وزیراعظم کا دفتر

انڈین اسکول آف بزنس، حیدرآباد کے 20 برس مکمل ہونے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 MAY 2022 5:41PM by PIB Delhi

تلنگانہ کی گورنر محترمہ تملسائی سوندر راجن جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی شری جی کرشن ریڈی جی، حکومت تلنگانہ کے وزیر، انڈین اسکول آف بزنس اگزیکیوٹیو بورڈ کے چیئرمین، ڈین، دیگر پروفیسر حضرات، اساتذہ، والدین اور میرے نوجوان ساتھیو!

آج انڈین اسکول آف بزنس نے اپنے قابل افتخار سفر کا ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ہم سبھی آئی ایس بی کے قیام کے 20 برس مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ آج متعدد ساتھیوں کو اپنی ڈگری حاصل ہوئی ہے، طلائی تمغات حاصل ہوئے ہیں۔ آئی ایس بی کو کامیابی کے اس مقام پر پہنچانے میں متعدد لوگوں کی تپسیا شامل رہی ہے۔ آج میں ان تمام افراد کو یاد کرتے ہوئے آپ سبھی کو، آئی ایس بی کے پروفیسر حضرات کو، فیکلٹی، تمام اساتذہ کو، والدین کو، آئی ایس بی کے سابق طلبا کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

سال 2001 میں اٹل جی نے اسے ملک کے لیے وقف کیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک تقریباً 50 ہزار اگزیکیوٹیو حضرات یہاں سے تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ آج آئی ایس بی ایشیا کے سرکردہ بزنس اسکولوں میں سے ایک ہے۔ آئی ایس بی سے نکلنے والے جو پیشہ واران ہیں۔ وہ ملک کے کاروبار کو رفتار عطا کر رہے ہیں، بڑی بڑی کمپنیوں کا مینجمنٹ سنبھال رہے ہیں۔ یہاں طلبا نے متعدد اسٹارٹ اپس قائم کیے ہیں، متعدد یونیکارنوں کی تعمیر میں ان کا کردار رہا ہے۔ یہ آئی ایس بی کے لیے حصولیابی تو ہے ہی پورے ملک کے لیے بھی باعث فخر ہے۔

ساتھیو،

مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ حیدرآباد اور موہالی کیپمس کی پہلی مشترکہ گریجویشن تقریب ہے۔ آج جو طلبا پاس ہوکر نکل رہے ہیں، ان کے لیے یہ اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ اس وقت ملک اپنی آزادی کے 75 برس کا جشن منا رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ہم گذشتہ 75 برسوں کی حصولیابیوں کو دیکھ رہے ہیں اور آنے والے 25 برسوں کے عزائم کا منصوبہ بھی وضع کر رہے ہیں۔ آزادی کے اس امرت کال میں، آئندہ 25 برسوں کے لیے جو عزم ہم نے لیا ہے، اس کی حصولیابی میں آپ سبھی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اور آج بھارت میں جو امید ہے، لوگوں میں جو خوداعتمادی ہے، نئے بھارت کی تعمیر کے لیے جو قوت ارادی ہے، وہ آپ کے لیے بھی متعدد امکانات کے دروازے کھول رہی ہے۔ آپ خود دیکھئے، آج بھارت جی20 ممالک کے گروپ میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اسمارٹ فون ڈاٹا کنزیومر کے معاملے میں بھارت سرفہرست ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد کو دیکھیں تو بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عالمی خوردہ عدد اشاریہ میں بھی بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکونظام بھارت میں ہے۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی صارف منڈی بھارت میں ہے۔ ایسی کئی چیزیں  میں آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ کورونا جیسے عالمی وبائی مرض میں ہم سب نے اور دنیا نے بھارت کی طاقت دیکھی ہے۔ صدی کی اس سب سے بڑی آفت میں عالمی سپلائی چینوں میں اتنا بڑا خلل پیدا ہوا، پھر جنگ نے بھی اس بحران میں مزید اضافہ کر دیا۔ ان سب کے درمیان بھی، بھارت آج نمو کے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ گذشتہ برس بھارت میں اب تک کی سب سے زیادہ، ریکارڈ ایف ڈی آئی آمد عمل میں آئی۔ آج دنیا یہ محسوس کر رہی ہے کہ بھارت ترقی کے لیے پابند عہد ہے۔ اور یہ صرف تنہا حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوا ہے۔ اس میں آئی ایس بی جیسے بزنس اسکولوں کا، یہاں سے نکلنے والے پیشہ واران کا، ملک کے نوجوانوں کا بھی بہت بڑا تعاون ہے۔ خواہ اسٹارٹ اپس ہوں، یا روایتی کاروبار ہوں، خواہ مینوفیکچرنگ ہو یا خدمات کا شعبہ ہو، ہمارے نوجوان یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کر سکتے ہیں۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں نہ، آپ کو بھروسہ ہے کہ نہیں اپنے آپ پر۔ مجھے آپ پر بھروسہ ہے۔ آپ کو اپنے آپ پر ہے؟

ساتھیو،

اسی لیے آج دنیا بھارت کو، بھارت کے نوجوانوں کو، اور بھارت کی مصنوعات کو ایک نئے احترام اور نئے اعتماد کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

ساتھیو،

بھارت جس پیمانے پر جمہوری طریقہ سے متعدد چیزیں اپنے یہاں کر سکتا ہے، جس طریقہ سے ہم یہاں کوئی پالیسی یا فیصلہ نافذ کر سکتے ہیں، وہ پوری دنیا کے لیے مطالعہ یا سیکھنے کا موضوع بن جاتا ہے۔ اور اس لیے ہم اکثر و بیشتر بھارتی حل کو عالمی سطح پر نافذ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور اس لیے میں آج اس اہم دن کے موقع پر آپ سے کہوں گا کہ آپ اپنے انفرادی اہداف کو، ملک کے اہداف کے ساتھ مربوط کیجئے۔ آپ جو سیکھتے ہیں، آپ جو بھی پہل قدمیاں انجام دیتے ہیں، اس سے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوگا، اس بارے میں ہمیشہ سوچنا چاہئے، ضرور سوچئے۔ آج ملک میں خواہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مہم ہو، ڈیڑھ ہزار سے زیادہ پرانے قوانین اور ہزاروں تعمیلات کو ختم کرنے کا کام ہو، ٹیکس سے متعلق دیگر قوانین کو ختم کرکے جی ایس ٹی جیسے شفاف نظام کا قیام ہو، صنعت کاروں اور جدت طرازی کو فروغ دینا ہو،  نئی اسٹارٹ اپ پالیسی ہو، ڈرون پالیسی ہو، دیگر نئے شعبوں کو کھولنا ہو، 21ویں صدی کی ضروریات کو پورا کرنے والی قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنا ہو، یہ ساری  بڑی تبدیلیاں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے ہی تو ہو رہی ہیں۔ آپ جیسے نوجوانوں کی جانب سے موصول ہونے والے جو حل ہیں، ان حلوں کو نافذ کرنے کے لیے آپ کے خیالات کو ملک کی طاقت بنانے کے لیے ہماری حکومت ہمیشہ ملک کی نوجوان طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔

ساتھیو،

آپ نے سنا ہوگا کئی مرتبہ میں ایک بات کو بار بار دوہراتا بھی ہوں اور اکثر و بیشتر میں ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم، کی بات کرتا ہوں۔ یہ منتر ، ملک میں آج جو حکمرانی ہے، اس کی وضاحت کرتا ہے۔یہ آپ جیسے مینجمنٹ کے طلبا، پیشہ واران کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ میں یہ ساری باتیں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ آپ لوگ یہاں سے نکلنے کے بعد بہت سارے پالیسی فیصلے لینے والے ہیں۔ پالیسی صرف ڈرائنگ بورڈ پر اچھی ہو، کاغذ پر بہتر ہو، زمین پر اگرنتیجہ نہ دے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے پالیسی کا تجزیہ، نفاذ اور حتمی نتیجے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کے منتر نے کیسے پالیسیوں کی ، ملک کی حکمرانی کی ازسر نو وضاحت کی ہے، یہ بھی میں چاہوں گا کہ آپ جیسے نوجوانوں کے لیے جاننا بہت ضروری ہے۔

ساتھیو،

گذشتہ 8 برسوں کا موازنہ اگر آپ اس سے پہلے کی تین دہائیوں سے کریں گے تو، ایک بات پر ضرور غور کریں گے۔  ہمارے ملک میں اصلاحات کی ضرورت تو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی تھی لیکن سیاسی قوت ارادی میں ہمیشہ کمی رہتی تھی۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران مسلسل قائم رہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک نے طویل عرصے تک سیاسی قوت ارادی کی کمی ملاحظہ کی۔ اس وجہ سے ملک اصلاحات سے، بڑے فیصلے لینے سے دور ہی رہا ہے۔ 2014 کے بعد سے ہمارا ملک سیاسی قوت ارادی کو بھی دیکھ رہا ہے اور مسلسل اصلاحات بھی متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ ہم نے دکھایا ہے کہ اگر ایمانداری کے ساتھ، قوت ارادی کے ساتھ اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تو عوامی حمایت میں اپنے آپ اضافہ ہوتا ہے۔ فن ٹیک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس ملک میں کبھی بینکنگ کو ہی ایک خصوصی حق تسلیم کیا جاتا تھا، اس ملک میں فن ٹیک عوام الناس کی زندگی میں تبدیلی برپا کر رہی ہے۔ جہاں کبھی بینکوں کے تئیں بھروسہ قائم کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی تھی، وہاں اب دنیا کا 40 فیصد ڈجیٹل لین دین عمل میں آرہا ہے۔ ہمارے صحتی شعبہ کو بھی یہ مانا جاتا تھا کہ یہ کسی بڑی چنوتی کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ لیکن صحتی شعبہ میں اصلاحات کا اور ملک کی قوت ارادی کا نتیجہ ہم نے 100برسوں کے سب سے بڑے وبائی مرض کے دوران دیکھا ہے۔ کورونا نے جب دستک دی تب ہمارے پاس پی پی ای کٹس بنانے والے مینوفیکچرر بہت ہی کم یعنی نہ کے برابر تھے، کورونا کے لیے مخصوص بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے 1100 سے زائد پی پی ای مینوفیکچررس کا نیٹ ورک بھارت میں تیار ہوگیا۔ کورونا کی جانچ کے لیے بھی شروعات میں کچھ درجن ہی تجربہ گاہیں تھیں۔ بہت کم وقت میں ملک میں ڈھائی ہزار سے زائد تجربہ گاہوں کا نیٹ ورک تیار ہوگیا۔ کووِڈٹیکوں کے لیے تو ہمارے یہاں یہ فکر لاحق تھی کہ ہمیں غیر ملکی ٹیکہ مل پائے گا بھی یا نہیں۔ لیکن ہم نے اپنے ٹیکے تیار کیے۔ اتنے ٹیکے بنائے کہ بھارت میں بھی 190 کروڑ سے زائد خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔ بھارت نے دنیا کے 100 سے زائد ممالک کو بھی ٹیکے ارسال کیے ہیں ۔ اسی طرح طبی تعلیم میں بھی ہم نے یکے بعد دیگرے متعدد اصلاحات متعارف کرائیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ 8 برسوں میں طبی کالجوں کی تعداد 380 سے بڑھ کر 600 سے بھی زائد ہوگئی ہے۔ ملک میں میڈیکل کی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سیٹیں 90 ہزار سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں۔

ساتھیو،

گذشتہ آٹھ برسوں میں ملک نے جو قوت ارادی کا ثبوت پیش کیا ہے، اس کی وجہ سے ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔اب نوکر شاہی بھی پوری قوت سے اصلاحات کو زمین پر اتارنے میں مصروف عمل ہے۔ نظام وہی ہے، لیکن اب بہت ہی تسلی بخش نتائج سامنے آر ہے ہیں۔ اور ان آٹھ برسوں میں جو سب سے بڑی ترغیب ہے، وہ ہے عوامی شراکت داری۔ ملک کی عوام خود آگے بڑھ کر اصلاحات کو مہمیز کر رہی ہے۔ اور ہم نے یہ سووَچھ بھارت مہم کے دوران بھی دیکھا ہے۔ اور اب ووکل فار لوکل اور آتم نربھر بھارت مہم میں بھی ہم عوامی شراکت داری کی طاقت ملاحظہ کر رہے ہیں۔ جب عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو نتائج ضرور سامنے آتے ہیں، جلد سامنے آتے ہیں۔ یعنی سرکاری نظام میں سرکار اصلاحات متعارف کراتی ہے، نوکرشاہی عمل درآمد کرتی ہے اور عوام کے تعاون سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔

ساتھیو،

یہ آپ کے لیے  تفصیلی مطالعہ کا ایک بہت بڑا موضوع ہے، ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کی یہ جو قوت ہے، وہ آپ کے لیے تحقیق کا موضوع ہے۔ آئی ایس بی جیسے بڑے ادارے کو مطالعہ کرکے، تجزیہ کرکے دنیا کے سامنے اسے لانا چاہئے۔ یہاں سے جو نوجوان ساتھی پڑھ کر نکل رہے ہیں، انہیں بھی ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کے اس منتر کو ہر شعبہ میں نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ساتھیو،

میں آپ کی توجہ، ملک کے کھیل کود کے ایکو نظام میں رونما ہوئی تبدیلی کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ 2014 کے بعد ہمیں کھیل کے میدان میں غیر معمولی مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ہمارے ایتھلیٹوں کی خوداعتمادی۔ خوداعتمادی تب آتی ہے، جب صحیح ٹیلنٹ کی تلاش ہوتی ہے، جب ٹیلنٹ کی مدد کی جاتی ہے، جب ایک شفاف انتخاب ہوتا ہے، تربیت کا، مقابلہ کا ایک بہتر بنیادی ڈھانچہ حاصل ہوتا ہے۔ کھیلو انڈیا سے لے کر اولمپکس پوڈیم اسکیم تک ایسی متعدداصلاحات کے چلتے آج کھیل کود کو تغیر سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں، محسوس کر  سکتے  ہیں۔

ساتھیو،

مینجمنٹ کی دنیا میں کارکردگی،قدروقیمت میں اضافہ، پیداواریت، ترغیب، ان موضوعات پر بہت باتیں ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو عوامی پالیسی میں اس کی اعلیٰ مثال دیکھنی ہے، تو آپ کو توقعاتی اضلاع پروگرام کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ ہمارے ملک میں 100 سے زائد ایسے اضلاع تھے، جو ترقی کی دوڑ میں کافی پیچھے تھے۔ ملک کی تقریباً تمام ریاستوں میں ایک یا دو، یا کہیں پر زیادہ توقعاتی اضلاع ہیں۔ ترقی سے وابستہ ہر پیمانے میں یہ اضلاع بہت کم ترقی کرتے تھے۔ اس کا براہِ راست اثر ملک کی مجموعی کارکردگی پر مرتب ہوتا تھا۔ ان کو یہ سمجھ کر ، کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے، تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے، حالات خراب ہیں، اور اس لیے حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ ان کو پسماندہ قرار دے دیتی تھیں۔ یہ تو پسماندہ ضلع ہے،  اگر یہی سوچ ہے تو ان کے من میں بھی یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ ایسے ہی رہے گا، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سرکاری نظام میں جن افسران کو سب سے کم پروڈکٹیو خیال کیا جاتا تھا، نکما مانا جاتا تھا، ان کو اکثر ان اضلاع میں تعینات کردینا کہ، جاؤ بھائی تم تمہارا جانو، تمہارا نصیب جانے، پڑے رہو۔

لیکن ساتھیو،

ہم نے سوچ بدلی۔ جسے کل تک پسماندہ ضلع کہتے تھے۔ ہم نے کہا یہ پسماندہ نہیں ہے، یہ توقعاتی ضلع ہے۔ ہم نے ان کو توقعاتی ضلع قرار دیا، اور ہم نے طے کیا کہ ہم ان اضلاع میں ترقی کی امنگیں جگائیں گے، ایک نئی بھوک جگائیں گے۔ ملک کے اہل، نوجوان افسران کو نشان زد کرکے ان اضلاع میں بھیجا گیا۔ ان اضلاع میں ہونے والے ہر کام کی خصوصی طور پر نگرانی کی گئی، ڈسیک بورڈ پر رئیل ٹائم مانٹرنگ کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ جہاں جہاں کمیاں نظر آتی تھیں، ان کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ساتھیوں آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ آج حالت یہ ہے کہ ان میں سے کئی اضلاع آج ملک کے دوسرے بہتر سمجھے جانے والے اضلاع سے کہیں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جنہیں کبھی پسماندہ اضلاع کہتے تھے، ملک کے ترقی کے پیمانے کو متاثر کرتے تھے، وہ آج توقعاتی اضلاع بن کر ملک کی ترقی کو رفتار فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم نے ریاستوں سے کہا ہے کہ اس نقطہ نظر کو مزید وسعت دیں۔ ہر ضلع میں ایسے بلاکس ہوتے ہیں جو ترقی کے معاملے میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے بلاکس کی نشاندہی کرکے توقعاتی بلاکس مہم کو اب آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ملک میں ہو رہی یہ تبدیلی، ان کی جانکاری، آپ کو پالیسی فیصلوں میں، مینجمنٹ میں بہت مدد فراہم کرے گی۔

ساتھیو،

آپ کے لیے یہ سب جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ آج ملک میں ’کاروبار‘ کے معنی بھی بدل رہے ہیں اور ’کاروبار‘ کا دائرہ بھی وسیع ہو رہا ہے۔ آج بھارت میں اقتصادی پیش منظر، چھوٹے، متوسط، جھونپڑی، اور یہاں تک کہ غیر رسمی صنعتوں تک پھیل رہا ہے۔ یہ کاروبار لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی طاقت بہت زیادہ ہے، ان میں آگے بڑھنے کے لیے عہدبستگی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے آج جب ملک اقتصادی ترقی کے نئے باب رقم کر رہا ہے تو ہمیں ایک اور بات یاد رکھنی ہوگی۔ ہمیں چھوٹے کاروباریوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا ہوگا۔ ہمیں انہیں زیادہ بڑے پلیٹ فارم فراہم کرنے ہوں گے، ترقی کے لیے زیادہ بہتر مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ ہمیں انہیں اندرونِ ملک اور غیر ممالک میں نئے نئے بازاروں سے مربوط کرنے میں مدد فراہم کرنی ہوگی۔ہمیں انہیں زیادہ سے زیادہ تکنالوجی سے جوڑنا ہوگا۔ اور یہیں  آئی ایس بی جیسے ادارے، آئی ایس بی کے طلباء کا کردار ازحد اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ مستقبل کے بزنس لیڈر  کے طور پر آپ سبھی کو ہر بزنس کو مزید بڑا کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا، ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی۔ اور آپ دیکھئے گا، آپ چھوٹے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد کریں گے تو آپ لاکھوں صنعتوں کے قیام میں مدد کریں گے، کروڑوں کنبوں کی مدد کریں گے۔ بھارت کو مستقبل کے لیے تیار کرنے میں ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت آتم نربھر بنے۔ اور اس میں آپ جیسے کاروباری پیشہ واران کا بھی ازحد اہم کردار ہے۔ اور یہ آپ کے لیے ایک طرح سے ملک کی خدمت کی ایک مثال ہوگی۔

ساتھیو،

ملک کے لیے کچھ کرنے کا، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا آپ کا جذبہ، ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گا۔ مجھے آئی ایس بی پر، آئی ایس بی کے طلبا پر، آپ تمام نوجوانوں پر بہت بھروسہ ہے، بہت اعتماد ہے۔ آپ ایک مقصد کے ساتھ اس مقتدر ادارے سے باہر نکلیں۔ آپ اپنے اہداف کو قوم کے پختہ عزائم کے ساتھ مربوط کیجئے۔ ہم جو کچھ بھی کریں گے، اس سے ایک قوم کے طور پر ہم بااختیار بنیں گے، اس عہدبستگی کے ساتھ جب آپ کوئی بھی کوشش کریں گے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ایک مرتبہ پھر آج جن جن ساتھیوں کو مجھے میڈل دینے کا موقع حاصل ہوا ہے اور جن حضرات نے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کو ان کے کنبہ اراکین کو بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اور آئی ایس بی بھارت کے ترقی کے سفر میں ایسی پیڑھیوں کو تیار کرتا رہے، ایسی پیڑھیاں قوم کے لیے وقف ہونے کے احساس سے کام کرتی رہیں، اسی ایک امید کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!

**********

 (ش ح –ا ب ن۔ م ف)

U.No:5778



(Release ID: 1828586) Visitor Counter : 148