وزیراعظم کا دفتر
شری سوامی نارائن مندر کے 200 ویں سال کی تقریبات میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
11 NOV 2024 2:53PM by PIB Delhi
جے سوامی نارائن!
بھگوان شری سوامی نارائن کے چرنوں میں پرنام کرتا ہوں۔ بھگوان شری سوامی نارائن کی مہربانی سے، وڈتال دھام میں دو صد سالہ جشن کا ایک عظیم الشان پروگرام چل رہا ہے۔ ہندوستان اور بیرون ملک سے تمام ہری بھگت آئے ہیں اور سوامی نارائن کی یہ روایت ہے کہ خدمت کے بغیر ان کا کوئی کام آگے نہیں بڑھتا۔ آج لوگ بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ خدمت کے کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ میں نے پچھلے کچھ دنوں ٹی وی پر اس تقریب کی تصاویر دیکھیں ، میڈیا میں ، سوشل میڈیا میں جو ویڈیوز دیکھے، وہ دیکھ کر میری خوشی کئی گنا بڑھ گئی۔
ساتھیو،
وڈتال دھام کے قیام کے 200 سال یہ دو صد سالہ جشن ، یہ صرف ایک پروگرام یا تاریخ کی تاریخ نہیں ہے۔ یہ میرے جیسے ہر شخص کے لیے جو وڈتال دھام میں منفرد عقیدت کے ساتھ بڑا ہوا ہے، اس کے لئے بہت بڑا موقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے لیے یہ موقع ہندوستانی ثقافت کے لازوال بہاؤ کا ثبوت ہے۔ 200 سال پہلے جس وڈتال دھام کا قیام بھگوان شری سوامی نارائن کے ذریعے ہوا تھا۔ ہم نے آج بھی اس کے روحانی شعور کو بیدار رکھا ہے۔ ہم آج بھی یہاں بھگوان شری سوامی نارائن کی تعلیمات کو، ان کی توانائی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ میں تمام سنتوں کے چرنوں میں پرنام کرتے ہوئے آپ سب کو اور تمام ہم وطنوں کو دو سو سالہ تقریبات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت ہند نے اس موقع پر 200 روپے کا چاندی کا سکہ اور ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے۔ یہ علامتیں آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں اس عظیم موقع کی یادوں کو زندہ کرتی رہیں گی۔
ساتھیو،
بھگوان سوامی نارائن سے وابستہ ہر شخص جانتا ہے کہ میرا اس روایت سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ ہمارے راکیش جی بیٹھے ہیں وہاں ، میرا ان سے ناطہ کیسا ہے، کتنا پرانا ہے، وہ کبھی آپ کو بتائیں گے۔ یہ رشتہ روحانی بھی ہے، باطنی بھی اور سماجی بھی۔ جب میں گجرات میں تھا تو سنتوں کی قربت اور ستسنگ میرے لئے آسانی سے میسر تھا۔ وہ میرے لیے خوش قسمت لمحات تھے اور میں نے بھی اس لمحے کو اپنے دل کے اطمینان کے ساتھ گزارا۔ بھگوان سوامی نارائن کی مہربانی سے، یہ سلسلہ آج بھی بلاواسطہ نہیں تو بالواسطہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ مجھے کئی مواقع پر سنتوں کے آشیرواد کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ملک کے لیے بامعنی سوچ کا موقع ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں آج خود وڈتال دھام کے اس مقدس تہوار میں موجود ہوتا۔ میری خواہش تو بہت تھی کہ آپ کے درمیان بیٹھوں اور کافی پرانی باتیں یاد کروں اور فطری بات ہے کہ آپ کو بھی اچھا لگے اور مجھے بھی اچھا لگے۔ لیکن ذمہ داریوں اور مصروفیت کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ لیکن میں اپنے دل سے آپ سب کے درمیان ہوں۔ اس وقت میرا من پوری طرح وڈتال دھام میں ہی ہے۔
ساتھیو،
قابل صد احترام سنتوں، ہمارے ہندوستان کی یہ خاصیت رہی ہے کہ یہاں جب جب بھی مشکل وقت آیا ہے، کوئی نہ کوئی رشی، مہارشی، سنت، مہاتما اسی دور میں جنم لیا ہے۔ بھگوان سوامی نارائن کی آمد بھی ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ملک سینکڑوں سال کی غلامی کے بعد کمزور ہو چکا تھا۔ خود پر سے اعتماد ختم ہو گیا تھا۔ وہ خود کو ہی کوسنے میں مصروف تھا۔ پھر بھگوان سوامی نارائن نے ہمیں اس دور کے سبھی سنتوں نے ہمیں نئی روحانی توانائی بخشی۔ انہوں نے ہماری عزت نفس کو جگایا اور ہماری شناخت کو زندہ کیا۔ اس سمت میں شکشاپتری اور وچنامرت کا تعاون بہت بڑا ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ان کی تعلیمات کو اپنائیں اور انہیں آگے بڑھائیں۔
مجھے خوشی ہے کہ وڈتال دھام آج اسی تحریک سے انسانیت کی خدمت اور زمانے کی تخلیق کا ایک عظیم ادارہ بن گیا ہے۔ اسی وڈتال دھام نے ہمیں محروم سماج سے سگ رام جی جیسے بھگت دیے ہیں۔ آج یہاں کتنے ہی بچوں کی خوراک کا ، رہائش کا ، تعلیم کا اور اتنا ہی نہیں دور دراز جنگلات میں بھی بہت سے خدمت کے کام آپ سب کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ آپ لوگ قبائلی علاقوں میں بیٹیوں کی تعلیم جیسی اہم مہم چلا رہے ہیں۔ غریبوں کی خدمت، نئی نسل کی تخلیق، جدیدیت اور روحانیت کو ملا کر ہندوستان کی ثقافت کو بچانا، آج ایک بہتر مستقبل کے لیے جو مہم چل رہی ہے، صفائی ستھرائی سے لے کر ماحولیات تک، میں نے جتنی بھی اپیلیں کی ہیں مجھے خوشی ہے کہ آپ سب سنتوں نے، بھگتوں نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ میری ہر بات آپ نے اپنی خود کی بات مان لیا۔ اپنی خود کی ذمہ داری مان لیا اور آپ جی جان سے اس کو پورا کرنے میں لگے رہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ میں نے گزشتہ دنوں جو ایک کال دی تھی، ایک پیڑ ماں کے نام... اپنی خود کی ماں کے نام پر ایک پیڑ لگائیں… ایک پیڑ ماں کے نام... اس مہم میں سوامی نارائن خاندان نے ایک لاکھ سے زیادہ درخت لگائے ہیں۔
ساتھیو،
ہر انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے، لائف کا کوئی پرپز ہوتا ہے۔ یہ مقصد ہی ہماری زندگی کا تعین کرتا ہے۔ ہمارے من ، اعمال اور الفاظ کو متاثر کرتا ہے۔ جب ہمیں اپنی زندگی کا مقصد مل جاتا ہے تو پوری زندگی بدل جاتی ہے۔ ہمارے سنتوں اور مہاتماؤں نے ہر دور میں انسان کو اپنی زندگی کے مقاصد کا احساس دلایا ہے۔ ان سنتوں اور مہاتماؤں نے ہمارے معاشرے کی بہت خدمت کی ہے۔ جب کسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے پورا معاشرہ، پورا ملک اکٹھا ہوجاتا ہے تو وہ ضرور پورا ہوتا ہے اور اس کی پہلے بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ہم نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ ہمارے سنتوں نے کرکے دکھایا ہے۔ ہمارے معاشرے نے کرکے دکھایا ہے۔ ہمارے مذہبی اداروں نے یہ کرکے دکھایا ہے۔
آج ہمارے نوجوانوں کے سامنے ایک بہت بڑا مقصد ابھرا ہے۔ پورا ملک ایک طے شدہ ہدف کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ مقصد ہے – وکست بھارت کا… میں وڈتال کے اور پورے سوامی نارائن خاندان کے سنتوں اور مہاتماؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ وکست بھارت کے اس مقدس مقصد، عظیم مقصد، اس کے ساتھ عوام کو جوڑیں، جیسے تحریک آزادی میں ایک صدی تک سماج کے مختلف گوشوں سے آزادی کی للک، آزادی کی چنگاری اہل وطن کو تحریک دیتی رہی ہے۔ ایک بھی دن ، ایک بھی پل ایسا نہیں گیا کہ جب لوگوں نے آزادی کے ارادوں کو چھوڑا، خوابوں کوچھوڑا، عزائم کو چھوڑا، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جیسی تڑپ آزادی کی تحریک میں تھی ویسی ہی تڑپ، ویسا ہی شعور وکست بھارت کے لئے 140 کروڑ ہم وطنوں میں ہر لمحہ ہونا ضروری ہے۔
آپ سب اور ہم سب مل کر لوگوں کو ترغیب دیں کہ آنے والے 25 سال تک ہم سب کو اور خاص کر ہمارے نوجوان ساتھیوں کو وکست بھارت کے مقصد کو جینا ہے۔ پل پل جینا ہے۔ ہر پل اس کے لیے اپنے آپ کو جوڑ کے رکھنا ہے۔ اس کے لیے جو جہاں ہے، وہیں سے اپنا تعاون دینا شروع کر دے۔ جب وہ وکست بھارت کے لیے تعاون دے گا، وہ جہاں ہوگا وہیں سے اس کا فائدہ ملے گا ہی۔ اب جیسے ہم لگاتار کہتے ہیں کہ وکست بھارت بننے کی پہلی شرط ہے ہمیں آتم نربھر بھارت بنانا۔ اب آتم نربھر بھارت بنانے کے لیے کوئی باہر والا کام نہیں آئے گا، ہمیں ہی کرنا پڑےگا۔ 140 کروڑ اہل وطن کو ہی کرنا پڑےگا۔ یہاں بیٹھے ہوئے سب ہری بھگتوں کو ہی کرنا پڑےگا اور اس کی شروعات کہاں سے کریں گے، شروعات ہوتی ہے ووکل فار لوکل، ووکل فار لوکل کو بڑھاوا دیا جا سکتا ہے۔وکست بھارت کے لیے ہماری یکجہتی، ملک کی سالمیت وہ بھی بہت ضروری ہے۔ آج اس بدقسمتی سے ذاتی مفاد کے لیے چھوٹی سمجھ کی وجہ سے ہندوستان کے روشن مستقبل کے شاندار مقاصد کو فراموش کرکے کچھ لوگ سماج کو ذات پات میں، مذہب میں، زبان میں، اونچ اور نیچ میں،خواتین اور مردوں میں، گاؤں اور شہر میں، نہ جانے کس طرح سے ٹکڑے ٹکڑے ٹکڑ میں بانٹنے کی سازش چل رہی ہے۔ ضروری ہے کہ ملک مخالفین کی اس کوشش ا کو، ہم اس کی سنجیدگی کو سمجھیں۔ اس بحران کو سمجھیں اور ہم سب کو مل کر ایسے کارناموں کو شکست دینی ہی ہوگی۔ ہمیں مل کر کے ناکام کرنا ہوگا۔
ساتھیو،
بھگوان شری سوامی نارائن نے بتایا ہے کہ بڑے مقاصد سخت کوششوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا ملک کو فیصلہ کن سمت دکھانے کی اہلیت نوجوان من میں ہوتی ہے۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ نوجوان ملک کی تعمیر کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ اس کے لیے ہمیں باصلاحیت ، اہل اور تعلیم یافتہ نوجوان تیار کرنے ہوں گے۔ وکست بھارت کے لیے ہمارے نوجوان باصلاحیت ہونے چاہیئں۔ ہنر مند نوجوان ہماری سب سے بڑی طاقت بنیں گے۔ ہمارے نوجوانوں کی گلوبل ڈیمانڈ اور بڑھنے والی ہے۔ آج میں دنیا کے جن جن لیڈروں سے ملتا ہوں، زیادہ تر لیڈروں کی توقع رہتی ہے کہ ہندوستان کے نوجوان ہندوستان کی ہنر مند افرادی قوت، بھارت کے آئی ٹی سیکٹر کے نوجوان ان کے ملک میں جائیں، ان کے ملک میں کام کریں۔ پوری دنیا ہندوستان نوجوانوں کی صلاحیت کی طرف راغب ہے۔ یہ نوجوان ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی ضرورتیں بھی پوری کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس سمت میں بھی ہماری کوششیں ملک کی تعمیر میں بہت بہت معاون ہوں گی۔ میں ایک اور اپیل بھی آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔ سوامی نارائن فرقہ ہمیشہ نشہ سے آزادی پر بہت کام کرتا رہا ہے۔ نوجوانوں کو نشہ سے دور رکھنا، انہیں نشہ سے آزاد بنانے میں ہمارے سنت، مہاتما، ہری بھگت بہت بڑی خدمت کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو نشہ سے بچانے کے لیے ایسی مہم اور ایسی کوششیں ہمیشہ ضروری ہوتی ہیں، ہر سماج میں ضروری ہوتی ہیں۔ ملک کے ہر کونے میں ضروری ہوتی ہیں اور یہ ہمیں مسلسل کرنا ہوگا۔
ساتھیو،
کوئی بھی ملک اپنی وراثت پر فخر کرتے ہوئے، اس کا تحفظ کرتے ہوئے ہی آگے بڑھ سکتا ہے اور اس لئے ہمارا تو منتر ہے وکاس بھی، وراثت بھی ۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج ہماری وراثت کے ہزاروں سال پرانے مراکز کا فخر لوٹ رہا ہے، جسے سمجھ لیا گیا تھا کہ ختم ہوگیا ہے وہ پھر سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اب ایودھیا کی مثال سب کے سامنے ہے۔ 500 سال کے بعد ایک خواب پورا ہونا مطلب 500 سال تک کتنی ہی نسلوں نے اس خواب کو جیا ہے۔ اس خواب کے لیے جدو جہد کرتے رہے ہیں، ضرورت پڑی توقربانیاں دیتے رہے ہیں، تب جا کے ہوا ہے۔ آج کاشی کا اور کیدار کی جو کایاپلٹ ہوئی ہے، یہ مثال ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے پاواگڑھ میں 500 سال بعد مذہب کا پرچم لہرایا، 500 سال بعد... ہمارا موڈھیرا کا سوریہ مندر دیکھ لیجئے، آج ہمارا سومناتھ ہے، دیکھ لیجئے۔ چاروں طرف، ایک نیا شعور، نیا انقلاب دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اتنا ہی نہیں ہمارے ملک سے چوری ہوئی سیکڑوں سال پرانی مورتیاں، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، آج ڈھونڈ ڈھونڈ کر کے دنیا سے ہماری جو مورتیاں چوری گئیں، ہمارے دیوی دیوتاؤں کے روپوں کو چوری کر لیا گیا تھا۔ وہ واپس آ رہی ہیں، ہمارے مندروں میں لوٹ رہی ہیں۔ اور ہم گجرات کے لوگ تو دھولا ویرا کو لیکر کے کتنا فخر کرتے ہیں۔ لوتھل کو لیکر کے کتنا فخر کرتے ہیں کہ یہ ہماری قدیم شان کی وراثت ہے۔ اب اس کو بھی دوبارہ قائم کرنے کا کام ہو رہا ہے اور ہندوستان کے ثقافتی شعور کی یہ مہم ، یہ صرف حکومت کی مہم نہیں ہے۔ اس میں اس سرزمین کو، اس ملک کو پیار کرنے والے، یہاں کی روایت کو پیار کرنے والے، یہاں کی ثقافت پر فخر کرنے والے، ہماری وراثت کی تعریف کرنے والے، ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم سب کا بہت بڑا رول ہے اور آپ تو بہت بڑی تحریک دے سکتے ہیں۔وڈتال دھام میں بھگوان سوامی نارائن کے زیادہ نوادرات کا میوزیم اکشر بھون، یہ بھی اسی مہم کا ایک حصہ ہے اور میں اس کے لیے آپ سب کو بہت مبارک باد دیتا ہوں کیونکہ میوزیم نئی پیڑھی کے لوگوں کو بہت ہی کم وقت میں متعارف کرواتا ہے۔ مجھے یقین ہے اکشر بھون ہندوستان کی لافانی روحانی وراثت کا ایک شاندار مندر بنےگا۔
ساتھیو،
میں مانتا ہوں کہ ان کوششوں سے ہی وکست بھارت کا مقصد پورا ہوگا۔ جب 140 کروڑ ہندوستانی ایک یکساں مقصد کو پورا کرنے کے لیے جڑ جائیں گے، تو اسے آسانی سے حاصل کر سکیں گے۔ اس سفر کو پورا کرنے میں ہمارے سنتوں کی رہنمائی بہت اہم ہے اور جب اتنی بڑی تعداد میں ہزاروں سنت یہاں بیٹھے ہیں، ملک و بیرون ملک سے آئے ہوئے ہری بھگت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور جب میں اپنے ہی گھر میں ایک طرح سے جب باتیں کر رہا ہوں تو میں ایک اور کام کے لیے بھی آپ کو جوڑنا چاہتا ہوں۔ اس بار پریاگ راج میں پورن کمبھ ہو رہا ہے۔ 12 سال کے بعد ایک پورن کمبھ آتا ہے۔ ہمارے ہندوستان کی عظیم وراثت ہے۔ اب تو دنیا نے بھی اس وراثت کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ 13 جنوری سے قریب 45 دن تک 40-50 کروڑ اس کمبھ میلے میں آتے ہیں۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کیا آپ یہ کام کر سکتے ہیں؟ دنیا بھر میں آپ کا کام ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں آپ کے مندر ہے۔ کیا آپ طے کر سکتے ہیں کہ اس بار یہ کمبھ کا میلہ کیا ہوتا ہے، کیوں ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کیا سماجی سوچ رہی ہوئی ہے۔ وہاں لوگوں کو تعلیم دیں اور جو ہندوستانی نسل کے نہیں ہے، غیر ملکی لوگ ہیں، ان کو سمجھائیں یہ کیا ہے اور کوشش کریں کہ بیرونی ممالک میں آپ کی ایک ایک شاخ کم سے کم 100 غیر ملکی لوگوں کو بڑی عقیدت کے ساتھ یہ پریاگ راج کے کمبھ میلہ کے درشن کرنے کے لیے لے آئیے۔ پوری دنیا میں ایک شعور لانے کا کام ہوگا اور یہ آپ آسانی سے کر سکتے ہیں۔
میں پھر ایک بار وہاں خود نہیں آ پایا ہوں اس کے لیے معذرت کرتے ہوئے، آپ نے ویڈیو کانفرنسنگ سے بھی آپ سب کے درشن مجھے دیے۔ مجھے سب سنتوں کے درشن کرنے کا موقع ملا۔ سارے واقف چہرے میرے سامنے ہیں۔ میرے لیے بہت خوشی کا لمحہ ہے کہ آج میں دور سے ہی آپ سب کے درشن کر پا رہا ہوں۔ اس دو صد سالہ جشن کے لیے میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔
بہت بہت مبارکباد! آپ سب کا شکریہ!
جے سوامی نارائن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ ا گ۔ن م۔
U- 2330
(Release ID: 2072430)
Visitor Counter : 32