امور داخلہ کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

مرکزی وزیر داخلہ اور وزیر تعاون جناب امت شاہ نے نئی دہلی میں ’سمودھان ہتیا دِیوَس‘ کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام سے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا



ایمرجنسی کے دن کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، تاکہ مستقبل میں کوئی بھی شخص آئین کے خلاف اپنی آمرانہ ذہنیت مسلط نہ کر سکے

اس وقت کے وزیر اعظم نے صرف یہ کہہ کر پورے آئین کی روح کو پامال کر دیا کہ ’صدر نے ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے‘

 ایمرجنسی کو یاد رکھنا صرف تاریخ جاننا نہیں بلکہ ایک انتباہ  بھی ہے

ایمرجنسی کے دوران ملک کی روح کو گنگ بنا دیا گیا، عدالتوں کو بہرا اور لکھاریوں کے قلم کو خاموش کرا دیا گیا

پوری دنیا جانتی ہے کہ ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں تھا، بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم کی کرسی خطرے میں تھی، اس لیے ایمرجنسی نافذ کی گئی

ایمرجنسی کے دوران حراست، نس بندی اور مسماری کے واقعات نے پورے ملک میں  خوف کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ، جس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی

اس کے برعکس ’پارٹی قوم سے بڑی ہے، خاندان پارٹی سے بڑا ہے، فرد خاندان سے بڑا ہے اور طاقت قومی مفاد سے اہم ہے‘ جو ایمرجنسی کے دوران پروان چڑھی تھی،  جب کہ آج مودی جی کی قیادت میں قوم پہلے کی سوچ لوگوں کے ذہنوں میں گونج رہی ہے

Posted On: 25 JUN 2025 7:59PM by PIB Delhi

داخلہ اور تعاون کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں ’سمودھان ہتیا دِیوَس‘ کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام سے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا۔ اس موقع پر الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی، ریلوے اور انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کے مرکزی وزیر جناب اشونی ویشنو، دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب ونائی کمار سکسینہ، دہلی کی وزیر اعلیٰ محترمہ ریکھا گپتا اور کئی دیگر معززین موجود تھے۔

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ عام طور پر برے واقعات کو زندگی میں بھلا دینا چاہیے۔ اور یہ درست ہے، لیکن جب اس کا تعلق سماجی زندگی اور قومی زندگی سے ہو تو برے واقعات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، تاکہ ملک کے نوجوان اور نوجوان مہذب، منظم، دفاع کے لیے تیار ہوں اور یہ یقینی بنائیں کہ اس طرح کے برے واقعات دوبارہ کبھی نہ ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہر سال 25 جون کو ’سمودھان ہتیا دِیوَس‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا اور مرکزی وزارت داخلہ نے اس سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا۔ ایمرجنسی کے دوران جس طرح ملک کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا، ملک کی روح کو گونگا بنا دیا گیا، عدالتوں نے بہرے بنا دیے اور لکھنے والوں کے قلم کو خاموش کرا دیا گیا، ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور غور و فکر کرنے کے بعد آج کو ’سمودھان ہتیا دیوس‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے نوجوان نسل میں ایمرجنسی کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بیداری آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ ایمرجنسی کو یاد رکھنا صرف تاریخ جاننا نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتباہ ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ 24 جون 1975 کی رات کو ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اور آمرانہ ذہنیت کو نافذ کرنے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اور دیگر مفکرین کے ذریعے 2,66,000 الفاظ پر مشتمل غور و خوض اور بحث کے بعد تیار کردہ آئین کو مؤثر طریقے سے منسوخ کردیا گیا اور اس وقت کے وزیر اعظم نے صرف یہ کہہ کر پورے آئین کی روح کو تباہ کردیا کہ صدر جمہوریہ نے ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ آئین کے جوہر کو صرف ایک جملے سے تباہ کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ 12 جون 1975 کو دو اہم واقعات پیش آئے: الہ آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا اور انھیں چھ سال کے لیے انتخاب لڑنے سے روک دیا۔ صدمے کی حالت پورے ملک میں پھیل گئی، حالاں کہ سپریم کورٹ نے بعد میں اس حکم پر روک لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی 12 جون کو گجرات میں جنتا مورچہ کا تجربہ کام یاب ہوا، جس سے اپوزیشن پارٹی کی حکم رانی کا خاتمہ ہوا اور جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ ان واقعات سے خوفزدہ ہوکر 25 جون کو ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ جناب شاہ نے کہا کہ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ قومی سلامتی خطرے میں ہے لیکن اب پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ وزیر اعظم کی طاقت کی حیثیت تھی جو واقعی خطرے میں تھی۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ جے پرکاش نارائن کے ’’سمپورن کرانتی‘‘ کے نعرے نے پورے ملک میں انقلاب برپا کر دیا  تھا۔ گجرات سے شروع ہونے والی یہ تحریک بہار تک پہنچ چکی تھی۔ گجرات میں حکومت گر گئی، انتخابات ہوئے اور اس وقت کی حکمراں جماعت اقتدار سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں نے مل کر جنتا پارٹی کی حکومت تشکیل دی جو اس وقت کے وزیر اعظم کے لیے ایک بڑی وارننگ کے طور پر کام کرتی تھی۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایمرجنسی لگا کر حکم امتناع دینے والی عدالتوں کو خاموش کر دیا گیا، اخباروں کو خاموش کر دیا گیا اور یہاں تک کہ آل انڈیا ریڈیو کو بھی خاموش کرا دیا گیا۔ تقریباً 1,10,000 سماجی اور سیاسی کارکنوں کو جیل کی کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا۔ کابینہ کا اجلاس صبح چار بجے بلایا گیا اور ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔ ایمرجنسی کے دوران پیش آنے والے واقعات کی مکمل جانچ کے بعد شاہ کمیشن نے کہا کہ حراست، جبری نس بندی اور انہدام کے واقعات نے پورے ملک میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا تھا جس کی کہیں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ اخبارات کے دفاتر بند کر دیے گئے، 253 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، 29 غیر ملکی صحافیوں کو ملک سے نکال دیا گیا، اور کئی اخباروں نے اپنے ادارتی کالم خالی چھوڑ کر ایمرجنسی کے خلاف احتجاج کیا، خاص طور پر انڈین ایکسپریس اور جنستا۔ ان کی بجلی کی فراہمی منقطع کر دی گئی، پارلیمانی کارروائیوں کو سنسر کر دیا گیا، عدلیہ کو مؤثر طریقے سے کنٹرول میں لایا گیا، اور ملک بھر میں جمہوری حقوق کو مکمل طور پر دبا دیا گیا۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ عدلیہ میں جو جج حکومت کے خلاف فیصلے دیتے ہیں انھیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکا جاتا ہے۔ گلوکار کشور کمار اور اداکار منوج کمار کی فلموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اداکار دیو آنند کو دوردرشن پر آنے سے روک دیا گیا تھا اور فلموں آندھی اور کسا کرسی کا پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایمرجنسی کے بعد ہوئے انتخابات میں ملک میں پہلی بار مکمل اکثریت کے ساتھ غیر کانگریسی حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دن کو یاد رکھنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اس ملک کے آئین پر آمرانہ ذہنیت مسلط نہ کر سکے۔ انھوں نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران یہ ذہنیت پیدا ہوئی تھی کہ پارٹی قوم سے بڑی ہے، خاندان پارٹی سے بڑا ہے، فرد خاندان سے بڑا ہے، اور اقتدار قومی مفاد سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے برعکس آج وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں لوگوں کے ذہنوں میں ’’پہلے قوم‘‘ کا تصور گونج رہا ہے۔ یہ تبدیلی جمہوریت کے ان ہزاروں جنگجوؤں کی جدوجہد کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جنھوں نے 19 ماہ جیل میں گزارے۔ آج وزیر اعظم مودی کی قیادت میں 1.4 بلین بھارتی سال 2047 تک بھارت کو عالمی سطح پر ہر میدان میں نمبر ایک بنانے کے عزم کے ساتھ کوشاں ہیں اور اس مقصد کی طرف عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

***

(ش ح – ع ا)

U. No. 2930


(Release ID: 2139710)