وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

وزیرِ اعظم جناب نریندر مودی نے راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ (آر ایس ایس) کی صدسالہ تقریبات سے خطاب کیا


وزیرِ اعظم نے آر ایس ایس کی ملک کے لیے خدمات کو اجاگر کرنے والے خصوصی طور پر تیار کردہ یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکے جاری کئے

وزیرِ اعظم نے کہا کہ ایک صدی قبل آر ایس ایس کا قیام ، اُس قومی شعور کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے ، جوہر دور کے چیلنجوں سے نمٹنے میں پیش پیش رہا ہے

وزیرِ اعظم نے پرم پوجیہ ڈاکٹر ہیڈ گیوار جی کو خراجِ تحسین پیش کیا

آر ایس ایس کے رضا کار انتھک محنت سے ملک کی خدمت اور سماج کو بااختیار بنانے کے لیے لگن سے کام کر رہے ہیں: وزیرِ اعظم

آج جاری ہونے والا یادگاری ڈاک ٹکٹ 1963 کی یومِ جمہوریہ پریڈ میں آر ایس ایس کے رضا کاروں کی پُر وقار شمولیت اور فخر سے کیے گئے مارچ کی یاد تازہ کرتا ہے : وزیرِ اعظم

وزیرِ اعظم نے کہا کہ اپنے قیام سے اب تک، آر ایس ایس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی ہے

آر ایس ایس کی ہر ایک شاکھاحوصلے اور تحریک کا مرکز ہے، جہاں ‘‘میں’’ سے ‘‘ہم’’ کا سفر شروع ہوتا ہے: وزیرِ اعظم

آر ایس ایس کے ایک صدی کے کام کی بنیاد ملک کی تعمیر کے مقصد، ذاتی پیش قدمی کے واضح راستے اور شاکھا کے پرجوش طریقۂ کار پر مبنی ہے: وزیرِ اعظم

آر ایس ایس نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، جنہیں‘ملک مقدم ’’ کے اصول اور ایک مقصد ‘‘ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت ’’ سے تحریک حاصل ہے : وزیرِ اعظم

سَنگھ کے رضا کار سماج کے ساتھ ثابت قدم اور پرعزم رہتے ہیں اور آئینی اقدار پر یقین رکھتے ہیں: وزیر اعظم

سَنگھ حب الوطنی اور خدمت کی علامت ہے:وزیر اعظم

دوسروں کے دکھ کو کم کرنے کے لیے ذاتی مشکلات برداشت کرنا ہر سویم سیوک کی پہچان ہے : وزیر اعظم

سَنگھ نے ہر طبقے کے لوگوں میں خود اعتمادی اور سماجی بیداری پیدا کی ہے : وزیر اعظم

پنچ پریورتن ملک کے چیلنجوں کا سامنا کرنے اور انہیں عبور کرنے کی ہر سویم سیوک کو ترغیب دیتے ہیں : وزیر اعظم

Posted On: 01 OCT 2025 1:28PM by PIB Delhi

وزیرِ اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلّی کے ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کی صدسالہ تقریبات  سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کیا۔ اس موقع پر جناب مودی نے نوراتری کے موقع پر تمام شہریوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ آج مہا نو می اوردیوی سدھی دھاتری کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل وِجے دشمی کا بڑا تہوار ہے، جو بھارتی ثقافت کی بدی پر نیکی ، جھوٹ پر سچ اور تاریکی پرروشنی کی فتح کے ابدی پیغام کی علامت ہے۔ وزیرِ اعظم نے اجاگر کیا کہ اس پوتر موقع پر، ایک صدی قبل راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کا قیام عمل آیا اور یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ یہ ہزاروں سال پر محیط قدیم روایت کی بحالی کا موقع تھا، جس میں قومی شعور  ، ہر دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نئے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس دور میں سنگھ اسی ابدی قومی شعور کی ایک زندہ مثال ہے۔

جناب مودی نے اس بات کو اجاگر کیا کہ موجودہ نسل کے سویم سیوکوں کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے صدسالہ جشن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے قومی خدمت کے عزم کے لیے خود کو وقف کرنے والے بے شمار سویم سیوکوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور سنگھ کے بانی اور قابلِ احترام مثالی شخصیت، ڈاکٹر ہیڈ گیوارکوخراجِ عقیدت پیش کیا۔انہوں نے اعلان کیا کہ سَنگھ کے شاندار 100 سالہ سفر کی یاد میں ، حکومتِ ہند نے ایک خاص ڈاک ٹکٹ اور یادگاری سکّہ جاری کیا ہے۔ 100 روپے کے سکّے کے ایک رُخ پر قومی نشان  ، جب کہ دوسرے رُخ پر بھارت ماتا کی پُر وقار شبیہ ورَد مُدرا میں، ایک شیر کے ساتھ نمایاں ہے، جسے سویم سیوک سلامی دے رہے ہیں۔ جناب مودی نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شاید یہ آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ بھارتی کرنسی پر بھارت ماتا کی تصویر نمایاں ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سکّے پر سنگھ کا رہنما منتر بھی درج ہے: ‘‘ راشٹرائے سواہا، اِند راشٹرائے ، اِند نہ مم’’ ۔

آج جاری کیے گئے یادگاری ڈاک ٹکٹ کی خصوصیت کو اجاگر کرتے ہوئے، جس کی تاریخی اہمیت ہے، وزیرِ اعظم نے 26 جنوری کے یوم جمہوریہ پریڈ کی اہمیت کو یاد دلایا اور اس بات پر زور دیا کہ 1963 ء میں آر ایس ایس کے سویم سیوکوں نے فخر کے ساتھ پریڈ میں حصہ لیا،  حب الوطنی کی  دھنوں کے ساتھ ہم آہنگ مارچ کیا۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ ڈاک ٹکٹ اس تاریخی لمحے کی یاد کو محفوظ کرتا ہے۔

جناب مودی نے مزید کہا کہ ‘‘یہ یادگاری ڈاک ٹکٹ آر ایس ایس کے سویم سیوکوں کی غیر متزلزل لگن کو بھی ظاہر کرتا ہے، جو مسلسل ملک کی خدمت اور سماج کو بااختیار بنانے میں مصروف ہیں’’۔ انہوں نے ان یادگاری سکّوں اور ڈاک ٹکٹ کے جاری کئے جانے پر بھارت کے شہریوں کو دلی مبارکباد بھی پیش کی۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ جس طرح عظیم دریا اپنے کناروں پر انسانی تہذیبوں کو فروغ دیتے ہیں، اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بھی بے شمار زندگیوں کو جلاء بخشی اور انہیں بہتر بنایا۔  دریا کی اُس مثال کو بیان کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نریندر مودی نے سنگھ کا موازنہ ، اُس دریا سے کیا ، جو اپنی روانی کے ساتھ زمین، گاؤں اور خطوں کو برکت سے نوازتا ہے، اسی طرح سنگھ نے بھارتی سماج کے ہر شعبے اور ملک کے ہر خطے کا احاطہ کیا  ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ مسلسل لگن اور ایک طاقتور قومی تحریک کا نتیجہ ہے۔

وزیرِ اعظم نے آر ایس ایس کو ایک ایسے دریا سے مشابہت دی ، جو کئی  دھاروں میں تقسیم ہو کر مختلف علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ سنگھ کا سفر بھی ایسا ہی ہے، جس میں اس کی مختلف وابستہ تنظیمیں تعلیم، زراعت، سماجی فلاح، قبائلی ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے، فنون و علوم اور محنت کش شعبے سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ملک کی خدمت میں سرگرم ہیں۔ وزیرِ اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف شاکھاؤ ں  میں سنگھ کے وسعت پانے کے باوجود، کبھی بھی ان میں اختلاف نہیں ہوا ۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ‘‘ہر شاکھا ، ہر تنظیم  ، جو مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہے، ایک ہی مقصد اور جذبہ رکھتی ہے: ‘‘ملک مقدم ’’۔

جناب مودی نے کہا کہ ‘‘ابتداء سے ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے ایک عظیم مقصد کی پیروی کی ‘‘ ملک کی تعمیر  ’’۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے، سنگھ نے قومی ترقی کی بنیاد کے طور پر ذاتی ترقی کے راستے کو اپنایا۔ اس راہ پر مسلسل آگے بڑھنے کے لیے، سنگھ نے ایک منضبط طریقۂ کار اپنایا: شاکھاؤں  کا روزانہ اور باقاعدہ کا انعقاد۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘ ڈاکٹر ہیڈ گیوار نے سمجھا کہ ملک تب ہی حقیقی طور پر مضبوط ہوگیا ، جب ہر شہری اپنی ذمہ داری کا احساس کرے؛ بھارت تب ہی عروج پر پہنچے گا  ، جب ہر شہری ملک کے لیے جینا سیکھے ’’۔  انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر  ہیگواڑ انفرادی ترقی کے لیے پرعزم رہے اور ایک منفرد طریقہ اپنایا۔جناب مودی نے ڈاکٹر ہیڈ گیوار کے رہنما اصول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا  کہ ‘‘ لوگوں کو جیسا ہیں ویسا قبول کریں اور انہیں وہ بنانے کی کوشش کریں جو وہ بننے چاہیے۔ ’’  انہوں نے ڈاکٹر  ہیڈ گیوار کے عوامی رابطوں کے طریقے کی مثال مٹی کے برتن والے ایک کمہار کے طور پر دی ، جو سادہ مٹی سے آغاز کرتا ہے ، محنت سے اس پر کام کرتا  ہے، اسے شکل دیتا  ہے اور آگ میں پکاتا ہے اور آخرکار اسے ایک خوبصورت شکل دیتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر ہیڈ گیوار نے عام  لوگوں کو منتخب کیا، انہیں تربیت دی، انہیں ویژن دیا اور انہیں ملک کے لیے وقف شدہ رضاکار (سوئم سیوک) بنایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عام لوگ اکٹھے ہو کر غیر معمولی اور بے مثال کام سرانجام دیتے ہیں۔

جناب مودی نے اس بات کو اجاگر کیا کہ فرد کی شاندار ترقی کا عمل اب بھی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی شاکھاؤں  میں برقرار ہے۔ انہوں نے شاکھا کے میدان کو تحریک کا ایک پوتر مقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک سویم سیوک اپنی ذاتی شناخت یعنی ‘‘میں ’’ سے اجتماعی شعور یعنی  ‘‘ ہم ’’ کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ شاکھائیں کردار سازی کے مقامات ہیں، جہاں جسمانی، ذہنی اور سماجی ترقی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ شاکھاؤں  میں قومی خدمت کے جذبے اور حوصلے کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، قربانی اور لگن فطری ہو جاتی ہے، ذاتی شہرت کی خواہش کم ہو جاتی ہے اور سویم سیوک اجتماعی فیصلہ سازی اور ٹیم ورک کے اصول سیکھتے ہیں۔

جناب مودی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایک صدی کے سفر کی بنیاد تین ستونوں پر قائم ہے – ملک کی تعمیر کا عظیم  نظریہ ، فرد کی ترقی کے لیے واضح راستہ اور شاکھاؤں  کی شکل میں سادہ مگر متحرک عملی طریقہ۔ انہوں نے کہا کہ ان ستونوں کے سہارے، سنگھ نے لاکھوں سویم سیوک تیار کیے ہیں  ، جو لگن، خدمت اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے پرعزم جدوجہد کے ذریعے مختلف شعبوں میں  ملک  کی ترقی میں پیش پیش ہیں۔

وزیر اعظم نے اس بات کی تصدیق کی کہ اپنے قیام سے ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ترجیحات ملک کے ساتھ ہم آہنگ رہی ہیں اور ہر دور میں سنگھ نے ملک کے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ آزادی کی تحریک کو یاد کرتے ہوئے  ، انہوں نے کہا کہ معزز ڈاکٹر  ہیڈ گیوار اور دیگر کئی کارکنان نے آزادی کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا اور ڈاکٹر  ہیڈ گیوار کئی بار قید بھی ہوئے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ سنگھ نے بے شمار مجاہدِ آزادی کی  مدد کی اور ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا۔ انہوں نے 1942 ء کی چمور تحریک کی مثال دی، جہاں کئی سویم سیوکوں نے برطانوی ظلم و ستم برداشت کیے۔ آزادی کے بعد بھی، حیدرآباد میں نظام کی جبر کی مزاحمت سے لے کر گوا اور دادر و نگر حویلی کی آزادی  میں حصہ لینے تک سنگھ نے قربانیاں جاری رکھیں۔ اس پورے سفر میں “ملک مقدم” رہنمائی کرنے والا جذبہ اور “ایک بھارت، شریشٹھ بھارت” غیر متزلزل مقصد رہا ۔

وزیر اعظم جناب مودی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے قومی خدمت کے سفر میں متعدد حملوں اور سازشوں کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آزادی کے بعد بھی سنگھ کو دبانے اور اسے مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ معزز گروجی کو جھوٹے مقدمات میں جیل بھیج دیا گیا، تاہم رہائی کے بعد گروجی نے انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ جواب دیا ، ‘‘ کبھی کبھار زبان دانتوں کے نیچے پھنس جاتی ہے اور کچل جاتی ہے، لیکن ہم دانت نہیں توڑتے، کیونکہ دانت اور زبان دونوں ہمارے ہیں۔’’ وزیر اعظم نے زور دیا کہ شدید اذیت اور مختلف مظالم کے باوجود گروجی نے کسی بھی قسم کا بغض یا دشمنی دل میں نہیں رکھی۔ انہوں نے گروجی کی سنتوں والی شخصیت اور نظریاتی وضاحت کو ہر سویم سیوک کے لیے رہنما روشنی قرار دیا، جو اتحاد اور معاشرتی ہمدردی کے اقدار کو مضبوط کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے پابندیاں ہوں، سازشیں ہوں یا جھوٹے مقدمات، سویم سیوک کبھی تلخی کے لیے جگہ نہیں دیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرے سے الگ نہیں ہیں - معاشرہ انہی سے بنا ہے۔ جو اچھا ہے  ، وہ انہی کا ہے، ور جو کم اچھا ہے  ، وہ بھی ان کا  ہی ہے۔

وزیر اعظم نے اجاگر کیا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کبھی تلخی نہیں رکھی، اس کی ایک بڑی وجہ ہر سویم سیوک کا جمہوریت اور آئینی اداروں پر مضبوط یقین ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایمرجنسی کے دوران یہی یقین سویم سیوکوں کو مضبوطی اور مزاحمت کی طاقت دیتا رہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ دو بنیادی اقدار - معاشرے کے ساتھ یکجہتی اور آئینی اداروں پر  یقین - سویم سیوکوں کو ہر بحران میں پُرسکون اور معاشرتی ضروریات کے لیے حساس رکھتا ہیں۔ وقت کے ساتھ کئی چیلنجوں کے باوجود، سنگھ عظیم برگد کے ایک مضبوط پیڑ کی مانند کھڑا ہے اور مسلسل ملک و معاشرے کی خدمت کر رہا ہے۔

جناب مودی نے کہا کہ اپنے قیام سے ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ حب الوطنی اور خدمت کا مترادف رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ تقسیم کے دردناک دور میں، جب لاکھوں خاندان بے گھر ہوئے، سویم سیوک محدود وسائل کے باوجود پناہ گزینوں کی خدمت کے لیے آگے آئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ محض ریلیف ورک نہیں تھا بلکہ ملک کی روح کو مضبوط کرنے کا عمل تھا۔

وزیر اعظم نے بڑے پیمانے پر زلزلہ کی تباہی کو بیان کرتے ہوئے 1956 میں گجرات کے انجر میں آنے والے تباہ کن زلزلے پر مزید روشنی ڈالی۔ تب بھی سویم سیوک راحت اور بچاؤ کے کاموں میں سرگرمی سے مصروف تھے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ قابل احترام گروجی نے گجرات میں سنگھ کے اس وقت کے سربراہ وکیل صاحب کو ایک خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کسی دوسرے کے دکھ کو دور کرنے کے لیے بے لوث مشکلات کو برداشت کرنا ایک  نیک اور شریف  دل  ہونے کی علامت ہے۔

 جناب مودی نے 1962 کی جنگ کو یاد کرتے ہوئے کہا –‘‘دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے  شدید مشقت ہر سویم سیوک کی پہچان ہے، جب آر ایس ایس کے سویم سیوک مسلح افواج کی  مدد کے لیے  بغیر تھکے کھڑے ہوئے، ان کے حوصلے بلند کیے اور سرحد کے قریب دیہاتوں تک امداد پہنچائی’’۔ وزیر اعظم نے 1971 کے بحران کو مزید اجاگر کیا، جب مشرقی پاکستان سے لاکھوں پناہ گزین بغیر کسی پناہ گاہ یا وسائل کے ہندوستان پہنچے۔ اس مشکل وقت کے دوران، سویم سیوکوں نے  اشیائے خوردونوش کو  پہنچایا، انہیں پناہ دی، صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کیں، ان کے آنسو پونچھے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ سویم سیوکوں نے 1984 کے فسادات کے دوران بہت سے سکھوں کو بھی پناہ دی تھی۔

سابق صدر ڈاکٹر اے پی جےعبدالکلام چترکوٹ میں نانا جی دیشمکھ کے آشرم میں خدمت کی سرگرمیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے، جناب مودی نے یہ بھی ذکر کیا کہ سابق صدر پرنب مکھرجی اپنے ناگپور کے دورے کے دوران سنگھ کے نظم و ضبط اور سادگی سے بہت متاثر ہوئے تھے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آج بھی پنجاب میں سیلاب، ہماچل اور اتراکھنڈ میں آفات اور وائناڈ، کیرالہ میں سانحہ جیسی آفات میں سویم سیوک پہلے  مدد پہنچانے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ کووڈ-19 وبائی مرض کے دوران پوری دنیا نے سنگھ کی ہمت اور خدمت کے جذبے کو خود دیکھا۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا اپنے 100 سالہ سفر میں سب سے اہم شراکت سماج کے متنوع طبقوں میں خود بیداری اور فخر کو بیدار کرنا ہے۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ سنگھ نے ملک کے سب سے دور دراز اور ناقابل رسائی خطوں میں خاص طور پر ہندوستان کے دس کروڑ قبائلی  بہن بھائیوں کے درمیان مسلسل کام کیا ہے۔ جب کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اکثر ان برادریوں کو نظر انداز کیا۔ سنگھ نے ان کی ثقافت، تہواروں، زبانوں اور روایات کو ترجیح دی۔ سیوا بھارتی، ودیا بھارتی، اور ونواسی کلیان آشرم جیسی تنظیمیں قبائلی بااختیار بنانے کے ستون بن کر ابھری ہیں۔ جناب مودی نے تصدیق کی کہ آج قبائلی برادریوں میں بڑھتی ہوئی خود اعتمادی ان کی زندگیوں کو بدل رہا ہے۔

ہندوستان کے دور دراز ک علاقوں میں قبائلی برادریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کرنے والے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے لاکھوں رضاکاروں کی تعریف کا کرتے ہوئے جناب مودی نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی لگن نے ملک کی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ان چیلنجوں اور استحصالی مہمات کو تسلیم کیا جنہوں نے تاریخی طور پر قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ سنگھ نے خاموشی اور ثابت قدمی سے اپنی قربانی پیش کی ہے اور کئی دہائیوں سے  ملک کو ایسے بحرانوں سے بچانے کے لیے اپنا فرض پورا کیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سماجی بیماریوں جیسے ذات پات کی بنیاد پر امتیاز اور رجعت پسندانہ طرز عمل نے ہندو سماج کے لیے طویل عرصے سے ایک سنگین چیلنج کھڑا کر رکھا ہے۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اس تشویش کو دور کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ مہاتما گاندھی کے وردھا میں سنگھ کیمپ کے دورے کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گاندھی جی نے کھل کر سنگھ کے مساوات، ہمدردی اور ہم آہنگی کے جذبے کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ہیڈگیوار سے لے کر آج تک سنگھ کی ہر سرکردہ شخصیت اور سرسنگھ چالک نے امتیازی سلوک اور چھواچھوت کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ قابل احترام گروجی نے ‘نا ہندو پتتو بھوتے’ کے جذبات کو مسلسل آگے بڑھایا، یعنی ہر ہندو ایک خاندان کا حصہ ہے اور کوئی بھی کمتر یا گرا ہوا نہیں ہے۔ انہوں نے  قابل احترام  بالاصاحب دیورس کا حوالہ دیا، جنہوں نے کہا تھا-‘‘اگر اچھوت پن گناہ نہیں ہے تو دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرسنگھ چالک کے طور پر اپنے دور میں قابل احترام  رجو بھیا اور سدرشن جی نے بھی اس جذبے کو آگے بڑھایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ سرسنگھ چالک جناب  موہن بھاگوت جی نے سماجی ہم آہنگی کے لیے سماج کے سامنے ایک واضح ہدف مقرر کیا ہے جو‘ایک کنواں، ایک مندر، اور ایک شمشان گھاٹ’ کے وژن میں شامل ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ سنگھ اس پیغام کو ملک کے کونے کونے میں لے کر گیا ہے، تفریق، تقسیم اور تفرقہ سے پاک معاشرے کو فروغ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہم آہنگی کی بنیاد ہے اور ایک جامع معاشرے کا عزم ہے، جسے سنگھ نئے جوش کے ساتھ مضبوط کرتا جا رہا ہے۔

جناب مودی نے  کہا کہ جب ایک صدی قبل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی تھی اس وقت کی ضروریات اور جدوجہد مختلف تھیں۔ ہندوستان صدیوں کی سیاسی تسلط سے آزاد ہونے اور اپنی ثقافتی اقدار کے تحفظ کے لیے کوشاں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج جب ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی طرف گامزن ہے اور دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کے لیے تیار ہے، چیلنجز تیار ہوئے ہیں، آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت پر قابو پا رہا ہے، نئے شعبے نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کر رہے ہیں اور ہندوستان سفارت کاری سے لے کر موسمیاتی پالیسیوں تک عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آج کے چیلنجز میں دیگر اقوام پر معاشی انحصار، قومی اتحاد کو درہم برہم کرنے کی سازشیں اور آبادیاتی ہیرا پھیری شامل ہیں۔ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ حکومت ان مسائل کو تیزی سے حل کر رہی ہے۔ ایک سویم سیوک کے طور پر انہوں نے اس بات پر بھی فخر کا اظہار کیا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے نہ صرف ان چیلنجوں کی نشاندہی کی ہے بلکہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ٹھوس روڈ میپ بھی تیار کیا ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی پانچ تبدیلی کی قراردادوں — خود آگاہی، سماجی ہم آہنگی، خاندانی روشن خیالی، شہری نظم و ضبط اور ماحولیاتی شعور — کو قوم کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سویم سیوکوں کے لیے طاقتور ترغیبات کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے جناب مودی نے واضح کیا کہ‘ذہن سے خود آگاہی اور آزادانہ سوچ سے کام لینا، ورثہ اور مادری زبان’۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خود آگاہی کا مطلب سودیشی کو اپنانا بھی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ خود انحصاری اب ایک آپشن نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے سماج سے سودیشی کے منتر کو اجتماعی عزم کے طور پر اپنانے پر زور دیا اور ہر ایک پر زور دیا کہ وہ ‘وکل فار لوکل’ مہم کو شاندار طریقے سے کامیاب  بنانے کے لیے اپنی پوری توانائی وقف کریں۔

‘راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے مسلسل سماجی ہم آہنگی کو ترجیح دی ہے’، وزیر اعظم نے کہا، سماجی ہم آہنگی کو پسماندہ لوگوں کو ترجیح دے کر اور قومی اتحاد کو مضبوط کرتے ہوئے سماجی انصاف کے قیام کے طور پر بیان کیا۔ جناب مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آج  ملک  کو ایسے چیلنجوں کا سامنا ہے جو براہ راست اس کے اتحاد، ثقافت اور سلامتی کو نشانہ بناتے ہیں- جن میں علیحدگی پسند نظریات اور علاقائیت سے لے کر ذات پات اور زبان کے تنازعات تک اور بیرونی طاقتوں کی طرف سے بھڑکانے والے تفرقہ انگیز رجحانات شامل ہیں۔ پی ایم نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہندوستان کی روح ہمیشہ ‘تنوع میں اتحاد’ میں جڑی ہوئی ہے اور خبردار کیا کہ اگر اس اصول کو توڑا گیا تو ہندوستان کی طاقت کم ہو جائے گی۔ لہذا، انہوں نے اس بنیادی اخلاق کو مسلسل تقویت دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج سماجی ہم آہنگی کو  آبادیاتی ہیرا پھیری اور دراندازی سے ملک کو ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے، جو براہ راست داخلی سلامتی اور مستقبل کے امن کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسی تشویش نے انہیں لال قلعہ سے ڈیموگرافی مشن کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکسی اور پرعزم کارروائی پر زور دیا۔

جناب مودی نے مزید روشنی ڈالی کہ خاندانی روشن خیالی وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اسے خاندانی ثقافت کی پرورش کے طور پر بیان کیا جو ہندوستانی تہذیب کی بنیاد ہے اور ہندوستانی اقدار سے متاثر ہے۔ انہوں نے خاندانی اصولوں کو برقرار رکھنے، بزرگوں کا احترام کرنے، خواتین کو بااختیار بنانے، نوجوانوں میں اقدار کو فروغ دینے اور اپنے خاندان کے تئیں ذمہ داریاں نبھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس محاذ پر خاندانوں اور معاشرے-  دونوں میں بیداری پیدا کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ ہر دور میں ترقی کرنے والی قوموں نے شہری نظم و ضبط کی مضبوط بنیاد کے ساتھ ایسا کیا، وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ شہری نظم و ضبط کا مطلب فرض کا احساس پیدا کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہر شہری اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو۔ انہوں نے صفائی کو فروغ دینے، قومی اثاثوں کا احترام کرنے اور قوانین و ضوابط کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ جناب مودی نے تصدیق کی کہ یہ آئین کی روح ہے کہ شہری اپنے فرائض کو پورا کرتے ہیں، اور اس آئینی اخلاق کو مسلسل مضبوط کیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم نے مزید روشنی ڈالی کہ ماحولیات کا تحفظ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ضروری ہے اور اس کا براہ راست تعلق انسانیت کے مستقبل سے ہے۔ انہوں نے نہ صرف معیشت بلکہ ماحولیات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ پانی کے تحفظ، سبز توانائی اور صاف توانائی جیسی مہمات اس سمت میں اہم قدم ہیں۔

انہوں نے کہا –‘‘راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی پانچ تبدیلی کی قراردادیں — خود آگاہی، سماجی ہم آہنگی، خاندانی روشن خیالی، شہری نظم و ضبط، اور ماحولیاتی شعور — ایسے اہم آلات ہیں جو ملک کی طاقت میں اضافہ کریں گے، ہندوستان کو متنوع چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کریں گے اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے بنیادی ستون کے طور پر کام کریں گے۔’’

وزیر اعظم نے کہا کہ 2047 میں ہندوستان فلسفہ اور سائنس، خدمات اور سماجی ہم آہنگی سے تشکیل پانے والا ایک شاندار ملک ہوگا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ویژن ہے، تمام سویم سیوکوں کی اجتماعی سوچ اور ان کا پختہ عزم ہے۔ انہوں نے  ملک کو یاد دلایا کہ سنگھ کی تعمیر قوم میں غیر متزلزل   اور خدمت کے گہرے جذبے ، قربانی اور تپسیا کی آگ میں جلتی ہے، اقدار اور نظم و ضبط کے ذریعے نکھارتی ہے اور قومی فرض کو زندگی کا سب سے بڑا فرض سمجھ کر مضبوط کھڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سنگھ اندرونی طور پرمادر ہند کی خدمت کے عظیم خواب سے جڑا ہوا ہے۔

جناب مودی نے اس تاریخی موقع پر سب کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام کیا – ‘‘سنگھ کا آئیڈیل ہندوستانی ثقافت کی جڑوں کو گہرا اور مضبوط کرنا ہے۔ اس کی کوشش سماج میں خود اعتمادی اور فخر پیدا کرنا ہے۔ اس کا مقصد ہر دل میں عوامی خدمت کے شعلے کو بھڑکانا ہے۔ اس کا ویژن ہندوستانی سماج کے لیے سماجی انصاف کی علامت بننا ہے۔ اس کا مشن ہندوستان کی آواز کو عالمی سطح پر بلند کرنا ہے، یہ یقینی بنانے کے لیے ایک محفوظ قوم ہےاور مستقبل میں عالمی سطح پر ایک محفوظ قوم کے لیے اس کا عزم ہے’’۔

اس تقریب میں مرکزی وزیر ثقافت جناب گجیندر سنگھ شیخاوت، دہلی کی وزیر اعلیٰ محترمہ ریکھا گپتا، آر ایس ایس کے سرکاریہ واہک (جنرل سکریٹری)  جناب  دتاتریہ ہوسبولے سمیت دیگر معززین موجود تھے۔

پس منظر

آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات کے ایک حصے کے طور پروزیر اعظم نے خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکہ جاری کیا جو  ملک کے لیے آر ایس ایس کے تعاون کو اجاگر کرتا ہے۔

1925 میں ناگپور، مہاراشٹر میں ڈاکٹر کیشو بلیرام ہیڈگیوار کے ذریعہ قائم کیا گیا آر ایس ایس کو ایک رضاکار پر مبنی تنظیم کے طور پر قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد شہریوں میں ثقافتی بیداری، نظم و ضبط، خدمت اور سماجی ذمہ داری کو فروغ دینا تھا۔

آر ایس ایس قومی تعمیر نو کے لیے ایک منفرد عوامی تحریک ہے۔ اس کے عروج کو صدیوں کی غیر ملکی حکمرانی کے ردعمل کے طور پر دیکھا گیا ہے، اس کی مسلسل ترقی کو دھرم میں جڑے ہندوستان کی قومی شان کے اس کے ویژن کی جذباتی گونج سے منسوب کیا گیا ہے۔

سنگھ کا بنیادی زور حب الوطنی اور قومی کردار کی تشکیل پر ہے۔ یہ مادر وطن سے عقیدت، نظم و ضبط، ضبط نفس، ہمت اور بہادری کو جنم دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سنگھ کا حتمی مقصد ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی ہے، جس کے لیے ہر سویم سیوک اپنے آپ کو وقف کرتا ہے۔

گزشتہ  صدی کے دوران، آر ایس ایس نے تعلیم، صحت، سماجی بہبود اور آفات سے نجات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آر ایس ایس کے رضاکاروں نے قدرتی آفات  جس میں سیلاب، زلزلے اور طوفانوں کے دوران راحت اور بحالی کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ، آر ایس ایس سے وابستہ مختلف تنظیموں نے نوجوانوں، خواتین اور کسانوں کو بااختیار بنانے، عوامی شرکت کو فروغ دینے اور مقامی کمیونٹیز کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

صد سالہ تقریبات نہ صرف آر ایس ایس کی تاریخی کامیابیوں کا احترام کرتی ہیں بلکہ ہندوستان کے ثقافتی سفر اور اس کے قومی اتحاد کے پیغام میں اس کی لازوال شراکت کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔

********

( ش ح۔ا ع خ ۔ ظ ا ۔ ع ا ۔ ج ا   )

U.No. 6887


(Release ID: 2173669) Visitor Counter : 21