وزیراعظم کا دفتر
وجلینس اور انسدادِ بد عنوانی پر قومی کانفرنس سے وزیر اعظم کے افتتاحی خطاب کا متن
Posted On:
27 OCT 2020 6:41PM by PIB Delhi
کابینہ کے میرے ساتھی ، جناب ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی ، سی وی سی ، آر بی آئی کے ارکان ، حکومتِ ہند کے سکریٹری ، سی بی آئی کے حکام ، ریاستوں کے چیف سکریٹریز ، ریاستی سی آئی ڈی ٹیموں کے سربراہان ، بینکوں کے سینئر حکام اور اس پروگرام میں حصہ لینے والی سبھی عظیم شخصیات ، نیشنل کانفرنس آن وجلینس اینڈ اینٹی کرپشن کے انعقاد کے لئے سی بی آئی ٹیم کو میں مبارکباد دیتا ہوں ۔
آج سے نگرانی بیداری ہفتہ کا آغاز ہو رہا ہے ۔ کچھ ہی دنوں میں ، ملک سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش منانے کی تیاری کر رہا ہے۔ سردار صاحب 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے ساتھ ملک کے انتظامی نظام کے معمار تھے۔ ملک کے پہلے وزیر داخلہ کی حیثیت سے ، انہوں نے ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی ، جو ملک کے عام انسانوں کے لئے ہو ، جس کی پالیسیوں میں اخلاقیات ہو لیکن بعدکی دہائیوں میں ہم نے دیکھا کہ کچھ الگ ہی حالات پیدا ہوگئے تھے۔ آپ سب کو یاد ہوگا ، ہزاروں کروڑ کے گھوٹالے ، فرضی کمپنیوں کا جال ، ٹیکس ہراسانی ، ٹیکس چوری ، یہ سب کئی سالوں سے بحث و مباحثے کا مرکز رہے۔
دوستو ، جب ملک نے 2014 ء میں ایک بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ، جب ملک ایک نئی سمت میں آگے بڑھا ، اس ماحول کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ کیا ملک اس طرح چلتا رہے گا ، ملک میں یہ ہوتا ہی رہے گا ، اس سوچ کو بدلنا ۔ حلف برداری کے بعد ، اس حکومت کے پہلے 2 – 3 احکامات میں کالے دھن کے خلاف کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ اس کمیٹی کی تشکیل سپریم کورٹ کے کہنے کے باوجود التوا میں تھی ۔ اس فیصلے سے بدعنوانی کے خلاف حکومت کی وابستگی ظاہر ہوئی۔ گذشتہ برسوں کے دوران ، ملک بدعنوانی پر بالکل بھی برداشت نہ کرنے کے طریقۂ کار کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ سال 2014 ء سے اب تک ملک کے انتظامی نظام ، بینکنگ نظام ، صحت کے شعبے ، تعلیم کے شعبے میں ، محنت ، زراعت ، ہر شعبے میں اصلاحات ہوئی ہیں ۔ یہ عظیم اصلاحات کا دور تھا۔ آج ان اصلاحات کی بنیاد پر ، ہندوستان خود کفیل بھارت کی مہم کو کامیاب بنانے میں پوری قوت کے ساتھ مصروف ہے۔
ہمارا مقصد ہندوستان کو دنیا کے صف اول کے ملکوں میں شامل کرنا ہے لیکن ساتھیو ، ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس ، جو انتظامی نظام موجود ہے ، وہ شفاف ہو ، ذمہ دار ہو اور جوابدہ ہو ، عوام کے تئیں جوابدہ ہوں۔ ان سارے نظاموں کی سب سے بڑی دشمن بدعنوانی ہے۔ بدعنوانی صرف چند روپئے کی بات نہیں ہے۔ ایک طرف ، بدعنوانی ملک کی ترقی کو ٹھیس پہنچاتی ہے اور اسی کے ساتھ بدعنوانی معاشرتی توازن کو بھی تباہ کر دیتی ہے اور سب سے اہم ، ملک کے نظام پر ، جو بھروسہ ہونا چاہیئے ، ایک اپنے پن کا ، جو جذبہ ہونا چاہیئے ، بدعنوانی ، اُس بھروسے پر حملہ کرتی ہے اور اس لئے بد عنوانی کا ڈٹ کا مقابلہ کرنا صرف ایک ایجنسی یا ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس سے نمٹنا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔
دوستو ، سی بی آئی کے ساتھ ساتھ ، دیگر ایجنسیاں بھی اس کانفرنس میں حصہ لے رہی ہیں۔ ایک طرح سے ، ان تین دنوں تک ، تقریباً وہ سبھی ایجنسیاں ایک پلیٹ فارم پر رہیں گی ، جن کا 'چوکس بھارت ، خوشحال بھارت ' میں بہت بڑا کردار ہے۔ یہ تین دن ہمارے لئے ایک موقع کی طرح ہیں کیونکہ بدعنوانی خود میں ایک واحد چیلنج نہیں ہے۔ جب ملک کا سوال آتا ہے تو چوکسی کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ بدعنوانی ہو ، معاشی جرائم ہوں ، منشیات کا جال ہو ، منی لانڈرنگ ہو یا دہشت گردی ہو ، دہشت گردی کی مالی اعانت ہو ، یہ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ، ہمیں بد عنوانی کے خلاف منظم روک تھام ،موثر آڈٹ ، صلاحیت سازی اور تربیت کا کام مل کر ایک جامع طریقۂ کار کے ساتھ کرنا ہو گا ۔ سبھی ایجنسیوں کے درمیان ایک ہم آہنگی ، ایک باہمی تعاون کا جذبہ ، آج وقت کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کانفرنس ، اس کے لئے ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر ابھرے گی اور 'چوکس بھارت ، خوشحال بھارت ' کی نئی راہ تجویز کرے گی ۔
دوستو ، 2016 ء میں وجلینس بیداری کے پروگرام میں ، میں نے کہا تھا کہ غریبی سے لڑ رہے ہمارے ملک میں بد عنوانی کے لئے رَتّی بھر بھی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ کرپشن کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو وہ ملک کا غریب ہے۔ ایماندار شخص کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ دہائیوں سے ہمارے یہاں ، جو صورتِ حال بنی ہوئی تھی ، اس میں غریب کو ، اُس کا حق نہیں ملتا تھا ۔ پہلے کے حالات مختلف تھے لیکن اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ ڈی بی ٹی کے توسط سے غریبوں کو ملنےوالا فائدہ 100 فی صد غریبوں کو براہ راست ، اُن کے بینک کھاتوں میں پہنچ رہا ہے۔ صرف ڈی بی ٹی کی وجہ سے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ رہے ہیں ۔ آج یہ بات فخر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ملک نے ہزاروں کروڑ گھوٹالوں کے اس دور کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج ، ہم مطمئن ہیں کہ ملک کے اداروں میں عام لوگوں کا اعتماد ایک بار پھر بڑھ گیا ہے ، ایک مثبت احساس پیدا ہوا ہے۔
دوستو ، حکومت کا ، اِس بات پر بہت زیادہ زور ہے کہ نہ ہی حکومت کا دباؤ ہو اورنہ ہی حکومت کا فقدان ہو ۔ حکومت کی جہاں ، جتنی ضرورت ہے ، اتنی ہی ہونی چاہیئے ۔ لوگ حکومت کا دباؤ بھی محسوس نہ کریں اور نہ ہی وہ حکومت کی کمی محسوس کریں۔ اس لئے پچھلے سالوں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ قوانین کو ختم کیا گیا ہے ، بہت سے اصولوں کو آسان بنایا گیا ہے۔ پنشن ہو ، اسکالرشپ ہو ، پانی کا بل ہو ، بجلی کا بل جمع کرانا ہو ، بینک سے لون ہو ، پاسپورٹ بنوانا ہو ، لائسنس بنوانا ہو ، کسی طرح کی سرکاری مدد ہو ، کوئی نئی کمپنی کھولنی ہو ، اب اُسے دوسروں کے پاس چکر نہیں لگانا پڑتا ، گھنٹوں تک لمبی لمبی لائنوں میں نہیں لگنا پڑتا ۔ اب یہی کام کرنے کے لئے ، اُس کے پاس ڈجیٹل متبادل موجود ہے ۔
دوستو ، ہمارے یہاں کہتے ہیں ، 'پرکاشلنادھی پنکسیہ درات اسپرشنامہ ورمہ' یعنی گندگی لگ جائے ، پھر اُسے صاف کرو ، اس سے اچھا ہے کہ گندگی لگنے ہی نہ دو ۔ تادیبی وجلینس سے بہتر ہے کہ روک تھام کی وجلینس پر کام کیا جائے ۔ جس صورتِ حال کی وجہ سے بد عنوانی پنپتی ہے ، اُن پر حملہ ضروی ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دور میں اونچے عہدے پر ٹرانسفر پوسٹنگ کا کتنا بڑا کھیل ہوتاتھا ۔ ایک الگ ہی انڈسٹری چلتی تھی ۔
دوستو ، کوٹلیہ نے کہا تھا ، " نہ بھکشینتی یے توتھارنیہ نیایہ تو وردھ ینتی چہ ۔ نتیا دھیکارا : کاریاستے راگیہ : پریہ ہتے رتہ : !! یعنی حکمراں دھن نہیں ہڑپتے بلکہ درست طریقے سے ، اُس میں اضافہ کرتے ہیں ، راج ہِت میں لگے رہنے والے ، ایسے حکومت کےکارکنوں کو اہم عہدوں پرمقرر کیا جانا چاہیئے ۔ لیکن کچھ سال پہلے یہ بات ایک طرح سے بھلا دی گئی تھی ۔ اس کا بہت بڑا نقصان بھی ملک نے دیکھا ہے ۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کےلئے بھی حکومت نے اپنی قوت ارادی ظاہر کی ہے ، بہت سے پالیسی فیصلے کئے ہیں ۔ اب اعلیٰ عہدوں پر تقرری میں سفارشوں کا ، یہاں وہاں سے دباؤ بنانے کا دور ختم ہو گیا ہے ۔ گروپ بی اور گروپ سی میں ، جیسا کہ ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے بتایا ہے ، نوکریوں میں انٹرویو کی رکاوٹ کو بھی ختم کردیا گیا ہے یعنی جب گنجائش ختم ہو گئی تو کئی طرح کے کھیل بھی ختم ہو گئے ۔ بینک بورڈ بیورو کی تشکیل کے ساتھ ہی بینکوں میں اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔
دوستو ، ملک کے وجلینس نظام کو مستحکم کرنے کے لئے بھی کئی قانونی اصلاحات کی گئیں ، نئے قانون متعارف کرائے گئے۔ ملک نے کالے دھن اور بے نامی جائیداد پر ، جو قانون بنائے ہیں ، جو قدم اٹھائے ہیں ، آج ان کی مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں دی جارہی ہے۔ مفرور معاشی مجرموں سے متعلق قانون کے ذریعے بدعنوان لوگوں پر کارروائی میں بڑی مدد ملی ہے۔ آج ہندوستان ، دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے ، جہاں فیس لیس ٹیکس اسسمنٹ کا نظام نافذ کیا جا چکا ہے ۔ آج ہندوستان ، دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہیں ، جہاں بدعنوانی کی روک تھام کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ حکومت کی ترجیح یہ رہی ہے کہ نگرانی سے متعلقہ ایجنسیوں کو بہتر ٹکنالوجی فراہم کی جائے ، صلاحیت سازی ہو ، اُن کے پاس جدید ترین بنیادی ڈھانچہ اور سازوسامان ہو تاکہ وہ زیادہ موثر انداز میں کام کرسکیں اور نتائج دے سکیں۔
دوستو ، ان کوششوں کے بیچ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بدعنوانی کے خلاف مہم ایک روزہ یا محض ایک ہفتہ کی جنگ نہیں ہے۔ اس تناظر میں ، آج میں آپ کے سامنے ایک اور بڑے چیلنج کا ذکر کرنے جارہا ہوں۔ یہ چیلنج پچھلی دہائیوں میں آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے، اب ملک کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ یہ چیلنج ہے - بدعنوانی کا وَنش واد یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہوئی بدعنوانی۔
دوستو ، پچھلی دہائیوں میں ، ہم نے دیکھا ہے کہ جب بدعنوانی کرنے والی ایک نسل کو صحیح سزا نہیں ملتی ہے تو دوسری نسل بدعنوانی کا ارتکاب زیادہ طاقت سے کرتی ہے۔ اُسے نظر آتا ہے کہ جب گھر میں ہی کروڑوں روپئے کا کالا دھن کمانے والے کا کچھ نہیں ہوا یا پھر بہت تھوڑی سی سزا پاکر وہ چھوٹ گیا ، تو اُس کا حوصلہ اور بڑھ جاتا ہے ۔ اس وجہ کئی ریاستوں میں تو یہ سیاسی روایت کا حصہ بن گیا ہے۔ پیڑھی در پیڑھی چلنے والی بد عنوانی ، بد عنوانی کا یہ وَنش واد ، ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر سکتا ہے ۔
بدعنوانی کے خلاف ایک ہی معاملے میں ڈھلائی ، صرف اسی کیس تک محدود نہیں رہتی ، وہ ایک چین بناتی ہے ، بنیاد بناتی ہے ، مستقبل کی بد عنوانی کے لئے ، مستقبل کے لئے گھوٹالے کے لئے ۔ جب مناسب کارروائی نہیں ہوتی تو سماج میں ، میڈیا میں ، اِسے جرم کا درجہ ملنا کم ہو جاتا ہے ۔ لوگوں کے ایک بڑے طبقہ کو پتہ ہوتا ہے ، میڈیا کو پتہ ہوتا ہے کہ سامنے والے نے ہزاروں کروڑ روپئے غلط طریقے سے کمائے ہیں لیکن وہ بھی اِسے آسانی سے لینے لگتے ہیں ۔ یہ صورتِ حال ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ یہ خوشحال بھارت کے سامنے ، خود کفیل بھارت کے سامنے بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
اور میں آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں… سوچئے کہ اگر ہم میں سے کوئی پی ڈبلیو ڈی میں کام کررہا ہے ، انجینئرنگ کا کام دیکھتا ہے اور پیسوں کے لالچ میں ، کہیں کوئی پُل بن رہا ہے تو لا پرواہی برتی ، کچھ روپئے اینٹھ لئے ، کچھ روپیہ اپنے ساتھیوں کا بانٹ دیا اور جو ٹھیکہ دار ہیں ، اُس کو بھی لگتا ہے کہ چلو بھائی تمہارا بھی بھلا ، میرا بھی بھلا اور بالکل ایسے افتتاح کرنے کے لئے اچھا نظر آئے ، ایسا پُل بنا دیا ۔ پیسے گھر لے کر چلا گیا ، ریٹائر بھی ہو گیا ، پکڑا بھی نہیں گیا ، لیکن سوچ لو ، ایک دن آپ کا جوان بیٹا ، اُس پُل پر سے گزر رہا ہے اور اُسی وقت یہ پل گر گیا ، تب آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ میں نے تو بد عنوانی اپنے لئے کی تھی لیکن کتنے لوگوں کی زندگی جا سکتی ہے اور جب خود کا بیٹا چلا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اُس پل میں ایمانداری ہوتی تو آج اپنا اکلوتا جوان بیٹا نہ کھونا پڑتا ۔ یہ اتنا اثر پیدا کرتی ہے ، بد عنوانی ۔
اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر بھی عائد ہوتی ہے اور آپ پر ذرا زیادہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ قومی کانفرنس میں اس موضوع پر بھی تبادلۂ خیال ہو گا ۔ اس کے علاوہ ، آپ کو ایک اور بات پر دھیان دینا ہے ۔ بد عنوانی کی خبر تو میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہے لیکن جب بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی ہوتی ہے ، وقت پر ہوتی ہے تو ہمیں ایسی مثالوں کو بھی ، خاص طور پر پیش کرنا چاہیئے ۔ اس سے سماج کانظام میں اعتماد بڑھتا ہے اور بدعنوان لوگوں میں ایک پیغام بھی جاتا ہے کہ بچنا مشکل ہے ۔ آج اس پروگرام کے ذریعہ ، میں ، سبھی ہم وطنوں سے بھی یہ اپیل کرتا ہوں کہ 'ہندوستان بنام بدعنوانی' کی لڑائی میں ، وہ ہمیشہ کی طرح ہندوستان کو مضبوط کرتے رہیں ۔ بدعنوانی کو شکست دیتے رہیں ۔ مجھے بھروسہ ہے کہ ایسا کرکے ہم سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اصولوں کا بھارت بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے ، خوشحال اور خود کفیل بھارت بنا سکیں گے ۔ انہی نیک خواہشات کے ساتھ آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی بہت بہت مبارکباد ۔
صحت مند رہیئے ، اپنا خیال رکھیئے ۔
بہت بہت شکریہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( م ن ۔ و ا ۔ ع ا )
U. No. 6747
(Release ID: 1668033)
Visitor Counter : 553
Read this release in:
Telugu
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Assamese
,
Manipuri
,
Bengali
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Kannada
,
Malayalam