وزیراعظم کا دفتر

فکی کی 93ویں سالانہ جنرل میٹنگ  سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 12 DEC 2020 2:12PM by PIB Delhi

 

نمسکار،

فکی صدر  سنگیتا ریڈی جی، سکریٹری جنرل  دلیپ  چنائے  جی ہندستان کے صنعتی دنیا  کے ساتھی ، خواتین و حضرات!

ہم لوگوں نے  20-20 کے میچ  کے ساتھ بہت کچھ بدلتے دیکھا ہے، 20-20 کے اس سال نے سبھی کو شکست دے دی ہے۔  اتنے نشیب و فراز سے  ملک گذرا ہے، پوری دنیا  گذر رہی ہے کہ کچھ برسوں بعد جب ہم کورونا  وقت کو یاد کریں گے، تو شاید یقین  ہی نہیں آئے  گا، لیکن اس سےبھی سب  سے اچھی بات رہی ہے جتنی تیزی سے حالات بگڑے، اتنی  ہی تیزی کےساتھ  سدھر بھی رہے ہیں،  فروری مارچ  میں جب وبا کا یہ دور شروع ہوا تھا  تو ہم ایک لاک  ڈاؤن  دشمن سے لڑر تھے۔  بہت سی غیر یقینی صورتحال   پروڈکشن ہو، لوجسٹک ہو، معیشت کی احیا  ہو،  بے شمار موضوع تھے، کب تک ایسا چلے گا،  ہر ایک کے دل میں یہی سوال   تھا کیسے سب ٹھیک ہوگا، انہیں سوالوں  ، چیلنجز ، فکروں سے  دنیا کا ہر شخص   اسی میں پھنسا پڑا تھا۔  لیکن آج  دسمبر آتے آتے   صورتحال بدلی ہوئی  نظر آرہی ہے۔ ہمارے پاس جواب بھی ہے اور  روڈ میپ بھی ہے۔  آج جو معیشت  کے اشاریہ ہیں وہ  حوصلہ بڑھانے والے ہیں۔   بحران کے وقت میں ملک  نے جو سیکھا ہے۔ اسے  مستقبل  کی عزائم کو اور مضبوط کیا ہے  اور یقینی طور پر اس  کا بہت بڑ ا  سہرا بھارت  کے انٹرپرینیئر   کو جاتا ہے،  ہندستان کی نوجوان نسل  کو جاتا ہے، ہندستان کے کسانوں کو جاتاہے، آپ سبھی   کاروباری افراد  کو سبھی  ملک کے عوام کو جاتاہے۔

ساتھیو،

ہمیشہ سے عالمی وبا کے ساتھ ایک  تاریخ ، ایک سبق جڑا رہا ہے، جو ملک  ایسی وبا کے وقت اپنے زیادہ سے زیادہ  شہریوں کو بچا لے جاتا ہے، اس ملک کی باقی ساری سہولیات، اتنی ہی تیزی کے ساتھ   واپس کرنے کی طاقت  رکھتا ہے۔  اس وبا کے وقت ،  ہندستان نے اپنے شہریوں کی زندگی   کو اولین ترجیح دی، زیادہ سے زیادہ  لوگوں کی زندگی  بچائی اور آج اس کا نتیجہ  ملک بھی دیکھ رہا ہے، دنیا  بھی دیکھ رہی ہے۔ بھارت نے  جس طرح  گزشتہ  کچھ مہینوں میں  مل جل کر  کام کیا ہے،  پالیسیاں بنائی ہیں،  فیصلے لئے  ہیں  ، صورتحال کو سنبھالا ہے، اس نے  پوری دنیا کو    حیرت زدہ  کردیا ہے۔ گزشتہ 6 برسوں میں دنیا  کا جو اعتماد  ہندستان پر بنا تھا، وہ گزشتہ مہینوں میں اور مضبوط ہوا ہے ۔ ایف ڈی آئی ہو یا ایف پی آئی،  غیر ملکی  سرمایہ کاروں نے ریکارڈ توڑ سرمایہ کاری کی ہے، اور مسلسل کررہا ہے۔

آج ملک کا ہر شخص ، آتم نربھربھارت مہم کو کامیاب  بنانے کے لئے عہد بند ہے۔ لوکل کے لئے ووکل ہوکر کام کررہا ہے۔  یہ ایک زندہ مثال ہے کہ ملک کو اپنے  پرائیوٹ سیکٹر پر کتنا بھروسہ ہے۔ ہندستان کا پرائیوٹ سیکٹر نہ صرف ہماری  بنیادی  ضروریات کو پورا کرتا سکتا ہے، بلکہ   عالمی طور پر بھی اپنی شناخت اس کو  اور مضبوطی سے قائم کرسکتا ہے۔

ساتھیو،

آتم نربھر بھارت ، بھارت میں کوالٹی پروڈکٹس بنانے اور ہندستانی انڈسٹری کو اور زیادہ  مسابقتی بنانے کا بھی  ذریعہ ہے اور 2014 میں پہلی مرتبہ، جب لال قلعہ سے بولنے کا مجھے موقع ملا تھا تب میں نے ایک کہی تھی کہ ہمارا  ہدف رہنا چاہئے  زیروڈیفیکٹ ، زیرو  ایفیکٹ۔

ساتھیو!

تجربہ  رہا ہے کہ  پہلے کے وقت  کی پالیسیوں نےکئی  میدانوں میں نااہلوں کو  تحفظ دیا ہے، نئے تجربات کرنے سے روکا ہے جب کہ آتم نربھر بھارت مہم ہر میدان میں  قابلیت کو فروغ دیتا ہے۔

 ایسے  سیکٹرس جن میں ہندستان کے   پاس طویل مدتی مسابقتی مفاد  ہے، ان میں سن رائز اور ٹکنالوجی بیسڈ انڈسٹریز  کو نئی توانائی  دینے پر زیادہ توجہ  دی  جارہی ہے۔  ہم چاہتے ہیں کہ ہماری  یہ  infant industries  بھی مستقبل  میں اور زیادہ   مضبو ط اور آزاد  بنیں۔   

اس لئے آپ نے دیکھا ہوگا ، ایک اور اہم قدم اٹھایا گیا ہے  ۔ ملک میں Production Linked Incentive scheme شروع کی گئی ہے۔  یہ اسکیم ان  صنعتوں کے لئے ہے جس میں ہندستان  گلوبل چیمپئن  بننے کی  قابلیت رکھتا ہے۔  جو Perform کرے گا، جو  efficiency سے کام کرے گا ، جو اپنے سیکٹر میں ملک کو آتم نربھر بنائے گا  ، وہ  Incentive کا بھی حقدار ہوگا۔ ساتھیو،  زندگی ہو یا گورنرس، ہم ایک پیراڈاکس اکسر دیکھتے ہیں، جسے یقین ہوتا ہے وہ دوسروں کو جگہ دینے میں ہچکچاتا  نہیں ہے۔ لیکن  جو کمزور دل کا ہوتا ہے، غیر محفوظ ہوتا ہے ، وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی موقع دینے سے ڈرتا ہے۔ اکثر حکومتوں کو  لے کر بھی ایسا ہی ہوتا ہے،عوام کے  بھاری حمایت اور یقین سے بنی  حکومت  کا اپنا ہی  یقین ہوتا ہے اور اتنا ہی  سرشار بھی ہوتا ہے اور تبھی تو سب کا ساتھ سب کا وکاس ، سب وشواس ، اس منتر کو  کریکٹر کرنے کے لئے  جی جان سے حکومت  لگی رہتی ہے۔   حکومت جتنی فیصلہ کن ہوتی ہے وہ دوسروں کے لئے  رکاوٹوں کو اتنا ہی کم کرتی ہے۔   ایک فیصلہ کن سرکاری کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے  کہ وہ سماج  کے لئے رکاوٹوں کو اتنا ہی کم کرتی ہے۔ ایک فیصلہ کرن سرکار کی ہمیشہ   کوشش ہوتی ہے کہ وہ سماج  کے لئے  قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ  تعاون کریں۔ ایک فیصلہ کن سرکار، اور پراعتماد  سرکار ، یہ بھی نہیں چاہتی کہ سارا کنٹرول اپنے پاس رکھے، دوسروں کو کچھ کرنے ہی نہ  دے۔  پہلے کے دور میں سرکاروں کو اس سوچ کے آپ سبھی گواہ ہیں اور ملک اس کا شکار بھی رہا ہے۔  سوچ  کیا تھا،  سب کچھ سرکار کرے گی۔  گھڑی بنانی ہو  تو سرکار بناتی تھی۔ اسکوٹر بنانا ہو ، سرکار  بناتی تھی، ٹی بنانا ہو ، سرکار بناتی تھی یہاں تک کہ بریڈ اور کیک بھی سرکار ہی بناتی تھی۔ ہم نے دیکھا ہے اس اپروچ نے کتنی خرابی کی ہے،۔ اس   کے علاوہ ایک وژن اور فیصلہ کن حکومت پر اسٹک ہولڈر  کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکیں۔

گزشتہ 6 برسوں  میں ہندستان نے بھی ایسی ہی حکومت  دیکھی ہے جو صرف اور صرف  130 کروڑ ملک کے عوام کے خوابوں کووقف  ہے جو ہر سطح پر ملک کے عوام کو  آگے لانے کے لئے کام   کررہی ہ ے۔ ہندستان میں  آج ہر میدان میں ہر اسٹیک ہولڈر کی حصہ داری بڑھانے کے لئے  کام ہورہا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ مینوفیکچرنگ سے ایم ایس ایم از تک، زراعت سے لے کر  انفراسٹرکچر  تک، ٹیک   انڈسٹری سے ٹیکسزیشن  ت، ، ریئل اسٹیٹ سے ریگولیٹر ایزینگ تک چو طرفہ ریفارمس  کے لئے ہے۔ آج ہندستان میں کارپوریٹ ٹیکس دنیا میں سب سے  مسابقتی ہے۔آج ہندستان ، دنیا  کے ان کچھ ملکوں میں شامل ہے  جہاں فیس لیس اسسمنٹ اور فیس لیس  اپیل کی سہولت ہے۔ انسپیکٹر راج  اور  ٹیکس  ٹیرزم  کے دور  کو پیچھے چھوڑ کر ہندستان ، اپنے ملک کے  کاروباری افراد  پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ مائننگ ہو، ڈیفینس ہو، زیادہ  تر سیکٹر کو انویسٹمنٹ کے لئے  ، ہندستانی   ٹیلنٹ کے لئے کامپٹیشن کےلئے آج  مواقعوں کی،ایک  طرح سے بے شمار  مواقعوں کی ایک  روایت کھڑی کردی ہے۔ ملک میں لوجسٹک کو مسابقتی بنانے کے لئے  ملٹی ماڈل کنیکٹی ویٹی پر فوکس کیا جارہا ہے۔

ایک متحرک معیشت میں جب ایک سیکٹر ترقی کرتاہے   تو اس کا سیدھا اثر  دوسرے سیکٹرو ں پر بھی پڑتا ہے۔ لیکن آپ  تصور کرسکتے ہیں  کہ اگر ایک انڈسٹری سے دوسری کے درمیان بے وجہ   ہی دیوار کھڑی  کردی جائے تو کیا ہوگا۔  تب کوئی انڈسٹری  تیزی سے ترقی  نہیں کر پائے گی۔  جتنی  کی اس میں طاقت ہے۔ جتنا  اس کو کرنا چاہئے۔ ایک انڈسٹری   کسی طرح  ترقی بھی کرے گی تو اسکا اثر دوسرے سیکٹر پر بھی  کبھی نہیں پڑے گا ۔ الگ الگ  سیکٹرس میں اس دیوار نے   ملک کی معیشت کا بہت نقصان کیا ہے۔ اب ملک میں جو اصلاح  ہورہی ہے ، وہ ان دیواروں کو ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جو زرعی اصلاحات ہوئی ہیں ، وہ اسی کی ایک  کڑی ہیں۔ زرعی سیکٹر  اور اس سے تعلق رکھنے والے دوسرے  شعبے چاہے وہ  زرعی  انفراسٹرکچر ہو،فووڈ پروسیسنگ ہو، اسٹوریج ہو، کولڈ چینس ہوِ ان کے درمیان  پہلے ہم نے  بھی ایسی ہی دیوار دیکھی ہے۔ اب یہ سبھی دیواریں ہٹائی جارہی ہیں۔ سبھی رکاوٹیں  ہٹائی جارہی ہیں  ، ان دیواروں  کو ہٹان کے بعد ، ان اصلاحات کے بعد کسانوں کو نئے بازار ملیں گے، نئی ترجیحات  ملیں گی،  انہیں ٹکنالوجی کا زیادہ    فائدہ ملے گا  ،   ملک کا کولڈ اسٹوریج انفراسٹرکچر  جدید ہوگا، ان سب سے  زرعی  میدان میں زیادہ سرمایہ کاری ہوگی،  اور ان سب کا سب سے زیادہ  فائدہ اگر کسی کو ہونے والا ہے تو وہ میرے ملک کے کسانوں کو ہونے والا ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے زمین کی ٹکڑوں پر زندگی گذارتا ہے

اس کسان کا بھلا ہونے والا ہے۔  ہمارے ملک کی معیشت کو الگ الگ سیکٹرس میں دیواریں نہیں، زیادہ  سے زیادہ  پل چاہئیں  تاکہ وہ ایک دوسرے   کی مدد کرسکیں گے۔

گزشتہ برسوں میں ان دیواروں کو توڑنے کے لئے کیسے  ایک منصوبہ بند  اور مکمل اپروچ کے ساتھ اصلاح کئے گئے ہیں، اس کی بہترین مثال ہے، ملک کے کروڑوں لوگوں کی مالی شمولیت، اب ہم بینکنگ شمولیت سے  سب سے زیادہ  شمولیت والے ملکوں میں شامل ہوگئے ہیں۔   آپ بھی اس بات کے گواہ رہے ہیں کہ تمام  رکاٹوں کو دور کرتے ہوئے  ہندستان میں کس طرح  آدھار کو آئینی تحفظ فراہم دیا گیا۔  ہم نے Unbanked کو بینکوں کو جوڑا۔ سستا موبائل ڈیٹا،  سستے فون فراہم  کراکر  غریب سے غریب کو کنیکٹ کیا۔  تب جاکر  جندھن کھاتے،  ادھار اور موبائل  جام کی Trinity  ملک کو ملی۔

ساتھیو،

آج دنیاکا سب سے  بڑا ڈائریکٹ ٹرانسفر سسٹم ملک میں کام کررہا ہے، ڈی بی ٹی ملک میں کام کررہا ہے۔  ابھی آپ نے بھی ایک انٹرنیشنل   جنرل  کی وہ رپورٹ پڑھی ہوگی جس میں ہندستان میں بنائی گئے اس نظام کی  تعریف کی گئی ہے۔  کوروننا کے وقت میں  جب ملکوں نے اپنے شہریوں تک راست پیسے بھیجنے میں  دقت آرہی  تھی  ،  وہ چیک  اور محکمہ ڈاک پر   منحصر تھے،    ہندستان صرف   ایک کلک سے ہزاروں کروڑ وں روپے سیکٹروں ہزاروں شہریوں کے     بینک کھاتوں میں   ٹرانسفر کررہا تھا،   پل بھر میں،   وہ بھی   تب جب   بینک تھے، ملک میں لاک ڈاؤن تھا۔  بین الاقوامی دنیا کے   بڑے بڑے   جانکار،  اب یہ کہہ رہے ہیں کہ   ہندستان کے اس  ماڈل سے  دوسرے  ملکوں کو بھی  سیکھنا چاہئے۔  یہ پڑھ کر  ، یہ سن کر   کسے فخر نہیں ہوگا۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا جب کچھ لوگ یہ سوال  اٹھاتے تھے کہ ناخواندگی اور غریبی   بھرے ماحول میں    ہندستان کیسے ٹکنالوجی کو اپنے    عام شہرویوں تک   پہنچا پائے گا۔  لیکن ہندستان نے    یہ کرکے دکھایا ہے   اور  بہت کامیابی کے ساتھ کرکے دیکھایا۔  دکھاتا رہے گا۔   آج  اس پر  یوپی آئی پلیٹ فارم پر ہی     ہر مہینے تقریباً     چار لاکھ کروڑ روپے کا  ٹرانسیکزشن ہورہا ہے،  چار لاکھ کروڑ روپے کا   ٹرانسزیکشن اور ہر مہینے   نئے ریکارڈ بن رہے  ہیں۔     آج گاؤں دہیات میں بھی چھوٹے چھوٹے ریہڑی ٹھیلوں پر بھی  آج ڈیجیٹل پیمنٹ   ممکن ہورہا ہے۔    ہندستان کی صنعتی دنیا کو    ملک کی اس طاقت کو  سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔  

ساتھیو،

ہم جیسا   گاؤں اور چھوٹے  شہروں کا ماحول  یہ فلموں میں دیکھتے ہوئے    بڑے ہوئے ہیں،   اس سے  ان کے   بارے میں   ایک الگ  سوچ  بننا  فطری ہے۔  شہروں اور گاؤں کے درمیان   فزیکل دوری   کبھی اتنی نہیں رہی، جتنی دوری   سوچ کو لے کر رہی ہے۔   کچھ لوگوں  کے لئے گاؤں  کا مطلب    ایسا جگہ رہا ہے،  جہاں  آنا جانا مشکل ہو،  جہان بہت کم   سہولیات ہوں،   بہت کم ترقی ہوئی ہو،  پسماندگی  ہو، لیکن  اگر  آپ  رولر  (دیہی)  یا سیمی رولر (نیم دیہی)  علاقوں میں جائیں گے تو   آپ کو ایک دم الگ   نظارہ  ملے گا،   ایک نئی امید ، نیا بھروسہ   آپ کو نظر آئے گا۔    آج کا دیہی ہندستان  بہت بڑے بدلاؤ  کے دور سے گذر رہا ہے۔   کیا آپ   جانتے ہیں   دیہی ہندستان میں     ایکٹو انٹر نیٹ یوزرس کی تعداد   شہروں سے زیادہ ہوچکی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندستان کے     آدھے سے زیادہ اسٹارٹ اپ    ہمارے   ٹائر   -2 ٹائر -3 شہروںمیں ہیں۔ وزیراعظم  دیہی سڑک اسکیم سے   ملک کی تقریباً 98 فی صد   بستیوں کو     سڑکوں سے  جوڑ چکے ہیں۔    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  گاؤں کے لوگ اب بازار،   اسکول،    اسپتال،  اور   دوسری  سہولیات   سے  تیزی سے جڑ  رہے ہیں۔  گاؤں میں رہنے والوں کی امیدیں بڑھ رہی ہیں،    وہ سماجی اقتصادی  موبلٹی چاہتے ہیں،     حکومت اپنی طرف سے    انہیں  امیدوں کو    پورا کرنے کی کوشش میں کوشاں ہیں۔  اب جیسے   حال میں لانچ کی گئی   پی ایم- ڈبلیو اے این آئی  اسکیم ،   اس پی ایم ڈبلیو این آئی اسکیم    کو ہی لے لیئے اس اسکیم کے تحت   ملک بھر میں  عوامی وائی فائی ہاٹ اسپاٹ، کا نیٹ ورک تیار کیا  جائے گا۔  اس سے گاؤں گاؤں میں    کنیکٹی ویٹی کی    کافی توسیع ہوگی۔   میرا تمام    صنعت سازوں سے    درخواست رہے گی کہ   اس موقع کا   استعمال کرتے ہوئے،  رولر اور سیمی رولر  علاقوں میں   بہتر کنیکٹی ویٹی کی کوششوں میں  حصہ دار بنیں۔    یہ   یقینی ہے کہ   21ویں صدی کے  ہندستان گروتھ کو  گاؤں اور چھوٹے شہروں  ہی سپورٹ کرنے والے ہیں۔ اس لئے   آپ جیسے   صنعت سازوں کو   گاؤں اور چھوٹے شہروں میں سرمایہ  کاری کا موقع بالکل   نہیں گنوانا چاہئے۔   آپ کے ذریعہ کی گئی سرمایہ کاری  ، ہمارے گاؤں میں  رہنے والے بھائی بہنوں ،   ہمارے   ایگریکلچر سیکٹر  کے ممکنات کے  نئے دروازے کھولے گی۔

 ساتھیو!

ملک میں   زرعی شعبہ کو مضبوط کرنے کے لئے  گزشتہ برسوں میں ہندستان میں تیزی سے کام کئے گئے ہیں۔ آ ج ہندستان کا  ایگری کلچر  سیکٹر  پہلے سے زیادہ متحرک ہوا ہے آج ہندستان کے کسانوں کے پاس اپنی فصل منڈیوں کے ساتھ ہی  باہر بھی بھیجنے کا متبادل ہے۔  آج ہندستان میں منڈیوں کی جدید کاری تو ہی رہی ہے کسانوں کو  ڈیجیٹل پلیٹ فارموں  پر  فصل خریدنے بیچنے کا بھی متبادل   دیا گیا ہے۔   ان تمام کوششوں   کا مقصد یہی ہے کہ  کسانوں کی آمدنی بڑھے ملک کا کسان خوشحال ہو،    جب ملک کا کسان   خوش ہوگا تو ملک  بھی خوشحال ہوگا، آپ کو میں ایک مثال دیتا ہوں کہ  زراعتی شعبے کو پہلے کیسے ہینڈل کیا جارہا تھا۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں پہلے ایتھونول کو ترجیح دے کر   ایمپورٹ کیا جاتا تھا جبکہ کھیتوں میں گنا کسان    پریشان رہتا تھا کہ  اس کا گنا بک  نہیں رہا یا اس کا گنا   کسانوں کا ہزاروں کروڑ روپے کا    بقایا بھی    وقت پر  ملتا  نہیں تھا۔    ہم نے اس صورتحال کو بدلا  ۔  ہم نے ملک میں  ہی    ایتھنول کے   پروڈکشن کو بڑھایا    پہلے چینی بنتی تھی، گڑ بنتا تھا،    کبھی چینی کے دام گر جاتے تھے، تو کسانوں کو پیسے نہیں ملتے تھے،  کبھی چینی کے دام  بڑ ھ جاتے تھے تو کنزیومر کوتکلیف ہوجاتی تھی، یعنی کوئی نظام چل ہی نہں سکتا تھا اور دوسری طرف ہم   ہمارے کار اسکوٹر چلانے کے لئے بیرون ممالک سے پیٹرول لاتے تھے، اب یہ کام ایتھنول کر  سکتا تھا۔  اب ملک میں   پیٹرول میں دس فی صد تک ایتھنول کی بلیڈنگ کرنے کی طرف بڑھ  رہا ہے۔ سوچئے  اس سے کتنا بڑا بدلاؤ آنے والا ہے۔ اس سے گنا کسانوں کی  آمدنی تو بڑھے  گی ہی روزگار کے بھی    نئے مواقع ملے گیں۔

 ساتھیو،

 آج جب میں صنعتی دنیا کے سینئر لوگوں کے درمیان ہوں،   توا س بات کو بھی کھل کر کہوں گا جتنا ہمارےملک میں  زراعت پر    پرائیوٹ سیکٹر  کے ذریعہ    سرمایہ  لگایا جانا چاہئے تھا، بدقسمتی سے اتنا نہیں ہوا ہے۔ اس شعبے کو  نجی شعبے کے ذریعہ اتنا ایکسپلور نہیں گیا۔ ہمارے یہاں کولڈ اسٹوریج کا مسئلہ رہا ہے، بغیر پرائیوٹ سیکٹر کے      سپورٹ کے سپلائی چین  بہت محدود دائرے میں  کام کرتی رہی ہیں۔ فرٹیلائزر کی قلت ہوتی ہے،   آپ نے بھی دیکھا کہ ہندستان کتنا ایمپورٹ کرتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں۔ زراعتی شعبےکی ایسے کتنے چیلنجوں کے حل کے لئے مرکزی حکومت  مسلسل کام کررہی ہے۔ لیکن ا س میں آپ کے انٹریسٹ اور آپ کی سرمایہ کاری دونوں کی  ضرورت ہے۔   میں مانتا ہوں کہ   ایگری کلچر سے وابستہ کئی کمپنیاں اچھا کام کررہی ہیں لیکن صرف ا تنا ہی کافی نہیں ہے۔ فصلیں اگانے والے کسانوں کو ، جتنی جدید ٹکنالوجی کا  ، جدید کاروبار   اور صنعت کے    طور طریقے    کا  جتنا سپورٹ ملے گا ان کی ضرورتوں کو  دیکھتے ہوئے  جتنا ہم انویسٹ کریں گے، اتنا ہی ہمارے ملک کے   کسانوں کا ، فصلوں کا نقصان  کم ہوگا، اتنی ہی ان کی آمدنی بڑھے گی۔ آج دیہی علاقوں مین ایگرو بیسڈ انڈسٹری کےلئے   بہت بڑا سکوپ ہے۔  پہلے کی پالیسیاں جو بھی رہی ہوں، لیکن آج کی پالیسیاں ، دیہی زراعت  پر مبنی  معیشت کو فروغ دینے کے لئے بہت  مناسب ہیں۔ نیتی سے اور نیت سے سرکار پوری طرح  کسانوں کا  مفاد کرنے کے لئے   پرعزم ہے۔

ساتھیو،

ایگریکلچر کے ساتھ ہی سروس سینٹروں، مینوفیکچرنگ ہو، سوشل سیکٹر ہو، اس میں ہم ایک دوسرے کو  سراہیں کیسے، اس پر بھی پوری طاقت  لگانی ہے۔   فکی  جیسے  اداروں کو اس میں برج بھی بنانا ہے  اور ترغیب بھی دینی ہے۔    ایم ایس ایم ایز   کو حکومت نے طاقت دی ہے،  آپ اس طاقت کو ملٹی پلائی یا کئی گنا  کرسکتے ہیں ، لوکل ویلیو اور سپلائی چین کو   کیسے مضبوط کریں، گلوبل سپلائی چین میں  کیسے ہندستان کے کردار نمایاں ہو،  اس واضح مقصد کےساتھ ہم سب کو ملکر کام کرنا ہے۔  ہندستان کے  پاس  مارکیٹ بھی ہے، مین پاور بھی ہے اور   مشن موڈ   پر   کام کرنے   کی صلاحیت بھی ہے۔ وبا کے اس دور میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ آتم نربھر بھارت کی طرف   بڑھتا ہوا   ہندستان کا ہر قدم پوری  دنیا  کو فائدہ دیتا ہے۔  ہمارے  فارم شعبے میں مشکل وقت میں بھی    آگے بڑھ کر   کام کیا  تو اس سے ہندستان کی کروڑوں زندگیوں کو    تحفظ کوور ملے گا ہی، دنیا کے مختلف  ممالک میں بھی نئی امید جاگی ہے۔

ساتھیو،

ہم لوگ ایک منتر سے سبھی   واقف ہیں،اور وہ ہمارے زندگی کے لئے ضروری بھی ہے۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے، تن مے منا۔ شیو سنکلپ مستو، یعنی میرا  دل اعلی  عزائم والا ہو،   اسی جذبے سے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ملک کے لئے ہدف   ، ملک کے عزم ،  ملک کی  پالیسیاں  واضح ہیں۔  انفراسکٹرکچر ہو یا پالیسی، ریفارمس کو لے کر ہندستان کے  ارادہ پختہ ہیں وبا کی شکل میں جو بھی اسپیڈ بریکر آیا تھا، اب ہم اس سے آگے نکل رہے ہیں، اب نئے اعتماد کے ساتھ ہم سبھی کو محنت کرنی ہے۔  اعتماد  اور  خوداعتمادی   بھرے اس ماحول کے ساتھ ہی ہمیں اب    نئی دہائی میں  آگے چلنا ہے۔  سال 2020 میں ملک نے  اپنی آزادی کا  75 ویں سال  کا تہوار منائے گا۔   آزادی کے تحریک سے لے کر   آج تک فکی کی   بھی  ملک کی ترقی  کے سفر میں بڑا رول رہا ہے۔ فکی کے بعد سو سال   بہت دور نہیں ہیں۔ اس  اہم پڑاؤ پر     آپ کو ملک کی تعمیر میں  اپنا کردار  اور توسیع  دینی ہے، اور  وسیع بنانا ہے۔ آپ کی کوشش  آتم نربھر بھارت مہم کو اور رفتار دے گی۔ آپ کی کوشش لوکل کے لئے ووکل کے منتر کو پوری دنیا  تک  پہنچائے گی۔ آخر میں  میں ڈاکٹر سنگیتا ریڈی جی کو پریزینڈنٹ کی حیثیت میں ایک  بہترین مدت کار کے لئے مبارک باد دیتا ہوں۔ بھائی ادے  شنکر جی کو بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کے سامنے آنے کا موقع ملا۔ میں آپ سب  کا شکریہ ادا کرتا  ہوں۔شکریہ۔

 

م ن۔   ش ت۔ج

Uno-8042

 



(Release ID: 1680266) Visitor Counter : 158