وزیراعظم کا دفتر
کانپور کے پرونکھ گاؤں میں ایک عوامی پروگرام کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
03 JUN 2022 9:39PM by PIB Delhi
نمسکار!
اسی گاؤں کی اولاد، پرونکھ گاؤں کی مٹی میں پیدا ہونے والے ملک کے صدر عزت مآب رامناتھ کووند جی، عزت مآب محترمہ سویتا کوند جی، اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل، اتر پردیش کے مقبول وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، اسٹیج پر موجود کابینہ کے میرے ساتھی، اتر پردیش کابینہ کے وزراء، ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی اور بڑی تعداد میں تشریف لائے میرے بھائیوں اور بہنوں!
صدر جمہوریہ نے جب مجھے کہا تھا کہ مجھے یہاں آنا ہے، تبھی سے میں آپ کے پاس آ کرکے گاؤں والوں سے ملنے کا انتظار کر رہا تھا۔ آج یہاں آ کر واقعی من کو بڑا سکون ملا، بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں نے صدر جمہوریہ کا بچپن بھی دیکھا ہے اور بڑے ہونے پر ان کو ہر ہندوستانی کا فخر بنتے بھی دیکھا ہے۔
یہاں آنے سے پہلے صدر جمہوریہ نے مجھ سے اس گاؤں سے کئی یادیں شیئر کیں۔ مجھے پتہ چلا کہ پانچویں کے بعد جب ان کا داخلہ 6-5 میل دور کے ایک گاؤں میں کرا دیا گیا تھا، تو ننگے پیر اسکول تک دوڑتے ہوئے جاتے تھے اور یہ دوڑ صحت کے لیے نہیں ہوتی تھی۔ یہ دوڑ اس لیے ہوتی تھی کہ گرمی سے تپتی ہوئی پگڈنڈی پر پیر کم جلیں۔
سوچئے، ایسی ہی تپتی دوپہری میں پانچویں میں پڑھنے والا کوئی بچہ ننگے پیر اپنے اسکول کے لیے دوڑے جا رہا ہے۔ زندگی میں ایسی جدوجہد، ایسی تپسیا انسان کو، انسان بننے میں بہت مدد کرتی ہے۔ آج صدر جمہوریہ کے گاؤں میں آنے کا یہ تجربہ میرے لیے زندگی کی ایک اچھی یاد کی طرح ہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
جب میں صدر جمہوریہ کے ساتھ مختلف مقامات کو دیکھ رہا تھا، تو میں نے پرونکھ میں ہندوستانی گاؤں کی کئی مثالی شبیہوں کو محسوس کیا۔ یہاں سب سے پہلے مجھے پتھری ماتا کا آشیرواد لینے کا موقع ملا۔ یہ مندر اس گاؤں کی، اس علاقے کی روحانی عظمت کے ساتھ ساتھ ایک بھارت –شریشٹھ بھارت کی بھی علامت ہے۔ اور میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسا مندر ہے، جہاں دیو بھکتی بھی ہے، دیش بھکتی بھی ہے۔ اور میں دیش بھکتی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ صدر جمہوریہ کے والد کی سوچ کو میں سلام کرتا ہوں۔ ان کے تصور کر سلام کرتا ہوں۔ وہ اپنی زندگی میں تیرتھاٹن کرنا، الگ الگ سیاحتی مقامات پر جانا، ایشور کے آشیرواد لینا، اس کے لیے کبھی گھر سے نکل جاتے تھے۔ کبھی بدری ناتھ گئے، کبھی کیدار ناتھ گئے، کبھی ایودھیا گئے، کبھی کاشی گئے، کبھی متھرا گئے، الگ الگ جگہوں پر گئے۔
اس وقت کی ان کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ گاؤں کے سبھی لوگوں کے لیے وہاں سے کوئی پرساد لے آئیں، پورے گاؤں کو کچھ بانٹ سکیں۔ تو ان کا تصور بڑا مزیدار تھا کہ وہ اس تیرتھ علاقے سے اُس مندر احاطہ سے دو چار پتھر لے آتے تھے۔ اور پتھر یہاں درخت کے نیچے رکھ دیتے تھے۔ اور اس مقدس مقام سے پتھر آیا ہے، ہندوستان کے کونے کونے سے پتھر آیا ہے، اس کے تئیں ایک جذبہ بیدار ہو جاتا تھا اور گاؤں والوں نے اسے مندر کی شکل میں پوجا کی کہ فلاں علاقے کا پتھر ہے، اُس فلاں مندر کے علاقے کا پتھر ہے، یہ فلاں ندی کے پاس کا پتھر ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس میں دیو بھکتی بھی ہے اور دیش بھکتی بھی ہے۔
صدر جمہوریہ کے والد اس مندر میں پوجا کیا کرتے تھے۔ اس مقدس مندر کے درشن کرنے میں ظاہر ہے کہ میرے من میں مختلف قسم کے خیالات گردش کر رہے تھے۔ اور میں اپنے آپ کو خوش قسمت پاتا ہوں کہ مجھے اُس مندر کے درشن کرنے کا موقع ملا ہے۔
ساتھیوں،
پرونکھ کی مٹی سے صدر جمہوریہ کو جو اخلاق و آداب ملے ہیں، اس کی گواہ آج دنیا بن رہی ہے۔ اور میں آج دیکھ رہا تھا کہ ایک طرف آئین، دوسری طرف اخلاق و آداب، اور آج گاؤں میں صدر جمہوریہ نے عہدے کے ذریعے بنے ہوئے سارے اصولوں سے باہر نکل کر مجھے آج حیران کر دیا۔ وہ خود ہیلی پیڈ پر رسیو کرنے آئے۔ میں بڑی شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ ان کی رہنمائی میں ہم کام کر رہے ہیں، ان کے عہدے کا ایک وقار ہے ایک عظمت ہے۔
میں نے کہا صدر جمہوریہ صاحب آپ نے میرے ساتھ نا انصافی کر دی آج، تو انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ آئین کے اصولوں کی پیروی تو میں کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی اخلاق و آداب کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ آج آپ میرے گاؤں میں آئے ہیں۔ میں یہاں پر مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لیے آیا ہوں، میں صدر جمہوریہ کے طور پر نہیں آیا ہوں۔ میں اس گاؤں کے ایک بچے کے طور پر جہاں سے زندگی شروع ہوئی، اس گاؤں کے رہائشی کے طور پر میں آج آپ کا خیر مقدم کر رہا ہوں۔ اتیتھی دیوو بھوہ کے سنسکار بھارت میں کس طرح سے ہماری رگوں میں پہنچے ہیں، اس کی بہترین مثال آج صدر جمہوریہ نے پیش کی۔ میں صدر جمہوریہ صاحب کو احترام کے ساتھ پرنام کرتا ہوں۔
صدر جمہوریہ نے اپنے آبائی مکان کو ’ملن کیندر‘ کے طور پر تعمیر کرنے کے لیے دے دیا تھا۔ آج وہ صلاح و مشورہ اور ٹریننگ سینٹر کے طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے نئی طاقت دے رہا ہے۔ ان کی کوشش سے یہاں امبیڈکر بھون کی شکل میں بابا صاحب کے اصولوں کا ترغیبی مرکز بھی بنایا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے، مستقبل میں پرونکھ آپ کی مجموعی کوششوں سے ترقی کے راستے پر اور بھی تیزی سے آگے بڑھے گا، اور ملک کے سامنے دیہی ترقی کا ماڈل پیش کرے گا۔
ساتھیوں،
ہم کہیں بھی کیوں نہ پہنچ جائیں، بڑے بڑے شہروں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ بس جائیں، اگر ہم نے اپنے گاؤں کو جیا ہے، تو ہمارا گاؤں ہمارے اندر سے کبھی نہیں نکلتا ہے۔ وہ ہماری رگوں میں بس جاتا ہے، وہ ہماری سوچ میں ہمیشہ رہتا ہے۔ ہم اسی لیے کہتے ہیں کہ بھارت کی روح گاؤں میں بستی ہے، کیوں کہ گاؤں ہماری روح میں بستا ہے۔
آج جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو دیہی ہندوستان کے لیے، ہمارے گاؤوں کے لیے ہمارے خواب اور بھی اہم ہو جاتے ہیں۔ ہماری جدو جہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی بھارت کی آزادی کو بھارت کے گاؤں سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔ بھارت کا گاؤں یعنی، جہاں روحانیت بھی ہو، اصول بھی ہوں! بھارت کا گاؤں یعنی، جہاں روایات بھی ہوں، اور حرکت پذیری بھی ہو! بھارت کا گاؤں یعنی، جہاں سنسکار بھی ہو اور سہکار بھی ہو! جہاں سمتا بھی ہو اور ممتا بھی ہو!
آج آزادی کے امرت کال میں ایسے ہی گاؤوں کی از سر نو تنظیم، ان کی از سر نو بیداری یہ ہمارا فریضہ ہے۔ آج اسی عزم کو لے کر ملک گاؤں-غریب، زراعت-کسان اور پنچایتی جمہوریت کی مختلف جہات میں کام کر رہا ہے۔ آج بھارت کے گاؤوں میں سب سے تیز رفتار سے سڑکیں بن رہی ہیں۔ آج بھارت کے گاؤوں میں تیز رفتار سے آپٹیکل فائبر بچھا یا جا رہا ہے۔ آج بھارت کے گاؤوں میں تیز رفتار سے گھر بن رہے ہیں، ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹیں لگ رہی ہیں۔ شہروں کے ساتھ ساتھ ہمارے گاؤں بھی ترقی کی ہر راہ پر قدم سے قدم ملا کر چلیں، یہ نئے بھارت کی سوچ بھی ہے اور نئے بھارت کا عزم بھی ہے۔
آپ سوچئے، کی کسی نے تصور کیا تھا کہ ایک دن کھیتی سے جڑے مشکل سے مشکل کام اب ڈرون کے ذریعے سے بھی ہونا شروع ہو جائیں گے۔ لیکن آج ملک اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں اس گاؤں میں بھی 300 سے زیادہ لوگوں کو ’سوامیتو‘ کے تحت گھرونی دی جا چکی ہے، پراپرٹی کے کاغذ دیے جا چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیسے کسان کی سہولت اور آمدنی دونوں بڑھیں، اس سمت میں تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔
ساتھیوں،
ہمارے گاؤوں کے پاس سب سے زیادہ صلاحیت ہے، سب سے زیادہ محنت کی طاقت ہے، اور سب سے زیادہ جفا کشی بھی ہے۔ اس لیے بھارت کے گاؤوں کی مضبوطی ہماری سرکار کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ جن دھن یوجنا ہو، آواس یوجنا ہو، اجولا کے تحت ملا گیس کنکشن ہو، ہر گھر جل ابھیان ہو، آیوشمان بھارت یوجنا ہو، ان سبھی کا فائدہ کروڑوں گاؤوں والوں کو ملا ہے۔ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ملک نے جس رفتار سے کام کیا ہے، وہ مثالی ہے۔
اب ملک کا ایک ہدف ہے، ہر اسکیم کا سو فیصد فائدہ سو فیصد مستفیدین تک پہنچانا، یعنی سو فیصد با اختیاری۔ نہ کوئی بھید بھاؤ، نہ کوئی فرق! یہی تو سماجی انصاف ہے۔ ہم آہنگی اور مساوات کا بابا صاحب کا یہی وہ خواب تھا جسے بنیاد بنا کر انہوں نے ہمیں ہمارا آئین دیا تھا۔ بابا صاحب کا وہ خواب آج پورا ہو رہا ہے۔ ملک اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیوں،
آج کا یہ موقع ایک اور بات کے لیے بہت تاریخی ہے۔ اور یہ بات سبھی کے لیے نوٹ کرنے والی ہے، کیوں کہ ملک کی جمہوریت کی طاقت، ملک کے گاؤوں کی طاقت کو ایک ساتھ دکھاتی ہے۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر عزت مآب صدر جمہوریہ، یوپی کی گورنر آنندی بین پٹیل جی، اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی موجود ہیں۔ مجھے بھی آپ نے، آپ سب ہم وطنوں نے ملک کی خدمت کے لیے اتنی بڑی ذمہ داری سونپی ہے۔ ہم چاروں لوگ کسی نہ کسی چھوٹے گاؤں یا قصبہ سے نکل کر یہاں تک پہنچے ہیں۔
میری بھی پیدائش گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ہوئی تھی۔ گاؤں کی ثقافت، اخلاق و آداب، اور ہمارے یہاں جڑی جدوجہد نے ہمارے جیسے کتنے ہی لوگوں کو تراشا، ہمارے اخلاق و آداب کو مضبوط کیا۔ یہی ہماری جمہوریت کی طاقت ہے۔ بھارت میں گاؤں میں پیدا ہوا غریب سے غریب آدمی بھی صدر-وزیر اعظم-گورنر-وزیر اعلیٰ کے عہدہ تک پہنچ سکتا ہے۔
لیکن بھائیوں اور بہنوں،
آج جب ہم جمہوریت کی اس طاقت کی چرچہ کر رہے ہیں تو ہمیں اس کے سامنے کھڑے اقربا پروری جیسے چیلنجز سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ اقربا پروری ہی ہے جو سیاست ہی نہیں، بلکہ ہر شعبے میں صلاحیتوں کا گلا گھونٹتی ہے، انہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔
ویسے ساتھیوں،
میں جب اقربا پروری کے خلاف بات کرتا ہوں، تو کچھ لوگوں لگتا ہے کہ یہ سیاسی بیان ہے، میں کسی سیاسی پارٹی کے خلاف بات کر رہا ہوں، ویسا پرچار ہوتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جو لوگ اقربا پروری کی میری وضاحت میں صحیح بیٹھتے ہیں، وہ مجھ سے بھڑکتے ہیں، غصے میں ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں یہ اقربا پروری کے حامی میرے خلاف اب متحد ہو رہے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی ناراض ہیں کہ کیوں ملک کا نوجوان، اقربا پروری کے خلاف مودی کی باتوں کو اتنی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔
ساتھیوں،
میں ان لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ میری بات کا غلط مطلب نہ نکالیں۔ میری کسی سیاسی پارٹی سے یا کسی آدمی سے کوئی ذاتی ناراضگی نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن ہو، جمہوریت کے تئیں وقف سیاسی پارٹیاں ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اقربا پروری کے شکنجہ میں پھنسی پارٹیاں، خود کو اس بیماری سے آزاد کریں، خود اپنا علاج کریں۔ تبھی بھارت کی جمہوریت مضبوط ہوگی، ملک کے نوجوانوں کو سیاست میں آنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے گا۔
خیر، اقربا پروری والی پارٹیوں سے میں کچھ زیادہ ہی امید کر رہا ہوں۔ اس لیے، میں آپ کے درمیان بھی کہوں گا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک میں اقربا پروری جیسے برائیوں کو نہ پنپنے دیں۔ گاؤں کے غریب کا بیٹا، گاؤں کے غریب کی بیٹی بھی صدر-وزیر اعظم بن سکے، اس کے لیے اقربا پروری کی حامی پارٹیوں کو روکا جانا بہت ضروری ہے۔
ساتھیوں،
صدر جمہوریہ کے اس گاؤں میں آج آ کرکے میں آج تحفۃً کچھ مانگنے آیا ہوں، میں کچھ مانگنا چاہتا ہوں۔ آپ کو لگے گا کہ یہ کیسا وزیر اعظم ہے، ہمارے گاؤں میں آیا، لایا کچھ نہیں اور مانگ رہا ہے ہم سے۔ میں مانگ رہا ہوں، آپ دوگے نا… میں گاؤں سے مانگوں گا تو ملے گا نا… جن جن گاؤں سے لوگ آئے ہیں وہ بھی دیں گے نا۔ دیکھئے، آپ نے اپنے گاؤں میں اتنی ترقی کی ہے۔
آج جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو آپ کو اپنی کوشش بڑھانی ہے۔ امرت کال میں ملک نے عزم کیا ہے کہ ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جائیں گے۔ اور ابھی یوگی جی بتا رہے تھے کہ یہاں پرونکھ میں بھی 2 امرت سرووروں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ آپ کو اس امرت سروور کی تعمیر میں مدد بھی کرنی ہے، کار سیوا بھی کرنی ہے اور اس کی عظمت بھی بنائے رکھنی ہے۔
میں آپ سے ایک اور بات کی بھی مانگ کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس مانگ کو بھی پورا کریں گے اور وہ ہے قدرتی کھیتی، نیچرل فارمنگ۔ پرونکھ گاؤں میں زیادہ سے زیادہ کسان نیچرل فارمنگ کو اپنائیں، قدرتی کھیتی کو اپنائیں تو یہ ملک کے لیے ایک بڑی مثال بنے گا۔
ساتھیوں،
بھارت کی کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے- سب کا پریاس۔ سب کے پریاس (کوشش) سے ہی آتم نربھر بھارت کا خواب بھی پورا ہوگا۔ اور، آتم نربھر بھارت کا مطلب ہے آتم نربھر (خود کفیل) گاؤں، آتم نربھر نوجوان۔ ہمارے گاؤں رفتار پکڑیں گے تو ملک رفتار پکڑے گا۔ ہمارے گاؤں ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا۔
عزت مآب کووند جی کے طور پر ملک کو صدر دینے والے پرونکھ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ گاؤوں کی مٹی میں کتنی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہمیں اس صلاحیت کا، اس لیاقت کا صحیح استعمال کرنا ہے۔ ہم سب مل کر کام کریں گے، اور ملک کے خواب کو پورا کریں گے۔
اسی عزم کے ساتھ، میں ایک بار پھر عزت مآب صدر جمہوریہ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے ساتھ مجھے بھی یہاں آنے کا موقع دیا۔ میں آپ سبھی کا بھی ایک بار پھر تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور گاؤں کی ہر گلی میں جہاں جہاں گیا، جس امنگ اور جوش سے آپ نے استقبال کیا، پھولوں کی بارش کی، محبتوںں کی بارش کی، اپنے پیار سے مسحور کر دیا۔ میں آپ کے اس پیار کو کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔ آپ کے اس استقبال کو کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔ اور گاؤوں کے اندر جتنا بھی وقت گزارنے کا موقع ملا، خود کے بچپن کے ساتھ بھی میں جڑ گیا۔ اس لیے میں بھی آپ گاؤں والوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U: 6100
(Release ID: 1831104)
Visitor Counter : 236
Read this release in:
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Bengali
,
Assamese
,
Manipuri
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam