جائے گا، پتہ نہیں کچھ لوگوں پر کیا گزرے گی، پورا ملک فخر سے بھر جائے گا۔ 9 مئی کو پاکستان نے تقریباً ایک ہزار، ایک ہزار میزائلوں اور ہتھیاروں سے لیس ڈرون، ایک ہزار سے  ہندوستان پر بہت بڑا حملہ کرنے کی کوشش کی۔ اگر یہ میزائل ہندوستان کے کسی حصے پر گرتے تو وہاں بھیانک تباہی ہوتی لیکن ہندوستان نے ایک ہزار میزائل اور ڈرون آسمان  میں ہی مار گرائے۔ ملک کا ہر شہری اس پر فخر محسوس کر رہا ہے، لیکن جس طرح کانگریس والے انتظار کر رہے تھے، کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا، مودی مر جائیں گے! وہ کہیں پھنس جائیں گے! پاکستان نے آدم پور ایئربیس پر حملہ کا جھوٹ پھیلایا، اس جھوٹ کو بیچنے کی بہت کوشش کی، حتیٰ کہ اپنی تمام تر طاقت بھی استعمال کی۔ میں اگلے ہی دن آدم پور پہنچا اور خود وہاں جا کر ان کے جھوٹ کو بے نقاب کیا۔ تب ہی انہیں ہوش آیا کہ اب یہ جھوٹ نہیں چلے گا۔

محترم  اسپیکر !

چھوٹی جماعتوں کے ہمارے ساتھی، جو سیاست میں نئے ہیں، انہیں کبھی حکومت میں رہنے کا موقع نہیں ملا، میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان سے کچھ باتیں نکلتی ہیں۔ لیکن کانگریس پارٹی نے اس ملک پر طویل عرصے تک حکومت کی ہے۔ یہ نظام حکمرانی کو پوری طرح جانتی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں سے نکلے ہیں، انہیں اس بات کی پوری سمجھ ہے کہ نظام حکومت کیا ہے۔ ان کے پاس تجربہ ہے، اس کے بعد بھی وزارت خارجہ فوری جواب دے، لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔ وزیر خارجہ جواب دیں، انٹرویو دیں، بار بار بولیں، لیکن مانی نہیں جاتی۔ وزیر داخلہ نے کہا، وزیر دفاع نے کہا، کسی پر بھروسہ نہیں ہے۔ اتنے سال حکومت کرنے والوں کو ملک کے نظام پر بھروسہ نہیں تب شک ہوتا ہے کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟

محترم  اسپیکر !

اب کانگریس  کا بھروسہ پاکستان کے ریموٹ کنٹرول سے بنتااور بدلتا ہے۔

محترم  اسپیکر !

کانگریس کے بالکل نئے رکن کا مطلب ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے، نئے رکن کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ لیکن کانگریس کے جو باس اسے تحریری طور پر دیتے ہیں ان سے بلواتے ہیں، ان  سے بہت بلواتے ہیں ، خود میں ہمت نہیں ہے، وہ اسے کہتے ہیں کہ آپریشن سندور، یہ ایک تماشہ تھا۔ دہشت گردوں نے 26 افراد کو قتل کیا، یہ اس ہولناک ظالمانہ واقعے پر تیزاب پھینکنے  جیسا گناہ ہے۔ آپ اسے تماشا کہتے ہیں، آپ اس سے اتفاق کر سکتے ہیں اور یہ کانگریسی لیڈر انہیں کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

محترم  اسپیکر !

کل ہماری سکیورٹی فورسز نے ‘آپریشن مہادیو’ چلا کر پہلگام کے حملہ آوروں کو ان کے انجام تک پہنچایا ہے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ یہاں  قہقہہ  لگاکر پوچھا گیا کہ آخر  کل ہی ایسا کیوں ہوا؟ اب کیا ہو گیا ہے کہ میں سمجھ نہیں پا رہا! کیا کوئی ساون کے مہینے کاکسی آپریشن کے لیے پیر کو تلاش کیا گیا؟ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ مایوسی اور ناامیدی اس حد تک اور مزہ دیکھیں،  گزشتہ کئی ہفتوں سے ہاں، ہاں، آپریشن سندور ہوا، تو ٹھیک ہے، پہلگام کے دہشت گردوں کے ساتھ کیا ہوا؟ اگر پہلگام کے دہشت گردوں کے ساتھ کیا ہوا تو کل کیوں ہوا؟ اور کبھی ایسا کیوں ہوا؟ ان کا کیا حال ہے ، محترم  اسپیکر؟

محترم  اسپیکر!

 شاستروں میں کہا گیا ہے، ہمارے یہاں شاستروں میں کہا گیا ہے،‘ شسترین رکشتے راشٹرے شستر چنتا پرورتے’- یعنی، جب ملک کی حفاظت شستروں سے ہوتی ہے، تب ہی وہاں شاستروں کے علم کی بحثیں جنم لے سکتی ہیں۔ جب سرحدوں پر فوجیں مضبوط ہوں، تب ہی جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔

محترم  اسپیکر !

آپریشن سندور گزشتہ دہائی میں  ہندوستانی  فوج کے بااختیار ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوا ہے۔ کانگریس کے دور میں فوج کو خود کفیل بنانے کا کوئی خیال نہیں آیا۔ آج بھی خود انحصاری کے لفظ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مہاتما گاندھی سے آیا ہے، لیکن آج بھی اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کانگریس ہر دفاعی معاہدے میں اپنے مواقع تلاش کرتی تھی۔ چھوٹے ہتھیاروں کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار، یہ ان کا دور حکومت رہا ہے۔ بلٹ پروف جیکٹس، نائٹ ویژن کیمرے نہیں ہوتے  تھے اور فہرست طویل ہے۔ جیپ، بوفورس، ہیلی کاپٹر سے لے کر ہر چیز کے ساتھ کوئی نہ کوئی گھپلہ جڑا ہوا ہے۔

محترم  اسپیکر !

ہماری افواج کو جدید ہتھیاروں کے لیے کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔ آزادی سے پہلے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک وقت تھا جب دفاعی صنعت میں ہندوستان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ تلواروں سے لڑتے تھے اس وقت بھی تلواروں کو ہندوستان کی بہترین مانی جاتی تھی۔ ہم دفاعی سازوسامان میں آگے تھے، لیکن آزادی کے بعد، ہمارے مضبوط دفاعی سازوسامان کی تیاری کی بنیاد، ہمارے پورے ماحولیاتی نظام کو جان بوجھ کر تباہ اور کمزور کر دیا گیا۔ تحقیق اور مینوفیکچرنگ کے راستے بند ہو گئے۔ اگر ہم نے اس پالیسی پر عمل کیا ہوتا تو ہندوستان  اس 21ویں صدی میں آپریشن سندور کے بارے میں سوچنے کے قابل بھی نہ ہوتا۔ انہوں نے ایسی صورتحال پیدا کر دی تھی کہ  ہندوستان  کو سوچنا پڑتا تھا کہ اگر کوئی کارروائی ہی کرنی ہے تو ہتھیار کہاں سے لائیں گے۔ ہم وسائل کہاں سے لائیں گے؟ ہم گولہ بارود کہاں سے لائیں گے؟ کیا ہمیں وقت پر ملے گا یا نہیں؟  بیچ بچاؤ میں  رک تو نہیں جائے گا؟ یہ تناؤ برداشت کرنا پڑتا ۔

محترم  اسپیکر !

 گزشتہ  دہائی میں فوج کو ملنے والے میک ان انڈیا ہتھیاروں نے اس آپریشن میں بہت فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

محترم اسپیکر!

ایک دہائی پہلے، ہندوستان کے لوگوں نے یہ عہد لیا تھا کہ ہمارا ملک ایک مضبوط، خود انحصار اور جدید ملک بننا چاہیے۔ دفاع اور سلامتی کے ہر شعبے میں تبدیلی کے لیے یکے بعد دیگرے ٹھوس اقدامات کیے گئے۔ اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع  کیا گیا اور ملک کی فوج میں جو اصلاحات ہوئی ہیں وہ آزادی کے بعد پہلی بار ہوئی ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری، یہ خیال نیا نہیں تھا۔ دنیا میں تجربات کیے جاتے ہیں،  ہندوستان  میں فیصلے نہیں ہوئے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی، ہم نے کر دی اور میں اپنی تینوں فوجوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس نظام کی تہہ دل سے حمایت کی ہے، اسے دل و جان سے قبول کیا ہے۔ سب سے بڑی طاقت جوڑ اور انضمام کی ہے، خواہ  وہ بحری ہو، فضائیہ ہو، فوج ہو- اس انضمام اور جوڑ نے ہماری طاقت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے اور اس کے نتائج بھی ہمیں نظر آرہے ہیں، ہم نے کر کے دکھائے ہیں۔ ہم نے حکومت کی دفاعی پیداواری کمپنیوں میں اصلاحات کیں۔ شروع شروع میں جلاؤ گھیراؤ، مظاہروں، ہڑتالوں کے کھیل ہوتے تھے جو اب بھی نہیں رکے، لیکن قومی مفاد کو سب سے مقدم سمجھتے ہوئے دفاعی صنعت میں ہمارے لوگ جو حکومتی نظام میں تھے، انہوں نے اسے دل سے لیا، اصلاحات کو قبول کیا اور وہ بھی آج بہت نتیجہ خیز ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں، ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے بھی دفاع کے دروازے کھول دئیے ہیں اور آج ہندوستان کا پرائیویٹ سیکٹر آگے آرہا ہے۔ آج اسٹارٹ اپس ڈیفنس کے میدان میں ہمارے 27-30 سال کے نوجوان، ٹائر ٹو، ٹائر تھری شہروں کے نوجوان، بعض جگہ بیٹیاں اسٹارٹ اپس کی قیادت کررہی ہیں، دفاعی شعبہ میں آج سینکڑوں اسٹارٹ اپس شروع کیے جارہے ہیں۔

ڈرونز ایک طرح سے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ڈرونز سے متعلق جو بھی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، شاید انہیں کرنے والوں کی اوسط عمر 30-35 سال ہوگی۔ تمام لوگ اور ان میں سے سینکڑوں لوگ یہ کام کر رہے ہیں اور اس کی طاقت اس لیے ہے کہ انہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا، جنہوں نے اس قسم کی پروڈکشن کی اور آپریشن سندور  میں یہ ہمارے لیے بہت مفید تھا۔ میں ان سب کی کوششوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ آگے بڑھیں، اب ملک رکنے والا نہیں ہے۔

محترم  اسپیکر!

دفاعی شعبے میں میک ان انڈیا کا نعرہ نہیں تھا۔ اس کے لیے ہم نے بجٹ، پالیسی میں تبدیلیاں کیں، نئے اقدامات کیے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک واضح ویژن کے ساتھ ہم ملک میں میک ان انڈیا دفاعی شعبہ میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

محترم  اسپیکر !

ایک دہائی میں دفاعی بجٹ پہلے سے تقریباً تین گنا بڑھ گیا ہے۔ دفاعی پیداوار میں تقریباً 250 فیصد اضافہ ہوا ہے،  ڈھائی سو فیصد اضافہ ۔ 11  برسوں  میں دفاعی برآمدات میں 30 گنا سے زائد یعنی 30 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آج ہم دفاعی برآمدات میں دنیا کے تقریباً 100 ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔

اور، محترم اسپیکر !

کچھ چیزیں ایسی ہیں جو تاریخ میں بہت بڑا اثر چھوڑتی ہیں۔ آپریشن سندور نے دفاعی منڈی میں  ہندوستان کا جھنڈا  لہرادیا ہے۔ آج کل ہندوستانی ہتھیاروں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ اس سے ہندوستان میں صنعتیں بھی مضبوط ہوں گی، ایم ایس ایم ایز کو تقویت ملے گی۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور ہمارے نوجوان اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے دنیا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ ہم دفاع کے میدان میں خود انحصار ہندوستان کی طرف جو قدم اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اب بھی درد محسوس کر رہے ہیں جیسے ان کا خزانہ لوٹ لیا گیا ہو۔ یہ کیسی ذہنیت ہے؟ ملک کو ایسے لوگوں کو پہچاننا ہوگا۔

محترم  اسپیکر !

میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا دفاع میں خود انحصار ہونا آج کے ہتھیاروں کے مقابلے کے دور میں عالمی امن کے لیے بھی ضروری ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان جنگ کا نہیں مہاتما بدھ کا ملک ہے۔ ہم خوشحالی اور امن چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خوشحالی اور امن کا راستہ سختی سے ہی گزرتا ہے۔

محترم  اسپیکر!

ہمارا ہندوستان چھترپتی شیواجی مہاراج، مہاراجہ رنجیت سنگھ، راجندر چوڈا، مہارانا پرتاپ، لستھ بورفوکان اور مہاراجہ سہیل دیو کا ملک ہے۔

محترم  اسپیکر !

ہم ترقی اور امن کے لیے اسٹریٹجک صلاحیت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔

محترم  اسپیکر !

کانگریس کے پاس کبھی قومی سلامتی کا ویژن نہیں تھا اور آج وہ سوال بھی نہیں اٹھاتی۔ کانگریس نے ہمیشہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ کیا ہے۔ آج جو پوچھ رہے ہیں کہ انہوں نے پی او کے واپس کیوں نہیں لیا؟ ویسے یہ سوال وہ صرف مجھ سے پوچھ سکتے ہیں اور کس سے؟ لیکن اس سے پہلے پوچھنے والوں کو جواب دینا پڑے گا کہ پاکستان کو پی او کے پر قبضہ کرنے کا موقع کس کی حکومت نے دیا؟ جواب صاف ہے، جواب صاف ہے، میں جب بھی نہرو جی پر بحث کرتا ہوں، کانگریس اور اس کا پورا ایکو سسٹم مشتعل ہو  اٹھتا ہے، پتہ نہیں یہ کیا ہے؟

محترم  اسپیکر !

ہم ایک شعر سنا کرتے تھے، مجھے اس کا زیادہ علم نہیں ہے، لیکن ہم اسے سنتے تھے۔ لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا  پائی۔ آزادی کے بعد سے اب تک کیے گئے فیصلوں کا خمیازہ ملک بھگت رہا ہے۔ یہاں ایک بات کا بار بار تذکرہ ہوا ہے اور میں اس کا دوبارہ ذکر کرنا چاہوں گا، اکسائی چن، پورے علاقے کو بنجر زمین قرار دیا گیا تھا۔ یہ کہہ کر کہ یہ بنجر ہے، ہمیں ملک کی 38000 مربع کلومیٹر زمین سے محروم ہونا پڑا۔

محترم  اسپیکر !

میں جانتا ہوں، میرے کچھ الفاظ تکلیف دہ ہیں۔ 1962 اور 1963 کے درمیان کانگریس لیڈر جموں و کشمیر کے پونچھ، اُڑی، وادی نیلم اور کشن گنگا کو  چھوڑ دینے کی تجویز پیش کررہے تھے۔  ہندوستان کی سرزمین…

محترم اسپیکر!

اور وہ بھی لائن آف پیس، لائن کا امن کے نام پر کیا جا رہا تھا۔ 1966 میں انہی لوگوں نے رانا کچھ پر ثالثی قبول کی۔ یہ ان کا قومی سلامتی کا ویژن تھا، ایک بار پھر انہوں نے تقریباً 800 مربع کلومیٹر ہندوستانی  علاقہ پاکستان کے حوالے کر دیا، جس میں شن بیٹ بھی شامل ہے، اسے بعض مقامات پر کشن بیت بھی کہا جاتا ہے۔ 1965 کی جنگ میں ہماری فوج نے حاجی پیر درہ واپس جیت لیا تھا لیکن کانگریس نے اسے دوبارہ واپس کر دیا۔ 1971 میں 93000 پاکستانی فوجی ہمارے ساتھ قیدی تھے، ہزاروں مربع کلومیٹر پاکستانی سرزمین پر ہماری فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ ہم بہت کچھ کر سکتے تھے، ہم فتح کی پوزیشن میں تھے۔ اس دوران اگر تھوڑی سی فتح ہوتی، تھوڑی سی سمجھداری ہوتی تو پی او کے کو واپس لینے کا فیصلہ لیا جا سکتا تھا۔ یہی موقع تھا، وہ موقع بھی گنوا دیا گیا اور یہی نہیں، جب اتنا کچھ آپ کے سامنے تھا تو آپ کم از کم کرتار پور صاحب کو واپس لے سکتے تھے، آپ ایسا بھی نہیں کرپائے تھے۔ سری لنکا کو 1974 میں کچاٹیوو جزیرہ تحفے میں دیا گیا تھا جس کی وجہ سے آج تک ہمارے ماہی گیر بھائیوں اور بہنوں کو مشکلات کا سامنا ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔ تمل ناڈو کے میرے ماہی گیر بھائیوں اور بہنوں کا کیا جرم تھا کہ  آپ  نے ان کا حق چھین کر دوسروں کو تحفے میں دے دیا؟ کانگریس کئی دہائیوں سے سیاچن سے فوج کو ہٹانے کے ارادے سے کام کر رہی تھی۔

محترم  اسپیکر!

ملک نے انہیں 2014 میں موقع نہیں دیا ورنہ آج سیاچن بھی  ہمارے پاس نہیں ہوتا۔

محترم  اسپیکر !

ان دنوں کانگریس کے وہ لوگ ہمیں سفارت کاری کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ میں انہیں ان کی سفارت کاری کے بارے میں یاد دلانا چاہتا ہوں،  تاکہ وہ بھی کچھ یاد رکھیں اور جانیں۔11/26 جیسے ہولناک حملے کے بعد یہ ایک بہت بڑا دہشت گرد حملہ تھا۔ کانگریس کی پاکستان سے محبت ختم نہیں ہوئی۔ اتنا بڑا واقعہ11/26 کو ہوا۔ غیر ملکی دباؤ کے تحت کانگریس حکومت نے حملے کے چند ہفتوں میں ہی پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔

محترم  اسپیکر !

11/26کے اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی کانگریس حکومت نے ایک بھی سفارت کار کو ہندوستان سے نکالنے کی ہمت نہیں کی۔ یہ بھول جائیں، انہوں نے ایک بھی ویزہ کینسل نہیں کیا، وہ ایک بھی ویزا کینسل نہیں کر سکے۔ پاکستان ا سپانسرڈکی طرف سے ملک پر بڑے حملے ہوئے لیکن یو پی اے حکومت نے پاکستان کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیا تھا اور اس نے اسے کبھی واپس نہیں لیا۔ ایک طرف ملک ممبئی حملوں کا انصاف مانگ رہا تھا تو دوسری طرف کانگریس پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے میں مصروف تھی۔ پاکستان وہاں سے دہشت گرد بھیجتا رہا جنہوں نے خون کی ہولی کھیلی اور کانگریس یہاں امن کی امید میں مشاعرے منعقد کرتی تھی، مشاعرے ہوتے تھے۔ ہم نے دہشت گردی  امن کی آشا کےیہ ون وے  ٹریفک کو بند کردیا۔ ہم نے پاکستان کا ایم ایف این سٹیٹس منسوخ کیا، ویزے روکے، اٹاری واہگہ بارڈر بند کر دیا۔

محترم  اسپیکر!

ہندوستان کے مفادات کو گروی رکھنا کانگریس پارٹی کی پرانی عادت ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انڈس واٹر ٹریٹی ہے۔ سندھ طاس معاہدے پر کس نے دستخط کیے؟ نہرو جی نے اس پر دستخط کیے اور معاملہ کیا تھا، ہندوستان سے نکلنے والے دریا، ہماری جگہ سے نکلنے والے دریا، وہ ان کا پانی تھا۔ اور وہ دریا ہزاروں سال سے ہندوستان کا ثقافتی ورثہ رہے ہیں، ہندوستان کی شعوری طاقت رہے ہیں، ان دریاؤں نے ہندوستان کو خوشحال بنانے میں بہت تعاون کیا ہے۔ دریائے سندھ جو صدیوں سے ہندوستان کی پہچان ہوا کرتا تھا، ہندوستان اس سے پہچانا جاتا تھا، لیکن نہرو جی اور کانگریس نے سندھ اور جہلم جیسے دریاؤں کے تنازع پر پنچایت کس کو دی؟ ورلڈ بینک کو دے دیا۔ ورلڈ بینک فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، دریا ہمارا ہے، پانی ہمارا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ  ہندوستان کے تشخص اور  ہندوستان  کی عزت نفس کے ساتھ بہت بڑا غداری تھا۔

محترم اسپیکر!

آج کل کے نوجوان جب یہ سنیں گے تو وہ بھی حیران ہوں گے کہ ہمارے ملک کے لیے ایسے لوگ کام کر رہے تھے۔ نہرو جی نے حکمت عملی سے اور کیا کیا؟ انہوں نے ہندوستان  سے نکلنے والے دریاؤں کا 80 فیصد پانی پاکستان کو دینے پر اتفاق کیا۔ اور اتنا بڑا ہندوستان، صرف 20 فیصد پانی۔ کوئی مجھے سمجھائے کہ یہ کیسی دانشمندی تھی، یہ کیسی قومی مفاد تھی، یہ کیسی سفارت کاری تھی، یہ کیا حالت تھی  آپ لوگوں کی؟ اتنی بڑی آبادی والا ہمارا ملک، یہ دریا یہاں سے نکلتے ہیں اور صرف 20 فیصد پانی۔ اور انہوں نے 80 فیصد پانی اس ملک کو دیا جو کھلے عام  ہندوستان  کو اپنا دشمن کہتا ہے، اسے دشمن کہتا رہتا ہے۔ اور اس پانی پر کس کا حق تھا؟ ہمارے ملک کے کسان، ہمارے ملک کے شہری، ہمارا پنجاب، ہمارا جموں اور کشمیر۔ انہوں نے ملک کے ایک بہت بڑے حصے کو پانی کے بحران میں دھکیل دیا، یہی ایک وجہ ہے۔ اور ریاستوں کے اندر بھی پانی کو لے کر آپس میں جھگڑے ہوئے، مقابلہ بازی پیدا ہوئی اور پاکستان جس چیز پر اپنا حق تھا اس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اور دنیا کو اپنی سفارت کاری کا سبق پڑھاتے رہے۔

محترم  اسپیکر!

اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو مغربی دریاؤں پر کئی بڑے منصوبے تعمیر ہو چکے ہوتے۔ پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور دہلی کے کسانوں کو وافر پانی ملتا، پینے کے پانی کا کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔  ہندوستان صنعتی ترقی کے لیے بجلی پیدا کرنے کے قابل ہو جاتا، یہی نہیں، نہرو جی نے اس کے بعد کروڑوں روپے بھی دیے، تاکہ پاکستان نہر بنا سکے۔

محترم اسپیکر!

اس سے بھی اہم بات ملک کو  چونکا دے گی، یہ چیزیں چھپائی گئی ہیں، دبا دی گئی ہیں۔ جہاں بھی کوئی ڈیم بنتا ہے وہاں اس کی صفائی، ڈیزلٹنگ کا کوئی طریق کار ہوتا ہے، اس میں جو مٹی بھر جاتی ہے، باقی گھاس وغیرہ بھر جاتی ہے، اس لیے اس کی گنجائش کم ہوجاتی ہے، اس لیے اس کی صفائی کے لیے، یعنی ان بلٹ سسٹم موجود ہے۔ نہرو جی نے پاکستان کے کہنے پر یہ شرط مان لی تھی کہ جو مٹی اور کچرا ان ڈیموں میں آئے گا اور ڈیموں کو بھر دیں گے، ہم اسے صاف نہیں کر سکتے، ہم اسے ڈیلیٹ نہیں کر سکتے۔ ڈیم ہمارا، پانی ہمارا لیکن فیصلہ پاکستان کا ہے۔ کیا آپ ڈیزلٹنگ نہیں کر سکتے؟ یہی نہیں جب میں اس حوالے سے تفصیلات میں گیا تو وہاں ایک ڈیم ہے جہاں ڈیزلٹنگ کے لیے گیٹ ہے، اسے ویلڈنگ کی گئی ہے تاکہ کوئی غلطی سے اسے کھول کر مٹی نہ نکال سکے۔ پاکستان نے نہرو جی کو لکھوایا تھا کہ  ہندوستان اپنے ڈیموں میں جمع مٹی کو صاف نہیں کرے گا، پاکستان کی رضامندی کے بغیر ڈیزلٹنگ نہیں کرے گا۔ یہ معاہدہ ملک کے خلاف تھا اور بعد میں نہرو جی کو بھی یہ غلطی ماننی پڑی۔ اس معاہدے میں نرنجن داس گلاٹی نام کا ایک شریف آدمی شامل تھا۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ فروری 1961 میں نہرو نے ان سے کہا تھا، گلاٹی، مجھے امید تھی کہ اس معاہدے سے دیگر مسائل کے حل کا راستہ کھل جائے گا، لیکن ہم وہیں ہیں جہاں پہلے تھے، نہرو جی نے یہ کہا۔ نہرو جی صرف فوری اثرات ہی دیکھ پا رہے تھے، اس لیے انہوں نے کہا کہ ہم جہاں تھے وہیں ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے ملک پیچھے رہ گیا، ملک بہت پیچھے چلا گیا اور ملک کو بہت نقصان ہوا، ہمارے کسانوں کو نقصان ہوا، ہماری زراعت کو نقصان ہوا اور نہرو جی جانتے تھے کہ وہ سفارت کاری جس میں کسان کا کوئی وجود نہیں، انہوں نے ایسی صورتحال پیدا کی تھی۔

محترم اسپیکر!

پاکستان کئی دہائیوں تک  ہندوستان  کے ساتھ جنگ اور پراکسی وار کرتا رہا۔ لیکن بعد میں کانگریس کی حکومتوں نے بھی سندھ طاس معاہدے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا، نہرو جی کی غلطی کو بھی درست نہیں کیا۔

محترم اسپیکر!

لیکن اب ہندوستان نے پرانی غلطی کو درست کرتے ہوئے ٹھوس فیصلہ کیا ہے۔ ہندوستان نے سندھ آبی معاہدے کو ملک اور کسانوں کے مفاد میں نہرو جی کی طرف سے کی جانے والی ایک بہت بڑی غلطی کو ٹال دیا ہے۔ یہ معاہدہ جو ملک کے لیے نقصان دہ تھا، اس شکل میں جاری نہیں رہ سکتا۔  ہندوستان  نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔

محترم اسپیکر!

یہاں بیٹھے لوگ دہشت گردی کے بارے میں لمبی چوڑی باتیں کرتے ہیں۔ جب وہ برسراقتدار تھے، جب انہیں حکومت کرنے کا موقع ملا تو ملک کا حال نہیں بھولا۔ 2014 سے پہلے ملک میں عدم تحفظ کی جو فضا تھی، آج بھی اسے یاد کریں تو لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔

محترم اسپیکر!

ہم سب کو یاد ہے، نئی نسل کے بچے نہیں جانتے لیکن ہم سب جانتے ہیں۔ ہر جگہ اعلانات ہوتے تھے، ریلوے اسٹیشن جائیں، بس اسٹینڈ جائیں، ایئرپورٹ جائیں، بازار جائیں، مندر جائیں، کہیں بھی جائیں جہاں بھیڑ ہو، کوئی لاوارث چیز نظر آئے تو اسے ہاتھ نہ لگائیں، فوراً پولیس کو اطلاع دیں، یہ بم بھی ہوسکتا ہے، ہم 2014 تک یہی سنتے تھے، یہی حالت تھی۔ ملک کے کونے کونے میں یہی حالت تھی۔ ماحول ایسا تھا جیسے ہر قدم پر بم  رکھے ہوں اور شہریوں کو خود کو بچانا پڑے، ہاتھ اٹھائے، اعلان ہوا۔

محترم اسپیکر!

کانگریس کی کمزور حکومتوں کی وجہ سے ملک کو اتنی جانیں گنوانی پڑیں، ہمیں اپنے ہی لوگوں کو کھونا پڑا۔

محترم اسپیکر!

اس سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ ہماری حکومت نے 11 سال میں یہ کام کیا ہے، یہ اس کا بڑا ثبوت ہے۔ 2004 سے 2014 کے درمیان دہشت گردی کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے، اس لیے ملک یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ اگر ہماری حکومت دہشت گردی پر قابو پا سکتی ہے تو کانگریس کی حکومتوں کی کیا مجبوری تھی جنہوں نے دہشت گردی کو پنپنے دیا۔

محترم اسپیکر!

اگر کانگریس کے دور حکومت میں دہشت گردی پروان چڑھی ہے تو اس کی بڑی وجہ ان کی خوشامد کی سیاست، ووٹ بینک کی سیاست ہے۔ جب دہلی میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہوا تو کانگریس کے ایک بڑے لیڈر کی آنکھوں میں آنسو تھے، کیونکہ دہشت گرد مارے گئے تھے، اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ معاملہ ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلا ہوا تھا۔

محترم اسپیکر!

2001 میں ملک کی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، تب کانگریس کے ایک بڑے لیڈر نے افضل گرو کو شک کا فائدہ دینے کی بات کہی تھی۔

محترم اسپیکر!

11/26کا اتنا بڑا دہشت گرد حملہ ممبئی میں ہوا۔ ایک پاکستانی دہشت گرد زندہ پکڑا گیا۔ پاکستان کا میڈیا، دنیا نے مان لیا کہ یہ پاکستانی ہے، لیکن یہاں کانگریس پارٹی، پاکستان کا اتنا بڑا گناہ، اتنا بڑا پاکستانی دہشت گرد حملہ اور کیا کھیل کھیل رہے تھے؟ ووٹ بینک کی سیاست کے لیے کیا کر رہے تھے؟ کانگریس پارٹی اسے بھگوا دہشت گرد ثابت کرنے میں مصروف تھی۔ کانگریس ہندو دہشت گردی کا نظریہ دنیا کو بیچنے میں مصروف تھی۔ کانگریس کے ایک رہنما نے تو ایک بڑے امریکی سفارت کار سے کہا تھا کہ ہندوستان کے ہندو گروپ لشکر طیبہ سے بھی بڑا خطرہ ہیں۔ یہ کہا گیا۔ مطمئن کرنے کے لیے کانگریس نے ہندوستانی آئین، بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو جموں و کشمیر میں قدم جمانے نہیں دیا، داخل نہیں ہونے دیا، باہر رکھا۔ خوشامد اور ووٹ بینک کی سیاست کے لیے کانگریس نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کی قربانی دی۔

محترم اسپیکر!

یہ مطمئن کرنے کے لیے تھا کہ کانگریس نے دہشت گردی سے متعلق قوانین کو کمزور کیا۔ وزیر داخلہ نے آج ایوان میں یہ تفصیل سے کہا ہے اس لیے میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔

محترم اسپیکر!

میں نے اس سیشن کے آغاز میں ہی زور دیا تھا، میں نے کہا تھا کہ ہمیں اپنا ووٹ پارٹی کے مفاد میں ملے یا نہ ملے، ہمارا دل ضرور ملک کے مفاد میں ہونا چاہیے۔ پہلگام سانحہ نے ہمیں گہرے زخم دیے ہیں، اس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کے جواب میں ہم نے آپریشن سندور کیا، مسلح افواج کی بہادری اور ہماری خود انحصاری مہم نے ملک میں ایک سندور جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ ہم نے یہ سندور اس وقت بھی دیکھا جب ہمارے وفود ہندوستان کا نقطہ نظر بتانے کے لیے دنیا بھر میں گئے۔ میں ان تمام ساتھیوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ نے ہندوستان کے نقطہ نظر کو دنیا کے سامنے بہت موثر انداز میں پیش کیا ۔ لیکن مجھے دکھ ہے، حیرت بھی کہ جو لوگ خود کو کانگریس کے بڑے لیڈر مانتے ہیں، ان کے پیٹ میں درد ہے کہ ہندوستان کا نقطہ نظر دنیا کے سامنے کیوں پیش کیا گیا۔ شاید کچھ لیڈروں کو ایوان میں بولنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

محترم اسپیکر!

اس ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سطریں ذہن میں آتی ہیں، میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔

محترم اسپیکر!

کروچرچا اور اتنی کرو، کرو چرچا اور اتنی کرو

کہ دشمن  دہشت سے دہل اٹھے ، دشمن دہشت سے دہل اٹھے

رہے دھیان بس اتنا ہی، رہے دھیان بس اتنا ہی

مان سندور اور سینا کا پرشنوں میں بھی اٹل رہے

حملہ ماں بھارتی پر ہوا اگر، تو پرچنڈ پرہار کرنا ہوگا

دشمن جہاں بھی بیٹھا ہو ہمیں  بھارت کے لیے ہی جینا  ہوگا

میں کانگریس کے ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک خاندان کے دباؤ میں پاکستان کو کلین چٹ دینا بند کردیں۔ کانگریس ملک کی جیت کے لمحے کو ملک کی تضحیک کا لمحہ نہ بنائے۔ کانگریس اپنی غلطی کو سدھار لے۔ میں آج ایوان میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں، اب  ہندوستان  دہشت گردوں کو دہشت گردی کی نرسری میں ہی دفن کر دے گا۔ ہم پاکستان کو ہندوستان کے مستقبل سے کھیلنے نہیں دیں گے، اس لیے آپریشن سندور ختم نہیں ہوا، آپریشن سندور جاری ہے اور یہ پاکستان کے لیے بھی نوٹس ہے، جب تک وہ  ہندوستان کے خلاف دہشت گردی کا راستہ نہیں روکے گا،  ہندوستان  کارروائی کرتا رہے گا۔ ہندوستان کا مستقبل محفوظ اور خوشحال ہوگا، یہ ہمارا عزم ہے۔ اس احساس کے ساتھ، میں ایک بار پھر بامعنی بحث کے لیے تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور محترم اسپیکر، میں نے ہندوستان کا موقف پیش کیا، ہندوستانی عوام کے جذبات کا اظہار کیا، میں ایک بار پھر ایوان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

*******

ش ح- ظ ا-ع ن

UR No.3574


(Release ID: 2150076)