وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

مرکزی بجٹ 2025-26 کا خلاصہ

Posted On: 01 FEB 2025 1:31PM by PIB Delhi

اوسط ماہانہ ایک لاکھ روپے تک کی ماہانہ آمدنی پر کوئی آمدنی ٹیکس نہیں؛ اس سے متوسط طبقے کے کنبوں کی بچت اور کھپت کو تقویت حاصل ہوگی

 

تنخواہ دار ملازمین کا طبقہ 12.75 لاکھ سالانہ آمدنی پر نئے ٹیکس نظام کے تحت کوئی آمدنی ٹیکس نہیں ادا کرے گا

 

مرکزی بجٹ میں ترقی کے چار ذرائع- زراعت، ایم ایس ایم ای، سرمایہ کاری اور برآمدات کو تسلیم کیا گیا ہے

 

1.7 کروڑ کاشتکاروں کو نفع پہنچاتے ہوئے، پی ایم دھن –دھانیہ کرشی یوجنا 100 نسبتاً کم زرعی پیداواریت والے اضلاع پر احاطہ کرے گی

 

دالوں میں آتم نربھرتا کے لیے مشن کے تحت تور، اُرد اور مسور کی دالوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ نافذ کیا جائے گا

 

ترمیم شدہ سود کی رعایت کی اسکیم کے تحت کے سی سی کے ذریعہ حاصل کیے گئے 5 لاکھ روپے تک کے قرض حاصل کیے جا سکیں گے

 

2025 کے مالی سال کا تخمینہ اس طرح لگایا گیا ہے کہ یہ 4.8 فیصد کے مالی خسارے کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا،  اسے 2026 کے مالی سال میں گھٹا کر 4.4 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے

 

ایم ایس ایم ای اداروں کے لیے گارنٹی احاطے کے ساتھ قرض میں 5 کروڑ سے بڑھا کر اس کی حد کو 10 کروڑ روپے کے بقدر کر دیا گیا ہے

 

ایک قومی مینوفیکچرنگ مشن جو چھوٹے، اوسط اور بڑی صنعتوں پر احاطہ کرے گا تاکہ میک ان انڈیا کو پروان چڑھایا جا سکے

 

آئندہ پانچ برسوں میں سرکاری اسکولوں میں 50000 کے بقدر اٹل اختراعی تجربہ گاہیں کھولی جائیں گی

 

500 کروڑ روپے کے مجموعی تخمینہ جاتی اخراجات کے ساتھ تعلیم کے لیے مصنوعی انٹیلی جینس کے شعبے میں عمدگی کے مراکز

 

بینکوں اور یو پی آئی سے مربوط کریڈٹ کارڈوں سے حاصل ہونے والے پی ایم سواندھی قرضوں میں حدود بڑھا کر 30000 روپے کر دی گئی ہے

 

عارضی کارکنان کو شناختی کارڈس حاصل ہوں گے، ای شرم پورٹل اور پی ایم جن آروگیہ یوجنا کے تحت حفظانِ صحت کے لیے رجسٹریشن کیا جائے گا

 

شہروں کو نمو کے مرکز بنانے کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کا شہری چنوتی فنڈ

 

20000 کروڑ روپے کے تخمینہ اخراجات کے ساتھ چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹروں کے سلسلے میں تحقیق و ترقیات کے لیے  نیوکلیائی توانائی مشن

 

120 نئی منزلوں تک علاقائی کنکٹیویٹی میں اضافے کے لیے ترمیم شدہ اڑان اسکیم

 

مزید ایک لاکھ التوا میں پڑی ہوئی رہائشی اکائیوں کے لیے انہیں تیزی سے مکمل کرنے کے لیے 15000 کروڑ روپے کا سوامتو  فنڈ

 

نجی شعبے کے تابع تحقیقی ترقیات اور اختراعی پہل قدمیوں کے لیے 20000 کروڑ روپے مختص کیے گئے

 

مخطوطات کے سروے اور تحفظ کے لیے گیان بھارت مشن  ایک کروڑ سے زائد مخطوطات پر احاطہ کرے گا

 

بیمے کے لیے ایف ڈی آئی کی حدود 74 سے بڑھا کر 100 فیصد کی گئی

 

مختلف النوع قوانین میں موجود 100 سے زائد تجاویز کو جرائم کے زمرے سے مبرا بنانے کے لیے جن وشواس بل 2.0  متعارف کرایا جائے گا

 

تاحال بنایا گیا انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی مدت دو سال سے بڑھا کر 4 برس کی گئی

 

ٹی سی ایس ادائیگی میں ہونے والی تاخیر کو جرائم کی فہرست سے خارج کیا گیا

 

کرائے پر ٹی ڈی ایس 2.4 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کے بقدر کیا گیا

 

سرطان، شاذو نادر لاحق ہونے والی اور دائمی امراض  اور زندگی بچانے والی 36 ادویہ پر بی سی ڈی کی رعایت

 

آئی ایف پی ڈی پر عائد بی سی ڈی بڑھا کر 20 فیصد کی گئی اور اوپن سیلوں پر گھٹاکر پانچ فیصد کے بقدر کی گئی

 

اوپن سیلوں کے حصوں پر عائد بی سی ڈی کو استثنائی دی گئی ہے تاکہ گھریلو مینوفیکچرنگ کو فروغ حاصل ہوسکے

 

بیٹری پیداوار کو فروغ دینے کے لیے برقی موٹر گاڑی اور موبائل بیٹری مینوفیکچرنگ کے عمل کو استثنائی فراہم کی گئی ہے ، ساتھ ہی ان کے لیے اضافی سرمایہ سازو سامان بھی فراہم کرائے گئے ہیں

 

بحری جہاز سازی میں استعمال ہونے والے خام سازو سامان اور پرزوں پر دس برسوں کے لیے بی سی ڈی کی استثنائی

 

یخ بستہ مچھلی کے پیسٹ پر بی سی ڈی 30 فیصد سے گھٹاکر 5 فیصد اور فش آبی تجزیے پر 15 فیصد سے گھٹاکر 5 فیصد کی گئی ہے

 

خزانہ اور کمپنی امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں 2025-26 کا مرکزی بجٹ پیش کیا۔ ان کی بجٹ تقریر کا خلاصہ یہاں ملاحظہ کریں؛

حصہ ’اے‘

 

تیلگو شاعر اور ڈرامہ نگار جناب گرجادا اپا راؤ کے معروف مقولے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ’ایک ملک محض اس کی سرزمین نہیں ہوتا بلکہ ملک اس کے عوام  کا نام ہوتا ہے‘۔ وزیر خزانہ نے 2025-26 کا مرکزی بجٹ سب کا وکاس کے موضوع کے ساتھ پیش کیا اس میں تمام خطوں کی متوازن نمو کو محرک کی حیثیت حاصل ہے۔

اسی موضوع سے ہم آہنگ رہتے ہوئے وزیر خزانہ نے درج ذیل امور پر احاطہ کرنے کی غرض سے وکست بھارت کے وسیع تر اصولوں کا خاکہ پیش کیا:

اے) صفر ناداری؛

بی ) صد فیصد عمدگی کی حامل اسکولی تعلیم

سی) اعلیٰ عمدگی، قابل استطاعت اور جامع حفظانِ صحت تک رسائی

ڈی) بامعنی روزگار کے ساتھ صد فیصد ہنرمند مزدور

ای) اقتصادی سرگرمیوں میں 70 فیصد کے بقدر خواتین؛ اور

ایف) کاشتکار ہمارے ملک کو دنیا کی خوراک باسکٹ بنا رہے ہیں

2025-26 کے مرکزی بجٹ میں نمو کو مہمیز کرنے کے سلسلے میں حکومت کی کوششوں کے جاری رہنے، مبنی بر شمولیت ترقی کے حصول، نجی شعبے کی سرمایہ کاریوں کو تقویت بہم پہنچانے، گھریلو جوش و جذبے کو فروغ دینے، اور بھارت کے فزوں تر ہوتے ہوئے متوسط طبقے کی قوت صرفہ کو بڑھانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں ایسے ترقیاتی اقدامات کی تجویز رکھی گئی ہے جن کی توجہ نادار (غریب) نوجوان، کاشتکار (اَن داتا)، اور خواتین (ناری) پر مرکوز ہوگی۔

بجٹ کا مقصد ٹیکسیشن، بجلی کے شعبے، شہری ترقیات، کانکنی، مالی شعبے اور بھارت کے نمو کے مضمرات اور عالمی مسابقت کو منظم کرنے کے لیے ضابطہ جاتی اصلاحات کے سلسلے میں تغیراتی اصلاحات کا آغاز کرنا ہے۔

مرکزی بجٹ میں اس بات کو نمایاں کرکے پیش کیا گیا ہے کہ زراعت، ایم ایس ایم ای، سرمایہ کاری اور برآمدات وکست بھارت کے سفر کے ذرائع ہیں جس کے تحت اصلاحات کا استعمال ایندھن کے طور پر کیا جائے گا اور اس کی رہنمائی شمولیت کے جذبے سے حاصل کی جائے گی۔

پہلا انجن: زراعت

بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے کہ ریاستوں کی شراکت داری کے  ساتھ پی ایم دھن دھانیہ کرشی یوجنا پیداواریت میں اضافے، فصلوں کے تنوع، فصل کٹنے کے بعد ذخیرے کے عمل کو منظم بنانے، بہتر آبپاشی سہولتوں، طویل المدت اور مختصر مدت قرض کی دستیابی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے 100 اضلاع پر احاطہ کرے گی۔

ریاستوں کی شراکت داری کے  ساتھ ایک جامع کثیر شعبہ جاتی دیہی خوشحالی اور لچک پروگرام کا آغاز کیا جائے گا تاکہ ہنرمندی، سرمایہ کاری، تکنالوجی اور دیہی معیشت کو تقویت بہم پہنچاکر بے روزگاری کے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں دیہی خواتین، نوجوان کاشتکاروں، دیہی نوجوانوں، حاشیے پر رہنے والے اور چھوٹے کاشتکاروں اور بے زمین کنبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے روزگار کے وافر مواقع بہم پہنچائے جائیں۔

مرکزی وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ حکومت دالوں میں آتم نربھرتا کے مشن کے لیے ایک 6 سالہ پروگرام کا آغاز کرے گی جس میں خصوصی توجہ تور، اُرد اور مسور کی دال پر مرکوز ہوگی۔ مرکزی ایجنسیاں (نیفیڈ اور این سی سی ایف) 3 دالوں کی حصولیابی کے لیے مستعد رہیں گی، اور یہ مقدار آئندہ چار برسوں میں کاشتکاروں سے حاصل ہونے والی دالوں پر منحصر ہوگی۔

بجٹ میں پھلوں اور سبزیوں کے لیے  جامع پروگرام سے متعلق اقدامات کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے، قومی مشن برائے زیادہ پیداوار دینے والے بیج اور کپاس پیداواریت کے لیے پانچ سالہ مشن بھی اس میں شامل ہے۔ یہ ان دیگر مشنوں میں سے ایک ہے جو زراعت اور متعلقہ سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر فروغ دیں گے۔

محترمہ نرملا سیتا رمن نے اعلان کیا ہے کہ کسان کریڈٹ کارڈ کے  ذریعہ ترمیم شدہ رعایتی شرح سود  کی اسکیم کے تحت حاصل کیے جانے والے قرضے کی حدود تین لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001A4T2.jpg

 

دوسرا انجن: ایم ایس ایم ای

وزیر خزانہ نے ایم ایس ایم ای کو ترقی کا دوسرا انجن قرار دیا ہے کیونکہ یہ ہماری 45 فیصد کی برآمدات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ایم ایس ایم ای اداروں کو بڑے پیمانے کی اثر انگیزی کے حصول میں مدد دینے، تکنالوجی کو بہتر بنانے اور پونجی تک بہتر رسائی فراہم کرنے کے لیے  سرمایہ کاری اور تمام تر ایم ایس ایم ای کے سلسلے میں زمرہ بندی کے ٹرن اووَر کی حدود کو بالترتیب 2.5 گنا اور دوگنا  کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ضمانت کے تحفظ کے ساتھ قرض دستیابی میں اضافے کے اقدامات کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ پانچ لاکھ خواتین، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے ذریعہ پہلی مرتبہ صنعت کاری کا عمل شروع کرنے والوں کے لیے ایک نئی اسکیم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس سے آئندہ پانچ برسوں کے دوران انہیں 2 کروڑ روپے تک کے قرض فراہم ہو سکیں گے۔

محترمہ سیتا رمن نے اعلان کیا ہے کہ حکومت ایک ایسی اسکیم بھی نافذ کرے گی جس کا مقصد بھارت کو کھلونوں کا عالمی مرکز بنانا ہے اور یہ میڈ ان انڈیا برانڈ کی نمائندگی کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ حکومت چھوٹے، اوسط اور وسیع پیمانے  کی صنعتوں پر احاطہ کرنے کےلیے ایک قومی مینوفیکچرنگ مشن نافذ کرے گی تاکہ میک ان انڈیا کو تقویت بہم پہنچائی جاسکے۔

تیسرا انجن: سرمایہ کاری

سرمایہ کاری کو نمو کا تیسرا انجن قرار دیتے ہوئے، مرکزی وزیر نے عوام، معیشت اور اختراع میں ترجیحی سرمایہ کاری کی بات کہی۔

عوام میں سرمایہ کاری کے تحت، انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ  پانچ برسوں میں سرکاری اسکولوں میں 50000 کے بقدر اٹل اختراعی تجربہ گاہیں کھولی جائیں گی۔

محترمہ نرملا سیتا رمن نے اعلان کیا کہ تمام تر سرکاری ثانوی اسکولوں اور دیہی علاقوں میں واقع بنیادی صحتی مراکز کو بھارت نیٹ پروجیکٹ کے تحت براڈبینڈ کنکٹیوٹی فراہم کرائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بھارتیہ بھاشا پستک اسکیم نافذ کی جائے گی تاکہ اسکول او راعلیٰ تعلیم کے لیے ڈیجیٹل شکل میں بھارتی زبانوں کی کتابیں فراہم کی جا سکیں۔

ہنرمندی کو فروغ دینے کے لیے پانچ قومی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ ان میں عالمی مہارت اور شراکت داری کا لحاظ رکھا جائے گا تاکہ یہ ہمارے نوجوانوں کو میک ان انڈیا، میک فار دی ورلڈ مینوفیکچرنگ کے لیے درکار ہنرمندیوں سے آراستہ کر سکیں۔

مصنوعی انٹیلی جینس برائے تعلیم کے شعبے میں ایک عمدگی کا مرکز بھی 500 کروڑ کے تخمینہ جاتی اخراجات کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔

بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت عارضی کارکنان کے لیے شناختی کارڈس کا انتظام کرے گی، ای شرم پورٹل اور حفظانِ صحت کے تحت پی ایم جن آروگیہ یوجنا کے حوالے سے ان کا رجسٹریشن کیا جائے گا۔

معیشت میں سرمایہ کاری کے تحت سیتا رمن نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے سے متعلق وزارتیں پی پی موڈ میں تین سالہ پروجیکٹوں کے سلسلے کے ساتھ کام شروع کریں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستوں کو اہم اخراجات اور اصلاحات کے لیے ترغیبات فراہم کرنے کی غرض سے 50 سال کے سود سے مبرا قرضوں کے لیے 1.5 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کے تخمینہ اخراجات کی بھی تجویز ہے۔

انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اثاثے کونقدی میں بدلنے والا دوسرا مشن 2025-30 نافذ کیا جائے گا تاکہ نئے پروجیکٹوں میں دس لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کا سرمایہ بہم پہنچایا جا سکے۔

جل جیون مشن کی توسیع 2028 تک کی گئی ہے، اس کے تحت توجہ بنیادی ڈھانچے کی عمدگی اور آپریشن اور دیہی علاقوں میں پائپ کے ذریعہ فراہم کی جانے والی آبی سپلائی کی اسکیموں کے رکھ رکھاؤ پر مرکوز کی گئی ہے۔ اور یہ جن بھاگیداری کے ذریعہ عمل میں آئے گا۔

حکومت نمو کے مراکز کے شہر کے لیے تجاویز پر نفاذ کی غرض سے ایک شہری چنوتی فنڈ جو ایک لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کا ہوگا، فراہم کرے گی، اس کے ساتھ شہروں کی خلاقانہ ازسر نو ترقی  اور آبی اور صفائی ستھرائی کا پہلو بھی شامل ہوگا۔

اختراع میں سرمایہ کاری کے تحت 20000 کروڑ روپے کی تخصیص کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ نجی شعبے کے تابع تحقیق، ترقیات اور اختراعی پہل قدمیوں کو نافذ کیا جاسکے۔

وزیر خزانہ نے بنیادی نوعیت کا ارضیاتی خصوصیات کا حامل بنیادی ڈھانچہ وضع کرنے اور اعدادو شمار جمع کرنے کے لیے ایک قومی ارضیاتی خصوصیات کے حامل مشن کی تجویز رکھی ہے جو شہری منصوبہ بندی کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

بجٹ میں ایک کروڑ سے زائد مخطوطات کے سروے، دستاویز بندی اور تحفظ کے لیے گیان بھارتم مشن کی تجویز رکھی گئی ہے۔ یہ کام تعلیمی اداروں، عجائب گھروں، کتب خانوں اور نجی ذخائر کے حامل افراد کے ساتھ مل کر انجام دیا جائے گا۔ علم کو ساجھا کرنے کے لیے بھارتی علم کے نظام کے ایک قومی ڈیجیٹل خزینے کی تجویز بھی رکھی گئی ہے۔

چوتھا انجن: برآمدات

محترمہ سیتا رمن نے برآمدات کو نمو کا چوتھا انجن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تجارت، ایم ایس ایم ای اور خزانہ جیسی وزارتوں کے مشترکہ تال میل کے ساتھ برآمداتی فروغ مشن ایم ایس ایم ای کو برآمداتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ایک ڈیجیٹل عوامی بنیادی ڈھانچہ جس کا نام بھارت ٹریڈ نیٹ (بی ٹی این) ہوگا، اور یہ بین الاقوامی تجارت سے متعلق ہوگا، کے قیام کی بھی تجویز ہے ۔ یہ تجارتی دستاویز بندی اور مالی مشکلات کا حل نکالنے کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری معیشت کو عالمی سپلائی چینوں سے مربوط کرنے کےلیے گھریلو مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو وضع کرنے کی غرض سے مدد فراہم  کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت صنعت 4.0 سے متعلق مواقع کو بروئے کار لانے کے لیے گھریلو الیکٹرانکس سازو سامان صنعت کو تقویت بہم پہنچائے گی، ابھرتے ہوئے درجہ دوئم کے شہروں میں عالمی اہلیت مراکز کو فروغ دینے کےلیے ایک قومی فریم ورک کی بھی تجویز رکھی گئی ہے۔

حکومت اعلیٰ قدرو قیمت کی حامل، جلد ہی خراب ہو جانے والی باغبانی پیداوار سمیت ہوائی کارگو کے لیے بنیادی ڈھانچے اور گودام کو بہتر بنانے کے لیے بھی راستہ ہموار کرے گی۔

اصلاحات جو ایندھن کے طو رپر کام کریں گی

اصلاحات کو انجن کا ایندھن قرار دیتے ہوئے، محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ گذشتہ دس برسوں میں حکومت نے ٹیکس دہندگان کی آسانی کے لیے متعدد اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ ان میں انسانی عمل دخل کے بغیر احتساب، ٹیکس دہندگان سے متعلق چارٹر، تیزرفتار ریٹرن وغیرہ شامل ہیں اور تقریباً 99 فیصد ریٹرن ازخود احتساب کی بنیاد پر داخل ہو رہے ہیں اور اس میں وِواد سے وشواس اسکیم بھی شامل ہے۔ ان ہی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹیکس کے محکمے کی عہد بندگی یہ ہے کہ پہلے اعتماد کی فضا سازگار بنائی جائے اور اس کے بعد باریک جائزہ لیا جائے۔

مالی شعبے کی اصلاحات اور ترقی

کاروبار کو سہل بنانے کے سلسلے میں حکومت کی مستحکم عہد بندگی کے مظاہرے کے طور پر مرکزی وزیر خزانہ نے بھارت کے مالی پیش منظر کے طول و عرض میں ترمیم لانے کی تجویز رکھی ہے تاکہ قواعد و ضوابط پر عمل کرنا آسان بنایا جا سکے، خدمات کی توسیع ممکن ہو سکے، مضبوط ضابطہ جاتی ماحول سازی ممکن ہو سکے، بین الاقوامی اور گھریلو سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو اور فرسودہ قانون تجاویز کو جرائم کی فہرست سے خارج کیا جا سکے۔

مرکزی وزیر خزانہ نے بیمہ کے لیے غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری کی حدود 74 سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ یہ سہولت وہ کمپنیاں حاصل کر سکیں گی جو بھارت میں مکمل پریمیم میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔

محترمہ سیتا رمن نے اصولوں پر مبنی ایک ہلکے ضوابط کی پابندی والے فریم ورک کی تجویز رکھی ساتھ ہی اعتماد سازی کی بھی بات کی تاکہ پیداواریت اور روزگار کے مواقع واشگاف ہو سکیں۔ انہوں نے 21ویں صدی کے لیے اس طرح کا جدید، لچیلا، عوام دوست اور اعتماد پر مبنی ضابطہ جاتی فریم ورک وضع کرنے کے مخصوص اقدامات کی تجویز رکھی جن میں درج ذیل باتیں شامل ہوں گی:

  1. اعلیٰ سطحی کمیٹی برائے ضابطہ جاتی اصلاحات
  • تمام غیر مالی شعبے کے ضوابط، اسناد، لائسنس اور اجازت ناموں پر نظرثانی
  • اعتماد پر مبنی اقتصادی حکمرانی کو مستحکم بنانے اور کاروبار  کو سہل بنانے کو فروغ دینے کے لیے تغیراتی اقدامات پر عمل پیرا ہونا، خصوصاً معائنے اور نفاذ کے معاملے میں
  • ایک سال کے اندر سفارشات پیش کرنا
  • ریاستوں کو آن بورڈ ہونے کے لیے حوصلہ افزائی فراہم کی جائے گی
  1. ریاستوں کا سرمایہ کاری دوست عدد اشاریہ
  • ریاستوں کا ایک سرمایہ کاری دوست عدد اشاریہ سال 2025 میں شروع کیا جائے گا تاکہ مسابقتی امدادِ باہمی وفاقیت کے جذبے کو پروان چڑھایا جاسکے۔
  1. مالی استحکام اور ترقیات کونسل (ایف ایس ڈی سی) کے تحت میکنزم
  • ایسا میکنزم جو موجودہ مالی ضوابط کے اثرات اور ذیلی احکامات کا تجزیہ کرے گا
  • ایک ایسا فریم ورک وضع کیا جائے گا جس کے ذریعہ ان کے ردعمل فراہم کرنے کی صلاحیت اور مالی شعبے کی ترقی ممکن ہوسکے
  1. جن وشواس بل 2.0
  • مختلف قوانین میں موجود 100 سے زائد تجاویز کو جرائم کی فہرست سے خارج کرنا

مالی استحکام

مالی استحکام کے لیے اختیار کیے گئے راستے پر قائم رہنے کے سلسلے میں اپنی عہد بندگی کا اعادہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی کوشش یہ ہے کہ مالی خسارے کو ہر سال اس انداز میں رکھا جائے کہ مرکزی حکومت کے قرض انحطاط پذیر ہونے کے راستے پر گامزن رہیں۔ یعنی جی ڈی پی کے مقابلے میں ان کی فیصد میں تخفیف رونما ہو اور آئندہ چھ برسوں کے لیے ایک تفصیلی لائحہ عمل ایف آر بی ایم گوشوارے میں موجود ہے۔ محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ 2024-25 کے مالیاتی خسارے کا نظرثانی شدہ تخمینہ جی ڈی پی کے بالمقابل 4.8 فیصد ہے جبکہ 2025-26 کے لیے بجٹی تخمینہ جی ڈی پی کے بالمقابل 4.4 فیصد کے بقدر ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Screenshot2025-02-011240324BSV.png

نظرثانی شدہ تخمینے 2024-25

وزیر موصوفہ نے کہا ہے کہ قرضوں کے علاوہ دیگر مجموعی حصولیابیوں کا نظرثانی شدہ تخمینہ 31.47 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر ہے جس میں خالص ٹیکس حصولیابیاں 25.57 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی اخراجات کے نظرثانی شدہ تخمینے 47.16 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کے ہیں جن میں سے اہم اخراجات تقریباً 10.18 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کے ہیں۔

 

بجٹی تخمینے 2025-26

2025-26 کے مالی سال کے مرکزی وزیر خزانہ نے کہا کہ قرضوں کے علاوہ مجموعی حصولیابیاں اور مجموعی اخراجات کا تخمینہ بالترتیب 34.96 لاکھ کروڑ روپے اور 50.65 لاکھ کروڑ روپے کا لگایا گیا ہے۔خالص ٹیکس حصولیابیوں کا تخمینہ 28.37 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کا لگایا گیا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Screenshot2025-02-01124049PPTD.png

حصہ ’بی‘

تعمیر ملک میں متوسط طبقے کے تئیں اعتماد جتاتے ہوئے مرکزی بجٹ 2025-26 میں نئے راست ٹیکس سلیبوں اور شرحوں کی تجویز رکھی گئی ہے۔ یہ نئے آمدنی ٹیکس نظام کے تحت ہوگا تاکہ 12 لاکھ روپے سالانہ تک کی مجموعی آمدنی کے لیے کسی طرح کا کوئی ٹیکس نہ ادا کرنا پڑے۔ یعنی اوسطاً ایک لاکھ روپے کی ماہانہ آمدنی، خصوصی آمدنی شرحوں کے علاوہ، مثلاً  اہم فوائد کے تحت نہ ہوئی ہو تو اس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔ 12.75 لاکھ روپے تک سالانہ کمانے والے تنخواہ دار افراد صفر ٹیکس ادا کریں گے کیونکہ انہیں 75000 روپے کے اسٹینڈرڈ ڈیڈکشن بھی حاصل ہوگا۔ نئے ٹیکس ڈھانچے کے سلسلے میں اور دیگر تجاویز کے بارے میں حکومت تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کے مالیہ خسارے کا سامنا کرے گی۔

وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے ذریعہ عوام کے ذریعہ اٹھائی جانے والی آواز کی تفہیم ممکن ہو سکے۔ راست ٹیکس تجاویز میں متوسط طبقے پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ذاتی آمدنی ٹیکس اصلاحات شامل ہیں۔ اس میں ٹی ڈی ایس/ٹی سی ایس کو معقول بنانا، رضاکارانہ عمل درآمد کی حوصلہ افزائی، نفاذ کے عمل کو کم کرنا، کاروبار کرنے کو سہل بنانا اور روزگار اور سرمایہ کاری کے لیے ترغیب کے فراہمی کے پہلو شامل ہیں۔

بجٹ تجاویز میں نظرثانی شدہ ٹیکس کے ڈھانچے کو جس انداز میں نئے ٹیکس نظام کے تحت اپنایا گیا ہے ان کا گوشوارہ درج ذیل ہے؛

سالانہ مجموعی آمدنی

ٹیکس کی شرح

0 – 4 Lakh

صفر

4 – 8 Lakh

5%

8 – 12 Lakh

10%

12 – 16 Lakh

15%

16 – 20 Lakh

20%

20 – 24 Lakh

25%

24 لاکھ سے زائد

30%

 

ٹی ڈی ایس/ ٹی سی ایس کو معقول بنانے کے لیے بجٹ میں معمر شہریوں کو حاصل ہونے والے سود پر ٹیکس کی تخفیف موجودہ 50000 روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کرائے پر عائد ٹی ڈی ایس کی حدود 2.4 لاکھ سالانہ سے بڑھا کر چھ لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ دیگر اقدامات میں ٹی سی ایس وصول کرنے کے لیے حدود 10 لاکھ روپے تک اور صرف غیر پین معاملات میں اعلیٰ ٹی ڈی ایس کٹوتی کو جاری رکھنے کی بات شامل ہے۔ ٹی ڈی ایس کی ادائیگی میں رونما ہونے والی تاخیر کو جرائم کے زمرے سے مبرا بنانے کے بعد ٹی سی ایس کی ادائیگیوں میں رونما ہونے والی تخفیف کو بھی اب جرائم کے زمرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔

رضاکارانہ طور پر عمل درآمد کی حوصلہ افزائی کرنے کےلیے بجٹ میں کسی بھی جائزہ سال کے لیے داخل کیے گئے تاحال بنائے گئے ریٹرن کے لیے مدت موجودہ دو سال سے بڑھا کر 4 سال کر دی گئی ہے۔ 90 لاکھ سے زائد ٹیکس دہندگان نے اپنی آمدنی کو تاحال بنانے کے لیے اضافی ٹیکس ادا کیا ہے۔ چھوٹے خیراتی ٹرسٹ / اداروں کو ان کے رجسٹریشن کی مدت کو پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کرنے کا فائدہ دیا گیا ہے۔ نفاذ کے وزن کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہندہ اب دو ازخود اپنی ملکیت والی جائیدادوں کی سالانہ مالیت کا دعویدار ہو سکتا ہے اور اسے غیر مشروط طور پر صفر قرار دینے کی بات کہہ سکتا ہے۔گذشتہ بجٹ کی وِواد سے وشواس اسکیم کو زبردست حوصلہ افزائی حاصل ہوئی ہے۔ تقریباً 33000 ٹیکس دہندگان نے اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے تنازعات حل کیے ہیں۔ معمر اور ازحد معمر شہریوں کو فوائد بہم پہنچاتے ہوئے قومی بچت اسکیم کھاتوں سے نکالی جانے والی رقم جو 29 اگست 2024 یا اس کے بعد نکالی گئی ہو، انہیں استثنائی فراہم کی گئی ہے۔ این پی ایس واتسلیہ کھاتوں کو بھی مماثل فوائد فراہم کرائے گئے ہیں۔

کاروبار کو سہل بنانے کےلیے بجٹ میں تین برسوں کی ایک معینہ مدت کے لیے بین الاقوامی لین دین کی قیمتوں کے تعین کی مدت کے لیے ایک اسکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ یہ عالمی بہترین طریقہ کار کے عین مطابق ہے۔ اس کے علاوہ، سیلف ہاربر قواعد کی توسیع بین الاقوامی ٹیکسیشن کے معاملے میں یقینی صورتحال کی فراہمی کے لیے وسعت سے ہمکنار کی جا رہی ہے۔

روزگار اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی غرض سے ایسے غیر مقیم باشندگان کے لیے جو مقیم کمپنی کو فائدہ پہنچاتے ہیں، یعنی جو کمپنی کوئی الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ سہولت قائم کر رہی ہے یا چلا رہی ہے، اس کے لیے ایک پیشگی ٹیکسیشن نظام فراہم کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ ٹنیج ٹیکس اسکیم کے فوائد کے بارے میں تجویز رکھی گئی ہے کہ یہ اندرونِ ملک چلنے والے بحری جہازوں پر بھی نافذ ہوں گے۔ اسٹارٹ اپ ایکو نظام کو فروغ دینے کےلیے آغاز کی مدت پانچ برسوں تک بڑھا دی گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے بجٹ میں خودمختار دولت فنڈ میں سرمایہ کاری کرنے کی تاریخ میں توسیع کی گئی ہے اور پنشن فنڈ میں مزید پانچ برسوں کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 31 مارچ 2030 کر دیا گیا ہے۔

جہاں تک صنعتی سازو سامان کے سلسلے  میں کسٹم محصولات کو معقول ترین بنانے کے عمل کی بات ہے، اس کے ایک حصے کے  طور پر بجٹ میں یہ تجاویز رکھی گئی ہیں؛ (1) سات قسم کے محصولات کا خاتمہ، (2) مؤثر محصولات حصول کےسلسلے  میں معقول محصولات کے قواعد  پر عمل درآمد اور (3) ایک محصول یا سرچارج سے زائد نہ عائد کیا جائے۔

کیمیاوی اشیاء / ادویہ کی درآمد پر راحت کے طور پر زندگی بچانے والی 36 ادویہ اور کیمیاوی اشیاء کو سرطان، شاذو ناد ر لاحق ہونے والے امراض اور دائمی امراض میں استعمال ہوتی ہیں انہیں کلی طور پر بنیادی کسٹم محصول (بی سی ڈی) سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 37 ادویہ اور 13 نئی ادویہ کو مریضوں کو امداد بہم پہنچانے کے پروگرام کے تحت مریضوں کو مفت فراہم کرنے کی صورت میں بنیادی کسٹمز محصول (بی سی ڈی) سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔

25 اہم معدنیات پر عائد بی سی ڈی کے سلسلے میں گھریلو مینوفیکچرنگ اور قدر و قیمت اضافے کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے، یعنی یہ وہ چیزیں ہیں جو گھریلو پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں، انہیں ماہ جولائی 2024 میں مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ 2025-26 کے بجٹ میں  کوبالٹ پاؤڈر اور کاٹھ کباڑ، لیتھیم کی بیٹری کے کاٹھ کباڑ، جست اور مزید 12 اہم معدنیات کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ گھریلو کپڑا سازی کو فروغ دینے کے لیے مزید دو زمروں کے شٹل کے بغیر کرگھوں کو کلی طور پر مستثنیٰ کپڑا صنعت مشینری میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بنے ہوئے ملبوسات پر عائد بی سی ڈی جو 9 محصولاتی لائنوں پر احاطہ کرتی ہے اور 10 فیصد سے 20 فیصد کے بقدر ہوتی ہے، اسے نظرثانی کرکے 20 فیصد یا 115 کلو گرام کے بقدر کر دیا گیا ہے۔ یعنی اس میں جو زائد ہوگا اس پر نافذ کی جائے گی۔

معکوس محصولات ڈھانچے کی اصلاح اور میک ان انڈیا کو فروغ دینے کے لیے باہم اثر پذیر فلیگ پینل ڈسپلے (آئی ایف پی ڈی) پر بی سی ڈی بڑھا کر 20 فیصد اور اوپن سیلوں پر گھٹاکر 5 فیصد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اوپن سیلوں کی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے اوپن سیلوں کے پرزوں پر عائد بی سی ڈی میں چھوٹ دی گئی ہے۔

ملک میں لیتھین بیٹری کی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے برقی موٹر گاڑی میں استعمال ہونے والی بیٹری کے لیے 35 اضافی سازو سامان کی مینوفیکچرنگ اور 28 اہم سازوسامان جو موبائل فون کی بیٹری کی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہوتے ہیں انہیں مستثنیٰ شدہ اہم سازوسامان کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مرکزی بجٹ 2025-26 میں خام مال، پرزوں اور جہاز سازی کے لیے استعمال ہونے والے پرزوں پر بی سی ڈی میں استثنائی فراہم کی گئی ہے اور یہ استثنائی مزید 10 برسوں تک نافذ رہے گی۔ بجٹ میں کیریئر گریڈ کے ایتھرنیٹ سوئچ پر عائد بی سی ڈی کو 20 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کر دیا گیا ہے تاکہ اسے غیر کیریئر گریڈ کے ایتھرنیٹ کے سوئچز کے برابر لایا جا سکے۔

برآمدات فروغ کے لیے 2025-26 کے بجٹ میں دستکاری کی برآمدات کا راستہ ہموار کیا گیا ہے، ویٹ بلیو لیدر پر قدروقیمت اضافے اور روزگار کے لیے بی سی ڈی سے استثنائی فراہم کی گئی ہے۔ یخ بستہ مچھلی کے پیسٹ پر بی سی ڈی 30 فیصد سے گھٹاکر 5 فیصد کر دی گئی ہے اور فش ہائیڈرولی سیٹ پر مچھلی اور جھینگے پر مشتمل خوراک تیار کرنے کے لیے بی سی ڈی کو 15 فیصد سے گھٹاکر 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔

خزانہ اور کمپنی امور کی مرکزی  وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ جمہوریت، آبادی اور طلب وکست بھارت کے سفر کے کلیدی ستون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متوسط طبقہ بھارت کی نمو کو قوت فراہم کرتا ہے اور حکومت نے وقفے وقفے سے ان کے اس تعاون کے اعتراف میں صفر ٹیکس کے سلیب میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ نیا ٹیکس ڈھانچہ قابل ذکر طور پر کھپت، کفایت شعاری اور سرمایہ کاری  کو متوسط طبقے کے ہاتھوں میں زیادہ دولت فراہم کرکے فروغ دے  گا۔

**********

 (ش ح –م ن - ا ب ن)

U.No:5898


(Release ID: 2098497) Visitor Counter : 66