وزیراعظم کا دفتر
سوامی اتمستانند کی صد سالہ تقریبات سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
10 JUL 2022 11:33AM by PIB Delhi
نئی دہلی،10جولائی 2022/
اس پروگرام ساتوک چیتنا سے سمردھی میں موجود تمام معزز سنتوں، سادھوی مٹھ کی تمام سادھوی ماتائیں، خصوصی مہمان، اور تمام عقیدت مندوں!
آپ سب کو نمسکار!
معزز سنتوں کی رہنمائی میں آج سوامی آتمستھانندجی کییوم پیدائش کی صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ میرے لیے ذاتی طور پر بھی کئی جذبات اور یادداشتوں سے بھرا ہوا ہے ۔ بہت سی باتوں کو اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے ہے۔ سوامی جی نے 100 کے نزدیک ہی اپنا جسم تیاگا تھا۔ مجھے ہمیشہ ان کا آشیرواد ملا، ان کی قربت کا موقع ملتا رہا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آخری وقت تک میرا ان سے رابطہ بنا رہا۔
ایک بچے پر جیسے پیار برسایا جاتا ہے، وہ ویسے ہی مجھ پر پیار برساتے رہے۔ آخری پل تک ان کا مجھ پر آشیرواد بنا رہا۔ اور میںیہ محسوس کرتا ہوں کہ سوامی جی مہاراج اپنے چیتن روپ میں آج بھی ہمیں اپنے آشیرواد دیتے رہیں۔
ان کی زندگی اور مشن کو عوام تک پہنچانے کے لیے آج دو یادگار ایڈیشن، تصویری سوانح حیات اور ڈاکومنٹری بھی ریلیز ہو رہی ہیں۔ میں اس کام کے لئے رام کرشن مشن کے سربراہ عزت مآب سوامی اسمرنا آنند جی مہاراج کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ساتھیو،
سوامی آتمستھانندجی کو شری رام کرشن پرم ھنس کے شاگرد، معزز سوامی وجنانند جی سے دیکشا (تعلیم) ملی تھی۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس جیسے سنت وہ علم، وہ روحانی طاقت ان میں واضح طور پر جھلکتی تھی۔ آپ سبھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سنیاس کی کتنی عظیم روایت ہے۔ سنیاس کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ وان پرست آشرم بھی سنیاس کی سمت میں ایک قدم مانا گیا ہے۔
سنیاس کے معنی ہی ہیں ۔ خود سے اوپر اٹھ کر سماج کے لیے کام کرنا، سماج کے لیے جینا،، خود کی توسیع سماج تک۔سنیاسی کے لئے جانداروں کی خدمت میں پربھو سیوا کو دیکھنا، جانداروں میں شیو کو دیکھنا،یہی تو سب سے بہترین ہے۔ اس عظیم روایت کو، سنیستھ روایت کو سوامی وویکانند جی نے جدید شکل میں ڈھالا۔ سوامی آتمستھانندجی نے سنیاس کے روپ کو زندگی میں جیااور عملی جامہ پہنایا۔
ان کی سرپرستی میں بیلور مٹھ اور شری رام کرشن مشن نے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ نیپال، بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں بھی راحت اور بچاؤ کی بے مہمیں چلائیں۔ انہوں نے مسلسل دیہی علاقوں میں عوام کی بھلائی کے کام کئے، اس کے لئے ادارہ قائم کیا۔ آج یہ ادارہ غریبوں کو روزگارزندگی گزار نے میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔سوامی جی غریبوں کی خدمت کو، علم کی تشہیر کو، اس سے جڑے کاموں کو پوجا سمجھتے تھے۔ اس کے لیے مشن موڈ میں کام کرنا، نئی تنظیموں کو بنانا، اداروں کو مضبوط کرنا، اندرا کے لیے رام کرشن مشن کی ترغیب تھے۔ جیسے ہمارے یہاںکہتے ہیں کہ، جہاں بھی ایشور بھاؤ ہے وہیں تیرتھ ہے۔ ایسے ہی، جہاں بھی ایسے سنت ہیں، وہیں انسانیت، خدمت یہ ساری باتیں مرکوز ہیں۔سوامی جی نے اپنی سنیاسی زندگی سے یہ ثابت کر دکھایا۔
ساتھیو،
سینکڑوں سال پہلے آدی شنکر آچاریہ ہوں یا جدید دور میں سوامی وویکا نند ، ہماری سنت روایت ہمیشہ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا مظاہرہ کرتی ہے۔ رام کرشن مشن کا تو قیام ’ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت‘ نظریے سے وابستہ ہوئی ہے۔ سوامی وویکا نند جی نے اسی عزم کو اپنے مشن کے طورپر جیا تھا۔
ان کی پیدائش بنگال میں ہوئی تھی۔ لیکن آپ ملک کے کسی بھی حصہ میں جایئے ، آپ کو ایسا شاید ہی کوئی علاقہ ملے گا جہاں وویکا نند جی نہ گئے ہوں، یا انکا اثر نہ ہو۔ ا ن کے سفر نے غلامی کے اس دور میں ملک کو اس کے قدیم قومی بیداری کا احساس کرایا ، ان میں نئی خود اعتمادی پھونکی۔ را م کرشن مشن کی اسی روایت کو سوامی اتمسانندجی نے پوری زندگی میں آگے بڑھایا۔ انہوں نے ملک کے الگ الگ حصوں میں اپنی زندگی گذاری، متعدد کام کئے ، اور جہاں بھی وہ رہے وہاں پوری طرح رچ بس گئے۔ گجرات میں رہ کر وہ اتنی اچھی گجراتی بولتے تھے، اور میری تو خوش قسمتی رہی ہے کہ زندگی کے آخری دور میں بھی جب ان سے بات ہوتی تھی تو گجراتی میں ہوتی تھی۔ مجھے بھی ان کی گجراتی سننا بہت اچھا لگتا تھا۔ اور میں آج یاد کرنا چاہتا ہوں کہ جب کچ میں زلزلہ آیا تھا تو ایک پل بھی انہوں نے نہیں لگایا او ر اسی وقت ، تب تو میں سیاست میں کسی عہدہ پر نہیں تھا، ایک کارکن کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس وقت انہوں نے میرے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لیا ۔ پوری تفصیل سے اور پورے وقت انکی رہنمائی میں اس وقت کچ میں زلزلہ سےمتاثر لوگوں کو راحت دینے کے لئے بہت سارے کام اٹھائے۔اسی لئے رام کرشن مشن کے سنتو ں کو ملک میں قومی یکجہتی کے پیغام دینے والوں ، اس روپ میں ہرکوئی جانتا ہے اور جب وہ بیرون ملک جاتے ہیں ، تو وہاں ہندستانیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ساتھیو،
رام کرشن مشن کی یہ بیدار روایت رام کرشن پرم ہنس جیسی دیویہ وبھوتی کی سادھنا سے ظاہر ہوئی ہے۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس ، ایک ایسے سنت تھے جنہوں نے ماں کالی کو واضح طور پر ملاقات کی تھی، جنہوں نے ماں کالی کے قدموں میں اپنا وجود سپرد کردیا تھا۔
وہ کہتے تھے -یہ کل عالم ،یہ چر اچر ، سب کچھ ماں کی چیتنا سے ظاہر ہے ۔یہی چیتنا بنگال کی کالی پوجا میں نظر آتی ہے۔ یہی چیتنا بنگال اور پورے ہندستان کی عقیدت میں دیکھتی ہے ۔ اسی چیتنا اور طاقت کے ایک مجموعے یا کنج کو سوامی وویکا نند کے عظیم شخص کے شکل میں سوامی رام کرشن پرم ہنس نے اپنایا تھا۔
سوامی وویکانندکو ماں کالی کا جو احساس اور تجربہ ہوا، ان کی جو روحانی درشن ہوئے اس نے ان کے اندر غیر معمولی توانائی اور صلاحیت کو بھر دیا تھا۔ سوامی وویکانند جیسا عظیم شخصیت، اتنا وسیع کردار لیکن جگن ماتا کالی کییاد میں وہ ان کی عقیدت میں چھوٹے بچے کی طرح کھوجاتے تھے۔ بھکتی کی ایسی ہی شفافیت اور طاقت سادھنا کی ایسی ہی صلاحیت میں سوامی اتمستھانند جی کے اندر بھی دیکھتا تھا ۔ اور ان کی باتوں میں بھی کالی کی بات ہوتی تھی۔ اور مجھے یاد ہے، جب بیلور مٹھ جانا تھا، گنگا کے کنارے بیٹھ کر اور دور ما کالی کا مندر دیکھائی دیتا ہو، تو بہت فطری تھا، ایک لگاؤ بن گیا تھا۔ جب عقیدت اتنی پاک ہوتی ہے تو شکتی براہ راست ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اسی لیے، ماں کالی کاغیرمحدودآشیروار ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ ہے۔ آج ہندوستان اسی روحانی توانائی کے ساتھ پورے عالم کے بہبود کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو،
ہمارے سنتوں نے ہمیں دکھایا ہے کہ جب ہمارے خیالات میں وسعت ہوتی ہے تو اپنی کوششوں میں کبھی تنہا نہیں ہوتے! آپ ہندستان کی سرزمین پر ایسے کتنے ہی سنتوں کی زندگی کا سفر دیکھیں گے جنہوں نے صفر وسائل کے ساتھ پہاڑ جیسے عزموں کوپوراکیا ہے ۔ یہی یقین ، یہی خود سپردگی یعنی معزز استھانند جی میں نے وہی عقیدہ دیکھا تھا، یہ لگن پوجیا اتمستھانند جی کی زندگی میں بھی۔ دیکھی تھی۔ ان سے میرا گرو کا جذبہ بھی رہا ہے۔
میں نے ان جیسے سنتوں سےبےلوث ہوکر سو فی صد خودسپردگی کے ساتھ خود کو کھپانے کی سیکھ لی ہے۔ اس لیے میںیہ کہتا ہوں کہ جب ہندوستان کا ایک شخص، ایکرشی اتنا کچھ کرسکتا ہے، توہم 130 کروڑاہل وطنوں کے اجتماعی عزائم سے کون سا مقصد پورا نہیں ہوسکتا؟ ہم سوچھ بھارت مشن میں عزم کی اس طاقت کو بھی دیکھتے ہیں۔ لوگوں کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ ہندوستان میں ایسا مشن کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن، ہم وطنوں نے عہد کیا، اور دنیا اس کا نتیجہ دیکھ رہی ہے۔ڈیجیٹل ادائیگیوں کے آغاز کے وقت یہ کہا گیا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی ہندوستان جیسے ملک کے لیے نہیں ہے۔ لیکن آج وہی ہندوستان ڈیجیٹل ادائیگی کے میدان میں عالمی رہنما بن کر ابھرا ہے۔ اسی طرح کورونا وبا کے خلاف ویکسینیشن کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ دو سال پہلے بہت سے لوگ حساب لگاتے تھے کہ ہندوستان میں ہر ایک کو ویکسین لگنے میں کتنا وقت لگے گا، کوئی کہتا تھا کہ 5 سال، کوئی کہتا تھا 10 سال، کچھ کہتے تھے 15 سال! آج ہم ڈیڑھ سال کے اندر ویکسین کی 200 کروڑ خوراکوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ مثالیں اس بات کی علامت ہیں کہ جب عزائم اصل ہوں تو کوششیں مکمل ہونے میں دیر نہیں لگتی، رکاوٹیں بھی راستے میں آتی ہیں۔
اور آزادی لئ لئےا مرت مہوتسو میں انسانی خدمت کے ایک اعلی کام میں آ پ کا محرک ہونا بہت بڑی تبدیلی لاسکتا ہے۔ آپ ہمیشہ سماج کے سکھ دکھ کے ساتھی رہی ہیں۔ سبھی سال نئی توانائی ، نئی ترغیبک کا سال بنا رہے۔آزادی کا امرت مہوتسو ملک میں فرض کا جذبہ جگانے میں کامیاب ہو ان میں ہم سب کا ایک بہت تبدیلی لاسکتاہ ے۔ اسی جذبے کے ساتھ آپ سنتوں کو ایک بار پھر میرا پرنام۔
بہت بہت شکریہ!
ش ح۔ ش ت۔ج
Uno-7418
(Release ID: 1840613)
Visitor Counter : 205
Read this release in:
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam