ا قتصادی امور کی کابینہ کمیٹی

ایک اور کسان دوست اقدام میں، حکومت نے چینی ملوں کے ذریعے گنے کے کاشتکاروں کو شوگر سیزن 2022-23 کے لیے منصفانہ اور منافع بخش قیمت کی منظوری دی


گنے کے کاشتکاروں (گنا کسانوں) کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ منصفانہ اور منافع بخش قیمت 305 روپے فی کوئنٹل کو منظوری دی گئی

کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے حکومت نے گزشتہ 8 سالوں میں منصفانہ اور منافع بخش قیمت (ایف آر پی) میں 34 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے

حکومت ہند کسانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے

اس فیصلے سے گنے کے 5 کروڑ کسانوں (گنا کسان) اور ان کے زیر کفالت افراد کے ساتھ ساتھ چینی ملوں اور متعلقہ ذیلی سرگرمیوں میں ملازم 5 لاکھ کارکنوں کو فائدہ پہنچے گا

Posted On: 03 AUG 2022 6:19PM by PIB Delhi

گنا اگانے والے کسانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے، عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں اقتصادی امور کی کابینہ کمیٹی نے شوگر سیزن 2022-23 (اکتوبر تا ستمبر) کے لیے 10.25 فیصد کی بیسک ریکوری ریٹ کے لئے  گنے کی مناسب اور منافع بخش قیمت (ایف آر پی) 305 روپے فی کوئنٹل منظوری دے دی ہے۔ اس سے 10.25 فیصد سے زیادہ کی ریکوری میں ہر ایک 0.1 فیصد کے اضافہ کے لئے 3.05 روپے فی کوئنٹل کا پریمیم ملے گا اور ریکوری میں ہر 0.1 فیصد کی کمی کے لیے 3.05 روپے فی کوئنٹل کی شرح سے ایف آر پی میں کمی ہوگی۔ حالانکہ حکومت نے گنا کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ چینی ملوں کے معاملے میں کوئی کٹوتی نہیں ہوگی، جہاں ریکوری 9.5 فیصد سے کم ہے۔ ایسے کسانوں کو موجودہ شوگر سیزن 2021-22 میں 275.50 روپئے فی کوئنٹل کی جگہ آئندہ شوگر سیزن 2022-23 میں گنے کے لیے 282.125 روپے فی کوئنٹل ملے گا۔

چینی سیزن 2022-23 کے لیے گنے کی پیداوار کی اے2 + ایف ایل لاگت  (یعنی حقیقتاً ادا کی گئی لاگت کے ساتھ کنبہ کی محنت کی قدر) 162 روپے فی کوئنٹل ہے۔ 10.25 فیصد کی ریکوری ریٹ / بھرپائی کی شرح پر 305 روپے فی کوئنٹل کا یہ ایف آر پی پیداواری لاگت سے 88.3 فیصد زیادہ ہے۔ اس طرح یہ کسانوں کو ان کی لاگت پر 50 فیصد سے زیادہ کا منافع فراہم کرنے کے وعدے کو یقینی بناتا ہے۔ شوگر سیزن 2022-23 کے لیے ایف آر پی موجودہ شوگر سیزن 2021-22 سے 2.6 فیصد زیادہ ہے۔

مرکزی حکومت کی فعال پالیسیوں کی وجہ سے، گنے کی کاشت اور چینی کی صنعت نے گزشتہ 8 سالوں میں ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے اور اب یہ خود کفالت کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ چینی صنعت، ریاستی حکومتوں، مرکزی حکومت کے مختلف محکموں کے ساتھ ساتھ کسانوں کے ساتھ بروقت حکومتی مداخلت اور تعاون کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی طرف سے چینی کے شعبے کے لیے حالیہ برسوں میں کیے گئے اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

• گنے کے کاشتکاروں کو یقینی قیمت یقینی بنانے کے لیے گنے کی ایف آر پی مقرر کی گئی ہے۔

• حکومت نے گزشتہ 8 سالوں میں ایف آر پی میں 34 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔

• حکومت نے چینی کی چینی کی کم از کم فروخت کی قیمت (ایم ایس پی) کا تصور بھی پیش کیا ہے، تاکہ چینی کی  ایکس مل قیمتوں میں کمی اور گنے کے بقایا جات کے جمع ہوتے جانے کے مسئلے کو دور کرنے کے لئے (ایم ایس پی ابتدا میں 29 روپے فی کلو گرام، 7 جون 2018 سے مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے طے کیا گیا ہے؛ ترمیم شدہ 31 روپے فی کلوگرام  14 فروری 2019 سے نافذ )۔

• چینی کی برآمد میں سہولت فراہم کرنے، بفر اسٹاک کو برقرار رکھنے، ایتھنول کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور کسانوں کے واجبات کی منظوری کے لیے شوگر ملوں کو  18,000 کروڑ سے زیادہ کی مالی امداد فراہم کی گئی۔

ایتھنول کی پیداوار کے لیے اضافی چینی کی منتقلی شوگر ملوں کے مالی حالات میں بہتری کا باعث بنی۔ نتیجتاً، وہ گنے کے واجبات جلد ادا کرنے کے قابل ہوگئے۔

• برآمدات اور چینی کو ایتھنول کی طرف موڑنے کی وجہ سے، چینی کا شعبہ خود کفیل ہو گیا ہے اور ملوں کی لیکویڈیٹی کو بہتر بنانے کے لیے برآمدات اور بفر کے لیے بجٹ میں معاونت کی ضرورت نہیں ہے۔

مزید برآں، گزشتہ کچھ شوگر سیزن کے دوران چینی کے شعبے کے لیے کیے گئے متعدد دیگر اقدامات کی وجہ سے، جس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ گنے کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی شروعات، ڈرپ سینچائی نظام کو اپنانا، چینی پلانٹوں کی جدید کاری اور دیگر تحقیقی و ترقیاتی سرگرمیاں، گنے کی کاشت کاری کا رقبہ، گنے کی پیداوار، گنے کی پیرائی، چینی کی پیداوار اور اس کا ریکوری فیصد وکسانوں کو ادائیگی میں کافی اضافہ شامل ہیں۔

حکومت کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے تئیں پرعزم:

اس فیصلے سے گنے کے 5 کروڑ کسانوں (گنا کسان) اور ان کے زیر کفالت افراد کے ساتھ ساتھ شوگر ملوں اور متعلقہ ذیلی سرگرمیوں میں ملازم 5 لاکھ کارکنوں کو فائدہ پہنچے گا۔ 9 سال پہلے، چینی سیزن 2013-14 میں ایف آر پی صرف 210 روپے فی کوئنٹل تھی۔ اور صرف 2397 ایل ایم ٹی  گنا چینی ملوں کے ذریعے خریدا گیا تھا۔ کسانوں کو صرف شوگر ملوں کو گنے کی فروخت سے 51,000 کروڑ روپئے ملتے تھے۔ حالانکہ گزشتہ 8 سالوں میں حکومت نے ایف آر پی میں 34 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ موجودہ چینی سیزن 2021-22 میں، چینی ملوں کے ذریعے تقریباً 3,530 لاکھ ٹن گنا خریدا گیا، جس کی قیمت 1,15,196 کروڑ روپئے ہے، جو اب تک سب سے زیادہ ہے۔

آئندہ شوگر سیزن 2022-23 میں گنے کی پیداوار میں اضافہ اور متوقع پیداوار کو مدنظر رکھتے ہوئے، شوگر ملوں کی جانب سے 3,600 لاکھ ٹن سے زیادہ گنے کی خریداری کا امکان ہے، جس کے لیے گنے کے کسانوں کو ادا کی جانے والی کل رقم 1,20,000 کروڑ روپئے سے زیادہ ہونے کی امید ہے۔ حکومت اپنے کسان حامی اقدامات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ گنے کے کاشتکاروں کو ان کے واجبات وقت پر مل جائیں۔

گزشتہ شوگر سیزن 2020-21 میں تقریباً 92,938 کروڑ روپئے کے گنا بقایاجات واجب الادا تھے، جن میں سے 92,710 کروڑ روپئے کی ادائیگی کی گئی ہے اور محض 228 کروڑ روپئے باقی ہیں۔ موجودہ چینی سیزن 2021-22 میں، 1,15,196 کروڑ روپے میں سے کسانوں کو 1,05,322 کروڑ روپے گنے کے بقایاجات کی ادائیگی کی گئی۔ یکم اگست 2022 تک، اس طرح 91.42 فیصد گنا بقایاجات کی ادائیگی کردی گئی ہے جو کہ گزشتہ چینی سیزن کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

 

بھارت -  دنیا میں چینی کا سب سے بڑا پروڈیوسر اور دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ:

شوگر کے موجودہ سیزن میں بھارت نے چینی کی پیداوار میں برازیل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں چینی کی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ، بھارت نے گھریلو استعمال کے لیے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل چینی کی برآمد بھی کی ہے، جس سے ہمارے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ گزشتہ 4 چینی سیزن 2017-18، 2018-19، 2019-20 اور 2020-21 میں تقریباً 6 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی)، 38 ایل ایم ٹی، 59.60 ایل ایم ٹی اور 70 ایل ایم ٹی چینی برآمد کی گئی ہے۔ موجودہ چینی سیزن 2021-22 میں یکم اگست 2022 تک تقریباً 100 ایل ایم ٹی چینی برآمد کی جا چکی ہے اور برآمدات کے 112 ایل ایم ٹی تک پہنچنے کا امکان ہے۔

گنے کے کاشتکار اور چینی کی صنعت اب توانائی کے شعبے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں:

بھارت کی خام تیل کی 85 فیصد ضرورت درآمدات سے پوری ہوتی ہے۔ لیکن خام تیل پر درآمدی بل کو کم کرنے، آلودگی کو کم کرنے اور پیٹرولیم کے شعبے میں بھارت کو خودکفیل بنانے کے مقصد سے، حکومت ایتھنول بلینڈڈ وِد پیٹرول پروگرام کے تحت پیٹرول کے ساتھ ایتھنول کی پیداوار اور ملاوٹ کو بڑھانے کے لیے فعال طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت چینی ملوں کی اضافی گنے کو ایتھنول میں بدلنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہی ہے تاکہ اسے پیٹرول کے ساتھ ملایا جاسکے۔ جو نہ صرف سبز ایندھن کے طور پر کام کرتا ہے، بلکہ یہ خام تیل کی درآمد پر خرچ کی جانے والی زرمبادلہ کی بھی بچت کرے گا۔ چینی کے سیزن 2018-19، 2019-20 اور 2020-21 میں، تقریباً 3.37 ایل ایم ٹی، 9.26 ایل ایم ٹی اور 22 ایل ایم ٹی چینی کو ایتھنول کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ شوگر کے موجودہ سیزن 2021-22 میں تقریباً 35 ایل ایم ٹی چینی کو موڑنے کا تخمینہ ہے اور 26-2025 تک 60 ایل ایم ٹی سے زیادہ چینی کو ایتھنول میں بدلنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جو اضافی گنے کے مسئلے کے ساتھ ساتھ تاخیر سے ہونے والی ادائیگی کا مسئلہ بھی حل کرے گا، کیونکہ گنا کسانوں کو بروقت ادائیگی ہوسکے گی۔

حکومت نے 2022 تک پٹرول کے ساتھ فیول گریڈ ایتھنول کی 10 فیصد اور 2025 تک 20 فیصد ملاوٹ کا ہدف مقرر کیا ہے۔

سال 2014 تک، مولاسس پر مبنی ڈسٹلریز کی ایتھنول ڈسٹلیشن کی گنجائش صرف 215 کروڑ لیٹر تھی۔ تاہم گزشتہ 8 سالوں میں حکومت کی طرف سے کی گئی پالیسی جاتی تبدیلیوں کی وجہ سے، مولاسس پر مبنی ڈسٹلریز کی صلاحیت بڑھ کر 595 کروڑ لیٹر ہو گئی ہے۔ اناج پر مبنی ڈسٹلریز کی صلاحیت جو 2014 میں تقریباً 206 کروڑ لیٹر تھی، اب بڑھ کر 298 کروڑ لیٹر ہو گئی ہے۔ اس طرح، ایتھنول کی پیداوار کی مجموعی صلاحیت گزشتہ 8 سالوں میں 2014 سے 421 کروڑ لیٹر سے دگنی ہوکر جولائی 2022 میں 893 کروڑ لیٹر ہوگئی ہے۔ حکومت ایتھنول کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کے لیے شوگر ملوں/ ڈسٹلریز کو سود میں رعایت بھی دے رہی ہے۔ ایتھنول کے شعبے میں تقریباً 41,000 کروڑ کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، جس سے دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

ایتھنول سپلائی سال (ای ایس وائی) 2013-14 میں، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) کو ایتھنول کی سپلائی صرف 1.53 فیصد کی ملاوٹ کی سطح کے ساتھ صرف 38 کروڑ لیٹر تھی۔ فیول گریڈ ایتھنول کی پیداوار اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) کو اس کی فراہمی 2013-14 کے مقابلے میں آٹھ گنا بڑھ گئی ہے۔ ایتھنول سپلائی سال 2020-21 (دسمبر-نومبر) میں، تقریباً 302.30 کروڑ لیٹر ایتھنول آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) کو فراہم کیا گیا ہے، جو 8.1 فیصد کی ملاوٹ کی سطح کو حاصل کرتا ہے۔ موجودہ ایتھنول سپلائی سال (ای ایس وائی) 2021-22 میں، ہم 10.17 فیصد کی ملاوٹ کی سطح حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ موجودہ ایتھنول سپلائی سال (ای ایس وائی) 2021-22 میں، شوگر ملوں/ڈسٹلریز کو پیٹرول کے ساتھ ملاوٹ کے لیے 400 کروڑ لیٹر سے زیادہ ایتھنول کی فراہمی متوقع ہے، جو کہ سال 2013-14 میں کی گئی سپلائی سے 10 گنا زیادہ ہے۔

چینی کی صنعت کا خودکفیل بننا:

اس سے قبل شوگر ملیں محصولات کے حصول کے لیے بنیادی طور پر چینی کی فروخت پر انحصار کرتی تھیں۔ کسی بھی موسم میں زائد پیداوار ان کی لیکویڈیٹی کو بری طرح متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کے گنے کی قیمت کے بقایا جات جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی لیکویڈیٹی کو بہتر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً حکومت کی جانب سے اقدامات کئے گئے۔ تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں مرکزی حکومت کی فعال پالیسیوں بشمول اضافی چینی کی برآمد اور چینی کو ایتھنول کی طرف موڑنے کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے، چینی کی صنعت اب خودکفیل بنتی جارہی ہے۔

شوگر ملوں کو 2013-14 سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) کو ایتھنول کی فروخت سے تقریباً 49,000 کروڑ روپے ملے۔ شوگر کے موجودہ سیزن 2021-22 میں، تقریباً 20,000 کروڑ روپے مالیت کا ایتھنول شوگر ملوں کے ذریعے او ایم سی کو فروخت کیا جا رہا ہے، اس طرح شوگر ملوں کی ادائیگی کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور وہ کسانوں کو گنے کے واجبات کی ادائیگی کے قابل بن رہی ہیں۔ چینی اور اس کی ضمنی مصنوعات کی فروخت، او ایم سی کو ایتھنول کی فراہمی، بیگاس پر مبنی کو جنریشن پلانٹس سے بجلی کی پیداوار اور پریس مَڈ سے تیار کردہ پوٹاش کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی نے شوگر ملوں کی مالی حالت کو کئی طریقوں سے بہتر بنایا ہے۔

مرکزی حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات اور ایف آر پی میں اضافہ نے کسانوں کو گنے کی کاشت کرنے کی ترغیب دی ہے اور چینی کی گھریلو مینوفیکچرنگ کے لیے شوگر فیکٹریوں کو جاری رکھنے میں سہولت فراہم کی ہے۔ چینی کے شعبے کے لیے حکومت کی جانب سے بنائی گئی فعال پالیسیوں کی وجہ سے، بھارت اب توانائی کے شعبے میں بھی خودکفیل بن رہا ہے۔

 

******

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.8626

 



(Release ID: 1848140) Visitor Counter : 516