وزیراعظم کا دفتر
بھارت نے شدید گرمی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں ایک فعال اور دور اندیش حکمت عملی اختیار کی ہے: ڈاکٹر پی کے مشرا
گرمی کی لہر سرحد پار پھیلنے والے اور نظامی نوعیت کے خطرات ہیں، خاص طور پر گنجان آباد شہری علاقوں کے لیے: ڈاکٹر پی کے مشرا
بھارت کی حکمت عملی ایک ہمہ گیر حکومتی اور معاشرتی نقطۂ نظر پر مبنی ہے، جو شدید گرمی سے نمٹنے کے منصوبوں کو بہتر بنانے کے لیے کئی شراکت داروں کو شامل کرتی ہے: ڈاکٹر پی کے مشرا
ڈاکٹر پی کے مشرا نے شدید گرمی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سرحد پار تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
Posted On:
07 JUN 2025 10:03AM by PIB Delhi
وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری، ڈاکٹر پی کے مشرا نے شدید گرمی کو ایک عالمی بحران قرار دیتے ہوئے اس سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے، اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اپیل کی تائید کی ہے۔ کل (6 جون 2025) جنیوا میں ’’شدید گرمی کے خطرے سے نمٹنے‘‘ پر ایک خصوصی اجلاس میں کلیدی خطاب کے دوران، انہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے عوامی صحت، اقتصادی استحکام، اور ماحولیاتی لچک کو نظامی خطرات لاحق ہو گئے ہیں، اور بھارت اقوام متحدہ کے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن (یو این ڈی آر آر) کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے جس کا مقصد ’’مشترکہ فریم ورک برائے شدید گرمی کے خطرے کا بندوبست‘‘ کو فروغ دینا ہے، تاکہ سیکھنے، رہنمائی، اور تعاون کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم ہو۔
ڈاکٹر مشرا نے زور دیا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے شدید گرمی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک فعال اور دور اندیش حکمت عملی اپنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اب محض آفات کے بعد کے ردعمل پر نہیں بلکہ جامع تیاری اور تخفیفی حکمت عملیوں پر بھی عمل پیرا ہے۔ 2016 سے آفات سے نمٹنے کی قومی اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے گرمی کی لہر سے نمٹنے پر قومی رہنما خطوط تیار کیے، جنہیں 2019 میں نظر ثانی کے بعد مزید مؤثر بنایا گیا، اور جن کی بنیاد پر مقامی سطح پر تپش سے نمٹنے کے عملی منصوبے بنائے گئے۔
انہوں نے احمد آباد کا ابتدائی ہیٹ ایکشن پلان خاص طور پر سراہا، جس نے یہ ثابت کیا کہ جلدی خبردار کرنے والے نظام، بین الایجنسی ہم آہنگی، اور سماجی کی شمولیت انسانی جانیں بچا سکتی ہے۔
ڈاکٹر مشرا نے بتایا کہ آج ملک کی 23 گرمی سے متاثرہ ریاستوں کے 250 سے زائد شہر اور اضلاع میں ہیٹ ایکشن پلان فعال ہیں، جو این ڈی ایم اے کی مشاورتی، تکنیکی، اور ادارہ جاتی مدد سے چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نگرانی کے نظام، اسپتالوں کی تیاری، اور بیداری مہموں نے ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی لائی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کا نقطۂ نظر ’’ہمہ حکومتی اور ہمہ معاشرتی‘‘ ہے، جس میں صحت، زراعت، شہری ترقی، محنت، بجلی، پانی، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کی وزارتیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی صحت کے ادارے، تحقیقی گروپ، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور جامعات بھی مقامی حکومتوں کو ہیٹ ایکشن پلان بہتر بنانے میں مدد دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر مشرا نے کہا: ’’شدید گرمی براہ راست عوام کو متاثر کرتی ہے، اور بھارت نے اپنی حکمت عملی میں مقامی حکمت اور روایتی تجربات کو شامل کیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اسکول طرز عمل میں بدلاؤ کے موجب بن رہے ہیں جو بچوں کو ماحولیاتی موافقت کے بارے میں تعلیم دے رہے ہیں، جبکہ اسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز کو مضبوط بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایمرجنسی میں فوری اور مؤثر ردعمل ممکن ہو سکے۔
بھارت کی جانب سے صرف تیاری پر مبنی حکمت عملی کی صورت میں طویل مدتی ہیٹ ویو تخفیف کی طرف منتقلی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، جناب پی کے مشرا نے بتایا کہ اب بھارت کول روف (ٹھنڈی چھت) ٹیکنالوجی، قدرتی ٹھنڈک فراہم کرنے والے مراکز، شہری سبز کاری، اور روایتی آبی ذخائر کی بحالی جیسے اقدامات کو اپنا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت، شہری منصوبہ بندی میں اب ’’اربن ہیٹ آئی لینڈ‘‘ کے اثرات کا جائزہ بھی شامل کر رہا ہے۔
ڈاکٹر مشرا نے ایک بڑے پالیسی اقدام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب قومی اور ریاستی آفات کے اثرات سے نمٹنے کے رقومات کو گرمی لہر میں کمی کے منصوبوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ اس سے مقامی حکومتوں، نجی شعبے، غیر سرکاری تنظیموں، اور افراد کو روک تھام اور تخفیف کے منصوبوں میں مالی شراکت کا موقع ملے گا، جس سے اجتماعی ذمے داری کا ماحول فروغ پائے گا۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اب بھی کئی اہم چیلنج باقی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
مقامی نوعیت کا گرمی-اُمس انڈیکس تیار کرنا جو بروقت ڈیٹا پر مبنی ہو تاکہ ابتدائی انتباہی نظام کو مؤثر بنایا جا سکے۔ عمارتوں کی ٹیکنالوجی اور غیر فعال ٹھنڈک میں ایسی جدت لانا جو سستی، قابلِ رسائی اور ثقافتی طور پر موزوں ہواور مساوات کے مسائل پر توجہ دینا، کیونکہ شدید گرمی کا اثر خواتین، کھلی جگہوں پر کام کرنے والوں، بزرگوں، اور بچوں پر غیر متناسب انداز میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مشرا نے زور دیتے ہوئے کہا: ’’ گرمی کی لہریں سرحدوں سے ماورا اور نظامی نوعیت کے خطرات ہیں، خاص طور پر گنجان آباد شہری علاقوں کے لیے۔‘‘
انہوں نے عالمی برادری سے ٹیکنالوجی میں تعاون، ڈیٹا کے اشتراک، اور مشترکہ تحقیق کو فروغ دینے کی اپیل کی تاکہ گرمی سے بچاؤ کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’’مشترکہ فریم ورک‘‘ ایک ایسا پلیٹ فارم بنے جو قابلِ رسائی علم، تحقیق، اور عملی حل کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی اور مالی معاونت کے طریقے بھی فراہم کرے۔
آخر میں ڈاکٹر مشرا نے یقین دلایا کہ بھارت اپنی مہارت، تکنیکی صلاحیتوں، اور ادارہ جاتی مضبوطی کو عالمی شراکت داروں کے ساتھ مشترک کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے، تاکہ شدید گرمی کے خطرات کے خلاف ایک مستحکم، مربوط اور فعال عالمی ردعمل کو یقینی بنایا جا سکے۔
******
ش ح۔ ش ا ر۔ ول
Uno-1545
(Release ID: 2134762)
Read this release in:
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Bengali
,
Bengali-TR
,
Assamese
,
Manipuri
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam