وزیراعظم کا دفتر

وائبرینٹ گجرات گلوبل سمٹ کی 20 سالہ تقریبات میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 27 SEP 2023 3:27PM by PIB Delhi

اسٹیج پر موجود گجرات کے گورنر آچاریہ دیو ورت جی، مقبول وزیر اعلیٰ محترم بھوپندر بھائی پٹیل، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی محترم سی آر پاٹل، گجرات حکومت کے وزراء، صنعتی دنیا کے تمام سینئر ساتھی، دیگر حضرات اور یہاں موجود سبھی میرے افراد کنبہ۔

20 سال پہلے ہم نے ایک چھوٹا سا بیج بویا تھا۔ آج وہ اتنا  وسیع و عریض اور بے انتہا وائبرینٹ  درخت بن گیا ہے۔ وائبرینٹ گجرات سمٹ کے 20 سال مکمل ہونے پر آج آپ کے درمیان آ کر مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ مجھے یاد ہے، برسوں پہلے میں نے ایک بار کہا تھا، وائبرینٹ گجرات یہ صرف برانڈنگ کا پروگرام بھر نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر بانڈنگ کا پروگرام ہے۔ دنیا کے لیے یہ کامیاب سمٹ ایک برانڈ ہو سکتی ہے، لیکن میرے لیے یہ ایک مضبوط بانڈ (رشتہ) کی علامت ہے۔ یہ وہ بانڈ ہے جو میرے اور گجرات کے 7 کروڑ باشندوں سے، ان کی صلاحیتوں سے جڑی ہے۔ یہ وہ بانڈ ہے، جو میرے لیے  ان کی بے انتہا محبت پر مبنی ہے۔

ساتھیوں،

آج مجھے سوامی وویکانند جی کی بھی ایک بات یاد آ رہی ہے۔ سوامی وویکانند جی نے کہا تھا کہ ہر کام کو تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ’’پہلے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، پھر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور پھر اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ اور خاص کر تب، جب وہ آئیڈیا اس دور سے آگے کا ہو۔ 20 سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ آج کی  نسل کے نوجوان ساتھیوں کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ 2001 میں آئے  تباہ کن زلزلہ کے بعد گجرات کی حالت کیا تھی۔ زلزلہ سے بھی پہلے گجرات طویل عرصے تک  قحط کی سنگین صورتحال کا سامنا کر رہا تھا۔ اس کے بعد جو زلزلہ آیا، اس میں ہزاروں لوگوں کی موت ہو گئی۔ لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوئے، انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ قحط اور زلزلہ کے علاوہ  اسی زمانے میں گجرات میں ایک اور بڑا واقعہ پیش آیا۔ مادھوپور مرکنٹائل کوآپریٹو بینک کولیپس ہو گیا، اس کی وجہ سے 133 اور کوآپریٹو بینک میں یہ طوفان چھا گیا۔ پورے گجرات کی  اقتصادی زندگی میں ہاہاکار مچا ہوا تھا۔ ایک طرح سے گجرات  کا فنانشیل سیکٹر بحران میں آ گیا تھا۔ اس وقت میں پہلی بار رکن اسمبلی بنا تھا، میرے لیے یہ  رول بھی نیا تھا،  حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن  چیلنج بہت بڑا تھا۔ اسی درمیان ایک اور واقعہ پیش آ گیا۔ گودھرا  کا دلدوز سانحہ واقع ہوا اور اس کے بعد کے حالات میں گجرات تشدد کی آگ میں جل اٹھا۔ ایسے ناگزیدہ حالات کا شاید ہی کسی نے تصور کیا ہوگا۔ وزیراعلیٰ کے طور پر بھلے اس وقت میرے پاس زیادہ تجربہ نہیں تھا لیکن میرا گجرات پر، اپنے گجرات کے لوگوں پر اٹوٹ بھروسہ تھا۔ حالانکہ جو لوگ ایجنڈہ لے کر چلتے ہیں، وہ اس وقت بھی واقعات کو اپنے طریقے سے اینالیسس کرنے میں مصروف تھے۔ یہ کہا گیا کہ گجرات سے نوجوان، گجرات سے صنعت، گجرات سے تاجر سب باہر چلے جائیں گے، نقل مکانی کر جائیں گے اور گجرات تو ایسا برباد ہوگا، ایسا برباد ہوگا کہ ملک کے لیے بہت بڑا بوجھ بن جائے گا۔ دنیا میں گجرات کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی۔  ایک مایوسی کا ماحول کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ کہا گیا کہ گجرات کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پائے گا۔ اس بحران میں بھی میں نے عہد لیا کہ  چاہے حالات جیسے بھی ہوں، گجرات کو اس سے باہر نکال کر ہی رہوں گا۔ ہم گجرات کی از سر نو تعمیر ہی نہیں، بلکہ اس سے آگے کی بھی سوچ رہے تھے۔ اور اس کا ایک اہم ذریعہ ہم نے بنایا وائبرینٹ گجرات سمٹ کو۔  یہ گجرات کی خود اعتمادی کو بڑھانے اور اس کے ذریعے دنیا سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے کا یہ ذریعہ بن گیا۔ یہ گجرات سرکار  کے فیصلہ لینے کا عمل اور فوکسڈ اپروچ کو، پوری دنیا کو دکھانے کا ایک ذریعہ بنا۔ یہ گجرات سمیت ہندوستان کی صنعتی صلاحیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا ذریعہ بنا۔ یہ ہندوستان میں موجود الگ الگ سیکٹرز کے لامحدود امکانات کو دکھانے کا ذریعہ بنا۔ یہ ہندوستان کے ٹیلنٹ کو ملک کے اند راستعمال کرنے کا ذریعہ بنا۔ یہ ہندوستان کی  شوکت، عظمت اور ثقافتی وراثت کو دنیا کو دکھانے کا ایک اور ذریعہ بن گیا۔ ہم نے کتنی باریکی سے کام کیا اس کی مثال وائبرینٹ گجرات کی ٹائمنگ بھی ہے۔ ہم نے وائبرینٹ گجرات تب کیا، جب گجرات میں نوراتری اور گربا کی دھوم رہتی ہے۔ ہم نے اسے گجرات کی صنعتی ترقی کا تہوار بنا دیا۔

ساتھیوں،

آج میں آپ سبھی کو ایک اور بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ 20 سال ہو رہے ہیں، ہر طرح کی کھٹی میٹھی باتیں یاد آنا بہت فطری ہے۔ آج دنیا وائبرینٹ گجرات کی کامیابی دیکھ رہی ہے۔ لیکن وائبرینٹ گجرات کا اہتمام ایسے ماحول میں کیا گیا، جب تب کی مرکزی حکومت بھی گجرات کی ترقی کو لے کر بے رخی دکھاتی تھی۔ میں نے ہمیشہ ہی کہا ہے کہ  گجرات کی ترقی سے ملک کی ترقی۔ لیکن اُس وقت مرکزی حکومت چلانے والے گجرات کی ترقی کو بھی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔ مرکزی حکومت کے وزیر تب وائبرینٹ گجرات سمٹ میں آنے سے منع کر دیا کرتے تھے۔ ذاتی طور سے تو مجھے بتاتے تھے کہ نہیں نہیں ہم ضرور آئیں گے، پتہ نہیں پیچھے سے ڈنڈا چلتا تھا وہ نہ کر دیتے تھے۔ تعاون تو دور کی بات، وہ روڑے اٹکانے میں لگے رہتے تھے۔ غیر ملکی انویسٹرز کو دھمکایا جاتا تھا کہ گجرات مت جاؤ۔ اتنا ڈرانے کے بعد بھی غیر ملکی انویسٹرز گجرات آئے۔ جب کہ یہاں گجرات میں انہیں کوئی اسپیشل انسینٹو نہیں دیا جاتا تھا۔ وہ یہاں آئے تھے، کیوں کہ انہیں یہاں گڈ گورننس، فیئر گورننس، پالیسی ڈریون گورننس، ایکول سسٹم آف گروتھ، اور ٹرانس پیرنٹ سرکار کا تجربہ روزمرہ کی زندگی میں آتا تھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں… جب وائبرینٹ گجرات کی شروعات کی گئی تھی، تب گجرات میں بڑے بڑے ہوٹل بھی نہیں تھے جہاں پر اتنے سارے غیر ملکی مہمانوں کو رکوایا جا سکے۔ جب سارے سرکاری گیسٹ ہاؤس بھی بھر جاتے تھے، تو ہمارے سامنے سوال ہوتا تھا کہ اب باقی لوگ کہاں ٹھہریں گے۔ ایسے حالات میں بزنس ہاؤسز کو میں نے کہا بھئی ذرا آپ کا کوئی گیسٹ ہاؤس وغیرہ ہے تو وہ بھی چھوڑ دیجئے تاکہ ان کے کام آ جائے۔ یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس تک کا ہم نے استعمال کیا۔ ان کے گیسٹ ہاؤس میں مہمانوں کے رکنے کا انتظام کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو بڑودہ بھی ٹھہرنا پڑا۔

ساتھیوں،

مجھے یاد ہے، 2009 میں جب وائبرینٹ گجرات کا اہتمام کیا گیا، تب پوری دنیا میں مندی کا ماحول تھا، مندی کی چپیٹ میں دنیا تھا۔ اور سب نے مجھے بتایا، ہمارے افسر بھی مجھے بتا رہے تھے کہ صاحب اس بار وائبرینٹ گجرات ملتوی کر دیجئے، فلاپ ہو جائے گا، کوئی نہیں آئے گا۔ لیکن میں نے اس وقت بھی کہا جی نہیں، یہ رکے گا نہیں، یہ ہوگا، اگر ناکام ہوگا تو تنقید ہوگی اور کیا ہوگا، لیکن عادت چھوٹنی نہیں چاہیے۔ اور تب بھی وائبرینٹ گجرات سمٹ نے پوری دنیا مندی کے دور میں تھی۔ لیکن 2009 کے وائبرینٹ گجرات میں کامیابی کا ایک اور نیا باب جڑ گیا۔

ساتھیوں،

وائبرینٹ گجرات کی کامیابی کو اس کی ترقی کے سفر سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ 2003 میں اس سمٹ سے کچھ 100 شرکاء اور  مندوبین جڑے تھے۔ بہت چھوٹا سا پروگرام تھا۔ آج 40 ہزار سے زیادہ شرکاء اور مندوبین اس سمٹ میں حصہ لیتے ہیں۔  2003 میں اس سمٹ میں صرف گنتی بھر ممالک کی حصہ داری تھی، آج 135 ممالک اس میں شرکت کرتے ہیں۔ 2003 میں اس سمٹ کی شروعات میں، 30 کے آس پاس ایگزہبیٹرز آئے تھے، اب 2 ہزار سے زیادہ ایگزہبیٹرز اس سمٹ میں آتے ہیں۔

ساتھیوں،

وائبرینٹ گجرات کی کامیابی کے پیچھے کئی اسپیسفک ریزنز ہیں۔ اس کی کامیابی میں آئیڈیا، امیجنیشن اور امپلی منٹیشن  جیسے کور ایلیمنٹس  شامل ہیں۔ اگر میں آئیڈیا کی بات کروں، تو وائبرینٹ گجرات ایک ایسا یونیک کنسیپٹ تھا، جس کے بارے میں ہندوستان میں کم ہی لوگوں نے سنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ملی کامیابی سے لوگوں کو اس کی اہمیت سمجھ آئی۔ کچھ وقت بعد،  دوسری ریاستوں نے بھی اپنی طرح کے بزنس اور انویسٹرز سمٹ کا اہتمام شروع کر دیا۔ ایک اور اہم فیکٹر ہے،  امیجنیشن۔ ہم نے الگ طریقے سے سوچنے کی ہمت دکھائی۔ ہم ان دنوں ریاستی سطح پر ہی کچھ بہت بڑا سوچ رہے تھے، کچھ ایسا جو ملک کی سطح پر بھی نہیں ہو پایا ہو۔ ہم نے ایک ملک کو اپنا پارٹنر کنٹری بنانے کی ہمت دکھائی، اور ڈیولپ کنٹری کو۔ ایک چھوٹی ریاست دنیا کے ایک ڈیولپ کنٹری کو پارٹنر کنٹری بنا دے یہ سوچ بھی آج تھوڑا لگتا ہوگا، اس وقت ذرا تصور کیجئے کیا ہوا ہوگا؟ لیکن کر لیا۔ ملک کی کسی اکیلی ریاست کے لیے یہ ایک بہت بڑی بات تھی۔

ساتھیوں،

آئیڈیا اور امیجنیشن کتنے بھی اچھے ہوں، لیکن ان کے لیے پورے سسٹم کو موبلائز کرنا اور  رزلٹس ڈیلیور کرنا بہت اہم ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے، جس کے لیے بڑی پلاننگ،  صلاحیت سازی میں سرمایہ کاری، ہر ڈٹیل پر نظر، اور  اتھک محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ اس اسکیل کا اہتمام ہو سکے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے، سیم آفیسرز، سیم رسورسز اور سیم ریگولیشنز کے ساتھ ہم نے کچھ ایسا کیا، جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہیں تھا۔

ساتھیوں،

وائبرینٹ گجرات سمٹ کی ایک اور پہچان نوٹ کرنے والی ہے۔ آج وائبرینٹ گجرات وَن ٹائم ایونٹ سے ایک انسٹی ٹیوشن بن گیا ہے، جس کا سسٹم اور پروسیس حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر سال بھر خود ہی چلتا رہتا ہے۔ چیف منسٹرز بدلے، قریب قریب پرانے لیڈنگ آفیسرز تو سارے کے سارے ریٹائر ہو گئے، جو 2001 میں پہلی بار گجرات آئے ہوں گے ایسے افسر آج گجرات سنبھال رہے ہیں۔ سینئر ہو گئے ہیں۔ وقت بدلا، لیکن ایک چیز نہیں بدلی۔ ہر بار وائبرینٹ گجرات کامیابی کی نئی اونچائی تک پہنچتا رہا۔ ایسا اس لیے ہوا، کیوں کہ ہم نے پروسیسز کو ادارہ جاتی بنا دیا۔ اس کامیابی کی جو کانسس ٹینسی ہے، اس کے لیے یہی طاقت اس کی بنیاد ہے۔ اور اس کے لیے انفراسٹرکچر پر بھی ویسے ہی زور دیا، کہاں کبھی ٹیگور ہال میں پروگرام ہوتا تھا، پھر کبھی یہاں سائنس سٹی میں ہی تمبو لگا کر کے پروگرام کیا تھا اور آج مہاتما مندر بن گیا۔

ساتھیوں،

جس جذبے کے ساتھ ہم نے وائبرینٹ گجرات سمٹ کو آگے بڑھایا، ویسا عام طور پر ہمارے ملک میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم یہ سمٹ کرتے تھے تو گجرات میں لیکن ہم اس کے ذریعے ہر ریاست کو فائدہ پہنچاناچاہتے تھے۔ بہت کم لوگ ہیں جو ہماری اس سوچ کو آج بھی سمجھ پائے ہوں۔ وہ اپنے ایک دائرے میں سکڑ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک گجرات کا وزیر اعلیٰ اس وقت ملک کے وزرائے اعلیٰ سے اپیل کرتا تھا کہ سمٹ ہو رہی ہے آپ بھی اپنا جھنڈا گاڑیے، آپ بھی اپنا اسٹال لگائیے، آپ بھی سیمنار کیجئے۔ وائبرینٹ گجرات سمٹ میں دوسری ریاستوں کو بھی شامل ہونے کے لیے موقع دیا جاتا تھا۔ ہم نے ریاستوں کو انوائٹ کیا تھا۔ آپ بھی آئیے، اپنی طاقت اس میں لگائیے، فائدہ اٹھائیے۔ ہم نے اسٹیٹ سیمنار کا اہتمام کیا، جس میں کئی ریاستیں آتی تھیں اور وائبرینٹ سمٹ کے درمیان کہیں پر اڑیسہ کا سمٹ چل رہا ہے، کہیں تیلگو سمٹ چل رہا ہے، کہیں پر ہریانہ، جموں و کشمیر کا سمٹ چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ گجرات میں آیوروید کا ایک پورے ملک کا سمٹ، پروگریسو پارٹنر کا ایک بہت بڑا سمٹ، آل انڈیا لایرز سمٹ۔ ایسے الگ الگ قسم کے سمٹ اس کا بھی تانا بانا ہم لگاتار بناتے جاتے تھے۔ ہم گجرات کی ترقی  بھی نیشنل وژن کے تحت کر رہے تھے۔

ساتھیوں،

20ویں صدی میں ہمارا گجرات، ہماری پہچان کیا تھی؟ ہم ایک ٹریڈر اسٹیٹ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایک جگہ سے لیتے تھے، دوسری جگہ دیتے تھے۔ بیچ میں جو بھی دلالی ملے اس سے گزارہ کرتے تھے۔ یہ ہماری شبیہ تھی۔ لیکن 20ویں صدی کی اس شبیہ کو چھوڑ کر کے 21ویں صدی میں گجرات ٹریڈ کے ساتھ ایک ایگریکلچر پاور ہاؤس  بنا، ایک فنانشیل ہب بنا اور ایک انڈسٹریل اور مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کے طور پر اس کی ایک پہچان بن گئی۔ اس کے علاوہ، گجرات کی ٹریڈ بیسڈ رپیوٹیشن بھی کافی مضبوط ہوئی ہے۔  ان سبھی کے پیچھے وائبرینٹ گجرات جیسے پروگراموں کی کامیابی ہے، جو آئیڈیاز، انوویشن اور انڈسٹریز کے انکیوبیٹر کی طرح کام کر رہا ہے۔ ہمارے پاس پچھلے 20 برسوں کے، ہزاروں  سکسیس اسٹوریز اور کیس اسٹڈیز ہیں۔  افیکٹو پالیسی میکنگ اور ایفیشنٹ پروجیکٹ امپلی منٹیشن سے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل اور ایپرل انڈسٹریز کے انویسٹمنٹ اور امپلائمنٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا ایکسپورٹس بھی ریکارڈ بنا رہا ہے۔ گزشتہ 2 دہائیوں میں ہم الگ الگ سیکٹرز میں نئے مقام تک پہنچے ہیں۔ آٹوموبائل سیکٹر میں 2001 کے مقابلے، ہماری سرمایہ کاری قریب 9 گنا بڑھی ہے۔ ہمارے مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ میں 12 گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیمیکل سیکٹر میں گجرات ملک اور دنیا کی تمام کمپنیوں کی پسند بن گیا ہے۔ آج ہندوستان کی ڈائیز اینڈ انٹرمیڈئریز مینوفیکچرنگ میں گجرات کا تعاون تقریباً 75 فیصد ہے۔  ایگرو اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کی سرمایہ کاری میں گجرات کا حصہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ آج، گجرات میں 30 ہزار سے زیادہ فوڈ پروسیسنگ یونٹس کام کر رہے ہیں۔ فارما سیکٹر میں گجرات ایک انوویشن ڈریون، نالیج فوکسڈ فارما انڈسٹری کے طور پر ابھر رہا ہے۔ میڈیکل ڈیوائس مینوفیکچرنگ میں 50 فیصد سے زیادہ اور  کارڈیئک اسٹنٹس مینوفیکچرنگ میں قریب 80 فیصد حصہ گجرات کا ہی ہے۔ جیم اور جیولری انڈسٹری میں تو گجرات کی کامیابی غیر معمولی ہے۔ پوری دنیا کے پروسیسڈ ڈائمنڈز کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ گجرات کا ہے۔ ہندوستان کے ڈائمنڈ ایکسپورٹس میں گجرات کا تعاون 80 فیصد ہے۔ سیرامک سیکٹر کی بات کریں تو گجرات کا موربی خطہ اکیلے ہی ملک کے سیرامک مارکیٹ میں 90 فیصد شیئر رکھتا ہے۔ یہیں پر سیرامک ٹائلز، سینٹری ویئر اور الگ الگ سیرامک پروڈکٹس کی قریب 10 ہزار مینوفیکچرنگ یونٹس ہیں۔ گجرات ہندوستان میں ٹاپ ایکسپورٹر بھی ہے۔ پچھلے سال ریاست نے قریب 2 بلین ڈالر کا ایکسپورٹ کیا تھا۔ آنے والے وقت میں ڈیفنس مینوفیکچرنگ بہت بڑا سیکٹر ہوگا۔

ساتھیوں،

ہم نے وائبرینٹ گجرات کی شروعات کی تو ہمارا انٹینشن تھا کہ یہ ریاست ملک کی ترقی کا گروتھ انجن بنے۔ سمجھ آیا میں کیا کہہ رہا ہوں؟ جب ہم یہاں کام کر رہے تھے تب ہمارا تصور تھا، ہماری سوچ تھی کہ گجرات ملک کا گروتھ انجن بنے، چلئے تھوڑے لوگوں کو سمجھ آیا۔ ملک نے اس  تصور کو حقیقت بنتے دیکھا ہے۔ 2014 میں جب ہمیں ملک کی خدمت کرنے کا موقع دیا، تو ہمارے  اہداف میں بھی توسیع ہوئی، اور ہمارا ہدف تھا کہ ہندوستان پوری دنیا کا گروتھ انجن بنے۔ آج بین الاقوامی ایجنسیاں، ایکسپرٹس اسی سُر میں بات کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھ رہی معیشت ہے۔ اب ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں ہندوستان گلوبل اکنامک پاور ہاؤس بننے جا رہا ہے۔ اب ہندوستان کو دنیا کی اور یہ میری آپ کو بھی گارنٹی ہے۔ آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے، کچھ ہی برسوں میں ہندوستان دنیا کی ٹاپ 3 بڑی اکنامی میں ہوگا۔ یہ مودی کی گارنٹی ہے۔ اس لیے میں یہاں موجود مہمانوں سے، ہندوستان کی صنعتی دنیا سے ایک اپیل بھی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سبھی ایسے سیکٹر کے بارے میں سوچیں جہاں پر ہندوستان  اپنے نئے امکانات بنا سکتا ہو، یا اپنی حالت کو اور بہتر کر سکتا ہو۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ وائبرینٹ گجرات کیسے اس مشن کو مومینٹم دے سکتا ہے۔ جیسے ہندوستان آج دنیا میں سسٹین ایبلٹی کے لیے، اس  موضوع میں آج دنیا کی قیادت کر رہا ہے، لیڈ کر رہا ہے۔ ہمارے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو کیسے اس سمٹ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو، ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا۔ آج ایگری ٹیک ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے۔ فوڈ پروسیسنگ سیکٹر کی تیزی سے توسیع ہو رہی ہے۔ شری انّ کے بڑھتے استعمال سے ہمارا جو ملیٹس ہے، وہ آج دنیا کے بڑے بڑے غذائی لانچ میں ڈائنگ ٹیبل پر اس کی جگہ بن گئی ہے۔ شری انّ کے استعمال سے نئے مواقع تیار ہو رہے ہیں۔ پروسیسنگ، پیکیجنگ، اس میں تبدیلی اور گلوبل مارکیٹ تک پہنچنے کے امکانات بہت نئے موقعے لے کر کے آئی ہیں۔

آج کے ڈیپلی کنکٹیڈ ورلڈ میں فنانشیل کوآپریشن کے انسٹی ٹیوشنز کی ضرورت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گجرات کے پاس پہلے سے ہی گفٹ سٹی ہے، جس کی معنویت ہر دن بڑھ رہی ہے۔ گفٹ سٹی میں ہمارے ہول آف گورنمنٹ اپروچ  کی عکاسی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں مرکز، ریاست اور آئی ایف ایس سی اتھارٹی مل کر کام کرتے ہیں تاکہ دنیا کا بیسٹ ریگولیٹری انوائرمنٹ تیار ہو۔ ہمیں اسے گلوبلی کمپٹیٹو فنانشیل مارکیٹ پلیس بنانے کی کوشش تیز کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ہم اپنے لارج ڈومیسٹک ڈیمانڈ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وائبرینٹ گجرات کے سامنے یہ ہدف ہے کہ وہ کیسے گفٹ سٹی کو اور مضبوط کرے، تاکہ اس کی گلوبل پریزنس بڑھے۔

ساتھیوں،

وائبرینٹ گجرات کی کامیابی کی بحث کے درمیان، میں یہ بھی کہوں گا کہ یہ رکنے کا وقت نہیں ہے۔  گزشتہ 20 برسوں سے اگلے 20 سال زیادہ اہم ہیں۔ جب وائبرینٹ گجرات کے 40 سال پورے ہوں گے، تب ہندوستان اپنی آزادی کے سو سال کے قریب پہنچا ہوگا۔ یہی وقت ہے جب ہندوستان کو ایک ایسا روڈ میپ بنانا ہوگا، جو اسے 2047 تک ایک ترقی یافتہ اور خود کفیل ملک کے طور پر ہم اس کو دنیا کے ساتھ قائم کریں۔ مجھے یقین ہے، آپ سبھی بھی اس سمت میں ضرور کام کریں گے، ضرور قدم اٹھائیں گے، ضرور آگے آئیں گے۔ ابھی وائبرینٹ سمٹ تو جنوری میں ہونے والی ہے۔ ریاستی حکومت اور یہاں کی صنعتی دنیا کے ساتھی پوری طاقت سے لگے بھی ہوں گے، لیکن میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج جب آپ نے مجھے بلایا تو میں بھی 20 سال چھوٹا ہو گیا اور پرانی اُن یادوں میں کھو گیا، ان خطرناک دنوں سے گجرات کیسے نکالا ہے اور آج کہاں پہنچا ہے۔  زندگی میں اس سے بڑا اطمینان کیا ہو سکتا ہے دوستوں؟ میں پھر ایک بار اس 20 سال کو یاد کرنے کے لیے گجرات سرکار کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے آپ کے درمیان آ کر کے پرانے دنوں کو یاد کرنے کا موقع دیا، میں بہت بہت شکر گزار ہوں، بہت بہت مبارکباد۔

************

 

 

ش ح۔ ق ت

 (U: 10021)



(Release ID: 1961338) Visitor Counter : 125