وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

وزیر اعظم نے پریکشا پہ چرچہ 2024 کے دوران طلباء، اساتذہ اور والدین سے بات چیت کی


‘‘اپنے بچوں میں لچک پیدا کرنا اور دباؤ سے نمٹنے میں ان کی مدد کرنا بہت ضروری ہے’’

‘‘والدین اور اساتذہ کو آپس میں مل کر طلباء کے چیلنجز کو حل کرنا چاہیے’’

‘‘صحت مند مقابلہ طلباء کی ترقی کے لیے اچھا ہے’’

‘‘اساتذہ بطور ملازم اپنا کردار ادا نہیں کرتے، بلکہ وہ طلباء کی زندگیوں کو سنوارنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں’’

‘‘والدین اپنے بچوں کے رپورٹ کارڈ کو اپنا وزیٹنگ کارڈ نہ بنائیں’’

‘‘طلبہ اور اساتذہ کا رشتہ نصاب اور کتاب سے ماورا ہونا چاہیے’’

‘‘اپنے بچوں کے درمیان مسابقت اور دشمنی کے بیج کبھی نہ بوئیں۔ بلکہ بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کے لیے تحریک ہونا چاہیے’’

‘‘اپنے تمام کاموں اور مطالعہ میں پرعزم اور فیصلہ کن ہونے کی کوشش کریں’’

‘‘جہاں تک ممکن ہو جوابات لکھنے کی مشق کریں۔ اگر آپ کے پاس یہ مشق ہے تو، امتحان ہال کا زیادہ تر دباؤ دور ہو جائے گا’’

‘‘ٹیکنالوجی بوجھ نہیں بننی چاہیے۔ اسے سمجھداری سے استعمال کریں’’

‘‘صحیح‘ وقت جیسی کوئی چیز نہیں ہے، لہٰذا اس کا انتظار نہ کریں۔ چیلنجز آتے رہیں گے، اور آپ کو ان چیلنجوں کو چیلنج کرنا ہوگا’’

‘‘اگر لاکھوں چیلنجز ہیں تو اربوں حل بھی ہیں’’

‘‘ناکامیوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہر غلطی ایک نیا سبق ہے’’

‘‘میں جتنا زیادہ اپنے ہم وطنوں کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہوں، چیلنجوں کو چیلنج کرنے کی میری صلاحیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے’’

‘‘صحیح حکمرانی کے لیے بھی نیچے سے اوپر تک کامل معلومات کا نظام اور اوپر سے نیچے تک کامل رہنمائی کا نظام ہونا چاہیے’’

‘‘میں نے اپنی زندگی میں مایوسی کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دی ہیں’’

‘‘جب کوئی خود غرضی نہ ہو، تو فیصلہ لینے میں کبھی الجھن نہیں ہوتی’’

Posted On: 29 JAN 2024 1:39PM by PIB Delhi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں پریکشا پہ چرچا (پی پی سی) کے 7ویں ایڈیشن کے دوران بھارت منڈپم میں طلباء، اساتذہ اور والدین سے بات چیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے آرٹ اور کرافٹس کی نمائش کا جائزہ بھی لیا۔ پی پی سی ایک ایسی تحریک ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی کی کوششوں سے چلتی ہے جس میں طلباء، والدین، اساتذہ اور معاشرے کو ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے جہاں ہر بچے کی منفرد انفرادیت کا جشن منایا جا سکے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائےاور اسے مکمل طور پر اظہار خیال کی اجازت دی جائے۔

طلباء، اساتذہ اور والدین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نمائش میں طلباء کی ان تخلیقات کا ذکر کیا جہاں انہوں نے مختلف شکلوں میں نئی قومی تعلیمی پالیسی جیسی امنگوں اور تصورات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نمائشیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ نئی نسلیں مختلف موضوعات کے بارے میں کیا سوچتی ہیں اور ان کے پاس ان مسائل کا کیا حل ہے۔

اپنی بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے طلباء کو مقام، یعنی بھارت منڈپم کی اہمیت کی وضاحت کی اور انہیں جی 20 سربراہ اجلاس کے بارے میں بتایا جہاں دنیا کے تمام بڑے لیڈر جمع ہوئے تھے اور دنیا کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

بیرونی دباؤ اور تناؤ

عمان کے ایک پرائیویٹ سی بی ایس ای اسکول سے دانیہ شبو اور دہلی کے براڑی میں واقع گورنمنٹ سروودیہ بال ودیالیہ سے محمد عرش نے بیرونی عوامل جیسے کہ ثقافتی اور سماجی توقعات سے نمٹنے کی بات اٹھائی، جو طلباء پر اضافی دباؤ کا سبب بنتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ثقافتی اور سماجی توقعات سے متعلق سوالات پی پی سی میں ہمیشہ آتے رہے ہیں، حالانکہ یہ 7 واں ایڈیشن ہے۔ انہوں نے طلباء پر بیرونی عوامل کے اضافی دباؤ کے اثرات کو کم کرنے میں اساتذہ کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ والدین کو وقتاً فوقتاً اس کا تجربہ کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو دباؤ سے نمٹنے کے قابل بنانے اور اس کے لیے تیاری کو زندگی کا حصہ بنانے کا مشورہ دیا۔ مثال کے طور پر  وزیر اعظم نے طلباء سے اپیل کی کہ وہ ایک شدید موسمی حالات والے علاقہ سے کسی دوسرے علاقے کی طرف (جہاں ویسا شدید موسم نہ ہو) سفر کرنے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کریں، جہاں کے لوگوں کا ذہن پہلے سے ہی شدید موسمی حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ انہوں نے تناؤ کی سطح کا اندازہ لگانے اور اسے بتدریج بڑھاتے ہوئے آگے بڑھنے کا مشورہ بھی دیا تاکہ طالب علم کی صلاحیت اس سے متاثر نہ ہو۔ جناب مودی نے طلباء، خاندانوں اور اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ ایک منظم نظریہ کو نافذ کرنے کی بجائے عمل کو تیار کرتے ہوئے بیرونی تناؤ کے مسئلے کو اجتماعی طور پر حل کریں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ طلباء کے اہل خانہ کو مختلف طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے جو ان میں سے ہر ایک کے لیے کارآمد ہوں۔

ساتھیوں کا دباؤ اور دوستوں کے درمیان مقابلہ

انڈمان اور نکوبار جزائر کے گورنمنٹ ڈیمانسٹریشن ملٹی پرپز اسکول سے بھاگیہ لکشمی، گجرات کے جے این وی پنچ محل سے درشٹی چوہان اور کیرالہ کے کالی کٹ میں واقع کیندریہ ودیالیہ سے سواتی دلیپ کے ذریعہ اٹھائے گئے ساتھیوں کے دباؤ اور دوستوں کے درمیان مسابقت کے مسئلے پر خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے مقابلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ تاہم، انہوں نے زور دے کر کہا کہ مقابلہ صحت مند ہونا چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اکثر خاندانی حالات میں غیر صحت مند مسابقت کے بیج بوئے جاتے ہیں جس سے بہن بھائیوں میں ٹیڑھی مسابقت جنم لیتی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے والدین سے کہا کہ وہ بچوں کے درمیان موازنہ سے گریز کریں۔ وزیر اعظم نے ایک ویڈیو کی مثال دی جس میں بچوں نے صحت مندانہ انداز میں مقابلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امتحانات میں اچھا کرنا صفر کا کھیل نہیں ہے اور مقابلہ اپنے آپ سے ہوتا ہے کیونکہ دوست کی اچھی کارکردگی میدان کو اچھی کارکردگی کے لیے محدود نہیں کرتی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ رجحان ان لوگوں سے دوستی کرنے کے رجحان کو جنم دے سکتا ہے، جو اچھے ساتھی نہیں بن پائیں گے۔ انہوں نے والدین سے بھی کہا کہ وہ اپنے بچوں کا دوسرے بچوں سے موازنہ نہ کریں۔ انہوں نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بچوں کی کامیابی کو اپنا وزیٹنگ کارڈ نہ بنائیں۔ وزیر اعظم مودی نے طلباء سے کہا کہ وہ اپنے دوستوں کی کامیابی پر خوشی منائیں۔ ’’دوستی کوئی لین دین کا جذبہ نہیں ہے،‘‘ وزیر اعظم نے کہا۔

طلباء کی حوصلہ افزائی میں اساتذہ کا کردار

طلباء کی حوصلہ افزائی میں اساتذہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے آندھرا پردیش کے اُپّرا پلّی میں واقع زیڈ پی ہائی اسکول کے میوزک ٹیچر جناب کونڈاکانچی سمپت راؤ اور آسام کے شیو ساگر سے تعلق رکھنے والے استاد بنٹی میڈی کے سوالات کا جواب دیا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ موسیقی میں صرف ایک جماعت کے ہی نہیں، بلکہ پورے اسکول کے طلباء کے تناؤ کو دور کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جناب مودی نے کلاس کے پہلے دن سے لے کر امتحان کے وقت تک بتدریج طلباء اور اساتذہ کے درمیان رشتے کو مضبوط کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے امتحانات کے دوران تناؤ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے اساتذہ پر بھی زور دیا کہ وہ پڑھائے جانے والے مضامین کی بنیاد پر طلباء کے ساتھ منسلک ہونے کی بجائے اپنے آپ کو ان کے لیے زیادہ قابل رسائی بنائیں۔ ڈاکٹروں کی مثال دیتے ہوئے جو اپنے مریضوں سے ذاتی تعلق رکھتے ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ اس طرح کا رشتہ آدھا علاج کا کام کرتا ہے۔ انہوں نے خاندانوں کے ساتھ ذاتی رابطہ قائم کرنے اور طلباء کو ان کے سامنے ان کی کامیابیوں کی تعریف کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ ’’اساتذہ بطور ملازم اپنا کردار ادا نہیں کرتے، بلکہ وہ طلباء کی زندگیوں کو سنوارنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔‘‘

امتحان کے دباؤ سے نمٹنا

مغربی تریپورہ کے پرن وندا بدیا مندر کی طالبہ ادرتا چکربورتی، چھتیس گڑھ کے بستر میں واقع جواہر نوودیہ ودیالیہ کے طالب علم شیخ طیف الرحمان اور اوڈیشہ کے کٹک میں واقع آدرش ودیالیہ کی طالبہ راجیہ لکشمی آچاریہ نے وزیر اعظم سے امتحان کے دباؤ سے نمٹنے کے بارے میں پوچھا۔ وزیر اعظم نے والدین کے زیادہ جوش یا طلباء کے زیادہ اخلاص کی وجہ سے غلطیوں سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے والدین سے کہا کہ وہ امتحان کے دن کو نئے کپڑوں، رسومات یا کاپی کتاب کے ذریعہ بڑا بنانے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے طلباء سے یہ بھی کہا کہ وہ آخری لمحے تک تیاری نہ کریں اور پر سکون ذہن کے ساتھ امتحان دینے جائیں اور کسی بھی بیرونی تباہی سے بچیں جو ناپسندیدہ تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ سوال کے پرچے کو  پڑھیں اور آخری لمحات میں گھبراہٹ سے بچنے کے لیے وقت کو اچھی طرح ترتیب دیں۔ وزیراعظم نے طلباء کو یاد دلایا کہ زیادہ تر امتحانات ابھی تحریری ہیں اور کمپیوٹر اور فون کی وجہ سے لکھنے کی عادت ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے طلباء سے اپنی لکھنے کی عادت کو برقرار رکھنے کے لیے کہا۔ وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ وہ اپنے پڑھنے/مطالعے کا 50 فیصد وقت لکھنے میں وقف کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ کچھ لکھتے ہیں تو آپ اسے صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ان سے کہا کہ وہ دوسرے طلباء کی رفتار سے گھبرائیں نہیں۔

صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنا

امتحان کی تیاری اور صحت مند طرز زندگی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے، راجستھان کے سینئر سیکنڈری اسکول کے طالب علم دھیرج سبھاش، لداخ کے کرگل میں واقع پی ایم شری کیندریہ ودیالیہ کی طالبہ نجمہ خاتون اور ابھیشیک کمار تیواری، اور اروناچل پردیش کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کے ایک استاد ٹوبی لہمے نے وزیر اعظم سے ورزش کے ساتھ ساتھ پڑھائی کے انتظام کے بارے میں پوچھا۔ وزیراعظم نے جسمانی صحت کا خیال رکھنے کی ضرورت کو واضح کرنے کے لیے موبائل فون کو ری چارج کرنے کی ضرورت کا ذکر کیا۔ انہوں نے متوازن طرز زندگی کو برقرار رکھنے اور ہر چیز کی زیادتی سے گریز کرنے کو کہا۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’صحت مند جسم صحت مند دماغ کے لیے ضروری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ صحت مند رہنے کے لیے کچھ معمولات کی ضرورت ہوتی ہے اور سورج کی روشنی میں وقت گزارنے اور باقاعدہ اور مکمل نیند لینے کے لیے کہا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسکرین ٹائم (موبائل یا کمپیوٹر کو لگاتار دیکھنے) جیسی عادتیں مطلوبہ نیند کو کم کر  رہی ہیں، حالانکہ جدید ہیلتھ سائنس کی نظر میں یہ بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی سونے کے 30 سیکنڈ کے اندر گہری نیند میں جانے کا نظام برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جاگتے وقت پوری طرح جاگنا اور سوتے وقت اچھی نیند لینا، ایک ایسا توازن ہے جسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ غذائیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے متوازن غذا پر زور دیا۔ انہوں نے فٹنس کے لیے باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

کریئر کو آگے بڑھانا

کیندریہ ودیالیہ، بیرک پور، شمالی 24 پرگنہ، مغربی بنگال کی مدھومیتا ملک اور ہریانہ کے پانی پت میں واقع دی ملینیم اسکول کی ادیتی تنور کے ذریعہ اٹھائے گئے سوال پر کریئر کو آگے بڑھانے کے بارے میں بتاتے ہوئے وزیر اعظم نے مشورہ دیا کہ جب کریئر کے راستے کی بات آئے، تو وضاحت حاصل کی جانی چاہیے اور الجھن اور فیصلہ نہ لینے کی عادت سے گریز کرنا چاہیے۔ صاف صفائی اور اس کے پیچھے وزیر اعظم کے عزم کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ’سووچھتا‘ ملک میں ایک ترجیحی شعبہ بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آرٹ اور ثقافت کے شعبے میں ہندوستان کی مارکیٹ گزشتہ 10 سالوں میں 250 گنا بڑھی ہے۔ ’’اگر ہمارے پاس صلاحیت ہے، تو ہم کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں،‘‘ وزیر اعظم مودی نے طلباء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو کم تر نہ سمجھیں۔ انہوں نے پوری لگن کے ساتھ سب کچھ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ایک دھارے کا پابند ہونے کی بجائے مختلف کورسز کو اپنانے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس موقع پر نمائش میں طلباء کی شرکت، مہارت اور لگن کی تعریف کی اور اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی اسکیموں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ان کے ذریعہ کیا جانے والا کام حکومت ہند کی اطلاعات و نشریات کی وزارت کے مقابلے بہت بہتر ہے۔ ’’ہمیں الجھن کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن ہونا چاہیے،‘‘ وزیر اعظم مودی نے ایک ریستوراں میں کھانے کا آرڈر دینے کی مثال دیتے ہوئے کہا جہاں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا کھانا ہے۔ انہوں نے کیے جانے والے فیصلوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے کا مشورہ بھی دیا۔

والدین کا کردار

پڈوچیری گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کی ایک طالبہ دیپاسری، جو دہلی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پروگرام میں شامل ہوئی، نے وزیر اعظم سے والدین کے کردار کے بارے میں پوچھا کہ طلباء کس طرح اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے خاندانوں میں اعتماد کی کمی پر بات کی اور والدین اور اساتذہ سے کہا کہ وہ اس سنگین مسئلے سے نمٹیں۔ انہوں نے کہا کہ اعتماد کی کمی اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہے اور اس کے لیے ہر ایک کو اپنے طرز عمل کا گہرائی سے محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، خواہ وہ اساتذہ ہوں، والدین ہوں یا طلباء۔ انہوں نے کہا کہ ایماندارانہ بات چیت عدم اعتماد کے امکانات کو کم کر سکتے ہیں۔ طلباء کو اپنے معاملات میں مخلص اور ایماندار ہونا چاہیے۔ اسی طرح والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر شک کی بجائے اعتماد کا اظہار کریں۔ اعتماد کی کمی سے پیدا ہونے والا فاصلہ بچوں کو ڈپریشن میں دھکیل سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے اساتذہ سے کہا کہ وہ طلباء کے ساتھ رابطے کے ذرائع کھلے رکھیں اور جانبداری سے گریز کریں۔ انہوں نے ایک تجربہ کرنے کے لیے کہا اور دوستوں کے خاندانوں سے باقاعدگی سے ملنے اور مثبت چیزوں پر بات کرنے کی درخواست کی جو بچوں کی مدد کر سکتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کی مداخلت

مہاراشٹر کے پونے سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کے والد چندریش جین نے طلباء کی زندگیوں میں ٹیکنالوجی کی مداخلت کا مسئلہ اٹھایا اور جھارکھنڈ کے رام گڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک طالب علم کی والدہ کماری پوجا شریواستو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی کثرت کے دور میں مطالعہ کے انتظام کے بارے میں پوچھا۔ ٹی آر ڈی اے وی اسکول، کانگو، ہمیر پور، ہماچل پردیش کے ایک طالب علم ابھینو رانا نے امتحان کے دباؤ سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے طلبہ کو سمجھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور ساتھ ہی ساتھ سیکھنے کے ایک آلہ کے طور پر موبائل ٹیکنالوجی کے فوائد کو بھی استعمال کرنے کی بات اٹھائی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’کسی بھی چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے موبائل فون کے زیادہ استعمال کو گھر کے پکے ہوئے کھانوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ زیادہ مقدار میں کھانے سے پیٹ کے مسائل اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، حالانکہ یہ غذائیت سے بھرپور ہے۔ انہوں نے فیصلے پر مبنی فیصلہ سازی کی مدد سے ٹیکنالوجی اور موبائل فون کے موثر استعمال پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے رازداری کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہر والدین کو اس مسئلہ کا سامنا ہے۔‘‘ انہوں نے خاندان میں قواعد و ضوابط کا ایک سیٹ بنانے پر زور دیا اور رات کے کھانے کے دوران الیکٹرانک گیجٹ نہ رکھنے اور گھر میں گیجٹ ژون بنانے کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’آج کی دنیا میں کوئی بھی ٹیکنالوجی سے بھاگ نہیں سکتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اسے بوجھ نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کا موثر استعمال سیکھنا لازمی ہے۔ وزیر اعظم نے طالب علموں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے والدین کو ٹیکنالوجی کے تعلیمی وسائل کے بارے میں آگاہ کریں اور شفافیت قائم کرنے کے لیے اپنے گھروں میں موجود ہر موبائل فون کے پاس کوڈ کو ہر ممبر کے ساتھ شیئر کرنے کی بھی سفارش کی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اس سے بہت سی برائیوں کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘ وزیر اعظم مودی نے وقف شدہ موبائل ایپلیکیشنز اور ٹولز کے استعمال سے اسکرین ٹائم کی نگرانی پر بھی زور دیا۔ انہوں نے طلباء کو کلاس روم میں موبائل فون کے وسائل کے بارے میں آگاہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

وزیر اعظم تناؤ کو کیسے سنبھالتے ہیں اور مثبت رہتے ہیں؟

تمل ناڈو کے چنئی میں واقع ماڈرن سینئر سیکنڈری اسکول کے طالب علم ایم وگیش نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کے دباؤ اور تناؤ کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔ اتراکھنڈ کے اودھم سنگھ نگر میں واقع ڈائنسٹی ماڈرن گروکل اکیڈمی کی طالبہ سنیہا تیاگی نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ ’’ہم آپ کی طرح مثبت کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘ وزیراعظم نے کہا کہ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بچے وزیراعظم کے عہدے کے دباؤ کو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو غیر متوقع حالات کا سامنا ہے۔ کوئی بھی ان پر ٹال مٹول سے ردعمل ظاہر کر سکتا ہے، تاہم، وزیر اعظم نے کہا، ایسے لوگ زندگی میں زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ ’’میرا نقطہ نظر جو مجھے مفید معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ ’میں ہر چیلنج کو چیلنج کرتا ہوں‘۔ میں چیلنج کے پاس ہونے کا غیر فعال طور پر انتظار نہیں کرتا ہوں۔ اس سے مجھے ہر وقت سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ نئے حالات سے نمٹنا مجھے مالا مال کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’میرا سب سے بڑا اعتماد یہ ہے کہ میرے ساتھ 140 کروڑ ہم وطن ہیں۔ اگر 100 ملین چیلنجز ہیں تو اربوں حل بھی ہیں۔ میں خود کو کبھی اکیلا نہیں پاتا اور یہ تمام ذمہ داریاں میری ہیں، میں اپنے ملک اور اہل وطن کی صلاحیتوں سے ہمیشہ واقف رہتا ہوں۔ یہ میری سوچ کا بنیادی نکتہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہیں سب سے آگے ہونا پڑے گا اور ان سے غلطیاں ہوں گی، لیکن قوم کی صلاحیتیں طاقت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنے ہم وطنوں کی صلاحیتوں میں جتنا اضافہ کرتا ہوں، چیلنجوں کو چیلنج کرنے کی میری صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔‘‘ غربت کے مسئلے کی مثال دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جب غریب خود غربت دور کرنے کا فیصلہ کر لیں گے تو غریبی ختم ہو جائے گی۔ ’’یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں انہیں خواب دیکھنے کے اوزار جیسے کہ پکے گھر، بیت الخلاء، تعلیم، آیوشمان، نل سے پانی فراہم کروں۔ ایک بار جب وہ روزمرہ کی بے عزتی سے آزاد ہو جاتا ہے، تو وہ غربت کے خاتمے کا یقین کر لے گا،‘‘ وزیر اعظم نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے 10 سال کے دور میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے۔

مزید برآں، وزیر اعظم نے کہا کہ چیزوں کو ترجیح دینے کی عقلمندی ہونی چاہیے۔ یہ تجربے اور ہر چیز کا تجزیہ کرنے کے ساتھ آتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی غلطیوں کو سبق سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کووڈ وبائی مرض کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ بیکار بیٹھنے کی بجائے انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کرنے اور دیا (چراغ) جلانے، یا ’تھالی‘ پیٹنے جیسے کاموں کے ذریعے ان کی اجتماعی طاقت کو بڑھانے کا انتخاب کیا۔ اسی طرح کھیلوں کی کامیابی کا جشن منانے اور صحیح حکمت عملی، سمت اور قیادت کے نتیجے میں بین الاقوامی مقابلوں میں بڑے پیمانے پر تمغے حاصل ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مناسب حکمرانی کے لیے نیچے سے اوپر تک کامل معلومات کا نظام اور اوپر سے نیچے تک کامل رہنمائی کا نظام ہونا چاہیے۔

وزیر اعظم نے زندگی میں مایوس نہ ہونے پر زور دیا اور کہا کہ ایک بار یہ فیصلہ کر لینے کے بعد صرف مثبتیت باقی رہ جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں مایوسی کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی اس وقت آسان ہو جاتی ہے جب کچھ کرنے کا عزم مضبوط ہو۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی خود غرضی نہ ہو تو فیصلے میں کبھی ابہام نہیں ہوتا۔ موجودہ نسل کی زندگیوں کو آسان بنانے پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ آج کی نسل کو اپنے والدین کو درپیش مشکلات کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ ’’حکومت ایک ایسے ملک کی تعمیر کرنے کی کوشش کرتی ہے جہاں نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اپنی صلاحیتوں کو چمکانے اور دکھانے کا موقع ملے،‘‘ وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پوری قوم کا اجتماعی عزم ہونا چاہیے۔ مثبت سوچ کی طاقت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ انتہائی منفی حالات میں بھی مثبت نتائج تلاش کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے تمام طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنی بات چیت کا اختتام کیا اور ان کی زندگی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اس موقع پر مرکزی وزیر تعلیم جناب دھرمیندر پردھان بھی موجود تھے۔

پریکشا پہ چرچہ کے پرانے ورژن نیچے دیکھے جا سکتے ہیں:

Pariksha Pe Charcha 2023

Pariksha Pe Charcha 2022

Pariksha Pe Charcha 2021

Pariksha Pe Charcha 2020

Pariksha Pe Charcha 2019

Pariksha Pe Charcha 2018

*****

ش ح – ق ت – ت ح

U: 4121

 


(Release ID: 2000378) Visitor Counter : 109