وزارت خزانہ

سروسز سیکٹر کا مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 50فیصد سے زیادہ کا تعاون


22-2021 کی پہلی ششماہی کے دوران سروسز سیکٹر میں 10.8فیصد کا اضافہ درج کیا گیا

مجموعی خدمات کے سیکٹر  میں 8.2فیصد کا اضافہ ہونے کا امکان

22-2021 کی پہلی ششماہی میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی )کی آمد16.73بلین امریکی ڈالر

22-2021 کی پہلی ششماہی میں خدمات کی مجموعی برآمدات میں 22.8فیصد کا اضافہ

21-2020 میں آئی ٹی- بی پی ایم سیکٹر کا مالیہ2.26فیصد کے اضافے کے ساتھ 194 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا

2021 میں ریکارڈ 44 اسٹارٹ اپ یونیکورن کی حالت پر پہنچے

باربرداری کی کُل صلاحیت 2014 میں 1052.23 ایم ٹی پی اے سے بڑھ کر 2021 میں 1246.86 ایم ٹی پی اے تک پہنچ گئی

نجی سیکٹر کی شراکت داری کو بڑھانے کیلئے خلا کے سیکٹر میں متعدد اصلاحات کی گئیں

Posted On: 31 JAN 2022 2:49PM by PIB Delhi

نئی دہلی:31 جنوری،2022:خزانہ اور کارپوریٹ اُمور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نےآج پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 22-2021 پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں خدمات کے سیکٹر کا تعاون 50فیصد سے زیادہ رہاہے۔ جائزے میں اس بات کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے کہ رواں مالی برس کی پہلی ششماہی کے دوران خدمات کے سیکٹر کی مضبوط بحالی بھی درج کی گئی۔ اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے ‘‘22-2021 کی پہلی ششماہی کے دوران خدمات کے سیکٹر میں کُل ملاکر 10.8فیصد سال در سال کا اضافہ درج کیاگیا’’۔

سال 22-2021 میں مجموعی خدمات سیکٹر کا جی وی اے 8.2 فیصد بڑھنے کا امکان ہے۔ حالانکہ اقتصادی جائزے میں اس بات پر خصوصی زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کے پھیلنے کے سبب بالخصوص ان شعبوں میں مستقبل قریب میں کچھ حد تک غیریقینی کی صورتحال رہنے کی امید ہے جن میں انسانی رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002NHQ5.jpg

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00334OZ.jpg

خدمات کے سیکٹر میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں خدمات کے سیکٹر میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی آمد سب سے زیادہ رہی۔ سال 22-2021 کی پہلی ششماہی کے دوران خدمات کے سیکٹر میں 16.73 بلین امریکی ڈالر کی ایکویٹی آمد رہی۔ جائزے میں اُجاگر کیا گیا ہے کہ ‘‘مالیات، تجارت، آؤٹ سورسنگ ، تحقیق وترقی، کوریئر، تعلیم کے ذیلی سیکٹر کے ساتھ ٹیکنالوجی آزمائش اور تجزیے میں مضبوط  ایف ڈی آئی کی آمد درج کی گئی’’۔

 

خدمات کے سیکٹر میں تجارت

اقتصادی جائزے میں اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ خدمات کی عالمی برآمدات میں بھارت کا اہم مقام رہا۔ سال 2020 میں بھارت  خدمات برآمد کرنے والے سرفہرست دس ملکوں میں بنا رہا۔ عالمی تجارتی خدمات کی برآمدات میں بھارت کی شراکت داری سال 2019 میں 3.4 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 4.1فیصد ہوگئی۔ ‘‘تجارتی برآمدات کے مقابلے میں بھارت کی خدمات کی برآمدات پر کووڈ-19 کے سبب عالمی لاک ڈاؤن کا اثر کم شدید تھا’’۔ اقتصادی جائزے میں اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ ٹرانسپورٹ  خدمات کی برآمدات پر کووڈ-19 کے اثرات کے باوجود سافٹ ویئر برآمدات، تجارت اور ٹرانسپورٹیشن  خدمات کے تعاون کے بدولت خدمات کی مجموعی برآمدات میں دہائی کے اعداد وشمار میں اضافہ ہی درج کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مالی برس 22-2021 کی پہلی ششماہی میں خدمات کی خالص برآمدات میں 22.8فیصد کا اضافہ ہوا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004CO89.jpg

ذیلی سیکٹر وارکارکردگی

آئی ٹی –بی پی ایم (انفارمیشن ٹیکنالوجی- تجارتی طریقہ کار کا بندوبست )سیکٹر

اقتصادی جائزے میں آئی ٹی –بی پی ایم خدمات کو بھارت کے خدمات کے سیکٹر کے اہم جزو کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نیسکوم کے عبوری تخمینے کے مطابق سال 21-2020 کے دوران آئی ٹی – بی پی ایم مالیہ (ای-کامرس کو چھوڑ کر) سال در سال 2.26 فیصد بڑھ کر 1.38 لاکھ ملازمین کو جوڑتے ہوئے 194 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ آئی ٹی-بی پی ایم سیکٹر کے تحت آئی ٹی خدمات کی زیادہ حصہ داری (>51%) ہے۔ اقتصادی جائزہ میں کہاگیا ہے کہ پچھلے سال کے دوران دیگر خدمات فراہم کرنے والے ضابطوں میں نرمی ، ٹیلی مواصلات سیکٹر میں اصلاحات اور صارفین کے تحفظ (ای۔کامرس) ضوابط 2020 سمیت سیکٹر میں اختراع اور ٹیکنالوجی کو اپنانے کیلئے متعدد پالیسی اقدامات کیے گئے۔ جائزے میں تجویز پیش کی گئی ہے ‘‘اس سے صلاحیت تک رسائی کی توسیع ہوگی، روزگار میں اضافہ ہوگا اور یہ سیکٹر کو ترقی اور اختراع کے اگلی سطح تک لے جائیگا’’۔

 

اسٹارٹ اپ اور پیٹنٹس

اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں پچھلے 6 برسوں میں اسٹارٹ اپس کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ درج ہوا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اسٹارٹ اپس خدمات کے سیکٹر سے وابستہ ہیں۔ 10 جنوری 2022 تک حکومت بھارت میں 61400 سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو منظوری دے چکی ہے۔ اس کے علاوہ اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 2021 میں  ریکارڈ 44 اسٹارٹ اپس یونیکورن  کی حالت تک پہنچے۔ جائزے میں اس بات کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے کہ دانشورانہ املاک باالخصوص پیٹنٹس ،معلومات پر مبنی معیشت کی کلید ہیں۔ ‘‘بھارت میں دائر کردہ پیٹنٹس کی تعداد 11-2010 میں 39400 سے بڑھ کر 21-2020 میں 58502 ہوگئی ہے اور اسی مدت کے دوران بھارت میں منظور کیے گئے پینٹنٹ  7509 سے بڑھ کر 28391 ہوگئے ہیں۔

 

سیاحت کا سیکٹر

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ سیاحت کے سیکٹرکا تعاون  جی ڈی پی کی ترقی ،غیرملکی زرمبادلہ کی آمدنی اور روزگار کے شعبے میں کافی اہم تھا۔ حالانکہ کووڈ-19 وبا کے سبب بھارت سمیت سبھی جگہوں پر عالمی سفر اور سیاحت کو کمزور کرنے والا شدید اثر پڑا ہے۔ اقتصادی جائزے میں تجویز دی گئی ہے کہ بین الاقوامی سیاحت کا ازسر نو آغاز کافی حد تک سفری پابندیوں ،  ہم آہنگ تحفظ اور  حفاظتی پروٹوکول نیز صارفین کے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد کرنے کیلئے مؤثر اطلاعات  کے سلسلے میں ملکوں کے درمیان ایک مربوط رسپانس پر منحصر کرتا رہے گا۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ وندے بھارت مشن کے تحت خصوصی بین الاقوامی پروازیں شروع کی جارہی ہیں جو فی الحال اپنے پندرہویں مرحلے میں ہے اور 63.55 لاکھ مسافروں کو لے جاچکی ہیں۔

 

بندرگاہوں ، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی خدمات

اقتصادی جائزے میں کہاگیا ہے کہ بندرگاہوں کی ترقی معیشت کیلئے نہایت اہم ہے۔ بندرگاہوں نے درآمدات برآمدات کارگوکا تقریباً 90فیصداور مالیت کے لحاظ سے 70فیصد کو سنبھالا۔جائزے میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2021 تک سبھی بندرگاہوں کی کُل باربرداری صلاحیت بڑھ کر 1246.86 ملین ٹن  فی برس (ایم ٹی پی اے) ہوگئی جبکہ مارچ 2014 میں 1052.23ایم  ٹی پی اے تھی۔ سال 21-2020 میں کووڈ-19 کے سبب پیدا ہوئی رکاوٹوں سے متاثر ہونے کے باوجود  اپریل تانومبر 2021 کے دوران 10.16فیصد کا اضافہ درج ہونے کے ساتھ سال 22-2021 میں بندرگاہ ٹریفک میں بھی اضافہ درج ہوا ہے۔ ملک میں بندرگاہ پر مبنی ترقی کو بڑھاوا دینے کیلئے اہم پروگرام، ساگرمالاپروگرام کا بھی جائزے میں ذکرکیاگیا ہے۔ فی الحال 5.53 لاکھ کروڑ روپئے کے کُل 802 پروجیکٹس اس پروگرام کا حصہ ہیں۔

 

خلا کا سیکٹر

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ 1960 کی دہائی میں اپنے قیام کے بعد سے ہی بھارت کے خلائی پروگرام کی کافی ترقی ہوئی ہے۔ خلا کے سیکٹر سے متعلق اندرون ملک تیار کردہ اسپیس ٹرانسپورٹیشن  نظام، سماج کے مطابق ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے سیٹلائٹس کے بیڑے سمیت خلائی اثاثوں کے کُل ڈومین میں صلاحیتوں کو فروغ دیا گیا ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے خلا پر مبنی خدمات فراہم کرنے میں نجی سیکٹر کی شراکت داری کا تصور کرتے ہوئے سال 2020 میں خلا کے سیکٹر میں مختلف اصلاحات کیے۔ ان اصلاحات میں نیو اسپیس انڈیا لمیٹیڈ (این ایس آئی ایل) کو مستحکم بنانا اور  موجودہ سپلائی پر مبنی ماڈل کو مانگ پر مبنی ماڈل میں بدلنا، محکمہ خلا کے تحت آزاد نوڈل ایجنسی یعنی انڈین نیشنل اسپیس پرموشن ا ینڈ اتھورائزیشن سینٹر (اِن-اسپیس)  کا قیام نیز ملک میں خلائی سرگرمیوں کیلئے ایک پیش قیاسی، آگے نظر رکھنے والی، واضح اور مؤثر انضباطی نظام فراہم کرنا شامل ہے۔

 

-----------------------

ش ح۔م ع۔ ع ن

U NO: 882



(Release ID: 1793942) Visitor Counter : 241