وزیراعظم کا دفتر

نئی دہلی میں ریپبلک سمٹ 2024 میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 07 MAR 2024 11:58PM by PIB Delhi

آپ سب کو نمسکار۔

ری پبلک ٹیم کو بھی میری طرف سے خاص طور سے اس سمٹ کے لئے میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ارنب نے جو بتایا وہ دن بھر جو غوروخوض ہوا ہوگا ، اس میں سے نکلا ہوگا۔ میں نے آنے سے پہلے پانی اس لئے پیا کہ اتنا سارا میں ہضم کرپاؤں گا کہ نہیں ہضم کر پاؤں گا۔ کچھ سال پہلے جب میں نے کہا تھا کہ یہ دہائی بھارت کی ہے ۔ اب جب ہم سیاسی لوگ بولتے ہیں تو لوگ یہیں مانتے ہیں کہ یہ تو سیاسی بیان ہے ، یہ سیاست داں تو بولتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے ، آج دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ یہ دہائی بھارت کی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آپ نے ایک قدم  اور آگے بڑھ کر اب بھارت –دی نیکسٹ ڈیکیڈ پر بات شروع کردی ہے ۔ یہ دہائی وکست بھارت کے خوابوں کو پورا کرنے کی ایک اہم دہائی ہے۔ اور میں مانتا ہوں کہ جو بھی جس کو متاثر کرسکتا ہے ،کوئی بھی سیاسی نظریہ ہو ، کتنے ہی مخالف خیال رکھتے ہوں ، لیکن یہ کہنے میں کیا جاتا ہے کہ بھائی،یہ دس سال کام کرنے جیسے ہیں ، اس میں کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اتنی مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے نہ یہ سوچنا، نہ یہ سننا اور نہ ہی یہ بولنا بڑا مشکل ہوگیاہے۔ کچھ لوگ خاص کر ہنسی شیئر کررہے ہیں۔ تو یہ فطری ہے کہ میری بات صحیح جگہ پر پہنچ گئی ہے۔ لیکن میں مانتا ہوں کہ ایسے موضوعات پر بات چیت بھی کافی اہم ہے، غوروخوض بھی انتہائی ضروری ہے۔

لیکن ساتھیو،

جس دہائی میں ہم ابھی ہیں … جو دہائی ابھی گزر رہی ہے…  میں سمجھتا ہوں کہ وہ آزاد بھارت کی اب تک کی سب سے اہم دہائی ہے۔ اور اسی لیے  ہی میں نے لال قلعہ سے کہا تھا – یہی سمے ہے، صحیح سمے ہے۔ یہ دہائی ایک موثر، قابل اور وکست بھارت  بنانے کی بنیاد کو مضبوط کرنے کی دہائی ہے۔ یہ دہائی ان آرزووں کو پورا کرنے کی ہے  جو کبھی بھارت  کے لوگوں کوناممکن لگتی تھیں۔ایک مینٹل بیریر  توڑنا بہت ضروری ہے۔ یہ دہائی بھارت کی صلاحیتوں کے ساتھ  بھارت  کے خوابوں کو پورا کرنے کی دہائی ہوگی۔ اور میں یہ جملہ انتہائی اہم بول  رہا ہوں – خواب بھارت کے ،صلاحیت بھی بھارت کی ۔ اگلی دہائی شروع ہونے سے پہلے، ہم بھارت کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنتے دیکھیں گے۔ اگلی دہائی شروع ہونے سے پہلے  بھارتیوں  کے پاس گھر، بیت الخلا، گیس، بجلی، پانی، انٹرنیٹ، سڑکیں، ہر بنیادی سہولیات اس کے پاس ہوں گی۔ یہ دہائی  بھارت میں عالمی معیار کے ایکسپریس وے، ہائی اسپیڈ ٹرین ، ملک گیر واٹرویز نیٹ ورک ، ایسے کئی انفرااسٹرکچر  کی جدید ترین چیزوں کی تعمیر کی دہائی ہوگی۔ اس دہائی میں بھارت کو  اپنی  پہلی بلٹ ٹرین ملے گی۔بھارت کو اسی دہائی میں مکمل طور پر آپریشنل  ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور ملے گا۔ اسی دہائی میں بھارت کے بڑے شہر میٹرو یا نمو بھارت ریل کے نیٹ ورک سے جڑ چکے ہوں گے۔  یعنی یہ دہائی  بھارت کی ہائی اسپیڈ کنکٹیویٹی  ، ہائی اسپیڈ موبلیٹی  اور  ہائی اسپیڈ پروسپریٹی کی دہائی ہوگی۔

ساتھیو،

آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ  وقت عالمی غیریقینی اور عدم استحکام کا ہے۔ اور ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد، یہ سب سے زیادہ عدم استحکام  کا احساس ہورہا ہے ، اس کی شدت بھی اور اس کا اسپریڈ بھی  ، پوری دنیا میں کئی سرکاروں کو  حکمت مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لیکن ان سب کے بیچ ، بھارت ایک مضبوط جمہوریت کے طور پراعتماد کا روشن مینار بنا ہوا ہے۔ میں امید کی کرن نہیں کہہ رہا ہوں، میں اعتماد کی کرن بہت ذمہ داری کے ساتھ  بول رہا ہوں۔ اور یہ صورتحال تب ہے جب ہم نے ملک میں بہت ساری اصلاحات بھی کی ہیں۔بھارت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ  گڈاکانامک کے ساتھ ہی  گڈ پالیکٹکس بھی ہو سکتی ہے۔

ساتھیو،

آج یہ ایک عالمی تجسس ہے ، گلوبل کیوروسٹی  ہے کہ بھارت نے کیسے کیا؟ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ہم نے ہمیشہ سکے کے کسی بھی  پہلوکو نظر انداز نہیں کیا۔ یہ  اس لیے ہوا کہ ہم نے ملک کی ضروریات بھی پوری کیں اورخواب بھی پورے کئے۔ یہ اس لیے ہوا کیونکہ ہم نے خوشحالی پر بھی  توجہ مرکوز کی اور بااختیار بنانے پر بھی کام کیا۔جیسے، ہم نے کارپوریٹ ٹیکس میں ریکارڈ کمی کی، لیکن ہم نے یہ بھی یقینی بنایا کہ  پرسنل انکم پر ٹیکس کم سے کم ہو۔ آج ہم ہائی ویز، ریلوے، ایئر ویز اور واٹر وے کی تعمیر پر ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم غریبوں کے لیے کروڑوں گھر بھی بنوارہے ہیں، انہیں مفت علاج اور مفت راشن کی سہولیات فراہم کرا رہے ہیں۔  ہم نے میک ان انڈیا کی پی ایل آئی اسکیموں میں  چھوٹ دی، تو کسانوں کو  بیمہ  کے ذریعہ تحفظ اور آمدنی بڑھانے کے وسائل بھی دیئے ہیں۔ہم ٹیکنالوجی اور انوویشن پر بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نے نوجوانوں کی ہنرمندی کے فروغ  پر بھی ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

ساتھیو،

آزادی کے بعد کی دہائیوں میں بھارت کا کافی وقت ، اسے غلط سمت  لے جانے میں گنوا دیا گیا ۔ایک ہی خاندان پر  فوکس کی وجہ سے ملک کی ترقی ڈی فوکس ہو گئی۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ہوں۔  لیکن آپ  یہ مانیں گے کہ وکست بھارت بننے کے لئے ہمیں اپنے کھوئے  وقت  کوبھی  ری کوور کرنا  ہوگا۔ اس کے لیے غیرمعمولی اسکیل اور غیرمعمولی اسپیڈ پر کام کرنا ہوگا۔ آج آپ  بھارت میں ہر  طرف یہی ہوتا دیکھ رہے ہوں گے۔  جب میں گجرات میں تھا تو میں اس وقت پبلکلی چنوتی دیتا تھا  کہ کسی بھی سمت 25 کلومیٹر  جائیے ، آپ کو کوئی نہ کوئی ڈیولپمنٹ کا انفراسٹرکچر کا کام ہوتا نظر آئے گا۔ کسی بھی سمت  25 کلومیٹر، کہیں سے بھی شروع کرو۔ میں آج کلومیٹر کی زبان نہیں بول رہا ہوں، لیکن میں آج یہ کہہ سکتا ہوں کہ  آپ ہندوستان کے کسی بھی علاقے  میں آپ اگر نظر  ڈالیں گے تو کچھ نہ کچھ پہلے سے اچھا ہو رہا ہے۔ اور آپ لوگ  چاہے اس پر ڈیبیٹ کررہے ہیں کہ تیسرے ٹرم میں میں بی جے پی کو 370 سے کتنی زیادہ سیٹیں ملیں گی۔ میں بھی تو آپ لوگوں کے  بیچ میں رہتا ہوں نا۔ لیکن میری پوری توجہ ملک کی ترقی کی  اسیپیڈ اور اسکیل کو بڑھانے پر ہی لگی ہوئی ہے۔ اگر میں صرف 75 دنوں کا حساب دوں آپ کو ، صرف 75 دن کی بات کروں، 75 ڈیز، تو ری پبلک کے ناظرین بھی  حیران ہوجائیں گے اور میں پکا مانتا ہوں کہ حیران ہوجائیں گے۔ یہاں کچھ لوگ نہیں ہوں گے، ملک میں کس اسپیڈ سے کام ہو رہا ہے۔ پچھلے 75 دنوں میں، میں نے تقریباً 9 لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح کیا۔ یہ 110 ارب  ڈالر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔  دنیا کے کتنے ہی ملک کا یہ سال بھر کا خرچ بھی نہیں ہے اور ہم نے صرف 75 دن میں جدید انفراسٹرکچر  پر اس سے زیادہ  انویسٹ کردیا ہے۔

پچھلے  75 دنوں میں ملک میں 7 نئے ایمس کا افتتاح ہواہے۔ 4 میڈیکل اور نرسنگ کالجز، 6 نیشنل ریسرچ لیبز شروع ہوئے ہیں۔ تین آئی آئی ایم، 10 آئی آئی ٹی ، پانچ این آئی ٹی کے  پرمانینٹ کیمپس یا ان سے جڑی سہولیات کا سنگ بنیاد اور افتتاح ہواہے۔  تین آئی آئی آئی ٹی، دو آئی سی اے آ ر اور 10 سنٹرل انسٹی ٹیوٹ کا سنگ بنیاد اورافتتاح ہواہ ے۔ خلائی انفراسٹرکچر سے جڑے 1800 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح کیا گیا ہے۔ انہی 75 دنوں میں 54 پاور پروجیکٹس کا افتتاح یا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ کاکراپار اٹامک پاور پلانٹ کے دو نئے ری ایکٹر ملک کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔کلپکم میں دیسی فاسٹ بریڈر ری ایکٹر کی "کور لوڈنگ"  کی  شروعات ہوئی ہے اور یہ ایک بہت انقلابی کام ہے۔ تلنگانہ میں 1600 میگاواٹ کے تھرمل پاور پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے۔ جھارکھنڈ میں 1300 میگاواٹ کے تھرمل پاور پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے۔ یوپی میں 1600 میگاواٹ کے تھرمل پاور پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے۔ یوپی میں ہی 300 میگاواٹ کے سولر پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اسی عرصے میں  یوپی میں ہی الٹرا میگا رینیوایبل پارک کا  سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ ہماچل میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ تمل ناڈو میں  ملک کا پہلا گرین ہائیڈروجن فیول سیل ویسل  کو لانچ کیا گیا۔ یوپی  میں میرٹھ-سمبھاولی ٹرانسمیشن لائنز کا افتتاح ہوا ہے۔ کرناٹک کے کوپل میں ونڈ انرجی زون سے ٹرانسمیشن لائنز کا افتتاح کیا گیا ہے۔ انہی 75 دنوں میں بھارت کے سب سے طویل کیبل پر مبنی برج کا افتتاح کیا گیا ہے۔ لکشدیپ تک زیر سمندر آپٹیکل کیبل کا کام مکمل اور افتتاح کیا گیا ہے۔ ملک کے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریلوے سٹیشنوں کو جدید بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ 33 نئی ٹرینوں کو ہر جھنڈی دکھائی گئی ۔ روڈ ، اوور برجز اور انڈر پاسز کے 1500 سے زائد پروجیکٹوں کا افتتاح کیا گیا۔ ملک کے 4 شہروں میں میٹرو سے متعلق 7  پروجیکٹوں  کا افتتاح کیا گیا ہے۔ کولکتہ کو ملک کی پہلی زیر آب میٹرو کا تحفہ ملا ہے۔پورٹ ڈیولپمنٹ کی  10 ہزار کروڑ روپے کے 30 پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔  گزشتہ 75 دنوں میں  ہی کسانوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی اسٹوریج اسکیم شروع ہوئی ہے۔ 18 ہزار کوآپریٹیو کے کمپیوٹرائزیشن کے  کام  کو پورا کردیا گیا ہے ۔ کسانوں کے بینک کھاتوں میں 21 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم منتقل کی گئی ہے۔ اور  ریپبلک ٹی وی کے ناظرین کو میں یاد دلا دوں کہ یہ وہ پروجیکٹ ہیں جس میں، میں شامل رہا ہوں۔ اور یہ میں نے صرف سنگ بنیاد اور افتتاح  کی بات کی ہے، اور بھی بہت کچھ کیاہے، وہ میں نہیں بتا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ میرے سرکار کے باقی  وزرا، بی جے پی این ڈی اے کی دوسری سرکاروں کی لسٹ،  اگر میں بولتا جاؤں گا تو  میں نہیں مانتا ہوں کہ  آپ نے صبح کی چائے کا انتظام کیا ہے یا نہیں کیا ہے۔ لیکن میں ایک اور مثال دوں گا کہ ہماری سرکار  کی اسکیل اور اسپیڈ کیا ہے،اور کیسے کام کر رہی ہے۔ آپ  بھی جانتے ہیں کہ اس سال کے بجٹ میں، یعنی تو ابھی  ابھی گیا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں  سولر پاور سے جڑی ایک بڑی اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا۔ بجٹ کے اعلان کے بعد، پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی  یوجنا کو کابینہ سے منظوری دینے میں، لانچ کرنے میں  4 ہفتوں سے بھی کم کا وقت لگا ہے۔ اب تو ایک کروڑ گھروں کو سوریہ گھر  بنانے کے لئے سروے بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت، سرکار کی تیاری 300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے  اور اضافی سولر یونٹس سے لوگوں کی کمائی کروانے کا  بھی ہے۔ آج اہل وطن  سرکاری کی اسپیڈ اور اسکیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ  رہے ہیں ،محسوس کر رہے ہیں اور اسی لیے  ہی وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک بار 400 پار، پھر ایک بار 400 پار۔

ساتھیو،

اکثر لوگ مجھ سے  پوچھتے ہیں کہ آپ کے خلاف اتنی منفی مہم چلائی جاتی ہے، اتنے حملے ہوتے ہیں... آپ کو فرق نہیں پڑتا کیا ؟ میں ان سے  یہی  بولتا  ہوں کہ اگر میں اس منفی مہم پر توجہ دینے لگا  تو مجھے جو کام کرنے ہیں وہ رہ جائیں گے۔ میں نے 75 دنوں کا رپورٹ کارڈآپ کے سامنے رکھا ہے لیکن ساتھ ہی میں اگلے 25 سال کا روڈ میپ بھی لے کرچل رہا ہوں۔ اور میرے لئے ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ اس انتخابی ماحول میں بھی ہم اپنے کام  کاج کے حوالے سے عوام کے پاس جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کیا ہے؟ دوسری طرف غصہ ہے، گالیاں  ہیں اور مایوسی ہے۔ ان کے پاس نہ  موضوعات  ہیں اور نہ ہی کوئی حل ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایسا اس  لیے  ہے کہ  ان پارٹیوں نے سات دہائیوں تک صرف نعروں پر  چناؤ لڑا۔ یہ لوگ غریبی ہٹاؤ کہتے رہے، یہ نعرے ہی ان کی سچائی ہے۔ گزشتہ  10 سال میں لوگوں نے نعرے نہیں بلکہ سلیوشن  دیکھے ہیں۔ غذائی تحفظ ہو یا کھاد کے کارخانوں کو پھر سے  شروع کرنا ہو، لوگوں کو بجلی  دینی ہو  یا بارڈر  انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا ہو، لوگوں کے لیے ہاؤسنگ اسکیم بنانے سے لے کر آرٹیکل 370 کو ہٹانے تک، ہماری سرکار نے تمام ترجیحات کو ایک  ساتھ لے کر کام کیا ہے۔

ساتھیو،

ریپبلک ٹی وی کا سوالات کے ساتھ  بہت پرانا شتہ رہا ہے۔  نیشن وانٹس ٹونو.... اور یہ کہتے کہتے آپ لوگوں نےاچھے اچھوں کے  پسینے چھڑا دیئے ہیں۔ پہلے ملک میں سوال ہوتا تھا کہ آج ملک کہاں ہے، ملک کس حالت میں ، لیکن دیکھئے پچھلے دس برسوں میں یہ سوال کیسے بدل گئے ہیں! 10 سال پہلے لوگ بولتے  تھے کہ  اب ہماری معیشت کا کیا ہوگا؟ آج لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کتنی جلدی تیسری  سب سے بڑی معیشت بن جائیں گے۔ 10 سال پہلے لوگ کہتے تھے کہ ہمارے پاس یہ ترقی یافتہ ملکوں والی ٹکنالوجی کب آئے گی؟ آج لوگ بیرون ملک سے آنے والوں سے پوچھتے ہیں -  آپ کے یہاں ڈیجیٹل  پیمنٹ نہیں ہوتا کیا ؟ 10 سال پہلے لوگ نوجوانوں سے کہتے تھے کہ نوکری نہ ملی تو کیا کریں گے؟ آج لوگ نوجوانوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا  اسٹارٹ اپ کیسا چل رہا ہے؟ 10 سال پہلے یہ تجزیہ کار پوچھتے تھے کہ اتنی مہنگائی کیوں ہے؟ آج وہی لوگ پوچھتے ہیں کہ پوری دنیا کے بحران کے بعد بھی بھارت میں مہنگائی کس طرح قابو میں ہے؟ 10 سال پہلے سوال پوچھا   جاتا تھا – ترقی کیوں نہیں ہورہی ؟ آج پوچھا جاتا ہے – آخر ہم اتنی تیزی سے ترقی کیسے کررہے ہیں۔ پہلے لوگ پوچھتے تھے- اب کو ن سا گھپلہ نکلا؟ آج پوچھا جاتا ہے – اب کون سے گھپلے باز پر کارروائی ہوئی؟ پہلے میڈیا کے ساتھی پوچھتے تھے- کہاں ہیں بگ بینگ ری فارمس؟ آج پوچھا جاتا ہے – الیکن ٹائم بجٹ میں بھی ری فارمس کیسے آرہے ہیں؟ دس سال پہلے لوگ پوچھتے تھے – جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کبھی ختم ہوگا کیا؟ آج پوچھا جاتا ہے- کشمیر میں پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد میں کتنے سیاح آئے؟ کشمیر میں کتنی سرمایہ کاری ہوئی؟  ویسے میں آج صبح ہی سری نگر میں تھا۔ میں یہاں کئی نئے  پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کے بعد آیا ہوں۔ اور آج نظارہ ہی کچھ اور  تھا دوستو۔ 40 سال سے میرا اس سرزمین سے ناطہ رہا ہے۔ آج میں نے  الگ  مزاج دیکھا،  الگ روپ دیکھا، خواب دیکھے، اعتماد سے بھرے لوگ دیکھے میں نے۔

ساتھیو،

دہائیوں تک سرکاروں نے  جنہوں کمزور مان کر لائبلٹی مان کر چھوڑ دیا ، ان دس برسوں میں ہم نے ان کی ذمہ داری لینے کا کام کیا ہے۔ اس  لیے میں کہتا ہوں-  جس کا کوئی نہیں ، مودی اس کے ساتھ کھڑا ہے ۔ آپ امنگوں والے  اضلاع کی مثال لیجئے، برسوں تک ان ضلعوں کو  یہاں رہنے والے کروڑوں لوگوں کو پسماندہ سمجھ کر  قسمت  کے بھروسے  چھوڑ دیا گیا۔ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ ہماری سرکار  نے نہ صرف  سوچ بدلی بلکہ اپروچ بھی بدلا اورساتھ ساتھ قسمت بھی بدلی۔ اس طرح  ہمارے بارڈر کنارے  ضلعے اور وہاں کے لوگوں کی زندگی بھی تھی۔ پہلے کی سرکاروں  کی پالیسی تھی کہ سرحد سے ملحقہ علاقوں کی ترقی نہ ہو ،افسران کہتے تھے ترقی نہ ہو ۔ اس پالیسی کی وجہ سے وہاں رہنے والے لوگوں کو بھی پریشانی ہوتی تھی ، نقل مکانی ہوتی تھی ۔ ہم نے درخشاں گاؤں پروگرام شروع کیا ، جس سے کہ لوگ بااختیار ہوں اور علاقوں کی صورتحال تبدیل ہو۔ دیویانگوں کی مثال دیکھئے، برسوں تک ان پر  کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ یہ ووٹ بینک نہیں تھے۔ ہم نے نہ صرف  ہر شعبے میں دیویانگوں کو ترجیح دی بلکہ ان لوگوں کی سوچ بھی بدلی ۔ آپ حیران ہوجائیں گے ، جی میں کہوں گا کہ آڈیئنس کو تو شاید بے چینی ہوجائے گی۔ ہمارے یہاں ریاستوں میں لینگویج کواپنے اپنے طریقے سے فروغ ملا ہے  ، تنوع  ہے یہ فخر کی بات ہے۔  لیکن ہمارے  جو اسپیشلی ایبلڈ  لوگ ہیں، جن کو سننے اور بولنے میں دشواری ہوتی ہے، ان کے لئے سائنیجز کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ حیران ہوجائیں  گے۔ہمارے ملک میں سائنیجز بھی الگ الگ   طرح کے چلتے تھے۔ اب مجھے بتائیے کہ دہلی کا آدمی  جے پور جائے اور سامنے والا دوسرے سائنیج میں بات کرے گا تو کیا ہوگا اس کا ؟ آزادی کے اتنے برسوں کے بعد، میں نے اس کام کو کیا، کمیٹی بنائی، اور آج پورے ملک میں میرے  دیویانگ جنوں کے لئے ایک ہی طرح کے سائنیجز پڑھائے جاتے ہیں۔ بات چھوٹی لگے گی لوگوں لیکن جب ایک حساس سرکار ہوتی ہے نہ ، تب اس کی سوچ اس کی اپروچ زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ جڑوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اور لوگوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اور دیکھئے ، دیویانگوں کے تئیں  مساوات کا نظریہ بدلا ہے۔

پبلک انفراسٹرکچر کی تعمیر تک  دیویانگوں کے حساب سے اور جو آرکیٹیکچر ہوتے ہیں ، وہ بھی ڈیزائن کرتے وقت دیویانگ کے لئے بناکر لارہے ہیں۔ایسے کتنے ہی اسپیشل گروپ اور کمیونٹیز ہیں ، جنہیں آزادی کے بعد سے کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ ہم نے ایسے خانہ بدوش قبائلیوں کے لیے ایک خصوصی ویلفیئر بورڈ بنایا۔ کسی نے بھی ہمارے لاکھوں  ریہیڑی پٹری والے دکانداروں کے بارے میں نہیں سوچا۔ لیکن کورونا کے وقت ہماری سرکار نے ان کے لئے پی ایم سواندھی یوجنا بنائی۔ کسی نے بھی ہمارے ان اسکلڈ فنکاروں کی پراہ نہیں کی، جنہیں آج ہم وشوکرما کہتے ہیں۔ ہم نے یہ یقینی بنایا کہ اس   طبقے کو اسکلنگ سے فنڈنگ تک کسی چیز کی دقت نہ ہو۔ اس پر مرکزی حکومت اب 13 ہزار کروڑ روپئے خرچ کررہی ہے ۔

ساتھیو،

ریپبلک ٹی وی کی ٹیم جانتی ہے کہ ہر کامیابی کے پیچھے محنت، وژن اور عزم کا ایک طویل سفر ہوتا ہے۔ جوابھی ارنب نے بھی  تھوڑا بہت ٹریلر دکھایا ہم کو۔ بھارت  بھی  اپنےاس سفر میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اگلی دہائی میں بھار ت  جس بلندی پر پہنچے گا وہ غیرمعمولی ہوگی ، ناقابل تصور ہوگی۔ اور یہ بھی مودی کی گارنٹی ہے۔

ساتھیو،

مجھے اچھا لگا کہ  آپ بھی گلوبل  وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔  تو مجھے پختہ یقین ہے، لیکن جو آپ نے کہا ، تو میں رائلٹی کے بغیر ایک دو تجویز پیش کررہا ہوں ۔کوئی رائلٹی کی ضرورت نہیں مجھے ۔ دیکھئے، آپ ریاستوں کا جو چینل بنانے کے لئے سوچ رہے ہیں، ایک کے بعد ایک ، ایک کے بعد کرنے جائیں گے تو میل نہیں بنے گا۔ میں بنیادی طور پر میرا سوچنے کا طریقہ کا ہی الگ ہے۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ آپ ڈیڈیکیٹڈ ایسا چینل بنائے ، جس میں آپ ٹائم فکس کیجئے ، کہ دو گھنٹے گجراتی ، دو گھنٹے بنگالی ، دو گھنٹے ملیالم  ایک ہی چینل ہو۔ اور آج گوگل گرو آپ کا ٹرانسلیشن تو کرہی دیتا ہے۔  اور میں اے آئی کی دنیا میں کافی آگے بڑھا رہا ہوں  ملک کو۔ اب میری  اپنی تقریر آٹھ نو زبانوں میں تو آپ آسانی کے ساتھ سن سکتے ہیں۔ ابھی میں تقریر کررہا ہوں سبھی زبانوں میں بہت ہی وداؤٹ نو ٹائم  مل جائیں گی۔ تمل لوگوں کو ملے گی، پنجابیوں کو ملے گی، آپ بھی ، اس سے کیا ہوگا ، آپ کی ایک کور ٹیم تیار ہوجائے گی۔ اور جو کورٹیم زیادہ تیار ہوتی ہے ، جو اکنامکلی وائبل بنتی ہے، پھر آپ کو 15 دن کے بعد اس کو ڈیڈیکیٹ کردیجئے ۔ آپ ایک دن میں چھ ریاستوں کے چینل کیوں نہیں چلاتے۔ ٹائم فکس کردیجئے۔ میں اور ٹیکنالوجی کے لئے  کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دوسرا جو آپ گلوبل چینل بنانا چاہتے ہیں ، ضروری نہیں ہرکوئی آپ کا چینل دیکھے ۔ شروع میں آپ ایک نیوز ایجنسی کےطور پر ،سارک ملکوں پر کام کرسکتے ہیں۔ یہ مالدیپ والے لوگوں کی مدد ہوجائے گی۔ نشیدمیرا بہت پرانا دوست ہے۔ میں اسے کچھ بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن اگر آپ سارک ملکوں میں کریں ، کم از کم ،کیونکہ ان لوگوں کو انڈیا کے نیوز میں انٹریسٹ ہوتا ہے،سارک ملکوں  میں۔ ان کی لینگویج ایک طرح سے پھر وم  سیٹ میں چلے جائیے۔ رفتہ رفتہ میں سمجھتا ہوں ، کام ایسا نہیں ہوتا، صاحب کہ اس پانچ سال میں منریگا کروں گا ، پھر پانچ سال تک منریگا کے ڈھول پیٹوں گا۔ ملک ایسے نہیں چلتا ہے جی۔ ملک تیز رفتار سے چلتا ہے ۔ ملک کو بہت بڑے کام کرنے ہوتے ہیں۔ اور میں مانتا ہوں کہ آپ کو تو انتخاب لڑنا نہیں ہے ، پھر فکرکیوں کررہے ہو۔ اور مجھے لڑنا ہے تو  بھی میں فکر نہیں کررہا ہوں۔ چلئے بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ۔

************

ش ح۔ف ا ۔ م  ص

 (U: 5839)



(Release ID: 2012631) Visitor Counter : 50