امور داخلہ کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے نئی دہلی میں ’بھارت منتھن-2025: نکسل مکت بھارت – مودی کی قیادت میں سرخ دہشت گردی کا خاتمہ‘ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کیا


میں ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، اپنے پیاروں کو کھو دیا اور 1960 کی دہائی سے بائیں بازو کے تشدد کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی مشکلات کو برداشت کیا

جو لوگ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ترقی نہ ہونے کی وجہ سے بائیں بازو کی انتہا پسندی پھیلی ہے وہ ملک کو گمراہ کر رہے ہیں

جن کے ہاتھ میں ہتھیار ہیں انہیں قبائلیوں کی فکر نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں مسترد کیے گئے بائیں بازو کے نظریے کو زندہ رکھنے کی فکر ہے

نکسل سے متاثرہ علاقوں میں ترقی نہ ہونے کی واحد وجہ خود نکسل ازم ہے

جب تک نکسل ازم کو نظریاتی پرورش، قانونی مدد اور مالی مدد فراہم کرنے والے لوگوں کو بے نقاب نہیں کیا جاتا، نکسل ازم کی لعنت ختم نہیں ہوگی

ایک وقت تھا جب پشوپتی ناتھ سے تروپتی تک پھیلے ہوئے ریڈ کاریڈور کا نعرہ تشویش کا باعث تھا، لیکن آج جب اس کا ذکر آتا ہے تو لوگ ہنستے ہیں

مغربی بنگال میں نکسل ازم پروان چڑھا یہاں تک کہ بائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آئیں اور جیسے ہی انھوں نے ایسا کیا وہاں سے نکسل ازم ختم ہو گیا

ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے سرخ قالین بچھا ہوا ہے، لیکن یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ معصوم قبائلیوں کو نکسلیوں کے تشدد سے بچائے

ہتھیار ڈالنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نکسلیوں کا وقت ختم ہو رہا ہے

حکومت کو مشورہ دینے والے  اورلمبے لمبے مضامین لکھنے والے دانشور مظلوم قبائلیوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟ ان کی ہمدردی چنندہ کیوں ہے؟

مودی سرکار ہتھیار ڈالنے کی پالیسی کو فروغ دیتی ہے لیکن گولی کا جواب گولی سے ملے گا

آپریشن بلیک فاریسٹ کے دوران بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے خطوط لکھ کر مہم روکنے کی درخواست کی، جس سے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا

چھتیس گڑھ میں جب اپوزیشن پارٹی برسراقتدار تھی تو مشترکہ کارروائیوں میں محدود تعاون تھالیکن 2024 میں ہماری پارٹی کی حکومت بننے کے ایک سال کے اندر اندر 290 نکسلیوں کو بے اثر کر دیا گیا

Posted On: 28 SEP 2025 9:15PM by PIB Delhi

داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں ’بھارت منتھن-2025: نکسل مکت بھارت – مودی کی قیادت میں سرخ دہشت گردی کا خاتمہ‘ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کیا۔

 

 

اس موقع پر مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ بھارت  31 مارچ 2026 تک نکسل ازم سے آزاد ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ نکسل ازم کے خلاف جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک بھارتی سماج ان لوگوں کو نہیں سمجھتا جو نکسل ازم کو نظریاتی، قانونی اور مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ داخلی سلامتی اور ملکی سرحدوں کا تحفظ ہمیشہ سے ہمارے نظریے کا بنیادی حصہ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پارٹی کے مشن میں تین اہم مقاصد مرکزی حیثیت رکھتے ہیں: ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی، ثقافتی قوم پرستی اور ہندوستانی ثقافت کے تمام پہلوؤں کا احیاء۔ مرکزی وزیر داخلہ نے ان تمام لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، اپنے پیاروں کو کھو دیا اور 1960 کی دہائی سے بائیں بازو کے تشدد کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی مشکلات کو برداشت کیا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال میں نکسل ازم پروان چڑھا جب تک کہ بائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں نہیں آئیں اور جیسے ہی انہوں نے ایسا کیا وہاں سے نکسل ازم ختم ہوگیا۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ جب وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے عہدہ سنبھالا تو تین بڑے ہاٹ اسپاٹ جموں و کشمیر، شمال مشرق اور بائیں بازو کی راہداری نے ملک کی داخلی سلامتی کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً چار پانچ دہائیوں سے ان تینوں خطوں میں ابھرنے اور پھیلنے والی بدامنی کی وجہ سے ہزاروں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، املاک کو خاطر خواہ نقصان پہنچا ہے، ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ غریبوں کی ترقی سے ان ہاٹ اسپاٹ کو سنبھالنے میں لگا دیا گیا ہےاور سیکورٹی فورسز کو بھی بے پناہ جانی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد جناب نریندر مودی نے ان تینوں ہاٹ اسپاٹ پر توجہ مرکوز کی اور ایک واضح اور طویل مدتی حکمت عملی پر مبنی کام کیا۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ مودی حکومت کے 10 سالہ دور میں ایک اہم تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نکسل ازم اور مسلح بغاوت 1970 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی۔ 1971 میں آزاد ہندوستان نے 3,620 پرتشدد واقعات کی چوٹی دیکھی۔ اس کے بعد 1980 کی دہائی میں پیپلز وار گروپ نے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش، تلنگانہ، چھتیس گڑھ، اتر پردیش، جھارکھنڈ، بہار اور کیرالہ تک اپنی رسائی کو بڑھا دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1980 کی دہائی کے بعد بائیں بازو کے گروپ ایک دوسرے میں ضم ہونے لگے اور 2004 میں سی پی آئی (ماؤسٹ) کا بڑا گروپ بنا جس کے نتیجے میں نکسل تشدد نے بہت سنگین شکل اختیار کر لی۔ انہوں نے کہا کہ پشوپتی سے تروپتی تک کی راہداری کو ریڈ کوریڈور کے نام سے جانا جاتا تھا۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ ملک کا 17 فیصد علاقہ ریڈ کوریڈور سے گھرا ہوا ہے جس سے 120 ملین کی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اس وقت ملک کی 10 فیصد آبادی نکسل ازم کی زد میں تھی۔ جناب شاہ نے کہا کہ اس کے مقابلے میں دیگر دو ہاٹ اسپاٹ کم وسیع تھے۔ کشمیر، جس میں ملک کا ایک فیصد علاقہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور شمال مشرقی، 3.3 فیصد علاقہ بدامنی سے دوچار ہے۔انہوں نے کہا کہ جب جناب نریندر مودی 2014 میں وزیر اعظم بنے تو مودی حکومت نے بات چیت، سیکورٹی اور کوآرڈینیشن کے تین پہلوؤں پر کام کرنا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں 31 مارچ 2026 تک ملک سے مسلح نکسل ازم کا خاتمہ ہو جائے گا۔

 

 

مرکزی وزیر داخلہ اور امداد باہمی کے وزیر نے کہا کہ جہاں پہلے کام بکھرے ہوئے انداز کے ساتھ کیا جاتا تھا وہیں ردعمل واقعات پر مبنی تھا اور کوئی مستقل پالیسی نہیں تھی۔ ایک طرح سےکوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حکومت کے ردعمل کا اسٹیئرنگ نکسلیوں کے ہاتھ میں تھا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2014 کے بعد حکومت کی مہمات اور پروگراموں کا اسٹیئرنگ وزارت داخلہ، حکومت ہند کے پاس ہے اور یہ ایک بہت اہم پالیسی تبدیلی ہے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ منتشر نقطہ نظر کے بجائے مودی حکومت نے متحد اور بے رحم رویہ اپنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ سرخ قالین بچھایا جائے اور ہتھیار ڈال کر ہتھیار ڈالنے کی خواہش رکھنے والوں کا استقبال کیا جائےلیکن اگر کوئی معصوم قبائلیوں کو مارنے کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ معصوم قبائلیوں کی حفاظت کرے اور مسلح نکسلیوں کا مقابلہ کرے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ پہلی بار حکومت ہند نے بغیر کسی الجھن کے واضح پالیسی اپنائی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی پولیس اور مرکزی سیکورٹی فورسز کو آزادی دی گئی تھی اور حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں کے درمیان انٹیلی جنس، معلومات کے تبادلے اور آپریشن میں تال میل کے لیے ایک عملی پل بنایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نکسلیوں کے ہتھیار اور گولہ بارود کی سپلائی پر سخت کنٹرول نافذ کیا گیا تھا۔ 2019 کے بعد ہم ان کی 90 فیصد سے زیادہ سپلائی کو روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے اور ای ڈی نے ان لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے جو نکسلیوں کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں اور یہ کہ ہم نے شہری نکسل سپورٹ، ان کے قانونی امداد کے نیٹ ورکس اور میڈیا بیانیہ تیار کرنے کے خلاف بھی جنگ لڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مرکزی کمیٹی کے ارکان کے خلاف ٹارگٹڈ ایکشن لیا اور 19 اگست سے اب تک 18 سے زائد مرکزی کمیٹی کے ارکان کو بے اثر کیا جا چکا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ سیکورٹی کا خلا بھی پُر ہو گیا ہے اور آپریشن آکٹوپس اور آپریشن ڈبل بل جیسے ٹارگٹڈ آپریشن کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈی آر جی، ایس ٹی ایف، سی آر پی ایف اور کوبرا یونٹوں کی مشترکہ تربیت بھی شروع کی گئی ہے۔ اب چاروں مل کر آپریشن کرتے ہیں اور ان کی کمانڈ کا سلسلہ اب واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ مربوط تربیت نے ہماری کامیابی میں بڑا فرق ڈالا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فورنسک تحقیقات شروع کی گئیں، لوکیشن ٹریکنگ سسٹم دستیاب کرایا گیا، موبائل فون کی سرگرمی کو ریاستی پولیس کے ساتھ شیئر کیا گیا، سائنسی کال لاگ تجزیہ سافٹ ویئر تیار کیا گیا اور سوشل میڈیا کے تجزیے کو ان کے چھپے ہوئے حامیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس نے نہ صرف نکسل مخالف مہم کو تیز کیا بلکہ اسے مزید کامیاب اور نتیجہ خیز بھی بنایا۔

 

 

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ 2019 کے بعد ریاستوں کی صلاحیت سازی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ایس آر ای اور ایس آئی سی  اسکیموں کے تحت تقریباً 3,331 کروڑ روپے  جاری کیے گئے جو کہ 55 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے قلعہ بند پولیس اسٹیشنوں کو وسعت دی گئی، جس پر تقریباً 1,741 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت نے سیکورٹی کے خلا کو دور کرنے کے لئے 336 نئے سی اے پی ایف کیمپ قائم کئے۔ نتیجتاً،14-2024کے عرصے کے مقابلے میں، 24-2014 کے عرصے میں سیکورٹی اہلکاروں کی اموات میں 73 فیصد اور عام شہریوں کی اموات میں 74 فیصد کمی دیکھی گئی۔ جناب شاہ نے کہا کہ اس سے پہلے چھتیس گڑھ میں اپوزیشن کی حکومت کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ تاہم 2024 میں ہماری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعدایک ہی سال میں سب سے زیادہ تعداد میں نکسلائیٹس — 290  کو بے اثر کر دیا گیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم کسی کو مارنا نہیں چاہتے۔ 290 نکسلائٹس کے مقابلے میں 1,090 کو گرفتار کیا گیا اور 881 نے خودسپردگی کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ نکسلیوں کو ہتھیار ڈالنے یا گرفتار کرنے کا موقع دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم جب نکسلی ہتھیار اٹھاتے ہیں اور معصوم ہندوستانی شہریوں کو مارنے کے لیے نکلتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کے پاس طاقت سے جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2025 میں اب تک 270 نکسلیوں کو بے اثر کیا گیا ہے، 680 کو گرفتار کیا گیا ہے اور 1225 نے خودسپردگی کی ہے۔ دونوں سالوں میں ہتھیار ڈالنے اور گرفتاریوں کی تعداد بے اثر ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کی زیادہ تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نکسلیوں کے لیے اب بہت محدود وقت رہ گیا ہے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ نکسلیوں نے تلنگانہ-چھتیس گڑھ سرحد پر کریگوٹا پہاڑیوں پر ایک بڑا کیمپ قائم کیا تھا، جس میں ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ دو سال کا راشن اور ہتھیاروں اور آئی ای ڈیز بنانے کی فیکٹریاں موجود تھیں اور اس تک رسائی انتہائی مشکل تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 23 ​​مئی 2025 کو آپریشن بلیک فاریسٹ میں اس کیمپ کو تباہ کر دیا گیا اور 27 سخت نکسلائیٹس مارے گئے۔ مزید برآں بیجاپور میں 24 کٹر نکسلائیٹس مارے گئے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس آپریشن کے ذریعے چھتیس گڑھ میں باقی ماندہ نکسلیوں کی کمر توڑ دی گئی۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2024 میں بے اثر کیے گئے نکسلائٹس میں سے ایک  زونل کمیٹی ممبر، 5 سب زونل کمیٹی ممبران، 2 اسٹیٹ کمیٹی ممبران، 31 ڈویژنل کمیٹی ممبران اور 59 ایریا کمیٹی ممبران تھے۔

مرکزی وزیر داخلہ اور امداد باہمی  کے وزیر نے کہا کہ 1960 سے 2014 تک کل 66 قلعہ بند پولیس اسٹیشن تھے اور مودی حکومت کے 10 سالوں میں 576 نئے قلعہ بند پولیس اسٹیشن قائم کیے گئے۔ 2014 میں نکسلائیٹ سے متاثرہ 126 اضلاع تھے، جو اب کم ہو کر 18 ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع کی تعداد 36 سے کم ہو کر 6 ہو گئی ہے۔ تھانوں کی تعداد تقریباً 330 سے ​​کم ہو کر 151 ہو گئی ہے، جن میں سے 41 نئے قائم کیے گئے ہیں۔ پچھلے چھ سالوں میں 336 سیکورٹی کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور نائٹ لینڈنگ کے لیے 68 ہیلی پیڈ بنائے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ سی آر پی ایف کے اہلکاروں کے لیے 76 نائٹ لینڈنگ ہیلی پیڈ بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نکسلائیٹس کے مالی وسائل کو روکنے کے لیے این آئی اے، ای ڈی اور ریاستی حکومتوں نے کروڑوں روپے کی جائیداد ضبط کی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کے ساتھ تال میل کے لیے ان کی سطح پر وزرائے اعلیٰ کے ساتھ 12 میٹنگیں ہوئی ہیں، جن میں 8 میٹنگیں خاص طور پر چھتیس گڑھ میں ہوئی ہیں۔ چھتیس گڑھ حکومت نے نکسلی ہتھیار ڈالنے کے لیے ایک پرکشش پیکیج متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بائیں بازو کے انتہا پسند علاقوں میں کئی ترقیاتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جہاں بھی بائیں بازو کے نظریے نے عالمی سطح پر جڑ پکڑی ہےاس کا تشدد کے ساتھ لازم و ملزوم تعلق رہا ہے اور یہی نکسل ازم کی جڑ ہے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ جو لوگ اس خیال کا پرچار کرتے ہیں کہ بائیں بازو کی انتہا پسندی کی جڑ ترقی کی کمی ہے وہ قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے 60 کروڑ غریبوں کے لیے بے شمار اسکیمیں شروع کی ہیں، لیکن نکسل متاثرہ علاقوں میں ان اسکیموں کو عوام تک پہنچنے سے کون روکتا ہے؟ انہوں نے سوال کیا کہ اگر اسکول سکما یا بیجاپورمیں نہیں پہنچے تو ذمہ دار کون ہے؟ بائیں بازو کی اکثریت والے علاقوں میں سڑکیں کیوں نہیں بنیں؟ کیونکہ نکسلیوں نے ٹھیکیداروں کو مار ڈالا۔ شاہ نے سوال کیا کہ حکومت کو مشورہ دینے والے طویل مضامین لکھنے والے دانشور مظلوم قبائلیوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟ ان کی ہمدردی انتخابی کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ نکسلیوں کے حامی نہ تو قبائلیوں کی ترقی چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ حقیقی طور پر ان کی پروا کرتے ہیں۔ اس کے بجائےوہ صرف اپنے نظریے کو زندہ رکھنے کے لیے فکر مند ہیں، جسے دنیا بھر میں مسترد کر دیا گیا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ ان علاقوں میں ترقی نہ پہنچنے کی واحد وجہ بائیں بازو کا نظریہ ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ نکسلیوں نے پہلے آئین اور پھر عدالتی نظام کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے ایک آئینی خلا پیدا کیا، پھر ریاست کے تصور پر حملہ کیا اور خود ریاست کا خلا پیدا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی ان میں شامل نہیں ہوا اسے ریاست کا مخبر قرار دے کر ان کی نام نہاد عوامی عدالتوں میں موت کی سزا سنائی گئی۔ یہاں تک کہ انہوں نے متوازی حکومت قائم کی۔ جناب شاہ نے کہا کہ قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کسی کے نظریے سے اوپر اٹھنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس گورننس کے خلا کی وجہ سے ہی ترقی، خواندگی اور صحت کی سہولیات ان علاقوں تک نہیں پہنچ سکیں۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آپریشن بلیک فاریسٹ کے دوران بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے خطوط لکھ کر مہم روکنے کی درخواست کی، جس سے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نکسلیوں کے ساتھ جنگ ​​بندی نہیں ہوگی۔ اگر وہ ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں تو جنگ بندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انہیں بس ہتھیار ڈال دینے چاہئیں۔ پولیس ایک بھی گولی نہیں چلائے گی اور انہیں دوبارہ جوڑ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن بلیک فاریسٹ شروع ہوتے ہی نکسلائیٹس کے حامیوں کی تمام خفیہ ہمدردیوں کا پردہ فاش ہو گیا۔

مرکزی وزیر داخلہ اور امداد باہمی کے وزیر نے کہا کہ 2014 سے 2024 کے درمیان بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ ریاستوں میں 12,000 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں، 17,500 سڑکوں کے لیے بجٹ منظور کیا گیا ہےاور 5,000 موبائل ٹاور لگائے گئے ہیں، جن کی لاگت 3 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1,060 بینک برانچیں کھولی گئی ہیں، 937 اے ٹی ایمز لگائے گئے ہیں، 37،850 بینکنگ نمائندے مقرر کیے گئے ہیں، 5،899 ڈاک خانے کھولے گئے ہیں، 850 اسکول قائم کیے گئے ہیں اور 186 بہترین صحت کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیاڈ نیلنار اسکیم کے تحت چھتیس گڑھ حکومت آیوشمان بھارت کارڈ، آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ، اسکولوں، راشن کی دکانوں اور آنگن باڑی مراکز کی تعمیر کو منظور کرنے پر کام کر رہی ہے۔

شمال مشرق میں شورش کا ذکر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ 14-2024 کے مقابلے 24-2014 کی مدت میں سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ اسی طرح  14-2024 کے مقابلے 24-2014  میں عام شہریوں کی اموات میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔ مودی حکومت نے 12 اہم امن معاہدوں میں سہولت فراہم کی اور 10,500 مسلح نوجوانوں کو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پورا شمال مشرقی ملک کے باقی حصوں سے کٹا ہوا محسوس ہوتا تھا لیکن آج یہ ٹرین اور ہوائی سفر کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ مودی حکومت نے دہلی اور شمال مشرق کے درمیان نہ صرف جسمانی فاصلے بلکہ جذباتی فاصلے کو بھی کم کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج شمال مشرق امن اور ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو 2019 میں وزیر اعظم مودی کی قیادت میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے ترقی، تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کے اقدامات کے ذریعے منظم طریقے سے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے پیش نظر مودی حکومت نے ایک منصوبہ بند پالیسی کے تحت کام کیا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 14-2024 کے دوران 7,300 پرتشدد واقعات کے مقابلے 24-2014 میں 1,800 پرتشدد واقعات ہوئے۔ سیکورٹی اہلکاروں کی اموات میں 65 فیصد اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں 77 فیصد کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وہاں ملک کا ہر قانون لاگو ہو رہا ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار جموں و کشمیر میں پنچایتی انتخابات ہوئے جن میں 99.8 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ جناب شاہ نے کہا کہ ہم جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے راستے پر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔

 

**

 

UR-6761

(ش ح۔س ک ۔ ع ر )

 


(Release ID: 2172637) Visitor Counter : 9