وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

قومی گیت ’’وندے ماترم‘‘ کے 150 برس مکمل ہونے پر سال بھر چلنے والی یادگار تقریب کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 07 NOV 2025 2:01PM by PIB Delhi

وندے ماترم!

وندے ماترم!

وندے ماترم!

وندے ماترم، یہ لفظ ایک منتر ہے، ایک توانائی ہے، ایک خواب ہے، ایک عزم ہے۔ وندے ماترم، یہ ایک لفظ ماں بھارتی کی سادھنا ہے، مادر وطن کی عبادت ہے۔ وندے ماترم، یہ ایک لفظ ہمیں تاریخ میں لے جاتا ہے۔ یہ ہمارے اعتماد کو، ہمارے حال کو اعتماد سے بھر دیتا ہے اور ہمارے مستقبل کو یہ نیا حوصلہ دیتا ہے کہ ایسا کوئی عزم نہیں، ایسا کوئی ارادہ نہیں جس کی تکمیل نہ ہو سکے۔ ایسا کوئی ہدف نہیں جو ہم ہندوستانی حاصل نہ کر سکیں۔

ساتھیو،

وندے ماترم کے اجتماعی گیت کا یہ عجیب و شاندار تجربہ، واقعی یہ ناقابل اظہار ہے۔ اتنی ساری آوازوں میں ایک لے، ایک آواز، ایک جذبہ، ایک جیسا جوش، ایک جیسا بہاؤ، ایسی ہم آہنگی، ایسی لہریں — اس توانائی نے دل کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ جذبات سے بھرے اسی ماحول میں، میں اپنی بات کو آگے بڑھا رہا ہوں۔ اسٹیج پر موجود میری کابینہ کے ساتھی گجیندر سنگھ شیخاوت، دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ ،  وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا جی اور دیگر تمام معزز حضرات، بھائیو اور بہنو۔

آج ہمارے ساتھ ملک کے ہر کونے سے لاکھوں لوگ جڑے ہوئے ہیں، میں انہیں بھی اپنی طرف سے وندے ماترم کے ساتھ نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آج 7 نومبر کا دن بہت تاریخی ہے، آج ہم وندے ماترم کے 150ویں برس مکمل ہونے کا عظیم جشن منا رہے ہیں۔ یہ مبارک موقع ہمیں نئی تحریک دے گا، کروڑوں ہم وطنوں کو نئی توانائی سے بھر دے گا۔ اس دن کو تاریخ کے صفحات میں درج کرنے کے لیے آج وندے ماترم پر ایک خصوصی سکہ اور ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔ میں ملک کے عظیم سپوتوں کو، ماں بھارتی کے فرزندوں کو، وندے ماترم — اس منتر کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کو آج عقیدت کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں اور ہم وطنوں کو اس موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتاہوں۔ میں تمام ہم وطنوں کو وندے ماترم کے 150 سال مکمل ہونے پر بہت سی نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

ہر گیت، ہر نظم کا اپنا ایک بنیادی جذبہ ہوتا ہے، اس کا اپنا ایک بنیادی پیغام ہوتا ہے۔ وندے ماترم کا بنیادی جذبہ کیا ہے؟ وندے ماترم کا بنیادی جذبہ ہے — بھارت، ماں بھارتی۔ ہندوستان کی ازلی و ابدی تصور، وہ تصور جس نے انسانیت کی اولین ساعت سے خود کو تراشنا شروع کیا۔ جس نے زمانوں کو ایک ایک باب کی طرح پڑھا۔ مختلف ادوار میں مختلف قوموں کی تشکیل ہوئی، مختلف طاقتوں کا ظہور ہوا، نئی نئی تہذیبوں نے جنم لیا، صفر سے عروج تک ان کا سفر اور پھر عروج سے دوبارہ صفر میں ان کا زوال، بنتی بگڑتی تاریخ، بدلتا ہوا دنیا کا نقشہ — بھارت نے یہ سب کچھ دیکھا ہے۔انسان کے اس لامتناہی سفر سے ہم نے سیکھا، اور وقتاً فوقتاً نئے نتائج اخذ کیے۔ انہی بنیادوں پر ہم نے اپنی تہذیب کی قدروں اور اصولوں کو تراشا، اسے ڈھالا۔ ہم نے،ہمارے بزرگوں نے، ہمارے رشی منیوں نے، ہمارے آچاریوں(اساتذہ) اور بھگونتوں(عظیم شخصیات) نے، ہمارے ہم وطنوں نے اپنی ایک ثقافتی شناخت بنائی۔ ہم نے طاقت اور اخلاقیات کے توازن کو ہمیشہ سمجھا اور تب جا کر ہندوستان  ایک قوم کے طور پر اس کندن(خالص سونے) کی مانند ابھرا جو ماضی کی ہر چوٹ کو سہتا بھی رہا اور سہتے سہتے امرت کو حاصل کر گیا۔

بھائیو اور بہنو،

ہندوستان کا یہ تصور، اس کے پیچھے کی فکری طاقت ہے۔ بدلتی دنیا سے الگ اپنی خودمختار پہچان کا شعور، یہ کامیابی اور پھر لَے اور تحریر میں بندھنا — یہ سب دل کی گہرائیوں سے، تجربات کے نچوڑ سے، احساسات کی وسعت سے گزر کر ہی ممکن ہوا اور اسی سے وندے ماترم جیسی تخلیق جنم لیتی ہےاور اسی لیے غلامی کے اس دور میں وندے ماترم اُس عزم کا نعرہ بن گیا تھا — اور وہ نعرہ تھاہندوستان کی آزادی کا۔ ماں بھارتی کے ہاتھوں سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی،اور اس کی اولادیں خود  اپنی قسمت لکھیں گی۔

ساتھیو،

گرو دیو رویندر ناتھ ٹیگور نے ایک بار کہا تھا:’’بنکم چندر کا آنند مٹھ صرف ایک ناول نہیں ہے، یہ آزاد ہندوستان کا ایک خواب ہے۔آپ دیکھیے، آنند مٹھ میں وندے ماترم کا جو ذکر ہے، وندے ماترم کی ہر ایک سطر، بنکم بابو کے ہر ایک لفظ، اس کے ہر جذبے کا اپنا ایک گہرا مفہوم تھا  اور آج بھی ہے۔ یہ گیت اگرچہ غلامی کے دور میں تخلیق ہوا تھا، لیکن اس کے الفاظ کبھی بھی غلامی کے سائے میں قید نہیں رہے۔ وہ غلامی کی یادوں سے ہمیشہ آزاد رہے۔ اسی لیے وندے ماترم ہر دور میں، ہر عہد میں معنی خیز اور زندہ رہا ہے۔ اس نے امرت کو حاصل کر لیا ہے۔وندے ماترم کی پہلی سطر ہے:’’سجلام سفلام ملَیج شیتلام، سَسیَشّیَامَلام ماترم۔ یعنی،  قدرت کے الہیٔ عطیوں سے سجی، ہماری سجلام سفلام دھرتی ماں کو سلام۔

ساتھیو،

یہی توہندوستان کی ہزاروں سال پرانی شناخت رہی ہے۔ یہاں کی ندیاں، یہاں کے پہاڑ، یہاں کے جنگل، درخت اور یہاں کی زرخیز مٹی ، یہ سرزمین ہمیشہ سونا اُگلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ صدیوں تک دنیا ہندوستان کی خوشحالی کی داستانیں سنتی رہی تھی۔ صرف چند صدیوں پہلے تک، عالمی معیشت (گلوبل جی ڈی پی) کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہندوستان کے پاس تھا۔

لیکن بھائیو اور بہنو،

جب بنکم بابو نے وندے ماترم کی تخلیق کی تھی، تب ہندوستان اپنے اُس سنہرے دور سے بہت دور جا چکا تھا۔ غیر ملکی حملہ آوروں کے حملے، ان کی لوٹ مار، انگریزوں کی استحصالی پالیسیاں ، اس وقت ہمارا ملک غربت اور بھوک مری کے چنگل میں کراہ رہا تھا۔ پھر بھی، بنکم بابو نے ان خراب حالات میں، جب چاروں طرف درد، تباہی اور غم کا عالم تھا، جب سب کچھ برباد ہوتا نظر آ رہا تھا، ایسے وقت میں بنکم بابو نے ایک خوشحال ہندوستان کا عزم کیاْ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ چاہے مشکلات کتنی ہی کیوں نہ ہوں، ہندوستان اپنے سنہرے دور کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے اور اسی لیے انہوں نے کہاوندے ماترم!

ساتھیو،

غلامی کے اس دور میں جب انگریز ہندوستان کو کمتر اور پسماندہ بتا کر اپنی حکومت کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے، تو وندے ماترم کی پہلی سطر نے اُس جھوٹے پروپیگنڈے کو پوری طرح سے تباہ کرنے کا کام کیا۔ اسی لیے وندے ماترم صرف آزادی کا گیت نہیں بنا، بلکہ آزاد ہندوستان کیسا ہوگا، وندے ماترم نے  وہسُجلَام سُفَلَام خواب بھی کروڑوں ہم وطنوں کے سامنے پیش کیا۔

ساتھیو،

آج کا یہ دن ہمیں وندے ماترم کے غیر معمولی سفر اور اس کے اثرات کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ جب 1875 میں بنکم بابو نے بنگ درشن میں “وندے ماترم” شائع کیا تھا، تو کچھ لوگوں کو لگا کہ یہ تو صرف ایک گیت ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وندے ماترم ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا، کروڑوں عوام کی آواز بن گیا — ایک ایسی آواز جو ہر انقلابی کی زبان پر تھی، ایک ایسی صدا جو ہرہندوستانی کے جذبات کی ترجمانی کر رہی تھی۔آپ دیکھیے، آزادی کی جنگ کا شاید ہی کوئی ایسا باب ہو ،جس سے وندے ماترم کسی نہ کسی صورت میں جڑا نہ ہو۔ 1896 میں گرو دیو رویندرناتھ ٹھاکر نے کلکتہ کے اجلاس میں وندے ماترم گایا۔ 1905 میں بنگال کی تقسیم ہوئی — یہ ملک کو بانٹنے کا انگریزوں کا ایک خطرناک تجربہ تھا، لیکن وندے ماترم ان عزائم کے سامنے ایک چٹان بن کر کھڑا ہو گیا۔ بنگال کی تقسیم کے خلاف سڑکوں پر ایک ہی نعرہ گونج رہا تھاوندے ماترم!

ساتھیو،

بریسال اجلاس میں جب مظاہرین پر گولیاں چلیں، تب بھی ان کے ہونٹوں پر وہی منتر تھا، وہی الفاظ تھےوندے ماترم! ہندوستان سے باہر رہ کر آزادی کے لیے کام کرنے والے ویر ساورکر جیسے مجاہدینِ آزادی جب آپس میں ملتے تھے، تو ان کا خیرمقد م بھی وندے ماترم سے ہی ہوتا تھا۔ لاتعداد مجاہد آزادی نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر بھی وندے ماترم کہا تھا۔ایسےبے شمار واقعات، ماضی کی  بے شمار تاریخیں،  اتنا بڑا ملک، مختلف صوبے اور علاقے، الگ الگ زبان بولنے والے لوگ، ان کی تحریکیں — لیکن وہ نعرہ، وہ عزم، وہ گیت جو ہر زبان پر تھا، جو ہر آواز میں تھا، وہ تھاوندے ماترم!

اسی لیے، بھائیو اور بہنو،

1927 میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا:“وندے ماترم ہمارے سامنے پورے ہندوستان کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو اکھنڈہے۔شری اروندو نے وندے ماترم کو ایک گیت سے بھی آگے، ایک منتر کہا تھا۔ انہوں نے کہا — یہ ایک ایسا منتر ہے جو باطنی قوت کو جگاتا ہے۔ بھیکاجی کاما نے جو ہندوستان کا پرچم تیار کروایا تھا، اس کے درمیان بھی لکھا تھا — “وندے ماترم”۔

ساتھیو،

ہمارا قومی پرچم وقت کے ساتھ کئی تبدیلیوں سے گزرا، لیکن تب سے لے کر آج تک، ہمارے ترنگے تک، جب بھی ملک کا جھنڈا لہراتا ہے تو ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہےبھارت ماتا کی جے! وندے ماترم! اسی لیے آج جب ہم اس قومی گیت کے 150 برس مکمل ہونے کا  جشن منا رہے ہیں، تو یہ ہمارے ملک کے عظیم ہیروز کے لیے ایک عقیدت بھرا خراجِ تحسین ہے۔ اور یہ اُن لاکھوں شہیدوں کو بھی عاجزانہ سلام ہے، جنہوں نے وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی کے تختے کو چُوما، جو وندے ماترم کہتے ہوئے کوڑوں کی مار سہتے رہے اور جو وندے ماترم کا منتر جپتے ہوئے برف کی سلّیوں پر بھی ثابت قدم رہے۔

ساتھیو،

آج ہم 140 کروڑ ہم وطن اُن تمام نامور، بے نام اور گمنام مجاہدین کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ،جنہوں نے وندے ماترم کہتے ہوئے اس وطن کے لیے اپنی جانیں نثار کر دیں — جن کے نام تاریخ کے اوراق میں کبھی درج ہی نہیں ہو پائے۔

ساتھیو،

ہمارے ویدوں نے ہمیں یہ سکھایا ہے:ماتا بھومِہ، پُتروہم پْرتھویَاہیعنی، یہ دھرتی ہماری ماں ہے، یہ ملک ہماری ماں ہے اور ہم اس کے بیٹے ہیں۔ہندوستان کے لوگوں نے ویدک دور سے ہی ملک کو ماں کی شکل میں تصور کیا، اسی شکل میں اس کی عبادت کی ہے۔ اسی ویدک فکر سے وندے ماترم نے آزادی کی جدوجہد میں ایک نئی روح، ایک نئی بیداری پھونکی۔

ساتھیو،

ملک کو صرف ایک جغرافیائی وجود سمجھنے والوں کے لیے ملک کو ماں ماننے  کا خیال حیرت انگیز ہو سکتا ہے، لیکن ہندوستان مختلف ہے۔ ہندوستان میں ماں نہ صرف جنّنی (پیدا کرنے والی) بھی ہے اور  پالنی (پرورش کرنے والی) بھی ہے۔ اگر اولاد پر کوئی خطرہ آجائے تو ماں  سنہاکارنی، یعنی تباہ کرنے والی بھی بن جاتی ہے۔اسی لیے وندے ماترم کہتا ہے:’’ ابلا کِن ما اِت بَلے، بہُبَل دھارِنی نمامی تارِنی رِپُدل وارِنی ماترم!!، وندے ماترم یعنی بے پناہ طاقت والی بھارت ماں، مصیبتوں سے نجات بھی دلانے والی اور دشمنوں کو نیست و نابود بھی کرنے والی ہے۔ملک کو ماں اور ماں کو شکتی (طاقت) کی مورت ماننے کے اس خیال کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ ہماری آزادی کی جدوجہد عورت اور مرد دونوں کی شراکت کا عزم بن گئی۔ ہم پھر ایک ایسے ہندوستان  کا خواب دیکھنے لگے ،جہاں ناری شکتی(خواتین کی طاقت) قوم کی تعمیر میں سب سے آگے کھڑی نظر آئے۔

ساتھیو،

وندے ماترم آزادی کے دیوانوں کا ترانہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تحریک بھی دیتا ہے کہ ہمیں اس آزادی کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ بنکم بابو کے مکمل اصل گیت کی سطریں ہیں:تْوم ہِ دُرگا دَش پَرہَرَن دھارِنی، کملَا کمل دَل وہارِنی، وانی ودیا دایِنی، نمامی تْوام، نمامی کملام، املام، اتُلام، سُجلام، سُفلام ماترم، وندے ماترم!”یعنی، بھارت ماتا ودیا(تعلیم) دینے والی سرسوتی بھی ہے، خوشحالی ینے والی لکشمی بھی ہےاور اسلحہ اٹھانے والی درگا بھی ہے۔ہمیں ایسے ہی ہندوستان کی تعمیر کرنی ہے — جو علم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہو، جو ودیا اور وگیان (علم و سائنس) کی طاقت سے خوشحالی کی چوٹی پر پہنچے اور جو قومی سلامتی کے لیے خود کفیل اور مضبوط ہو۔

ساتھیو،

گزشتہ برسوں میں دنیا نےہندوستان کے اسی  شکل میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے مثال ترقی کی ہے۔ ہم دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن کر اُبھرے ہیں اور جب دشمن نے دہشت گردی کے ذریعے ہندوستان کی سلامتی اور وقار پر حملہ کرنے کی جرأت کی، تو ساری دنیا نے دیکھا — نیا ہندوستان اگر انسانیت کی خدمت کے لیے کملہ اور وِملہ کا روپ ہے، تو دہشت کے خاتمے کے لیے وہ دَش پَرہَرَن دھارِنی دُرگا بھی بننا جانتا ہے۔

ساتھیو،

وندے ماترم سے جڑا ایک اور موضوع بھی ہے ،جس پر بات کرنا اتنا ہی ضروری ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں وندے ماترم کے جذبے نے پورے ملک کو منور کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے 1937 میں وندے ماترم کے اہم اشعار، اس کی روح کے ایک حصے کو الگ کر دیا گیا تھا۔ وندے ماترم کو توڑ دیا گیا، اس کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔ وندے ماترم کی اسی تقسیم نے ملک کی تقسیم کے بیج بھی بو دیے تھے۔قوم کی تعمیر کے اس مہا منتر کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ہوئی ؟ یہ آج کی نسل کے لیے جاننا ضروری ہے، کیونکہ وہی تقسیم پسند سوچ آج بھی ملک کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

ساتھیو،

ہمیں اس صدی کو ہندوستان کی صدی بنانا ہے۔ یہ طاقت ہندوستان میں ہے، یہ قوت ہندوستان کے 140 کروڑ لوگوں میں ہے۔ ہمیں اس کے لیے اپنے آپ پر یقین کرنا ہوگا۔ اس عزم کی راہ میں ہمیں گمراہ کرنے والے بھی ملیں گے، منفی سوچ والے لوگ ہمارے دل و دماغ میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش بھی کریں گے۔تب ہمیں آنند ماتھ کا وہ منظر یاد کرنا ہے، جب آنند مٹھ میں سنتان بھوانند وندے ماترم گاتا ہے، تو ایک اور کردار دلیلیں دیتا ہے اور پوچھتا ہے، ‘تم اکیلے کیا کر پاؤ گے؟’ تب وندے ماترم سے تحریک ملتی ہے کہ جس ماں کے اتنے کروڑ بیٹے اور بیٹیاں ہوں، جس کے کروڑوں ہاتھ ہوں، وہ ماں ابلا کیسے ہو سکتی ہے؟ آج تو بھارت ماتا کی 140 کروڑ اولاد ہے۔ اس کے 280 کروڑ بازو ہیں، جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا ڈیموگرافک ایڈوانٹیج ہمارے پاس ہے۔ یہ طاقت اس ملک کی ہے، یہ طاقت ماں بھارتی کی ہے۔ایسا کیا ہے ،جو آج ہمارے لیے ناممکن ہو؟ ایسا کیا ہے جو ہمیں وندے ماترم کے اصل خواب کو پورا کرنے سے روک سکتا ہے؟

ساتھیو،

آج آتم نربھر بھارت (خود کفیل ہندوستان)کے وژن کی کامیابی، میک ان انڈیا کے عزم اور 2047 میں وکست بھارت کے ہدف کی جانب بڑھتے ہمارے قدم، جب ملک ایسے بے مثال وقت میں نئی کامیابیاں حاصل کرتا ہے، تو ہر شہری کے منہ سے نکلتا ہےوندے ماترم!آج جب ہندوستان چاند کے جنوبی قطب تک پہنچنے والا پہلا ملک بنتا ہے، جب نئے ہندوستان کی آواز خلاء کے دور دراز گوشوں تک سنائی دیتی ہے، تو ہر شہری کے منھ سے نکلتا ہےوندے ماترم!آج جب ہم اپنی بیٹیوں کو اسپیس ٹیکنالوجی سے لے کر کھیلوں میں چوٹی پر پہنچتے دیکھتے ہیں، آج جب ہم بیٹیوں کو فائٹر جیٹ اُڑاتے دیکھتے ہیں، تو فخر سے سرشار ہر ہندوستانی کا نعرہ ہوتا ہےوندے ماترم!

ساتھیو،

آج ہی ہماری فوج کے جوانوں کے لیے ون رینک ون پنشن کے نفاذ کو 11 ؍برسمکمل ہوئے ہیں۔ جب ہماری فوجیں دشمن کےناپاک عزائم کو کچل دیتی ہیں، جب دہشت گردی، نکسلی سرگرمیوں اور ماؤنواز وں کی کمر توڑی جاتی ہے، تو ہمارے حفاظتی دستے ایک ہی  منتر سے متاثر ہوتے ہیں اور وہ منتر ہے-وندے ماترم!

ساتھیو،

ماں بھارتی کےاحترام کی یہی روح ہمیں وکست بھارت کے ہدف تک لے جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ وندے ماترم کا منتر ہماری اس‘ امرت یاترا ’ میں، ماں بھارتی کی کروڑوں اولاد کو مسلسل طاقت اور تحریک دیتا رہے گا۔ میں ایک بار پھر تمام شہریوں کو وندے ماترم کے 150 سال مکمل ہونے پر دلی مبارکباد پیش کرتاہوںاور ملک بھر سے میرے ساتھ جڑے ہوئے آپ سب کا بہت بہت شکریہ ، میرے ساتھ کھڑے ہو کر پوری طاقت سے، ہاتھ اٹھا کر بولیے

وندے ماترم! وندے ماترم!


وندے ماترم! وندے ماترم!

وندے ماترم! وندے ماترم!

وندے ماترم! وندے ماترم!

وندے ماترم! وندے ماترم!

بہت بہت شکریہ!

*****

 ( ش ح ۔م  ع ن۔ت ع)

U. No. 898


(Release ID: 2187439) Visitor Counter : 12