وزیراعظم کا دفتر

تلنگانہ، حیدرآباد میں آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی 50 ویں سالگرہ تقریبات کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 05 FEB 2022 6:26PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی، 05 فروری 2022:

تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تملسائی سوندر راجن جی، مرکزی کابینہ کے میرے رفیق نریندر سنگھ تومر جی، جی کرشن ریڈی جی، آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی ڈائرکٹر جنرل، اور آن لائن توسط سے ملک اور بیرونِ  ملک سے، خصوصاً افریقی ممالک سے جڑے معززین، یہاں موجود خواتین و حضرات!

آج بسنت پنچمی کا مبارک تیوہار ہے۔ آج ہم علم کی دیوی، ماں سرسوتی کی پوجا کرتے ہیں۔ آپ تمام حضرات جس شعبے میں ہیں، اس کی بنیاد علم اور سائنس، اختراع و تخلیق ہی ہے اور اس لیے بسنت پنچمی کے دن اس تقریب کی ایک خاص اہمیت ہو جاتی ہے۔ آپ تمام حضرات کو گولڈن جوبلی جشن کی بہت بہت مبارکباد!

ساتھیو،

50 سال ایک بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اور اس 50 برس کے سفر میں جب اور جس نے، جو تعاون دیا ہے وہ سبھی لوگ مبارکباد کے حقدار ہیں۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے جن جن لوگوں نے کوشش کی ہے، میں ان کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75ویں برس کا جشن منا رہا ہے، تو آپ کا ادارہ 50 برس مکمل کر رہا ہے۔ جب بھارت اپنی آزادی کے 100 برس مکمل کرے گا تو آپ 75ویں برس میں ہوں گے۔ جیسے بھارت نے آئندہ 25 برسوں کے لیے نئے اہداف طے کیے ہیں، ان پر کام کرنا شروع کر دیا ہے، ویسے ہی آئندہ 25 برس آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کے لیے بھی اتنے ہی اہم ہیں۔

ساتھیو،

آپ کے پاس 5 دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ان 5 دہائیوں میں آپ نے بھارت سمیت دنیا کے ایک بڑے حصے میں زرعی شعبے کی مدد کی ہے۔ آپ کی تحقیق، آپ کی تکنالوجی نے مشکل صورتحال میں کھیتی کو آسان اور ہمہ گیر بنایا ہے۔ ابھی میں نے جو تکنالوجی کا مظاہرہ دیکھا، اس میں آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی کوششوں کی کامیابی نظر آتی ہے۔ پانی اور مٹی کی انتظام کاری ہو، فصلوں کی اقسام اور پروڈکشن کے طور طریقوں میں بہتری ہو، آن فارم ڈائیورسٹی میں اضافہ ہو، لائیو اسٹاک انٹیگریشن ہو، اور کاشتکاروں کو منڈی سے جوڑنا ہو، یہ جامع نقطہ نظر یقینی طور سے زراعت کو ہمہ گیر بنانے میں مدد کرتا ہے۔تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں دالوں، خصوصاً چنا کو لے کر اس علاقے میں جو وسعت پیدا ہوئی ہے، اس میں آپ کا تعاون اہم رہا ہے۔ کاشتکاروں کے ساتھ اکری سیٹ کا تعاون پر مبنی نقطہ نظر کھیتی کو اور مضبوطی اور خوشحالی فراہم کرے گا۔ آج پودوں کے تحفظ پر تبدیلی موسمیات سے متعلق تحقیقی سہولت اور ریپڈ جنریشن ایڈوانسمنٹ فیسلٹی کے طور پر نئی سہولتوں کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ تحقیقی سہولتیں، تبدیلی موسمیات کی چنوتی کا سامنا کرنے میں زرعی شعبہ کی بہت  مدد کریں گی۔ اور آپ کو پتہ ہوگا، بدلتی ہوئی آب  وہوا میں ہمارے زرعی طور طریقوں میں کیا تبدیلیاں لانی چاہئے، اس طرح سے بھارت نے ایک بہت بڑی پہل قدمی کی ہے کہ تبدیلی موسمیات کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، جو قدرتی آفات آتی ہیں، اس میں انسانوں کی اموات لاحق ہونے کی بات تو سامنے آتی ہے۔ تاہم بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان لاحق ہوتا ہے، وہ پورے نظام کو چرمرا دیتا ہے۔ اور اس لیے حکومت ہند نے موسمیاتی مزاحمت والے بنیادی ڈھانچہ کے لیے، اس پر غور و فکر اور اسکیمیں بنانے کے لیے عالمی سطح کا ادارہ قائم کیا ہے۔ آج ویسا ہی ایک کام اس زرعی شعبہ کے لیے ہو رہا ہے۔ آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ساتھیو،

موسمیاتی تبدیلی ویسے تو دنیا کی ہر آبادی کو متاثر کرتی ہے، تاہم اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو سماج کے آخری پائیدان پر ہوتے ہیں ۔ جن کے پاس وسائل کی کمی ہے، جو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں ہمارے چھوٹے کاشتکار ہیں۔ اور بھارت میں 80 سے 85 فیصد کاشتکار چھوٹے کاشتکار ہیں۔ ہمارے چھوٹے کاشتکاروں کے لیے تبدیلی موسمیات کی بات بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس لیے، بھارت نے تبدیلی موسمیات سے نمٹنے کے لیے دنیا سے اس پر خصوصی توجہ دینے کی گذارش کی ہے۔ بھارت نے 2070 تک خالص صفر کا نصب العین تو طے کیا ہی ہے، ہم نے لائف- لائف مشن لائف اسٹائل فار اِنوائرمنٹ ، اس لائف مشن کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح سے پرو پلانیٹ پیپل ایک ایسی تحریک ہے جو تبدیلی موسمیات سے نمٹنے کے لیے ہر ایک برادری کو، ہر فرد کو موسمیاتی ذمہ داری سے جوڑتی ہے۔ یہ صرف باتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ حکومت ہند کے اقدامات میں بھی اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سال کے بجٹ میں کلائمیٹ ایکشن کو بہت زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ یہ بجٹ ہر سطح پر، ہر شعبہ میں سبز مستقبل کی بھارت کی عہد بستگی کو ترغیب فراہم کرنے والا ہے۔

ساتھیو،

آب و ہوا اور دیگر وجوہات کی بنا پر بھارت کے زرعی شعبے کے سامنے جو چنوتیاں ہیں، ان سے نمٹنے میں بھارت کی کوششوں سے آپ تمام ماہرین، سائنس داں حضرات، تکنیکی ماہرین بخوبی واقف ہیں۔ آپ میں سے زیادہ تر افراد یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت میں 15 زرعی موسمیاتی حلقے ہیں۔ ہمارے یہاں، بسنت، گرمی، برسات، شرد، ہیمنت اور شِشِر، یہ چھ موسم بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارے پاس زراعت سے متعلق بہت تنوع ہے اور بہت قدیم تجربہ بھی ہے۔ اس تجربے کا فائدہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی حاصل ہو، اس کے لیے اکری سیٹ جیسی تنظیموں کو بھی اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ آج ہم ملک کے تقریباً 170 اضلاع کو خشک سالی  سے بچاؤ کے حل پیش کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی  سے اپنے کاشتکاروں کو بچانے کے لیے ہماری توجہ بنیادی چیزوں کو اپناکر مستقبل کے لیے آگے بڑھنا ہے۔ ہماری توجہ ملک کے ان 80 فیصد سے زائد چھوٹے کاشتکاروں پر ہے، جن کو ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس بجٹ میں بھی آپ نے غور کیا ہوگا کہ قدرتی طریقہ کاشت اور ڈجیٹل زراعت پر غیر معمولی طور پر زور دیا گیا ہے۔ ایک جانب ہم باجرا-موٹے اناج کا دائرہ بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، کیمیا سے مبرا کھیتی پر زور دے رہے ہیں، تو دوسری جانب شمسی پمپوں سے لے کر کسان ڈرونس تک کھیتی میں جدید تکنالوجی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آزادی کے امرت کال یعنی آنے والے 25 برسوں کے لیے زرعی نمو کے لیے ہماری تصوریت کا یہ بہت اہم حصہ ہے۔

ساتھیو،

تبدیل ہوتے بھارت کا ایک اہم پہلو ہے- ڈجیٹل زراعت۔ یہ ہمارا مستقبل ہے اور اس میں بھارت کے باصلاحیت نوجوان، بہت بہترین کام کر سکتے ہیں۔ ڈجیٹل تکنالوجی سے کیسے ہم کاشتکاروں کو بااختیار بنا سکتے ہیں، اس کے لیے بھارت میں کوششیں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ فصلوں کا تجزیہ ہو، زمین کے ریکارڈس کو ڈجیٹل شکل دینا ہو، ڈرون کے توسط سے کیڑے کش دواؤں اور زرخیزی میں اضافے کے عناصر کے چھڑکاؤ کی بات ہو، ایسی متعدد خدمات میں تکنالوجی کا استعمال، آرٹی فیشل انٹلی جینس کا استعمال بڑھایا جا رہا ہے۔ کاشتکاروں کو قابل استطاعت اور ہائی ٹیک خدمات فراہم کرانے کے لیے، زرعی تحقیق سے وابستہ ایکو نظام اور نجی ایگری ٹیک اداروں کے ساتھ مل کر کام ہو رہا ہے۔ آب پاشی کے فقدان والے علاقوں میں کاشتکاروں کو بہتر بیج، زیادہ پیداوار، پانی کی انتظام کاری کو لے کر آئی سی اے آر اور اکری سیٹ کی شراکت داری کامیاب رہی ہے۔ اس کامیابی کو ڈجیٹل زراعت میں بھی توسیع دی جا سکتی ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے امرت کال میں ہم اعلیٰ زرعی نمو پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مبنی بر شمولیت ترقی کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ زراعت کے شعبے میں خواتین کا تعاون بہت اہم ہے۔ انہیں ہر طرح کی مدددینے کے لیے سیلف ہیلپ گروپوں کے توسط سے بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ زراعت ملک کی بہت بڑی آبادی کو غریبی سے باہر نکال  کر بہتر طرزِ حیات کی جانب لے جانے کے مضمرات کی حامل ہے۔ یہ امرت کال، مشکل جغرافیائی حالات میں کھیتی کرنے والے کاشتکاروں کو مصیبتوں سے باہر نکالنے کے نئے راستے بھی مہیا کرائے گا۔ ہم نے دیکھا ہے، آب پاشی کے فقدان میں ملک کا ایک بہت بڑا حصہ سبز انقلاب کا حصہ نہیں بن پایا تھا۔ اب ہم دوہری حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ایک طرف ہم آبی تحفظ کے ذریعہ، ندیوں کو جوڑ کر ایک بڑے علاقے کو آبپاشی کے دائرے میں لا رہے ہیں، اور ابھی جب میں شروعات میں یہاں کی تمام حصولیابیوں کو دیکھ رہا تھا، تو اس میں بندیل کھنڈ میں کس طرح سے پانی کی انتظام کاری کو اور ’فی قطرہ زیادہ فصل‘ کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے کیسے کامیابی حاصل کی گئی ہے، اس کا تفصیلی ذکر سائنس داں حضرات میرے سامنے  کر رہے تھے۔ وہیں دوسری جانب، ہم کم آبپاشی والے علاقوں میں پانی کے استعمال کی اثرانگیزی میں اضافہ کے لیے مائیکرو آبپاشی پر زور دے رہے ہیں۔ جن فصلوں کو پانی کی ضرورت کم ہوتی ہے، اور جو پانی کی کمی سے متاثر نہیں ہوتیں انہیں بھی جدید اقسام کی ترقی سے ترغیب فراہم کی جا رہی ہے۔ خوردنی تیل میں آتم نربھرتا کے لیے جو قومی کمیشن ہم نے شروع کیا ہے، وہ بھی ہماری  نئی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ آنے والے 5 برسوں میں ہمارا ہدف پام آئل کے شعبے میں ساڑھے چھ لاکھ  ہیکٹیئر کا اضافہ کرنے کا ہے۔ اس کے لیے حکومت ہند  کاشتکاروں کو ہر سطح پر مدد دے رہی ہے۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کے کاشتکاروں کے لیے بھی یہ مشن بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ مجھے بتایا گیا ہے، تلنگانہ کے کاشتکاروں نے پام آئل کی پلانٹیشن  سے وابستہ بڑے نصب العین طے کیے ہیں۔ ان کو تعاون فراہم کرنے کےلیے مرکزی حکومت ہر ممکن مدد کرے گی۔

ساتھیو،

گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں پوسٹ ہارویسٹ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں 35 ملین ٹن کی کولڈ چین اسٹوریج صلاحیت تیار کی گئی ہے۔ حکومت نے جو ایک لاکھ کروڑ روپئے کا زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ بنایا ہے، اس کی وجہ سے بھی پوسٹ ہارویسٹ بنیادی ڈھانچہ کی تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ آج بھارت اہم میں ایف پی او اکائیوں اور زرعی ویلیو چین قائم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ملک کے چھوٹے کاشتکاروں کو ہزاروں ایف پی او میں منظم کرکے ہم انہیں ایک بیدار اور بڑی مارکیٹ طاقت بنانا چاہتے ہیں۔

ساتھیو،

بھارت کے نیم بنجر علاقوں میں کام کرنے کا اکری سیٹ کے پاس ایک زبردست تجربہ ہے۔ اس لیے نیم بنجر علاقوں کے لیے ہمیں مل کر کاشتکاروں کو جوڑ کر ہمہ گیر اور متنوع پیداواری نظام قائم کرنا ہوگا۔ اپنے تجربات کو مشرقی اور جنوبی افریقہ کے ممالک کے ساتھ ساجھا کرنے کے لیے ایکسچینج پروگرام بھی شروع کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارا ہدف محض اناج کی پیداوار میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ آج بھارت کے پاس اضافی غذائی اجناس ہے، جس کے بل بوتے پر ہم دنیا کا اتنا بڑا خوراک سلامتی پروگرام چلا رہے ہیں۔ اب ہم خوراک سلامتی کے ساتھ ساتھ تغذیائی سلامتی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اسی تصوریت کے ساتھ گذشتہ 7 برسوں میں ہم نے متعدد بایو فورٹیفائیڈ ویرایٹیز تیار کی ہیں۔ اب اپنی کھیتی کو متنوع بنانے کے لیے، خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ پیداواریت کے لیے، بیماریوں اور کیڑوں سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے والی لچک دار اقسام پر ہمیں زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔

ساتھیو،

اکری سیٹ،  آئی سی اے آر اور زرعی یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر ایک اور پہل قدمی پر کام کر سکتا ہے۔ یہ شعبہ ہے حیاتیاتی ایندھن کا۔ آپ تو میٹھے سرغو پر کام کرتے رہے ہیں۔ آپ ایسے بیج تیار کر سکتے ہیں جس سے خشک سالی سے متاثر کاشتکار، یا کم زمین والے کاشتکار زیادہ حیاتیاتی ایندھن فراہم کرنے والی فصلیں اُگا سکیں۔ بیچوں کی مؤثر ڈلیوری کیسے ہو، ان کے تئیں یقین کیسے پید اہو، اس کے لیے بھی ہمیں  مل کر ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ساتھیو،

میرا یقین ہے کہ آپ جیسے اختراعی اذہان کی مدد سے، عوامی شراکت داری سے، اور معاشرے کی عہدبستگی سے ہم زراعت سے وابستہ تمام چنوتیوں پر فتح حاصل کر پائیں گے۔ بھارت اور دنیا کے کاشتکاروں کی زندگی بہتر بنانے میں آپ زیادہ اہل ہو، بہتر سے بہتر تکنیکی حل فراہم کرتے رہیں، اسی  امید کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اکری سیٹ کو اس اہم موقع پر، ان کے شاندار ماضی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے، روشن مستقبل کی امید کرتے ہوئے، ملک کے کاشتکاروں کی شان و شوکت کے طور پر آپ کی کوششیں کام آئیں، اس کے لیے میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت مبارکباد!

شکریہ!

***

 

ش ح۔اب ن ۔ م ف

U. No. 1195



(Release ID: 1795832) Visitor Counter : 163