وزیراعظم کا دفتر

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے 75 سال پورے ہونے پر یادگاری سکہ کے اجرا کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

`

Posted On: 16 OCT 2020 2:42PM by PIB Delhi

نئی دہلی16 اکتوبر 2020 / مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی شری نریندر سنگھ تومر جی، شریمتی اسمرتی ایرانی جی، پروشوتم روپالا جی، کیلاش چودھری جی، شریمتی دیباشری چودھری جی، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی نمائندہ شخصیات اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو، ورلڈ فوڈ ڈے کے موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ دنیا بھر میں جو لوگ نقص تغذیہ کو دور کرنے کے لئے مسلسل کام کر رہے ہیں، میں ان سبھی کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

بھارت کے ہمارے کسان ساتھی، ہمارے اننداتا، ہمارے زرعی سائنسداں، ہمارے آنگن باڑی اور آشا کارکنان، نقص تغذیہ کے خلاف تحریک کا ایک بہت بڑا ہمارا مضبوط قلعہ ہیں، مضبوط بنیاد ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت سے جہاں بھارت کا اناج کا گودام بھر رکھا ہے، وہیں، دور دور غریب سے غریب تک پہنچنے میں یہ حکومت کی مدد بھی کر رہے ہیں۔ ان سبھی کی کوششوں سے ہی بھارت کورونا کے اس بحران کے دور میں بھی نقص تغذیہ کے خلاف مضبوط لڑائی لڑ رہا ہے۔

ساتھیو، آج فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے لئے بھی بہت اہمیت کا دن ہے۔ آج اس اہم تنظیم کے 75 سال پورے ہوئے ہیں۔ ان سالوں میں ہندستان سمیت پوری دنیا میں ایف اے او نے زرعی پیداوار بڑھانے، بھکمری مٹانے اور غذائیت بڑھانے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ آج 75 روپئے کا جو خصوصی سکہ جاری کیا گیا ہے، وہ بھارت کے 130 کروڑ سے زیادہ عوام کی طرف سے آپ کی خدمت کے جذبے کا احترام ہے۔ ایف اے او کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اس سال کا نوبل امن انعام ملنا بھی ایک بڑی حصولیابی ہے۔ اور بھارت کو خوشی ہے کہ اس میں بھی بھارت کی ساجھیداری اور بھارت کا جڑاو بہت ہی تاریخی رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں ڈاکٹر ونے رنجن سین جب ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل تھے، تب ان کی قیادت میں ہی ورلڈ فوڈ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سین نے قحط سالی اور بھکمری کا درد بہت قریب سے محسوس کیا تھا۔ پالیسی ساز بننے کے بعد انہوں نے جس تندہی سے کام کیا، وہ آج بھی پوری دنیا کے کام آ رہا ہے۔ وہ جو بیج بویا گیا تھا آج اس کا سفر نوبل انعام تک پہنچا ہے۔

ساتھیو، ایف اے او نے بیتے دہائیوں میں نقص تغذیہ کے خلاف بھارت کی لڑائی کو بھی بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ ملک میں الگ الگ سطح پر کچھ محکموں کے ذریعہ کوشش کی گئی تھی لیکن ان کا دائرہ یا تو محدود تھا یا ٹکڑوں میں بکھرا پڑا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ چھوٹی عمر میں حمل ٹھہرنا، تعلیم کی کمی، جانکاری کی کمی، خالص پانی کی سہولت کا نہ ہونا، سوچھتا کی کمی ایسے متعدد اسباب سے ہمیں وہ متوقع نتائج نہیں مل پائے تھے جو نقص تغذیہ کے خلاف لڑائی میں ملنے چاہئے تھے۔ میں جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو ان حقائق کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہاں کے متعدد نئے پروجیکٹوں پر کام شروع کیا گیا تھا۔ آخر دقت کہاں ہے، نتیجے کیوں نہیں مل رہے اور نتیجے کیسے ملیں گے، اس کا ایک طویل تجربہ مجھے گجرات میں ملا۔ ان تجربات کو لے کر جب سال 2014 میں ملک کی خدمت کرنے کا موقع ملا تو میں نے نئے سرے سے کچھ کوششیں شروع کیں۔

ہم مربوط اپروچ کو لے کر آگے بڑھے، جامع اپروچ کو لے کر آگے بڑھے۔ تمام سائلوز کو ختم کر کے ہم نے ایک کثیر جہتی حکمت عملی پر کام شروع کیا۔ ایک طرف نیشنل نیوٹریشن مشن شروع ہوا تو دوسری طرف ہر اس فیکٹر پر کام کیا گیا جو نقص تغذیہ بڑھانے کا سبب تھا۔ بہت بڑی سطح پر کنبے اور سماج کے رویئے میں تبدیلی کے لئے بھی کام کیا، سوچھتا بھارت مشن کے تحت بھارت میں 11 کروڑ سے زیادہ بیت الخلا بنے۔ دور دراز کے علاقوں میں بیت الخلا بننے سے جہاں سوچھتا آئی وہیں ڈائیریا جیسی متعدد بیماریوں میں بھی کمی دیکھنے کو ملی۔ اسی طرح مشن اندردھنش کے تحت حاملہ خواتین اور بچوں کی ٹیکہ کاری کا دائرہ بھی تیزی سے بڑھایا گیا۔ اس میں بھارت میں ہی تیار روٹاوائرس جیسے نئے ٹیکے بھی جوڑے گئے۔ حمل اور نوزائیدہ بچے کے پہلے 1000 دنوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ماں اور بچے دونوں کی غذائیت اور نگہداشت کے لئے بھی ایک بڑی مہم شروع کی گئی۔ جل جیون مشن کے تحت گاوں کے ہر گھر تک پائپ سے پینے کا پانی پہنچانے کے لئے تیزی سے کام چل رہا ہے۔

آج ملک کی غریب بہنوں، بیٹیوں کو 1 روپئے میں سینیٹیشن پیڈس فراہم کرائے جا رہے ہیں۔ ان سب کوششوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ ملک میں پہلی بار پڑھائی کے لئے بیٹیوں کے مجموعی اندراج کی شرح بیٹوں سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ بیٹیوں کی شادی کے لئے مناسب عمر کیا ہو، یہ طئے کرنے کے لئے بھی ضروری چرچا جاری ہے۔

ساتھیو، نقص تغذیہ سے نمٹنے کے لئے ایک اور اہم سمت میں کام ہو رہا ہے۔ اب ملک میں ایسی فصلوں کو فروغ دیا جا رہا ہے جس میں پروٹین، آئرن، جنک وغیرہ زیادہ ہوتے ہیں۔ موٹے اناج۔ ملیٹس جیسے راگی، جوار، باجرا، جھانگورا، کوٹکی ان جیسے اناج کی پیداوار بڑھے، لوگ اپنی خوراک میں انہیں شامل کریں، اس طرف کوشش کی جارہی ہے۔ میں آج ایف اے او کو خصوصی مبارکباد دیتا ہوں کہ اس نے سال 2023 کو انٹرنیشنل ائیر آف ملیٹس قرار دینے کی بھارت کی تجویز کو پوری حمایت دی ہے۔

ساتھیو، بھارت نے جب یوگ کے عالمی دن کی تجویز رکھی تھی تو اس کے پیچھے سروجن ہتائے۔ سروجن سکھائے کا ہی جذبہ تھا۔ زیرو بجٹ میں ہالسٹک ویلنس کا منتر بھارت، دنیا کے سبھی ملکوں تک پہنچانا چاہتا تھا۔ سال 2023 کو انٹرنیشنل ائیر آف ملیٹس قرار دینے کی تجویز کے پیچھے بھی ہمارے دل میں وہی جذبہ ہے، اسی جذبے کو لے کر ہم آئے ہیں۔ اس سے بھارت ہی نہیں دنیا بھر کو دو بڑے فائدے ہوں گے۔ ایک تو تغذیہ خوراک کی دستیابی اور بڑھے گی۔ اور دوسرا، جو چھوٹے کسان ہوتے ہیں، جن کے پاس کم زمین ہوتی ہے، سینچائی کے ذرائع نہیں ہوتے ہیں، بارش پر منحصر ہوتے ہیں ایسے چھوٹے چھوٹے کسان، انہیں بہت فائدہ ملے گا۔

ساتھیو، بھارت میں تغذیہ مہم کو طاقت دینے والا ایک اور اہم قدم آج اٹھایا گیا ہے۔ آج گیہوں اور دھان سمیت کئی فصلوں کے 17 نئے بیجوں کی اقسام، ملک کے کسانوں کو دستیاب کرائی جا رہی ہیں۔ ہمارے یہاں اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ فصلوں کی عام اقسام میں کسی نہ کسی تغذیہ خوراک یا مائکرو۔ نیوٹرینٹ کی کمی رہتی ہے۔ ان فصلوں کی اچھی اقسام، بائیو فورٹیفائیڈ اقسام، ان کمیوں کو دور کر دیتی ہیں، پچھلے سالوں میں ملک میں ایسی اقسام ، ایسی بیجوں کی تحقیق اور ڈیولپمنٹ میں بھی قابل ستائش کام ہوا ہے اور میں اس کے لئے ایگریکلچر یونیورسٹیز، سبھی سائنسدانوں، زرعی سائنسدانوں کو بہت مبارکباد بھی دیتا ہوں۔

ساتھیو، بیتے کچھ مہینوں میں دنیا بھر میں کورونا بحران کے دوران بھکمری۔ نقص تغذیہ کو لے کر کئی طرح کی چرچا ہو رہی ہے۔ بڑے سے بڑے ماہرین اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ کیا ہو گا، کیسے ہو گا؟ ان تشویشات کے درمیان بھارت پچھلے 7-8 مہینوں سے تقریبا 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن مہیا کرا رہا ہے۔ اس دوران بھارت نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپئے کا اناج غریبوں کو مفت بانٹا ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ یہ مہم جب شروع کی جا رہی تھی تو اس بات کا خاص دھیان رکھا گیا تھا کہ چاول یا گیہوں کے ساتھ ساتھ دال بھی مفت مہیا کرائی جائے۔

غریبوں کے تئیں، خوراک تحفظ کے تئیں یہ آج کے بھارت کا کمٹمنٹ ہے۔ دنیا بھر میں بھی اس کی چرچا کم ہوتی ہے، لیکن آج بھارت اپنے جتنے شہریوں کو مفت اناج دے رہا ہے وہ پورے یوروپی یونین اور امریکہ کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ فوڈ سیکورٹی کو لے کر بھارت نے جو کیا ہے اس معاملہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ میرے کچھ سوال ہیں جس سے جو ہمارے عالمی ماہرین ہیں، انہیں احساس ہو گا کہ بھارت نے اس سمت میں کیا حاصل کیا ہے۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ سال 2014 تک صرف 11 ریاستوں میں فوڈ سیکورٹی ایکٹ نافذ تھا اور اس کے بعد ہی پورے ملک میں یہ موثر طریقے سے نافذ ہو پایا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ کورونا کے سبب جہاں پوری دنیا جدوجہد کر رہی ہے، وہیں، ہندستان کے کسانوں نے اس بار پچھلے سال کے پروڈکشن کے ریکارڈ کو بھی توڑ دیا؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سرکار نے گیہوں، دھان اور دالیں سبھی طرح کے اناجوں کی خرید کے اپنے پرانے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں؟ کیا آپ کو پتہ ہے کہ پچھلے سال کے چھ ماہ کی اسی مدت کے مقابلے میں لازمی زرعی اجناس کی برآمدات میں 40 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے؟

ساتھیو، آج ہندستان میں مسلسل ایسی اصلاحات کی جا رہی ہیں جو گلوبل فوڈ سیکورٹی کے تئیں بھارت کی عہد بستگی کو دکھاتے ہیں۔ کھیتی اور کسان کو بااختیار بنانے سے لے کر بھارت کے عوامی نظام تقسیم تک میں ایک کے بعد ایک اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ حال میں جو تین بڑی زرعی اصلاحات ہوئی ہیں وہ ملک کے زرعی شعبے کی توسیع کرنے میں، کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں بہت اہم قدم ہے۔ ساتھیو، ہمارے یہاں اے پی ایم سی کا ایک نظام سالوں سے چل رہا ہے، جس کی اپنی ایک پہچان ہے، ان کی اپنی ایک طاقت ہے۔ بیتے چھ سال سے ملک کے ان زرعی بازاروں میں بہتر بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے ڈھائی ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ ان بازاروں کو ای۔ این اے ایم یعنی نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

ساتھیو، ایم ایس پی اور سرکاری خرید، ملک کی فوڈ سیکورٹی کا اہم حصہ ہیں۔ اس لئے اس کا سائنسی طریقے سے اچھے سے اچھے بندوبست کے ساتھ اچھے سے اچھا مینجمنٹ بھی ہو اور یہ آگے بھی جاری رہیں۔ یہ بہت ضروری ہیں اور ہم اس کے تئیں عہد بستہ ہیں۔ نئے متبادل طریقوں سے یہ ضرور ہو گا کہ ملک کے جو چھوٹے کسان بازاروں تک پہنچ نہ ہونے کے سبب پہلے مجبوری میں بچولیوں کو اپنی پیداوار بیچتے تھے، اب بازار خود چھوٹے چھوٹے کسانوں کے دروازے تک پہنچے گا۔ اس سے کسان کو زیادہ قیمت تو ملے گی ہے ، بچولیوں کے ہٹنے سے کسانوں کو بھی راحت ملے گی اور عام خریداروں کو بھی، عام صارف کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

ساتھیو، چھوٹے کسانوں کو طاقت دینے کے لئے فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز یعنی ایف پی اوز کا ایک بڑا نیٹ ورک ملک بھر میں تیار کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں 10 ہزار ایسے ایگریکلچر پروڈیوسر ایسوسی ایشن بنانے کا کام تیزی سے چل رہا ہے۔ چھوٹے کسانوں کی طرف سے ادارے بھی مارکیٹ کے ساتھ مول بھاو کر سکیں گے۔ یہ ایف پی اوز، چھوٹے کسانوں کی زندگی ویسے ہی بدلنے والے ہیں، جیسے دودھ یا پھر چینی کے شعبے میں کوآپریٹیو موومنٹ سے، گاوں میں خواتین کے سیلف ہیلپ موومنٹ سے زبردست تبدیلی آئی ہے۔

ساتھیو، بھارت میں اناج کی بربادی ہمیشہ سے بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ آج جب لازمی اشیا ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے، اس سے حالات بدلیں گے۔ اب گاوں میں بہتر انفراسٹرکچر بنانے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی زیادہ موقع ملے گا۔ اس میں بھی ہمارے ایف پی اوز کا رول اہم رہنے والا ہے۔ حکومت نے حال میں 1 لاکھ کروڑ روپئے کا انفراسٹرکچر فنڈ لانچ کیا ہے۔ اس فنڈ سے ایف پی اوز بھی گاوں میں سپلائی چین اور ویلیو ایڈیشن صلاحیت تیار کر رہے ہیں۔

ساتھیو، جو تیسرا قانون بنایا گیا ہے، وہ کسان کو فصلوں کی قیمت میں ہونے والے اتار چڑھاو سے بھی راحت دے گا اور کھیتی میں نئی ٹیکنالوجی کو بھی فروغ دے گا۔ اس کے تحت کسان کو زیادہ متبادل دینے کے ساتھ ہی اسے قانونی طور سے تحفظ دینے کا کام کیا گیا ہے۔ جب کسان کسی نجی ایجنسی یا صنعت سے سمجھوتہ کرے گا تو بوائی سے پہلے ہی پیداوار کی قیمت بھی طئے ہو جائے گی۔ اس کے لئے بیج، کھاد، مشینری، سب کچھ سمجھوتہ کرنے والا ادارہ ہی دے گا۔

ایک اور اہم بات! اگر کسان کسی وجہ سے سمجھوتہ توڑنا چاہتا ہے تو اسے کوئی جرمانہ نہیں دینا ہو گا۔ لیکن اگر کسان سے سمجھوتہ کرنے والا ادارہ سمجھوتہ توڑتا ہے تو اسے جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ اور ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا ہے کہ سمجھوتہ صرف پیداوار پر ہی ہو گا۔ کسان کی زمین پر کسی بھی طرح کا بحران نہیں آئے گا۔ یعنی کسان کو ہر طرح کی سہولت ان اصلاحات کے توسط سے یقینی بنائی گئی ہے۔ جب بھارت کا کسان بااختیار ہو گا، اس کی آمدنی بڑھے گی تو نقص تغذیہ کے خلاف مہم کو بھی اتنا ہی زور ملے گا۔

میں ایک بار پھر آپ سبھی کو ایف اے او کے 75 سال پورے ہونے پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ کی بھی ترقی ہو اور دنیا کا غریب سے غریب ملک، ملک کا غریب سے غریب شہری روز مرہ کی زندگی کے ان بحران سے نجات حاصل کرے، اسی خواہش سے پوری طاقت کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ کام کرنے کے ہمارے عزم کو دہراتے ہوئے میں ایک بار پھر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

بہت بہت مبارکباد

شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

م ن۔ ن ا۔ م ف

U No. : 6459

 


 

 

 

 

 



(Release ID: 1665371) Visitor Counter : 259