وزیراعظم کا دفتر

وندے بھارت ایکسپریس اور احمد آباد میٹرو ریل پروجیکٹ مرحلہ-1 کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 30 SEP 2022 5:24PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی  – جے

بھارت ماتا کی  – جے

بھارت ماتا کی  – جے

آج 21ویں صدی کے بھارت کے لیے، اربن کنیکٹیوٹی کے لیے اور  خود کفیل بنتے بھارت کے لیے ایک بہت بڑا دن ہے۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے گاندھی نگر –ممبئی، وندے بھارت ایکسپریس کے تیز رفتار سفر کا تجربہ کیا ہے۔ یہ سفر تھا تو کچھ منٹوں کا ہی، لیکن یہ میرے لیے بہت فخر سے بھرے لمحات تھے۔ یہ ملک کی تیسری اور گجرات کی پہلی وندے بھارت ٹرین ہے۔ کالوپور ریلوے اسٹیشن سے کالوپور میٹرو  اسٹیشن اور پھر وہاں سے احمد آباد میٹرو کی سواری کرتے ہوئے میں تھل تیج پہنچا۔ یعنی کوئی باہر سے وندے بھارت کے ذریعے آ رہا ہو تو اس کے بعد سیدھے سیدھے میٹرو پر چڑھ کر شہر میں اپنے گھر جا سکتا ہے یا کام کے لیے شہر کے دوسرے حصے میں جا سکتا ہے اور رفتار اتنی تیز  کہ جو شیڈول پروگرام بنایا گیا تھا، اس سے 20 منٹ پہلے میں تھل تیج پہنچ گیا۔ میں آج ٹرین میں سفر کر رہا تھا، ڈپارٹمنٹ کے لوگ کئی خوبیاں بتاتے رہتے ہیں، ایڈورٹائزمنٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔ کتنی اسپیڈ ہے، کیا ہے، کیا  انتظام ہے سب۔ لیکن اور پہلو جو شاید ڈپارٹمنٹ کی طرف کا دھیان نہیں گیا ہے۔ مجھے وہ اچھا لگا، میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ جو وندے بھارت ٹرین ہے، میں کوئی  ریاضی داں نہیں ہوں، کوئی سائنس داں نہیں ہوں۔ لیکن موٹا موٹا میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت اندر جتنی آواز آتی ہے۔ وندے بھارت ٹرین میں وہ آواز شاید 100ویں حصے کی ہو جاتی ہے۔ یعنی سو گنا زیادہ آواز  ہوائی جہاز میں ہوتی ہے۔  ہوائی جہاز میں اگر بات چیت کرنی ہے، تو کافی دقت رہتی ہے۔ میں وندے بھارت ٹرین میں دیکھ رہا تھا۔ آرام سے میں لوگوں سے بات چیت کر رہا تھا، کیوں کہ کوئی آواز ہی نہیں تھی باقی۔ اس کا مطلب جو لوگ ہوائی جہاز کے عادی ہیں، ان کو اگر یہ آواز  کے بارے میں معلوم ہو جائے گا، میں پکا مانتا ہوں وہ ہوائی جہاز نہیں وندے بھارت ٹرین پسند کریں گے، اور میرے احمد آباد کے باشندے مجھے میرے احمد آباد کو سو سو بار سلام کریں گے۔ نوراتری کا تہوار ہو، رات پوری ڈانڈیا چل رہا ہو، اپنا شہر، اپنا گجرات سویا نہ ہو، ایسے نوراتری کے دنوں میں، ایسی گرمی کے بیچ، اتنا بڑا جم غفیر میں نے پہلی بار دیکھا ہے بھائی۔ میں یہیں بڑا ہوا، ایسا بڑا پروگرام احمد آباد نے کیا ہو، یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ اور اس لیے احمد آباد کے باشندوں کو میرا سو سو سلام۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ احمد آباد کے باشندوں کو میٹرو کیا ہے، اس کی سمجھ ہے۔ میں نے ایک بار میرے اربن ڈیولپمنٹ کے وزیروں سے بات کی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کو میٹرو، جو کہ پورے ملک میں کرنی چاہیے، ہماری ذمہ داری ہے، لیکن آپ کو احمد آباد کے باشندے زیادہ ریٹرن دیں گے۔ انہوں نے مجھ سے  کہا، کیسے۔ میں نے کہا، ہمارے احمد آبادی حساب لگاتے ہیں کہ آٹو رکشہ میں جاؤں گا تو کتنا ہوگا، کتنا وقت لگے گا، کتنی گرمی لگے گی، اور میٹرو میں جاؤں گا تو اتنا ہوگا، فوراً ہی وہ میٹرو میں آ جائے گا۔ سب سے زیادہ مالی فائدہ کرے گا، وہ احمد آباد کا پیسنجر کرے گا۔ اس لیے تو ہمارے احمد آباد میں ایک زمانے میں، میں احمد آباد کا آٹو رکشہ والا ایسا کرکے گیت گاتے تھے۔ اب میٹرو والا ایسے کہہ کر گیت گائے گا۔ میں واقعی میں آج احمد آباد کو جتنی مبارکباد دوں، جتنا سلام کروں، اتنا کم ہے دوستوں۔ آج احمد آباد نے میرا دل جیت لیا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

21ویں صدی کے بھارت کو ملک کے شہروں سے نئی رفتار ملنے والی ہے۔ ہمیں بدلتے ہوئے وقت اور بدلتی ہوئی ضرورتوں کے ساتھ اپنے شہروں کو بھی لگاتار جدید بنانا ضروری ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا سسٹم جدید ہو، سیم لیس کنیکٹویٹی ہو، نقل و حمل کا ایک ذریعہ دوسرے کو سپورٹ کرے، یہ کیا جانا بہت ضروری ہے، اور جو گجرات می مودی پر باریک نظر رکھنے والے لوگ ہیں، وہ ویسے ہی ایک اچھی جماعت ہے اور ایک تیز جماعت بھی ہے۔ انہیں دھیان ہوگا، جب میں یہاں کا وزیر اعلیٰ تھا، مجھے سال تو یاد نہیں ہے، بہت برسوں پہلے ہم نے احمد آباد میں ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹیشن کو لے کر ایک گلوبل سمٹ کیا تھا۔ یعنی اس وقت بھی میرے دماغ میں چلتا تھا۔ لیکن کچھ موضوع حکومت ہند کے ہونے کے سبب میں تب نہیں کر پایا۔ اب آپ نے  مجھے وہاں بھیجا تو میں نے یہ کر دیا۔ لیکن یہ سوچ آج پوری ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں اور اسی سوچ کے ساتھ گزشتہ آٹھ برسوں میں شہروں کے انفراسٹرکچر پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ آٹھ برسوں میں ایک کے بعد ایک ملک کے دو درجن سے زیادہ شہروں میں میٹرو یا تو شروع ہو چکی ہے یا پھر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ ملک کے درجنوں چھوٹے شہروں کو ایئر کنیکٹویٹی سے جوڑا گیا ہے۔ اڑان یوجنا چھوٹے شہروں میں ہوائی سہولت دینے میں بہت بڑا رول نبھا رہا ہے۔ ہمارے جو ریلوے اسٹیشنز ہوا کرتے تھے، ان کی کیا حالت تھی، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ آج گاندھی نگر ریلوے اسٹیشن دنیا کے کسی بھی ایئرپورٹ سے کم نہیں ہے اور دو دن پہلے حکومت ہند نے احمد آباد ریلوے اسیٹشن کو بھی جدید بنانے کی منظوری دے دی ہے۔

ساتھیوں،

ملک کے شہروں کی ترقی پر اتنا زیادہ فوکس، اتنی بڑی سرمایہ کاری اس لیے کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ شہر آنے والے پچیس سال میں ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کو یقینی بنانے والے ہیں۔ یہی احمد آباد، سورت، بڑودہ، بھوپال، اندور، جے پور یہی سب ہندوستان کے 25 سال کی قسمت طے کرنے والے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری صرف کنیکٹویٹی تک محدود نہیں ہے، بلکہ درجنوں شہروں میں اسمارٹ سہولیات بن رہی ہیں، بنیادی سہولیات کو بہتر کیا جا رہا ہے۔ مرکزی شہر کے آس پاس کے علاقوں، مضافات کو  تیار کیا جا رہا ہے۔  ٹوئن سٹی کی تعمیر کیسے ہوتی ہے، گاندھی نگر، احمد آباد اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آنے والے وقت میں گجرات میں کئی ٹوئن سٹی کی تعمیر کی بنیاد تیار ہو رہی ہے۔ اب تک ہم صرف نیویارک- نیوجرسی، نیویارک-نیوجرسی ٹوئن سٹی سنتے رہتے تھے۔ میرا ہندوستان پیچھے نہیں رہ سکتا، اور آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں۔ احمد آباد گاندھی نگر کی تعمیر ٹوئن سٹی کا وہ ماڈل، اسی طرح سے ہمارے نزیدک میں آنند-نڈیاد، اُدھر بھروچ-انکلیشور، ولساڈ اور واپی، سورت اور نوساری، وڈودرا-ہالول کالول، موربی-وانکانیر اور مہسانہ-کڑی ایسے بہت سارے ٹوئن سٹی، گجرات کی پہچان کو اور مضبوط کرنے والے ہیں۔ پرانے شہروں میں اصلاح اور ان کی توسیع پر فوکس کے ساتھ ساتھ ایسے نئے شہروں کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے، جو گلوبل بزنس ڈیمانڈ کے مطابق تیار ہو رہے ہیں۔ گفٹ سٹی بھی اس قسم کے پلگ اینڈ پلے سہولیات والے شہروں کی بہت عمدہ مثال ہیں۔

ساتھیوں،

مجھے یاد ہے، جب میں نے گفٹ سٹی کی بات شاید 2005-06 میں کہی تھی۔ اور اس وقت جو میرا وژن تھا، اس کا ایک ویڈیو پریزنٹیشن کیا تھا۔ تو بہت لوگوں کو لگتا تھا کہ یار یہ کیا باتیں کرتے ہیں، کچھ ہمارے ملک میں ہو سکتا ہے۔ ایسا میں نے اس وقت لکھا ہوا پڑھا بھی ہے اور سنا بھی ہے۔ آج گفٹ سٹی آپ کی آنکھوں کے سامنے کھڑا ہو چکا ہے دوستوں، اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو روزگار دینے والا مرکز بن رہا ہے۔

ساتھیوں،

ایک وقت تھا، جب احمد آباد میں ٹرانسپورٹ کا مطلب کیا، آپ نے یہاں ٹرانسپورٹ کا مطلب کیا لال بس، لال دروازہ اور لال بس اور گھوم پھر کر رکشہ والا۔

ساتھیوں،

جب مجھے گجرات نے اپنی خدمت کا موقع دیا تو میری خوش قسمتی رہی کہ ہم یہاں بی آر ٹی کوریڈور پر کام کر پائے۔ یہ بھی ملک میں پہلا تھا۔ مجھے تو بی آر ٹی بس کے پہلے سفر کا گواہ بننے کی خوش قسمتی بھی حاصل ہوئی تھی، اور مجھے یاد ہے لوگ  بیرونی ممالک سے آتے تھے تو اپنی فیملی کو کہتے تھے کہ اس بار جب گجرات جائیں گے تو بی آر ٹی میں سفر کرنا ہے بہت پڑھا ہے، بہت سنا ہے۔

ساتھیوں،

تب بھی کوشش یہی تھی کہ عام شہری، عام لوگ اپنی سہولت کیسے بڑھے۔ ان کے لیے سیم لیس کنیکٹویٹی  کا فائدہ کیسے ملے۔ اور جمہوریت اور انتظامہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ عام شہریوں کی ضرورتوں کے مطابق اور ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزائم کے ساتھ ترقی کے سفر کو ان دو پٹریوں پر چلانا ہوتا ہے۔ آج اسی خواب کو شاندار طریقے سے ہم سچ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ میں اس موقع پر دل کی گہرائیوں سے آپ سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیوں،

آج احمد آباد میٹرو کے تقریباً 32 کلومیٹر سیکشن پر سفر شروع ہوا ہے، اور یہ آپ کو سن کر حیرت ہوگی۔ بھارت میں میٹرو کی شروعات ہوئی، تب سے اب تک یہ پہلی بار ایسا ریکارڈ بنا ہے کہ ایک ہی ساتھ 32 کلومیٹر قریب قریب اس کے سفر کا افتتاح ہوا ہے۔ اس کی اور ایک خاصیت رہی ہے۔ ریلوے لائن کے اوپر سے میٹرو ٹریک کی تعمیر کی مشکل چنوتیوں کے باوجود یہ کام تیزی سے پورا ہوا ہے۔ اس سے میٹرو کے لیے اضافی زمین کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ آج میٹرو کے پہلے فیز کا افتتاح ہوا ہے، وہیں فیز-2 میں گاندھی نگر کو کنیکٹ کیا جا رہا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

احمد آباد اور ممبئی کے درمیان شروع ہوئی وندے بھارت ٹرین ملک کے دو بڑے شہروں کے درمیان سفر کو آرامدہ بھی بنائے گی اور دوری کو بھی کم کرے گی۔ عام ایکسپریس ٹرین احمد آباد سے ممبئی پہنچنے میں تقریباً سات ساڑھے سات، آٹھ ساڑھے آٹھ گھنٹے لگا دیتی ہے۔ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ شتابدی ٹرین بھی کبھی چھ ساڑھے چھ، سات ساڑھے سات گھنٹے تک وقت لے لیتی ہے۔ لیکن وندے بھارت ٹرین اب زیادہ سے زیادہ ساڑھے 5 گھنٹے میں ہی احمد آباد سے ممبئی پہنچا دے گی۔ دھیرے دھیرے اس میں اور بہتری آنے والی ہے، اور آج جب میں وندے بھارت ٹرین کو بنانے والے، چنئی میں بن رہی تھی۔ اس کے بنانے والے سارے انجینئرز، وائرمین، فٹر، الیکٹریشئن، ان سب کو ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، بولے صاحب آپ ہمیں کام دیجئے، ہم اس سے بھی اچھا بنائیں گے، اس سے بھی تیز بنائیں گے اور جلدی سے بنائیں گے۔ میرے ملک کے انجینئرز، ٹیکنیشئنز ان کی یہ خود اعتمادی، ان کا یہ بھروسہ مجھے اس بات پر یقین سے کہنے کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ ملک اس سے بھی تیز رفتار سے بڑھنے والا ہے۔ یہی نہیں، باقی ٹرینوں کے مقابلے اس میں زیادہ مسافر سفر کر پائیں گے۔ میں ایک بار کاشی کے اسٹیشن پر پوچھ رہا تھا۔ میں نے کہا بھئی وندے بھارت ٹرین کا کیا ایکسپرئنس ہے۔ بولے سب سے زیادہ ٹکٹ وندے بھارت کی جا رہی ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے ممکن ہے؟ بولے صاحب غریب لوگ اس میں جانا پسند کرتے ہیں، مزدور لوگ جانا پسند کرتے ہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ بولے صاحب ان کی دو لاجک ہے۔ ایک لگیج کافی اندر جگہ ہے لے جانے کے لیے۔ اور دوسرا، اتنا جلدی پہنچ جاتے ہیں کہ جا کر کام کرتے ہیں تو اتنے گھنٹے میں ٹکٹ کا جو پیسہ ہے، وہ بھی نکل جاتا ہے۔ یہ وندے بھارت کی طاقت ہے۔

ساتھیوں،

آج اس موقع پر میں آپ لوگوں کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ڈبل انجن کی سرکار کا فائدہ کیسے احمد آباد پروجیکٹ کو ملا۔ جب بوٹاد ریل لائن کا اوورہیڈ اسپیس میٹرو پروجیکٹ کے لیے استعمال کرنے کی بات آئی، تو مرکزی حکومت نے فوراً اس کی منظوری دے دی۔ اس سے واسنا-اولڈ ہائی کورٹ روٹ کی میٹرو کا کام بھی فوراً ہی شروع ہونا ممکن ہو سکا۔ احمد آباد میٹرو پر جب میٹرو پر کام کرنا ہم نے شروع کیا تو روٹ ایسا پلان کیا گیا جس سے غریب سے غریب کو بھی فائدہ ہو۔ یہ دھیان رکھا گیا کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، جہاں تنگ سڑکیں پار کرنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہو، وہاں سے میٹرو گزرے۔ احمد آباد ملٹی ماڈل کنیکٹویٹی کا ہب بنے، اس کا پورا دھیان رکھا گیا۔ کالوپور میں آج ملٹی ماڈل ہب بنایا جا رہا ہے۔ یہاں بی آر ٹی اسٹیشن کے سامنے ہی اور گراؤنڈ فلور میں سٹی بسیں کھڑی ہوں گی،ٹیکسی اور پرائیویٹ کار کے لیے اپر فلور میں سہولت رہے گی۔ سرس پور اینٹری کی طرف نیا میٹرو اسٹیشن ہے اور ہائی اسپیڈ ریڈ اسٹیشنوں کو بھی ڈراپ اور پک اپ، پارکنگ جیسی سہولیات سے جوڑا جا رہا ہے۔ کالوپور روڈ اوور برج کو سرس پور روڈ اوور برج سے جوڑنے کے لیے اسیٹشن کے سامنے 13 لین کی روڈ بنائی جائے گی۔ کالوپور کے علاوہ سابرمتی بلیٹ ٹرین اسٹیشن کو بھی ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ ہب کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔

ساتھیوں،

شہروں کے ہمارے غریب، ہمارے متوسط طبقہ کے خاندان، مڈل کلاس کے ساتھیوں کو دھوئیں والی بسوں سے نجات ملے، اس کے لیے الیکٹرک بسوں کی تعمیر اور آپریشن کے لیے حکومت ہند نے فیم یوجنا بنائی ہے۔ فیم یوجنا شروع کی ہے، تاکہ  ماحولیات کی بھی حفاظت ہو، لوگوں کو آواز سے بھی چھٹکارہ ملے، دھوئیں سے بھی چھٹکارہ ملے اور رفتار تیز ملے۔ اس اسکیم کے تحت ابھی تک ملک میں 7 ہزار سے زیادہ الیکٹرک بسوں کو منظوری دی جا چکی ہے۔ ان بسوں پر مرکزی حکومت تقریباً ساڑھے 3 ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ گجرات کے لیے بھی ابھی تک ساڑھے 8 سو الیکٹرک بسیں منظوری کی جا چکی ہیں، جن میں سے متعدد بسیں آج یہاں سڑکوں پر اتر بھی چکی ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

لمبے عرصے تک ہمارے یہاں شہروں کو جام سے آزاد کرنے، ہماری  ٹرینوں کی رفتار بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ لیکن آج کا بھارت اسپیڈ کو، رفتار کو، ضروری مانتا ہے، تیز ترقی کی گارنٹی مانتا ہے۔ رفتار کو لے کر یہ اپیل آج گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان میں بھی دکھائی دیتی ہے، نیشنل لاجسٹک پالیسی میں بھی نظر آتی ہے، اور ہماری ریلوے کی رفتار کو بڑھانے کی مہم میں بھی واضح ہوتی ہے۔ آج ملک کا ریل نیٹ ورک، آج میڈ ان انڈیا، وندے بھارت ٹرین کو چلانے کے لیے تیزی سی تیار  ہو رہا ہے۔ 180 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار پکڑنے والی یہ ٹرینیں  ہندوستانی ریلوے کی تصویر بھی بدلیں گی، سمت بھی بدلیں گی، یہ میرا پورا یقین ہے۔ اگلے سال اگست مہینہ تک 75 وندے بھارت ایکسپریس ٹرینیں چلانے کے ہدف پر ہم تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی وندے بھارت ٹرین کی خوبی یہ ہے کہ یہ محض 52 سیکنڈ میں 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ ابھی جب چیتا آیا  نا، تو زیادہ تر میڈیا میں اس کی چرچہ تھی کہ چیتا دوڑنے کی رفتار کتنے سیکنڈ میں پکڑ لیتا ہے۔ 52 سیکنڈ میں یہ ٹرین رفتار پکڑ لیتی ہے۔

ساتھیوں،

آج ملک کے ریل نیٹ ورک کا بہت بڑا حصہ  بغیر انسان والے پھاٹکوں سے آزاد ہو چکا ہے۔ ایسٹرن اور ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور جب تیار ہو جائے گا تو مال گاڑی کی اسپیڈ بھی بڑھے گی اور پیسنجر ٹرینوں میں ہونے والی دیری بھی کم ہوگی۔ اور ساتھیوں جب جب مال گاڑیوں کی اسپیڈ بڑھے گی تو گجرات کی جو بندرگاہ ہیں نا، پورٹس ہیں نا ہمارے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ تیزی سے کام کرنا شروع کریں گی۔ ہندوستان دنیا بھر میں پہنچنے لگ جائے گا۔ ہمارا مال ایکسپورٹ ہونے لگ جائے گا اور بیرون ملک سے جو سامان آتا ہے وہ بھی بہت تیزی سے ہمیں آگے لے جائے گا۔ کیوں کہ گجرات جغرافیائی طور پر شمالی ہندوستان کے بالکل قریب ہے۔ لینڈ لاک ایریا سے قریب ہے۔ اس لیے گجرات کے سمندری ساحل کو سب سے زیادہ فائدے کا امکان ہے۔ پورے سوراشٹر اور کچھّ کو بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔

ساتھیوں،

اسپیڈ کے ساتھ ساتھ آج انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کو لے کر سوچ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں ہم نے انفراسٹرکچر کو عوامی توقعات سے جوڑا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا، جب انفراسٹرکچر کو لے کر اعلان صرف انتخابی نفع نقصان کو دھیان میں رکھ کر ہوتا تھا۔ ٹیکس پیئر کی کمائی کا استعمال سیاسی مفادات کے لیے ہی کیا جاتا تھا۔ ڈبل انجن کی سرکار نے اس سوچ کو بدلا ہے۔  پائیدار ترقی کی بنیاد مضبوط اور دوراندیش سوچ کے ساتھ بنا ہوا انفراسٹرکچر ہوتا ہے۔ آج اس سوچ کے ساتھ بھارت کام کر رہا ہے، بھارت دنیا میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔

ساتھیوں،

آزادی کے امرت کال میں ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کو ہمیں اور رفتار دینی ہوگی۔ گجرات میں ڈبل انجن کی سرکار اس کے لیے سنجیدگی سے کوشش بھی کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سب کی کوشش سے یہ کام ہم جس وقت چاہتے ہیں، اس وقت تک ہم زمین پر اتار کر رہیں گے، یہ میں بھروسہ دلاتا ہوں۔

ساتھیوں،

آج کا دن اہم ہے۔ لیکن میں آج گجرات کے لوگوں سے ایک اور کام کے لیے درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے ابھی دو چار دن میں جب میٹرو سب کے لیے کھولی جائے گی، تو جلدی جانا، دیکھنا، بہت لوگ جائیں گے۔ لیکن میں چاہتا ہوں ہمارے نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں کے بچے، ہماری انجینئرنگ کے اسٹوڈنس، ریلوے سے اربن منسٹری سے بات کرکے، میٹرو والوں سے بات کرکے جا کر کے مطالعہ کریں کہ اتنی گہری کھدائی کرکے یہ ریلوے اسٹیشن کیسے بنے ہوں گے؟ کتنا خرچ کرنا پڑا ہوگا؟ یہ پیسہ کس کا ہے؟ ملک کے ہم شہریوں کا ہے۔ ایک بار ہم یہ تعلیم دیتے رہیں گے کہ یہ کام کیسے ہوا ہے؟ کتنا بڑا ہوا ہے؟ کتنے وقت میں ہوا ہے؟ کس کس قسم کی ٹیکنالوجی لگی ہے؟ تو ہمارے بچوں کی ترقی کے لیے بھی کام آئے گا اور اس لیے میری اپیل رہے گی محکمہ تعلیم سے کہ میٹرو اسٹیشنوں کی ملاقات صرف میٹرو ٹرین میں سفر کرنے کے لیے نہیں، ان کو دکھایا جائے کہ یہ کیسے بنا ہے؟ کیسے چلتا ہے؟ کیا کام کرتا ہے؟ اتنا نیچے ٹنل کیسے بنا ہوگا؟ اتنا لمبا لمبا ٹنل کیسے بنا ہوگا؟ ان کو ایک اعتماد پیدا ہوگا کہ ٹیکنالوجی سے ملک میں کیا ترقی ہو رہی ہے اور ان کی آنرشپ بنے گی۔ جب آپ میرے ملک کی نئی نسل کو یہ تمہارا ہے، یہ تمہارے مستقبل کے لیے ہے، جب ایک بار میرے نوجوان کو اس بات کا احساس ہوگا وہ کبھی بھی کسی آندولن میں ایسی پراپرٹی پر ہاتھ لگانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس کو اتنا ہی درد ہوگا، جتنا اس کے اپنے گھر  کی پراپرٹی کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کی سائیکل کو اگر تھوڑا نقصان ہوتا ہے تو جو درد ہوتا ہے وہ درد اس کو میٹرو کو نقصان ہونے سے ہونے والا ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہم ہماری نئی نسل کو تعلیم دیں۔ ان کے احساسات کو جگائیں، وندے بھارت کہنے ہی ماں بھارتی کا خاکہ من کے اندر آنا چاہیے۔ میری بھارت ماں کے روشن مستقبل کے لیے یہ وندے بھارت دوڑ رہی ہے، جو وندے بھارت ملک کو دوڑانے والی ہے۔ یہ مزاج، یہ  حساسیت، یہ تعلیم کے نئے نئے ذرائع کیوں کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں  التزام ہے کہ آپ بچوں کو اُن جگہوں پر لے جا کر کے ان دکھائیے، اگر گھر میں مٹکا ہے تو اس کو بتائیے کمہار کے گھر لے جا کر کہ وہ مٹکا کیسے بنتا ہے۔ اسے یہ میٹرو اسٹیشن بھی دکھانا چاہیے۔ میٹرو کے سارے انتظامات سمجھانا چاہیے۔ آپ دیکھئے ان بچوں کے ذہن پر وہ نقش بنے گا، اس کو بھی کبھی لگے گا، میں بھی انجینئر بن جاؤں، میں بھی میرے ملک کے لیے کوئی کام کروں۔ ایسے خواب ان کے اندر بوئے جا سکتے ہیں دوستوں۔ اس لیے میٹرو صرف سفر کے لیے نہیں، میٹرو کامیابی کے لیے بھی کام آنی چاہیے۔ اسی ایک امید کے ساتھ میں پھر ایک بار آج احمد آباد کے باشندوں کو، گجرات کے لوگوں کو اور ملک کے لوگوں کو یہ بہت بڑی سوغات دیتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں،  اطمینان محسوس کرتا ہوں اور آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے ساتھ پورے ہاتھ اوپر کرکے پوری طاقت سے بولئے،

بھارت ماتا کی – جے،

بھارت ماتا کی – جے،

بھارت ماتا کی – جے،

بہت بہت شکریہ!

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 10893



(Release ID: 1863925) Visitor Counter : 240