وزیراعظم کا دفتر
موڈھیرا، گجرات میں ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھنے اور وقف کرنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
09 OCT 2022 11:39PM by PIB Delhi
آج موڈھیرا، مہسانہ اور پورے شمالی گجرات میں ترقی کی ایک نئی توانائی پیداہوئی ہے۔ بجلی، پانی سے لے کر روڈ ریل تک، ڈیری سے لے کر اسکل ڈیولپمنٹ اور صحت سے متعلق کئی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ہزاروں کروڑ روپئے سے زائد کے یہ پروجیکٹ روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے، کسانوں اور مویشی پالنے والوں کی آمدنی بڑھانے میں مدد کریں گے اور پورے خطے میں ہیریٹیج ٹورازم سے متعلق سہولیات کو بھی وسعت دیں گے۔ ان سبھی ترقیاتی پروجیکٹوں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ یہ مہسانہ والوں نے رام –رام ۔
ساتھیو،
آج جب ہم بھگوان سوریہ کے دھام موڈھیرا میں ہیں تو یہ ایک خوش کن اتفاق ہے کہ آج شرد پورنیما بھی ہے۔ نیز، آج مہارشی والمیکی جی کی یوم پیدائش کا بھی مبارک موقع ہے۔ یعنی ایک طرح سے تروینی سنگم ہوگیا ہے۔ مہارشی والمیکی نے ہمیں بھگوان رام کی طرح زندگی کے درشن کروائے، مساوات کا پیغام دیا۔ آپ سبھی کو پورے اہل وطن کو شرد پورنیما اور والمیکی جینتی کی بہت بہت مبارکباد!
بھائیو اور بہنو،
پچھلے کچھ دنوں سے آپ ٹی وی پر لگاتار دیکھ رہے ہوں گے، اخبارات میں، سوشل میڈیا میں سوریا گرام کے بارے میں، موڈھیرا کے بارے میں، پورے ملک میں چرچہ ہونے لگی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمارا خواب آنکھوں کے سامنے پورا ہو سکتا ہے، آج ہم خواب کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہماری صدیوں پرانی عقیدت اور جدید ٹیکنالوجی ، گویا ایک نیا سنگم نظر آ رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے مستقبل کا اسمارٹ گجرات، اسمارٹ انڈیا کی جھلک بتا رہے ہیں۔ یہ آج ہم سب کے لیے، پورے مہسانہ کے لیے، پورے گجرات کے لیے فخر کا لمحہ لے کر آیا ہے۔ میں صرف موڈھیروالوں سے پوچھوں یا، چانسما والوں سے پوچھوں یا، مہسانہ والوں کو پوچھوں، آپ بتائیں کہ اس سے آپ کا سر بلند ہوا یا نہیں، سر فخر سے بلند ہوا کہ نہیں ہوا، آپ کو خود کو اپنی زندگی میں آپ کے سامنے کچھ ہونے کا لطف آیا کہ نہیں آیا۔ پہلے دنیا موڈھیرا کو سوریہ مندر کی وجہ سے جانتی تھی لیکن اب موڈھیرا کے سوریہ مندر سے تحریک لے کر موڈھیرا سوریہ گرام بھی بن سکتا ہے، یہ دونوں ایک ساتھ دنیا میں پہچانے جائیں گے اور موڈھیرا ماہرین ماحولیات کے لیے دنیا کے نقشے پر اپنی جگہ بنا لے گا دوستو۔
ساتھیو،
گجرات کی یہی تو طاقت ہے جو آج موڈھیرا میں نظر آرہی ہے، جو گجرات کے کونے کونے میں موجود ہے۔ کون بھول سکتا ہے یہ موڈھیرا کے سوریہ مندر کو تباہ کرنے کے لئے، اس کو مٹی میں ملانے کے لیے حملہ آوروں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ یہ موڈھیرا جس پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تھے، اب وہ اپنے افسانوی اور جدیدیت کے لیے دنیا کے لیے ایک مثال بن رہا ہے۔
مستقبل میں جب بھی شمسی توانائی کی بات ہوگی، دنیا میں جب بھی شمسی توانائی کی بات ہوگی تو سب سے پہلے موڈھیرا کا نام آئے گا۔ کیونکہ یہاں تمام سولر انرجی سے سولر پاورچل رہے ہیں ، گھر کی روشنی ہو، زراعت کی ضرورت ہو، یہاں تک کہ گاڑیاں، بسیں بھی یہاں سولر پاور سے چلانے کی کوشش ہوگی۔ 21ویں صدی کے آتم نربھر بھارت کے لئے ہمیں اپنی توانائی کی ضروریات سے متعلق ایسی کوششوں کو بڑھانا ہوگا۔
ساتھیو،
میں گجرات کو، ملک کو ، ہماری آنے والی نسلوں کے لئے، آپ کے بچوں کو تحفظ ملے، اس کے لئے دن رات محنت کرکے ملک کو اس سمت میں لے جانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہوں ۔ اور وہ دن دور نہیں ہوگا جیسے موڈھیرا میں میں نے ابھی ٹی وی پر دیکھاسبھی بھائی کہتے تھے کہ اب ہمارے گھر کے اوپر بجلی پیداہوتی ہے، اور ہمیں حکومت سے ہمیں پیسہ ملتا ہے ۔ بجلی مفت ہی نہیں بجلی کے پیسے بھی ملتے ہیں۔ یہاں بجلی کے کارخانے کا مالک بھی وہی گھر والا ، کارخانے کا مالک بھی وہی کسان ہے اور اسے استعمال کرنے والا گاہک بھی وہی ہے۔ اپنی ضرورت کی بجلی استعمال کریں اور اضافی بجلی حکومت کو فروخت کریں۔ اور اس سے بجلی کے بل سے بھی نجات مل جائے گی، یہی نہیں اب ہم بجلی بیچ کر کمائی کریں گے۔
یہ بتائیں کہ دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں یا نہیں، اور معاشرے پر لوگوں پر کوئی بوجھ بھی نہیں، ہم بغیر بوجھ کے لوگوں کی بھلائی کر سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں محنت کرنی پڑے گی اور ہمیں محنت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اور جو سنسکار آپ نے دیے ہیں، آپ نے جو تربیت دی ہے، اور ہمارا جو مہسانہ ضلع کتنا مصیبت والا ضلع تھا، اور اس میں جس کی تربیت ہوئی ہو تو محنت کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹا، کبھی پیچھے نہیں ہٹا؟
دوستو
اب تک ایسا ہوا کرتا تھا کہ حکومت بجلی پیدا کرتی تھی اور عوام خریدتے تھے۔ لیکن میں اس راستے پر چلنے کے لئے پرعزم ہوں، ملک کو بھی اس سے جوڑنے کی کوشش کررہاہوں، مجھے آگے کا راستہ نظر آرہاہے۔ اور اسی لیے مرکزی حکومت یہ مسلسل کوششیں کر رہی ہے کہ اب لوگ اپنے گھروں میں سولر پینل لگائیں گے، کسان اپنے کھیتوں میں بجلی پیدا کریں، سولر پمپ کا استعمال کریں۔ اور آپ مجھے کہو کہ پہلے ہمیں ہارس پاور کے لیے احتجاج کرنا پڑتا تھا، اب تو آپ کے کھیت کے کنارے پر جو تار باندھ کے جو 2-2 میٹر زمین برباد کرتے ہیں، اس کے بدلے میں سولر پینل لگا دی ہو تو وہیں سولر سے اپنا پمپ بھی چلے گا، کھیت کو پانی بھی ملے گا، اور اوپر کی بجلی حکومت خریدے گی، آپ کہو ہم نے پورا سائکل بدل دیا کہ نہیں بھائی، اور اس کے لئے حکومت سولر پاور کو فروغ دینے کے لئے مالی مدد فراہم کررہی ہے، لاکھوں سولر پمپ تقسیم کررہی ہے۔
کھیت میں سے پانی کھینچنے کے لئے، نکالنے کے لئے استعمال میں آئے، اس کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہاں ابھی میں بہت سارے نوجوان دیکھ رہا ہوں لیکن جن کی عمر 20-22 سال ہے وہ زیادہ نہیں جانتے ہوں گے۔ میرے مہسانہ ضلع کا کیا حال تھا بھائی، بجلی نہیں ملتی تھی، بجلی کب جاتی ہے، بجلی آئی کہ نہیں اس کی خبریں آتی تھیں۔ اور پانی کے لیے ہماری بہن- بیٹیوں کو سر پر مٹکا رکھ کر 3-3 کلومیٹر جانا پڑتا تھا۔ ایسے دن میری شمالی گجرات کی ماؤں بہنوں، شمالی گجرات کے میرے نوجوانوں نے دیکھیں ہیں دوستو،، آج جو 20-22 سال کے بیٹے بیٹیاں ہیں، نہ انہیں ایسی مصیبتوں کا علم تک نہیں ہے۔ یہاں اسکول-کالجوں جانے والے جو نوجوان ہیں ، انہیں تو یہ سب سن کر بھی حیرت ہوگی کہ ایسا تھا۔
ساتھیو،
ہم کس طرح کے حالات میں رہتے تھے، جب آپ اپنے بزرگوں سے بات کریں گے تو وہ آپ کو بتائیں گے۔ کئی طرح کے مسائل سے گزرنا پڑا اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کا پڑھنا بہت مشکل تھا، گھر میں ٹی وی یا پنکھے کا دور نہیں تھا، اپنے لئے۔ آبپاشی کا معاملہ ہو، پڑھائی کا معاملہ ہو یا دوا کی بات ہو، سبھی میں مصیبتوں کا پہاڑ تھا۔ اور اس کا سب سے زیادہ اثر ہماری بچیوں کی تعلیم پر پڑا۔ اپنے مہسانہ ضلع کے لوگ فطری طور پر ریاضی اور سائنس میں آگے ہیں۔ اگر آپ امریکہ جائیں تو وہاں ریاضی کے میدان میں شمالی گجرات کا معجزہ نظر آئے گا۔ اگر آپ پورے کچھ میں جائیں تو آپ کو مہسانہ ضلع کے اساتذہ نظر آئیں گے۔ وجہ اپنے پاس یہ قدرت کی طاقت تھی، لیکن اتفاق ایسے تھے کہ بجلی، پانی کی کمی میں جینے کی وجہ سے جن بلندی پر جانے کا اس نسل کو موقع ملنا تھا ، وہ نہیں ملا تھا۔
آج کی نسل سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ دم آپ میں چاہئے آسمان جتنے موع آپ کے پاس ہے دوستو، اتنا ہی نہیں ساتھیو، یہاں اپنے وہاں قانون کی صورتحال کیسی تھی، گھر سے باہر نکلو، یہاں سے آحمدآباد جانا ہو تو، فون کرکے پوچھے کہ احمدآباد میں امن ہے نہ ، ہمیں وہاں خریداری کرنے آنا ہے، بیٹی کی شادی ہے۔ ایسے دن تھے، تھے کہ نہیں بھائی؟ ایسا تھا کہ نہیں؟ آئے دن ہنگامہ ہوتا تھا یا نہیں، ارے یہاں تو حالت یہ تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد جب وہ بولنا شروع کرتا تھا تو اس کے کاکا- ماما کے نام نہیں آتے تھے لیکن پولیس والے کے نام آتے تھے کیونکہ وہ گھر کے باہر ہی کھڑے رہتے تھے کرفیو لفظ اس نے بچپن سے سنا تھا۔ آج 20-22 سال کے نوجوانوں نے کرفیو کا لفظ نہیں سنا ہے، ہم نے گجرات میں امن و امان کا یہ کام کرکے دکھایا ہے۔ ترقی کی مخالفت کا ماحول، لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں آپ نے جو اعتماد ہم پر کیا ہے، اس کی وجہ سے آج ملک نے ہندوستان کی مرکزی ریاست کے اندر اپنا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ بھائیو، یہ ہے گجرات کا جے جے کار، اور اس کے لیے میں گجرات کے کروڑوں گجراتیوں کے سامنے ان کی خوشی کے لیے سر جھک کر سلام کرتا ہوں۔
بھائیو،
یہ آپ کی لیاقت و صلاحیت سے ہی ممکن ہوا ہے کہ حکومت اور عوام نے ملک کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور یہ سب آپ کے مکمل اعتماد کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔ کبھی آپ نے میری ذات نہیں دیکھی، کبھی آپ نے میری سیاسی زندگی کو نہیں دیکھا، آپ نے آنکھ بند کرکے مجھے آشیرواد دیا، حددرجہ محبت دی ہے، اور آپ کا پیمانہ بس ایک ہی تھا کہ آپ نے میرے کام کو دیکھا ہے۔ میرے کا م پر آپ مہرلگاتے آئے ہیں، مجھے ہی نہیں میرے ساتھیو کو بھی آپ کا آشیرواد ملتا آیا ہے اور جیسے جیسے آپ کی محبتیں بڑھتی جاتی ہیں ویسے ہی میرے کام کرنے کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور میرے کام کرنے کی طاقت بھی بڑھتی جاتی ہے۔
ساتھیو،
کوئی بھی تبدیلی ایسے نہیں آتی، اس کے لئے دوررس سوچ ہونی چاہئے، سوچ چاہئے۔ آپ مہسانہ کے لوگ گواہ ہیں، پنچ شکتی کی بنیاد پر ہم نے پورے گجرات کی ترقی کے لیے پانچ ستون کھڑے کیے تھے۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو دوسری ریاستوں سے بات کرتا تھا، میں ان سے کہتا تھا کہ ہمارا بڑا بجٹ پانی کے لیے خرچ کرنا پڑتا ہے، ہم پانی کے بغیر بہت پریشانی میں جی رہے ہیں، ہم نے دس سال میں 7 سال قحط سالی میں نکال دیے۔ ہمارے بجٹ کا اتنا بڑا حصہ، ہندوستان کی دوسری ریاستوں کو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنا بڑا خرچ کرنا پڑے گا۔ اتنی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اور اسی لیے جب ہم نے پنچ امرت یوجنا شروع کی تھی تو اس میں سب سے زیادہ ہم نے گجرات پر فوکس کیا۔ جو پانی نہیں ہوگا ، تو گجرات کے پاس بجلی بھی نہیں ہوگی۔ اور اس کی وجہ سے پوری ریاست تباہ ہو جائے گی۔
دوسرا یہ کہ مجھے آنے والی نسل کی فکر تھی اور اس کے لئے تعلیم، بزرگوں کے لئے صحت، تندرستی کے لئے پوری طاقت لگائی اور تیسری بات، گجرات بھلے ہی تاجروں کے لئے مال لے یا دے، لیکن کھیتی کے لئے جو پیچھے تھا، ہندوستان میں سب سے پیچھے نمبر پر تھا کھیتی اور اگر وہ کھیتی میں آگے بڑھے تو میرا گاوں خوشحال ہو اور میرےگاوں کی ترقی ہو۔ تو میرا گجرات کبھی پیچھے نہیں ہوگا۔ اور اس کے لئے ہم نے کھیتی کی طرف توجہ دی۔ اور یہی وجہ سے کہ گجرات کو تیزی سے ترقی کے لئے ہمکنار کرنے کے لئے بہترین راستوں پر چلنا چاہئے۔ بہترین طرح کی ریل چاہئے ، بہترین طریقہ کی ایئرپورٹ کنکٹویٹی چاہئے اور تبھی ترقی کے پھل چکھنے کے لئے ہمارے پاس مواقع ہوں گے۔ ترقی رکے نہیں ۔ بلکہ آگے کی طرف رواں دواں ہوگی۔ اور اس کے لئے یہ سب ضروری ہے یعنی نئے نئے صنعتیں آئیں گی ، سیاحت کے مواقع بڑھیں گے، ترقی ہوگی اور آج گجرات میں وہ سب نظرآتا ہے۔
آپ اسٹیچو آف یونٹی کا جلوہ دیکھیں،امریکہ میں اسٹیچو آف لیبرٹی پر بھی لوگ جاتے ہیں ، لیکن اس سے زیادہ ہمارے سردار صاحب کے قدموں میں سلام پیش کرنے کے لئے لوگوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ یہ موڈھیرا دیکھتے ہی دیکھتے سیاحت کا مرکز بن جائے گا دوستو، آپ بس تیاری کریں کہ یہاں آنے والا کو ئی بھی سیاح مایوس ہو کر نہ جائے۔ افسردہ ہوکر نہ جائے، اب یہ گاوں طے کرے گا کہ تو سیاح یہاں زیادہ آنا شروع جائیں گے۔
ساتھیو،
ایسے گاوں گاوں بجلی پہنچانے کی اور 24 گھنٹے بجلی دینے کی بات میں نے سب سے پہلے اونجھا میں کی تھی۔ اونجھا میں جیوتی گرام یوجنا بنائی تھی۔ ہمارے نارائن کاکا یہاں بیٹھے ہیں۔ سبھی گجراتی اس کے گواہ ہیں کہ ہم نے طے کیا کہ مجھے 24 گھنٹے ہر گھر کو بجلی دینے ہے تو ایسی مہم طے کی اور ہزار دن میں ہم نے یہ کام کرکے دکھایا ہے۔ اور آپ کے پاس میں نے سیکھا تھا ، اور دہلی گیا تو میں نے دیکھا کہ 18000 گاوں ایسے تھے کہ جہاں بجلی پہنچی ہی نہیں تھی۔ وہاں بھی میں نے کہا کہ مجھے 1000 دن میں بجلی چاہئے، اور صاحب آپ کو خوشی ہوگی کہ آپ کے گجرات کے بیٹے نے 18000 گاوں کو بجلی والا کردیا۔
مجھے یاد ہے کہ 2007 میں پانی کے ایک پروجیکٹ کے افتتاح کے لئے یہاں ڈیڈی یاسن آیا تھا تب میں نے کہا تھا کہ جو لوگ گجرات میں پانی کی فراہمی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور انہیں اس کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے اور وہ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تو انہیں 15 سال بعد پتہ چلنے لگا کہ ٹی وی پر جب خبریں دیکھنے لگے تب انہیں پتہ چلا کہ یہ پانی کے لئے جو 15 سال تک ہم نے جو جدوجہد کی ہے وہ ہمارے گجرات کوسرسبزوشاداب کررہا ہے۔ اور میری ماؤں اور بہنوں کے چہروں پر اب مسکراہٹ نظرآرہی ہے۔ یہ پانی کی طاقت ہے۔ آپ دیکھئے۔ سجلام اور سفلام یوجنا۔ اور اسی اسکیم کے تحت سجلام سفلام باندھ کی تعمیر کی۔ میں گجرات کے کسانوں کا جتنا شکریہ ادا کروں اتنا کم ہے ۔ کہ سجلام ۔سفلام کینال کے لئے کوسی کے کورٹ کچہری کے قانون کے بندھن کے بغیر لوگوں نے مجھے جو زمین چاہئے تھی وہ دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی سجلام۔سفلام کینال بن کر تیار ہوگئی اور جو پانی دریا میں ڈالاجاتا تھا آج وہ پانی شمالی گجرات کے کھیتوں میں ہریالی لارہی ہے۔ اور میرا شمالی گجرات تین تین طرح کی فصلیں اگانے لگا ہے۔
آج پانی سے جڑی اسکیم ، اس کے افتتاح اور سنگ بنیاد کا موقع مجھے ملا ہے ۔ وسنگر، میرا گاوں وڈنگر۔ ہمارا کھیرالوضلع اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اسکی وجہ سے لوگوں کو پانی کی سہولت میسر آئے گی ۔ اور پانی گھر میں آئے تو اس کا سب سے بڑا اثر کنبے کی صحت اور تندرستی پر پڑے گا ۔ ماوں اور بہنوں کی توانائیوں کا بہتر استعمال ہوسکے گا ۔ مویشی پروری کی ترقی ہوگی اور یہ مویشیوں کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ کاشت کاری کو تو ہر طرح سے فائدہ پہنچے گا اور یہی وجہ ہے کہ مویشی پروری ہمارے مہسانہ ضلع کی شناخت ہے۔ اور مجھے ابھی اشوک بھائی کہہ رہے تھے کہ ہم نے 1960 کے بعد ڈیری میں ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ میں شمالی گجرات کے مویشی پروروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے مویشی پروری اور ڈیری جیسی صنعت ایسے لوگوں کے ہاتھوں سونپی ہے جس سے انہیں فائدہ تو پہنچاہی ہے ، منافع بھی حاصل ہوا ہے اور چوری بھی بند ہوگئی ہے۔ اور اپنے منافع کے پیسوں میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کیا ہے۔
بھائیو،
آپ نے تو وہ دن دیکھے ہیں جب پانی نہیں تھا، چارہ نہیں تھا، قحط سالی تھی ، ہمیں ہری گھاس ، ہندوستان کے کونے کونے سے لانی پڑتی تھی۔ اسے ٹرینوں میں بھر بھر کے لایا جاتا تھا۔ پانی کے لئے مویشی پریشان تھے اور اخبارات میں صفحہ بھر بھر کر اس تعلق سے خبریں شائع ہوتی تھیں۔ آج ہم سبھی پریشانیوں سے آزاد ہوگئے ہیں اس لئے 20 سے 22 سال کے نوجوانوں کو پتہ ہی نہیں کہ کیسی مصیبتوں سے ہم نے گجرات کو باہر نکالا ہے اور اب زبردست اور بڑی چھلانگ لگا کر آگے بڑھنا ہے ۔ اتنے سے ہی مطمئن نہیں ہوجاناہے۔ میری طبیعت تو یہ ہے کہ اس سے کئی گنا زیادہ ہمیں اور آگے سفر طے کرنا ہے۔
بجلی پہنچی ، پانی پہنچا، تو صنعتی ترقی ہوئی ، فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہوا۔ دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اور اب تو فوڈ پارک سے بھی کام بڑھ رہا ہے۔ ایف پی او بن رہے ہیں اس کا بھی کام بڑھ رہا ہے۔ اپنا مہسانہ ادویات ، پلاسٹک، سیمنٹ، انجینئرنگ، ان سبھی صنعتوں کے لئے ایک بہت بڑا طاقت کا مرکز بن رہا ہے کیونکہ اس کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنا مانڈل ، بیچراجی ، اسپیشل انویسٹمنٹ ریجن ، تو اس کے بعد تو آٹوموبائل انڈسٹری، جاپان والی گاڑیاں یہاں بنائیں اور یہاں بنائی ہوئی گاڑی جاپان میں منگوائیں، بولئے صاحب ، اس سے بڑا کیا ہوگا۔ جاپان کے لوگ یہاں آتے ہیں ، یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں، یہاں گاڑی بناتے ہیں، اپنی عقل ، پسینہ، گجرات کے نوجوانوں کا اور جاپان کو بھی تو گاڑی چاہئے نہ۔ وہ گاڑی جاپان منگواتے ہیں چلانے کے لئے، آج یہاں تین پلانٹ اور لاکھوں گاڑیاں بن رہی ہیں۔ یہاں تو سائکل بنانی مشکل تھی دوستو، اب تو یہاں گاڑیاں بن رہی ہیں۔ میرے الفاظ لکھ لینا دوستو، جس گجرات میں سائکل نہیں بنتی تھی ، وہاں اب موٹرگاڑیاں بن رہی ہیں۔ میٹرو کے کوچ بننے لگے ہیں۔ اور اب وہ دن دور نہیں آپ جو آسمان پر ہوائی جہاز دیکھ رہے ہیں وہ بھی گجرات کی اسی سرزمین پر بنیں گے۔
یہاں سوزوکی کے چھوٹے چھوٹے سپلائر ہیں۔ 100 سے زیادہ سپلائر ہیں۔ چھوٹے چھوٹھے اسپیئر پارٹ بناتے ہیں۔ آپ سوچیں ، دنیا بدل رہی ہے۔ الیکٹرک وھیکل پر جائے بغیر اب کوئی چھٹکارا نہیں ہے۔ ہندوستان کا سب سے بڑا کام ہماری ماں ، بیچراجی کے قدموں میں ہورہا ہے۔ ہمارا لیتھم آرین بنانے کا پلانٹ اپنے ہانسلپور میں اور مجھے ہانسلپور کے کسان کا پھر سے شکریہ ادا کرنا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا بلکہ میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ تباہ کن خیالات رکھنے والے اس لکھ لیں، بولیں، اور تحریک چلائیں، جب ہم نے سوزوکی کی کمپنی یہاں لگانے کا فیصلہ کیا تو ہانسلپور کے پورے پٹے میں تو کسانوں نے تحریک شروع کردی۔ اور اپنے یہاں زمین ایسی ہے کہ یہاں باجرا کی فصل کا ہونا بھی مشکل ہے۔ ہر طرف قحط سالی تھی تو ان سبھی نے تحریک چھیڑدی اور یہ سب کے سب گاندھی نگر پہنچ گئے ۔ اس وقت میں یہاں کا وزیراعلیٰ تھا ۔ یہاں آنے کے بعد سارے کسانوں نے زندہ باد ، مردہ باد کے نعرے لگائے۔ اور مودی کے پتلے جلانے کا کام بہت دنوں تک چلتا رہا۔
ہم نے کہاں نہیں بھائی، سب کو اندر بلاؤ، میں نے سبھی کو اندر بلایا اور سب کو ملا، میں نے کہا آپ کی کیا شکایات ہیں کہو بھائی، بس کہا ہم یہ نہیں چاہئے، ہمیں زمین نہیں دینی، میں نے کہا ، آپ کی مرضی، ہم اسے دوسری جگہ لے جائیں گے، تو اس میں پانچ سے سات لوگ سمجھدار کھڑے ہوئے، وہ بولے صاحب ایسا مت کرنا، ہمارے یہاں ہی لاؤ، اور وہ جو کسانوں نے سمجھداری دکھائی، تحریک بند کی اور آپ سوچو آج صنعتی علاقوں میں ہر پٹے کا نام روشن ہورہا ہے ، پورے مہسانہ تک ترقی ہونے والی ہے۔
بھائیو،
آپ سوچو یہ ویسٹرن فریٹ کوری ڈور، دہلی-ممبئی فریٹ کوری ڈور اس پر تیزی سے کام چل رہا ہے ، ایک طرح سے مینوفیکچرنگ ہب اس کی اپنی پہچان بن رہی ہے۔ اور اتنا ہی نہیں لاجسٹک اسٹوریج اس سیکٹرمیں بھی کئی امکانات پیدا ہورہے ہیں ، نئے روزگار کے موقع پیداہو رہے ہیں۔
ساتھیو،
پچھلی دو دہائیوں میں ہم نے کنکٹی ویٹی پر زور دیا اور اب ڈبل انجن کی سرکار نریندر اور بھوپندر ،دونوں ایک ہوگئے نہ۔ اس لئے صاحب رفتار میں زبردست تیزی میں اضافہ ہوگیا۔ آپ دیکھیں انگریزوں کے زمانے میں آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا دوستو، انگریزوں کے زمانے میں آج سے تقریباً 90 سے 95 سال پہلے 1930 میں انگریزوں نے ایک قانون بنایا تھا ، اس کی پوری فائل ابھی بھی موجودہے۔ اس کا پورا نقشہ ہے۔ اس میں ، مہسانہ، امباجی، تارنگا،ابوروڈ ریلوے لائن کی بات لکھی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے بعد جو حکومتیں آئیں انہیں گجرات تو برا لگتا تھا ، تو یہ سب زیرالتوا رہ گیا ۔ہم نے سب نکالا۔ سارے پلان بنائے۔ اور ابھی میں ماں امبا کے قدموں سے یہاں پہنچا ہوں اور ریلوے لائن کا سنگ بنیاد رکھ کر گیا۔ آپ تصور کریں کہ اس ریلوے لائن کے شروع کے بعد کیا نظارہ ہوگا بھائی، اقتصادی طور سے کتنا زیادہ خوشحالی لانے والا یہ منصوبہ ہے۔
ساتھیو ،
بہوچراجی، موڈھیرا، چانسما یہ روڈ فار لین ہیں۔ پہلے سنگل لین کی دقت تھی ۔ ہم جب بہوچراجی آتے تھے تو کیسی حالت خراب ہوجاتی تھی۔ ایک بس جاتی تھی۔ تو دوسری آتی تھی، اور اس وقت یہ بڑی مصیبت ہوتی تھی کہ بس کیسے نکلے وہاں سے۔ یاد ہے نہ سب کچھ ۔ کہ بھول گئے سب کچھ۔ آج چار لین روڈ کی باتیں ہم کررہے ہیں ، ساتھیو دیکھیں ترقی کسے کہتے ہیں۔ ترقی کرنی ہوتو تعلیم ، ہنرمندی ، آروگیہ ، اس کے بغیر سب ادھورا ہے۔ اور اس لئے میں نے مہسانہ میں اس پر بطور خاص ، گجرات پر ہم نے اس میں بھر پور توجہ دی۔ سرکاری افسران اور کارکنان کی ٹریننگ کے لئے سردار صاحب کی یاد میں ایک ادارہ بن رہا ہے جو یہاں کے نوجوانوں کو ترقی کرنے کا بھرپور موقع فراہم کرے گا۔
گجرات سرکار کو میں مبارکباد دیتا ہوں۔ اور ان کی ستائش کرتاہوں کہ یہ انہوں نے اہم ترین فیصلہ کیا اور اس اہم ترین کام کرنے کا نہ صرف خیال کیا بلکہ اس کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کی بھی کوشش کی۔ اب تو وڈنگر میں میڈیکل کالج بھی ہیں۔ پہلے 11 ویں کے بعد ہمارے طلبا پڑھنے کے لئے کہاں جائیں یہ سوچا کرتے تھے ، آج اس گاوں میں میڈیکل کالج کا قیام ہوگیا ہے ۔ گجرات کے تمام اضلاع میں جدید ترین سہولیات سے آراستہ اسپتال کام کررہے ہیں ۔ ڈبل انجن کی یہ حکومت آنے والے ایام میں جتنا ممکن ہوگا اتنی ترقی لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرے گی۔
ساتھیو،
مجھے کافی اطمیان ہے کہ پردھان منتری جن اوشدھی کیندر جس کی وجہ سے سستی دوائیاں ، یعنی جن لوگوں کے گھروں میں ہمیشہ دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی جن گھروں میں بزرگ ہیں، تو وہاں کچھ نہ کچھ دوائیوں کی ضرورت تو پڑتی ہوگی۔ ان کا بل ایک ہزار روپئے کا ہوتا تھا، ہم نے ہی جن اوشدھی کے یہ کیندر کھولے ہیں ۔ میری آپ سبھی سے گزارش ہے کہ اپنی ضروریات کی ادویات وہیں سے لیں، ذرا بھی ان اتھانٹک دوائیاں نہیں ہوتی وہاں پر۔ جینرک دوائیاں ہوتی ہیں۔ جو بل ایک ہزار کا آتا تھا پہلے ، آج وہ محض 100، 200 روپئے میں کام چل جاتا ہے۔ آپ کے 800 روپئے بچے ، اس کے لئے آپ کا یہ بیٹا کام کررہا ہے، آپ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔
بہت بڑی تعداد میں روزگار دینے والے سیاحت کے شعبے میں میں نے کہا جیسا کہ آپ ابھی دیکھیں وڈنگر میں جو کھدائی ہوئی ، ہزاروں سال پرانی چیزیں ہاتھ لگی ہیں۔ اور جیسے کاشی اویناشی ہیں جہاں کبھی کوئی بھی خاتمہ نہیں ہوا ، یہ دوسرا اب ہندوستان کا شہر وڈنگر ہے۔ جہاں پچھلے تین سو سال میں کبھی انت نہیں ہوا۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی انسانی بستی رہی ہے، یہ سب کھدائی میں نکلا ہے۔ دنیا دیکھنے آئے گی، ساتھیو، سوریہ مندر کے ساتھ ساتھ اپنا بہوچراجی کا تیرتھ ، اپنے اُمیا ماتا، اپنا ستریلنگ تالاب، اپنی رانی کی واو، اپنا تارنگ ہل، اپنا رودر مہالے، وڈنگر کے تورن، یہ پورے پٹے میں ایک بار بس لے کے نکلے مسافر تو دو دن تک دیکھتے ہی تھک جائے اتنا سب دیکھنے کو ہے۔ اسے ہمیں آگے بڑھانا ہے۔
ساتھیو،
دہائیوں میں اپنے مندر، شکتی پیٹھ، روحانیت کی شاندار تاریخ اور اس کی شان و شوکت بحال کرنے کے لئے تندہی سے کام کیا، مخلصانہ کوششیں کیں، آپ نے سومناتھ، چوٹیلا، پاوا گڑھ، چوٹیلا کی حالت بہتر دیکھی ہے، پاوا گڑھ کا جھنڈا 500 سال تک نہیں لہرایا بھائیو، ابھی میں ایک دن یہاں آیا تھا،500 سال بعد جھنڈا لہرایا گیا۔ امباجی اب کیسی چمک رہی ہے، مجھے بتایا گیا کہ اب امباجی میں شام کو آرتی ہوتی ہے، شرد پورنیما میں ہزاروں لوگ ایک ساتھ آرتی کرنےوالے ہیں۔
بھائیو۔
گرنار ہو، پالیتانہ ہو، بہوچراجی ہو، ایسےسبھی تیرتھ کے مقامات پر ایسا عظیم الشان کام ہو رہا ہے کہ جس کی وجہ سے ہندوستان میں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی طاقت پیدا ہو رہی ہے، اور اگر سیاح آتے ہیں تو یہ سبھی کا بھلا ہوتا ہے، دوستو، اور ہمارا تو منتر ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس۔ یہی ڈبل انجن والی حکومت ہے۔ سورج کی روشنی کی طرح جیسے سورج کوئی تفریق نہیں کرتا، سورج جہاں تک پہنچ سکے اپنی روشنی پھیلاتا ہے، ایسی ترقی کی روشنی بھی ہر گھر تک پہنچتی ہے، غریبوں کی جھونپڑی تک پہنچتی ہے، اس کے لیے ہمیں آپ کا آشیرواد چاہئے۔ ہماری ٹیم کو آپ کی محبتیں چاہئیں۔ جھولی بھر کے آشیرواد دینا بھائیو اور گجرات کی ترقی کو ہم چار چاند لگاتے رہیں۔ پھر آپ سب کو ایک بار پھر سے بہت بہت مبارکباد،آپ سب کابہت بہت شکریہ ،مبارکباد۔
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
ذرا زورسے بولو اپنا مہسانہ پیچھے نہیں پڑنا چاہئے
ذرا ہاتھ اوپر کرکے بولو بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے
شکریہ
************
ش ح۔س ک ۔ م ص
(U: 11228)
(Release ID: 1866441)
Visitor Counter : 368
Read this release in:
Odia
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Bengali
,
Assamese
,
Manipuri
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam