وزیراعظم کا دفتر
’وانجیہ بھون‘ کے افتتاح اور نِریات پورٹل کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
23 JUN 2022 12:53PM by PIB Delhi
کابینہ کے میرے ساتھی جناب پیوش گوئل جی، جناب سوم پرکاش جی، محترمہ انوپریہ پٹیل جی، صنعت اور برآمدات سے جڑے تمام ساتھی، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
نئے ہندوستان میں سٹیزن سینٹرک گورننس کے جس سفر پر ملک پچھلے 8 سالوں سے چل رہا ہے آج اس سمت میں ایک اور اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ ملک کو آج ایک نئی اور جدید وانجیہ بھون کے ساتھ ساتھ ایک نریات پورٹل بھی تحفے کی شکل میں مل رہا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک فزیکل انفراسٹرکچر اور دوسرا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی علامت ہے۔ یہ دونوں تجارت اور صنعت سے متعلق ہماری حکمرانی میں مثبت تبدیلی اور خود انحصار ہندوستان کے لیے ہمارے توقعات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں اس موقع پر آپ سب کو، تجارت اور کامرس اور برآمدات سے وابستہ پوری برادری کو اور خاص طور پر ہمارے ایم ایس ایم ایز کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آج ملک کے پہلے وزیر صنعت ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی برسی ہے۔ ان کی پالیسیاں، ان کے فیصلے، ان کے عزم، ان کے عزم کی تکمیل، آزاد ہندوستان کو سمت دینے میں بہت اہم رہی ہے۔ آج ملک ان کو دلی خراج عقیدت پیش کررہا ہے۔
ساتھیوں،
مجھے یقین ہے کہ نئے وانجیہ بھون میں آپ ایک نئی تحریک، ایک نئے عزم کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ یہ عہد ایز آف ڈوئنگ بزنس اور ایز آف لیونگ کا ہے اور ان دونوں کے درمیان کی اہم کڑی ایز آف ایکسیز ہے۔ حکومت کے ساتھ رابطے اور سرکاری سہولیات تک رسائی میں کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، اس طرح کی آسان رسائی ملک کی ترجیح ہے۔ ملک کے شہریوں کو بنیادی سہولیات میسر ہوں، بینکنگ تک رسائی ہو، حکومتی پالیسی سازی تک رسائی ہو، یہ گزشتہ 8 سال کے گورننس ماڈل کا سب سے اہم پہلو رہا ہے۔ ہندوستان نے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے جو پالیسیاں بنائی ہیں، جو فیصلے کیے ہیں، اس میں بھی یہی وژن جھلکتا ہے۔ دیہاتوں میں، چھوٹے شہروں میں، مدرا یوجنا سے تیار کروڑوں کاروباری افراد ہوں، لاکھوں ایم ایس ایم ایز کی پالیسی اور بینک کریڈٹ کی شکل میں حوصلہ افزائی ہو، لاکھوں خوانچہ فروشوں کو بینک کریڈٹ کی سہولت ہو، ہزاروں اسٹارٹ اپ کی ترقی کیلئے مسلسل کوششیں ہو،ان سب کے پیچھے اہم بنیادی وجہ آسان رسائی رہی ہے۔ حکومت کی اسکیموں کے فائدے سب تک پہنچیں، بلا تفریق پہنچے، تب ہی سب کی ترقی ممکن ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سب کے لیے آسان رسائی اور ترقی کا یہ جذبہ اس نئے وانجیہ بھون میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔
ساتھیوں،
آپ سب لوگوں میں ایک اصطلاح بہت مشہور ہے – ایس اوپی یعنی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر۔ یعنی کام کرنے کا ایک خاص طریقہ۔ پہلے حکومتوں کے ایس او پی کو سمجھا جاتا تھا کہ حکومت کوئی پراجیکٹ شروع کرتی تھی، لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ یہ کب تیار ہوگا۔ سیاسی مفاد کے لیے اعلانات کردئے جاتے تھے لیکن وہ کب اور کیسے پورے ہوں گے، اس پر کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی تھی۔ اس تصور کو ہم نے کس طرح تبدیل کیا ، اس کی مثال یہ بھون ہے اور جیسا کہ ابھی ذکر ہوا، آج یہ اتفاق ہے کہ میں نے اس عمارت کا سنگ بنیاد 22 جون 2018 کو رکھا تھا اور آج 23 جون 2022 کو اس کی رونمائی ہورہی ہے۔ اس دوران کورونا کی وجہ سے بہت سی رکاوٹیں بھی آئیں۔ لیکن اس سب کے باوجود جو عزم کیا گیا تھا وہ آج کارنامہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یعنی نیو انڈیا کا نیا ایس او پی ہے – جس دن جس کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا ،اسی دن اس کے افتتاح کی ٹائم لائن پر ایمانداری سے کام شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں آپ کو یہاں دہلی میں ہی ایسی کئی مثالیں ملیں گی۔ ابھی کچھ دن پہلے پرگتی میدان کے قریب انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ کوریڈور کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ حکومت کے منصوبے برسوں تک لٹکے نہ رہیں ، وقت پر مکمل ہوں، حکومتی اسکیمیں اپنے اہداف تک پہنچے ، تب ہی ملک کے ٹیکس دہندگان کی عزت ہے۔ اور اب ہمارے پاس پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کی شکل میں ایک جدید پلیٹ فارم بھی ہے۔ نئے ہندوستان کی امنگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اس نئے وانجیہ بھون کو بھی ہر متعلقہ شعبے میں ملک کو آگے لے جانا ہے۔
ساتھیوں،
سنگ بنیاد رکھنے سے لے کر افتتاح تک، وانجیہ عمارت بھی اس عرصے میں تجارت کے شعبے میں ہماری کامیابیوں کی بھی علامت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سنگ بنیاد رکھنے کے وقت میں نے جدطرازی اور گلوبل انوویشن انڈیکس میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ آج ہم گلوبل انوویشن انڈیکس میں 46 ویں نمبر پر ہیں اور مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔ سنگ بنیاد کے دن، ہم نے کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ آج جب اس عمارت کا افتتاح ہو رہا ہے، تب تک 32 ہزار سے زائد غیر ضروری تعمیلی کام کاج کو ہٹا دیا گیا ہے، 32 ہزار، کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟ سنگ بنیاد رکھنے کے وقت جی ایس ٹی کو نافذ کیا گیا، چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اپنے عروج پر تھے۔ آج ہر ماہ ایک لاکھ کروڑ روپے کا جی ایس ٹی جمع ہونا ایک معمول بن گیا ہے۔ وانجییہ بھون کا سنگ بنیاد رکھنے کے وقت، ہم نے جی ای ایم پورٹل پر تقریباً 9 ہزار کروڑ کے آرڈر پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ آج اس پورٹل پر 45 لاکھ چھوٹے کاروباری رجسٹرڈ ہیں اور جی ای ایم پر 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر دیے جاچکے ہیں۔
ساتھیوں،
اس وقت میں نے بتایا تھا کہ کس طرح موبائل مینوفیکچرنگ یونٹس 2014 کے بعد 2 سے بڑھ کر 120 ہو گئے ہیں۔ آج یہ تعداد 200 سے زائد ہے اور ہم درآمد کنندگان سے آگے نکلتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے موبائل فون برآمد کنندگان کی شکل میں ایک قوت بن کر ابھرے ہیں۔ 4 سال پہلے ہندوستان میں 500 سے کم رجسٹرڈ فن ٹیک اسٹارٹ اپس تھے۔ آج ان کی تعداد تقریباً 2300 سے تجاوز کر چکی ہے۔ تب ہم ہر سال 8 ہزار اسٹارٹ اپس کو منظوری دیتے تھے، آج یہ تعداد 15 ہزار تک جا رہی ہے۔ عالمی وبا کے باوجود، اہداف کا تعین اور مخلصانہ کوششوں کی مدد سے، ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔
ساتھیوں،
سنکلپ سے سدھی کی جو سوچ آج نئے بھارت میں بنی ہے ، اُس کی بہترین مثال ہے ہمارا ایکسپورٹ ایکو سسٹم ہے۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں، ہم نے ہندوستان کو برآمدات میں اضافہ اور عالمی برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے مینوفیکچرنگ کا ایک پسندیدہ مقام بنانے کیلئے ایک مشترکہ عزم کیا تھا ۔ پچھلے سال، تاریخی عالمی رکاوٹوں کے باوجود جس نے پوری سپلائی چین کو تباہ کر دیا، ہندوستان نے کل 670 بلین ڈالر، یعنی 50 لاکھ کروڑ روپے کی برآمدات کی۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تعداد کتنی بے مثال ہے۔ پچھلے سال ملک نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر چیلنج کے باوجود اسے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپے تک تجارتی سامان کی برآمدات کو بڑھانا ہے۔ لیکن ہم نے اسے بھی عبور کیا اور 418 بلین ڈالر یعنی 31 لاکھ کروڑ روپے کی برآمد کا ریکارڈ بنایا ہے۔
ساتھیوں،
گزشتہ سالوں کی اس کامیابی سے حوصلہ حاصل کرتے ہوئے، اب ہم نے اپنے برآمدی اہداف میں اضافہ کیا ہے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیا ہے۔ یہ جو نئے اہداف ہیں ،انہیں مقاصد کے حصول کے لیے سب کی اجتماعی کوشش بہت ضروری ہے۔ انڈسٹری، ایکسپورٹرز اور ایکسپورٹ پروموشن کونسلز کے ممبران بھی یہاں موجود ہیں۔ میں آپ سے یہ بھی گزارش کرتا ہوں کہ اپنی سطح پر نہ صرف قلیل مدتی بلکہ طویل مدتی برآمدات کے اہداف بھی مقرر کریں۔ صرف ہدف ہی نہیں، وہاں تک پہنچنے کا راستہ کیا ہونا چاہیے، حکومت کس طرح مدد کر سکتی ہے، ہم اس پر بھی مل کر کام کریں گے، یہ بہت ضروری ہے۔
ساتھیوں،
تجارت کے سالانہ تجزیہ کے لیے نیشنل امپورٹ ایکسپورٹ یعنی نریات پلیٹ فارم اس سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ اس میں برآمد کنندگان، حکومت کے مختلف محکموں، ریاستی حکومتوں، تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ضروری اصل وقت کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوگی۔ اس سے بہت سے سائلوز کو توڑنے میں مدد ملے گی، جو ہماری صنعت ہے، ہمارے برآمد کنندگان ہیں، انہیں ضروری فیصلے لینے میں مدد ملے گی۔ اس پورٹل سے دنیا کے 200 سے زیادہ ممالک کو برآمد کیے جانے والے 30 سے زیادہ اجناس گروپوں سے متعلق اہم معلومات آپ سب کو دستیاب ہوں گی۔ آنے والے وقت میں اس پر ضلع وار برآمدات سے متعلق معلومات بھی دستیاب ہوں گی اور ایک ضلع ، ایک پروڈکٹ کو جو مشن موڈ میں کام ہورہا ہے، وہ آخر کار یہاں بھی جڑنے والا ہے۔ اس سے اضلاع کو برآمدات کے اہم مراکز بنانے کی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پورٹل ملک کی ریاستوں میں برآمدات کے شعبے میں صحت مند مسابقت کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ ہم ریاستوں کے درمیان صحت مند مقابلہ چاہتے ہیں۔ کون سی ریاست تجاتی سامان کی برآمدات کتنا کرتی ہے،کتنی زیادہ مقامات کو کور کرتی ہے، کتنے مختلف حالتوں میں برآمدات کرتی ہے۔
ساتھیو،
علیحدہ علیحدہ ملکوں کے ترقی کا سفر مطالعہ کریں، تو یہ بات مشترک دکھتی ہے کہ اُن ممالک کی ترقی اسی وقت ہوئی جب ان کی برآمد ات بڑھی ۔ یعنی ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ملک بننے میں بر آمدات کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔ اس سے روز گار کے مواقع بھی بڑھتے ہیں اور خود روز گار کے مواقع بھی بڑھتے ہیں۔ گزشتہ 8 سالوں میں ہندوستان بھی اپنی بر آمدات مسلسل بڑھا رہا ہے، بر آمدات سے متعلق اہداف کو حاصل کر رہا ہے۔ بر آمدات بڑھانے کے لئے بہتر پالیسیاں ہوں، پروسس کو آسان کرنا ہو، پروڈکٹ کو نئے بازار میں لے جانا ہو، ان سب نے ، اس میں بہت مدد کی ہے۔ اور اب ہم لاجسٹک سپورٹ پر اتنی توجہ دے رہے ہیں تاکہ ہماری بر آمدات کا ہر کام کاسٹ افیکٹو بنے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ پی ایل آئی اسکیم کیسے مینو فیکچرنگ بڑھانے میں مدد کر رہی ہے۔ ہمارے ایکسپورٹ ساتھیوں کے فیڈ بیک کی بنیاد پر ، جو پالیسی ساز تبدیلیاں ہوئی ہیں، ان سے بھی کافی مدد ملی ہے۔ آج حکومت کی ہر وزارت ، ہر محکمہ ، پوری گورنمنٹ نقطہ نظر کے ساتھ بر آمدات بڑھانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ ایم ایس ایم ای وزارت کو ، یا پھر وزارت خارجہ، زراعت ہو یا تجارت، سبھی ایک مشترک مقصد کے لئے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری بر آمدات میں بہت بڑی تعداد انجینئرنگ اشیاء کی ہوتی ہے۔ اس کی بر آمدات بڑھانے میں خاص طور سے ایم ایس ایم ای شعبے کا اہم کردار رہا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ملک کے نئے نئے میدانوں میں بر آمدات بڑھ رہی ہیں۔ اتنے ہی خواہش مند اضلاع سے بھی اب در آمدات کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ کاٹن اور ہینڈ لوم پروڈکٹ کی بر آمد 55 فیصد تک بڑھنا یہ دکھا تا ہے کہ گراس روٹ سطح پر کس طرح کام ہو رہا ہے ۔ حکومت ووکل فار لوکل مہم ، ‘ایک ضلع ایک پروڈکٹ’ اسکیم کے ذریعہ ، جو مقامی مصنوعات پر زور دے رہی ہے، اس نے بھی بر آمد بڑھانے میں مدد کی ہے۔ اب دنیا کے نئے نئے ملکوں، نئے نئے ڈسٹی نیشن میں ہمارے طرح طرح کے پروڈکٹ پہلی بار برآمد کئے جار ہے ہیں۔ اب ہمارا لوکل صحیح معنی میں گلوبل بننے کی طرف تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اب دیکھئے، سیتا بھوگ میٹھائی اور نارکل نارو یعنی ناریل اور گڑھ سے بنے لڈو کا پہلا کنسائنمنٹ بحرین بر آمد کیا گیا ہے۔ ناگالینڈ کی فریش کنگ چلی لندن کے بازار میں جا رہی ہے، تو آسام کے فریش برمیز گریپس دبئی کے لئے بر آمد کئے گئے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے ہمارے آدی واسی بھائی بہنوں کی جنگل میں اگنے والے مہوا پھولوں کے پروڈکٹ فرانس، کارگل کی خوبانی دبئی بر آمد ہوئی ہے۔ اربوا، بلائیز، بر موڈا، گرینیڈا اور سوئٹزرلینڈ جیسے نئے بازاروں میں ہینڈ لومس سے متعلق پروڈکٹ بھیجے گئے ہیں۔ اپنے کسانوں، اپنے بنکروں ، اپنے روایتی پروڈکٹس کی بر آمد ایکو سسٹم سے جوڑنے کے لئے ہم مدد بھی مہیا کر رہے ہیں اور جی آئی ٹیگنگ پر بھی زور دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہم نے متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا کے ساتھ تجارتی معاہدات کو حتمی شکل دی ہے۔ باقی ممالک کے ساتھ بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ بیرون ممالک میں جو ہمارے سفارتی ادارے ہیں ان کی میں خصوصی طور پر تعریف کرنا چاہوں گا۔ کافی چیلنج بھرے ماحول کو ، جس طرح وہ ہندوستان کے لئے مواقع میں بدلنے کا کام کر رہے ہیں، ہمارے سارے مشن اس کے لئے تعریف کے مستحق ہیں۔ ان کے کاموں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
ساتھیو،
تجارت کے لئے، کاروبار کے لئے، نئے بازاروں کی پہچان کرنا اور وہاں کی ضرورتوں کی پہچان کر کے مصنوعات کو بنانا ، یہ ملک کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ماضی میں ہمارے تاجروں نے دکھایا ہے کہ باہمی شراکت داری اور اعتماد پر مبنی تجارت کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ ویلو اور سپلائی چین کے اس سبق کو ہمیں آزادی کے امرت کال میں مستحکم کرنا ہے۔ ایسے ہی ویلوز کی بنیاد پر ہم نے متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا کے ساتھ تجارتی معاہدات کو انجام دیا ہے۔ مختلف ممالک اور علاقوں کے ساتھ بھی تیزی سے ہم ایسے معاہدات کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔
ساتھیو،
گزشتہ 8 سالوں میں ملک کی حصولیابیاں ہر ہندوستانی کو فخر سے بھر دیتی ہیں۔ اسی جذبے سے کام کرتے ہوئے آزادی کے اس امرت کال میں، آنے والے 25 سال کے لئے ہم نے جو عزم کئے ہیں، ہمیں ان کے لئے کام کرنا ہے۔ آج نئی عمارت بھی بن گئی ہے، نیا پورٹل بھی لانچ ہو گیا، لیکن یہاں ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایک طرح سے نئے عزائم کے ساتھ ، نئی توانائی کے ساتھ ، نئی حصولیابی کے لئے تیز رفتار سے چلنے کا کام شروع ہو رہا ہے۔ میں ہر محکمہ سے اپیل کروں گا کہ ابھی تک جو پورٹل اور جو پلیٹ فارم ہم نے بنائے ہیں، ان کی کارکردگی کا وقتا فوقتا جائزہ لینا چاہئے۔ جن اہداف کے ساتھ ہم نے ان ٹولس کو ترقی دی ہے، وہ کتنے مکمل ہو پارہے ہیں اور اگر کہیں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کا حل ہو، اس کے لئے کوشش ہونی چاہئے۔ میری صنعت کے ساتھیوں سے اور بر آمد کنندگان سے بھی اپیل ہے کہ آپ بلا جھجک اپنی بات حکومت کے سامنے رکھیں، اور اختراعی تجاویز لے کر آئیں، حل لے کر آئیں، ہم مل کر حل کو دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ برآمد کنندہ پورٹل پر جائیں اور بتائیں کہ اس میں کیا شامل کیا جاسکتا ہے، کیا حذف کیا جاسکتا ہے۔ ضلعی سطح پر برآمد کو بڑھانے کے لئے کیا گنجائشیں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں ضلعی سطح پر صحت مند مسابقت برآمد کی دنیا میں لانی ہے۔ ہمارے مینو فیکچررس کے درمیان بھی زیرو ڈیفکٹ – زیر ایفکٹ آن دی ورلڈ کلاس پیکجنگ، یہ مسابقت ہم کو لانی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ان سب کے اِن پُٹ سے ، سبھی کے مشوروں سے یعنی سب کے پریاس سے ہی ہم اپنے بڑے عزائم کو ثابت کرسکتے ہیں۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو نئی عمارت کی مبارک باد ، اور اس مبارک کام میں مجھے شریک ہونے کے لئے مدعو کیا، اس کے لئے بھی میں محکمہ کا بہت بہت شکر گزار ہوں۔
بہت بہت شکریہ اور بہت بہت نیک خواہشات!
*********************
(ش ح ۔ ع ح)
U.No. 6826
(Release ID: 1836482)
Visitor Counter : 229
Read this release in:
Bengali
,
Marathi
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Tamil
,
English
,
Hindi
,
Manipuri
,
Odia
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam