وزیراعظم کا دفتر

انڈیا گیٹ پر نیتا جی کے ہولوگرام مجسمے کی نقاب کشائی  کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 23 JAN 2022 10:36PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،23 جنوری 2022/ اس تاریخی پروگرام میں موجود وزراء کی کونسل  کے میرے ساتھی جناب امت شاہ ، جناب ہردیپ سنگھ پوری جی، کابینہ کے دیگر ممبران، آئی این اے کے تمام ٹرسٹی،  این ڈی ایم اے کے تمام  ،جیوری ممبرس، این ڈی آر ایف، کوسٹ گارڈز اورآئی ایم ڈی کے  ڈائریکٹر جنرلز ، آفات انتظامی ایوارڈز کے تمام  فاتحین ساتھی، دیگر تمام معزز شخصیات، بھائیو اور بہنو!

بھارت ماں کے بہادر بیٹے، نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں  یوم پیدائش پر پورے ملک کی  جانب سے میں آج نمن کرتا ہوں۔ یہ دن تاریخی ہے، وقت کا یہ حصہ بھی تاریخی ہےا ور یہ مقام ،جہاں ہم سبھی جمع ہوئے ہیں وہ بھی تاریخی ہے۔  ہندستان کے جمہوریہ کے  علامت ہمارےٹیلنٹ پاس میں ہے، ہماری سرگرمیاں اور عوامی  ایمانداری کی علامت  متعدد عمارتیں بھی ہمارے ساتھ پاس میں نظر آرہی ہیں ، ہمارے بہادر شہیدوں اور ملک کو  وقف  وار میموریل بھی پاس ہے۔   ان سب کے سائے میں آج ہم  انڈیا گیٹ پر امرت مہوتسو منارہے ہیں اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کو باعزت خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔نیتاجی سبھاش، جنہوں نے ہمیں آزادی اور خودمختار ہندستان کا یقین دلایا تھا، جنہوں نے بڑے فخر کے ساتھ، خود اعتمادی کے ساتھ ، بڑے حوصلہ کے ساتھ انگریزی حکمرانی کے سامنے کہا  تھا’’ میں  آزادی کی بھیک نہیں لوں گا، میں اسے حاصل کروں گا‘‘ْْ ۔ جنہوں نے ہندستان کی سرزمین پر پہلی آزادحکومت کو  قائم کیا تھا، ہمارے ان نیتا جی کا شاندار مجسمہ آج ڈیجیٹل شکل میں انڈیا گیٹ کے نزدیک قائم ہورہا ہے۔ جلد ہی اس ہولوگرام مجسمے کے مقام پر گرینائیٹ کا عظیم مجسمہ  بھی لگے گا۔ یہ مجسمہ  آزادی کے عظیم ہیرو کو احسان مند ملک کی  خراج عقیدت ہے۔  نیتا جی سبھاش چندر کی یہ مورتی  ہمارے جمہوری اداروں کو ،ہماری نسلوں کو، وطن کے فرض کا احساس کرائیں گی، آنے والی نسلوں کو ، موجودہ نسلوں کو مسلسل ترغیب دیتی رہیں گی۔

ساتھیو!

گزشتہ سال سے ملک میں نیتا جی کی سالگرہ کویوم پراکرم کے طور پر منانا شروع کیاہے۔ آج یوم پراکرم کےموقع پر سبھا ش چندر بوس آفات انتظام ایوراڈ بھی دیئے گئےہیں۔ نیتاجی کی زندگی سے ترغیب لیتے ہوئے ان ایوارڈز کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ سال 2019 سے 2022 تک اسوقت کے تمام  فاتحین، تمام افراد،  تمام تنظیموں کو جنہیں آج عزت افزائی کا موقع ملا ہے، ان سب کو بھی میں بہت بہت مبارک دیتا ہوں۔

ساتھیو!

ہمارے ملک میں آفات کے انتظام کو لے کر جس طرح کا رویہ رہا تھا، اس پر ایک کہاوت  بہت درست بیٹھتی ہے۔جب پیاس لگی تو کنواں کھودنا۔ اور جیسے میں  کاشی علاقے سے آتا ہوں وہاں تو ایک اور بھی کہاوت ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ’بھوج گھڑی کوہڑا روکے‘۔ْ یعنی جب   کھانے کا وقت آگیا توکوہڑے کی سبزی اگانے لگنا،  یعنی جب آفت سر پر آجاتی تھی تو اس سے بچنےکی  تدابیر کھوجی  جاتی تھیں۔  اتنا ہی نہیں ،  ایک اور حیران کرنے والا  نظام تھا۔ جس کے بارے میں کم ہی لوگوں کو پتہ ہے۔ ہمارےملک میں  بارش تک آفت کا  موزوں  ، ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ (زرعی محکمہ) کے پاس رہتا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ  سیلاب، ژالہ باری،انتہائی بارش ایسی جو صورتحال پیدا ہوتی تھیں اس سے نمٹنےکا ذمہ اس کا تعلق  وزارت زراعت سے آتا تھا۔ ملک میں جب آفات  کا انتظامایسا ہی چلتا رہتا تھا ۔ لیکن 2001 میں گجرات میں زلزلہ آنے کے بعد جو کچھ ہوا ملک کس نئے سرے سے سوچنے کے لئے مجبور کیا۔اب اس نے  آفات انتظام کے معنی بدل دیئے۔ ہم نے تمام محکموں اور وزارتوں کو راحت اور بچاؤ کے کام میں جھونک دیا۔اس وقت کےجو تجربات تھے، ان سے سیکھتے ہوئے ہی  2003 میں  گجرات اسٹیٹ  ڈیزاسٹر منجمنٹ ایکٹ  بنایا گیا۔  آفت سے نمٹنے کے لئے گجرات اس طرح کا  قانون بنانے والی ملک کی پہلی ریاست بنی۔ بعد میں مرکزی حکومت نے، گجرات کے قانون   سے سبق لیتے ہوئے 2005 میں پورے ملک کے لئےایسا ہی ڈیزاسٹر منجمنٹ ایکٹ بنایا۔ اس قانون کے بعد ہی نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی  اور اس کے قیام کا راستہ ہموار ہوا۔ اسی قانون نے کورونا  کے خلاف لڑائی میں بھی ملک کی بہت مدد کی۔

ساتھیو!

ڈیزاسٹر منجمنٹ کو موثر بنانے کے لئے 2014 کے بعد سےہماری حکومت نے قومی سطح پر چوطرفہ کام کئے ہیں۔ ہم نے ریلیف، ریکسیو، ری ہیبلی ٹیشن پرزور دینے کے ساتھ ہی  ریفارم پر بھی زور دیا ہے۔ ہم نے این ڈی آر ایف  کو مضبوط کی، اس کی جدید کاری کی، ملک بھر میں اس کی توسیع کی۔ اسپیس ٹکنالوجی سے لے کر پلاننگ منجمنٹ  بیسٹ پوسیبل پریکٹیس کو اپنایا۔ ہمارے این ڈی آر ایف کےساتھی، اور حفاظتی دستوں کے جوان اپنی جان کی بازی لگاکر ایک ایک زندگی کو بچاتے ہیں۔ اس لئے  آ ج یہ گھڑی جان کی بازی لگانے والے ، دوسروں کی زندگی بچانے والے  خود کی زندگی کو داؤں پر لگانے والے چاہے وہ این ڈی آر ایف کے لوگ ہوں ،چاہے ایس  ڈی آر ایف کے لوگ ہیں، ہمارے حفاظتی دستے کےساتھ ہوں،یہ سب کے سب ان کے تئیں آج  احسان مند ی  ظاہر کرنے کا، ان کو سلیوٹ کرنے کا یہ  وقت ہے۔

ساتھیو!

اگر ہم اپنے نظاموں کو مضبوط کرتے چلیں ، تو آفات سے نمٹنے کی صلاحیت دنوں دن بڑھتی چلی جاتی ہے۔میں اسی کورونا دور کے ایک دو سال کی بات کروں تو  اس وبا کے درمیان بھی  ملک کے سامنے  کئی آفات  آکرکھڑی ہوگئیں۔  ایک طرف کورونا سے تو لڑائی لڑ ہی رہےتھے، متعدد مقامات پر زلزلے آئے ، کتنے ہی علاقوں میں سیلاب آیا ، مغربی بنگال سمیت مشرقی ساحلی پر  طوفان  آئے،گوا، مہاراشٹر، گجرات، مغربی ساحلوں پر طوفان آئے، پہلے ایک ایک طوفان میں  سیکڑوں لوگوں کی موت ہوجاتی تھی، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ ملک نے ہر چیلنج کا جواب اسی طرح سے دیا، اسی وجہ سے ان آفات میں ہم زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے۔ آج  بڑی بڑی بین الاقوامی ایجنسیاں  ہندستان کی اس صلاحیت کی تعریف کررہی ہیں۔ آج ملک میں ایک ایسا  اینڈ ٹو اینڈ سائیلکلون سسٹم ہے جس میں مرکز ، ریاست، مقامی ا نتظامیہ، تمام ایجنسیاں ایک ساتھ ملکر کام کرتی ہیں۔ سیلاب، قحط سالی،  طوفان ، ان سبھی آفات کے  لئے  وارننگ سسٹم میں سدھار کیا گیا ہے۔  ڈیزاسٹر رسک اینالسس کے لئے ایڈوانس  ٹولز بنائے گئےہیں ، ریاستوں کی مدد سے  الگ الگ علاقوں کے لئے ڈیزاسٹر رسک میپ   بنائے گئے ہیں۔  اس کا فائدہ تمام  ریاستوں کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو  مل رہا ہے۔ اور سب سے اہم ، ڈیزاسٹر منجمنٹ ، آفات انتظام  آج ملک میں  عوامی حصے داری اور عوامی اعتمادکا  موضوع بن گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے کی’ آفات متر‘ جیسی اسکیم سے نوجوان آگے آرہے ہیں۔ آفت متر کے طور پر ذمہ داریاں اٹھار رہے ہیں۔ یعنی عوامی حصہ داری بڑھ رہی ہے۔ کہیں کوئی آفت آتی ہے تو لوگ وکٹمس نہیں رہتے ، وہ والینڑیئر س بن کر آفت کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ یعنی  آفات انتظام  اب ایک سرکاری کام  نہیں ہے ، بلکہ یہ  ’سب کا پریاس‘ کا ایک ماڈل بن گیا ہے۔

 اور ساتھیو!

جب میں سب کی کوشش کی بات کرتا ہوں تو اس میں ہر شعبے میں ہورہی کوشش  ایک ہولسٹک اپروچ بھی شامل ہے۔آفات انتظام کو ترجیح دیتے ہوئے  ہم نے اپنے ایجوکیشن  سسٹم میں بھی متعدد تبدیلیاں کی ہیں۔  جو سول انجیئنرنگ کے کورس ہوتےہیں ، آرکیٹیچر سے جڑے کورس ہوتےہیں، اس کے نصاب میں  ڈیزاسٹر منجمنٹ  کو جوڑا، انفراسٹکچر کی ساخت کیسی ہے،  اس پر موضوع کو جوڑنا، یہ سارے کام  کوشش طلب ہیں۔ حکومت نے ڈیم فیلیور کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ڈیم سیفٹی قانون بھی بنایا ہے۔

ساتھیو!

دنیا میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو اس میں لوگوں کی دکھ بھری موت کی بات ہوتی ہے، کہ اتنے لوگوں کی موت ہوگئی ، اتنے لوگوں کو ہٹایا گیا، مالی نقصان بھی بہت ہوتا ہے،  اس کی بھی بات چیت کی جاتی ہے۔ لیکن آفت میں جو انفراسکرکچر کا نقصان ہوتاہے، وہ تصور سے  دور ہوتا ہے۔ اس لئے  یہ  بہت ضروری ہے کہ  آج کے وقت میں انفراسٹرکچر کی تعمیر ایسی ہونی چاہئے جو آفات میں بھی ٹک سکے، اس کا سامنا کرسکے۔ ہندستان آج  ملک میں بھی تیزی سے کام کررہا ہے، جن علاقوں میں زلزلہ، سیلاب یا  طوفانوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے، وہاں پر پی ایم آواس یوجنا کے تحت بن رہے گھروں میں بھی اس کا دھیان رکھا جاتاہے،۔ اتراکھنڈ میں  جو چار دھام عظیم پروجیکٹ کا م چل رہا ہے، اس میں بھی آفات کے نظام کا دھیان رکھا گیا ہے۔  اترپردیش میں بھی  جو نئے ایکسپریس   وے بن رہے  ہیں،  ان میں بھی آفات سے جڑی باریکیاں کو ترجیح دی گئی ہے۔ آفات کی صورت میں یہ ایکسپریس وے ، جہاز اتارنے کے کام آسکیں، اس کا بھی   حل کیا گیا ہے۔  یہی نئے  ہندستا ن کا وژن ہے، نئے ہندستان کا سوچنے کا طریقہ ہے۔

ساتھیو!

ساتھیو!

ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفرانسٹرکچر کی اسی سوچ کے ساتھ دنیا کو بھی ایک بہت بڑی تنظیم کا خیال دیاہے، تحفہ دیا ہے۔ یہ تنظیم ہیں، سی ڈی آر آئی –کولیشن فارڈیزاسٹر ریزیلیٹ انفراسٹرکچر۔ ہندستان کی اس پہل میں برطانیہ ہمارا  اہم ساتھی  بنا ہے اور آج دنیا کے  35 ملک اس سے جڑ چکے ہیں۔ دنیا کے الگ الگ ملکوں کے درمیان فوجوں کے درمیان ہم نے ان جوائنٹ ملٹری ایکسرسائز  بہت دیکھی ہے۔  پرانی روایات ہیں ، اس کی بات چیت بھی ہوتی ہے۔  لیکن ہندستان نے پہلی مرتبہ ڈیزاسٹر منجمنٹ کے لئے  جوائنٹ ڈرل کی  روایت شروع کی ہے۔ کئی ممالک میں مشکل وقت  میں ڈیزاسٹر منجمنٹ سے جڑی  ایجنسیوں نے اپنی خدمات  دی ہیں۔ انسانیت کے تئیں اپنے فرض کو نبھایا ہے جب نیپال میں زلزلہ آیا ، اتنی بڑی تباہی مچی تو ہندستاننے  ایک دوست کی طرح  اس دکھ کو باٹنے کے لئے ذرا بھی دیری نہیں کی تھی۔  ہمارے این ڈی آر ایف کے جوان وہاں فوری پہنچ گئے تھے۔ ڈیزاسٹر منجمنٹ کا  ہندستان کا تجربہ  صرف ہمارے  لئے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے  آپ سبھی کو یاد ہوگا 2017میں ہندستان نے ساؤتھ ایشیا  جیو اسٹیشنری  کمیونی کیشن سٹیلائٹ کولانچ کیا ، موسم اور مواصلات کے شعبے میں اس کا  فائدہ  ہمارے جنوب ایشیا کے  دوست ممالک کو  مل رہا ہے۔

ساتھیو!

حالات کیسے بھی ہوں اگر ہم میں حوصلہ ہے تو ہم آفات کو موقع میں بدل سکتےہیں یہی پیغام نیتا جی نے ہمیں آزادی کی لڑائی کے دوران دیا تھا۔  نیتا جی کہتے تھےکبھی بھی آزاد ہندستان کے  خواب کا یقین نہیں مت کرنا۔ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے  جو ہندستان کو جھنجھوڑ سکے۔ آج ہمارے سامنے آزاد ہندستان کے خوابوں کو پورا کرنے کا ہدف ہے۔ ہمارے سامنے آزادی کے  ان 100ویں سال سے پہلے، 2047 سے پہلے  نئے ہندستان کی تعمیر کا ہدف ہے۔  اور نیتا جی ملک پر جو اعتماد تھا،  جو جذبات نیتا جی کے دل میں ابھرتے تھے  اور ان کے ہی  ان جذبات کے سبب میں کہہ سکتا ہوں کہ  دنیا کی کوئی طاقت نہیں  ہےجو ہندستان کو اس ہدف تک  پہنچنے سے روک سکے۔ ہماری کامیابیاں ، ہماری عظم کی طاقت کا ثبوت ہے۔ لیکن یہ سفر ابھی لمبا ہے۔  ہمیں ابھی کئی  چوٹیاں اور پار کرنی ہیں۔   اس کے لئے ضروری ہے ، ہمیں ملک کی تاریخ کا ہزاروں سال کے سفر میں اس سے وضع دینے والے تپسیا، قربانی، اور بلدیانوں سے واقف رہیں۔

بھائیو اور بہنو!

آزادی کا امرت مہوتسو کا عزم ہے کہ ہندستان اپنی پہنچان اور ترغیبات کو دوبارہ زندگی دے۔ یہ بدقسمت رہی کہ  آزادی کے بعد ملک کی ثقافت اور اقدار کےساتھ ہی متعدد عظیم شخصیات کے   تعاون کو مٹانے کا کام کیا گیا۔ آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں  اہل وطن کی  تپسیا شامل تھی لیکن ان کی تاریخ کو بھی  محدود کرنے کی  کوشش ہوئی۔ لیکن آج آزادی کی دہائیوں کے بعد ملک ان غلطیوں کو ڈنکے کی چوٹ پر سدھار رہا ہے۔  آپ دیکھئے ، بابا صاحب امبیڈکر سے  جڑے پنچ تیرتھوں کو  ملک ان کے وقار کے مطابق فروغ دے رہا ہے۔  اسٹیچو آف یونٹی آج پوری دنیا میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے  شہرت کی تیرتھ بن گئی ہے۔  بھگوان برسا منڈا کی جینتی کو قبائلی فخر کے دن کے طور پر منانے کی شروعات بھی ہم سب نے کردی ہے۔  نیتاجی کی زندگی سے جڑی ہر وراثت کو بھی ملک پورے  فخر سے سنجو رہا ہے۔ نیتا کے  ذریعہ انڈومان میں ترنگا لہرانے کی  75ویں سالگرہ پر  انڈومان کے ایک جزیرے کا نام  ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔  ابھی دسمبر میں ہی  ، انڈومان میں ایک  خصوصی ’سنکلپ اسمارک‘ نیتاجی سبھا چندر بوس  کے لئے  وقف کی گئی ہے۔یہ یادگار نیتاجی کے ساتھ  انڈین نیشنل آرمی کے  ان جوانوں کے لئے بھی  ایک خراج عقیدت ہے، جنہوں نے آزادی کے لئے اپنا سب کچھ  نچھاور کردیا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے گزشتہ سال آج کے ہی دن مجھے کولکتہ میں  نیتاجی کے آبائی گاؤں بھی جانے کا موقع ملا تھا۔ جس طرح سے وہ کولکتہ سے نکلے تھے ، جس کمرےمیں وہ بیٹھ کر پڑھتے تھے، ان کی گھر کی سیڑھیاں ، ان کے گھر کی دیواریں، ان کا دیدار کرنا، وہ تجربہ بیان کرنے  سے پرے ہے۔

 ساتھیو!

میں21 اکتوبر 2018 کا وہ ودن بھی نہیں بھول سکتا جب آزاد ہند حکومت کے  75 سال پورے ہوئے تھے، لال قلعہ میں ہوئی  خصوصی تقریب میں میں نے آزاد ہند فوج کی کیپ پہن کر ترنگا پھیرایا تھا۔  وہ لمحہ عجیب و غریب ہے۔ وہ لمحہ  بھولانہیں جاسکتاہے۔  مجھے خوشی ہے کہ لال قلعہ میں ہی آزاد ہند فوج سے جڑی  ایک یاد گار پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ 2019 میں 26 جنوری کی پریڈ میں آزاد ہند فوج کے  سابق سپائیوں کو دیکھ کر دل جتنا خوش ہوا وہ بھی میری انمول یادیں ہیں۔  اوراسےبھی میں اپنی خوش قسمتی مانتاہوں کہ ہماری حکومت کو نیتاجی سے جڑے فائلوں کو منظر عام پر لانے کا موقع ملا ہے۔

ساتھیو!

نیتا جی سبھاش  کچھ ٹھان لیتے تھے تو پھر انہیں کوئی طاقت نہیں  روک سکتی تھی۔  ہمیں نیتاجی کے ’کین ڈو، ول ڈو‘ اسپرٹ سے  ترغیب لیتے ہوئے  آگے بڑھنا ہے ۔ وہ یہ جانتے تھے ، ہندستان میں نیشنلزم  نے ایسی  تخلیقی  طاقت کو بھر دیا ہے جو صدیوں سے لوگوں کے اندر سوئی پڑی تھی۔  ہمیں نیشلزم  بھی  زندہ رکھنا ہے۔   ہمیں  تخلیق بھی کرنا ہے اور  ملک کے شعور کو بیدار بھی رکھنا ہے۔ مجھے اعتماد ہےکہ ہم مل کر بھارت کو نیتاجی سبھاش کے خوابوں کا بھارت بنانے میں کامیاب ہوں گے ۔ آپ تمام لوگوں کو ایک مرتبہ پھر  پرکرم دوس کی بہت بہت  مبارک باد دیتا ہوں اور میں آج  این ڈی آر ایف ، ایس ڈی آر ایف کے لوگوں پر بھی خصوصی طور پرمبارک باد دیتا ہوں۔  کیونکہ بہت چھوٹے عرصے میں  انہوں نے اپنی پہنچان بنالی ہے۔  آج کہیں پر بھی آفت آتی ہو یا آفت سے متعلق  امکانات کی خبریں ہوں ، سائیکلون جیسی  اور جب این ڈی آر ایف کے جوان  یونی فارم میں نظرآتے ہیں عام انسان کو بھروسہ ہوجاتا ہے کہ اب مدد پہنچ گئی ہے۔  اتنے کم وقت میں  کسی تنظیم اور اس یونیوفارم کی پہنچان بننا  یعنی جیسے ہمارے ملک میں  کوئی تکلیف ہو،  اور فوج کےجوان آجائیں تو عام آدمی کو   سکون ہوجاتا ہے۔ ویسے ہی آج این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کے جوانوں میں اپنے جذبے سے کرکے دکھایا ہے۔  میں پراکرم دیوس پر نیتا جی کو یاد کرتےہوئے میں این ڈی آر ایف کے جوانوں کو  ایس ڈی آر ایف کےجوانوں کو انہوں نے جس کام کو جس درد مندی اور حساسیت کے ساتھ اٹھایا ہے ۔ بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔  میں جانتا ہوں اس آفات  انتظام کے کام میں اس شعبےمیں کام کرنے والے متعدد لوگوںنے اپنی زندگی قربان کردی ہے۔ میں آج ایک ایسے جوانوں کو بھی  خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے کسی کی زندگی کو بچانے کے لئے اپنی زندگی   داؤ پر لگادی تھی ایسے سب لوگوں کو  میں  عزت کے ساتھ نمن کرتے ہوئے میں آپ سب کو بھی  آج پراکرم دیوس کے بےحد بے حد  نیک خواہشات دیتے ہوئے  اپنی  بات کو ختم کرتا ہوں ، بہت بہت شکریہ !

 

ش ح۔   ش ت۔ج

Uno-660



(Release ID: 1792055) Visitor Counter : 273