وزیراعظم کا دفتر
جوناگڑھ، گجرات میں ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا ترجمہ
Posted On:
19 OCT 2022 10:30PM by PIB Delhi
بھارت ماتا کی جئے!
بھارت ماتا کی جئے!
ایسا لگتا ہے کہ آپ کے لیے دیوالی جلد آ گئی ہے۔ تہوار کا کوئی بھی دن ہو، دھنتیرس اور دیوالی بہت قریب ہیں، نئے سال کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور ہر کوئی اپنے کام میں مگن ہے اور پھر بھی بہت سارے لوگ یہاں موجود ہیں۔ جب تک میں دیکھتا ہوں، ایسا لگتا ہے جیسے نعمتوں کی گنگا بہہ رہی ہے۔ جئے گرناری! اس سے بڑا جوش و ولولہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سادھوا ور سنت اتنی بڑی تعداد میں مجھے آشیرواد دینے آئے ہیں۔ یہ شیروں اور نرسمہا کی سرزمین بھی ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں، خاص طور پر ان ماؤں اور بہنوں کا، جو بڑی تعداد میں مجھے آشیرواد دینے آئی ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
جوناگڑھ، گر سومناتھ اور پوربندر کے لیے 4000 کروڑ روپے سے زیادہ کے ترقیاتی پروجیکٹوں کا یا تو افتتاح کیا جا چکا ہے یا ان کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار لوگوں کے لیے حیران کن ہیں۔ ایک وقت تھا جب پورے گجرات کا سالانہ بجٹ اتنا ہوا کرتا تھا۔ آج میں گجرات کی سرزمین پر اپنے ایک روزہ دورے کے دوران اس سے کہیں زیادہ مالیت کے منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھ رہا ہوں۔ یہ آپ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے اور ان ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات میرے ماہی گیر بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کو آسان بنانے میں بہت آگے جائیں گے۔ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ گجرات کے سیاحتی شعبے کی راجدھانی ،جونا گڑھ میں، گر سومناتھ اور پوربندر کے ساتھ بہت روشن امکانات ہیں۔ ان اسکیموں کے نتیجے میں روزگار اور ذاتی روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ میں آپ سب کو دیپاولی کے ان تحائف کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں جس سے ریاست میں ترقی ہوگی۔
بھائیو اور بہنو،
آج میرا سینہ آپ کے آشیرواد کی وجہ سے فخر سے پھولتا ہے۔ گجرات سے دہلی جانے کے بعد جس طرح سے ہماری ٹیم نے گجرات کو سنبھالا ہے اور جس طرح بھوپیندر بھائی اور ان کی ٹیم گجرات میں تیزی سے ترقیاتی کام کر رہی ہے اس سے میں خوش ہوں۔ اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج گجرات تمام شعبوں میں بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
لیکن بھائیو اور بہنو،
جب ہمیں پرانے دن یاد آتے ہیں اور بہت سے بزرگ جو یہاں بیٹھے ہیں جانتے ہیں کہ ہم نے وہ دن کیسے گزارے ہیں۔ دس سالوں میں سات سالوں میں خشک سالی ہوتی تھی۔ ہم پانی کو ترستے تھے۔ ایک طرف قدرت مشتعل ہو جاتی تھی کیونکہ سمندر کا یہ نمکین پانی زمین کے اندر تک جاتا تھا۔ ہماری زمین کا یہ حال تھا کہ یہاں کچھ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کاٹھیاواڑ ویران ہوا کرتا تھا کیونکہ گاؤں کے لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے سورت اور ہندوستان کے دیگر حصوں کی طرف ہجرت کرتے تھے۔ لیکن ہم سب کی محنت نے اب صورتحال بدل دی ہے۔ اگر ہم لگن سے محنت کریں تو قدرت بھی ہمیں نوازتی ہے۔ آپ کو فخر ہونا چاہیے بھائیوں۔ 2001 کے بعد سے بھگوان کا کرم دیکھو 20 سال سے زیادہ ہو گئے اور ایک سال بھی خشک سالی نہیں ہوئی۔ یہ نعمت نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف آپکا آشیرواد ہے تو دوسری طرف قدرت کی نعمتیں ہیں۔ نتیجتاً، انسان ترقی کے تحائف کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب لوگ ماں نرمدا کی زیارت کے لیے خصوصی بسیں لے کر جاتے تھے۔ لیکن وقت بدل گیا ہے۔ بھائیو، محنت کے میٹھے پھل کی وجہ سے آج ماں نرمدا سوراشٹر کے ہر گاؤں میں اپنا آشیرواد دینے پہنچ رہی ہے۔ دیہاتوں میں پانی پہنچنا شروع ہو گیا ہے، سڑکیں بہتر ہونے لگی ہیں اور پھل اور سبزیاں اگانے والے کسانوں کی زندگی بدل گئی ہے بھائیو۔ ہمارے محترم گورنر آچاریہ دیوورت جی مجھے ابھی بتا رہے تھے کہ جوناگڑھ کے کسانوں نے قدرتی کھیتی کو اپنایا ہے اور پوری دلجمعی کے ساتھ اس میں لگے ہوئے ہیں۔ اور بھائیو اور بہنو، جوناگڑھ کے کیسر آم کی مٹھاس نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں پہنچ رہی ہے۔ ہندوستان کے پاس اتنا بڑا سمندری ساحل ہے اور گجرات اس کا ایک بڑا حصہ شیئر کرتا ہے۔ لیکن یہ سمندر ماضی میں ہمارے لیے بوجھ ہوا کرتا تھا۔ یہ نمکین خطہ اور نمکین ہوا ہمیں زہر لگتی تھی۔ لیکن وقت دیکھو بھائیو۔ سمندر جو کبھی ہم پر بوجھ ہوا کرتا تھا آج محنت کا پھل دے رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب رن آف کچھ کی مٹی کے ذرات ہمیں پریشان کیا کرتے تھے۔ آج اسی کچ نے گجرات کی ترقی کی بنیاد رکھی ہے۔ گجرات نے قدرتی مشکلات کا سامنا کیا ہے، لیکن بھائیو، اس نے اب ترقی کی نئی بلندیاں حاصل کی ہیں۔ تقریباً 20-25 سال پہلے ہم نے حالات کو بدلنے کا تہیہ کیا تھا، پہل کی اور ہر لمحہ اس ضمن میں صرف کیا۔ آج 20-25 سال کی عمر کے نوجوان اس وقت کے حالات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نے بہتر دنوں کی شروعات کرنے کی کوشش کی ہے دوستو۔ ہم نے اپنے ماہی گیر بھائیوں اور بہنوں کی ترقی کے لیے گجرات میں ساگرکھیڈو اسکیم شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت، ہم نے اپنے ماہی گیروں کی حفاظت، ان کی سہولت اور ان کے کاروبار کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے پر زور دیا اور اس کے نتیجے میں 20 سالوں میں مچھلی کی برآمد میں سات گنا اضافہ ہوا۔
بھائیو اور بہنو، مچھلی کی برآمدات کی بات کرتے ہوئے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو جاپان سے ایک وفد گجرات آیا تھا۔ میں انہیں گجرات کی ترقی کی ایک دستاویزی فلم دکھا رہا تھا جس میں جاپانی زبان میں تبصرہ بھی تھا۔ وہ بھی اس میں مگن تھے۔ پھر اچانک، اس وفد کے کچھ ارکان نے مجھ سے دستاویزی فلم بند کرنے کو کہا۔ میں حیران تھا کہ وہ مجھ سے دستاویزی فلم روکنے کے لیے کیوں کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکومنٹری میں دکھائے گئے سمندری ساحل اور ماہی گیروں کے ساتھ ساتھ سوریمی مچھلیاں بھی تھیں اور اب انہیں یہاں بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا اور وہ سوریمی مچھلی کا مزہ لینا چاہتے تھے۔ سوریمی مچھلی کی مقبولیت اتنی ہی ہے۔ سوریمی مچھلی کے بارے میں سنتے ہی برداشت کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ آج سوریمی مچھلی گجرات کے بازاروں میں بہت مشہور ہے بھائی۔ ہر سال کروڑوں روپے کی سوریمی مچھلی کو برآمد کیا جاتا ہے۔ اب ولساڈ میں سی فوڈ پارک ہے جہاں سے مچھلی برآمد کی جاتی ہے۔ ہم ماہی گیری کے شعبے میں بھی نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
میرے گجرات کے سمندر ی کنارے کو پچھلے آٹھ سالوں میں ڈبل انجن والی حکومت کا دوہرا فائدہ ملا ہے۔ مچھلی اور سمندری خوراک کا کاروبار بڑھ گیا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ماہی گیروں کو سمندر کے کنارے پر اتھلے پن کی وجہ سے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ انہیں اپنی مچھلیوں کو سمندر کے کنارے تک لانا بہت مشکل تھا۔ ہم نے گجرات میں ماہی گیری کی بندرگاہ بنانے کی مہم شروع کی اور ساگرکھیڈو کے مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی۔ پچھلی دو دہائیوں میں ماہی گیری کی بہت سے بڑے بندرگاہوں کو تیار کیا گیا تھا اور پرانے کو بھی اپ گریڈ کیا گیا تھا۔ ڈبل انجن والی حکومت بننے کے بعد، اس کام کی رفتار دوگنی ہوگئی ہے۔ آج بھی ماہی گیری کی تین بندرگاہوں کی ترقی کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے بھائیو۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ کے علاقے میں ہونے والی معاشی پیشرفت۔ ماہی گیروں کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی لانے والی ہے! ماہی گیری کی بندرگاہ سے مچھلی کی نقل و حمل بہت آسان ہوگی اور برآمدات میں بھی تیزی آئے گی۔ ہم ڈرون پالیسی بھی لے کر آئے ہیں۔ اب ڈرون 20 سے 50 کلو وزنی سامان لے جا سکتے ہیں۔ ایسے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں کہ ڈرونز ان علاقوں میں تازہ مچھلیاں پہنچا سکیں جن میں سمندر نہیں ہے بھائی۔ یہ ترقی کی وجہ سے فوائد کی ایک مثال ہے بھائیو۔
بھائیو اور بہنو،
ڈبل انجن والی حکومت میرے کسان بھائیوں اور ہمارے گاؤں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ہماری حکومت کی پی ایم کسان سمان ندھی ہے۔ دو دن پہلے میں نے دہلی سے ہر کسان کے کھاتے میں دو ہزار روپے جمع کرائے تھے۔ اب تک ہم اپنےکسان بھائیوں کے کھاتے میں تقریباً 2.25 لاکھ کروڑ روپے جمع کراچکےہیں۔
بھائیو اور بہنو،
اس سے ہمارے گجرات کے کسانوں کو بھی فائدہ ہوا ہے اور ان کے کھاتوں میں ہزاروں کروڑ روپے جمع ہو گئے ہیں۔ اس سے ہمارے چھوٹے کسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے جن کے پاس صرف ایک یا دو ہیکٹر زمین ہے۔ یہ رقم ان کسانوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوگی جن کے پاس آبپاشی کے لیے کوئی ذرائع نہیں ہیں اور وہ بارشوں پر انحصار کرتے ہیں۔ پہلی بار، ہماری حکومت نے کسانوں، مویشی پروری سے وابستہ افراد اور ساگرکھیڈو کے اپنے ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ کے فوائد فراہم کیے ہیں۔ پہلے یہ کارڈ صرف کسانوں کے لیے تھا۔ ہم نے اس اسکیم کو وسعت دی ہے اور اس فائدے کو ماہی گیروں اور مویشی پروری سے وابستہ افراد تک پہنچایا ہے۔ نتیجتاً ہمارے ماہی گیروں اور چرواہوں کے لیے بینکوں سے قرض حاصل کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ تقریباً 3.5 کروڑ لوگ اس سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں، بھائیو اور بہنو۔ انہیں انتہائی کم سود پر قرضے مل رہے ہیں۔ اب انہیں قرض دینے والوں کے پاس جانے اور زندگی بھر مقروض رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب وہ اس رقم کو اپنے کاروبار کی توسیع کے لیے صحیح طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ رقم ان کے لیے کشتیاں، جیکٹس، ڈیزل، تیل وغیرہ خریدنے میں بہت کارآمد ہوتی ہے اور دوستو، جو لوگ مقررہ وقت میں رقم واپس کر دیتے ہیں، انہیں سود نہیں دینا پڑتا۔ یہ صفر سود والا قرض ہے۔ اس سے بڑا فائدہ کیا ہو سکتا ہے دوستو۔ کسان کریڈٹ کارڈز نے چرواہوں کی زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں گجرات میں بندرگاہوں کی ترقی نے گجرات کی ترقی کو خوشحالی اور نئے امکانات کے دروازے سے بھی جوڑا ہے۔
ملک کی پوری ساحلی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ، ہم نے ساگر مالا پراجیکٹ کے تحت ،نہ صرف بندرگاہوں کو ترقی دی ہے، بلکہ ہم نے بندرگاہوں کی قیادت والی ترقی پر زور دیا ہے۔ آج آپ نے گجرات میں سمندری ساحل پر ساگر مالا کی ایک بڑی مہم کا آغاز دیکھا ہے۔ کوسٹل ہائی وے کو وسطی سے جنوبی گجرات تک پھیلایا گیا ہے، جس میں جوناگڑھ کے علاوہ پوربندر، جام نگر، دیو بھومی دوارکا، موربی شامل ہیں۔ بھائیو، اس کا مطلب ہے کہ گجرات کی پوری ساحلی پٹی کا رابطہ مضبوط ہونے والا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
پچھلے آٹھ سالوں میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے کئی اقدامات نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ میری مائیں اور بہنیں عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ ہم نے ایسے انتظامات کیے ہیں جس سے میری گجرات کی لاکھوں ماؤں بہنوں کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ اس لیے گجرات میرے لیے ’شکتی کوچ‘ بن گیا ہے۔ میں ہمیشہ ان ماؤں بہنوں کا مقروض رہوں گا۔ ملک کے لیے بہت سی مہمات چلائی گئیں جس کا براہ راست فائدہ ان ماؤں بہنوں کو پہنچا۔ سوچھ بھارت ابھیان کے تحت لاکھوں بیت الخلاء بنائے گئے۔ شمالی ہندوستان سے ہماری بہنیں کہتی ہیں کہ یہ ہمارے لیے فخر اور عزت کا نظام ہے۔ ہم نے کروڑوں بیت الخلاء بنا کر اپنی بہنوں کی پریشانیوں کو دور کیا۔ نتیجتاً ان کی صحت میں بھی بہتری آئی۔ ہم نے اجولا یوجنا گیس کی فراہمی کے انتظامات کیے ہیں۔ میں بھوپیندر بھائی حکومت کو دو گیس سلنڈر مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں، تاکہ ہمارے غریبوں کے گھروں میں بھی دیوالی منائی جا سکے۔
بھائیو اور بہنو،
ہم نے یہ بھی یقینی بنایا کہ ہر ایک کو نلکے کے پانی کی سہولت میسر ہو۔ ایک وقت تھا جب اراکین اسمبلی اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ کو خط لکھتے تھے۔ میں پچھلی حکومتوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ اراکین اسمبلی پانچ گاؤں میں ہینڈ پمپ لگانے کا مطالبہ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ کا شاندار استقبال کیا جاتا تھا جو اس مطالبے کو مان لیتے تھے۔ ایک وقت تھا جب لوگ ہینڈ پمپ کا انتظار کرتے تھے اور آپ کا بیٹا آج ہر گھر میں نل کا پانی پہنچا رہا ہے۔ جب صاف پانی میسر ہو تو اس سے بیماریاں کم ہوتی ہیں۔ بچوں کو کم تکلیف ہوتی ہے اور ہماری مائیں بہنیں بھی بہت سے مسائل سے نجات پاتی ہیں۔
پردھان منتری مترو وندنا یوجنا اس لیے متعارف کرائی گئی تھی کہ میری ماؤں اور بہنوں کے حمل کی مدت کے دوران ان کے جسم میں غذائی اجزاء کی کمی نہ ہو، ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی مناسب نشوونما ہو اور بچہ معذور یا معذوری کے ساتھ پیدا نہ ہو۔ یہ مترو وندنا یوجنا ،ماؤں کی صحت کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع کی گئی تھی۔ اگر ایک صحت مند بچہ پیدا ہوتا ہے اور اگر ماں بھی صحت مند ہے تو ہندوستان کا مستقبل بھی صحت مند ہے۔ یہاں تک کہ پی ایم آواس یوجنا کے تحت گھر صرف بہنوں کو ہی فراہم کیے گئے ہیں۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے زمانے سے میری یہ کوشش رہی ہے کہ میں اپنی بہنوں کے نام پر تمام سرکاری سہولیات کو یقینی بناؤں۔ زلزلے کے بعد دیے گئے گھر بھی بہنوں کو دیے گئے۔ ہم اپنی ماؤں بہنوں کے حالات سے واقف ہیں۔ اگر کوئی فارم ہے تو وہ خاندان کے کسی مرد کے نام پر ہے۔ دکانوں اور گاڑیوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر شوہر کا انتقال ہو جائے تو یہ سب چیزیں بیٹے کے سپرد ہو جاتی ہیں۔ ہماری ماؤں بہنوں کے نام پر کچھ نہیں ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں وہ کہاں جائیں؟ اس لیے آپ کے بیٹے نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری گھر یا کوئی اور سہولت ہماری ماؤں بہنوں کے نام ہوگی۔ ہماری مائیں بہنیں جنہیں گھر الاٹ کیے گئے، آج لکھ پتی بن چکی ہیں۔ آج ہماری حکومت سیلف ہیلپ گروپس اور سکھی منڈلوں کے ذریعے دیہاتوں میں خواتین کی کاروباری صلاحیت کو بڑھا رہی ہے۔ ملک بھر میں آٹھ کروڑ سے زیادہ بہنیں سیلف ہیلپ گروپس میں مصروف ہیں۔ گجرات میں لاکھوں بہنیں سیلف ہیلپ گروپس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جنہیں گجرات میں سکھی منڈل کہا جاتا ہے۔ خیال یہ تھا کہ بہنیں بغیر ضمانت کے مدرا یوجنا سے قرض حاصل کر سکتی ہیں۔ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ یہ قرض سب کے لیے تھا لیکن 70 فیصد بہنیں ایسی ہیں جنہوں نے قرض لیا ہے اور وہ چھوٹے کاروبار سے وابستہ ہیں اور 2-3 لوگوں کو روزگار بھی فراہم کر رہی ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
جب میں اپنے نوجوان دوستوں کا روشن مستقبل دیکھتا ہوں تو ان پر میرا اعتماد بڑھتا ہے اور امید کی نئی کرن بن جاتی ہے۔ گجرات میں تیز رفتار ترقی کے ساتھ اب گجرات کے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہے۔ میں نے گزشتہ آٹھ سالوں میں گجرات سمیت ملک کے نوجوانوں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے تعلیم سے لے کر روزگار اور ذاتی روزگار کے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے، میں نے گجرات میں ڈیفنس ایکسپو کا افتتاح کیا۔ اس سے نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے اور یہ یقینی بنائے گا کہ گجرات سرفہرست رہے۔
ہم نے گزشتہ آٹھ سالوں میں ملک میں سینکڑوں یونیورسٹیاں اور کالجز بنائے ہیں۔ گجرات میں بھی کئی نئے تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں تاکہ ان اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اپنے خاندان، گاؤں، ریاست اور ملک کا نام روشن کریں۔ آج ہمیں تمام مراعات حاصل ہیں۔ اس سے پہلے گجرات کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ریاست سے باہر جانا پڑتا تھا۔ پچھلے 20 سالوں میں کی گئی کوششوں کے نتیجے میں ریاست میں بہترین کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئی ہیں۔
اب نئی تعلیمی پالیسی یعنی قومی تعلیمی پالیسی بھی نافذ کر دی گئی ہے۔ اب ہمارے طلباء یہاں پر ہی میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ پہلے دیہاتوں میں انگلش میڈیم سکول نہیں تھے۔ اور اگر کسی بچے نے آٹھویں یا دسویں جماعت میں انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل نہیں کی تو وہ انجینئرنگ یا میڈیکل سائنس نہیں پڑھ سکتا اور انجینئر یا ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ کیوں؟ کیا غریب والدین کے بچوں کو ڈاکٹر بننے کا حق نہیں؟ کیا غریب والدین کے بچوں کو ڈاکٹر بننے کا حق نہیں ہونا چاہیے؟ کیا انہیں انجینئر بننے کا حق نہیں ہونا چاہیے؟ لیکن ایک شرط یہ لگائی گئی کہ وہ صرف اس صورت میں ایسا کر سکتے ہیں جب وہ انگریزی جانتے ہوں۔ اب ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ وہ اپنی مادری زبان میں میڈیکل سائنس اور انجینئرنگ پڑھ کر ڈاکٹر اور انجینئر بن سکیں۔ اس غلامانہ ذہنیت کو ختم ہو نا چاہیے۔ صرف اس لیے کہ وہ انگریزی نہیں جانتے، متوسط طبقے اور دیہات کے غریبوں کی ترقی کا سفر نہیں روکنا چاہیے۔ وہ اتنے ہی قابل ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی آج ہندوستان دنیا میں نام بنا رہا ہے۔ اب گاؤں بھر کے ہمارے نوجوانوں کو ڈیجیٹل انڈیا مہم کا فائدہ مل رہا ہے۔ ملک میں تقریباً 5-6 لاکھ کامن سروس سینٹر قائم ہو چکے ہیں اور دیہات میں لوگ اب بہت سی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ سستی انٹرنیٹ خدمات کی وجہ سے اب دیہات کے غریب لوگ بھی اپنے موبائل فون پر دنیا کی بہترین کتابیں حاصل کر سکتے ہیں۔ میں نے ریلوے پلیٹ فارم پر مفت وائی فائی خدمات کو بھی یقینی بنایا تاکہ نوجوان وہاں آکر تعلیم حاصل کرسکیں۔ میں نے پلیٹ فارم پر بچوں کو اپنے موبائل فون کے ساتھ اور یو پی ایس سی اور جی پی ایس سی کے امتحانات کی تیاری کرتے اور انہیں کلیئر کرتے دیکھا ہے۔ آج ڈیجیٹل انڈیا کے ذریعے بہترین تعلیم دستیاب ہے۔ اس نے یہ بھی یقینی بنایا ہے کہ بچے گاووں میں اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ ڈیجیٹل انڈیا نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ کوئی بھی شخص جو کسی بھی شعبے میں آگے بڑھانا چاہتا ہے وہ ڈیجیٹل انڈیا کے ذریعے ایسا کر سکتا ہے۔ وہ پینٹر، گلوکار اور بڑھئی بن سکتا ہے یا رقص کے میدان میں بھی اپنا کیریئر بنا سکتا ہے۔ وہ اپنے گھر بیٹھ کر جو چاہے سیکھ سکتا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ڈیجیٹل انڈیا کی وجہ سے روزگار کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ہندوستان کے نوجوان اب عالمی منڈیوں کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ ہندوستانی مصنوعات کا وقت ہے۔ اس سے پہلے موبائل فون کے لیے صرف دو مینوفیکچرنگ یونٹ تھے۔ صرف آٹھ سالوں میں یہ تعداد 200 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ہندوستان نے اس سال دس لاکھ موبائل فون دوسرے ممالک کو برآمد کیے ہیں۔ یہ ہماری طاقت ہے۔ سیاحت کی ترقی کا براہ راست تعلق اس بنیادی ڈھانچہ سے ہے جو ہم نے بنایا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ہمارا مادھو پور میلہ، بھگوان کرشن سے متعلق واقعات کیسے بین الاقوامی پیمانے پر معروف ہو گئے۔ شمال مشرق کے کئی وزرائے اعلیٰ مادھو پور میلے میں آئے اور تقریباً ایک ہفتہ تک اس کا لطف اٹھایا۔ گرنار روپ وے کئی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ممکن ہوا۔ پچھلی حکومتوں کو ان تمام منصوبوں پر عملدرآمد میں مشکلات کا سامنا تھا۔ یہ روپ وے آپ کے مجھے دہلی بھیجنے کے بعد ممکن ہوا۔ اب بہت سے لوگ اپنی 80 سالہ دادی کی گرنار میں ماں امبا کے قدموں میں جھکنے کی تصویریں میرے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ انہوں نے روپ وے بننے کے بعد اپنی ماؤں کی خواہش پوری کرنے پر میرا شکریہ ادا کیا۔ اب تم ہی بتاؤ کیا مجھے اس ماں کا کرم نہیں ملے گا؟
بھائیو اور بہنو،
ہم نے اس صورتحال کو بدلنے کا فیصلہ تقریباً دو دہائیاں قبل کیا تھا۔ آج گرنار روپ وے ایشیا کے سب سے طویل روپ وے میں سے ایک ہے۔ جوناگڑھ ضلع اپنی زرعی مصنوعات اور ماہی گیری کی صنعت پر فخر کرتا ہے۔ کیشود ہوائی اڈے کا احیاء کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں میں نے کئی افسران سے ملاقات کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہم ہوائی اڈے کو وسعت دے سکتے ہیں تاکہ یہاں سے آم، دیگر پھل اور سبزیاں برآمد کی جاسکیں۔ اگر ہم ہوائی اڈے کو وسعت دیتے ہیں تو غیر ملکی سیاح گیر شیروں کو دیکھنے، سومناتھ اور گرنار کی سیر کے لیے آسکتے ہیں۔ انہوں نے تفصیلی بلیو پرنٹ بنانے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ میں نے ان سے کہا کہ جلدی کرو کیونکہ مجھے جوناگڑھ جانا ہے۔ بھائیو اور بہنو، جب کوئی خیال میرے ذہن میں آتا ہے تو میں اپنی پوری توانائی اسے نافذ کرنے میں لگا دیتا ہوں۔ میں ہمیشہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا یقین کریں، تمام ترقیاتی کاموں کا فائدہ جو ہندوستان کے بڑے شہروں کو ملتا ہے، یہاں جوناگڑھ میں بھی ہونا چاہیے۔ میں اس سلسلے میں کام کر رہا ہوں۔
گر سومناتھ سمیت یہ پورا خطہ ، سنیاسیوں کی سرزمین اور جین اچاریوں کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب میں بھی گرنار کے دامن میں گھومتا تھا۔ مجھے سنتوں کے ساتھ وقت گزارنے کا شرف حاصل ہے۔ ہمارے مندروں، جینوں اور دتاتریہ کے پوجا کرنے والوں کے لیے یہاں کیا نہیں ہے؟ پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی طاقت میرے گیر، بھائیوں اور بہنوں کی سرزمین میں ہے۔ اس لیے ہمیں ہر ہندوستانی کو یہاں کھینچنا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں انتظامات کرنے ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ پوری دنیا کے لوگ ہمارے گیر کے شیروں کی دھاڑ سننا چاہتے ہیں۔ گیر کے شیروں کی دھاڑ میں وہ گجرات کی دھاڑ بھی سنتے ہیں۔
دنیا فخر سے دیکھ رہی ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں گیر شیروں کی آبادی دوگنی ہو گئی ہے۔ ہم نے ان کا اتنا خیال رکھا کہ کوئی بھی ہندوستانی فخر محسوس کرے، بھائیو اور بہنو ، ایک بار جب ہمارا کیشود ہوائی اڈہ تیار ہو جائے گا تو پورے خطے کی ترقی نئی بلندیوں کو چھونے والی ہے۔ روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ ہوٹلوں، ریستورانوں، ٹیکسیوں اور آٹوز کے بہت سے امکانات ہیں بھائیو! ہمارا سوراشٹر، کچھ، گجرات کاٹھیاواڑ محب وطنوں کی سرزمین ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جو قوم کے مفادات کو اولین ترجیح دیتی ہے۔ آج میں آپ سے ایک سنجیدہ مسئلہ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ گیر شیروں کی دھاڑ کے درمیان پروان چڑھے ہیں وہ بھی کسی بھی چیز کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھنے والوں کے ساتھ اپنے دل کی بات کرنا بھی خوشی کی بات ہے۔
بھائیو اور بہنو،
اس پر سوچو! کیا آپ خلاء میں منگلیان یا چندریان کے کامیاب لانچ سے لطف اندوز نہیں ہوتے؟ کیا آپ ہمارے سائنسدانوں کی کامیابیوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے؟ اونچی آواز میں بولیں، چاہے آپ اس سے لطف اندوز ہوں یا نہ ہوں یا آپ کو فخر محسوس ہو یا نہ ہو۔ کیا آپ کو کم فخر محسوس کرنا چاہئے کیونکہ مشن میں کوئی گجراتی سائنسدان نہیں تھا اور تمام سائنس دان جنوب سے تھے، تامل ناڈو، کیرالہ اور بنگلور سے؟ کیا ہمیں ہندوستان کے کسی بھی حصے کے کسی ایسے شخص پر فخر نہیں کرنا چاہیے جس نے ملک کے لیے کوئی قابل قدر کام کیا ہو؟ مثال کے طور پر اگر ہریانہ کا کوئی نوجوان اولمپکس میں حصہ لے رہا ہے اور گولڈ میڈل جیت کر ہندوستان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ کیا آپ اس سے لطف اندوز نہیں ہوں گے چاہے وہ لڑکا یا لڑکی ہریانہ سے تعلق رکھتا ہو؟ کیا اس نے ہندوستان کا سر فخر سے بلند کیا یا نہیں؟ کیا آپ اس کے کارنامے پر فخر نہیں کریں گے؟
بھائیو،
اگر کوئی کاشی میں موسیقی پر عمل کرتا ہے اور دنیا اس کی موسیقی کی تعریف کرتی ہے تو کیا ہمیں اس پر فخر ہوگا یا نہیں؟ ہمارے مغربی بنگال میں جو عظیم علماء کی سرزمین ہے، ادب کی بہترین تخلیقات ہے، انقلابیوں کی سرزمین ہے، اگر ان سے کوئی اچھا کام ہو جائے تو کیا ہم خوش ہوں گے یا نہیں؟ آج کل ساؤتھ کی ہماری فلمیں دنیا میں کمال کر رہی ہیں۔ اگرچہ ہم جنوبی ہند کی زبان نہ جانتے ہوں لیکن اگر جنوبی ہند کی فلم انڈسٹری کے بنانے والے دنیا میں ریکارڈ بناتے ہیں اور بھاری منافع کماتے ہیں تو کیا ہمیں ان پر فخر ہوگا یا نہیں؟ کیا پورے ہندوستان کو اس کا خیر مقدم نہیں کرنا چاہیے؟ ہندوستان کے مختلف حصوں سے لوگوں نے فلم کو نہ دیکھا ہو گا اور نہ ہی سمجھا ہو گا، لیکن پھر بھی وہ خوش ہوں گے۔ ہندوستان میں کسی بھی جگہ، کسی بھی ذات یا زبان سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اگر کچھ اچھا کرتا ہے تو اس ملک کے تمام لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن تنزلی دیکھو! پچھلی دو دہائیوں میں بگڑی ہوئی ذہنیت اور یکسر مختلف سوچ رکھنے والے لوگ نمودار ہوئے ہیں۔ اگر گجرات میں کچھ اچھا ہوتا ہے، اگر گجرات کا کوئی اپنا نام بناتا ہے، اگر گجرات کا کوئی ترقی کرتا ہے اور اگر گجرات ترقی کرتا ہے تو انہیں دکھ ہوتا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کا سیاسی نظریہ اس وقت تک ادھورا رہتا ہے جب تک کہ وہ گجرات اور گجرات کے لوگوں کو گالی نی دیں اور بے عزتی نہ کریں، بھائیوں اور بہنوں۔ کیا گجرات کو ان کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
گجراتیوں کو سخت محنت کرنی چاہئے، گجراتیوں کو تپسیا کرنا چاہئے اور ملک کے لوگوں کو روزی روٹی فراہم کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے، اور اس طرح گجرات کی بدنامی ہوئی ہے۔ کیا ہمیں یہ برداشت کرنے کی ضرورت ہے بھائیوں؟ میں بہادروں کی سرزمین سے پکار رہا ہوں کہ گجرات گجراتیوں اور گجرات کی توہین برداشت نہیں کرے گا۔ اس ملک میں کسی کی توہین نہیں ہونی چاہیے۔ بنگالیوں کی بھی توہین نہ کی جائے۔ تاملوں کی بھی توہین نہیں ہونی چاہیے۔ کیرالہ کے بھائیوں کی بھی توہین نہ کی جائے۔ ملک کے ہر شہری کی کوششیں، بہادری اور کارنامے ہم سب کے لیے باعث فخر ہونا چاہیے۔ انہیں سیاست میں باندھنے کا کلچر بند ہونا چاہیے۔ ہم ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے خواب کو چکنا چور نہیں ہونے دیں گے۔ سردار صاحب جیسے لوگوں کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ بھائیو اور بہنو، گجرات کو ان لوگوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو مایوسی پھیلاتے ہیں اور جو اپنی مایوسیوں اور جھوٹ کو گجرات کے ذہن پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گجرات کا اتحاد ہی گجرات کی طاقت ہے۔ متحدہ گجرات ملک کی بھلائی کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
میں گجرات اور گجرات کے لوگوں کے سامنے جھکتا ہوں اور ان سے گزارش کرتا ہوں کہ اس اتحاد کو برقرار رکھیں، ترقی کی بات کو پھیلاتے رہیں اور ترقی کرتے رہیں۔ آج آپ کو پیش کردہ ترقی کے مواقع کے لیے میری نیک خواہشات۔ آپ کو دیوالی کی بہت بہت مبارک ہو! نیا سال بھی قریب آ رہا ہے۔ نئی قراردادوں کے ساتھ، ایک بار پھر سب کے لیے نیک خواہشات۔
بھارت ماتا کی جئے!
بھارت ماتا کی جئے!
بھارت ماتا کی جئے!
بہت شکریہ بھائیو اور بہنو۔
ڈس کلیمر: وزیر اعظم کی اصل تقریر گجراتی زبان میں ہے، جس کا ترجمہ یہاں کیا گیا ہے۔
*****
U.No.11694
(ش ح - اع - ر ا)
(Release ID: 1870189)
Visitor Counter : 237
Read this release in:
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Bengali
,
Assamese
,
Manipuri
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam