امور داخلہ کی وزارت
داخلی امور اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نےآج لوک سبھا میں ‘آپریشن سندور’ کے ذریعے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان کے مضبوط، کامیاب اور فیصلہ کن کارروائی سے متعلق خصوصی بحث میں حصہ لیا
Posted On:
29 JUL 2025 5:23PM by PIB Delhi
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ‘آپریشن سندور’ کے ذریعے دہشت گردی کے کیمپوں اور دہشت گردوں کے آقاؤں کا خاتمہ کیا اور ‘آپریشن مہادیو’ میں پہلگام حملے میں ملوث دہشت گردوں کا صفایا کیا
فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کے مشترکہ‘آپریشن مہادیو’ میں پہلگام حملے میں ملوث تینوں دہشت گرد - سلیمان عرف فیضل جاٹ، حمزہ افغانی اور زبران مارے گئے
دہشت گردوں کے مارے جانے کی خبر سن کر اپوزیشن میں بھی خوشی کی لہر دوڑ جانی چاہیے تھی لیکن ان کے چہرے پر اداسی چھا گئی
اپوزیشن کی حکومت کے اس وقت کے وزیر داخلہ ‘‘دہشت گرد پاکستان سے آئے’’اس کا ثبوت مانگ کر پاکستان کو کلین چٹ دینے کی کوشش کر رہے ہیں
پاکستان کو بچانے کی اپوزیشن کی سازش 1.4 ارب بھارتیوں پر آشکار ہو چکی ہے اور اب اپوزیشن جوابدہی سے بچ نہیں سکتا
مودی حکومت میں ہماری فوج نے اپوزیشن کے دور حکومت میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے قصورواروں کو بھی پاکستان میں گھس کر مارا
مودی حکومت میں دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں ڈوزیئر نہیں بھیجے جاتے، بلکہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو زمیں دوز کردیا جاتا ہے
آپریشن سندور نے پاکستان کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اور ہماری فوج نے پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کو خاک میں ملا دیا
اگر آج کشمیر کا کوئی حصہ پاکستان کے ناجائز قبضے میں ہے تو اس کے ذمہ دار واحد شخص پنڈت جواہر لال نہرو ہیں
پی او کے کا وجود جواہر لعل نہرو کی غلطی کی وجہ سے ہے
1971 کی جنگ میں، فوج نے پاکستان کو شکست دی، لیکن اس وقت کی اپوزیشن حکومت نے 15000 کلومیٹر کی جیتی ہوئی زمین بھی واپس کر دی اور پی او کےبھی نہیں لے پائی
تمام دہشت گردی کی جڑ پاکستان ہے جو اپوزیشن کی ایک بھول ہے، اگر ملک تقسیم نہ ہوتا تو آج پاکستان نہ ہوتا
آج چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے جبکہ ہندوستان نہیں ہے اور اس کے ذمہ دار اکیلے جواہر لال نہرو ہیں
جب ہندوستانی فوج ڈوکلام میں چین کے ساتھ لڑ رہی تھی تو اپوزیشن لیڈر چینی حکام سے ملاقات کر رہے تھے
2004 میں اپوزیشن پارٹی کی حکومت نے پوٹا قانون کو منسوخ کر کے دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی جنگ کو کمزور کر دیا
مودی حکومت میں کشمیر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ ملک کے باقی حصوں میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا
کل تک اپوزیشن کہہ رہا تھا کہ بیسرن کے دہشت گرد پاکستان بھاگ گئے، لیکن ہم نے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا
داؤد ابراہیم، سید صلاح الدین، ٹائیگر میمن، انیس ابراہیم، ریاض بھٹکل، اقبال بھٹکل، مرزا سعدبیگ... یہ تمام دہشت گرد اپوزیشن پارٹی کے دور حکومت میں ملک سے فرار ہو گئے تھے
2004 سے 2014 کے 10 برسوں میں 7,217 دہشت گردی کے واقعات ہوئے جبکہ مودی حکومت میں ان میں 70 فیصد کمی آئی
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں دہشت گردی کا نظام تباہ ہو چکا ہے
پہلے دہشت گردوں کے جنازے میں ہجوم اکھٹا ہوا کرتا تھا، آج دہشت گرد جہاں مارے جاتے ہیں وہاں دفن کر دیا جاتا ہے
اپوزیشن حکومت کے دور میں ایک سال میں پتھراؤ کے 2654 واقعات ہوئے، مودی حکومت کے دور میں پتھر بازی کے واقعات کی تعداد صفر ہوگئی
اپوزیشن کی حکومت کے دور میں وادی ایک سال میں 132 دن تک پاک اسپانسرڈ مظاہروں کی وجہ سے بند رہتی تھی۔ مودی حکومت کے دور میں پچھلے تین سالوں میں وادی میں ایک بھی مظاہرہ نہیں ہوئی
2019 کے بعد مودی سرکار نے کشمیر میں دہشت گردوں کی پرورش کرنے والی درجنوں تنظیموں پر پابندی لگا دی
ہماری سرحد پر جو بھی دراندازی کرے گا اسے مار دیا جائے گا، ہم دہشت گردی کا خاتمہ کر کے رہیں گے
پوٹا کو منسوخ کرنے اور دہشت گردوں کا دفاع کرکے ووٹ بینک کی سیاست کرنے والوں کو مودی جی کی دہشت گردی مخالف پالیسی پسند نہیں ہے
پہلگام کے بعد بہار میں مودی جی کی تقریر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 140 کروڑ عوام کا بدلہ ہے، جو اپوزیشن کو نظر نہیں آتا... جس کا جیسا چشمہ ہوتا ہے، اس کی ویسی ہی نظر ہوتی ہے
اپوزیشن حکومت کے برعکس مودی حکومت دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کو وکٹم کا سرٹیفکیٹ نہیں دیتی
داخلی امور اور امداد باہمی کے مرکزی وزیرجناب امت شاہ نےپہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں ہندوستان کے مضبوط، کامیاب اور فیصلہ کن ‘آپریشن سندور’ پر آج لوک سبھا میں ایک خصوصی بحث میں حصہ لیا۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے، مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے پہلگام میں مذہب کی بنیاد پر معصوم شہریوں کے قتل کی سخت مذمت کی اور ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے آپریشن سندور کے جواب میں ہندوستانی شہری اہداف پر پاکستان کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہونے والے ہندوستانی شہریوں سے بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کل کشمیر کے داچیگام میں ہندوستانی فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کے مشترکہ آپریشن مہادیو میں تین دہشت گردوں - سلیمان، حمزہ افغانی (افغان) اور زبران کے خاتمے کے بارے میں ایوان کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سلیمان لشکر طیبہ کا ‘اے’ زمرہ کا کمانڈر تھا جو پہلگام اور گگن گیر میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث تھا۔ افغان اور زبران بھی لشکر طیبہ کے‘اے’ کیٹیگری کے دہشت گرد تھے جنہوں نے وادی بیسرن میں ہمارے معصوم شہریوں کو قتل کیا، ان تینوں دہشت گردوں کو کل ختم کر دیا گیا۔ وزیر داخلہ نے اس کامیابی پر ایوان اور پوری قوم کی طرف سے فوج کے 4 پیرا، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کے جوانوں کو مبارکباد دی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آپریشن مہادیو 22 مئی 2025 کو شروع کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پہلگام حملہ 22 اپریل 2025 کو دوپہر 1 بجے ہوا تھا اور میں خود شام 5:30 بجے سری نگر چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 23 اپریل کو ایک سیکورٹی میٹنگ ہوئی تھی، جس میں تمام سیکورٹی فورسز، آرمی، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس نے شرکت کی تھی اور اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ملوث دہشت گرد ملک چھوڑ کر پاکستان فرار نہ ہوں اور ہم نے اس کے لیے سخت انتظامات کیے تھے اور انہیں ملک سے فرار ہونے نہیں دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 22 مئی 2025 کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو انسانی انٹیلی جنس کے ذریعے دچی گام کے علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملی۔ انہوں نے کہا کہ آئی بی اور فوج کی طرف سے 22 مئی سے 22 جولائی تک مسلسل کوششیں کی گئیں تاکہ ہماری ایجنسیوں کی طرف سے دچی گام میں الٹرا سگنلز حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے آلات کے ذریعے موصول ہونے والی معلومات کی تصدیق کی جا سکے۔ آئی بی، آرمی اور سی آر پی ایف کے ہمارے افسران اور جوان ان کی حرکت پر نظر رکھنےکے لیے سردی اور اونچائی میں پیدل چلتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ 22 جولائی کو ہمیں سینسرز کے ذریعے کامیابی ملی اور دہشت گردوں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ تب سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کے جوانوں نے 4 پیرا کی قیادت میں مل کر دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا اور کل کی کارروائی میں ہمارے بے گناہ شہریوں کو مارنے والے تینوں دہشت گرد ہلاک کر دیئے گئے۔
جناب امت شاہ نے ایوان کو بتایا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) پہلے ہی ان لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے جنہوں نے ان تینوں دہشت گردوں کو پناہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب ان تینوں دہشت گردوں کی لاشیں سری نگر پہنچیں تو چار لوگوں نے ان کی شناخت کی اور کہا کہ ان تینوں دہشت گردوں نے پہلگام میں دہشت گردی کی واردات کو انجام دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پہلگام دہشت گردانہ حملے کے مقام سے ملنے والے کارتوسوں کی ایف ایس ایل رپورٹ کی بنیاد پر ان تینوں دہشت گردوں سے دچیگام میں برآمد کی گئی تین رائفلوں سے ملاپ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان تینوں رائفلوں کو کل رات ایک خصوصی طیارے کے ذریعے چندی گڑھ پہنچایا گیا اور ان کے خالی خول جنریٹ کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پہلگام حملے میں ملنے والے گولے رائفلوں کے بیرل اور فائرنگ کے بعد نکلنے والے گولوں سے میچ کیے گئے اور پھر اس بات کی تصدیق ہوئی کہ پہلگام میں ان تینوں رائفلوں سے ہمارے بے گناہ شہری مارے گئے۔
داخلی امور اور امداد باہمی کےمرکزی وزیر نے کہا کہ آپریشن سندور کے ذریعے وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی نے پہلگام حملے میں ملوث دہشت گردوں کے آقاؤں کا خاتمہ کرنے کا کام کیا اور کل ہماری فوج اور سی آر پی ایف نے بھی ان تین دہشت گردوں کو مار گرایا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن مہادیو ہمارے ملک کی فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس کی ایک بہت بڑی مشترکہ کامیابی ہے، جس پر ملک کے 140 کروڑ عوام کو فخر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردانہ حملے کے بعد وہ خود پہلگام گئے اور وہاں مرنے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی جی نے آپریشن سندور کے ذریعے دہشت گردوں کو بھیجنے والوں کو مارا اور ہماری سیکورٹی فورسز نے ان دہشت گردوں کو ہلاک کیا جو اس میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سندور کے ذریعے دہشت گردوں اور ان کے آقائوں کو ایسا سبق سکھایا گیا ہے کہ آنے والے طویل عرصے تک کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ جس دن لشکر اور اس کی تنظیم ٹی آر ایف نے پہلگام حملے کی ذمہ داری لی، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اس حملے کی تحقیقات این آئی اے کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے کو دہشت گردی کے معاملات کی سائنسی طور پر تحقیقات کرنے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایجنسی کے طور پر مہارت حاصل ہے اور این آئی اے کا سزا کرانے کی شرح 96 فیصد سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کی تحقیقات فوری طور پر این آئی اے کو سونپ دی گئی اور فوج، بی ایس ایف، سی آر پی ایف اور جموں کشمیر پولیس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مکمل انتظامات کیے کہ یہ دہشت گرد ملک چھوڑ کر پاکستان فرار نہ ہو سکیں۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ حملے کی تحقیقات کے آغاز میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے بات چیت کی گئی، سیاحوں، خچر مالکان، ٹٹو مالکان، فوٹوگرافروں، ملازمین اور دکانوں کے ملازمین سمیت کل 1055 افراد سے 3000 گھنٹے سے زائد پوچھ گچھ کی گئی اور یہ سب کچھ ویڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔ جناب شاہ نے بتایا کہ پوچھ گچھ سے ملی معلومات کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خاکے بنائے گئے اور 22 جون 2025 کو بشیر اور پرویز کی شناخت کی گئی جنہوں نے پہلگام حملے کے اگلے دن دہشت گردوں کو پناہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بشیر اور پرویز کو گرفتار کیا گیا اور انہوں نے انکشاف کیا کہ 21 اپریل 2025 کی رات 8 بجے تین دہشت گرد ان کے پاس آئے اور ان کے پاس اے کے 47 اور ایم 9 کاربائن تھی۔ جناب شاہ نے ایوان کو بتایا کہ بشیر اور پرویز کی والدہ نے بھی مارے گئے تینوں دہشت گردوں کی شناخت کر لی ہے اور اب ایف ایس ایل نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تینوں دہشت گرد تھے جو پہلگام حملے میں ملوث تھے اور ان سے برآمد کی گئی 2 اے کے 47 اور ایک ایم 9 کاربائن اس حملے میں استعمال کی گئی تھی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ کل ملک کے سابق وزیر داخلہ نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ یہ تینوں پاکستانی تھے کیونکہ تین میں سے دو دہشت گردوں کے پاکستانی ووٹر نمبر دستیاب ہیں، رائفلیں بھی موجود ہیں، ان کے پاس سے ملنے والی چاکلیٹس بھی پاکستان میں بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سابق وزیر داخلہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان کو کلین چٹ دے رہے ہیں اور ایسا کر کے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان پر حملہ کیوں کیا؟ جناب شاہ نے کہا کہ پوری دنیا، جہاں کہیں بھی ہمارے ممبران پارلیمنٹ گئے، سب نے قبول کیا ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملہ پاکستان نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سابق وزیر داخلہ اس کا ثبوت مانگتے ہیں لیکن آج ملک کے 140 کروڑ عوام کو ان کی پاکستان کے دفاع کی سازش کا پتہ چل گیا ہے۔
جناب امت شاہ نے لوک سبھا کو بتایا کہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس میں 26 لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود حملے کے بعد سری نگر روانہ ہوئے اور رات کو سیکورٹی فورسز اور تمام ایجنسیوں کے ساتھ میٹنگ کرکے ہدایات دیں کہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو ملک سے فرار نہ ہونے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے 23 اپریل اور 30 اپریل کو کابینہ کمیٹی برائے سیکورٹی (سی سی ایس) کے اجلاس کی صدارت کی۔ اس کے بعد اٹاری کے راستے چلنے والی مربوط چیک پوسٹ کو بند کر دیا گیا، تمام پاکستانی شہریوں کے سارک ویزے معطل کر کے انہیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا اور پاکستانی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے دفاعی، فوجی اور بحری مشیروں کو نان گریٹہ قرار دے کر ان کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سی سی ایس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جہاں بھی یہ دہشت گرد چھپے ہیں، انہیں اور ان کو ٹریننگ دینے والوں کو فوج، جموں و کشمیر پولیس، سی آر پی ایف، اور بی ایس ایف کے ذریعے منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہماری فوج کی طرف سے کی گئی جوابی کارروائی سے بڑھ کر کوئی اور کارروائی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فوج نے دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں کو تباہ کیا اور ہندوستان کی کارروائیوں میں ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ ‘‘سرجیکل اسٹرائیک’’ اور ‘‘ایئر اسٹرائیک’’ دونوں میں، حملے صرف پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں کیے گئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) ہمارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار آپریشن سندور کے تحت ہم نے پاکستان کے اندر 100 کلومیٹر کا فاصلہ عبور کیا اور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی افواج کی طرف سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کئے گئے حملوں میں متعدد مطلوب اور خطرناک دہشت گرد مارے گئے۔ جناب شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کی حکومت کے دور میں ہندوستانی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد بہت سے دہشت گرد روپوش ہوگئے تھے اور اب ہماری فوج نے ایک ایک کرکے انہیں ختم کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن سندور کے تحت کم از کم 125 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ 7 مئی کو رات ایک بج کر 22 منٹ پر ہمارے ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز) نے پاکستان کے ڈی جی ایم او کو مطلع کیا کہ ہم نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا ہے، جو کہ ہمارے اپنے دفاع کے حق کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں نریندر مودی کی حکومت ہے، اور اب یہ ممکن نہیں کہ وہ ہم پر حملہ کرنے آئیں اور ہم خاموش بیٹھ کر بحث کریں۔ جناب شاہ نے کہا کہ اڑی دہشت گردانہ حملے کے بعد ہم نے سرجیکل اسٹرائیکس کیں۔ پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد، ہم نے فضائی حملے کیے؛ اور اب، پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد، ہم نے پاکستان کی سرحد کے اندر 100 کلومیٹر کا فاصلہ عبور کیا ہے اور دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں اور 100 سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں قائم دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، جسے پاکستان نے اپنے اوپر حملے کے طور پر لیا اور پوری دنیا کو بتانا شروع کر دیا کہ پاکستان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پاک فوج کے اعلیٰ افسران نے دہشت گردوں کے جنازوں میں شرکت کی تو پاکستان پوری دنیا کے سامنے ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے مرکز کے طور پر بے نقاب ہوا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 8 مئی کو، پاکستان نے ہمارے رہائشی علاقوں اور فوجی اداروں پر حملہ کیا، ایک گرودوارہ کو نقصان پہنچایا، ایک مندر کو توڑا، اور ہمارے شہریوں کو جانی نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے جواب میں اگلے روز بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے 11 ایئربیسز کو نقصان پہنچا کر بھرپور جواب دیا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان نے ہمارے رہائشی علاقوں پر حملہ کیا، لیکن اس کے باوجود، ہم نے کبھی پاکستان میں رہائشی علاقوں پر حملہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے صرف پاکستان کے فضائی اڈوں اور فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا جس سے ان کی حملے کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد پاکستان کے پاس پناہ لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا اور یہی وجہ ہے کہ 10 مئی کو پاکستان کے ڈی جی ایم او نے بھارت کے ڈی جی ایم او کو فون کیا اور 5 بجے ہم نے تنازعہ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ جناب شاہ نے کہا کہ اپوزیشن سوال کر رہا ہے کہ اگر ہم اتنی مضبوط پوزیشن میں تھے تو ہم نے جنگ کیوں جاری نہیں رکھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ جنگ کے بہت سے نتائج ہوتے ہیں، اور فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1948 میں ہماری افواج کشمیر میں فیصلہ کن مرحلے میں تھیں لیکن سردار پٹیل کے اعتراضات کے باوجود جواہر لعل نہرو نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج پی او کے (پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر) موجود ہے تو یہ صرف اور صرف نہرو کی جنگ بندی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح 1960 میں ہم سندھ کے پانیوں پر جغرافیائی اور تزویراتی طور پر بہت مضبوط تھے لیکن اس وقت بھی سردار پٹیل کی مخالفت کے باوجود نہرو نے انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط کیے اور بھارت کا 80 فیصد پانی پاکستان کو دے دیا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہم نے 1965 کی جنگ میں حاجی پیر جیسےا سٹریٹجک مقامات پر قبضہ کیا تھا لیکن 1966 میں پاکستان کو واپس کر دیا۔انہوں نے کہا کہ 1971 کی جنگ میں ہمارے پاس 93,000 پاکستانی جنگی قیدی تھے اور 15,000 مربع کلومیٹر پاکستانی علاقہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اس وقت کی حکومت نے شملہ معاہدہ کیا اور ہم پاکستانی مقبوضہ کشمیر لینا ہی بھول گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس وقت 'پاکستان مقبوضہ کشمیر' لے لیتے تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ جناب شاہ نے کہا کہ صرف یہی نہیں، ہم نے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر تو لیا ہی نہیں، بلکہ 15000 مربع کلومیٹر زمین بھی واپس کر دی جو ہمارے کنٹرول میں آئی تھی۔
جناب امت شاہ نے اپوزیشن سے سوال کیا کہ 1962 کی جنگ میں کیا ہوا تھا اور اکسائی چن کا 38000 مربع کلومیٹر چین کو کیوں دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم جناب جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ وہاں گھاس کا ایک ٹکڑا بھی نہیں اگتا، تو اس جگہ کا کیا فائدہ۔ جناب شاہ نے یہ بھی کہا کہ نہرو جی نے آسام کو آکاشوانی پر تقریباً الوداع کہہ دیا تھا۔
مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے‘‘سلیکٹیڈ ورکس آف جواہر لال نہرو’’ یعنی جواہر لال نہرو کے منتخب کام سیریز کے جلد 29 کے صفحہ 231 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے چین کو اقوام متحدہ میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی لیکن اسے سلامتی کونسل میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم، نہرو جی نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کیونکہ اس سے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوں گے اور چین جیسے عظیم ملک کو برا لگے گا۔ جناب شاہ نے کہا کہ آج چین سلامتی کونسل کا رکن ہے، جب کہ ہندوستان نہیں ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن نے چین کے ساتھ ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے تھے لیکن ایم او یو کی تفصیلات کبھی ظاہر نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت ہماری فوج کے اہلکار ڈوکلام میں چینی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کر رہے تھے، اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی چینی حکام سے ملاقات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قسم کی دہشت گردی کی جڑ پاکستان ہے اور پاکستان اپوزیشن پارٹی کی ‘‘سنگین غلطی’’ کی وجہ سے ہے۔ اگر اپوزیشن جماعت ملک کی تقسیم کو تسلیم نہ کرتی تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔ اپوزیشن جماعت نے اپنے دور حکومت میں تقسیم کو قبول کرکے ملک کو توڑا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ 2002 میں اس وقت کے وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پوٹا قانون لایا تھا، جس کی اپوزیشن پارٹی نے مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اٹل جی کی حکومت کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ قانون پاس نہیں ہو سکا۔ بعد ازاں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور اس کے بعد ہی پوٹا قانون پاس ہوسکا۔ ملک اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ جناب شاہ نے سوال کیا کہ پوٹا قانون کو روک کر اپوزیشن پارٹی کس کو بچانا چاہتی ہے؟ پوٹا دہشت گردوں کے خلاف تھا لیکن اپوزیشن ووٹ بینک کی سیاست کے لیے پوٹا کو روک کر دہشت گردوں کو بچانا چاہتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2004 میں اپوزیشن پارٹی کی حکومت آئی اور اس نے پوٹا قانون کو منسوخ کر دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اپوزیشن پارٹی نے کس کے فائدے کے لیے پوٹا قانون کو منسوخ کیا؟ پوٹا قانون دسمبر 2004 میں منسوخ کر دیا گیا تھا اور 2005 میں ایودھیا میں رام للا کے ٹینٹ پر حملہ کیا گیا تھا اور دہشت گرد مارے گئے تھے۔ 2006 میں ممبئی کی لوکل ٹرین میں ہونے والے بم دھماکے میں 187 لوگ مارے گئے تھے، 2006 میں ہی ڈوڈا-اودھم پور میں ہندوؤں پر حملہ ہوا تھا، جس میں 34 لوگ مارے گئے تھے۔ سال 2007 میں حیدرآباد میں ہونے والے دھماکے میں 44 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2007 میں لکھنؤ اور وارانسی میں 13 لوگ مارے گئے تھے۔ سال 2008 میں رام پور میں سی آر پی ایف کیمپ پر حملہ ہوا تھا، 2008 میں ہی سری نگر میں فوج کے قافلے پر حملہ ہوا تھا اور 10 سیکورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ سال 2008 میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس میں 246 لوگ مارے گئے تھے۔ جے پور میں آٹھ بم دھماکے ہوئے، جن میں 64 افراد ہلاک ہوئے۔ سال 2008 میں احمد آباد میں 21 بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 57 افراد مارے گئے تھے۔ 2008 میں دہلی میں 5 دھماکے ہوئے تھے جن میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پنے کی جرمن بیکری میں 17 افراد مارے گئے۔ سال 2010 میں وارانسی میں دھماکے ہوئے، 2011 میں ممبئی میں 3 دھماکے ہوئے، جن میں 27 افراد ہلاک ہوئے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ 2005 سے 2011 تک اپوزیشن پارٹی کے دور میں دہشت گردوں نے 27 گھناؤنے حملے کیے جن میں تقریباً 1000 لوگ مارے گئے، لیکن اس وقت کی حکومت نے کیا کیا؟ انہوں نے قائد حزب اختلاف کو چیلنج کیا کہ وہ ایوان میں کھڑے ہو کر ملک کو بتائیں کہ اس وقت کی حکومت نے ان دہشت گردانہ حملوں کے خلاف کیا اقدامات کئے۔ وہ صرف پاکستان کو دہشت گردوں کی تصاویر اور ڈوزیئر بھیجتے رہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمارے دور میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں ان کی سرپرستی پاکستان نے کی اور بنیادی طور پر کشمیر پر مرکوز تھے۔ 2014 سے 2025 تک ملک کے کسی اور حصے میں شاید ہی کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ نریندر مودی کی حکومت ہے جس کی وجہ سے کشمیر میں نوجوان اب دہشت گردی کی طرف نہیں جا رہے ہیں،اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ انہیں پاکستان سے دہشت گرد بھیجنا پڑ رہے ہیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ جب داؤد ابراہیم کاسکر 1986 میں ملک سے فرار ہوا تھا، اس وقت اپوزیشن پارٹی اقتدار میں تھی۔ 1993 میں جب سید صلاح الدین فرار ہو ا، تو اپوزیشن جماعت اقتدار میں تھی۔ 1993 میں جب ٹائیگر میمن فرار ہو ا، تواپوزیشن جماعت اقتدار میں تھی۔ 1993 میں جب انیس ابراہیم کاسکر فرار ہو ا، تو اس وقت بھی اپوزیشن کی حکومت تھی۔ 2007 میں جب ریاض بھٹکل فرار ہو ا، تو اس وقت بھی اپوزیشن پارٹی اقتدار میں تھی۔ 2010 میں جب اقبال بھٹکل فرار ہو ا، تو اس وقت بھی اپوزیشن پارٹی اقتدار میں تھی۔ جناب شاہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو اس مسئلہ پر جواب دینا چاہئے۔
مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ مودی حکومت عوام، پارلیمنٹ اور قومی مفاد کے سامنے جوابدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں 2004 سے 2014 کے درمیان دہشت گردی کے 7,217 واقعات ہوئے جبکہ 2015 سے 2025 کے درمیان دہشت گردی کے 2,150 واقعات ہوئے جو کہ دہشت گردی کے واقعات میں 70 فیصد کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2004 سے 2014 کے درمیان 1770 شہری ہلاک ہوئے جب کہ 2015 سے 2025 کے درمیان یہ تعداد 357 تھی جو کہ 80 فیصد کمی ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2004 اور 2014 کے درمیان 1,060 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 2015 سے 2025 کے درمیان 542 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے دوران دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں 123 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے کشمیر میں دہشت گردی کے ماحولیاتی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370 کو حزب اختلاف کی حکومتوں نے طویل عرصے تک تحفظ فراہم کیا جس نے دہشت گردوں کے ایکو نظام کو پناہ دی۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہماری حکومت نے دہشت گردی کو بالکل بھی برداشت نہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے،ایریا ڈومینیشن کا منصوبہ بنایا ہے، کثیر سطحی تعیناتی کی ہے، سیکورٹی جیلیں بنائی ہیں، 98 فیصد ٹرائل اب ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ ہم نے مواصلات کے ذرائع بنائے ہیں اور 702 فون بیچنے والوں کو جیل بھیج دیا ہے اور 2666 سم کارڈ بلاک کر دیے ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ اب جہاں بھی کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے، اسے وہیں دفن کر دیا جاتاہے۔ نریندر مودی کے دور حکومت میں کسی بھی دہشت گرد کی پذیرائی کے لیے جنازہ نکالنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے چن چن کر دہشت گردوں کے رشتہ داروں اور معاونین کو جیلوں میں ڈالا ہے اور ان کے پاسپورٹ منسوخ کیے ہیں، ساتھ ہی ان کو دیے گئے سرکاری ٹھیکے بھی منسوخ کیے ہیں۔ عدالت سے احکامات حاصل کر کے 75 سے زائد دہشت گردوں کے حامیوں کو سرکاری ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا۔ جناب شاہ نے کہا کہ بار کونسل دہشت گردوں کے حامیوں سے بھری پڑی تھی، ہم نے اسے معطل کر کے نئے پاپولر الیکشن کرائے اور کئی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ خصوصی یو اے پی اے عدالت تشکیل دے کر، ہم نے مارچ 2022 سے 2025 کے درمیان یو اے پی اے کے تقریباً 2,260 مقدمات درج کئے۔ 374 قرقی بھی کی گئی۔ پہلے منظم طریقے سے پتھراؤ کیا جاتا تھا، اب ان کی تعداد صفر ہوگئی ہے۔ پہلے پاکستان سے مظاہروں کا اعلان کیا جاتا تھا اور وادی کشمیر کو بند کیا جاتا تھا، لیکن اب پاکستان اور وادی میں کوئی بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔ اپوزیشن پارٹی کے دور حکومت میں وادی سال میں 132 دن بند رہتی تھی لیکن گزشتہ تین سالوں سے مظاہروں کی تعداد صفر پر آ گئی ہے۔ پہلے پتھر بازی میں ہر سال 100 سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے تھے، اب عام شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد صفر پر آ گئی ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ایک وقت تھا جب حریت لیڈران کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملتی تھی، حریت کے ساتھ بات چیت ہوتی تھی، جب حریت لوگ آتے تھے تو سرخ قالین بچھا دیتے تھے۔ لیکن ہم نے حریت کے تمام کمپونینٹ پر پابندی لگا دی ہے اور ان کے تمام رہنما سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہم حریت سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایوان میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی اس پالیسی کو دہرانا چاہتے ہیں کہ حریت دہشت گرد تنظیموں کی تنظیم ہے اور ہم ان سے بات نہیں کریں گے، ہم وادی کے نوجوانوں سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کشمیر میں انتخابات کے دوران خوف کا ماحول ہوا کرتا تھا، اب پنچایتی انتخابات میں 98.3 فیصد ووٹنگ ہوئی ہے۔ سال 2019 کے بعد ہماری حکومت نے ٹی آر ایف، پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ، تحریک المجاہدین، جماعت المجاہدین، بنگلہ دیش-ہندوستان جموں-کشمیر غزنوی فورس، خالصتان ٹائیگر فورس، حزب التحریر سمیت کئی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگا دی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمارے سپاہی مائنس 43 ڈگری درجہ حرارت میں پہاڑوں اور ندیوں کے قریب رہ کر ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر کوئی داخل ہوا تو وہ بچ نہیں پائے گا، یا تو ہم اسے گرفتار کر لیں گے یا پھر اسے مار دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پوٹا کی مخالفت کرنے والوں کو نریندر مودی کی دہشت گردی مخالف پالیسی پسند نہیں آئے گی، دہشت گردوں کو تحفظ دے کر ووٹ بینک بنانے والوں کو یہ پالیسی پسند نہیں آئے گی۔ یہ نریندر مودی کی حکومت ہے، ہماری دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔
***
ش ح۔ ک ا۔ ا ک ا
U.NO.3521
(Release ID: 2149904)
Read this release in:
Odia
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Nepali
,
Bengali
,
Bengali-TR
,
Manipuri
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Tamil
,
Kannada
,
Malayalam