وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

اقتصادی سروے 2024-25 کی جھلکیاں

Posted On: 31 JAN 2025 2:20PM by PIB Delhi
  • مالی سال 25 میں بھارت کی حقیقی جی ڈی پی اور جی وی اے نمو کا تخمینہ 6.4 فیصد لگایا گیا ہے (پہلا پیشگی تخمینہ)
  • مالی سال 26 میں حقیقی جی ڈی پی نمو 6.3 سے 6.8 فیصد کے درمیان ہوگی
  • درمیانی مدتی نمو کی صلاحیت اور عالمی مسابقت کو فروغ دینے کے لیے نچلی سطح کی ساختی اصلاحات اور ڈیریگولیشن پر زور
  • جیو اکنامک فریگ منٹیشن (جی ای ایف) گلوبلائزیشن کی جگہ لے رہا ہے جس کے نتیجے میں فوری طور پر معاشی اصلاحات اور ایڈجسٹمنٹ کی راہ ہم وار ہو رہی ہے
  • اصلاحات اور کاروبار کرنے میں آسانی پر توجہ 2.0 بھارت کا ایم آئی ٹی ایل اسٹینڈ کی تشکیل، یعنی بھارت کے ایس ایم ای سیکٹر پر توجہ
  • بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نجی شعبے کی حصہ داری اہم ہوگی
  • مالی سال 21 سے مالی سال 24 تک کیپیکس میں مسلسل بہتری آئی اور عام انتخابات کے بعد اس میں سال در سال 8.2 فیصد اضافہ ہوا
  • مالی سال 20 سے مالی سال 24 تک بنیادی ڈھانچے کے اہم شعبوں پر سرمائے کے اخراجات میں 38.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا
  • آر بی آئی اور آئی ایم ایف پروجیکٹ بھارت کی کنزیومر پرائس افراط زر مالی سال 26 میں 4 فیصد کے ہدف کے ساتھ ہم آہنگ ہوگا
  • ریٹیل ہیڈ لائن افراط زر مالی سال 24 میں 5.4 فیصد سے کم ہوکر اپریل تا دسمبر 2024 میں 4.9 فیصد ہوگیا
  • بینک کریڈٹ میں مستحکم شرح سے اضافہ ہوا ہے اور کریڈٹ کی ترقی ڈپازٹ کی ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے
  • شیڈول کمرشل بینکوں کا جی این پی اے 12 سال کی کم ترین سطح 2.6 فیصد پر آگیا
  • دیوالیہ پن اور دیوالیہ پن کوڈ کے تحت ستمبر 2024 تک 1068 منصوبوں کے حل میں 3.6 لاکھ کروڑ روپے وصول کیے گئے
  • دسمبر 2024 تک ایکویٹی اور قرض کے ذریعے 11.1 لاکھ کروڑ روپے جمع کیے گئے، پچھلے سال کے مقابلے میں 5 فیصد اضافہ
  • بی ایس ای اسٹاک مارکیٹ کیپٹلائزیشن اور جی ڈی پی کا تناسب 136 فیصد رہا جو چین (65 فیصد) اور برازیل (37 فیصد) سے کہیں زیادہ
  • مالی سال 25 کے پہلے نو ماہ میں مجموعی برآمدات میں 6 فیصد اضافہ، خدمات میں 11.6 فیصد (سال در سال) اضافہ
  • یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق ٹیلی کمیونی کیشن، کمپیوٹر اور انفارمیشن سروسز میں بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے
  • فاریکس 640.3 بلین امریکی ڈالر پر، 10.9 ماہ کی درآمدات اور 90 فیصد بیرونی قرضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے
  • حکومت کے خلائی وژن 2047 میں گگن یان مشن اور چندریان -4 چاند کے نمونے کی واپسی مشن شامل ہیں
  • اسمارٹ فون کی درآمدات میں زبردست کمی، اب 99 فیصد مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے:  اقتصادی سروے 2024-25
  • ڈبلیو آئی پی او رپورٹ 2022 - بھارت عالمی سطح پر پیٹنٹ فائلنگ کے سرفہرست 10 دفاتر میں چھٹے نمبر پر
  • ایم ایس ایم ای کو ایکویٹی فنڈ فراہم کرنے کے لیے 50,000 کروڑ روپے کےآتم نربھر بھارت فنڈ کا آغاز
  • اپریل تا نومبر مالی سال 25 کے دوران بھارت کی خدمات کی برآمدات میں 12.8 فیصد اضافہ ہوا، جو مالی سال 24 میں 5.7 فیصد تھا
  • جی ڈی پی میں سیاحت کے شعبے کا حصہ مالی سال 23 میں کورونا وبا سے پہلے کی سطح 5 فیصد پر واپس آگیا
  • زراعت اور متعلقہ سرگرمیوں کا شعبہ موجودہ قیمتوں پر مالی سال 24 (پی ای) کے لیے ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 16 فیصد حصہ ڈالتا ہے
  • خریف اناج کی پیداوار 1647.05 لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 89.37 لاکھ میٹرک ٹن زیادہ ہے
  • ماہی گیری کے شعبے میں سب سے زیادہ 8.7 فیصد سی اے جی آر دکھایا گیا، اس کے بعد لائیو سٹاک میں 5.8 فیصد کی سی اے جی آر درج کی گئی
  • نان فوسل فیول سورس سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کل صلاحیت کا 46.8 فیصد ہے
  • 2005 اور 2023 کے درمیان 2.29 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اضافی کاربن سنک تیار کیا گیا ہے
  • 2030  تک زندگی کے اقدامات عالمی سطح پر صارفین کو 440 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں
  • مالی سال 21 سے مالی سال 25 تک سماجی خدمات کے اخراجات میں سالانہ 15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا
  • صحت کے سرکاری اخراجات 29.0 فیصد سے بڑھ کر 48.0 فیصد ہو گئے۔ صحت پر لوگوں کا خرچ 62.6 فیصد سے گھٹ کر 39.4 فیصد ہو گیا
  • بے روزگاری کی شرح 2017-18 کے 6.0 فیصد سے گھٹ کر 2023-24 میں 3.2 فیصد ہوگئی
  • بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت اور قابل تجدید توانائی کے شعبے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرتے ہیں، جو وکسیٹ بھارت کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے
  • پی ایم انٹرن شپ اسکیم روزگار پیدا کرنے کے لیے تبدیلی لانے والے محرک کے طور پر ابھری
  • بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں موجودہ دور میں بھی موجود ہیں، جس کی وجہ سے پالیسی سازوں کو کام کرنے کا موقع مل رہا ہے
  • مصنوعی ذہانت سے ہونے والی تبدیلی کے منفی سماجی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے حکومت، نجی شعبے اور تعلیمی اداروں کے درمیان مشترکہ کوششیں ضروری ہیں

 

مرکزی وزیر خزانہ اور کارپوریٹ امور محترمہ نرملا سیتارمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے 2024-25 پیش کیا۔ اس سروے کی جھلکیاں حسب ذیل ہیں:

معیشت کی صورت حال:  تیزگامی کی سمت واپسی

  1. مالی سال 25 میں بھارت کی حقیقی جی ڈی پی نمو کا تخمینہ 6.4 فیصد لگایا گیا ہے (قومی آمدنی کے پہلے پیشگی تخمینے کے مطابق)، جو اس کی دہائی کی اوسط کے برابر ہے۔
  2. حقیقی گراس ویلیو ایڈڈ (جی وی اے) میں بھی مالی سال 25 میں 6.4 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
  3. آئی ایم ایف کے اگلے پانچ برسوں میں 2 فیصد شرح نمو کے تخمینے کے مقابلے میں 2023 میں عالمی معیشت میں اوسطا 3.3 فیصد اضافہ ہوا۔
  4. مالی سال 26 میں حقیقی جی ڈی پی نمو 6.3 سے 6.8 فیصد کے درمیان بڑھنے کی توقع ہے، جو ترقی کے اتار چڑھاؤ اور منفی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔
  5. درمیانی مدتی نمو کی صلاحیت کو تقویت دینے اور بھارتی معیشت کی عالمی مسابقت کو فروغ دینے کے لیے نچلی سطح کی ساختی اصلاحات اور ڈی ریگولیشن پر زور ۔
  6. جغرافیائی سیاسی تناؤ، جاری تنازعات اور عالمی تجارتی پالیسی کے خطرات عالمی اقتصادی پیش بینی  کے لیے اہم چیلنج ہیں۔
  7. ریٹیل ہیڈ لائن افراط زر مالی سال 24 میں 5.4 فیصد سے کم ہوکر اپریل-دسمبر 2024 میں 4.9 فیصد ہوگئی ہے۔
  8. مالی سال 21 سے مالی سال 24 تک کیپٹل اخراجات (کیپیکس) میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ عام انتخابات کے بعد جولائی تا نومبر 2024  کے دوران کیپیکس میں سال در سال 2 فیصد اضافہ ہوا۔
  9. عالمی خدمات کی برآمدات میں بھارت کا ساتواں سب سے بڑا حصہ ہے، جو اس شعبے میں بھارت کی عالمی مسابقت کو ظاہر کرتا ہے۔
  10. اپریل سے دسمبر 2024 کے دوران غیر پٹرولیم اور نان جیمز اینڈ جیولری کی برآمدات میں 9.1 فیصد اضافہ ہوا جو غیر مستحکم عالمی حالات کے درمیان بھارت کی تجارتی برآمدات کی لچک کو ظاہر کرتا ہے۔

مالیاتی اور مالی شعبے کی ترقیات

  1. بینک کریڈٹ میں مستحکم شرح سے اضافہ ہوا ہے جس میں کریڈٹ کی نمو ڈپازٹ کی نمو کی طرف منتقل ہوئی ہے۔
  2. شیڈولڈ کمرشل بینکوں کے منافع میں بہتری آئی ہے، جس کی عکاسی مجموعی غیر فعال اثاثوں (جی این پی اے) میں کمی اور سرمائے سے خطرے کے وزن والے اثاثوں کے تناسب (سی آر اے آر) میں اضافے سے ہوتی ہے۔
  3. کریڈٹ نمو نے لگاتار دو برسوں تک نومینل جی ڈی پی کی نمو کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مالی سال 25 کی پہلی سہ ماہی میں کریڈٹ اور جی ڈی پی کا فرق کم ہو کر منفی 0.3 فیصد رہ گیا جو مالی سال 23 کی پہلی سہ ماہی میں منفی 10.3 فیصد تھا، جو بینک کریڈٹ میں پائیدار نمو کی نشان دہی کرتا ہے۔
  4. بینکنگ سیکٹر اثاثوں کے معیار، مضبوط کیپٹل بفرز اور مضبوط آپریشنل کارکردگی میں بہتری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
  5. ستمبر 2024 کے اختتام پر شیڈول کمرشل بینکوں کے مجموعی غیر فعال اثاثے (جی این پی اے) گھٹ کر 12 سال کی کم ترین سطح 2.6 فیصد پر آ گئے۔
  6. دیوالیہ پن اور دیوالیہ پن کوڈ کے تحت ستمبر 2024 تک 1068 منصوبوں کے حل میں 3.6 لاکھ کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ یہ لیکویڈیشن قدر کے مقابلے میں 161 فیصد اور اس میں شامل اثاثوں کی مناسب قیمت کا 81 فیصد ہے۔
  7. انتخابات کی وجہ سے مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے چیلنجوں کے باوجود بھارتی سٹاک مارکیٹوں نے اپنے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ساتھیوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
  8. اپریل سے دسمبر 2024 کے دوران پرائمری مارکیٹس (ایکویٹی اور ڈیٹ) سے کل وسائل جمع کرنے کا حجم 11.1 لاکھ کروڑ روپے رہا، جو مالی سال 24 کے دوران جمع کی گئی رقم سے پانچ فیصد زیادہ ہے۔
  9. دسمبر 2024 کے آخر میں بی ایس ای اسٹاک مارکیٹ کیپٹلائزیشن اور جی ڈی پی کا تناسب 136 فیصد تھا، جو چین (65 فیصد) اور برازیل (37 فیصد) جیسی دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹ معیشتوں سے کہیں زیادہ ہے۔
  10. بھارت کی انشورنس مارکیٹ میں تیزی کا سلسلہ جاری ہے اور مالی سال 24 میں کل بیمہ پریمیم میں 7.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ 11.2 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔
  11. ستمبر 2024 تک بھارت کے پنشن سیکٹر میں پنشن صارفین کی کل تعداد میں 16 فیصد (سال در سال) کا اضافہ ہوا ہے۔

بیرونی شعبہ:  ایف ڈی آئی کو ٹھیک رکھنا

  1. بھارت کا بیرونی شعبہ عالمی غیر یقینی صورت حال اور مشکلات کے درمیان لچک کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
  2. مالی سال 25 کے پہلے نو ماہ میں مجموعی برآمدات (تجارتی + خدمات) میں 6 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی عرصے کے دوران خدمات کے شعبے میں 11.6 فیصد اضافہ ہوا۔
  3. یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق بھارت ’ٹیلی کمیونی کیشن، کمپیوٹر اور انفارمیشن سروسز‘ میں عالمی برآمدی مارکیٹ کا 10.2 فیصد ہے، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔
  4. مالی سال 25 کی دوسری سہ ماہی میں بھارت کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) جی ڈی پی کا 1.2 فیصد رہا، جس کی وجہ خدمات کی بڑھتی ہوئی خالص وصولیوں اور نجی منتقلی کی وصولیوں میں اضافہ ہے۔
  5. مالی سال 25 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی آمد میں بحالی ریکارڈ کی گئی، جو مالی سال 24 کے پہلے آٹھ ماہ میں 47.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 25 کے اسی عرصے میں 56 ارب ڈالر ہوگئی، جو سال در سال 17.9 فیصد اضافہ ہے۔
  6. دسمبر 2024 کے اختتام تک بھارت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 640.3 بلین امریکی ڈالر تھے، جو 10.9 ماہ کی درآمدات اور ملک کے بیرونی قرض کے تقریباً 90 فیصد کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
  7. بھارت کا بیرونی قرض پچھلے کچھ برسوں سے مستحکم رہا ہے، ستمبر 2024 کے اختتام تک بیرونی قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 19.4 فیصد تھا۔

قیمتیں اور افراط زر:  حرکیات کا فہم

  1. آئی ایم ایف کے مطابق عالمی افراط زر کی شرح 2024 تک کم ہو کر 5.7 فیصد ہو گئی جو 2022 میں 8.7 فیصد تھی۔
  2. بھارت میں خوردہ افراط زر مالی سال 24 میں 5.4 فیصد سے کم ہوکر مالی سال 25 (اپریل-دسمبر 2024) میں 4.9 فیصد ہوگئی۔
  3. آر بی آئی اور آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ بھارت کی صارفین کی قیمتوں میں افراط زر آہستہ آہستہ مالی سال 26 میں تقریباً 4 فیصد کے ہدف کے ساتھ ہم آہنگ ہوگا۔
  4. شدید موسمی حالات کے اثرات کو کم کرنے اور طویل مدتی قیمتوں میں استحکام کے لیے آب و ہوا سے لچک دار فصلوں کی اقسام اور کاشتکاری کے بہتر طور طریقوں کی تیاری ضروری ہے۔

وسط مدتی پیش بینی :  ڈی ریگولیشن کے ذریعے نمو

  1. بھارتی معیشت ایک ایسی تبدیلی کے درمیان میں ہے جو ایک بے مثال معاشی چیلنج اور مواقع کی نمائندگی کرتی ہے۔ جیو اکنامک فریگ منٹیشن (جی ای ایف) گلوبلائزیشن کی جگہ لے رہا ہے جس کے نتیجے میں معاشی اصلاحات اور ری ایڈجسٹمنٹ کا امکان ہے۔
  2. 2047 تک وکست بھارت کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھارت کو تقریباً ایک یا دو دہائیوں تک مستقل قیمتوں پر تقریباً 8 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
  3. بھارت کے لیے وسط مدتی نمو کی پیش بینی  کو نئے عالمی حقائق پر غور کرنا چاہیے - جی ای ایف، چین کی مینوفیکچرنگ کی طاقت، اور توانائی کی منتقلی کی کوششوں کا چین پر انحصار۔
  4. بھارت نمو کے گھریلو محرکات کو بحال کرنے اور افراد اور تنظیموں کو آسانی کے ساتھ جائز معاشی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے بااختیار بنانے کے لیے منظم ڈی ریگولیشن پر توجہ مرکوز کرے گا۔
  5. افراد اور چھوٹے کاروباروں کے لیے نظامی ڈی ریگولیشن یا معاشی آزادی میں اضافہ یقینی طور پر بھارت کی درمیانی مدتی نمو کے امکانات کو تقویت دینے کے لیے سب سے اہم پالیسی ترجیح ہے۔
  6. اصلاحات اور اقتصادی پالیسی کی توجہ اب ’کاروبار کرنے کی آسانی ‘یعنی ایز آف ڈوئنگ بزنس 2.0 کے تحت منظم ڈی ریگولیشن اور ایک قابل عمل وسطی کاروباری طبقے یعنی بھارت کے ایس ایم ای سیکٹر کی تشکیل پر ہونی چاہیے۔
  7. اگلے مرحلے میں، ریاستوں کو معیارات اور کنٹرولز کو آزاد بنانے، نفاذ کے لیے قانونی حفاظتی اقدامات مقرر کرنے، محصولات اور فیسوں کو کم کرنے، اور خطرے پر مبنی ریگولیشن لاگو کرنے پر کام کرنا ہوگا۔

سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچہ:  استحکام و استمرار

  1. گذشتہ پانچ برسوں میں حکومت کی اہم توجہ بنیادی ڈھانچے پر عوامی اخراجات بڑھانے اور منظوریوں اور وسائل کو متحرک کرنے میں تیزی لانے پر تھی۔
  2. مالی سال 20 سے مالی سال 24 تک بنیادی ڈھانچے کے اہم شعبوں پر مرکزی حکومت کے سرمائے کے اخراجات میں 38.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔
  3. ریلوے کنکٹیویٹی کے تحت اپریل اور نومبر 2024 کے درمیان 2031 کلومیٹر ریلوے نیٹ ورک شروع کیا گیا اور اپریل اور اکتوبر 2024 کے درمیان وندے بھارت ٹرینوں کے 17 نئے جوڑے متعارف کرائے گئے۔
  4. روڈ نیٹ ورک کے تحت مالی سال 25 (اپریل تا دسمبر) میں 5853 کلومیٹر قومی شاہراہوں کی تعمیر کی گئی۔
  5. نیشنل انڈسٹریل کوریڈور ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت فیز 1 میں مختلف سیکٹرز کے صنعتی استعمال کے لیے 3788 ایکڑ کو محیط کل 383 پلاٹس الاٹ کیے گئے ہیں۔
  6. آپریشنل کارکردگی نے مالی سال 24 میں بڑی بندرگاہوں میں کنٹینر کی تبدیلی کے اوسط وقت کو 48.1 گھنٹے سے کم کرکے مالی سال 25 (اپریل تا نومبر) کے دوران 30.4 گھنٹے کردیا، جس سے بندرگاہ رابطے میں نمایاں بہتری آئی۔
  7. دسمبر 2024 تک شمسی اور ہوا سے چلنے والی توانائی کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں سال در سال 15.8 فیصد اضافہ ہوگا۔
  8. بھارت کی کل نصب شدہ صلاحیت میں قابل تجدید توانائی کا حصہ اب 47  فیصد ہے۔
  9. ڈی ڈی یو جی جے وائی اور سوبھاگیہ جیسی حکومت کی اسکیموں نے دیہی علاقوں میں بجلی کی رسائی کو بہتر بنایا، 18،374 گاؤوں میں بجلی پہنچائی اور 2.9 کروڑ گھرانوں کو بجلی فراہم کی۔
  10. حکومت کے ڈیجیٹل کنکٹیویٹی اقدامات نے خاص طور پر اکتوبر 2024 تک تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 5 جی خدمات کے رول آؤٹ کے ساتھ توجہ حاصل کی ہے۔
  11. یونیورسل سروس اوبلگیشن فنڈ (جو اب ’ڈیجیٹل بھارت ندھی‘ ہوگیا ہے) کے تحت دور دراز علاقوں میں 4 جی موبائل خدمات فراہم کرنے کی کوششوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور دسمبر 2024 تک 10،700 سے زیادہ گاؤوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
  12. جل جیون مشن کے آغاز کے بعد سے اب تک 12 کروڑ سے زیادہ کنبوں کو پائپ کے ذریعے پینے کے پانی تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔
  13. سوچھ بھارت مشن گرامین کے دوسرے مرحلے کے تحت اپریل سے نومبر 2024 کے دوران 1.92 لاکھ گاؤوں کو ماڈل زمرے کے تحت او ڈی ایف پلس قرار دیا گیا، جس سے او ڈی ایف پلس گاؤوں کی کل تعداد 3.64 لاکھ ہوگئی۔
  14. شہری علاقوں میں پردھان منتری آواس یوجنا نے 89 لاکھ سے زیادہ گھروں کو مکمل کیا ہے۔
  15. شہر کی نقل و حمل کا نیٹ ورک تیزی سے پھیل رہا ہے، 29 شہروں میں میٹرو اور تیز رفتار ریل سسٹم فعال یا زیر تعمیر ہیں، جو 1،000 کلومیٹر سے زیادہ کا احاطہ کرتے ہیں۔
  16. رئیل اسٹیٹ (ریگولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ) ایکٹ 2016 نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ریگولیشن اور شفافیت کو یقینی بنایا۔ جنوری 2025 تک 1.38 لاکھ سے زیادہ رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس رجسٹرڈ ہوئے اور 1.38 لاکھ شکایات کو حل کیا گیا۔
  17. بھارت فی الحال 56 فعال خلائی اثاثے چلا رہا ہے۔ حکومت کے خلائی وژن 2047 میں گگن یان مشن اور چندریان -4 لونر سیمپل ریٹرن مشن جیسے پرجوش منصوبے شامل ہیں۔
  18. سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری اکیلے بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی، اور نجی شعبے کی شراکت داری اس خلا کو پر کرنے کے لیے اہم ہوگی۔
  19. حکومت نے بنیادی ڈھانچے میں نجی شعبے کی شمولیت کو آسان بنانے کے لیے نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن اور نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن جیسے میکانزم بنائے ہیں۔

صنعت:  کاروباری اصلاحات

  1. بجلی اور تعمیرات میں زبردست ترقی کی وجہ سے مالی سال 25 -25 (پہلے پیشگی تخمینے) میں صنعتی شعبے کی نمو کی شرح 6.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
  2. حکومت اسمارٹ مینوفیکچرنگ اور انڈسٹری 4.0 کو فعال طور پر فروغ دے رہی ہے، جس سے سمرتھ صنعت مراکز کے قیام میں مدد مل رہی ہے۔
  3. مالی سال 24 میں بھارتی آٹوموبائل کی گھریلو فروخت میں 12.5 فیصد اضافہ ہوا۔
  4. مالی سال 15 سے مالی سال 24 تک الیکٹرانک سامان کی گھریلو پیداوار میں 17.5 فیصد سی اے جی آر کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔
  5. 99 فیصد اسمارٹ فون اب مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں، جس سے درآمدات پر بھارت کا انحصار کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔
  6. مالی سال 24 میں فارماسیوٹیکل کا کل سالانہ کاروبار 4.17 لاکھ کروڑ روپے تھا، جو پچھلے پانچ برسوں میں اوسطا 10.1 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔
  7. ڈبلیو آئی پی او رپورٹ 2022 کے مطابق، بھارت عالمی سطح پر پیٹنٹ فائلنگ کے سرفہرست 10 دفاتر میں چھٹے نمبر پر ہے۔
  8. بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں(ایم ایس ایم ای) کا شعبہ بھارتی معیشت کے انتہائی متحرک شعبے کے طور پر ابھرا ہے۔
  9. ایم ایس ایم ای کو ایکویٹی فنڈنگ فراہم کرنے کے لیے حکومت نے 50,000 کروڑ روپے کے فنڈ کے ساتھ سیلف ریلائنٹ انڈیا فنڈ کا افتتاح کیا ہے۔
  10. حکومت ملک بھر میں کلسٹرتیار کرنے کے لیے مائیکرو اینڈ سمال انٹرپرائزز کلسٹر ڈیولپمنٹ پروگرام پر عمل درآمد کر رہی ہے۔

خدمات : پرانے شہسوار کے لیے نئے چیلنج

  1. مجموعی جی وی اے میں خدمات کے شعبے کی شراکت مالی سال 14 میں 50.6 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 25 میں 55.3 فیصد ہوگئی ہے۔
  2. ماقبل کورونا وبا کے برسوں (مالی سال 13-مالی سال 20) میں خدمات کے شعبے کی اوسط ترقی کی شرح 8 فیصد تھی۔مابعد  کورونا وبا کی مدت (مالی سال 23-مالی سال 25) میں یہ 8.3 فیصد تھی۔
  3. 2023 میں عالمی خدمات کی برآمدات میں بھارت کا حصہ 4.3 فیصد تھا اور وہ دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر تھا۔
  4. اپریل تا نومبر مالی سال 25 کے دوران بھارت کی خدمات کی برآمدات میں اضافہ 12.8 فیصد تک بڑھ گیا، جو مالی سال 24 میں 5.7 فیصد تھا۔
  5. انفارمیشن اور کمپیوٹر سے متعلق خدمات میں گذشتہ دہائی (مالی سال 13-مالی سال 23) کے دوران 12.8 فیصد کی رجحان کی شرح سے اضافہ ہوا، جس سے مجموعی جی وی اے میں ان کا حصہ 6.3 فیصد سے بڑھ کر 10.9 فیصد ہوگیا۔
  6. مالی سال 24 میں بھارتی ریلوے نے مسافروں کی آمدورفت میں 8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا۔ مالی سال 24 میں آمدنی حاصل کرنے والے مال برداری میں 5.2 فیصد اضافہ ہوا۔
  7. جی ڈی پی میں سیاحت کے شعبے کا حصہ مالی سال 23 میں کورونا وبا کے دورسے پہلے کی سطح 5 فیصد پر واپس آگیا۔

زراعت اور خوراک کا انتظام:  مستقبل کا شعبہ

  1. ’زراعت اور متعلقہ سرگرمیوں‘ کا شعبہ موجودہ قیمتوں پر مالی سال 24 (پی ای) کے لیے ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً 16 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔
  2. باغبانی، لائیو سٹاک اور ماہی گیری جیسے اعلیٰ قدر کے شعبے مجموعی طور پر زرعی ترقی کے اہم محرک بن گئے ہیں۔
  3. سال 2024 کے لیے خریف اناج کی پیداوار 1647.05 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی) تک پہنچنے کی توقع ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 89.37 لاکھ میٹرک ٹن زیادہ ہے۔
  4. مالی سال 2024-25 کے لیے ارہر اور باجرا کے لیے ایم ایس پی میں پیداواری اوسط لاگت سے بالترتیب 59 فیصد اور 77 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
  5. ماہی گیری کے شعبے میں سب سے زیادہ کمپاؤنڈ سالانہ ترقی کی شرح (سی اے جی آر) 8.7 فیصد ہے، اس کے بعد مویشیوں کی شرح نمو 8 فیصد ہے۔
  6. نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے) 2013 اور پردھان منتری غریب کلیان انا یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی) نے غذائی تحفظ کی پیش بینی  میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشان دہی کی۔
  7. مزید پانچ سال کے لیے پی ایم جی کے اے وائی کے تحت مفت اناج کی فراہمی فوڈ اینڈ نیوٹریشن سیکورٹی کے تئیں حکومت کے طویل مدتی عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
  8. 31 اکتوبر تک پی ایم کسان اسکیم کے تحت 11 کروڑ سے زیادہ کسان مستفید ہو چکے ہیں جب کہ 23.61 لاکھ کسان پی ایم کسان مندھن کے تحت رجسٹر شدہ  ہیں۔

آب و ہوا اور ماحولیات

  1. 2047 تک ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرنے کے بھارت کے عزائم بنیادی طور پر جامع اور پائیدار ترقی کے وژن سے تحریک پاتے ہیں۔
  2. بھارت نے غیر جیواشم آئندھن کے ذرائع سے 2,13,701 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت نصب کی ہے، جو 30 نومبر 2024 تک کل صلاحیت کا 46.8 فیصد ہے۔
  3. فاریسٹ سروے آف انڈیا 2024 کے مطابق 2005 اور 202 کے درمیان 2.29 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اضافی کاربن سنک بنایا گیا ہے۔
  4. بھارت کی زیر قیادت عالمی تحریک لائف اسٹائل فار انوائرنمنٹ (ایل آئی ایف ای) کا مقصد ملک کی پائیداری کی کوششوں کو بڑھانا ہے۔
  5. ایک اندازے کے مطابق 2030  تک ایل آئی ایف ای کے اقدامات سے صارفین کی کھپت میں کمی اور کم قیمتوں کے ذریعے عالمی سطح پر تقریباً 440 ارب ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔

سماجی شعبہ  :رسائی میں اضافہ اور بااختیار بنانا

  1. مالی سال 21 سے مالی سال 25 تک حکومت کے سماجی خدمات کے اخراجات (مرکز اور ریاستوں کے لیے مشترکہ) میں 15 فیصد کی مرکب سالانہ نمو کی شرح سے اضافہ ہوا۔
  2. کھپت کے اخراجات میں عدم مساوات کی پیمائش، گنی کوایفشنٹ (Gini coefficient) میں کمی آ رہی ہے۔ دیہی علاقوں کے لیے یہ 2022-23 میں 0.266 سے گھٹ کر 2023-24 میں 0.237 ہو گیا، اور شہری علاقوں کے لیے، یہ 2022-23 میں 0.314 سے گھٹ کر 2023-24 میں 0.284 ہو گیا۔
  3. حکومت کی مختلف مالیاتی پالیسیاں آمدنی کی تقسیم کو نئی شکل دینے میں مدد کر رہی ہیں۔
  4. صحت کے سرکاری اخراجات 29.0 فیصد سے بڑھ کر 48.0 فیصد ہو گئے۔ صحت کے کل اخراجات میں جیب سے باہر کے اخراجات کا حصہ 62.6 فیصد سے گھٹ کر 39.4 فیصد رہ گیا ہے، جس سے گھرانوں کو درپیش مالی مشکلات میں کمی آئی ہے۔
  5. آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (اے بی پی ایم-جے اے وائی) نے اخراجات میں نمایاں کمی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت ریکارڈ کی گئی ہے۔
  6. پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کی مقامی کاری (لوکلائزیشن)کی حکمت عملی کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنایا گیا ہے کہ گرام پنچایت کی سطح پر بجٹ ایس ڈی جی کے مقاصد کے مطابق ہوں۔

روزگار اور ہنر مندی کی ترقی:  وجودی ترجیحات

  1. بھارتی لیبر مارکیٹ کے اشاریوں میں بہتری آئی ہے اور بے روزگاری کی شرح 2023-24 (جولائی-جون) میں گھٹ کر 3.2 فیصد ہوگئی ہے جو 2017-18 (جولائی-جون) میں 6.0 فیصد تھی۔
  2. 10-24 سال کی عمر کے تقریباً 26 فیصد آبادی کے ساتھ، بھارت عالمی سطح پر سب سے کم عمر ممالک میں سے ایک کے طور پر ایک منفرد آبادیاتی مواقع کے لیے پرامید ہے۔
  3. خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے کریڈٹ تک آسان رسائی، مارکیٹنگ سپورٹ، ہنر مندی کی ترقی اور خواتین اسٹارٹ اپس کی مدد وغیرہ کے سلسلے میں متعدد اقدامات شروع کیے ہیں۔
  4. بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت اور قابل تجدید توانائی کے شعبے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بہتر مواقع فراہم کر رہے ہیں، جو وکست بھارت کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
  5. حکومت آٹومیشن، جنریٹیو مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹلائزیشن اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات جیسے ابھرتے ہوئے عالمی رجحانات کے ساتھ قدم ملانے کے لیے ایک لچک دار اور ذمہ دار ہنرمند ایکو سسٹم قائم کر رہی ہے۔
  6. حکومت نے روزگار کو فروغ دینے، خود روزگار کو فروغ دینے اور کارکنوں کی بہبود کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کو نافذ کیا ہے۔
  7. حال ہی میں شروع کی گئی پی ایم انٹرن شپ اسکیم روزگار پیدا کرنے کے لیے ایک تبدیلی لانے والے محرک کے طور پر ابھر رہی ہے۔
  8. پچھلے چھ برسوں میں ای پی ایف او کے تحت خالص پے رول میں اضافہ دوگنا سے زیادہ ہو گیا ہے، جو رسمی روزگار میں صحت مند ترقی کی نشان دہی کرتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے دور میں محنت:  بحران یا محرک؟

  1. مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ڈویلپرز ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہیں، جہاں معاشی طور پر قدر کے حامل کام کا ایک بڑا حصہ خودکاری پر مبنی  ہے۔
  2. توقع ہے کہ مصنوعی ذہانت صحت کی دیکھ بھال، تحقیق، فوجداری انصاف، تعلیم، کاروبار اور مالی خدمات سمیت مختلف شعبوں میں اہم فیصلہ سازی میں انسانی کارکردگی سے آگے نکل جائے گی۔
  3. بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں موجودہ دور میں بھی برقرار ہیں، جن میں قابل اعتماد ہونا، وسائل کی کم اہلی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کے خدشات شامل ہیں۔ یہ چیلنج، مصنوعی ذہانت کی تجرباتی نوعیت کے ساتھ، پالیسی سازوں کے لیے کام کرنے کے لیے ایک موقع ہیں۔
  4. خوش قسمتی سے، مصنوعی ذہانت اس وقت اپنے ابتدائی مراحل میں ہونے کی وجہ سے، بھارت کو اپنی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور ملک گیر ادارہ جاتی ردعمل کو متحرک کرنے کے لیے ضروری وقت مل رہا ہے۔
  5. اپنی نوجوان، متحرک اور ٹیکنالوجی شناس آبادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بھارت میں ایسی افرادی قوت تیار کرنے کی صلاحیت ہے جو اپنے کام اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرسکتی ہے۔
  6. مستقبل کا دارومدار ’آگمنٹڈ انٹیلی جنس‘ پر ہے، جہاں افرادی قوت انسانی اور مشینی دونوں صلاحیتوں کو انضمام ہوگا ۔ اس پیش بینی  کا مقصد انسانی صلاحیت کو بڑھانا اور ملازمت کی کارکردگی میں مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، بالآخر مجموعی طور پر معاشرے کو فائدہ پہنچانا ہے۔
  7. مصنوعی ذہانت سے ہونے والی تبدیلی کے منفی سماجی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے حکومت، نجی شعبے اور تعلیمی اداروں کے درمیان مشترکہ مساعی ضروری ہیں۔

***

(ش ح – ع ا)

U. No. 5861


(Release ID: 2097999) Visitor Counter : 18