وزیراعظم کا دفتر

مدھیہ پردیش میں پی ایم اے وائی-جی کے 4.5 لاکھ سے زیادہ استفادہ کنندگان کے ‘گرہ پرویشم’ کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 22 OCT 2022 7:36PM by PIB Delhi

نمسکار،

 

مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان جی، ریاستی حکومت کے وزراء، ایم ایل اے، پنچایت ممبران، دیگر تمام معززین اور مدھیہ پردیش کے میرے تمام بھائیو اور بہنو،

 

سب سے پہلے، آپ سب کو دھنتیرس اور دیپاولی کی بہت بہت مبارکباد۔ دھنتیرس اور دیپاولی کا یہ موقع ایسا ہے، جب ہم نئی شروعات کرتے ہیں۔ گھر میں نئے رنگ وروغن  کرتے ہیں، نئے برتن لاتے ہیں، کچھ نیا شامل کرتے ہیں، اور نئے عزم  بھی کرتے  ہیں۔ ایک نئی شروعات کر کے ہم زندگی میں نیا پن بھر دیتے ہیں، خوشی اور خوشحالی کا ایک نیا دروازہ کھلتا ہے۔ آج مدھیہ پردیش کے 4.5 لاکھ غریب بہنوں اور بھائیوں کے لیے ایک نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ آج یہ تمام ساتھی اپنے نئے اور پکے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک وقت تھا، جب دھنتیرس پر صرف وہی لوگ گاڑی اور مکان جیسی بڑی اور مہنگی جائیداد خرید سکتے تھے، جن کے پاس وسائلاور پیسے ہوتے تھے ، ان  ہی کے لیے دھنتیرس ہوتا تھا۔ لیکن دیکھیں آج ملک کے غریب بھی دھنتیرس پر گرہ پرویش کر رہے ہیں یعنی نئے  گھر میں داخل ہو  رہے ہیں۔ آج میں مدھیہ پردیش کی ان لاکھوں بہنوں کو خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو آج اپنے گھر کی مالکن بنی ہیں، اور آپ کو لاکھوں روپے کے گھر نے لکھ  پتی بنا دیا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو،

 

میں ٹیکنالوجی کے ذریعے  امنگوں سے بھرے ہوئے لا تعدادلوگوں کو اپنے سامنے بیٹھے دیکھ سکتا ہوں۔ پہلے یہ آرزوئیں، یہ خواب منظرِ عام پر نہیں آتے تھے کیونکہ گھر کے بغیر یہ احساسات دب جاتے، چھپ جاتے، مرجھا جاتے تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ اب جب کہ ان ساتھیوں کو یہ نئے گھر ملے ہیں، انہیں اپنے خوابوں کو سچ کرنے کی نئی طاقت بھی ملی ہے۔ اس لیے یہ دن نہ صرف گھر میں داخل ہونے کا ہے، بلکہ گھر میں خوشیاں، گھر میں نئے عزم، نئے خواب، نیا جوش، نئی خوش قسمتی لانے کا بھی ہے۔ یہ ہماری حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ پچھلے 8 سالوں میں وہ پی ایم آواس یوجنا کے تحت 3.5 کروڑ غریب خاندانوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب پورا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ایسے  ہی گھر بنائے اور دیے، چار دیواری بنائی اور دے دی۔ ہماری حکومت غریبوں کے لیے وقف ہے، اس لیے وہ غریبوں کی خواہش، ان کے ذہن، ان کی ضروریات کو سب سے زیادہ سمجھتی ہے۔ ہماری حکومت جو گھر فراہم کرتی ہے، اس کے ساتھ دیگر سہولیات بھی آتی ہیں۔ بیت الخلا ہو، بجلی ہو، پانی ہو، گیس ہو، حکومت کی مختلف اسکیمیں پردھان منتری آواس یوجنا کے ان کروڑوں گھروں کو مکمل کرتی ہیں۔

 

ساتھیوں،

 

آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے پہلے کا حال بھی یاد آرہا ہے، پہلے بھی اگر غریبوں کے لیے گھر کا اعلان ہوتا تھا تو الگ ٹوائلٹ بنانا پڑتا تھا۔ بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن کے لیے مختلف سرکاری دفاتر کے کئی چکر لگانے پڑتے  تھے ۔ پہلے کی حکومتوں میں اس سارے عمل کو مکمل کرنے کے لیے غریبوں کو کئی دفاتر میں رشوت دینی پڑتی تھی۔ یہی نہیں، پہلے غریبوں کے نام پر مکانات کا اعلان کیا جاتا تھا، پھر حکومت بتاتی تھی کہ فلاں گھر بنے گا، یہ حکم دیتی تھی۔ وہ ہی  نقشہ دیتی تھی، یہیں  سے سامان لانا ہے ، وہی چیزیں لینی ہے ۔ جس نکو اس گھر میں رہنا ہے، اس کی کچھ پسند، ناپسند ہے، اس کی اپنی سماجی روایات ہیں، اس کا اپنا رہن سہن ہے۔ اس کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے جو چند گھر بنائے گئے تھے، ان میں سے اکثر میں گریہ پرویش کبھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن ہم نے یہ آزادی گھر کی  مالکن کو، گھر کے مالک کو دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پی ایم آواس یوجنا بہت بڑی سماجی و اقتصادی تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو،

 

اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نسل اپنی حاصل کردہ دولت اگلی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ یہاں کی سابقہ ​​حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ بے گھر ہونے کو اگلی نسل کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے اور جو بچہ نسلوں کے اس شیطانی چکر کو توڑتا تھا، اس کی بہت تعریف و توقیر کی جاتی تھی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ملک کے خادم کی حیثیت سے، ملک کی کروڑوں ماؤں کے بچے ہونے کے ناطے مجھے اپنے کروڑوں غریب خاندانوں کو اس شیطانی چکر سے نکالنے کا موقع ملا ہے۔ ہماری حکومت ہر غریب کو اپنی پکی چھت دینے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اسی لیے آج اتنی بڑی تعداد میں گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بھی پی ایم آواس یوجنا کے تحت تقریباً 30 لاکھ گھر بنائے گئے ہیں۔ فی الحال 9-10 لاکھ گھروں پر کام جاری ہے۔

 

ساتھیوں،

 

لاکھوں کی تعداد میں بننے والے یہ گھر ملک کے کونے کونے میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ آج صبح جب میں روزگار میلے کے پروگرام میں تھا۔ تو میں نے خصوصی طور پر کہا تھا کہ میں شام کو گرہ پرویش  کے پروگرام میں شرکت کرنے جا رہا ہوں، اور میں سب کو بتانے جا رہا ہوں کہ اس کا ساتھی بھی کس طرح ملازمت میں مصروف ہے۔

 

ساتھیوں،

 

آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب گھر بنتے ہیں تو تعمیرات سے متعلق سامان، جیسے اینٹ، سیمنٹ، ریت، بجری،ا سٹیل، پینٹ، بجلی کی اشیاء، بیت الخلا کی نشستیں، نلکے، ان تمام چیزوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ جب یہ ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے تو یہ میٹریل بنانے والی فیکٹریاں زیادہ لوگ رکھتی ہیں، زیادہ ٹرانسپورٹرز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان کو ملازمت دیتے ہیں۔ جن دکانوں پر یہ سامان فروخت ہوتا ہے وہاں لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے۔ اور یہ بات ستنا سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ ستنا چونا پتھر، سیمنٹ کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ جب گھر بنتے ہیں تو ستنا کے سیمنٹ کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ مکانات کی تعمیر سے منسلک مزدور، مستری، بڑھئی، پلمبر، پینٹر، فرنیچر بنانے والوں کو بھی بہت زیادہ کام ملتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش میں ہی 50 ہزار سے زیادہ مستریوں کو تربیت دی گئی ہے۔ان میں سے 9-10 ہزار ہماری مائیں بہنیں ہیں، لوگ انہیں راج مستری بھی کہتے ہیں، لوگ انہیں  رانی مستری بھی کہتے ہیں۔ یعنی اپنی بہنوں کو ایک نئے فن سے جوڑنے کا کتنا بڑا کام ہے، پی ایم آواس یوجنا کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ورنہ تعمیرات کے میدان میں بہنوں کو صرف غیر ہنر مند مزدور سمجھا جاتا تھا۔ اب تک مدھیہ پردیش میں ہی ان گھروں کو بنانے میں 22 ہزار کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اب آپ بھی سوچیں کہ 22 ہزار کروڑ کہاں گئے؟ گھر تو بن گیا، لیکن جس پیسے سے گھر بنایا گیا وہ مدھیہ پردیش کے مختلف کاموں میں گیا، لوگوں کے گھر گیا، دکانداروں کو مل گیا، فیکٹری والوں کو مل گیا تاکہ لوگوں کی آمدنی بڑھے۔ کہنے  کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر سب کے لیے ترقی لا رہے ہیں۔ جس کو گھر ملتا ہے وہ بھی ترقی کرتا ہے اور جس گاؤں میں گھر بنتے ہیں وہاں کے لوگ بھی ترقی کرتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو،

 

پہلے کی حکومتوں اور ہماری حکومتوں میں بڑا فرق ہے۔ پہلے کی حکومتیں غریبوں کو ترساتی  تھیں، انہیں اپنے دفتروں کے چکر لگواتی تھیں۔ ہماری حکومت خود غریبوں تک پہنچ رہی ہے، تاکہ غریبوں کو ہر اسکیم کا فائدہ ملے، اس کے لیے وہ مہم چلا رہی ہے۔ آج ہم سیچوریشن  کی بات کر رہے ہیں، یعنی عوامی بہبود کی ہر اسکیم کا فائدہ مستحقین تک کیسے پہنچے؟ کوئی اقربا پروری نہیں، کوئی تمہارا یا میرا نہیں، یہ دینا ہے، یہ نہیں دینا ہے،  جس کا حق ہے سب کو  دینا ہے۔ سب کو تیزی سے پکے گھر مل گئے۔ چاہے وہ گیس ہو، بجلی کا کنکشن، پانی کا کنکشن، آیوشمان بھارت کے تحت 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج، سب کو جلدی ملنا چاہیے۔ اچھی سڑکیں، اچھے اسکول، کالج اور اچھے اسپتال تک  ہر کسی کی رسائی ہونی چاہیے۔ گاؤں گاؤں آپٹیکل فائبر تیزی سے پہنچ گیا۔ ہم اس کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ آخر ہم اس جلدی میں کیوں ہیں، اس کے لیے اتنے بے صبرے کیوں ہیں؟ اس کے پیچھے ماضی کا بہت بڑا سبق ہے۔ ایسی ہر بنیادی سہولیات  پچھلی کئی دہائیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ ملک کی ایک بہت بڑی آبادی ان بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کرتی تھی۔ اس کے پاس دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ اس لیے غربت کے خاتمے کا ہر وعدہ، ہر دعویٰ صرف سیاست ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے کسی کے لیے کام نہیں کیا۔ کمانڈر خواہ کتنا ہی پرجوش کیوں نہ ہو لیکن اگر فوجیوں کو لڑائی کے لیے بنیادی سہولیات میسر نہ ہوں تو جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ اسی لیے ہم نے غربت سے نکلنے، غربت کو شکست دینے کے لیے ملک کے ہر شہری کو ان بنیادی سہولیات سے تیزی سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اب غریب سہولتوں سے آراستہ ہو کر اپنی غربت کو تیزی سے کم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اور پھر میں آپ کو بتاؤں ، یہ گھر جوآپ کو  دیا گیا ہے، ہے نا؟ یہ صرف رہنے، کھانے، پینے، سونے کی جگہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ گھر ایسا قلعہ ہےجو غربت کو داخل نہیں ہونے دے گا، باقی غربت بھی دور ہو جائے گی، ایسا قلعہ آپ گھر ہے۔

 

بھائیو اور بہنو،

 

گزشتہ کئی مہینوں سے مرکزی حکومت 80 کروڑ سے زیادہ ملک کے باشندوں کو مفت راشن دے رہی ہے تاکہ عالمی وبا کے وقت انہیں بھوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے مرکزی حکومت اب تک پی ایم غریب کلیان انیہ یوجنا پر 3 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر چکی ہے اور میں آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں۔ جب ٹیکس دہندہ محسوس کرتا ہے کہ جو ملک کا خزانہ بھرتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، جب انہیں  لگتا ہے کہ ان  کا پیسہ صحیح جگہ خرچ ہو رہا ہے، تو ٹیکس دہندہ بھی خوش، مطمئن اور زیادہ ٹیکس ادا کرتا رہتا ہے۔ آج ملک کے کروڑوں ٹیکس دہندگان مطمئن ہیں کہ وہ کورونا کے دور میں کروڑوں لوگوں کو کھانا کھلانے میں مدد کر کے کتنی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ آج جب میں چار لاکھ گھر دے رہا ہوں تو ہر ٹیکس دہندہ یہ سوچ رہا ہوگا کہ چلو میں دیوالی منا رہا ہوں لیکن میرا مدھیہ پردیش کا غریب بھائی بھی اچھی دیوالی منا رہا ہے، اسے پکا گھر مل رہا ہے۔ اس کی بیٹی کی زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی۔

 

لیکن ساتھیو،

 

جب وہی ٹیکس دہندہ دیکھتا ہے کہ اس سے جمع کی گئی رقم میں مفت ریوڑی تقسیم کی جارہی ہے تو ٹیکس دہندہ سب سے زیادہ ناخوش ہوتا ہے۔ آج ایسے بہت سے ٹیکس دہندگان کھلے دل سے مجھے خط لکھ رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ملک کو ریوڑی کلچر  سے نجات دلانے کے لیے کمر بستہ ہے۔

ساتھیو،

 

ہماری حکومت کا مقصد شہریوں کی امنگوں کو پورا کرنے کے علاوہ غریب، متوسط ​​طبقے کا پیسہ بچانا بھی ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت اب تک تقریباً 4 کروڑ غریب مریضوں نے مفت علاج کی سہولت حاصل کی  ہے۔ اس کی وجہ سے ان تمام خاندانوں کے  ہزاروں کروڑ روپے بچ  گئے ہیں، جو حکومت نے برداشت کیے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کورونا کے دور میں مفت ویکسینیشن پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے گئے، تاکہ غریب، متوسط ​​طبقے کو اس موذی مرض کی ناگہانی آفت کی وجہ سے جیب سے خرچ نہ کرنا پڑے، قرضے نہ لینے پڑیں۔ پہلے کورونا آیا، پھر دنیا میں جنگ آئی، جس کی وجہ سے آج ہمیں دنیا سے مہنگی کھاد خریدنی پڑ رہی ہے۔ ہم کسانوں کو صرف 266 روپے میں یوریا فراہم کر رہے ہیں، جس کی قیمت آج 2000 روپے سے زیادہ ہے۔ 2000 ہزار روپے کے تھیلے 300 روپے سے کم میں دیئے جاتے ہیں۔ کسانوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے، اس لیے اس سال حکومت اس کے پیچھے 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت کی پی ایم کسان سمان ندھی بھی کسانوں کے لیے ایک وردان  یعنی نعمت ثابت ہو رہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا، 16 ہزار کروڑ کی قسط جو کچھ دن پہلے بھیجی گئی تھی، فوری طور پر ہر استفادہ کنندگان  کسان تک پہنچ گئی۔ ابھی ہماری حکومت نے کسانوں کے بینک کھاتوں میں 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ جمع کرائے ہیں۔ اور یہ مدد اس وقت پہنچی جب بوائی کا وقت ہوتا ہے، جب کسان کو کھاد کی ضرورت ہوتی ہے، ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسان فصل بیچتے ہیں تو اب پیسے بھی براہ راست بینک اکاؤنٹ میں آتے ہیں۔ منریگا کی رقم بھی براہ راست بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ہماری حاملہ ماؤں کو اچھی خوراک کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ماتر ی وندنا یوجنا کے ہزاروں روپے براہ راست ان تک پہنچتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو،

 

اگر آج حکومت یہ سب کچھ کر پاتی ہے تو اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ آپ سب کی خدمت، لگن ہے اور چاہے کوئی ہم پر کتنی ہی تنقید کرے، ہم لگن اور آپ کے آشیرواد کے ساتھ، سیاسی عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ٹیکنالوجی اتنے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہی ہے۔ ہمارے سائنسدان، ہمارے نوجوان جو بھی نئی ٹیکنالوجی دریافت کرتے ہیں، اسے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج دیکھیں ڈرون کے ذریعے گاؤں گاؤں گھر کا سروے کیا جا رہا ہے۔ پہلے جو کام پٹواری کرتے تھے،  محکمہ ریونیو کے ملازمین کرتے تھے، اب وہی کام ٹیکنالوجی کے ساتھ ڈرون آکر کرتے ہیں۔ ملک میں پہلی بار سوامیتوا اسکیم کے تحت گاؤں کے مکانات کے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں اور گاؤں والوں کو ملکیت کا سرٹیفکیٹ دیا جا رہا ہے۔ تاکہ سرحدی تنازعات نہ ہوں، کوئی مکان پر ناجائز قبضہ نہ کر سکے اور ضرورت پڑنے پر بینکوں سے قرض بھی حاصل کر سکے۔ اسی طرح جب زراعت میں بڑے پیمانے پر ڈرون کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے تو کسانوں کو ڈرون کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ہم نے کسانوں کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ ملک بھر میں موجود لاکھوں کھاد کی دکانوں کو پردھان منتری کسان سمردھی کیندر کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ اب کسانوں کو ان کسان کیندروں میں ایک ہی جگہ پر ضرورت کی ہر چیز مل جائے گی۔ مستقبل میں ان مراکز پر بہت سے زرعی آلات اور یہاں تک کہ ڈرون بھی کرائے پر دستیاب ہوں گے۔ یوریا کے حوالے سے بھی بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اب کون سی کمپنی کا  یوریا لیں ، کون سی کمپنی  کا  نہ لیں ، کسان کو اس مشکل سے آزادی مل گئی ہے۔ اب ہر کھاد بھارت کے نام پر ملے گی۔ اس میں قیمت بھی صاف لکھی ہوئی ہے۔ جو لکھا ہے اس سے زیادہ کسان کو دینے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی کوششوں سے کسانوں اور غریبوں کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ ہم سب ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے کام کریں گے۔ ایک بار پھر میں اپنے پکے گھر کے تمام مستفید ین  کو مبارکباد دیتا ہوں اور میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ آپ کتنے خوش ہیں۔ تین تین، چار چار نسلیں گذر  گئی ہوں گی،لیکن کبھی اپنے گھر میں دیوالی نہیں منائی۔ آج جب آپ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ہی گھر میں دھن تیرس اور دیپاولی منا رہے ہیں، تو اس  دیئے  کی روشنی آپ کی زندگی میں ایک نئی روشنی لائے گی، میں آپ سب کو بہت بہت مبارکباددیتا  ہوں۔ خدا کی رحمتیں آپ کے ساتھ رہیں اور یہ نیا گھر نئی ترقی کی وجہ بن جائے، یہی میری نیک خواہش ہے۔

 بہت بہت شکریہ!

 

****

 

ش ح ۔ م م ۔ م ر

U.No:11751



(Release ID: 1870392) Visitor Counter : 233