وزیراعظم کا دفتر

اعلیٰ تعلیم کنکلیوسے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 07 AUG 2020 1:07PM by PIB Delhi

 نمسکار! کابینہ میں میرے ساتھی جناب رمیش پوکھریال نشنک جی، جناب سنجے دھوترے جی ، نیشنل ایجوکیشن پالیسی- قومی تعلیمی پالیسی میں نہایت اہم کردار ادا کرنے والے ملک کے جانے مانے سائنسداں ڈاکٹر کستوری رنجن جی اور ان کی ٹیم۔ اس کنکلیو میں حصہ لے رہے وائس چانسلرس، دیگر تمام ماہرین تعلیم، معزز شخصیات، آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔

نیشنل ایجوکیشن پالیسی- قومی تعلیمی پالیسی کے سلسلے میں آج کا یہ پروگرام بیحد اہم ہے۔ اس کنکلیو سے ہندوستان کی تعلیمی دنیا کو قومی تعلیمی پالیسی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تفصیلی جانکاری ملے گی۔ جتنی زیادہ جانکاری واضح ہوگی پھر اتنا ہی آسان اس قومی تعلیمی پالیسی کانفاذ بھی ہوگا۔

ساتھیو، تین سال کے وسیع تبادلہ خیال کے بعد لاکھوں تجاویز پر طویل  غور وخوض کے بعد قومی تعلیمی پالیسی کو منظور کیا گیا ہے۔ آج ملک بھر میں بڑے پیمانے پر اس کے بارے میں بحث ہورہی ہے۔ الگ الگ شعبے کے لوگ، مختلف نظریات کے لوگ اپنے خیالات پیش کررہے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ ایک صحتمند مباحثہ ہے۔ یہ مباحثہ جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی فائدہ ملک کے تعلیمی نظام کو حاصل ہوگا۔ یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی آنے کے بعد ملک کے کسی بھی طبقے سے یہ بات نہیں اٹھی کہ اس میں کسی طرح کا تعصب ہے یا کسی ایک جانب جھکی ہوئی ہے۔ یہ ایک انڈیکیٹر بھی ہے کہ لوگ برسوں سے چلے آرہے تعلیمی نظام میں جو بدلاؤ  چاہتے تھے وہ انہیں دیکھنے کو ملے ہیں۔

ویسے کچھ لوگوں کے من میں یہ سوال آنا فطری ہے کہ اتنی بڑی اصلاحات کاغذوں پر تو کردی گئی لیکن اسے زمین پر کیسے اتارا جائیگا۔ یعنی اب سب کی نگاہیں اس کے نفاذ کی طرف ہیں۔ اس چیلنج کو دیکھتے ہوئے انتظام کو بنانے میں جہاں کہیں کچھ سدھار کی ضرورت ہے وہ ہمیں سب کو ملکر ہی کرنا ہے اور کرنا ہی ہے۔ آپ  تمامل لوگ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے سیدھے طور پر جڑے ہیں اور اس لئے آپ کا کردار بہت زیادہ اہم ہے۔ جہاں تک پولٹیکل وِل کی بات ہے میں پوری طرح عہد بند ہوں۔ میں پوری طرح سے آپ کے ساتھ ہوں۔

ساتھیو، ہر ملک اپنے تعلیمی نظام کو اپنے قومی اقدار کے ساتھ جوڑتے ہوئے اپنے قومی اہداف کے مطابق اصلاحات کرتے ہوئے چلتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو فیوچر ریڈی رکھے، فیوچر ریڈی کرے۔ ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی کی بنیاد بھی یہی سوچ ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی اکیسویں صدی کے ہندوستان کی، نئے ہندوستان کی بنیاد تیار کرنے والی ہے۔ اکیسویں صدی کے  ہندوستان کو ہمارے نوجوانوں کو جس طرح کی تعلیم چاہئے، جیسی اسکل چاہئے، قومی تعلیمی پالیسی اس پر فوکس کرتی ہے۔

ہندوستان کو طاقتور بنانے کیلئے، ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچانے کیلئے ہندوستان کے شہریوں کو اور بااختیار بنانے کیلئے انہیں زیادہ سے زیادہ مواقع کے قابل بنانے کیلئے اس تعلیمی پالیسی میں خاص زور دیا گیا ہے۔ جب ہندوستان کا طالب علم چاہے وہ نرسری میں ہو یا پھر کالج میں سائنٹفک طریقے سے پڑھے گا، تیزی سے بدلتے ہوئے وقت اور تیزی سے بدلتی ضرورتوں کے حساب سے پڑھے گا تو وہ ملک کی تعمیر میں بھی  تعمیری رول نبھا پائے گا۔

ساتھیو، گزشتہ متعدد برسوں سے ہمارے تعلیمی نظام میں بڑے بدلاؤ نہیں ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے سماج میں کیوریوسیٹی اور امیجینیشن کی ویلیوز کو فروغ دینے کے بجائے بھیڑ چال کو تحریک ملنے لگا تھا۔ کبھی ڈاکٹر بننے کیلئے ہوڑ لگی، کبھی انجینئر بننے کی ہوڑ لگی، کبھی وکیل بنانے کی ہوڑ لگی۔ دلچسپی، قابلیت اور مانگ کی میپنگ کئے بغیر ہوڑ لگانے کے مسابقے سے تعلیم کو باہر نکالنا ضروری تھا۔ ہمارے طلباء میں، ہمارے نوجوانوں میں، کلیدی سوچ اور اختراعی سوچ کا فروغ کیسے ہوسکتا ہے  جب تک ہماری تعلیم میں جذبہ نہ ہو، فلسفہ تعلیم نہ ہو، تعلیم کا مقصد نہ ہو۔

ساتھیو، آج گروور رابندر ناتھ  ٹھاکر کی برسی بھی ہے۔ وہ کہتے تھے

‘‘بہترین تعلیم وہ ہے جو ہمیں صرف جانکاری ہی نہیں دیتی، بلکہ ہماری زندگی کو تمام وجود کے ساتھ ہم آہنگ بناتی ہے’’۔یقینی طور پر قومی تعلیمی پالیسی کا اہم مقصد اسی سے جڑاہوا ہے۔ اس کے لئے ٹکڑوں میں سوچنے کے بجائے ایک جامع طریقہ کار کی ضرورت تھی جس کو سامنے رکھنے میں قومی تعلیمی پالیسی کامیاب رہی ہے۔

ساتھیو، آج جب قومی تعلیمی پالیسی ایک مضبوط شکل لے چکی ہے تو میں اس وقت اور سوالوں کے بارے میں بھی آپ سے تبادلہ خیال کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے سامنے شروعاتی دنوں میں آئے تھے۔ اس وقت جو دو سب سے بڑے سوال تھے وہ یہی تھے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام ہمارے نوجوانوں کو کرییٹو، کیوریوسیٹی اور کمٹمنٹ ڈرائیوین لائف کیلئے موٹی ویٹی کرتی ہے۔ آپ لوگ اس شعبے میں اتنے برسوں سے ہیں، اس کا جواب بہتر جانتے ہیں۔

ساتھیو، ہمارے سامنے دوسرا سوال تھا کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام ہمارے نوجوانوں کو بااختیار بناتی ہے، ملک میں ایک بااختیار معاشرے کی تعمیر میں مدد کرتی ہے، آپ سب ان سوالوں سے بھی واقف ہیں اور جوابات سے بھی  واقف ہیں۔ ساتھیو، آج مجھےاطمینان ہے کہ ہندوستان کی نیشنل ایجوکیشن پالیسی – قومی تعلیمی پالیسی کو بناتے وقت ان سوالوں پر سنجیدگی سے کام کیا گیا۔

ساتھیو، بدلتے وقت کے ساتھ ایک نیا عالمی نظام، ایک نئے رنگ روپ اور انتظامات میں بدلاؤ، ایک نیا عالمی نظام کھڑا ہورہا ہے۔ ایک نیا عالمی معیار بھی طے ہورہا ہے۔ اس کے حساب سے ہندوستان کا تعلیمی نظام خود میں بدلاؤ کرے، یہ بھی کیا جانا بہت ضروری تھا۔ اسکول، کیریکولم کے 2+10 اسٹرکچر سے آگے بڑھ کر اب 5+3+3+4 کیریکولم کا اسٹرکچر دینا اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ ہمیں اپنے طلباء کو عالمی شہری بھی بنانا ہے اوراس کا بھی دھیان رکھنا ہے کہ وہ عالمی شہری تو بنے لیکن ساتھ ساتھ اپنی بنیادوں سے بھی جڑے رہیں۔ جڑ سے دنیا تک، آدمی سے بنی نوع انسان تک، ماضی سے جدیدیت تک،تمام نکات کا احاطہ کرتے ہوئے اس قومی تعلیمی پالیسی کا خاکہ تیار کیا گیا ہے۔

ساتھیو، اس بات میں کوئی تنازع نہیں ہے کہ بچوں کے گھر کی بولی اور اسکول میں پڑھائی کی زبان ایک ہی ہونے سے بچوں کے سیکھنے کی رفتار بہتر ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کے سبب جہاں تک ممکن ہو پانچویں جماعت تک بچوں کو ان کی مادری زبان میں ہی پڑھانے پر منطوری دی گئی ہے۔ اس سے بچوں کی بنیاد تو مضبوط ہوگی ہی ان کی آگے کی پڑھائی کیلئے بھی ان کا بیس اور مضبوط ہوگا۔

ساتھیو، ابھی تک جو ہمارا تعلیمی نظام ہے اس میں وہاٹ ٹو تھنک (کیا سوچنا ہے) پر فوکس رہا ہے جب کہ اس تعلیمی پالیسی میں ہاؤ ٹو تھنک (کیسے سوچنا ہے ) پر زور دیا جارہا ہے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آج جس دور میں ہم ہیں وہاں معلومات اور مواد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک طرح سے سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہر قسم کی جانکاری آپ کے موبائل فون پر دستیاب ہے، ضروری یہ ہے کہ کونسی جانکاری حاصل کرنی ہے، کیا پڑھنا ہے ، اس بات کو دھیان میں رکھ کر ہی قومی تعلیمی پالیسی میں کوشش کی گئی ہے کہ جو پڑھائی کیلئے لمبا چوڑا نصاب ہوتا ہے، ڈھیر ساری کتابیں ہوتی ہیں اس کی ضرورت کو کم کیاجائے۔ اب کوشش یہ ہے کہ بچوں کو سیکھنے کیلئے انکوائری پر مبنی ، دریاف پر مبنی، مذاکرے پر مبنی اور تجزیے پر مبنی  طریقوں پر زور دیا جائے۔ اس سے بچوں میں سیکھنے کی للک بڑھے اور ان کے کلاس میں ان کی شرکت بھی بڑھے گی۔

ساتھیو، ہر طالب علم کو، اسٹوڈنٹ کو یہ موقع ملنا ہی چاہئے کہ وہ اپنے جذبے کو فالو کرے۔ وہ اپنی سہولت اور ضرورت کے حساب سے کسی ڈگری یاکورس کو فالو کرسکے اور اگر اس کا من کرے تو وہ چھوڑ بھی سکے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کورس کرنے کے بعد اسٹوڈنٹ جب جاب کیلئے جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ جو اس نے پڑھا ہے وہ جاب کی ضروریات کو وہ پورا نہیں کرتا۔ کئی اسٹوڈنٹس کو الگ الگ وجہوں سے بیچ میں ہی کورس چھوڑ کر جاب کرنی پڑتی ہے۔ ایسے سبھی اسٹوڈنٹس کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے ملٹی پل انٹری – ایگزٹ کا آپشن دیا گیا ہے۔ اب اسٹوڈنٹس  واپس اپنے کورس سے جڑ کر اپنی جاب ضروریات کے حساب سے زیادہ مؤثر طریقے سے پڑھائی کرسکتا ہے، لرن کرسکتا ہے، اس کا ایک اور اسپیکٹ ہے۔

اب طلباء کو یہ بھی آزادی ہوگی کہ اگر وہ کوئی کورس بیچ میں چھوڑ کر دوسرے کورس میں داخلہ لینا چاہیں تو کرسکتے  ہیں اس کے لئے وہ پہلے کورس سے ایک متعینہ وقت تک بریک لے سکتے ہیں اور دوسرا کورس جوائن کرسکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کو اسٹریم سے آزاد کرنے، ملٹی پل انٹری اور ایگزٹ، کریڈٹ بینک کے پیچھے یہی سوچ ہے۔ ہم اس عہد کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی شخص زندگی بھر کسی ایک پروفیشن میں ہی نہیں ٹکا رہے گا۔ بدلاؤ یقینی ہے ، یہ مان کر رہئے۔ اس کے لئے اسے مسلسل خود کو ری اسکل اور اپ اسکل کرتے رہنا ہوگا۔قومی تعلیمی پالیسی میں اس کا بھی دھیان رکھا گیا ہے۔ ساتھیو، کسی بھی ملک کی ترقی میں ایک بڑا رول رہتا ہے۔ سماج کے ہر طبقے کی عزت نفس اس کی ڈگنیٹی سماج کا کوئی فرد کوئی بھی کام کرتا ہو، کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہندوستان جیسے ثقافتی اعتبار سے مضبوط رہے ملک میں یہ برائی کہاں سے آئی۔ اونچ نیچ کااحساس، محنت مزدوری کرنے والوں کے تئیں منفی احساس، اس قسم کی چیزیں ہمارے اندر کیسے گھر کر گئیں۔ یہ دیکھنے کا برعکس نظریہ کیسے پیداہوا، اس کی ایک بڑی وجہ رہی کہ ہماری تعلیم کا سماج کے اس طبقے کے ساتھ ایک ڈسکنیکٹ رہا، جب گاؤں میں جائیں گے ، کسان کو، محنت کشوں کو، مزدوروں کو کام کرتے دیکھیں گے تبھی تو ان کے بارے میں جان پائیں گے، انہیں سمجھ پائیں گے، وہ کتنا تعاون دے رہے ہیں، سماج کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے وہ کیسے اپنی زندگی کو کھپا رہے ہیں۔ ان کی محنت کی عزت کرنا ہماری نسل کو سیکھنا ہی ہوگا۔ اس لئے قومی تعلیمی پالیسی میں اسٹوڈنٹ ایجوکیشن اور ڈگنیٹی کو لیبر پر بہت دھیان دیا گیا ہے۔

ساتھیو، اکیسویں صدی کے ہندوستان سے پوری دنیا کو بہت امیدیں ہیں۔ ہندوستان کی طاقت ہے کہ وہ ٹیلنٹ اور ٹیکنالوجی کا حل پوری دنیا کو دے سکتا ہے۔ ہماری اس ذمہ داری کو بھی ہماری تعلیمی پالیسی ایڈریس کرتی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں جو بھی حل پیش کیے گئے ہیں اس سے فیوچرسٹک ٹیکنالوجی کے تئیں ایک مائنڈ سیٹ تیار کرنے کا جذبہ ہے۔ اب ٹیکنالوجی نے ہمیں بہت تیزی سے، بہت اچھی طرح سے ، بہت کم خرچ میں سماج کے آخری قطار میں کھڑے اسٹوڈنٹ تک پہنچنے کا ذریعہ دیا ہے۔ ہمیں اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہے۔

اس ایجوکیشن پالیسی کے توسط سے ٹیکنالوجی پر مبنی بہتر کنٹینٹ اور کورس کے ڈیولپمنٹ میں بہت مدد ملے گی۔ بیسک کمپیوٹنگ پر زور ہو، کوڈنگ پر فوکس ہو یا پھر ریسرچ پر زیادہ زور۔ یہ صرف ایجوکیشن نظام ہی نہیں بلکہ پورے سماج کے طریقہ کار کو بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہےورچول لیب جیسے کنسیپٹ ایسے لاکھوں ساتھیوں تک بہتر تعلیم کے خواب کو لے جانے والا ہے جو پہلے ایسے سبجیکٹس پڑھ ہی نہیں پاتے تھے۔ جس میں لیب اسپریمنٹ ضروری ہو۔ قومی تعلیمی پالیسی ہمارے ملک میں ریسرچ اور ایجوکیشن کے گیپ کو ختم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرنے والی ہے۔

ساتھیو، جب اداروں اور بنیادی ڈھانچے میں بھی یہ اصلاحات منعکس ہوں گے تبھی  قومی تعلیمی پالیسی کو زیادہ مؤثر اور تیز رفتار سے نافذ کیا جاسکے گا۔ آج وقت کی مانگ ہے کہ انّوویشن اور اڈپٹیشن کی جو ویلیوز ہم سماج میں بنانا چاہتے ہیں وہ خود ہمارے ملک کے اداروں سے شروع ہونی چاہئے جس کی قیادت آپ  سب کے پاس ہے۔ جب ہم تعلیم اور بالخصوص اعلیٰ تعلیم کو بااختیار معاشرے کے معمار کی شکل میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی بااختیار بنانا ضروری ہے۔ اور میں جانتا ہوں جیسے ہی اداروں کو بااختیار بنانے کی بات آتی ہے اس کےساتھ ایک اور لفظ چلا آتا ہے خود مختاری۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ خود مختاری کو لیکر ہمارے یہاں دو طرح کا نظریہ رہا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ سب کچھ سرکاری کنٹرول سے پوری سختی سے چلناچاہئے تو دوسرا کہتا ہے کہ سبھی اداروں کو بائی ڈیفالٹ خود مختاری ملنی چاہئے۔

پہلی ایپروچ میں غیرسرکاری اداروں کے تئیں عدم اعتماد دِکھتا ہے تو دوسری ایپروچ میں خودمختاری کو انٹائٹلمنٹ کے طور پر فیڈ کیا جاتا ہے۔ گڈکوالٹی ایجوکیشن کا راستہ ان دونوں نظریات کے بیچ میں ہے ۔ جو ادارہ کوالٹی ایجوکیشن کیلئے زیادہ کام کرے اس کو زیادہ فریڈم سے ریوارڈ کیا جاناچاہئے۔ اس سے کوالٹی کو انکریزمنٹ ملے گا اور سب کو گرو کرنے کیلئے انشینٹیو بھی ملے گا۔ قومی تعلیمی پالیسی آنے سے پہلے حال کے برسوں میں آپ نے بھی دیکھا ہے کہ کیسے ہماری سرکار نے متعدد اداروں کو خود مختاری دینے کی پہل کی ہے۔ مجھے امید ہے قومی تعلیمی پالیسی کی جیسے جیسے توسیع ہوگی تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا عمل بھی تیز ہوگا۔

ساتھیو، ملک کے سابق صدر عظیم سائنسداں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کہا کرتے تھے تعلیم کامقصدہنرمندی اور مہارت کے ساتھ بہترین انسان بنانا ہے۔ روشن دماغ انسان اساتذہ کے ذریعے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ واقعی تعلیمی نظام میں بدلاؤ ملک کو اچھے طلباء، اچھے پیشہ ور افراد اور بہترین شہری دینے کا بہت بڑا ذریعہ آپ سبھی اساتذہ ہی ہیں، پروفیسرس ہی ہیں۔ تعلیمی دنیا سے جڑے آپ  ہی لوگ اس کام کو کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ اس لئے نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں ڈگنیٹی آف ٹیچرس کا بھی خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔ اس کوشش یہ بھی ہے کہ ہندوستان کا جو ٹیلٹنٹ ہے وہ ہندوستان میں رہ کر آنے والی نسلوں کی ترقی کرے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں اساتذہ کی تربیت پر بہت زور ہے۔ وہ اپنی اسکل لگاتار اپ ڈیٹ کرتے رہیں، اس پربہت زور ہے۔ میرا یقین ہے کہ جب ایک استاذ سیکھتا ہے، ایک ملک آگے بڑھتا ہے۔

ساتھیو، نیشنل ایجوکیشن پالیسی کو عمل میں لانے کیلئے ہم سبھی کو ایک ساتھ عہدبند ہوکر کام کرنا ہے۔ یہاں سے یونیورسٹیز ، کالجز، اسکول ایجوکیشن بورڈ الگ الگ اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال اور بات چیت کانیا دور شروع ہونے والا ہے۔ آپ سبھی ساتھی کیوں کہ اعلیٰ تعلیم کے سب سے اعلیٰ اداروں کے اعلیٰ ترین افراد میں سے ہیں، تو آپ کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ میری گزارش ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی پر لگاتار ویبینار کرتے رہیے۔ مذاکرے کرتے رہیے۔ پالیسی کیلئے حکمت عملی بنائے، حکمت عملی کی بات کو لاگو کرنے کیلئے روڈ میپ، روڈ میپ کے ساتھ ٹائم لائن جوڑیے، اس کو نافذ کرنے کیلئے وسائل، انسانی وسائل یہ سب کو جوڑنے کی اسکیم بنائیے اور یہ ساری چیزیں نئی پالیسی کی روشنی میں آپ کو کرنی ہے۔

قومی تعلیمی پالیسی صرف ایک سرکلر نہیں ہے، قومی تعلیمی پالیسی صرف سرکلر جاری کرکے نوٹیفائی کرکے نافذ نہیں ہوگی اس کے لئے من بنانا ہوگا۔ آپ سبھی کو حوصلہ دکھانا ہوگا ، ہندوستان کے حال اور مستقبل کو بنانے کیلئے آپ کے لئے  یہ کام ایک مہایگیہ کی طرح ہے۔ اس میں آپ کا تعاون بہت ضروری ہے۔ اس کنکلیوکو دیکھ رہے، سن رہے ، ہر ایک شخص کا تعاون ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کنکلیو میں قومی تعلیمی پالیسی کے مؤثر نفاذ کو لیکر بہتر تجویز، بہتر حل  نکل کر آئیں گے اور بالخصوص آج مجھے موقع ملاہے۔ عوامی طور پر ڈاکٹر کستوری رنجن جی کا، ان کی پوری ٹیم کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ایک بار پھر آپ سبھی کیلئے نیک خواہشات،بہت بہت شکریہ ۔

 

 

 

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO: 4392


(Release ID: 1644305) Visitor Counter : 389