وزیراعظم کا دفتر
لال قلعہ کی فصیل سے 79ویں یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے خطاب کا متن
Posted On:
15 AUG 2025 12:29PM by PIB Delhi
میرے پیارے ہم وطنو،
آزادی کا یہ عظیم تہوار 140 کروڑ عزائم کا تہوار ہے۔ آزادی کا یہ تہوار اجتماعی کامیابیوں کا فخر کا لمحہ ہے اور دل امنگ سے بھرا ہوا ہے۔ ملک کےاتحاد کے جذبے کو مسلسل مضبوطی دے رہا ہے۔ 140 کروڑ ملک کے باشندے آج ترنگے کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ ہر گھر ترنگا، بھارت کے ہر کونے سے، چاہے ریگستان ہو یا ہمالیہ کی چوٹیاں، سمندر کے کنارے ہوں یا گنجان آبادی والے علاقے، ہر طرف سے ایک ہی گونج ہے، ایک ہی نعرہ ہے، اپنی جان سے زیادہ پیارے مادر وطن کی تعریف ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
1947ء میں لامحدود امکانات کے ساتھ، بے شمار بازوؤں کی طاقت سے ہمارا ملک آزاد ہوا۔ ملک کی امنگیں پرواز کر رہی تھیں، لیکن چیلنجزاس سے بھی کچھ زیادہ تھے۔قابل احترام باپوکے اصولوں پرعمل کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی کے ارکان نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان کا آئین 75 برسوں سے منارہ نور بن کرہمیں راستہ دکھاتا رہا ہے۔ بھارت کے آئین سازوں، کئی عظیم شخصیات ڈاکٹر راجندر پرساد، بابا صاحب امبیڈکر، پنڈت نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن جی، اتنا ہی نہیں ہماری ناری شکتی کا تعاون بھی کم نہیں تھا۔ ہنسا مہتا جی، دکشیانی ویلایودھن جیسے اسکالرزنے بھی بھارت کے آئین کو مضبوط بنانے میں اپنا رول ادا کیا تھا۔ آج لال قلعہ کی فصیل سے میں آئین کے معماروں، ملک کی رہنمائی کرنے والوں، ملک کو سمت دینے والوں کے سامنے احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج ہم ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا 125واں یوم پیدائش بھی منا رہے ہیں۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی بھارت کے آئین کے لیے قربانی دینے والے ملک کے پہلے عظیم شخص تھے۔آئین کے لیے قربانی، دفعہ 370 کی دیوار گراکر ایک ملک ، ایک آئین کے منتر کو جب ہم نے حقیقت بنایا تو ہم نے ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کو سچا خراج عقیدت پیش کیا۔آج لال قلعہ پر بہت سے خاص معززین موجود ہیں،دور دراز کے گاؤوں سے تعلق رکھنے والے پنچایتوں کے ارکان ہیں، ڈرون دیدی کے نمائندے ہیں، لکھ پتی دیدی کے نمائندے ہیں، کھیلوں کی دنیا کے لوگ، قومی زندگی میں کچھ نہ کچھ تعاون کرنے والی عظیم شخصیات یہاں موجود ہیں،ایک طرح سے میں یہاں ایک چھوٹے ہندوستان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں اور ٹیکنالوجی کے وسیلے سے عظیم بھارت کے ساتھ بھی آج لال قلعہ جڑا ہوا ہے۔ آزادی کے اس عظیم تہوار پرمیں ہم وطنوں کو،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستان سے محبت کرنے والوں کو، اپنے دوستوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو!
قدرت ہم سب کا امتحان لے رہی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے،ہم قدرتی آفات،مٹی کے تودے کھسکنے، بادل پھٹنے اور بہت سی دوسری آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں متاثرین کے ساتھ ہمدردی ہے، ریاستی حکومتیں اور مرکزی حکومت مل کر پوری طاقت کے ساتھ بچاؤ،امدادی کاموں، بازآبادکاری کے کاموں میں مصروف ہیں۔
ساتھیو،
آج میں 15اگست کی ایک خاص اہمیت بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں بہت فخر محسوس کر رہا ہوں،آج مجھے لال قلعہ کی فصیل سے آپریشن سندور کے بہادرسپاہیوں کو سلام پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے بہادر سپاہیوں نے دشمنوں کو ان کے تصور سے بھی بڑھ کرسزا دی ہے۔ 22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گردوں نے سرحد پار سے جس طرح کا قتل عام کیا، لوگوں کو ان کا مذہب پوچھ پوچھ کر قتل کیا گیا، شوہر کو بیوی کے سامنے گولی مار دی گئی، باپ کو بچوں کے سامنے مار دیا گیا، پورا ہندوستان غم و غصے سے بھرا ہوا تھا،پوری دنیا بھی اس قسم کے قتل عام سے چونک گئی تھی ۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آپریشن سندور اسی غصے کا اظہار ہے۔ 22 تاریخ کے بعد ہم نے اپنی فوج کو کھلی چھوٹ دے دی۔ انہوں نے حکمت عملی طے کی،انہوں نے ہدف کا تعین کیا،انہوں نے وقت کا انتخاب کیا اور ہماری فوج نے وہ کام کیا جو کئی دہائیوں سے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ سینکڑوں کلومیٹر دشمن کے علاقے میں داخل ہوکر دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر کو زمین بوس کر دیا،دہشت گردوں کی عمارتوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان کی نیند ابھی بھی اڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہوئی تباہی اتنی زیادہ ہے کہ روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں، نئی نئی جانکاریاں سامنے آ رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو
ہمارا ملک کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکارہے۔ ملک کے سینے کو چھلنی کردیا گیاہے۔ اب ہم نے ایک نیا معمول قائم کیا ہے،اب ہم دہشت گردی اور دہشت گردوں کی پرورش کرنے والوں، دہشت گردوں کو طاقت دینے والوں کوالگ نہیں سمجھیں گے۔ یہ ایک جیسے انسانیت کے دشمن ہیں،ان میں کوئی فرق نہیں۔ اب بھارت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم ان ایٹمی دھمکیوں کو مزید برداشت نہیں کریں گے،ایٹمی بلیک میلنگ لمبے عرصے سے چلی آرہی ہے،اب وہ بلیک میل نہیں سہا جائے گا۔ آگے بھی اگردشمنوں نے یہ کوشش جاری رکھی، ہماری فوج طے کرے گی، فوج کی شرطوں پر،فوج جو وقت مقرر کرے ، اس وقت پر ،فوج جو طور طریقے طے کرے، اس طریقے سے ، فوج جو ہدف مقرر کرے اس ہدف کو اب ہم عمل میں لاکر رہنے والے ہیں۔ہم منہ توڑ جواب دیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
اب بھارت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہیں گے۔ اب اہل وطن بخوبی جان چکے ہیں کہ دریائے سندھ کا سمجھوتہ کتنا غیر منصفانہ ہے اور کتنا یک طرفہ ہے۔ بھارت سے نکلنے والے دریاؤں کا پانی میرے ملک کے دشمنوں اور کسانوں کے کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے،میرے ملک کی زمین پانی کی پیاسی ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ تھا، جس نے گزشتہ 7 دہائیوں سے میرے ملک کے کسانوں کو ناقابل تصور نقصان پہنچایا ہے۔ اب پانی پر جو ہندوستان کا حق ہے وہ صرف ہندوستان کا ہے، ہندوستان کے کسانوں کا ہے۔ بھارت نے سندھو معاہدے کو کئی دہائیوں سے اسی شکل میں برداشت کیا، اس شکل میں مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کسانوں کے مفاد میں، قوم کے مفاد میں ہمیں یہ سمجھوتہ منظور نہیں ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
لاتعداد لوگوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، اپنی پوری جوانی گزاردی، جیلوں میں زندگی گزارد ی ،پھانسی کے تختے پر لٹک گئے ، کچھ لینے، پانے یا بننے کے لیے نہیں، بلکہ ماں بھارتی کے وقارکے لیے، کروڑوں لوگوں کی آزادی کے لیے، غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے اور ذہن میں ایک ہی احساس تھا، ملک کا وقار۔
ساتھیو،
غلامی نے ہمیں غریب بنا دیا، غلامی نے ہمیں محتاج بھی بنا دیا، دوسروں پر ہمارا انحصار بڑھ گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد کروڑوں لوگوں کو کھانا کھلانا ایک بڑا چیلنج تھا اور یہ میرے ملک کے کسان ہیں جنہوں نے سخت محنت کر کے ملک کے غذائی ذخائر کو بھردیا۔ ملک کو اناج کے معاملے میں خود کفیل بنایا۔ آج بھی کسی قوم کی عزت نفس کا سب سے بڑا معیار اس کی خود انحصاری ہے۔
اور میرے پیارے ہم وطنو،
وکست بھارت کی بنیاد ہی آتم نربھر بھارت ہے۔ انسان جتنا زیادہ دوسروں پر انحصار کرتا ہے، اس کی آزادی پر اتنا ہی بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے اور افسوسناک صورتحال اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو کسی پر منحصر رہنےکی عادت پڑ جاتی ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ کب ہم خود انحصاری چھوڑ رہے ہیں اور کب کسی دوسرے پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یہ عادت خطرے سے خالی نہیں ہے اس لیے خود انحصاری کے لیے ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے۔
اور میرے پیارے ہم وطنو،
خود انحصاری صرف درآمد و برآمد، روپیہ، پیسہ، پاؤنڈ، ڈالر تک محدود نہیں، اس کے اتنے محدود معنی نہیں ہیں۔ خود انحصاری کا تعلق ہماری طاقت سے ہے اور جب خود انحصاری ختم ہونے لگتی ہے تو طاقت بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے اس لیے اپنی طاقت کی حفاظت، اسےبرقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے خود انحصاری کا ہونا بہت ضروری ہے!
ساتھیو،
ہم نے آپریشن سندور میں دیکھا ہے کہ میڈ ان انڈیا کا کمال کیا تھا۔ دشمن کو پتہ تک نہیں چلا کہ کون کون سے ہتھیار ہیں، یہ کون سی طاقت ہے جو انہیں پلک جھپکتے ہی تباہ کر رہی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر ہم آتم نربھر نہ ہوتے تو کیا اتنی تیز رفتاری سے آپریشن سندور کو انجام دینے میں کامیاب ہوتے؟ ہم نہیں جان پاتے کہ کون سپلائی دےگا یا نہیں، ساز وسامان ملے گا یا نہیں، اسی کی فکر لاحق رہتی۔ لیکن ہمارے ہاتھ میں میڈ ان انڈیا کی طاقت تھی، فوج کے ہاتھ میں تھی، اس لیے بغیر کسی فکر کے، بغیر کسی رکاوٹ کے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہماری فوج اپنی بہادری کا مظاہرہ کرتی رہی اور پچھلے 10 برسوں سے ہم دفاعی میدان میں خود انحصاری کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں، آج اس کے نتائج نظر آ رہے ہیں۔
ساتھیو،
میں آپ کی توجہ ایک اور موضوع کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 21ویں صدی ٹیکنالوجی پر مبنی صدی ہے اور تاریخ پر نظر ڈالیں تو تاریخ شاہدہے کہ جن ممالک نے ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی وہ ترقی کی بلندیوں کو عبور کر کے معراج پر پہنچے، معاشی طاقت نئی بلندیوں پر پہنچاتی ہے۔ جب ہم ٹیکنالوجی کی مختلف جہتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میں آپ کی توجہ سیمی کنڈکٹرز کی طرف مبذول کراتا ہوں، میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ میں یہاں لال قلعہ سے کسی پر، کسی حکومت پر تنقید کرنے کے لیے نہیں کھڑا ہوں اور نہ ہی میں ایسا کرنا چاہتا ہوں، لیکن ملک کی نوجوان نسل کے لیے معلومات کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں سیمی کنڈکٹرز سے متعلق فائلیں 50 سے60 سال پہلے شروع ہوئی تھیں۔ فیکٹری کا خیال 50 سے 60 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ آپ نوجوانوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج سیمی کنڈکٹرپوری دنیا میں ایک طاقت بن چکے ہیں۔ 50-60 سال پہلے وہ خیالات، وہ فائلیں اٹک گئیں، لٹک گئیں، اٹک گئیں، سیمی کنڈکٹر کا خیال شروع میں ہی ختم ہو گیا، 50-60 سال ضائع ہو گئے۔ ہمارے بعد بہت سے ممالک سیمی کنڈکٹر میں مہارت حاصل کر کے دنیا میں اپنی طاقت بڑھارہے ہیں۔
ساتھیو،
آج ہم نے خود کو اس بوجھ سے آزاد کر لیا ہے اور سیمی کنڈکٹرز کے کام کو مشن موڈ میں آگے بڑھایا ہے۔ 6 مختلف سیمی کنڈکٹر یونٹیں زمین پر اتر رہی ہیں، ہم نے پہلے ہی چار نئے یونٹوں کو گرین سگنل دے دیا ہے۔
اور میں اپنے ہم وطنوں اور خاص طور پر نوجوانوں اور دنیا بھر میں ہندوستان کی ٹیکنالوجی کی طاقت کو سمجھنے والے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس سال کے آخر تک ہندوستان میں بنی میڈ ان انڈیا چپس، ہندوستان کے لوگوں کے ذریعہ تیار کردہ، ہندوستان میں بنی ہوئی چپس مارکیٹ میں آجائیں گی۔ میں ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں، توانائی کے شعبے میں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم توانائی کے لیے بہت سے ممالک پر انحصار کرتے ہیں، چاہے وہ پیٹرول ہو، ڈیزل ہو، گیس ہو، ہمیں اسے حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ملک کو اس بحران سے نکال کر توانائی میں خود کفیل بنانا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم نے چیلنج قبول کیا اور آج 11 برسوں میں شمسی توانائی 30 گنا بڑھ گئی ہے۔ ہم نئے ڈیم بنا رہے ہیں تاکہ آبی توانائی وسعت اختیار کرےاور ہمیں صاف توانائی دستیاب ہو۔ ہندوستان آج مشن گرین ہائیڈروجن کے تحت ہزاروں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ مستقبل کی توانائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے، توانائی کے شعبوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہندوستان ایٹمی توانائی کے ضمن میں بھی بہت بڑے اقدامات کر رہا ہے۔ جوہری توانائی میں 10 نئے جوہری ری ایکٹر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ 2047 تک ہم نے ترقی یافتہ ہندوستان کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جب ملک آزادی کے 100 سال مکمل کرے گا، ہم ایٹمی توانائی کی صلاحیت کو 10 گنا سے زیادہ بڑھانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
اصلاحات ایک مسلسل عمل ہے، حالات اور وقت کے مطابق اصلاحات کرنی پڑتی ہیں، ہم ایٹمی توانائی کے شعبے میں بہت بڑی اصلاحات لیکر آئے ہیں۔ اب ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے بھی جوہری توانائی کے دروازے کھول دیے ہیں، ہم توانائی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج جب دنیا عالمی حدت سے پریشان ہے تو میں دنیا کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم 2030 تک ہندوستان میں 50 فیصد تک صاف توانائی فراہم کریں گے، یہ ہمارا ہدف تھا، میرے ہم وطنوں کی طاقت دیکھو، میرے ہم وطنوں کا عزم دیکھو، ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے عزم کو پورا کرنے کے لئے میرے ہم وطنوں کی تگ و دو دیکھئے، ہم نے2030 کے لئے جو ہدف مقرر کیا تھا یعنی 50 فیصد صاف توانائی کا ہدف اسے ہم نے 2025 میں ہی حاصل کرلیا، 5 سال پہلے ہم نے ہدف حاصل کرلیا۔ کیونکہ دنیا کے تئیں بھی ہم اسی قدر حساس ہیں اور قدرت کے تئیں بھی ہم اتنے ہی ذمہ دار لوگ ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
بجٹ کابہت بڑا حصہ یہ پیٹرول، ڈیزل، گیس، ان سب کو لانے کے لئے خرچ ہوتا تھا۔ لاکھوں-کروڑوں روپے چلے جاتے تھے۔ اگر ہم توانائی پر منحصر نہ ہوتے تو وہ رقم میرے ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کے لیے کام آتی، وہ پیسہ میرے ملک کے غریبوں کی غریبی کے خلاف لڑنے میں کام آتا، وہ رقم میرے ملک کے کسانوں کی فلاح و بہبود میں کام آتی، وہ پیسہ میرے ملک کے گاؤوں کے حالات بدلنے کے لیے کام آتا، لیکن ہمیں بیرونی ممالک کو دینا پڑتا تھا۔ اب ہم خود کفیل بننے کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے اب ہم سمدر منتھن کی طرف بھی جا رہے ہیں۔ہمارے سمدر منتھن کو آگے بڑھاتے ہوئے، ہم سمندر کے اندر تیل کے ذخائر، گیس کے ذخائر ، اس کو تلاش کرنے کی سمت ایک مشن موڈ میں کام کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے بھارت نیشنل ڈیپ واٹر ایکسپلوریشن مشن شروع کرنے جا رہا ہے۔ یہ توانائی میں خود کفیل بننے کے لیے ہمارا اہم اعلان ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج پوری دنیا کریٹیکل منرل کے حوالے سے بہت ہی محتاط ہو گئی ہے، اس کی صلاحیت کو لوگ اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔ کل تک جس طرف زیادہ توجہ نہیں تھی، وہ آج سینڑل اسٹیج پر آ گیا ہے۔ ہمارے لئے بھی کریٹیکل منرلز میں خود انحصاری بہت ضروری ہے۔ توانائی کا شعبہ ہو، صنعت کا شعبہ ہو، دفاعی شعبہ ہو، ٹیکنالوجی کا ہر شعبہ ہو، آج کریٹیکل منرلز کاٹیکنالوجی کے اند بہت اہم رول ہے اور اسی لیے نیشنل کریٹیکل مشن ہم نے لانچ کیا ہے، 1200 سے زائد مقامات پر تلاش کی مہم جاری ہے اور ہم کریٹیکل منرل میں بھی خود انحصاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
خلائی شعبے کا کمال تو ملک کا ہر شہری دیکھ رہا ہے، فخر سے لبریز ہو رہاہے۔ اور ہمارے گروپ کیپٹن شوبھانشو شکلا اسپیس اسٹیشن سے واپس آچکے ہیں اور آنے والے کچھ دنوں میں وہ بھارت بھی آ رہے ہیں۔ ہم خلا میں بھی اپنے دَم پرآتم نربھر بھارت گگن یان کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بل بوتے پر اپنا خلائی اسٹیشن بنانے کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔ اور گزشتہ دنوں اسپیس میں جو اصلاحات کی گئیں، ان پر مجھے بہت فخر ہو رہا ہے ، میرے ملک کے 300 سے زائد اسٹارٹ اپس اب صرف اور صرف خلائی شعبے میں کام کر رہے ہیں اور ان 300 اسٹارٹ اپس میں ہزاروں نوجوان پوری صلاحیت کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ یہ ہے میرے ملک کے نوجوانوں کی طاقت اور یہ ہےہمارا ،ہمارے ملک کے نوجوانوں کے تئیں اعتماد۔
میرے پیارے ہم وطنو،
140 کروڑ ہندوستانی 2047 میں جب آزادی کے 100برس مکمل ہوں گے ، وِکست بھارت کے عزم کو پورا کرنے کے لئے پوری طاقت کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ اس عزم کو پورا کرنے کے لیے بھارت آج ہر شعبے میں جدید ماحولیاتی نظام تیار کر رہا ہے اور جدید ماحولیاتی نظام ہمارے ملک کو ہر شعبے میں خود کفیل بنائے گا۔ آج لال قلعہ کی فصیل سے ،میرے ملک کے نوجوان سائنسدانوں، میرے باصلاحیت نوجوانوں، میرے انجینئروں اور پیشہ ور افراد سے اور حکومت کے ہر محکمے سے بھی میری اپیل ہے ،کیا ہمارا اپنا میڈ ان انڈیا فائٹر جیٹس کے لیے جیٹ انجن نہیں ہونا چاہیے ؟ ہمیں فارما آف دی ورلڈ سمجھا جاتا ہے۔ ویکسین میں ہم نئے –نئے ریکارڈ قائم کرتے ہیں ،لیکن کیا یہ وقت کا تقاضا نہیں ہے کہ ہم تحقیق اور ترقی میں مزید توانائی لگائیں، ہمارے اپنے پیٹنٹ ہوں، ہماری اپنی بنائی ہوئی بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کفایتی سے کفایتی اور سب سے موثر ادویات پر تحقیق ہو اور بحران کے وقت سائڈ افیکٹ کے بغیر یہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کام آئے۔ بایو ای 3پالیسی حکومت ہند نے تیار کی ہے، میں ملک کے نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ آئیے ،بایو ای 3پالیسی کا مطالعہ کرکے آپ قدم اٹھایئے، ملک کی تقدیر بدلنی ہے اور ہمیں آپ کا تعاون چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج آئی ٹی کا دور ہے، ڈیٹا کی طاقت ہے، کیا یہ وقت کا تقاضانہیں ہے؟ آپریٹنگ سسٹم سے لے کر سائبر سکیورٹی تک، ڈیپ ٹیک سے لے کر مصنوعی ذہانت تک، تمام چیزیں ہماری اپنی ہوں، جن پر ہمارے اپنے ہی لوگوں کی صلاحیت لگی ہو، ان کی صلاحیت اور طاقت کو دنیاسے متعارف کرائیں۔
ساتھیو،
آج دنیا میں سوشل میڈیا کی بات کیجئے، باقی پلیٹ فارم کی بات کیجئے، دنیا کے پلیٹ فارم پر ہم کام کر رہے ہیں۔ دنیا کو ہم نے دکھادیا ہے ،یو پی آئی کا ہمارا اپنا پلیٹ فارم آج دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ ہمارے اندر صلاحیت ہے، ریئل ٹائم ٹرانزیکشن میں 50 فیصد تنہا بھارت یوپی آئی کے ذریعے کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طاقت ہے، تخلیقی دنیا ہو، سوشل میڈیا ہو، یہ جتنے بھی پلیٹ فارم ہیں، میں اپنے ملک کے نوجوانوں سےاپیل کرتا ہوں، آپ آیئے ، ہمارے اپنے پلیٹ فارم کیوں نہیں ہوں، ہم کیوں دوسروں پر منحصر رہیں،کیوں بھارت کا پیسہ باہر جائے اور مجھے آپ کی صلاحیت پر بھروسہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
جس طرح ہم توانائی کے شعبے میں منحصر ہیں، اسی طرح ملک کی بدقسمتی ہے کہ کھاد کے معاملے میں بھی ہمیں دنیا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ میرے ملک کے کسان بھی کھاد کا صحیح استعمال کر کے دھرتی ماں کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اناپ شناپ استعمال سے بھی دھرتی ماں کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن ساتھ-ساتھ میں ملک کے نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں، ملک کی صنعتی دنیاکو کہنا چاہتا ہوں، ملک کے نجی شعبے سے کہنا چاہتا ہوں، آئیے ہم کھاد کے ذخائر بھر دیں، ہم نئے –نئے طور-طریقے تلاش کریں اور بھارت کی ضرورت کے مطابق اپنی کھاد تیار کریں، ہم دوسروں پر منحصر نہ رہیں۔
ساتھیو،
آنے والا دور ای وی کا ہے۔ اب ای وی بیٹری کیا ہم نہیں بنائیں گے، ہم منحصر رہیں گے۔ سولر پینل کی بات ہو، الیکٹرانک گاڑیوں کے لیے جو -جو چیزیں درکار ہیں،وہ ہماری اپنی ہونی چاہئیں۔
ساتھیو،
میں یہ اس لئے کہنے کی ہمت کرتا ہوں ،کیوں، کیونکہ مجھے ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے اور یقین صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ میرے ملک کے نوجوان ہیں، کووِڈ کے دوران ہم بہت سی چیزوں پر منحصر تھے، جب میرے ملک کے نوجوانوں سے کہا گیا کہ ویکسین ہماری اپنی ہونی چاہیے، توملک نے کر کے دکھایا۔ کووِن پلیٹ فارم ہمارا اپنا ہونا چاہئے، ملک نے کرکے دکھایا۔ کروڑوں –کروڑوں لوگوں کی زندگی بچانے کا کام ہم نے کیا ہے۔وہی مزاج، وہی جذبہ، ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں خود کفیل بننے کے لیے اپنا سب کچھ لگانا ہوگا، ہمیں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے، ہمیں دیکھ کر رہنا ہے۔
ساتھیو،
پچھلے 11 برسوں میں انٹرپرینیورشپ نے بڑی طاقت حاصل کی ہے۔ آج ٹائر-2، ٹائر-3 شہروں میں لاکھوں اسٹارٹ اپس ملک کی معیشت کو، ملک کی اختراع کو تقویت دے رہے ہیں۔ اسی طرح مدرا یوجنا کے ذریعے ہمارے ملک کے کروڑوں نوجوان، جن میں ہماری بیٹیاں بھی ہیں، مدرا سے قرض لے کر اپنا کاروبار کر رہی ہیں۔ وہ خود تواپنے پیروں پر کھڑے ہوئے ہیں ہی اور دوسروں کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی طاقت دیتے ہیں۔ اس سے ہر شخص کو ایک طرح سے خود کفیل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔
میرے ساتھیو،
خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ، جن پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی، پچھلے 10 برسوں میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں نے حیرت انگیز کام کیے ہیں۔ آج ان کی مصنوعات عالمی منڈی میں جانے لگی ہیں۔ ہماری خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ لاکھوں اور کروڑوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ میں نے ایک بار من کی بات میں کھلونوں کی بات کی تھی۔ ہم بیرون ملک سے کروڑوں روپے کے کھلونے درآمدکرتے تھے۔ میں نے من کی بات میں کہا تھا کہ کیا اب میرے ملک کے نوجوانوں کو کھلونے بھی بیرونی ممالک سے درآمد کرنا ہوگا، اور آج میں فخر سے کہتا ہوں کہ میرے ملک نے کھلونے اب برآمد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ یعنی ملک کی صلاحیت کو ہر قسم کا موقع ملنا چاہیے، اسے ہر طرح کی رکاوٹوں سے آزاد ہونا چاہیے، اس میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک ہونی چاہیے، ملک یہ کر سکتا ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ نت نئے خیالات کے ساتھ آئیں، اپنےخیالات کو مرنے نہ دیں۔
ساتھیو،
آپ کا آج کا نظریہ آنے والی نسل کا مستقبل بنا سکتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں، میں آپ کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہوں، میں آپ کے ساتھی کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ آئیے، ہمت جٹائیے، پیش قدمی کیجئے۔ مینوفیکچرنگ کے بارے میں سوچنے والے نوجوان آگے آئیں۔ حکومت کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو مجھے بتائیے ، اب ملک رکنا نہیں چاہتا۔ 2047 دور نہیں ہے، ہر لمحہ قیمتی ہے اور ہم ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔
ساتھیو،
یہ آگے بڑھنے کا موقع ہے، بڑے خواب دیکھنے کا موقع ہے، اپنے آپ کو ایک عہد کے لیے وقف کرنے کا موقع ہے۔ جب حکومت آپ کے ساتھ ہے اور میں خود آپ کے ساتھ ہوں تو اب ہم ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
آج نیشنل مینیوفیکچرنگ مشن پر بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ہمارے ایم ایس ایم ای، پوری دنیا اسکی اہمیت کا اعتراف کرتی ہے،جو دنیا میں بڑی بڑی چیزیں بنتی ہیں ، کچھ نہ کچھ تو اوزار ہمارے ملک کی ایم ایس ایم ای کے ذریعے بنائے جاتے ہیں۔بڑے فخر کے ساتھ جاتے ہیں، لیکن ہم ہمہ گیر اور مربوط ترقی کے راستے پر جانا چاہتے ہیں، اور اس لئے انکی قوت میں اضافہ ہو اور اس میں بھی میں نے پہلے ایک بار لال قلعہ سے کہا تھا ، زیرو ڈیفیکٹ زیرو ایفکٹ۔ میں آج کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں عالمی بازار میں اپنی طاقت کا لوہا منوانا ہے تو ہمیں کوالٹی میں مسلسل نئی بلندیوں کو سر کرنا ہوگا، دنیا کوالٹی کا ہی اعتراف کرتی ہے۔ ہماری کوالٹی سب سے بہتر ہو اور حکومت بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ خام مال دستیاب ہواور ایسی راہیں نکالی جائیں کہ ہماری پیداوار کی لاگت کم ہو۔
اور ساتھیو،
ہم سب جس مینوفیکچرنگ شعبے سے وابستہ ہیں انکا نصب العین ہونا چاہئے، دام کم لیکن دم زیادہ۔ ہمارے ہر سامان میں دم زیادہ ہو لیکن دام کم ہو، اسی احساس کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آزادی کے لیے لاتعداد لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، انہوں نے اپنی جوانی قربان کی، پھانسی پر لٹک گئے، کیوں، آزاد ہندوستان کے لیے ۔یاد رہے کہ 75 سے 100 سال پہلے کا دور، پورا ملک آزاد ہندوستان کے منتر کے ساتھ جیتا تھا۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ آزاد ہندوستان کے منتر کے ساتھ جینے والوں نے ہمیں آزاد ہندوستان دیا۔ آج 140 کروڑ ہم وطنوں کا واحد منتر خوشحال ہندوستان ہونا چاہیے۔ اگر کروڑوں لوگوں کی قربانی سے آزاد ہندوستان بن سکتا ہے تو کروڑوں لوگوں کے عزم سے، محنت سے، خود انحصاری سے، سودیشی کے لیے آواز اٹھا کر، سودیشی کے منتر سے خوشحال بھارت بھی بن سکتا ہے۔ وہ نسل آزاد ہندوستان کے لیے کھپ گئی تھی ، یہ نسل خوشحال بھارت کے لئے نئے قدم اٹھائے ، یہی وقت کی مانگ ہے اور اسی لیے میں آج بار بار درخواست کرتا ہوں اور ملک کی عوام پر اثر انداز ہونے والی شخصیات کو بتانا چاہتا ہوں۔ براہ کرم اس منتر کو آگے بڑھانے میں میری مدد کریں۔ میں تمام سیاسی پارٹیوں، سیاستدانوں، ہر آنے والے سے کہتا ہوں، یہ کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں ہے، ہندوستان ہم سب کا ہے، آئیے مل کر ووکل فار لوکل بنائیں، جو ہر شہری کی زندگی کا منتر ہے۔
ہم صرف وہی چیزیں خریدیں گے جو ہندوستان میں بنی ہوں، ہندوستان کے شہریوں کے پسینے سے بنی ہوں، جن میں ہندوستانی مٹی کی خوشبو ہو اور جو ہندوستان کی خود انحصاری کے عزم کو تقویت بخشیں، ہم صرف ان چیزوں کا استعمال کریں گے، ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے، یہ ہمارا اجتماعی عزم ہے، ہم دنیا کو بدل دیں گے دوستو۔ آج میں ہر چھوٹے بڑے تاجر اور دکاندار سے گزارش کرنا چاہتا ہوں، آپ کی بھی ذمہ داری ہے، ہم چھوٹے تھے، کیا ہم نے کبھی بازار میں نہیں دیکھا، کہ اصلی گھی کی دُکان، اس طرح لکھا جاتا تھا کہ گھی کی دُکان، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اصلی گھی کی دُکان لکھنا شروع کر دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک میں ایسے تاجر آگے آئیں، ایسے دکاندار آئیں، کہ یہاں سودیشی چیزیں بکتی ہیں، وہ بورڈ لگائیں۔ ہمیں سودیشی پر فخر محسوس کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ ہم سودیشی کا استعمال مجبوری میں نہیں بلکہ مضبوطی سے کریں گےاور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو دوسروں کو مجبور کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، یہ ہماری طاقت ہونی چاہئے۔
یہ ہمارا منتر ہونا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
مجھے کافی طویل عرصے تک حکومت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے بہت سے اتار- چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ حکومتوں کے مسائل سے بھی میں واقف ہوں، انتظامیہ کی حدود سے بھی واقف ہوں، لیکن اس کے باوجود ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کسی کی لکیر کو چھوٹی کرنے میں اپنی طاقت ضائع نہ کریں۔ میں بڑے تجربے سے کہتا ہوں، کسی دوسرے کی لکیر چھوٹی کرنے کے لئے اپنی توانائی ہمیں صرف نہیں کرنی ہے، ہمیں پوری طاقت کے ساتھ ہماری لکیر لمبی کرنی ہے۔ ہم اگر اپنی لکیر لمبی کرتے ہیں، تو دنیا بھی ہمارا لوہا مانے گی۔ آج جب عالمی حالات میں معاشی خود غرضی روز -بروز بڑھتی جا رہی ہے، تب وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں ان بحرانوں پر روتے رہنے اور بیٹھے رہنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمت کے ساتھ ہم اپنی لکیر کولمبی کریں۔ اور میں 25 سال کی حکمرانی کے تجربے سے کہہ سکتا ہوں ، اگر اس راستے کا ہم نے انتخاب کر لیا،ہر کسی نے اسے منتخب کرلیا،تو پھر کوئی مفاد ہمیں اپنے شکنجے میں نہیں پھنسا سکتا۔
میرے پیارے ہم وطنو،
گزشتہ دہائی اصلاحات، کارکردگی اور تبدیلی کی رہی ہے۔ لیکن اب ہمیں نئی طاقت کے ساتھ مصروف عمل ہونا ہے۔گزشتہ دنوں، ہم نے متعدد اصلاحات کی ہیں، ایف ڈی آئی ہو، انشورنس کمپنی کی بات ہو، دنیا کی یونیورسٹیوں کو بھارت کے اندر جگہ دینے کی بات ہو، کئی اصلاحات کی ہیں۔ 40,000 سے زیادہ غیر ضروری کمپلائنسز(تعمیل) کو ہم نے ختم کیا ہے۔ یہی نہیں،1500 سے زیادہ پرانے قوانین جو ایک زمانہ سے چلے آرہے تھے، ان سب کو ہم نے ختم کر دیا ہے ۔ ہم نے درجنوں قوانین کو آسان بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں جا کر عوام کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے تبدیلیاں کی ہیں۔ اس بار بھی شور و غل کے درمیان لوگوں تک بات نہیں پہنچی ہوگی لیکن ایک بہت بڑی اصلاح انکم ٹیکس ایکٹ میں ہوئی ہے۔ تقریباً 280 سے زائد دفعات کو ہم نے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور دوستو، صرف اقتصادی محاذ پر ہی اصلاحات نہیں کیں، ہم نے شہریوں کی زندگی کو بھی آسان بنانے کے لیے اصلاحات کی ہیں۔ انکم ٹیکس ریفنڈ کی بات ہو، یہ اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ کیش لیس اسیسمنٹ کی بات ہو، اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ 12 لاکھ تک آج انکم ٹیکس سے استثنیٰ دے دینا، ملک کا جومستقبل سنوارنے کے لیے پرجوش ہے، ایسے میرے متوسط طبقے کا خاندان آج بہت خوش ہے، کبھی کسی نے سوچا نہیں تھا کہ 12 لاکھ روپے تک کا انکم ٹیکس صفر کر دیا جائے گا، آج کر دیا گیاہے۔
جب ملک کی طاقت بڑھتی ہے تو اہل وطن کو اس کافائدہ ہوتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے سے تعزیرات کی دفعات میں ہم دبے پڑے تھے، سزا کا خوف دکھا کر زندگی چل رہی تھی، 75 برس آزادی کے ایسے ہی گئے، ہم نے تعزیرات کی دفعات کو ختم کر دیا، نیائے سنہتا کو لے کر آئے ۔ نیائے سنہتا میں بھارت کے شہری کے تئیں اعتماد کا احساس ہے۔ بھارت کے شہری میں اپنائیت کا جذبہ ہے، حساسیت سے لبریز ہے۔ ہم نے اصلاحات کے سفر کو تیز کرنے کے لیےبیڑا اٹھایا ہے، ہم بہت تیزی سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہم وطنو یہ ملک کے لیے کر رہا ہوں، میں یہ اپنے لیے نہیں کر رہا ہوں، کسی کا براکرنے کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ میری سیاسی جماعتوں، میرے حریف دوست بھی، ملک کے اس روشن مستقبل کے لیے آگے آئیں، ہمارا ساتھ دیں۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی بات ہو، ریگولیٹری اصلاحات کی بات ہو، پالیسی اصلاحات کی چرچہ ہو، پراسیس ریفارمز کی بحث ہو، آئینی اصلاحات کی ضرورت ہو، ہر قسم کی اصلاحات، یہ آج ہم اسے اپنا ہدف مقرر کرکے چلے ہیں۔
اور میرے پیارے ہم وطنو،
نیکسٹ جنریشن ریفارمز (اگلی نسل کی اصلاحات) کے لیے ہم نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ٹاسک فورس مقررہ مدت میں اس کام کو مکمل کرے۔ موجودہ ضوابط، قوانین، پالیسیاں، طور-طریقے 21ویں صدی کے مطابق ، عالمی ماحول کے مطابق اوربھارت کو 2047 میں ترقی یافتہ ملک بنانے کے تناظر میں ازسر نو تیار ہوں اور اس کے واسطے مقررہ وقت میں اپنا کام مکمل کرنے کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔
ساتھیو،
ان اصلاحات کی وجہ سے جو نئے لوگ اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں، ان کوتو ہمت ملے گی۔ ہمارے اسٹارٹ اپس ہوں، ہماری چھوٹی صنعتیں ہوں، ہماری گھریلو صنعتیں ہوں، ان کاروباریوں کے لئے، ان کی کمپلائنس لاگت بہت کم ہوجائے گی اور اس کی وجہ سے انہیں ایک نئی طاقت ملے گی۔ جو ایکسپورٹ کی دنیا میں ہیں،ان کو لاجسٹک سپورٹ کی وجہ سے ،سسٹمز میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کو بڑی طاقت ملے گی۔
ساتھیو ،
ایسے -ایسے قوانین ہیں ہمارے ملک میں، چھوٹی- چھوٹی باتوں کے لئے جیل میں ڈالنے کے قانون ہیں، آپ حیران ہو جائیں گے، کسی نے نظر نہیں دوڑائی۔ میں پیچھے لگا ہوں، یہ میرے ملک کے شہریوں کو جیل میں بند کرنے والے جو غیر ضروری قوانین ہیں، وہ ختم ہونے چاہیئں۔ہم پارلیمنٹ میں پہلے بھی بل لائے تھے، اس بار بھی لے کر آئے ہیں۔
اس دیوالی پر میں آپ کے لیے دوہری خوشی کا انتظام کرنے والا ہوں۔ اس دیوالی پر میں آپ کو اور ملک کے عوام کو ایک بہت بڑا تحفہ دینے والا ہوں۔ پچھلے 8 برسوں میں ہم نے جی ایس ٹی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں، پورے ملک میں ٹیکس کے بوجھ کو کم کیا، ٹیکس کے نظام کو آسان بنایا اور اب 8 سال بعد وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اس کا دوبارہ جائزہ لیں۔ اسی لیے ہم نے ایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنا کر جائزہ لینا شروع کیا اور ریاستوں سے بھی مشورہ کیا۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہم "اگلی نسل کی جی ایس ٹی اصلاحات" لے کر آ رہے ہیں، جو اس دیوالی پر آپ کے لیے تحفہ ثابت ہوں گی۔ عام انسان کی ضروریات پر لگنے والے بھاری ٹیکس میں بڑی کمی کی جائے گی، جس سے بہت بڑی سہولت پیدا ہو گی۔ ہمارے ایم ایس ایم ای اور چھوٹے صنعت کاروں کو بڑا فائدہ ملے گا۔ روزمرہ کی چیزیں سستی ہو جائیں گی اور اس سے معیشت کو بھی ایک نئی طاقت ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج بھارت تیزی سے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ ہم اس دہلیز پر پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی اسے حاصل کر لیں گے۔ کوئی تو دن ایسا ضرور آئے گا جب میں لال قلعے سے آپ کو یہ خوشخبری سناؤں گا۔ آج دنیا بھر میں بھارت کی معیشت اور اقتصادی حالت پر اعتماد ہے۔ عالمی عدم استحکام کے بیچ بھارت ایک امید کی کرن بن کر اُبھرا ہے، ہمارے مالیاتی نظم و ضبط اور معیشت کی توانائی نے دنیا کو یقین دلایا ہے کہ بحران میں پھنسی معیشت کو بھارت سنبھال سکتا ہے۔ آج مہنگائی قابو میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط ہیں، ہمارے معاشی اشاریے مضبوط ہیں اور عالمی ریٹنگ ایجنسیاں مسلسل بھارت کی تعریف کر رہی ہیں اور اعتماد جتا رہی ہیں۔ یہ بڑھتی ہوئی معیشت کا فائدہ ہمارے غریبوں، کسانوں، خواتین، متوسط طبقے اور ملک کی ترقی کے لیے ہو، اس سمت میں ہم نئی کوشش کر رہے ہیں۔
آج ہمارے نوجوانوں کے لیے نئے نئے شعبوں میں مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ہنر مندی، خود کے روزگار، بڑی کمپنیوں میں انٹرن شپ—ان سب پر بڑے پیمانے پر مہم چل رہی ہے۔ اسی لیے آج میں نوجوانوں کے لیے خوشخبری لایا ہوں۔ آج 15 اگست کے دن ہم "پردھان منتری وکست بھارت روزگار یوجنا" شروع کر رہے ہیں، جس کی لاگت ایک لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس اسکیم کے تحت نجی شعبے میں پہلی نوکری پانے والے بیٹے یا بیٹی کو حکومت کی طرف سے 15 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ جو کمپنیاں زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کریں گی، انہیں بھی ترغیبی رقم دی جائے گی۔ یہ اسکیم تقریباً ساڑھے تین کروڑ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گی۔ میں سب نوجوانوں کو اس کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج بھارت میں ناری شکتی کی قابلیت کو سب ماننے لگے ہیں۔ بڑھتی معیشت سے سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والی ہماری خواتین ہیں، لیکن اس معیشت کو آگے بڑھانے میں بھی ان کا بڑا کردار ہے۔ اسٹارٹ اپس سے لے کر خلائی شعبے تک ہماری بیٹیاں آگے ہیں، کھیل کے میدانوں میں چھا رہی ہیں، فوج میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور کاندھے سے کاندھا ملا کر ملک کی ترقی میں حصہ لے رہی ہیں۔ ملک کو فخر ہوا جب این ڈی اے کی پہلی خواتین کیڈٹس پاس آؤٹ ہوئیں۔ دس کروڑ سیلف ہیلپ گروپس کی خواتین کمال دکھا رہی ہیں۔ "نمو ڈرون دیدی" جیسی پہل نے خواتین کو نئی پہچان دی ہے۔ دیہات میں ایک بہن نے مجھے بتایا کہ اب لوگ مجھے پائلٹ کہہ کر پکارتے ہیں—وہ بڑے فخر سے یہ بات کر رہی تھیں، حالانکہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں، مگر اس کی عزت بڑھ گئی تھی۔
ہم نے 3 کروڑ خواتین کو "لکھ پتی دیدی" بنانے کا عزم کیا تھا، اور خوشی ہے کہ ہم تیزی سے اس ہدف کو حاصل کر رہے ہیں۔ وقت سے پہلے ہی یہ مقصد پورا ہو جائے گا۔ آج میں خوشی سے بتا سکتا ہوں کہ 2 کروڑ خواتین "لکھ پتی دیدی" بن چکی ہیں۔ یہ بھارت کی ناری شکتی کی صلاحیت ہے اور میرا یقین ہے کہ ان کی شمولیت بھارت کی ترقی کو اور تیز کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آپ کو خوشی ہوگی کہ میرے ملک کے کسانوں کی پیداوار آج عالمی منڈیوں میں پہنچ رہی ہے۔ 4 لاکھ کروڑ روپے کی زرعی مصنوعات برآمد کی گئی ہیں۔ میرے ملک کے کسانوں نے ہمیں اپنی طاقت دکھائی ہے۔ چاہے ہم چھوٹے کسان ہوں، مویشی پالنے والے ہوں، ماہی گیر ہوں، ہم انہیں ملک کی ترقیاتی اسکیموں کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ چاہے وہ پی ایم کسان سمان ندھی ہو، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، آبپاشی کی اسکیمیں، معیاری بیج، کھاد کی ضرورت، ہر شعبے میں آج کسانوں کا فصل بیمہ پر بھروسہ ہے۔ وہ بے باک ہو رہے ہیں، ملک کو اس کے نتائج بھی مل رہے ہیں۔ پہلے یہ تصور کی بات تھی، آج حقیقت بن چکی ہے۔
اپنے ملک کے مویشیوں کو بچانے کے لیے، ہمیں یاد ہے کہ ہمیں ایک کووِڈ ویکسین مفت ملی تھی، لیکن ہم نے اب تک جانوروں کو بھی125 خوراکیں بھی مفت دی ہیں۔ پاؤں اور منہ کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے، جسے شمالی ہندوستان میں’خرپا-منھ پکا( پاؤں اور منہ) کی بیماری کہا جاتا ہے، ہم نے 125 کروڑ خوراکیں دی ہیں اور وہ بھی مفت۔ زراعت کے معاملے میں ملک کے وہ اضلاع جہاں کسان کسی نہ کسی وجہ سے دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں، ایسے 100 اضلاع ہیں جہاں نسبتاً کم کاشتکاری ہوتی ہے اور اسی لیے ہم نے پورے ملک سے 100 اضلاع کی نشاندہی کی ہے اور وہاں کے کسانوں کو بااختیار بنانے، کسانوں کو بجلی دینے، کسانوں کی مدد کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی ہے اور اس کے لیے ہم نے پی ایم دھن دھانیہ کرشنا- یوجنا کی شروعات کی ہے۔ پی ایم دھن-دھانیہ کرشی یوجنا ملک کے ان 100 اضلاع کے لئے ہے جہاں اگر تھوڑی سی مدد کی جائے تو وہاں کا کسان بھی ہندوستان کے دوسرے کسانوں کے برابر ہو جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،
بھارت کے کسان، مویشی پالنے والے اور ماہی گیر ہماری سب سے بڑی ترجیح ہیں۔ ان کے مفاد کے خلاف کسی بھی پالیسی کے سامنے میں دیوار بن کر کھڑا ہوں۔ بھارت اپنے کسانوں، مویشی پالنے والوں اور ماہی گیروں کے معاملے میں کسی سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گا۔
پیارے ہم وطنو،
غربت کیا ہوتی ہے، یہ میں نے کتابوں سے نہیں پڑھا، میں نے جیا ہے۔ اسی لیے میری کوشش رہی ہے کہ حکومت صرف فائلوں میں نہ ہو، بلکہ عوام کی زندگی میں ہونی چاہئے۔
دلت ہو، مظلوم ہو، استحصال کا شکار ہو، محروم ہو، ان کے لیے حکومتوں کو مثبت طور پر فعال ہونا چاہیے، حکومتیں عوام دوست ہونی چاہئیں، اس سمت ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ معاشرے کے ہر ضرورت مند شخص کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ حکومت کی اسکیمیں پہلے بھی آتی تھیں، جی نہیں، ہم حکومت کی اسکیموں کو زمین پر اتار رہے ہیں، سبھی لوگوں کو شامل کرنے پر زور دیتے ہیں اور اگر سماجی انصاف کا کوئی حقیقی نفاذ ہے تو وہ سبھی لوگوں کو شامل کرنے میں ہے، جس میں کوئی حقدار چھوٹ نہ جائے، حکومت حقدار کے گھر تک جائے اور اسے اس کا حق ملے، اسی کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔
جب جن دھن اکاؤنٹ کھولے گئے تو یہ صرف بینک کا اکاؤنٹ نہیں تھا، اس سے ایک خود اعتمادی ملی تھی کہ بینک کے دروازے میرے لیے بھی کھلتے ہیں، میں بھی بینک میں جا کر میز پر ہاتھ رکھ کر بات کر سکتا ہوں، یہ یقین ہم نے پیدا کیا ہے۔ آیوشمان بھارت نے بیماری کو سہنے کی عادت سے نجات دلائی اور اچھے علاج کے لیے مدد فراہم کی۔ آج ہم سینئر شہریوں کو پانچ لاکھ روپے سے زیادہ کی مدد کر کے ان کی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ آج پی ایم آواس کے ذریعے چار کروڑ غریبوں کو گھر ملے ہیں، مطلب زندگی کے نئے خواب بسے ہیں، یہ صرف چار دیواریں نہیں ہیں دوستو۔ ریڑھی پٹری والوں کے لیے پی ایم سواندھی یوجنا، جو کبھی سود کے جال میں پھنسا رہتا تھا، آج اس سے وہ بھی ترقی کر رہا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب وہ یو پی آئی سے پیسے لیتا اور دیتا ہے۔ یہ تبدیلی آخری شخص تک کی فکر کرنے کی علامت ہے۔ لوگوں کی زندگی میں حکومت موجود ہونی چاہیے، اسی وجہ سے یہ زمینی سطح کی اسکیمیں بنتی ہیں، زمین پر اترتی ہیں اور پھر زندگی میں تبدیلی لانے کا مضبوط ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ غریب، مظلوم، آدیواسی، محروم، معذور، ہماری بیوہ مائیں بہنیں اپنے حق کے لیے دربدر بھٹکتی تھیں، سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے زندگی گزر جاتی تھی۔ آج حکومت آپ کے دروازے پر آتی ہے، سبھی لوگوں کو شامل کرنے کا طریقہ کار لے کر آتی ہے، کروڑوں مستحقین کو سرکاری اسکیموں کا فائدہ مل رہا ہے۔ فوائد کی براہ راست منتقلی کا ایک بہت بڑا انقلابی کام ہوا ہے۔
ساتھیو،
‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے اس ملک نے بہت سنے ہیں، لال قلعے سے بھی سنے ہیں اور ملک سن سن کر تھک گیا تھا اور مان لیا تھا کہ غریبی ختم نہیں ہو سکتی، لیکن جب ہم اسکیموں کو غریب کے گھر تک لے جاتے ہیں، اس کے دل میں یقین پیدا کرتے ہیں تو میرے ملک کے 25 کروڑ غریب عوام غریبی کو شکست دے کر، اس سے نکل کر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ آج 10 کروڑ غریب اور 10 سال میں 25 کروڑ سے زیادہ غریب لوگ غربت سے باہر نکل کر ایک نیا مڈل کلاس بنے ہیں۔
میرے ساتھیو،
یہ نیا مڈل کلاس اور مڈل کلاس ایسی جگل بندی ہے جس میں امنگ بھی ہے، محنت بھی ہے، جو ملک کو آگے بڑھانے کی بڑی طاقت بننے والی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
مستقبل قریب میں عظیم سماجی مصلح مہاتما جوتیبا پھولے جی کی 200ویں جینتی آنے والی ہے۔ ہم اس کا جشن منانے جا رہے ہیں اور مہاتما جوتیبا پھولے کے اصول، ان کے دیے گئے منتر — پسماندہ کو ترجیح — ہمارے لیے تحریک ہیں۔ پسماندہ کو ترجیح دیتے ہوئے ہم ترقی کی بلندیوں کو پانا چاہتے ہیں۔ ہم اس کے لیے انتھک محنت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم شفاف پالیسیوں کے ذریعے پسماندہ لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں، یہ ہم زمین پر اتارنا چاہتے ہیں، ہر پسماندہ کی زندگی میں لانا چاہتے ہیں۔
ساتھیو،
ریڑھی پٹری والوں کے لیے سواندھی یوجنا ہو یا ہمارے ہنرمند ہاتھ سے کام کرنے والوں کے لیے وِشوکَرما یوجنا کی بات ہو، آدیواسیوں میں جو پسماندہ رہ گئے ہیں ان کے لیے پی ایم جن من یوجنا کی بات ہو، ہمارے مشرقی بھارت کو ترقی میں پورے ملک کے برابر لانے اور قیادت دینے کی سمت میں کام ہو، ہم صرف سماجی طورپر پسماندہ لوگوں کی فکر تک محدود نہیں ہیں، جو علاقے پسماندہ ہیں ان کو بھی ترجیح دینا چاہتے ہیں، جو اضلاع پسماندہ ہیں ان کو بھی ترجیح دینا چاہتے ہیں، جو بلاک پسماندہ ہیں ان کو بھی ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے 100 امنگوں والے اضلاع، 500 امنگوں والے بلاکس پر اسی مشن کے تحت کام کیا ہے۔ ہم نے مشرقی بھارت کی ترقی کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹس پر زور دیا ہے، ہم نے مشرقی بھارت کی زندگی بدل کر ملک کی ترقی کے سفر میں اسے شریک کیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
زندگی کے ہر شعبے میں ترقی ہونی چاہیے۔ ترقی کے لیے کھیل کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔
اور مجھے خوشی ہے کہ ایک وقت تھا جب والدین کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کے بچے کھیلوں میں وقت گزاریں ۔ آج، یہ مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ بچے کھیلوں میں آگے آئیں، ان میں دلچسپی لیں تو والدین کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ میں اسے ایک اچھی علامت سمجھتا ہوں۔ جب میں اپنے ملک کے خاندانوں میں کھیلوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ماحول دیکھتا ہوں تو میرا دل فخر سے بھر جاتا ہے۔ میں اسے ملک کے مستقبل کے لیے بہت اچھی علامت سمجھتا ہوں۔
اور ساتھیو،
اس کھیل کو فروغ دینے کے لیے ہم قومی کھیل پالیسی لائے ہیں، کئی دہائیوں کے بعد ہم ملک میں کھیلو انڈیا پالیسی لائے ہیں، تاکہ یہ کھیلوں کی دنیا کی ہمہ گیر ترقی کے لیے ایک کوشش ہو۔ اسکول سے لے کر اولمپکس تک، ہم ایک مکمل ماحولیاتی نظام تیار کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ کوچنگ کے انتظامات ہوں، فٹنس، کھیل کے میدان، کھیلوں کے انتظامات، کھیلوں کے لیے ضروری سامان، چھوٹی صنعتوں کو کھیلوں کے لیے سامان بنانے میں مدد کرنا۔ یعنی ایک طرح سے ہم پورے ماحولیاتی نظام کو دور دراز علاقوں کے بچوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔
لیکن ساتھیو،
جب میں فٹنس کی بات کرتا ہوں، جب میں کھیلوں کی بات کرتا ہوں، تو میں آپ کے سامنے ایک تشویش بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک کے ہر خاندان کو فکر مند ہونا چاہیے، موٹاپا ہمارے ملک کے لیے ایک بڑا بحران بنتا جا رہا ہے۔ عالم، باشعور لوگوں کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں ہر تین میں سے ایک شخص موٹاپے کا شکار ہو جائے گا۔ ہمیں لوگوں کو موٹاپے سے بچانا ہے۔ اور اس لیے میں نے، باقی سب کرنا پڑے گا، لیکن میں نے ایک چھوٹی سی تجویز دی کہ گھر والوں کو یہ طے کرنا چاہیے کہ جب گھر میں کھانا پکانے کا تیل آئے گا تو 10فیصد کم تیل آئے گا اور 10فیصد کم تیل استعمال ہو اور ہم موٹاپے کے خلاف جنگ جیتنے میں اپنا رول ادا کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہمارا ملک خوش قسمت ہے، ہم ہزاروں سال کے ورثے سے مالا مال ہیں اور یہ ہمیں مسلسل توانائی، تحریک ، قربانی اور تپسیہ کی راہ فراہم کرتا ہے۔ آج گرو تیغ بہادر جی کا 350 واں یوم شہادت ہے۔ انہوں نے ملک کی ثقافت اور ہندوستان کی اقدار کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ میں آج انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
ہماری ثقافت کی طاقت ہمارا تنوع ہے۔ ہم تنوع کا جشن منانا چاہتے ہیں۔ ہم تنوع کو منانے کی عادت ڈالناچاہتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمارا مادر وطن ہندوستان ایک باغ ہے جس کو مختلف قسم کے پھولوں سے سجایا گیا ہے۔ اتنا تنوع ہے۔ یہ تنوع ہمارے لیے ایک عظیم ورثہ ہے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے۔ ہم نے پریاگ راج کے مہا کمبھ میں دیکھا ہے کہ ہندوستان کا تنوع کس طرح کا ہوتا ہے۔ ایک ہی جگہ پر ایک ہی احساس، ایک ہی جذبے، ایک ہی کوشش کے ساتھ کروڑوں لوگ، دنیا کے لیے یہ ایک بڑا عجوبہ ہے۔ مہا کمبھ کی کامیابی ہندوستان کے اتحاد اور ہندوستان کی طاقت کا مظہرہے۔
ساتھیو،
ہمارا ملک زبانوں کے تنوع سے بھرا ہوا ہے، یہ مسرت آمیزہے۔ اور اسی لیے ہم نے مراٹھی، آسامی، بنگالی، پالی، پراکرت کو کلاسیکی زبان کا درجہ دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہماری زبانیں جتنی زیادہ ترقی کریں گی، ہماری زبانیں اتنی ہی متمول ہوں گی، ہمارے علمی نظام کو اتنی ہی طاقت ملے گی اور یہی ہماری طاقت ہے اور جب یہ ڈیٹا کا زمانہ ہے، تو یہ طاقت دنیا کے لیے بھی ایک بڑی طاقت بن سکتی ہے، ہماری زبان میں اتنی صلاحیت ہے۔ ہمیں اپنی تمام زبانوں پر فخر ہونا چاہیے، سب کو اپنی تمام زبانوں کی ترقی کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔
ساتھیو،
ہمارے علم کا ذخیرہ مخطوطات میں ہے لیکن اس کے تئیں ایک سرد مہری کا ماحول رہا ہے۔ اس بار گیان بھارتم اسکیم کے تحت جہاں کہیں بھی ہاتھ سے لکھے ہوئے متن، مخطوطات، صدیوں پرانے دستاویزات ہیں، ہم انہیں پورے ملک میں تلاش کر رہے ہیں اور آج کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں تاکہ علم کی یہ دولت آنے والی نسلوں کے لیے کارآمد ہو سکے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہماری رائے واضح ہے، یہ ملک صرف حکومتوں سے نہیں بنتا، یہ ملک تخت پر بیٹھنے والوں نے نہیں بنایا، یہ ملک نظام حکومت کو سنبھالنے والوں نے نہیں بنایا، یہ ملک کروڑوں لوگوں، سادھو، سنتوں، سائنسدانوں، اساتذہ، کسانوں، سپاہیوں، فوج، مزدوروں، سب کی کوششوں سے بنتا ہے۔ ہر شخص اپنا رول ادا کرتاہے۔ افراد رول ادا کرتے ہیں، ادارے رول ادا کرتےہیں۔ آج میں بڑے فخر سے ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ 100 سال پہلے ایک تنظیم نے جنم لیا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، قوم کی 100 سال کی خدمت ایک بہت ہی قابل فخر سنہراباب ہے۔ انفرادی ترقی سے قوم کی تعمیر کے عزم کے ساتھ، 100 سال تک مادر ہند کی فلاح و بہبود کے مقصد کے ساتھ، سویم سیوکوں نے مادر وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں۔ خدمت، لگن، تنظیم اور بے مثال نظم و ضبط، یہی اس کی پہچان رہی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ ایک طرح سے اس کی لگن کی 100 سال کی تاریخ ہے۔ آج، لال قلعہ کی فصیل سے، میں ان تمام سویم سیوکوں کو احترام کے ساتھ یاد کرتا ہوں جنہوں نے قومی خدمت کے اس 100 سالہ سفر میں اپنا رول ادا کیاہے اور ملک کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اس 100 سالہ عظیم، وقف سفر پر فخر ہے اور یہ ہمیں حوصلہ دیتا رہے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہم خوشحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن خوشحالی کا راستہ سلامتی سے گزرتا ہے۔ گزشتہ 11 سال میں ہم نے قومی سلامتی، قومی دفاع اور ملک کے شہریوں کے تحفظ کے تمام محاذوں پر پوری لگن کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہم تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ملک جانتا ہے کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا قبائلی علاقہ پچھلی کئی دہائیوں سے نکسلیوں، ماؤ نوازوں کی گرفت میں خون آلود ہے۔ میرے قبائلی خاندانوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ قبائلی ماؤں اور بہنوں نے اپنے خوابوں کے ہونہار بچوں کو کھو دیا۔ جوان بیٹوں کو غلط راستے پر کھینچا گیا، گمراہ کیا گیا، ان کی زندگیاں تباہ کر دی گئیں۔ ہم نے فولادی ہاتھ سے کام لیا۔ ایک وقت تھا جب نکسل ازم 125 سے زیادہ اضلاع میں اپنی جڑیں پھیلا چکا تھا۔ ہمارے قبائلی علاقے، ہمارے قبائلی نوجوان ماؤ ازم کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے اور آج ہم نے اضلاع کی تعداد 125 سے گھٹا کر 20 کر دی ہے، ہم نے ان قبائلیوں کی سب سے بڑی خدمت کی ہے اور آپ دیکھیں، ایک وقت تھا جب بستر کو یاد کرتے ہی ماؤ ازم، نکسل ازم، بموں اور بندوقوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اسی بستر میں ماؤ ازم اور نکسل ازم سے آزاد ہونے کے بعد جب بستر کے نوجوان اولمپکس میں حصہ لیتے ہیں، ہزاروں نوجوان بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگاتے ہوئے کھیلوں کے میدان میں داخل ہوتے ہیں، پورا ماحول جوش سے بھر جاتا ہے، ملک اس تبدیلی کو دیکھ رہا ہے۔ وہ علاقے جو کبھی ریڈ کوریڈور کہلاتے تھے آج ترقی کے گرین کوریڈور بن رہے ہیں، دوستو، یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ ہندوستان کے نقشے کے وہ علاقے جو خون میں رنگے ہوئے تھے، سرخ رنگ میں رنگے تھے، ہم نے وہاں آئین، قانون اور ترقی کا ترنگا لہرایا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
یہ بھگوان برسا منڈا کے 150ویں یوم پیدائش کا موقع ہے، اب ان قبائلی علاقوں کو نکسل ازم سے آزاد کر کے، اپنے قبائلی خاندان کے نوجوانوں کی جان بچا کر، ہم نے بھگوان برسا منڈا کو سچی خراج عقیدت پیش کی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
آج میں ملک کو ایک تشویش، ایک چیلنج سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایک نئے بحران کا بیج بویا جا رہا ہے اور یہ درانداز میرے ملک کے نوجوانوں کی روزی روٹی چھین رہے ہیں۔ یہ درانداز میرے ملک کی بہنوں اور بیٹیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، یہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ درانداز معصوم قبائلیوں کو گمراہ کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ ملک یہ برداشت نہیں کرے گا اور اس لیے میرے پیارے ہم وطنو، جب ڈیموگرافی میں تبدیلی آتی ہے، سرحدی علاقوں میں ڈیموگرافی میں تبدیلی آتی ہے تو ملکی سلامتی کے لیے بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ملک کی یکجہتی، سالمیت اور ترقی کے لیے بحران پیدا ہوتا ہے۔ یہ سماجی تناؤ کے بیج بوتا ہے اور کوئی بھی ملک اپنے ملک کو دراندازوں کے حوالے نہیں کر سکتا۔ اگر دنیا کا کوئی ملک نہیں کر سکتا تو ہم ہندوستان کوکیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے آباؤ اجداد نے قربانی اور ایثار سے آزادی حاصل کی ہے۔ ان عظیم انسانوں کے تئیں ہمارا فرض ہے جنہوں نے ہمیں آزاد ہندوستان دیا ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں اس طرح کی حرکتوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے، یہی انہیں حقیقی خراج عقیدت ہوگا اور اسی لئے میں آج لال قلعہ کی فصیل سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ایک ہائی پاور ڈیموگرافی مشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مشن کے ذریعے، ہندوستان پر جو سنگین بحران منڈلا رہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے مقررہ وقت میں سوچے سمجھے طریقے سے اپنا کام ضرور کرے گا، ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
کل جنم اشٹمی کا مقدس تہوار ہے۔ ملک بھر میں بھگوان شری کرشن کا یوم پیدائش منایا جا تاہے۔
ساتھیو،
جب مجھے بھگوان شری کرشن یاد آتے ہیں، تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں آج جنگ کے طور-طریقے بدل رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت جنگ کے ہر نئے طور-طریقوں سے نمٹنے میں اہل ہے۔ ہم نے آپریشن سندور میں دکھا دیا ہے ، ٹیکنالوجی میں جو بھی مہارت تھی۔ پاکستان نے ہمارے فوجی اڈوں پر، ہمارے ایئربیس پر، ہمارے حساس مقامات پر، ہمارے عقائد کے مراکز پر، ہمارے شہریوں پر میزائلوں اور ڈرون سے لاتعداد حملے کئے۔ ملک نے دیکھا ہے، لیکن ملک کو محفوظ رکھنے کی جو کوششیں گزشتہ 10 برسوں میں کی گئی ہیں، اسی طاقت کا نتیجہ تھا کہ ان کے ہر حملے کو ہمارے جانبازوں نے اور ہماری ٹیکنالوجی نے تنکے کی طرح بکھیر دیا۔ذرہ برابر بھی نقصان نہیں کر سکے اور اس لیے جب میدان جنگ میں ٹیکنالوجی کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، ٹیکنالوجی کا غلبہ ہو رہاہے، تب ملک کے تحفظ کے لیے، ملک کے شہریوں کی حفاظت کے لیے، ہمیں بھی، ہم نے آج جو مہارت حاصل کی ہے ، اس کو مسلسل اپ گریڈ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم نے جو مہارت حاصل کی ہے، اسے مسلسل اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس لیے دوستو، میں نے ایک عزم کیا ہے۔ مجھے آپ کے آشیرواد کی ضرورت ہے، کروڑوں ہم وطنو کا آشیرواد چاہیے، کیوں کہ خوشحالی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو، اگر سکیورٹی کے تئیں بے توجہی برتتے ہیں، تو خوشحالی بھی کسی کام کی نہیں رہتی ہے اوراس لیے سکیورٹی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
اور اس لیے میں آج لال قلعہ کی فصیل سے کہہ رہا ہوں کہ آنے والے 10 برسوں میں، 2035 تک، ملک کے تمام اہم مقامات بشمول اسٹریٹیجک اور شہری علاقوں ،خواہ وہ اسپتال، ریلوے، کسی بھی عقیدے کے مرکزہوں، انہیں ٹیکنالوجی کے نئے پلیٹ فارم کے ذریعے مکمل سرکشا کوچ دیا جائے گا۔ یہ سرکشا کا کوچ مسلسل وسیع ہوتا جائے، ملک کا ہر شہری محفوظ محسوس کرے، کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی ہم پر حملہ کرنے کے لیے آ جائے، ہماری ٹیکنالوجی اس سے بہتر ثابت ہو اور اس لئے آنے والے 10 برس، 2035 تک، میں اس راشٹریہ سرکشا کوچ کی توسیع کرنا چاہتا ہوں، مضبوطی دینا چاہتا ہوں اور اس لئے بھگوان شری کرشن سے ترغیب حاصل کرکے ہم نے شری کرشن کا جو سدرشن چکر تھا، اس سدرشن چکر کی راہ کا انتخاب کیا ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا، جب مہابھارت کی لڑائی چل رہی تھی، شری کرشن نے اپنے سدرشن چکر سے سورج کی روشنی کو روک دیا تھااور دن میں ہی اندھیرا کر دیا تھا اور تب ارجن نے جو قسم کھائی تھی، جے درتھ کو ختم کرنے کی ، اس قسم کو ارجن پورا کرسکے تھے۔وہ سدرشن چکر کی طاقت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اب ملک سدرشن چکر مشن شروع کرے گا۔ یہ مشن سدرشن چکر ایک طاقتور ہتھیاروں کا نظام دشمن کے حملے کو بے اثر توکرے گا ہی، لیکن کئی گنا زیادہ دشمن پر ہٹ بیک کرے گا۔
ہم نے بھارت کے اس مشن سدرشن چکر کے لیے کچھ بنیادی چیزیں بھی طے کی ہیں، آنے والے 10 برسوں میں ہم اسے بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایک تو یہ پورا جدید نظام، اس کے لئے تحقیق، ترقی، اس کی مینوفیکچرنگ ہمارے ملک میں ہی ہو، ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ٹیلنٹ سے ہو، ہمارے ملک کے لوگوں کے ذریعہ تیار کیا گیا ہو۔ دوسرا یہ ایک ایسا نظام ہو گا جو جنگ کے حوالے سے مستقبل کے کیا -کیاامکانات ہیں ،اس کا حساب-کتاب لگاکر کے پلس ون کی حکمت عملی طے کرے گا۔ اور تیسرا، سدرشن چکر کی ایک طاقت تھی، یہ بہت درست ، جہاں جانا تھا، وہیں جاتا تھا اور واپس شری کرشن کے پاس آتا تھا۔ ہم اس سدرشن چکر کے ذریعے بھی ہدف کے مطابق درست کارروائی کے لیے ایک نظام تیار کرنے کی سمت میں آگے بڑھیں گے اور اس لیے جنگ کے بدلتے ہوئے طور-طریقوں میں ملک اور شہریوں کی سلامتی کے لیے، میں بڑے عزم کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانے کا وعدہ کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
جب ہم جمہوریت کی بات کرتےہیں، آزاد ہندوستان کی بات کرتے ہیں، تب ہمارا آئین ہمارے لیے بہترین روشنی کا مینارہ ہوتا ہے، ہماری تحریک کا مرکز ہوتاہے، لیکن آج سے 50 سال پہلے بھارت کے آئین کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے آئین کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا تھا، ملک کو جیل خانہ بنا دیا گیا تھا، ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی، ایمرجنسی تھوپ دی گئی تھی۔ ایمرجنسی کو 50 سال ہو رہے ہیں، ملک کی کسی بھی نسل کو آئین کے قتل کے اس گناہ کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ آئین کا قتل کرنے والے گنہگاروں کو نہیں بھولنا چاہیے اور ہمیں آئین ہند کے تئیں اپنی لگن کو مزید مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے، وہ ہمارےلئے باعث ترغیب ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
میں نے اسی لال قلعے سے پنچ پرن کی بات کی تھی۔ میں آج لال قلعہ سے پھر سے ایک بار اپنے ہم وطنو کویاد دلانا چاہتا ہوں۔ وکست بھارت کی تعمیر کے لیےنہ ہم رکیں گے اور نہ ہی جھکیں گے، ہم سخت محنت کرتے رہیں گے اور اپنی آنکھوں کے سامنے2047 میں وکست بھارت بنا کر رہیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہمارا دوسرا عہد ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں، اپنے نظاموں میں، اپنے اصولوں، قوانین اور روایات میں غلامی کا ایک بھی ذرہ اب باقی نہیں رہنے دیں گے۔ ہم ہر قسم کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے ہی رہیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہم اپنے ورثے پر فخر کریں گے۔ہماری اس پہچان کا سب سے بڑا زیور، سب سے بڑا جوہر، سب سے بڑا مکٹ منی، ہماری وراثت ہے، ہم اپنے ورثے پر فخرکریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ان سب کے لئے اتحاد، یہ منتر سب سے طاقتور ہے اور اس لیے اتحاد کے دھاگے کو کوئی کاٹ نہ سکے، یہ ہمارا اجتماعی عزم ہوگا ۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ماں بھارتی کے تئیں اپنے فرض کو پورا کرنا عبادت سے کم نہیں، تپسیا سے کم نہیں، آرادھناسے کم نہیں اور اسی احساس کے ساتھ ہم سب مادر وطن کی فلاح و بہبود کے لیے، اپنی پوری محنت کرتے ہوئے، 2047 تک وکست بھارت کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں گے،خود کوحوالے کر دیں گے،جو بھی صلاحیتیں ہیں، کوئی بھی موقع چھوڑیں گے نہیں ، اتنا ہی نہیں ، نئے مواقع پیدا کریں گے،ایسا کرنے کے بعد ہم 140 کروڑ ہم وطنو کی طاقت سے آگے بڑھتے ہی رہیں گے، بڑھتے ہی رہیں ، بڑھتے ہی رہیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ہمیں یاد رکھنا ہے، 140 کروڑ ہم وطنوں کو یاد رکھنا ہے، محنت میں جو تپا ہے، جس نے سخت محنت کی ہے، اسی نے تاریخ رقم کی ہے۔ جس نے فولادی چٹانوں کو توڑا ہے، اس نے ہی وقت کو موڑا ہے۔ اور وقت کو موڑ دینے کا وقت بھی یہی ہے، صحیح وقت یہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
ایک بار آپ سب کو آزادی کے اس عظیم تہوار کی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔میرے ساتھ بولیں گے،
جئے ہند! جئے ہند! جئے!
بھارت ماتا کی جئے! بھارت ماتا کی جئے! بھارت ماتا کی جئے!
وندے ماترم! وندے ماترم! وندے ماترم!
بہت بہت شکریہ!
************
ش ح ۔ اردو یونٹ
(U :4755 )
(Release ID: 2156820)
Read this release in:
Malayalam
,
Nepali
,
Marathi
,
Hindi
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Telugu
,
Kannada
,
Bengali
,
Manipuri
,
Odia
,
English
,
Tamil