وزیراعظم کا دفتر

بینک ڈپازٹ بیمہ پروگرام میں جمع کنندگان سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 12 DEC 2021 4:43PM by PIB Delhi

نئی دہلی:12 دسمبر،2021۔اسٹیج پر تشریف فرما وزیر خزانہ جی، خزانہ کے وزیر مملکت جی، آر بی آئی کے گورنر، نبارڈ کے چیئرمین،ڈپازٹ انشورنس اینڈ کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن اور ملک کے سب سے بڑے بینکنگ گروپوں کے افسران، مختلف ریاستوں میں الگ الگ جگہوں پر موجود وزراء کی کونسل کے میرے ساتھی، وہاں کے اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی اور وہاں رہنے والے سارے ڈپازیٹر، ہمارے سارے جمع کنندگان بھائیو اور بہنوں،

آج ملک کے لئے بینکنگ سیکٹر کیلئے اور ملک کے کروڑوں بینک اکاؤنٹ ہولڈرس کیلئے بہت ہی اہم دن ہے۔ دہائیوں سے چلا آرہا ایک بڑے مسئلے کا کیسے حل نکالا گیا ہے، آج کا دن اس کا گواہ بنا ہے۔ آج کی تقریب کا جو نام دیا گیا ہے اس میں ڈپازیٹر فرسٹ، جمع کنندگان سب سے پہلے کے جذبے کو سب سے پہلے رکھنا، اور اسے اور مضبوط بنارہا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ڈپازیٹرس کو برسوں سے پھنسا ہوا ان کا پیسہ ان کے کھاتے میں جمع ہوگیا ہے اور یہ رقم تقریباً 1300 کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہے۔ ابھی آج یہاں اس پروگرام میں اور ا س کے بعد بھی 3 لاکھ اور ایسے ڈپازیٹرس کو بینکوں میں پھنسا ان کا پیسہ ان کے کھاتے میں جمع ہونے والا ہے، پیسہ ان کو ملنے والا ہے۔ یہ اپنے آپ میں چھوٹی بات نہیں ہے اور میں خاص کر ہمارے ملک کو ہمارے جو میڈیا کے ساتھی ہیں، آج میں ان سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں اور میرا تجربہ ہے جب سوچھتا ابھیان چل رہا تھا، میڈیا کے دوستوں کو گزارش کی آج بھی اس کو وہ برابر میری مدد کررہے ہیں۔ آج میں پھر سے ان سے گزارش کررہا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ بینک ڈوب جائے تو کئی دنوں تک خبریں پھیلی رہتی ہیں ٹی وی پر اخباروں میں، فطری بھی ہے، واقعہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی ہیڈلائنس بھی بن جاتی ہیں۔ بہت فطری ہے۔ دیکھئے آج جب ملک نے ایک بہت بڑا ریفارم کیا ، ایک بہت بڑا مضبوط انتظام شروع کیا ہے۔ ڈپازیٹر س کو، جمع کنندگان کو ان کا پیسہ واپس دلایا جارہا ہے۔ میں چاہتا ہوں اس کی بھی اتنی ہی چرچا میڈیا میں ہو، باربار ہو۔ اس لئے نہیں کہ مودی نے کیا ہے اس لئے کررہا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملک کے ڈپازیٹرس میں اعتماد پیدا ہو۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے غلط وجوہات سے، غلط عادتوں سے بینک ڈوبے گا، ہوسکتا ہے، لیکن جمع کنندگان کا پیسہ نہیں ڈوبے گا، جمع کنندگان کا  پیسہ محفوظ رہے گا۔ اس پیغام سے ملک کے جمع کنندگان میں اعتماد پیدا ہوگا۔ بینکنگ بندوبست پر بھروسہ ہوگا، اور یہ بہت ضروری ہے۔

بھائیو اور بہنوں،

کوئی بھی ملک وقت پر مسائل کا حل کرکے ہی انہیں بڑا ہونے سے بچا سکتا ہے۔ لیکن آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ برسوں تک ہمارے یہاں ایک ہی روایت رہی کہ بھائی مسئلہ ہے ٹال دو۔ دری کے نیچے ڈال دو۔ آج کا نیا بھارت، مسائل کے حل پر زور دیتا ہے، آج بھارت مسائل کو ٹالتا نہیں ہے۔ آپ ذرا یاد کیجئے، کہ ایک وقت تھا جب کوئی بینک بحران میں آجاتا تھا تو ڈپازیٹرس کو جمع کنندگان کو اپنا ہی پیسہ، یہ پیسہ ان کا خود کا ہے، جمع کنندگان کا پیسہ ہے۔ ان کا خود کا پیسہ پانے میں ناکوں دم نکل جاتا تھا۔ کتنی پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ اور چہار جانب جیسے ہاہاکار مچ جاتا تھا۔ اور یہ بہت فطری بھی تھا۔ کوئی بھی شخص بہت یقین کے ساتھ بینک میں پیسہ جمع کراتا ہے۔ خاص کر ہمارے متوسط طبقے کے خاندان، جو فکسڈ سیلری والے لوگ ہیں وہ، فکسڈ انکم والے لوگ ہیں، ان لوگوں کی زندگی میں تو بینک ہی ان کا آسرا ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی غلط پالیسیوں کے سبب جب بینک ڈوبتا تھا، تو صرف ان خاندانوں کو صرف پیسہ نہیں پھنستا تھا، ایک طرح سے ان کی پوری زندگی ہی پھنس جاتی تھی۔ پوری زندگی ، سارا ایک طرح سے اندھیرا سا لگتا تھا۔ اب کیا کریں گے۔ بیٹے- بیٹی کے کالج کی فیس بھرنی ہے۔ کہاں سے بھریں گے؟ بیٹے-بیٹی کی شادی کرنی ہے کہاں سے پیسے آئیں گے؟ کسی بزرگ کا علاج کرانا ہے، کہاں سے پیسہ لائیں گے ؟ ابھی بہن جی مجھے بتا رہی تھی کہ ان کے خاندان میں دل کا آپریشن کرانا تھا۔ کیسی دقت آئی اور اب یہ کیسا کام ہوگیا۔ ان سوالوں کا پہلے کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کو بینک سے اپنا ہی پیسہ حاصل کرنے میں نکلوانے میں برسوں لگ جاتے تھے۔ ہمارے غریب بھائی- بہنوں نے، متوسط طبقے کے لوگوں نے، ہمارے متوسط طبقے نے دہائیوں تک ایسی صورتحال کا سامنا کیا ہے، سہا ہے۔ خاص طور سے کو-آپریٹیو بینکوں کے معاملے میں مسائل اور زیادہ ہوجاتے تھے۔ آج جو لوگ الگ- الگ شہروں سے اس پروگرام میں جڑے ہیں، وہ اس درد، اس تکلیف کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے ہی ، ہماری سرکار نے نہایت حساسیت کے ساتھ فیصلے لئے، اصلاحات کیے، قانون میں تبدیلی کی۔ آج کایہ پروگرام ان فیصلوں کا ہی ایک نتیجہ ہے۔ اور مجھے برابر یاد ہے میں وزیراعلیٰ رہا ہوں اور بینک میں طوفان کھڑا ہوجاتا تھا تو لوگ ہمارا ہی گلا پکڑتے تھے۔ یہ تو فیصلہ بھارت سرکار کو کرنا ہوتا تھایا ان بینک والوں کو کرنا تھا لیکن پکڑتے تھے وزیراعلیٰ کو۔ ہمارے پیسوں کا کچھ کرو، مجھے کافی پریشانیاں اس وقت رہتی تھی، اور ان کا درد بھی بہت فطری تھا۔ اور اس وقت میں بھارت سرکار کو بار بار درخواست کرتا تھا کہ ایک لاکھ روپئے کی رقم ہمیں پانچ لاکھ بڑھانی چاہئے تاکہ زیادہ خاندانوں کو ہم مطمئن کرسکیں۔ لیکن خیر، میری بات نہیں مانی گئی۔ انہوں نے نہیں کیا تو لوگوں نے ہی کیا، مجھے بھیج دیا یہاں۔ میں نے کر بھی دیا۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں بینک ڈپازیٹرس کے لئے بیمہ کا بندوبست کی60کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔ یعنی اس میں بھی قریب 60 سال ہوگئے۔ پہلے بینک میں جمع رقم میں سے صرف 50 ہزار روپئے تک کی رقم پر ہی گارنٹی تھی۔ پھر اسے بڑھا کر ایک لاکھ روپئے کردیا گیا تھا۔ یعنی اگر بینک ڈوبا، تو ڈپازیٹرس کو، جمع کنندگان کو صرف ایک لاکھ روپئے تک ہی ملتا تھا، لیکن وہ بھی  گارنٹی نہیں کب ملے گا۔ 8-8 اور 10-10 سال تک معاملہ لٹکا رہتا تھا۔ کوئی وقت کی پابندی نہیں تھی۔ غریب کی تشویش اور فکر کو سمجھتے ہوئے، متوسط طبقے کی فکر کو سمجھتے ہوئے، ہم نے اس رقم کو ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپئے کردیا ہے۔ یعنی آج کی تاریخ میں کوئی بھی بینک بحران میں آتا ہے، تو ڈپازیٹرس کو، جمع کنندگان کو، پانچ لاکھ روپئے تک تو ضرور واپس ملے گا۔اور اس بندوبست سے لگ بھگ 98 فیصد لوگوں کے اکاؤنٹس پوری طرح سے کور ہوچکے ہیں۔ یعنی دوفیصد کا ہی تھوڑا تھوڑا رہ جائیگا۔ 98فیصد لوگوں کا جتنا پیسہ ان کا ہے سارا کور ہورہا ہے۔ اور آج ڈپازیٹرس کا لگ بھگ، یہ عدد بھی بہت بڑا ہے۔ آزادی کا 75واں سال چل رہا ہے۔ امرت مہوتسو چل رہا ہے، یہ جو ہم فیصلے کررہے ہیں، اس سے 76 لاکھ کروڑ روپئے پوری طرح بیمہ شدہ ہے۔ اتنا وسیع حفاظتی کوچھ تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں ہے۔

ساتھیو،

قانون میں ترمیم کرکے، اصلاحات کرکے ایک اور مسئلے کا حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے جہاں پیسہ واپسی کی کوئی وقت کی حد نہیں تھی، اب ہماری سرکار  نے اسے 90دن یعنی تین مہینے کے اندر یہ کرنا ہی ہوگا، یہ قانوناً طے کرلیا ہے۔ یعنی ہم نے ہی سارے بندھن ہم پر ڈالے ہیں۔ کیوں کہ اس ملک کے عام آدمی، اس ملک کے متوسط طبقے ہی، اس ملک کے غریب کی ہمیں فکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بینک کمزور ہوجاتا ہے، بینک اگر ڈوبنے کی حالت میں بھی ہے، تو 90 دن کے اندر جمع کنندگان کو ان کا پیسہ واپس مل جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ قانون میں ترمیم کے 90 دن کے اندر ہی، ہزاروں ڈپازیٹرس کے دعووں کا بھی تصفیہ کیا جاچکا ہے۔

ساتھیو،

ہم سب بڑے دانشور، عقلمند، ماہرمعاشیات تو بات کو اپنے اپنے طریقے سے بتاتے ہیں۔ میں اپنی سیدھی سادھی زبان میں بتاتا ہوں۔ ہر کوئی ملک ترقی چاہتا ہے، ہر ملک ترقی چاہتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں یاد رکھنی ہوگی۔ ملک کی  خوشحالی میں بینکوں کا بڑا کردار ہے۔ اور بینکوں کی خوشحالی کیلئے ڈپازیٹرس کا پیسہ محفوظ رہنا وہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں بینک بچانے ہیں تو ڈپازیٹرس کو تحفظ دینا ہی ہوگا، اور ہم نے یہ کام کرکے بینکوں کو بھی بچایا ہے، ڈپازیٹرس کو بھی بچایا ہے۔ ہمارے بینک، جمع کنندگان کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کیلئے بھی اعتماد کے عکاس ہیں۔ اسی بھروسے، اسی اعتماد کو مستحکم کرنے کیلئے گزشتہ برسوں سے ہم مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ پچھلے برسوں میں متعدد چھوٹے سرکاری بینکوں کو بڑے بینکوں کے ساتھ انضمام کرکے، ان کی کیپسٹی، کیپبلٹی اور ٹرانسپیرنسی ، پرطرح سے مضبوط کیا گیا ہے۔ جب آر بی آئی، کو-آپریٹیو بینکوں کی نگرانی کرے گا تو اس سے بھی ان کے تئیں عام ڈپازیٹرس کا بھروسہ اور بڑھے گا، ہم نے کو-آپریٹیو کا ایک نیا بندبست کیا ہے، ہم نے نئی وزارت بنائی ہے۔ اس کے پیچھے بھی کو-آپریٹیو اداروں کو طاقتور بنانے کاارادہ ہے۔ کو-آپریٹیو وزارت کے طور مزید انتظام کرنے سے بھی کو-آپریٹیو بینک مزید مستحکم ہونے والے ہیں۔

ساتھیو،

دہائیوں دہائیوں تک ملک میں یہ مانا جاتا تھا کہ بینک صرف زیادہ پیسے والوں کیلئے ہوتے ہیں یہ امیروں کا گھرانہ ہے، ایسا لگتا تھا۔ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہی جمع کرتا ہے۔ جس کے پاس بڑا بزنس ہے، اسی کو جلدی اور زیادہ لون ملتاہے۔ یہ بھی مان لیاجاتا تھا کہ پنشن اور بیمہ جیسی سہولتیں بھی اسی کے لئے ہے، جس کے پاس پیسہ ہے، دھن ہے۔ دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت کیلئے یہ ٹھیک نہیں تھا۔ نہ یہ بندوبست ٹھیک ہے نہ یہ سوچ ٹھیک ہے۔ اور اس کو بدلنے کیلئے بھی ہم مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ آج کسان، چھوٹے دوکاندار، کھیت مزدور، کنسٹرکشن اور گھروں میں کام کرنے والے مزدور ساتھیوں کو بھی پنشن کی سہولت سے جوڑاجارہا ہے۔ آج ملک کے کروڑوں غریبوں کو 2-2 لاکھ کے حادثہ اور جیون بیمہ کے حفاظتی کوچ کی سہولت ملتی ہے۔ پی ایم جیون جیوتی بیمہ یوجنا اور پی ایم سرکشا بیمہ یوجنا کے تحت لگ بھگ 37 کروڑ ملک کے شہری اس حفاظتی کوچ کے دائرے میں آچکے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے اب  جاکر ملک  کے فائنانشیل سیکٹر کا، ملک کے بینکنگ سیکٹر کا صحیح معنی میں جمہوری ہوا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں مسئلہ صرف بینک اکاؤنٹ کا ہی نہیں تھا، بلکہ دور دراز کے گاؤں میں بینکنگ خدمات پہنچانے کی بھی تھی۔ آج ملک کے قریب قریب ہر گاؤں میں 5کلو میٹر کے دائرے میں بینک برانچ یا بینکنگ کراسپانڈنٹ کی سہولت پہنچ چکی ہے۔ پورے ملک میں آج لگ بھگ ساڑھے آٹھ لاکھ بینکنگ ٹچ پوائنٹس ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیاکے توسط سے ہم نے ملک میں بینکنگ اور مالیاتی شمولیت کو نئی بلندی دی ہے۔ آج بھارت کاعام شہری کبھی بھی، کہیں بھی، ساتوں دن، 24 گھنٹے، چھوٹے سے چھوٹا لین دین بھی ڈیجیٹل طریقے سے کر پارہا ہے۔ کچھ سال پہلے تک اس بارے میں سوچنا تو دور، بھارت کی طاقت پر اعتماد نہ کرنے والے لوگ اس بات کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

ساتھیو،

بھارت کے بینکوں کی طاقت ملک کے شہریوں کی طاقت بڑھائے، اس سمت میں ہماری سرکار لگاتار کام کررہی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ریہڑی، ٹھیلے، فیری-پٹری والے کو بھی، اسٹریٹ وینڈرس کو بھی بینک سے قرض مل سکتا ہے؟ نہ اس نے کبھی سوچا نہ ہم بھی سوچ سکتے۔ لیکن آج مجھے بڑے اطمینان کے ساتھ کہنا ہے۔ آج ایسے لوگوں کو سوندھی یوجنا سے قرض بھی مل رہا ہے اور وہ اپنے کاروبار کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ آج مدرا یوجنا، ملک کے ان علاقوں، ان خاندانوں کو بھی خودروزگار سے  جوڑ رہے ہیں، جنہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ آپ سبھی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں، چھوٹی زمین والے کسان، ہمارے ملک میں 85 فیصد کسان چھوٹے کسان بہت چھوٹا سازمین کا ٹکڑا ہے ان کے پاس، اتنے بینکوں کے ہوتے ہوئے بھی ہمارا چھوٹا کسان بازار سے کسی تیسرے سے، مہنگی شرح سود پر قرض لینے کیلئے مجبور تھا۔ ہم نے ایسے کروڑوں چھوٹے کسانوں کو بھی  کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے جوڑا اور اس کا دائرہ مویشی پالن اور ماہی پروروں تک ہم نے بڑھا دیا۔ آج بینکوں سے ملا لاکھوں کروڑ روپئے کا آسان اور سستا قرض ، ان ساتھیوں کی زندگی  آسان بنارہا ہے۔

ساتھیو،

زیادہ سے زیادہ ملک کے شہریوں کو بینک سے جوڑنا ہو، بینک لون آسانی سے نکالناہو، ڈیجیٹل بینکنگ، ڈیجیٹل پیمنٹ کا تیزی سے توسیع کرنی ہو، ایسے متعدد اصلاحات ہیں جنہوں نے 100 سال کی سب سے بڑی مصیبت میں بھی بھارت کے بینکنگ نظام کو آسانی سے چلانے میں مدد کی ہے۔ میں بینک کے ہر ساتھی کو مبارکباد دیتا ہوں اس کام کے لئے، کہ بحران کی گھری میں انہوں نے لوگوں کو اکیلانہیں چھوڑا۔ جب دنیا کے مضبوط ملک اپنے شہریوں تک مدد پہنچانے میں جدوجہد کا سامنا کررہے تھے، تب بھارت نے تیز رفتار سے ملک کے قریب قریب ہر طبقے تک براہ راست مدد پہنچائی۔ ملک کے بینکنگ سیکٹر میں جو طاقت پچھلے برسوں میں ہم نے تیار کی ہے، اسی خوداعتمادی کے سبب ملک کے شہریوں کی زندگی بچانے کیلئے سرکار بڑے فیصلے لے پائی۔ آج ہماری معیشت تیزی سے سدھری تو ہے ہی بلکہ مستقبل کیلئے بہت مثبت اشارے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

بھائیو اور بہنوں،

فائنانشیل انکلوزن اور یعنی مالیاتی شمولیت اور ایز آف ایکسس ٹو کریڈٹ یعنی قرض تک آسان رسائی کا سب سے بڑا فائدہ اگر ہوا ہے تو ہماری بہنوں کو ہوا ہے، ہماری ماؤں ، ہماری بیٹیوں کو ہوا ہے۔ یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ آزادی کے اتنے برسوں تک ہماری زیادہ بہنیں -بیٹیاں اس فائدے سے محروم رہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ مائیں اور بہنیں اپنی چھوٹی بچت کو رسوئی میں راشن کے ڈبوں میں رکھتی تھیں۔ اس کے لئے پیسہ رکھنے کی جگہ وہی تھی، اناج کے اندر رکھے رکھنا، کچھ لوگ تو اسے بھی سلیبریٹ کرتے تھے۔ جس بچت کو محفوظ رکھنے کیلئے بینک بنائے گئے ہیں، اس کا استعمال آدھی آبادی نہ کرپائے، یہ ہمارے لئے بہت بڑی فکر کی بات تھی۔ جن دھن یوجنا کے پیچھے اسی فکر کو حل کرنے کابھی اہم رول رہا ہے۔ آج اس کی کامیابی سب کے سامنے ہے۔ جن دھن یوجنا کے تحت کھلے کروڑوں بینک اکاؤنٹس میں سے آدھے سے زیادہ بینک اکاؤنٹ ہماری ماؤں اور بہنوں کے ہیں، خواتین کے ہیں۔ ان بینک اکاؤنٹس کا خواتین کے اقتصادی بااختیاری پر جو اثر ہوا ہے، وہ ہم نے حال میں آئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بھی دیکھا ہے۔ جب یہ سروے کیا گیا، تب تک ملک میں لگ بھگ 80 فیصد خواتین کے پاس اپنا خود کا بینک اکاؤنٹ تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جتنے بینک اکاؤنٹ شہری خواتین کیلئے کھلے ہیں، لگ بھگ اتنے ہی دیہی خواتین کیلئے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ جب اچھی اسکیمیں ڈلیور کرتی ہیں تو سماج میں جو نابرابری ہے ان کو دور کرنے میں بھی بہت بڑی مدد ملتی ہے۔ اپنا بینک اکاؤنٹ ہونے سے خواتین میں معاشی بیداری تو بہت بڑھی ہی ہے، خاندان میں معاشی فیصلے لینے کی ان کی حصہ داری میں بھی توسیع ہوئی ہے۔ اب خاندان کچھ فیصلے کرتا ہے تو ماں-بہنوں کو بٹھاتا ہے، ان کی رائے لیتا ہے۔

ساتھیو،

مدرا یوجنا میں بھی لگ بھگ 70 فیصد مستفیدین خواتین ہیں۔ ہمارا یہ بھی تجربہ رہا ہےجب خواتین کو قرض ملتا ہے تو اس کو لوٹانے میں بھی ان کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی قابل تعریف ہے۔ ان کو اگر بدھ کو پیسہ جمع کرنے کی آخری تاریخ ہے تو پیر کو جاکر کے دے آتی ہیں۔ اسی طرح سے سیلف ہیلپ گروپ، خود امدادی گروپوں کی کارکردگی، یہ بھی بہت بہترین ہے۔ ایک طرح سے پائی۔ پائی جمع کرادیتی ہیں ہماری مائیں-بہنیں۔ مجھے یقین ہے کہ سب کی کوشش سے ، سب کی حصہ داری سے، اقتصادی سطح پر بااختیار بنانے کا یہ ابھیان بہت تیزی سے آگے بڑھنے والا ہے۔ اور ہم سب  اس کو بڑھانے والے ہیں۔

ساتھیو،

آج وقت کی مانگ ہے کہ بھارت کا بینکنگ سیکٹر، ملک کے اہداف کو حاصل کرنے میں پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ہر بینک برانچ، 75 سال میں انہوں نے کیے ہیں، ان سارے ریکارڈوں کو پیچھے چھوڑ کر، اس کو ڈیڑھ گنا، دو گنا کرنے کا ہدف، لیکر کے چلیں۔ دیکھئے صورتحال بدلتی ہے کہ نہیں بدلتی ہے۔ پرانے تجربات کی وجہ سے، قرض دینے میں آپ کی جو بھی جھجک رہی ہے، اس سے اب باہر نکلنا چاہیے۔ ملک کے دور-دراز علاقوں میں گاؤں قصبوں میں بڑی تعداد میں ملک کے شہری اپنے خواب پورا کرنے کیلئے بینکوں سے جڑناچاہتے ہیں، آپ اگر آگے بڑھ کر لوگوں کی مدد کریں گے تو، زیادہ سے زیادہ لوگوں کی اقتصادی طاقت بھی بڑھے گی اور اس سے آپ کی خود کی طاقت میں بھی اضافہ ہوگا۔ آپ کی یہ کوشش، ملک کو خودکفیل بنانے میں، ہماری چھوٹی صنعتوں، متوسط طبقے کے نوجوانوں کوآگے بڑھنے میں مدد کریں گے۔ بینک اور جمع کنندگان کا بھروسہ نئی بلندی پر پہنچے گا اور آج کا یہ موقع ہر ایک ڈپازیٹرس میں ایک نیا اعتماد بھرنے والا موقع ہے۔ اور اس سے بینکوں کی رسک ٹیکنگ کیپسٹی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ اب بینکوں کے لئے بھی موقع ہے، ڈپازیٹرس کے بھی موقع ہے۔ ایسے مبارک موقع پر میری آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات، بہت۔ بہت نیک تمنائیں! شکریہ!

-----------------------

ش ح۔م ع۔ ع ن

U NO:14148



(Release ID: 1780716) Visitor Counter : 574