وزیراعظم کا دفتر

وزیراعظم نریندرمودی کا انڈونیشیا کے شہر بالی میں بھارتی  برادری کے پروگرام میں خطاب کا متن

Posted On: 15 NOV 2022 4:40PM by PIB Delhi

نمستے !ونکم!  

آپ سب کو نمسکار! انڈونیشیا آنے کے بعد بالی آنے کے بعد ہر ہندوستانی کو ایک  الگ ہی  تجربہ ہوتا ہے۔ ایک الگ ہی احساس ہوتا ہے اور میں بھی وہی  وائبریشن فیل کر رہا ہوں۔ جس جگہ کے ساتھ ہندوستان کا ہزاروں سال کا رشتہ رہا ہو، اور جس کے بارے میں سنتے رہتے ہو کہ ہزاروں سال میں بہت سی  نسلیں آئیں، چلی گئیں لیکن  اس روایت کو  کبھی  اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ہزاروں سال سے  اس روایت کو  جینا ، نسل در نسل اس روایت کو جاننا  اور  ہر پل اس روایت سے جڑے رہنا  وہاں کے لوگ وہ دھرتی ایک الگ ہی  لطف دیتی ہے۔ ایک الگ ہی مزے کا تجربہ کراتی ہے۔ آپ  تصور کرسکتے ہیں، آج جس وقت میں آپ سے با ت کررہا ہوں، ہم  یہاں بالی میں بیٹھے ہیں، بالی کی  روایات  کے  گیت گا رہے ہیں، اسی وقت جب میں آپ  سے بات کر رہا ہوں، اسی پل  بالی سے ڈیڑھ ہزار کلو میٹر دور  ہندوستان کے کٹک شہر میں مہا ندی کے کنارے بالی  سفر کا  مہوتسو چل رہا ہے، جسے بالی  جاترا کہتے ہیں اور یہ  جاترا ہے کیا؟ یہ مہوتسو  ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان  ہزاروں سال کے تجارتی رشتوں کو  سلیبریٹ کرتا ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ اس بار  کی بالی  جاترا کے  فوٹو  انٹرنیٹ پر  دیکھیں گے تو انہیں واقعی فخر ہوگا، لطف آئے گا۔ جوش  سے بھر جائیں گے۔ اب کئی سالوں کے بعد  درمیان میں  کورونا کے سبب جو پریشانیاں آئیں اس کے سبب  کچھ رکاوٹیں آئی تھیں اور جب کئی سالوں بعد بالی جاترا  یہ مہوتسو اڈیشہ میں بہت ہی بڑے پیمانے پر عقیدے کے ساتھ جوش  کے ساتھ  لاکھوں لوگوں کی حصہ داری کے ساتھ بڑے پیمانے پر  شرکت کے ساتھ  ابھی  منایا جا رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہاں کے لوگ یہ بالی جاترا کی یاد میں ایک مقابلہ چل رہا ہے۔ کہتے ہیں کاغذ  کی ناؤ بناکر  بہائے جائیں گے اور وہ  ورلڈ ریکارڈ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اڈیشہ میں آج  جو لوگ  جمع ہوئے ہیں ان کا جسم وہاں ہے لیکن  دل بالی میں ہے۔ آپ  لوگوں کے درمیان میں ہے۔

ساتھیو!

ہم لوگ اکثر بات چیت میں کہتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹی دنیا ہے۔ ہندوستان اور انڈونیشیا کے تعلقات کو دیکھیں تو یہ  لفظ نہیں ہے، یہ ہمیں سچائی  نظر آتی ہے۔ سمندر کی  بڑی بڑی لہروں نے ہندوستان اور انڈونیشیا کے رشتوں کو لہروں کی  طرح  ہی امنگ سے بھرا ہے، زندہ رکھا ہے۔ کبھی  تھکان محسوس نہیں ہوئی، وہ لہریں  جیسے چلتی رہتی ہیں، ہمارا رشتہ  ویسا ہی زندہ رہتا ہے۔ ایک وقت  تھا جب  کلنگ میدانگ جیسے  سامراجیوں کے  توسط سے ہندوستان کا درشن بھارت کی ثقافت انڈونیشیا کے سرزمین تک پہنچی۔ آج  ایک یہ وقت ہے جب ہندوستان اور انڈونیشیا 21  ویں صدی میں ترقی کے لئے ایک دوسرے  کے ساتھ کندھے  سے کندھا ملاکر کام کر رہے ہیں۔ انڈونیشیا کی  سرزمین نے  ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کو پیار سے  قبول کیا اور انہیں اپنے سماج میں شامل کیا، اسی وجہ سے آج آپ سبھی  انڈونیشیا کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ہمارے بہت سے سندھی خاندان یہاں رہتے ہیں اور ہندوستان سے آئے ہوئے ہمارے سندھی کنبے کے بھائی بہنوں نے یہاں کے کپڑے سیکٹر میں، کھیلوں کے سامان کے سیکٹر میں اتنا ہی نہیں بلکہ فلم اور ٹی وی  انڈسٹری میں بھی  کافی کچھ تعاون کیا ہے۔ گجرات سے جڑے ہوئے کافی لوگ یہاں ہیں، قیمتی جواہرا، ہیروں یہاں تک کے کانوں، کھیتی ، کسانی،  اس میں بھی  وہ لوگ نظر آتے ہیں۔ ہندوستان سے یہاں آئے  ہوئے  انجینئرس، چارٹر اکاؤنٹنٹس، پیشہ ور افراد انڈونیشیا کی ترقی میں تعاون دے رہے ہیں۔ کتنے ہی تمل زبان کے  کلا کار  یہاں کی ثقافت، تہذیب، یہاں کے آرٹس کو  اور  خوشحال کرنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب تین چار  سال پہلے  انڈونیشیا کے  بپا نیو مین نورتا کو ہندوستان نے  پدم شری سے نوازا تھا، اس وقت ہندوستان کا راشٹرپتی  بھون تالیوں کی گڑگڑاہت سے گونجتا ہی  رہتا تھا۔ ان کی بنائی کلاکیرتی گرڈن ویشنو کین کانا کا کوئی شاید ہندوستانی ایسا نہیں ہوگا جو  اس کی تعریف نہ کرتا ہو۔ ایسے انڈونیشیا کے  ویون دیبیا اور اگوس اندرا ادینا  جی کو  پدم اعزاز ملا تھا، تو  مجھے  فیصلہ کرنے سے پہلے  ان کے بارے میں کافی کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اگوس اندر ادینا جی سے آپ پوری  طرح سے واقف ہیں، ان سے اور  آج یہاں موجود بھی  ہیں، وہ  بالی میں مہاتما گاندھی کے خیالات کو  آگے بڑھانے کے لئے جی جان سے  جٹے ہوئے ہیں۔ میں نے کہیں ان کا ایک انٹرویو دیکھا تھا۔ اس میں وہ  کہہ رہے تھے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی اتیتھی دیو بھووا کی ہے یعنی اتیتھی دیوو بھوو یہ  جذبہ جو ہے، یہ ہر ہندوستانی کی رگوں میں ہے۔ اپنائیت کا یہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔ مجھے  انٹرویو پڑھ کر اچھا لگا لیکن  ایک بات اور بھی بتانی چاہئے کہ اپنائیت کے موزوں میں ہندوستان کی تعریف ہورہی ہوگی لیکن  انڈونیشیا کے لوگوں کی  بھی  اپنائیت  کم نہیں ہے۔ جب میں یہاں پچھلی بار جکارتا میں آیا تھا تو انڈونیشیا کے لوگوں نے پیار اور محبت دیا، اس میں اپنا پن کیا کچھ نہیں تھا۔ اور مجھے یاد ہے کہ محسوس بھی کیا تھا، اتنی عزت ، اتنی محبت، احترام، اپنا پن اور مجھے  یاد کہ صدر جوکو ویڈوڈو جی کے ساتھ  پتنگ اڑانے میں  مجھے مزہ  آیا تھا، ہم  دونوں پتنگ اڑانے چلے گئے تھے۔ وہ غیر معمولی تھا۔ اور میری تو گجرات میں سنگ کرانتی  پر پتنگ اڑانے کی بڑی ٹریننگ رہی ہے اور مجھے  پتہ ہے یہاں انڈونیشیا میں بھی سنگ کرانتی پر  خوب پتنگ اڑائی جاتی ہیں اور ایسا نہیں کہ ہندوستان اور انڈونیشیا کا ساتھ صرف  سکھ کا ہے۔ اچھا ہے تب ناطہ ہے، ایسا نہیں ہے۔ ہم سکھ دکھ کے ساتھی ہیں، اگر سکھ میں ساتھی  تو  ہم دکھ میں بھی اتنے ہی ساتھی ہیں۔ ہم  سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے  سکھ دکھ کو بانٹنے والے لوگ ہیں۔ جب 2018  میں انڈونیشیا میں اتنا بڑا زلزلہ آیا تھا، تو ہندوستان نے  فورا آپریشن سمندر میتری شروع کیا تھا۔ اس لئے ہی  اس سال میں  جکارتا آیا تھا۔  اور میں ایک بات کہی تھی، میں نے کہا کہ ہندوستان اور انڈونیشیا میں 90  ناٹیکل میل کا فاصلہ بھلے ہی ہو لیکن حقیقت تو یہ  ہے کہ 90 نوٹیکل میل دور نہیں ہیں، ہم 90 نوٹیکل میل پاس ہیں۔

ساتھیو!

زندگی کی ڈگر پر ، ہر لمحہ میں ایسا کتنا کچھ ہے، جسے ہندوستان اور انڈونیشیا نے مل کر کے اب تک سہج کر رکھا ہے۔ بالی کی  یہ سرزمین مہا رشی  مارکنڈے اور مہا رشی  اگست کے تب سے مقدس ہے۔ ہندوستان میں اگر  ہمالیہ  ہے تو بالی میں اگونگ پہاڑ  ہے۔ ہندوستان میں اگر گنگا ہے تو بالی میں تیرتھ گنگا ہے۔ ہم بھی ہندوستان میں ہر  مقدس کام کا شری گنیش کرتے ہیں، یہاں بھی شری گنیش گھر گھر براج مان ہیں۔ عام مقامات پر  شبھتا پھیلا رہے ہیں۔ پورنیما کا برت، اکادشی کی مہیما، تریکال سندھیا کے ذریعہ سوریہ اپاسنا کی پرمپرا، ماں سروستی کے روپ میں علم کی ارادھنا، انیک چیزیں، ہم کہہ سکتے ہیں، ایسی بہت سی باتیں ہیں جو ہمیں جوڑے رکھتی ہیں اور جوڑتی رہتی ہیں۔ بالی کا  جن جن مہا بھارت کی گاتھاؤں کے ساتھ بڑا ہوتا ہے۔اور میں تو دوارکا دھیش بھگوان کرشن کی  دھرتی گجرات سے پلا بڑھا ہوں، میری تو زندگی وہیں بیتی ہوئی ہے، بالی کے لوگوں کی جیسی  آستھا مہا بھارت کے لئے ہے، بھارت میں لوگوں کی ویسا لگاؤ بالی کے لوگوں کے لئے ہے۔ آپ یہاں پر بھگوان ویشنو اور  بھگوان رام کی آرادھنا کرتے ہیں اور ہم جب ہندوستان میں بھگوان رام کی جنم بھومی پر شاندار رام مندر کی  بنیاد رکھی جاتی ہے تو  انڈونیشیا کی رامائن روایت کو بھی  فخر سے یاد کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے  جب ہندوستان میں رامائن فیسٹول کا  اہتمام ہوا تھا تو انڈونیشیا کے بھی کئی فنکار  یہاں سے کئی  فنکار بھارت آئے تھے اور احمد آباد میں، حیدر آباد میں، لکھنو میں، متعدد شہروں میں وہ اپنا پروگرام کرتے کرتے اجودھیا آئے تھے۔ ان کا آخری اختتامی پروگرام اجودھیا میں ہوا تھا اور بہت واہ واہی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں جہاں گئے، اخبار بھرے پڑے رہتے تھے۔

بھائیوں اور بہنو!

 بالی میں ایسا شاہد ہی کوئی شخص ہوگا، جس کی خواہش نہیں ہوگی کہ اپنی زندگی میں ایک بار اجودھیا یا دوارکا کے درشن نہ کرے، ایسا شاید کوئی بھی انسان نہیں ہوگا۔ ہندوستان میں بھی لوگ پرمبن مندر اور  گروویشنو کنکانا کی  خوبصورت اور شاندار پرتیما کے درشن کرنے کے لئے بہت ہی بے چین رہتے ہیں۔ کورونا دور سے پہلے ایک سال  میں ہی پان لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کا اکیلے بالی آنا ہی اس کی گواہی دیتا ہے۔

ساتھیو!

جب وراثت مشترکہ ہوتی ہے، جب انسانیت کے تئیں اعتقاد  ایک جیسا ہوتا ہے، تو ترقی کے لئے بھی ایک جیسے راستے بنتے جاتے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے 15  اگست کو  ہندوستان نے اپنی آزادی کے 75  سال پورے کئے ہیں۔ انڈونیشیا کا آزادی کا دن بھارت کی آزادی  کے دن کے دو دن بعد 17  اگست کو آتا ہے۔ لیکن  انڈونیشیا کو ہندوستان سے  دو سال پہلے  آزاد ہونے کا موقع ملا تھا۔ انڈونیشیا سے  سیکھنے کے لئے ہندوستان کے پاس بہت کچھ ہے اور اپنی 75  سالوں کی ترقی کے سفر سے  ہندوستان کے پاس  بھی انڈونیشیا کو دینے کے لئے بہت کچھ  ہے۔ بھارت کا ٹیلنٹ، بھارت کی ٹیکنالوجی، بھارت کا  انوویشن، بھارت کی انڈسٹری آن ساری باتوں نے دنیا میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ آج دنیا کی  بے شمار کمپنیاں ایسی ہیں، کئی بڑی کمپنیای ایسی  ہیں جس کے سی ای او ہندوستانی نژاد کے لوگ ہیں۔ آج دنیا  میں جتنی  یونیکورن بنتے ہیں، نہ 10  میں سے  ایک یونیکورن بھارت کا ہوتا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کی سب سے تیز ابھرتی  ہوئی بڑی معیشت ہے۔ آج ہندوستان  ڈیجیٹل لین دین میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ آج ہندوستان  عالمی فن ٹیک کے معاملے میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ آ ج ہندوستان آئی ٹی بی پی این کے لئے آؤٹ سورسنگ میں دنیا میں نمبر ایک  پر ہے۔ آج ہندوستان اسمارٹ فون ڈیٹا  کنزمشن میں دنیا میں  نمبر ایک پر ہے۔ آج ہندوستان کتنی دوائیوں کی سپلائیوں میں،  بہت سی  ویکسین کی مینو فیکچرنگ میں دنیا نمبر ایک پر ہے۔

ساتھیو!

2014 سے پہلے  اور 2014  کے بعد  ہندوستان میں بہت بڑا  فرق  جو ہے، وہ جو بہت بڑا فرق  ہے وہ مودی نہیں ہے، وہ بہت بڑا فرق ہے  اسپیڈ اور اسکل میں۔ آج ہندوستان غیر معمولی رفتار سے کام کر رہا ہے اور  غیر متوقع پیمانے پر کام کر رہا ہے۔ جب ہندوستان چھوٹا  سوچتا ہی نہیں ہے، اسٹیچو بنائے گا  تو دنیا میں سب سے بڑ، اسٹیڈیم میں بنائے گا تو دنیا میں سب سے بڑا۔ 2014  کے بعد سے  ہندوستان نے 230 ملین سے زیادہ بینک اکاؤنٹ کھولے ہیں۔ بینک میں کھاتے کھولے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ  امریکہ کی کل آبادی جتنی  ہے، اتنے ہم نے بینک کھاتے کھولے ہیں۔ 2014  کے بعد سے ہندوستان میں تقریبا 3  کروڑ غریب شہریوں کے لئے  مفت گھر بنائے ہیں اور گھر ایسے نہیں بنتا ہے، جب گھر مل جاتا ہے نا، تو  انسان راتوں رات لکھ پتی بن جاتا ہے اور جب میں تین کروڑ  کی بات کرتا ہوں تو  اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسٹریلیا کے ہر کنبے کو نہیں آسٹریلیا کے  ہر شہری کو گھر مل جائے،اتنے گھر بنائے ہیں۔ پچھلے  سات آٹھ سال میں ہندوستان نے 55  ہزار کلو میٹر قومی شاہرائیں بنائیں ہیں۔ یعنی اسکیل بتا رہا ہوں، میں پوری زمین کے لگ بھگ ڈیڑھ کر لگانے کے برابر ہے۔ آج ہندوستان آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت جتنے لوگوں کو پانچ لاکھ روپے تک کی مفت علاج کی سہولت دے رہا ہے، پانچ لاکھ روپے تک اگر اس کا  میڈیکل بل ایک سال تک بنتا ہے تو ذمہ داری سرکار اٹھاتی ہے۔ اس کا فائدہ کتنے لوگوں کو ملتا ہے، پانچ لاکھ روپے تک کی میڈیکل سہولت ، جو ملتی ہے وہ پورے یورپی یونین کی  کل آبادی سے زیادہ لوگوں کو ملتی ہے۔ کورونا کے دور میں ہندوستان نے جتنی ویکسین ڈوز  اپنے شہریوں  کو لگائی اور مفت میں لگائی، وہ جو ویکسین ڈوز ہے نا، اس کی اگر میں تعداد کا حساب لگاؤں تو امریکہ اور یورپی یونین ان دونوں کی کل آبادی  جو ہے ، اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ ڈوز ہم نے ہندوستان میں لگائے۔ یہ جب سنتے ہیں تو آپ کا سینہ چوڑا ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا۔ آپ کو فخر ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ہے، آپ کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے  میں کہتا ہوں کہ بھارت بدل رہا ہے۔

ساتھیو!

آج کا بھارت اپنی  وراثت پر فخر محسوس کرتے ہوئے اپنی وراثت کو خوشحال بناتے ہوئے جڑوں سے  جڑے رہ کر آسمان چھونے کے مقصد کے ساتھ ترقی یافتہ ہندوستان بنانے  کے مقصد کو لے کر اب نکل پڑا ہے، لیکن ہندوستان کا یہ مقصد  محض اپنے لئے نہیں ہے، ہم  خود غرض لوگ نہیں ہیں، اور یہ  ہمارے سنسکار نہیں ہیں۔21 ویں صدی میں آج دنیا کی  ہندوستان سے امیدیں ہیں، جو امیدیں ہیں، بھارت  اسے اپنی ایک ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسے ایک ذمہ داری کی  شکل میں دیکھتا ہے  اور ہم  دنیا کی بھلائی کے لئے  اپنے آپ کو آگے بڑھانے کے لئے مکم ہیں، عہد بند ہیں۔ آج اپنی ترقی کے لئے بھارت جب امرت کال کا  روڈ میپ تیار کرتا ہے ، تو اس میں دنیا کی  معاشی ، سیاسی  امیدیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ آج جب بھارت  آتم نربھر بھارت کا ویژن سامنے رکھتا ہے تو اس میں عالمی خوبی کا جذبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھارت نے  ایک سورج ایک دنیا  ایک گرڈ کا منتر دیا ہے۔ دنیا کے صحت ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لئے بھارت نے ون ارتھ- ون ہیلتھ یعنی  ایک کرہ ارض- ایک صحت، اس کا ابھیان چلایا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی جیسے  چیلنج سے نمٹنے کے لئے اور  جو بحرالکاہل خطوں میں ہوتی ہے، ان کے لئے تو بھارت ایک  نعمت کے طور پر کام کر رہا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی کی جو پریشانی ہے، اس سے نمٹنے کے لئے بھارت نے  دنیا کو  مشن لائف  کا  حل دیا ہے، مشن لائف یعنی  ماحولیات کے طرز زندگی  مشن لائف  یعنی کرہ  ارض کے  ہر فرد کے ذریعہ ایسی طرز زندگی  کو اپنایا جانا، جو  آب وہوا کے مطابق ہو، اور  جو آب وہوا کی تبدیلی  کے چیلنج سے  ہر  وقت  نمٹی ہو، آج  جب پوری دنیا  ماحول دوست  اور  صحت کی مجموعی دیکھ بھال کی طرف راغب ہو رہی ہے، تو بھارت کا  یوگ  ہمارا آیور وید یہ پورے بنی نوع انسان کے لئے تحفہ ہے۔ اور ساتھیوں  جب آیوروید کی بات آئی ہے،  تو مجھے  بھارت  انڈونیشیا کے  ایک اور  رابطے  کے کے بارے میں ذہن میں آرہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ  تھا،  تو گجرات  آیور ویدک یونیورسٹی  اور یہاں کی یونیورسٹیز  ہندو انڈونیشیا کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ مجھے  خوشی ہے کہ اس کے کچھ ہی برس بعد  یہاں کی اس  یونیورسٹی میں آیور وید اسپتال بھی  قائم ہو ا تھا

ساتھیو!

وسودیو کٹم بکم ،یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے۔ بھارت کا یہی جذبہ، یہی روایت  دنیا کے بھلائی  کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ کورونا کے دور میں  ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت نے  دوائیوں سے  لے کر ویکسین تک ضروری سازو سامان کے لئے آتم نربھر تا یعنی  خود کفالت حاصل کی اور اس  کا فائدہ پوری دنیا کو ملا۔ بھارت کی اہلیت  نے کتنے ہی ملکوں کے لئے  ایک حفاظتی  گھیرے یعنی سرکشا کوچ کا کام کیا ہے۔ انڈونیشیا جیسے ہمارے ہم سایہ اور  دوست  ملک کے لئے  ہم خاص طور سے  کندھے سے کندھا مل کر جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آج بھارت خلاء کے شعبے میں  دنیا کی  ایک بڑی  طاقت کی شکل میں ابھر ر ہاہے، تو اس کا فائدہ  خاص طور سے  جنوب  ایشیائی ملکوں کو  مل رہا ہے۔ دفاع کے شعبے میں بھی ، جو بھارت  صدیوں تک  محض غیر ملکی  در آمد پر  انحصار کرتا تھا وہ آج اپنی صلاحیتیں بڑھا رہا ہے۔ برہموس میزائل کو  یا تیجس جنگی  طیارہ، ان کی کشش دنیا میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آج بھارت بڑے نشانے طے کر رہا ہے اور انہیں حاصل کرنے کے لئے بھی  پوری محنت کر رہا ہے۔ سنکلپ سے سدھی کا یہی منتر آج 21  ویں صدی کے نئے بھارت کی تحریک بنا ہوا ہے، آج اس موقع پر  میں آپ سب کو  اگلی  پرواسی بھارتیہ کانفرنس کے لئے بھی  مدعو کرتا ہوں۔ جنوری  کے مہینے میں 9 جنوری کو یہ پرو گرام ہوتا ہے۔ اس بار  اس پروگرام  کا انعقاد مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہوگا اور اندور وہ شہر ہے، جو پچھلے  پانچ- چھ بار سے  ملک کے سب سے صاف ستھرے شہروں میں نمبر ایک مقام پر ہے اور اس لئے آپ اندرو کے  پرواسی بھارتیہ پروگرام سے منسلک ہوں، اپنی نجی  کام کے لئے بھی ابھی  سے تاریخ اس کے ساتھ ایڈجسٹ کیجئے۔ اور  جب آپ اندور آئیں گے اس کے ایک دو دن کے بعد ہی  احمدآباد میں پتنگ کا تہوار ہوتا ہے۔ انڈونیشیا  والے پتنگ کے تہوار میں نہ جائیں ایسا ہوسکتا ہے  کیا۔ اور جب آپ  آئیں، اکیلے مت آئیں،  اپنے ہی  کنبے کو لے کر آئیں، کچھ انڈونیشا کے کنبوں کو ساتھ لے کر آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت  اور انڈونیشیا کے رشتوں کو مضبوط کرنے میں آپ کا سرگرم تعاون  مسلسل بنا رہے گا۔ آپ سب پوری محنت سے  ، آپ کی  اس کرم بھومی کی فلاح وبہبود کے لئے آپ اس کرم بھومی  کے لئے جتنا زیادہ تعاون دے سکیں، دیتے ہی رہیں گے، یہ بھارت کی روایت ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے بوہرا سماج کے بہت سے ساتھی یہاں آئے ہیں اور یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ سیدنا  صاحب کے ساتھ میرا نزدیکی رشتہ رہا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے، دنیا میں کہیں پر بھی جاؤ، کوئی ملے یا نہ ملے  میرے بوہرا  خاندان کے لوگ آئیں گے ہی۔

ساتھیو!

 آپ اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے، وقت نکال کر آئے اور  جذبے اور لگن سے بھرے ہوئے ہیں، اور میں دیکھ رہا ہوں اڈیشہ میں بالی کے سفر میں جتنی امنگ ہے، اتنی ہی امنگ یہاں نظر آرہی ہے۔ مجھے آپ  کے اس پیار کے لئے آپ  کی اس محبت کے لئے بھارت کے تئیں آپ کی اس  عقیدت کے لئے میں آپ کا دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۰۰۰۰۰۰۰۰

(ش ح- ح ا - ق ر)

U-12632



(Release ID: 1876732) Visitor Counter : 128