وزیراعظم کا دفتر

بھوج، گجرات میں کئی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور قوم کے نام وقف کرنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 28 AUG 2022 6:13PM by PIB Delhi

گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور گجرات بی جے پی کے صدر جناب سی آر پاٹل جی، گجرات حکومت کے تمام وزرا، ایم پی اور ایم ایل اے اور یہاں بڑی تعداد میں آئے ہوئے کچھ کے میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں!

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، آپ کیسے ہیں؟ سب کچھ ٹھیک ہے نا؟ کچھ میں خوب بارش ہوئی ہے، اس کی خوشی آپ سب کے چہروں پر نظر آ رہی ہے۔

ساتھیوں،

آج من بہت سے جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ بھوجیا ڈنگر میں اسمرتی ون میموریل اور انجار میں ویر بال اسمارک کا افتتاح کچھ کے، گجرات کے، پورے ملک کے مشترکہ درد کی علامت ہے۔ اس کی تعمیر میں صرف پسینہ ہی نہیں بلکہ کئی خاندانوں کے آنسو بھی اس کی اینٹوں اور پتھروں کو سیراب کر چکے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ انجار میں بچوں کے اہل خانہ نے بال اسمارک بنانے کا خیال پیش کیا تھا۔ تب ہم سب نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اسے کار سیوا سے مکمل کریں گے۔ ہم نے جو عہد کیا تھا وہ آج پورا ہو گیا۔ جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، اپنے بچوں کو کھو دیا، آج میں ان یادگاروں کو بھاری دل کے ساتھ ان کے نام وقف کرتا ہوں۔

آج، کچھ کی ترقی سے متعلق 4000 کروڑ روپے سے زیادہ کے دیگر منصوبوں کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا اور افتتاح کیا گیا۔ ان میں پانی، بجلی، سڑکوں اور ڈیری سے متعلق منصوبے شامل ہیں۔ یہ کچھ، گجرات کی ترقی کے لیے ڈبل انجن والی حکومت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ ماں آشاپورہ کی زیارت کو آسان بنانے کے لیے آج نئی سہولیات کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ جب اس کی ترقی کے لیے یہ سہولتیں تیار ہوں گی تو ملک بھر سے آنے والے عقیدت مندوں کو ایک نیا تجربہ ملے گا۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ کس طرح کچھ، گجرات ہمارے مقبول وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی کی قیادت میں ترقی کر رہا ہے۔

بھائیو اور بہنوں،

آج بھوج کی سرزمین پر آیا تھا اور اسمرتی ون جا رہا تھا، وہ محبت جو کچھ کے لوگوں نے پورے راستے میں نچھاور کی اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ مجھے یہاں آنے میں تھوڑی دیر ہوئی، میں وقت پر بھوج پہنچ گیا تھا لیکن روڈ شو میں جو استقبال ہوا اور بعد میں میں اسمرتی ون میموریل گیا، وہاں سے نکلنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔

ساتھیوں،

جب میں اسمرتی ون کے مختلف حصوں سے گزر رہا تھا تو میرے ذہن میں بہت سی پرانی یادیں آ رہی تھیں۔ دوستو، امریکہ میں 9/11 کے بہت بڑے دہشت گردانہ حملے کے بعد وہاں ایک یادگار ”گراؤنڈ زیرو“ بنائی گئی ہے، میں نے وہ بھی دیکھی ہے۔ میں نے جاپان میں ہیروشیما کے سانحے کے بعد ان کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے بنایا ہوا میوزیم بھی دیکھا ہے۔ اور آج اسمرتی ون کو دیکھنے کے بعد، میں ہم وطنوں سے نہایت عاجزی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، میں پورے ملک کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہمارا اسمرتی ون دنیا کی بہترین یادگاروں کے مقابلے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہے۔

یہاں فطرت، زمین، زندگی، اس کی تعلیم کا ایک مکمل نظام موجود ہے۔ میں کچھ کے لوگوں سے کہوں گا کہ اب یہاں کوئی مہمان آئے تو اسمرتی ون کو دیکھے بغیر نہیں جانا چاہیے۔ اب آپ کے اس کچھ میں محکمہ تعلیم سے بھی کہوں گا کہ جب اسکول کے بچے سیر کے لیے جائیں تو وہ ایک دن اسمرتی ون کے لیے بھی رکھیں۔

ساتھیوں،

مجھے یاد ہے کہ جب زلزلہ آیا تھا، اس دن 26 جنوری کو میں دہلی میں تھا۔ دہلی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ اور چند گھنٹوں میں میں دہلی سے احمد آباد پہنچ گیا تھا۔ اور اگلے دن میں کچھ پہنچ گیا۔ تب میں وزیر اعلیٰ نہیں تھا، میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا چھوٹا سا کارکن تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کس طرح اور کتنے لوگوں کی مدد کر سکوں گا۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ میں دکھ کی اس گھڑی میں آپ سب کے ساتھ ہوں گا اور ہر ممکن طریقے سے آپ کی مدد کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

مجھے پتہ بھی نہیں تھا، اچانک مجھے وزیر اعلیٰ بننا پڑا۔ اور جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو اس خدمت کے کام کا تجربہ میرے لیے بہت مفید رہا۔ مجھے اس وقت کی ایک بات اور یاد ہے۔ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے بیرون ملک سے بھی بہت سے لوگ یہاں پہنچے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ یہاں کتنے بے لوث رضاکار ہیں، ان کی مذہبی، سماجی تنظیمیں امداد اور بچاؤ میں مصروف ہیں۔ وہ مجھے بتاتے تھے کہ وہ دنیا میں بہت سی جگہوں پر جاتے ہیں، لیکن ہم نے شاید اس سے پہلے کبھی ایسی خدمت نہیں دیکھی۔ اجتماعیت کی یہی طاقت ہے جس نے اس مشکل وقت میں کچھ، گجرات کو سنبھالا۔

آج جب میں کچھ کی سرزمین پر آیا ہوں تو میرا آپ سے بہت پرانا رشتہ ہے، میرا بہت گہرا رشتہ ہے۔ ان گنت ناموں کی یادیں میرے سامنے ابھرتی ہیں۔ مجھے بہت سے لوگوں کے نام یاد ہیں۔ ہمارے دھیرو بھائی شاہ، تارا چند چیڈا، اننت بھائی ڈیو، پرتاپ سنگھ جڈیجا، نریندر بھائی جڈیجہ، ہیرا لال پاریکھ، بھائی دھنسکھ ٹھاکر، رسک ٹھاکر، گوپال بھائی، چمپک لال شاہ اپنے انجار کے ان گنت لوگ ہیں جن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہے لیکن ان کی روح جہاں بھی ہے، انھیں کچھ کی ترقی کے لیے اطمینان کا احساس ضرور ہوا ہوگا۔

ساتھیوں،

بطور وزیر اعلیٰ میری پہلی دیوالی اور زلزلے کے بعد کچھ کے لوگوں کے لیے پہلی دیوالی، میں نے وہ دیوالی نہیں منائی تھی۔ میری حکومت میں کسی وزیر نے دیوالی نہیں منائی تھی۔ زلزلے کے بعد پہلی دیوالی پر اپنے پیاروں کو یاد کرنا ایک فطری صورتحال تھی، میں آپ کے ساتھ رہا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ میں ہر سال ملک کے سپاہیوں کے ساتھ دیوالی منانے سرحد پر جاتا تھا۔ لیکن اس سال میں نے اس روایت کو چھوڑ دیا اور میں زلزلہ زدگان کے درمیان رہنے آیا تاکہ ان کے ساتھ دیوالی مناؤں۔ مجھے سارا دن چوباری میں رہنا یاد ہے۔ اور پھر شام کو ٹرمبو گاؤں چلا گیا۔ میرے ساتھ میری کابینہ کے تمام ارکان، گجرات میں جہاں بھی زلزلہ آیا، وہاں گئے اور دیوالی کے دن تمام دکھ درد میں شریک ہوئے۔

زلزلے سے کچ کا ضلع ہسپتال مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ آج کچھ میں ایک جدید زلزلہ مزاحم ہسپتال ہے، 200 سے زیادہ نئے طبی مراکز کام کر رہے ہیں۔ وہ کچھ جو ہمیشہ خشک سالی کی لپیٹ میں رہا، جہاں پانی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تھا، آج نرمدا کا پانی کچھ ضلع کے ہر گھر تک پہنچنے لگا ہے۔

کبھی ہم گنگا جی میں، جمنا جی میں، سریو میں اور نرمدا جی میں بھی عقیدت و احترام سے نہاتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ نرمدا جی اتنی پاکیزہ ہیں کہ اس کے  نام کے ذکر سے بھی برکت ملتی ہے۔ لوگ نرمدا جی کو دیکھنے جاتے تھے، آج وہ ماں نرمدا کچھ کی سرزمین پر آئی ہیں۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نرمدا کا پانی ٹپر، فتح گڑھ اور سوائی ڈیم تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن یہ خواب بھی کچھ کے لوگوں نے مکمل کرکے دکھایا ہے۔ کچھ میں جہاں کوئی آبپاشی کے منصوبے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہاں ہزاروں چیک ڈیم بنا کر اور سجلام-سفلام آبی مہم چلا کر ہزاروں ہیکٹر اراضی کو سیراب کیا گیا ہے۔

بھائیو اور بہنوں،

گزشتہ ماہ جب ماں نرمدا کا پانی راین گاؤں پہنچا تو لوگوں نے جس طرح کا جشن منایا دنیا کے بہت سے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ حیرانی اس لیے تھی کہ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کچھ کے لیے پانی کا کیا مطلب ہے۔ ایک وقت تھا جب بچہ پیدا ہونے کے بعد چار سال کا ہونے تک بارش نہیں دیکھتا تھا۔ یہ میرا کچھ نے جیا ہے، زندگی مشکلات سے گزاری ہے، کچھ میں کبھی نہریں ہوں گی، ڈرپ ایریگیشن کی سہولت ہوگی، 2 دہائیوں پہلے کوئی اس کی بات کرتا تو بہت کم لوگ یقین کرتے۔

مجھے یاد ہے جب میں 2002 میں گجرات گورو یاترا کے دوران مانڈوی آیا تھا، میں نے کچھ کے باشندوں سے آشیرواد مانگی تھی کہ میں کچھ کے بیشتر حصوں کو ماں نرمدا کے پانیوں سے جوڑ سکتا ہوں۔ آپ کی عطا کردہ طاقت اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس سارے نیک موقع میں شریک ہو رہے ہیں۔ کچھ-بھوج نہر کا آج افتتاح کیا گیا ہے۔ سینکڑوں دیہات کے ہزاروں کسان خاندان اس سے مستفید ہوئے ہیں۔

بھائیو اور بہنوں،

کچھ کے لوگوں کی بولی جانے والی زبان اتنی پیاری ہے کہ جو ایک بار یہاں آ گیا ہے وہ کچھ کو نہیں بھول سکتا۔ اور مجھے سینکڑوں بار کچھ جانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یہاں دبیلی، بھیل پوری، ہمارے کچھ کی پتلی چھاچھ، کچھ کا نمک، زعفران کا ذائقہ، کیا کچھ نہیں۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ محنت کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ کچھ نے اس ضرب المثل کو زمین پر اتار کر دکھایا ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ آج کچھ پھلوں کی پیداوار کے لحاظ سے پورے گجرات میں نمبر ایک ضلع بن گیا ہے۔ یہاں کی سبز کھجور، زعفران، آم، انار اور کملم ایسے بے شمار پھل نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی اپنی مٹھاس لے کر جا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب کچھ میں رہنے والے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی جانوروں کو لے کر میلوں دور ہجرت کرتے تھے یا بعض اوقات وہ جانوروں کو چھوڑ کر خود ہی جانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ وسائل کی کمی کے باعث مویشیوں کو ترک کرنا اس پورے علاقے کی مجبوری تھی۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں سینکڑوں سالوں سے مویشی پالنا روزی روٹی کا ذریعہ رہا ہے، یہ صورتحال انتہائی تشویشناک تھی۔ لیکن آج اس کچھ میں کسانوں نے مویشیوں سے دولت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ بیس سالوں میں کچھ میں دودھ کی پیداوار میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

جب میں یہاں بطور وزیر اعلیٰ کام کرتا تھا، اس وقت 2009 میں یہاں سرحد ڈیری کا آغاز ہوا۔ اس وقت یہ ڈیری ایک دن میں 1400 لیٹر سے کم دودھ ذخیرہ کرتی تھی۔ جب اس کا آغاز 1400 لیٹر سے کم تھا۔ لیکن آج یہ سرحدی ڈیری کسانوں سے روزانہ 5 لاکھ لیٹر تک دودھ اکٹھا کرتی ہے۔ آج اس ڈیری کی وجہ سے ہر سال تقریباً 800 کروڑ روپے کسانوں کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔ دوستو، میرے کچھ کے کسانوں کی جیبوں میں۔ آج سرحد ڈیری کے نئے جدید پلانٹ کا افتتاح انجار تعلقہ کے چندرانی گاؤں میں کیا گیا ہے، اس سے کسانوں اور مویشی پالنے والوں کو بھی کافی فائدہ ہونے والا ہے۔ اس میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ دودھ کی ایسی مصنوعات بنائی جائیں گی جو کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گی۔

بھائیو اور بہنوں،

کچھ نے نہ صرف خود کو اوپر اٹھایا ہے بلکہ پورے گجرات کو ترقی کی ایک نئی رفتار دی ہے۔ ایک وقت تھا جب گجرات پر ایک کے بعد ایک بحران آ رہا تھا۔ جب گجرات قدرتی آفت سے نمٹ رہا تھا، سازشیں شروع ہو گئیں۔ گجرات کو ملک اور دنیا میں بدنام کرنے کے لیے یہاں کی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے ایک کے بعد ایک سازش رچی گئی۔ ایسی صورتحال میں بھی ایک طرف گجرات ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی۔ اسی ایکٹ سے متاثر ہو کر پورے ملک کے لیے ایک جیسا قانون بنایا گیا۔ کورونا کے بحران میں اس قانون نے ہر حکومت اور انتظامیہ کی بہت مدد کی۔

ساتھیوں،

ہر سازش کو پس پشت ڈالتے ہوئے گجرات نے نئی صنعتی پالیسی لا کر گجرات میں صنعتی ترقی کی نئی راہ کا انتخاب کیا۔ اس سے کچھ کو کافی منافع ملا، کچھ میں سرمایہ کاری ہوئی۔ کچھ کی صنعتی ترقی کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ آج کچھ میں دنیا کے سب سے بڑے سیمنٹ پلانٹ ہیں۔ ویلڈنگ پائپ مینوفیکچرنگ کے لحاظ سے کچھ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پوری دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ٹیکسٹائل پلانٹ کچھ میں ہے۔ ایشیا کا پہلا اسپیشل اکنامک زون کچھ میں بنایا گیا ہے۔ کنڈلا اور موندرا بندرگاہیں ملک کے 30 فیصد کارگو کو سنبھالتی ہیں۔ کچھ ایسا علاقہ ہے جہاں سے ہندوستان کا تیس فیصد سے زیادہ نمک پیدا ہوتا ہے، ہندوستان کا کوئی لال ایسا نہیں ہوگا جس نے کچھ کا نمک نہ کھایا ہو۔ جہاں 30 سے ​​زائد سالٹ ریفائنریز موجود ہیں۔

بھائیو اور بہنوں،

ایک وقت تھا جب کچھ میں کوئی سولر پاور، ونڈ پاور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج کچھ میں تقریباً ڈھائی ہزار میگا واٹ بجلی سولر اور ونڈ انرجی سے پیدا ہوتی ہے۔ آج سب سے بڑا سولر ونڈ ہائبرڈ پارک کچھ کے کھاوڑا میں بنایا جا رہا ہے۔ آج ملک میں جو گرین ہائیڈروجن مہم چل رہی ہے اس میں گجرات کا بڑا کردار ہے۔ اسی طرح، جب گجرات دنیا کے گرین ہائیڈروجن کیپٹل کے طور پر اپنی شناخت بناتا ہے، تو اس میں کچھ کا بہت بڑا حصہ ہوگا۔

ساتھیوں،

کچھ کا یہ خطہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ دنیا میں چند ایسے مقامات ہیں، جو زراعت اور مویشی پالنے میں آگے، صنعتی ترقی میں آگے، سیاحت میں آگے، فن اور ثقافت میں آگے ہوں۔ کچھ کے پاس کیا نہیں ہے؟ کچھ، گجرات نے بھی اپنے ورثے کو فخر کے ساتھ اپنانے کے لیے ملک کے سامنے ایک مثال قائم کی ہے۔

اس بار 15 اگست کو لال قلعہ سے میں نے ملک کو اس کی وراثت پر مزید فخر کرنے کی دعوت دی ہے۔ پچھلے 7 سے 8 سالوں میں ہماری وراثت کے تئیں فخر کا احساس مضبوط ہوا ہے، یہ آج ہندوستان کی طاقت بن رہا ہے۔ آج ہندوستان اس ذہنی کیفیت سے نکل آیا ہے جب اپنے ورثے کی بات کرنے والے احساس کمتری سے بھرے ہوئے تھے۔

اب دیکھیں کہ ہمارے کچھ میں کیا نہیں ہے۔ شہری تعمیر میں ہماری مہارت دھولا ویرا میں جھلکتی ہے۔ دھولا ویرا کو گزشتہ سال ہی عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ دھولا ویرا کی ہر اینٹ ہمارے آباؤ اجداد کی مہارت، علم اور سائنس کی عکاسی کرتی ہے۔ جب دنیا کی بہت سی تہذیبیں اپنے ابتدائی دور میں تھیں، تب ہمارے آباؤ اجداد نے دھولا ویرا جیسے ترقی یافتہ شہر بسائے تھے۔

اسی طرح مانڈوی جہاز سازی کے معاملے میں سب سے آگے تھا۔ ہماری تاریخ، ہماری وراثت اور آزادی کے جنگجوؤں کے تئیں کتنی بے حسی رہی ہے، اس کی ایک مثال ہمارے شیام جی کرشن ورما سے بھی وابستہ ہے۔ آزادی کے بعد ان کی راکھ کئی دہائیوں تک بیرون ملک رکھی رہی۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے ان کی راکھ لانے کے بعد اسے مادر وطن کے حوالے کر دیا۔ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تب گجرات کے لوگ اور اہل وطن مانڈوی میں بنے کرانتی تیرتھ پر انھیں خراج عقیدت پیش کر پا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

گزشتہ 2 دہائیوں سے کچھ، گجرات کے ان ورثوں کو بچانے اور دنیا کے سامنے لانے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ رن آف کچھ، دھورڈو ٹینٹ سٹی، مانڈوی ساحل، آج ملک کے اہم سیاحتی مقامات بن رہے ہیں۔ یہاں کے کاریگروں، دستکاروں کی تیار کردہ مصنوعات آج پوری دنیا میں جا رہی ہیں۔ نیرونا، بھجوڑی اور اجرک پور جیسے دیہات کی دستکاری آج ملک اور دنیا میں دھوم مچا رہی ہے۔ روگن آرٹ، مٹی آرٹ، بندھانی، کچھ کی اجرک پرنٹنگ کے چرچے ہر طرف بڑھ رہے ہیں۔ کچھ شالوں اور کچھ کڑھائی کو جی آئی ٹیگ ملنے کے بعد ان کی مانگ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اسی لیے آج نہ صرف گجرات بلکہ ملک و دنیا میں یہ چرچا ہے کہ جس نے کچھ نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ ان میں سے بہت کچھ میری نوجوان نسل کو کچھ، گجرات کی سیاحت کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ آج قومی شاہراہ نمبر 41 کو چوڑا کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے، اس سے نہ صرف سیاحوں کو مدد ملے گی بلکہ یہ سرحدی علاقے کے نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔

ساتھیوں،

ہند-پاک جنگ کے وقت یہاں کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی بہادری آج بھی بہترین بہادری کی داستانوں میں لکھی جاتی ہے۔ کچھ کی ترقی سب کی کوششوں سے ایک با معنی تبدیلی کی بہترین مثال ہے۔ کچھ صرف ایک جگہ نہیں ہے، یہ زمین کا حصہ نہیں ہے، یہ کچھ ایک روح ہے، ایک زندہ احساس ہے، ایک زندہ روح ہے۔ یہ احساس ہی ہمیں آزادی کے امرت کی عظیم قراردادوں کی تکمیل کا راستہ دکھاتا ہے۔

میں آپ کے استقبال کے لیے، آپ کی محبت کے لیے آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ لیکن یہ اسمرتی ون اس دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ اسے سنبھالنے کی ذمہ داری میرے کچھ کی ہے، میرے بھائیوں اور بہنوں کی ہے۔ کوئی ایک گوشہ ایسا نہ ہو جہاں گھنا جنگل نہ بنا ہو۔ ہمیں اس بھوجیا ڈنگر کو ہریالی بنانا ہے۔

دوستو، آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس اسمرتی ون میں اس سے زیادہ طاقت ہے جو کچھ کے رنوتسو میں ہے۔ بھائی یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ میں نے یہ کام کرنے کے لیے بہت خواب دیکھے ہیں۔ میں نے بڑے عزم کے ساتھ کام کیا ہے، اور میں اس میں آپ کی بھر پور شرکت چاہتا ہوں۔ مسلسل تعاون کی ضرورت ہے۔ دنیا میں میرا بھوجیا ڈنگر گونجے اس کے لیے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔

ایک بار پھر تمام ترقیاتی منصوبوں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات۔ آج بہت دنوں بعد آئیے میرے ساتھ بولیے-

میں کہوں گا نرمدے، آپ کہیں گے سرودے۔

 

نرمدے - سرودے!

نرمدے - سرودے!

نرمدے - سرودے!

 

بہت بہت شکریہ!

                   ***********

ش ح۔ ف ش ع-م ف

28-08-2022

U: 9615



(Release ID: 1855102) Visitor Counter : 221